مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

(3-98)

جن آئمہ علیہم السلام کے پاس آتے ہیں ان سے احکام دین دریافت کرتے ہیں اور ان کے کام انجام دیتے ہیں

حدیث نمبر 1

بَعْضُ أَصْحَابِنَا عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ يَحْيَى بْنِ مُسَاوِرٍ عَنْ سَعْدٍ الاسْكَافِ قَالَ أَتَيْتُ أَبَا جَعْفَرٍ علیہ السلام فِي بَعْضِ مَا أَتَيْتُهُ فَجَعَلَ يَقُولُ لا تَعْجَلْ حَتَّى حَمِيَتِ الشَّمْسُ عَلَيَّ وَجَعَلْتُ أَتَتَبَّعُ الافْيَاءَ فَمَا لَبِثَ أَنْ خَرَجَ عَلَيَّ قَوْمٌ كَأَنَّهُمُ الْجَرَادُ الصُّفْرُ عَلَيْهِمُ الْبُتُوتُ قَدِ انْتَهَكَتْهُمُ الْعِبَادَةُ قَالَ فَوَ الله لانْسَانِي مَا كُنْتُ فِيهِ مِنْ حُسْنِ هَيْئَةِ الْقَوْمِ فَلَمَّا دَخَلْتُ عَلَيْهِ قَالَ لِي أَرَانِي قَدْ شَقَقْتُ عَلَيْكَ قُلْتُ أَجَلْ وَالله لَقَدْ أَنْسَانِي مَا كُنْتُ فِيهِ قَوْمٌ مَرُّوا بِي لَمْ أَرَ قَوْماً أَحْسَنَ هَيْئَةً مِنْهُمْ فِي زِيِّ رَجُلٍ وَاحِدٍ كَأَنَّ أَلْوَانَهُمُ الْجَرَادُ الصُّفْرُ قَدِ انْتَهَكَتْهُمُ الْعِبَادَةُ فَقَالَ يَا سَعْدُ رَأَيْتَهُمْ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ أُولَئِكَ إِخْوَانُكَ مِنَ الْجِنِّ قَالَ فَقُلْتُ يَأْتُونَكَ قَالَ نَعَمْ يَأْتُونَّا يَسْأَلُونَّا عَنْ مَعَالِمِ دِينِهِمْ وَحَلالِهِمْ وَحَرَامِهِمْ۔

سعد الاشکاف سے مروی ہے کہ میں ایک دن امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں آیا۔ حضرت نے فرمایا ٹھہر جاؤ اتنی دیر گزری کہ میرے اوپر دھوپ آ گئی اور میں ادھر ادھر سایوں میں اپنے آپ کو بٹھاتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد ایک قوم میری طرف سے گزری۔ گویا وہ لاعمری میں زرد رنگ ٹڈیوں کی طرح تھے ان پر چادریں پڑی تھیں عبادت نے ان کو انتہائی کمزور بنا دیا تھا۔ اس قوم کے حسن صورت نے مجھے اپنی حالت سے غافل بنا دیا تھا۔ جب میں حضرت کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا میں نے تم کو تکلیف دی۔ میں نے کہا میں تو سب تکلیف بھول گیا ان لوگوں کی اچھی صورت دیکھ کر جو میری طرف سے گزرے ٹڈیوں کی طرح ان کے پیلے رنگ تھے اور عبادت نے ان کو لاغر بنا دیا تھا۔ فرمایا وہ تمہارے بھائی مومن تھے میں نے کہا وہ آپ کے پاس آتے ہیں۔ فرمایا ہاں آتے ہیں ہم سے مسائل دین اور حرام و حلال کو دریافت کرتے ہیں۔

حدیث نمبر 2

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حَسَّانَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنِ ابْنِ جَبَلٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ كُنَّا بِبَابِهِ فَخَرَجَ عَلَيْنَا قَوْمٌ أَشْبَاهُ الزُّطِّ عَلَيْهِمْ أُزُرٌ وَأَكْسِيَةٌ فَسَأَلْنَا أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام عَنْهُمْ فَقَالَ هَؤُلاءِ إِخْوَانُكُمْ مِنَ الْجِنِّ۔

راوی کہتا ہے کہ ہم امام جعفر صادق علیہ السلام کے دروازہ پر تھے کہ ہماری طرف سے ایک قوم گزری جاٹوں کی صورت ازاریں پہنے اور چادریں اوڑھے۔ پس ہم نے امام سے ان کے متعلق پوچھا۔ فرمایا یہ تمہارے بھائی ہیں جن قوم سے۔

