Please wait..

قسمت نامہ سرمایہ دار و مزدور
(سرمایہ دار اور مزدور میں تقسیم جائیدار)

 
غوغاے کارخانہ آہنگری ز من
گلبانگ ارغنون کلیسا از آن تو

مطلب: فولاد کے کارخانے کا شور شرابہ میرا اور کلیسا کے باجے کی مدھر دھن تیری ۔

 
نخلے کہ شہ خراج برومی نہد ز من
باغ بہشت و سدرہ و طوبا از آن تو

مطلب: جس پر حاکم ٹیکس لگاتا ہے وہ پیڑ میرا اور وہ درخت جس سے بادشاہ خراج وصول کرتا ہے وہ میرا جنگ کا باغ اور سدرہ المنتہٰی اور طوبے تیرا ۔

 
تلخابہ ئی کہ درد سر آرد از آن من
صہباے پاک آدم و حوا از آن تو

مطلب: وہ تلخ شراب جو درد سر پیدا کرے ، میرے لیے ہے ۔ آدم اور حوا کی پاکیزہ شراب تیرے لیے ہے ۔

 
مرغابی و تدرو و کبوتر از آن من
ظل ہما و شہپر عنقا  از آن تو

مطلب: مرغابی اور تیتر اور کبوتر میرے لیے ہیں اور ہما کا سایہ اور عنقا کا پنکھ تیرے لیے ہے ۔

 
این خاک و آنچہ در شکم او از آن من
و ز خاک تا بہ عرش معلا از آن تو

مطلب: یہ زمین اور جو کچھ اس کے اندر ہے وہ میرے لیے ہے اور زمین سے عرش معلیٰ تک سب کچھ تیرا ۔ (سرمایہ دار کی فیاضی داد طلب ہے کہ اس نے صرف زمین کو اپنی ملکیت بنانے پر قناعت کی ہے اور ساری کائنات جس میں جنت بھی شامل ہے مزدور کے حوالے کر دی ہے ۔ اس نظم کا ہر شعر طنز کی تصویر ہے ۔ اقبال نے سرمایہ دار کی ذہنیت کو عیاں کیا ہے) ۔

نواے مزدور (مزدور کی پکار)

 
زمزد بندہ کر باس پوش و محنت کش
نصیب خواجہ ناکردہ کار رخت حریر

مطلب: کھردرے لباس اور محنت کرنے والے مزدور کی مزدوری سے نکھٹو سرمایہ دار کو ریشم کا لباس ملا ۔

 
ز خوے فشانی من لعل خاتم والی
ز اشک کودک من گوہر ستام امیر

مطلب: میرا پسینہ حاکم کی انگشتری میں یاقوت، میرے بچے کا آنسو سردار کے گھوڑے کی زین کا موتی ہے ۔

 
ز خون من چو او فربہی کلیسا را
بزور بازوے من دست سلطنت ہمہ گیر

مطلب: کلیسا میرے خون سے جونک کی طرح پھولا ہوا ۔ میرے زور بازو سے سلطنت کا ہاتھ سارے پر قابض ہے ۔

 
خرابہ رشک گستان ز گریہ سحرم
شباب لالہ و گل از طراوت جگرم

مطلب: ویرانہ میرے گریہ سحر سے رشک گلستاں بنتا ہے ۔ میرے جگر کے لہو سے لالہ و گل کی بہار ہے ۔

 
بیا کہ تازہ نوامی تراود از رگ ساز
مے کہ شیشہ گدازد بہ ساغر اندازیم

مطلب: اک ساز کے تاروں سے تازہ نغمہ ٹپک رہا ہے (نئی نوا پیدا ہو رہی ہے) ۔ وہ شراب جو شیشہ پگھلا دے ہم پیالے میں ڈالی ۔

 
مغان و دیر مغان را نظام تازہ دہیم
بناے میکدہ ہاے کہن بر اندازیم

مطلب: ساقی اور میخانے کو نیا نظام دیں پرانے میکدوں کی بنیاد ڈھا دیں ۔

 
ز رہزنان چمن انتقام لالہ کشیم
بہ بزم غنچہ و گل طرح دیگر اندازیم

مطلب: چمن کے لٹیروں سے گل لالہ کا انتقام لیں ۔ کلیوں اور پھولوں کی بزم کی نئی بنیاد ڈالیں (نئے انداز سے ترتیب دیں ) ۔

 
بطوف شمع جو پروانہ زیستن تاکے
ز خویش این ہمہ بیگانہ زیستان تاکے

مطلب: پروانے کی طرح شمع کے طواف میں زندگی بسر کرنا کب تک اپنے آپ سے اس قدر انجان ہو کر جینا کب تک ۔ اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے ۔