Please wait..

پند باز با بچہ خویش
باز کی نصیحت اپنے بچے کو

 
تو دانی کہ بازان ز یک جوہرند
دل شیر دارند و مشت پرند

مطلب: تو جانتا ہے کہ سارے باز ایک ہی جوہر سے ہیں ایک ہی جوہر ذاتی رکھتے ہیں ۔ مٹھی بھر ہیں مگر شیر کا دل رکھتے ہیں ۔

 
نکو شیوہ و پختہ تدبیر باش
جسور و غیور و کلان گیر باش

مطلب: نیک اطوار اور پختہ تدبیر کرنے والا بن ۔ دلاور اور غیرت والا اور بڑے شکار پر جھپٹنے والا بن ۔

 
میامیز با کبک و تورنگ و سار
مگر این کہ داری ہوای شکار

مطلب: تیتر اور چکور اور مینا کے ساتھ میل جول نہ رکھ سوائے اس کے کہ تو انکے شکار کی خواہش رکھتا ہو ۔

 
چہ قومی فرومایہ ی ترسناک
کند پاک منقار خود را بخاک

مطلب: (پرندوں سی) یہ کیسی کم مایہ اور کمینہ قوم ہے جو اپنی چونچوں کو مٹی سے پاک کرتی ہے ۔

 
شد آن باشہ نخچیر نخچیر خویش
کہ گیرد ز صید خود آئین و کیش

مطلب: وہ باشہ آپ اپنے شکار کا شکار ہو گیا جو اپنے صید کے رنگ ڈھنگ اپنا لیتا ہے ۔

 
بسا شکرہ افتادہ بر روی خاک
شد از صحبت دانہ چینان ہلاک

مطلب: کتنے ہی شکرے زمین پر گر گئے دانہ چگنے والوں (چڑیوں ) کی صحبت سے ہلاک ہو گئے ۔

 
نگہ دار خود را و خورسند زی
دلیر و درشت و تنومند زی

مطلب: خود پر نگاہ رکھ اور خوش خوش زندہ رہ ۔ دلیری اور سختی اورشہزوری سے زندگی بسر کر ۔

 
تن نرم و نازک بہ تیہو گذار
رگ سخت چون شاخ آہو بیار

مطلب: نرم و نازک بدن ممولے کے لیے چھوڑ دے ۔ ہرن کے سینگ کی طرح مضبوط اعصاب پیدا کر ۔

 
نصیب جہان آنچہ از خرمی است
ز سنگینی و محنت و پردمی است

مطلب: شادمانی کی قبیل سے جو کچھ کہ دنیا کا مقدر ہے محکمی اور محنت اور پردمی کی وجہ سے ہے ۔

 
چہ خوش گفت فرزند خود را عقاب
کہ یک قطرہ خون بہتر از لعل ناب

مطلب: عقاب نے اپنے بیٹے سے کیا خوب کہا کہ ایک بوند لہو اچھوتے خالص یاقوت (لعل) سے بہتر ہے ۔

 
مجو انجمن مثل آہو و میش
بخلوت گرا چون نیاگان خویش

مطلب: ہرن اور بھیڑ کی طرح بزم (آرام کی زندگی) تلاش نہ کر ۔ اپنے بزرگوں (اسلاف) کے مانند تنہائی کی طرف میلان رکھ ۔

 
چنین یاد دارم ز بازان پیر
نشیمن بشاخ درختی مگیر

مطلب: اسی لیے میں اپنے بزرگوں کی یہ نصیحت یاد رکھتا ہوں کہ کسی درخت کی شاخ پر بسیرا نہ کر ۔

 
کنامے نگیریم در باغ و کشت
کہ داریم در کوہ و صحرا بہشت

مطلب: ہم باغوں اور کھیتوں میں آشیانہ نہیں بناتے کیونکہ ہماری جنت پہاڑوں اور بیابانوں میں ہے ۔

 
ز روی زمین دانہ چنیدن خطاست
کہ پہنای گردون خدا داد ماست

مطلب: زمین پر سے دانہ چگنا غلط ہے کیونکہ خدا نے ہمیں آسمان کی وسعت عطا کر رکھی ہے ۔ تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا ۔ ترے سامنے آسمان اور بھی ہیں ۔

 
نجیبی کہ پا بر  زمین سودہ است
ز مرغ سرا سفلہ تر بودہ است

مطلب: وہ اصیل ہے جو مٹی پر پاؤں رکھتا ہے وہ پالتو مرغ سے بھی زیادہ نیچ ہو گیا ۔

 
پے شاہبازان بساط است سنگ
کہ بر سنگ رفتن کند تیز چنگ

مطلب: پتھر شاہبازوں کے لیے غالیچہ ہے کہ پتھر پر چلنا پنجوں کو تیز کرتا ہے ۔

 
تو از زرد چشمان صحراستی
بگوہر چو سیمرغ والاستی

مطلب: تو صحرا کے زرد چشموں میں سے ہے تو سیمرغ کی طرح عالی نسب ہے ۔

 
جوانی اصیلے کہ در زور جنگ
برد مردمک را ز چشم پلنگ

مطلب: ایسا اصیل جوان جو جنگ کے دن چیتے کی آنکھ سے پتلی نکال لیتا ہے ۔

 
بہ پرواز تو سطوت نوریان
بہ رگہای تو خون کافوریان

مطلب: تیری اڑان میں فرشتوں کی سی شان و شوکت ہے ۔ تیری رگوں میں کافور یوں کا لہو ہے ۔

 
تہ چرخ گردندہ ی کوز پشت
بخور آنچہ گیری ز نرم و درشت

مطلب: اس گھومتے ہوئے کبڑے آسمان کے تلے نرم ہو یا درشت اپنا ہی شکار کیا ہوا کھا ۔

 
ز دست کسے طعمہ ی خود مگیر
نکو باش و پند نکویان پذیر

مطلب: اپنا نوالہ کسی کے ہاتھ سے نہ لے نیک بن اور اچھوں کی نصیحت سن ۔ نوٹ: باز اور شاہین یہ دونوں اقبال کے محبوب پرندے ہیں ان پرندوں میں اقبال کے مرد مومن کی بعض صفات پائی جاتی ہیں ۔ چنانچہ اپنے ایک خط میں جو انھوں نے پروفیسر ظفر احمد صدیقی کو لکھا تھا ۔ بایں الفاظ اس بات کی وضاحت فرمائی تھی کہ شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں ہے ۔ اس جانور میں اسلامی فقر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں ۔ خوددار اور غیرت مند ہے کہ اور کسی ہاتھ کا مارا ہو شکار نہیں کھاتا ۔ بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا، بلند پرواز ہے ۔ خلوت پسند ہے اور تیز نگاہ ہے ۔