حدیث نمبر 3

أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْكُوفِيِّ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَنْ سَعْدٍ الاسْكَافِ قَالَ أَتَيْتُ أَبَا جَعْفَرٍ علیہ السلام أُرِيدُ الاذْنَ عَلَيْهِ فَإِذَا رِحَالُ إِبِلٍ عَلَى الْبَابِ مَصْفُوفَةٌ وَإِذَا الاصْوَاتُ قَدِ ارْتَفَعَتْ ثُمَّ خَرَجَ قَوْمٌ مُعْتَمِّينَ بِالْعَمَائِمِ يُشْبِهُونَ الزُّطَّ قَالَ فَدَخَلْتُ عَلَى ابي جعفر علیہ السلام فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ أَبْطَأَ إِذْنُكَ عَلَيَّ الْيَوْمَ وَرَأَيْتُ قَوْماً خَرَجُوا عَلَيَّ مُعْتَمِّينَ بِالْعَمَائِمِ فَأَنْكَرْتُهُمْ فَقَالَ أَ وَتَدْرِي مَنْ أُولَئِكَ يَا سَعْدُ قَالَ قُلْتُ لا قَالَ فَقَالَ أُولَئِكَ إِخْوَانُكُمْ مِنَ الْجِنِّ يَأْتُونَّا فَيَسْأَلُونَّا عَنْ حَلالِهِمْ وَحَرَامِهِمْ وَمَعَالِمِ دِينِهِمْ۔

سعد الاسکاف راوی ہے کہ میں امام محمد باقر علیہ السلام کے دروازہ پر آیا اور اذنِ دخول چاہا۔ ناگاہ کچھ اونٹ قطاروں میں نظر آئے اور آوازیں بلند ہوئیں پھر کچھ لوگ جاٹوں سے مشابہ سروں پر عمامے باندھے نکلے۔ جب میں خدمت امام میں آیا تو آپ نے کہا آج آپ کے اذن میں بڑی تاخیر کی اور میں نے ایک قوم کو نکلتے ہوئے دیکھا جو عمامے باندھے ہوئے تھے میں نے ان کو نہ پہچانا۔ فرمایا اے سعد کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وہ کون تھے۔ میں نے کہا نہیں۔ فرمایا وہ تمہارے بھائی قوم جن سے تھے جو ہمارے پاس اپنے حرام و حلال اور دینی مسائل کو پوچھنے آئے تھے۔

حدیث نمبر 4

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي الْبِلادِ عَنْ سَدِيرٍ الصَّيْرَفِيِّ قَالَ أَوْصَانِي أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام بِحَوَائِجَ لَهُ بِالْمَدِينَةِ فَخَرَجْتُ فَبَيْنَا أَنَا بَيْنَ فَجِّ الرَّوْحَاءِ عَلَى رَاحِلَتِي إِذَا إِنْسَانٌ يَلْوِي ثَوْبَهُ قَالَ فَمِلْتُ إِلَيْهِ وَظَنَنْتُ أَنَّهُ عَطْشَانُ فَنَاوَلْتُهُ الادَاوَةَ فَقَالَ لِي لا حَاجَةَ لِي بِهَا وَنَاوَلَنِي كِتَاباً طِينُهُ رَطْبٌ قَالَ فَلَمَّا نَظَرْتُ إِلَى الْخَاتَمِ إِذَا خَاتَمُ ابي جعفر علیہ السلام فَقُلْتُ مَتَى عَهْدُكَ بِصَاحِبِ الْكِتَابِ قَالَ السَّاعَةَ وَإِذَا فِي الْكِتَابِ أَشْيَاءُ يَأْمُرُنِي بِهَا ثُمَّ الْتَفَتُّ فَإِذَا لَيْسَ عِنْدِي أَحَدٌ قَالَ ثُمَّ قَدِمَ أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام فَلَقِيتُهُ فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ رَجُلٌ أَتَانِي بِكِتَابِكَ وَطِينُهُ رَطْبٌ فَقَالَ يَا سَدِيرُ إِنَّ لَنَا خَدَماً مِنَ الْجِنِّ فَإِذَا أَرَدْنَا السُّرْعَةَ بَعَثْنَاهُمْ. وَفِي رِوَايَةٍ أُخْرَى قَالَ إِنَّ لَنَا أَتْبَاعاً مِنَ الْجِنِّ كَمَا أَنَّ لَنَا أَتْبَاعاً مِنَ الانْسِ فَإِذَا أَرَدْنَا أَمْراً بَعَثْنَاهُمْ۔

سدیر سے روایت ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے کچھ ضرورتوں کے لیے مدینہ بھیجا۔ میں مکہ سے چلا۔ جب درہ روحا پہنچا تو میں اپنے اونٹ پر تھا کہ ایک آدمی کو کپڑوں میں لپٹا ہوا دیکھا۔ میں نے گمان کیا کہ شاید وہ پیاسا ہے میں نے ظرف آپ اس کی طرف بڑھایا۔ اس نے کہا مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ اس نے مجھے تحریر دکھائی جس کی مہر تازہ تھی میں نے مہر پر نظر ڈالی تو وہ امام محمد باقر علیہ السلام کی مہر تھی۔ میں نے کہا تم نے اس تحریر والے سے کب ملاقات کی تھی۔ اس نے کہا ابھی اس تحریر میں کچھ باتیں ہیں جن کے متعلق تجھے حکم دیا گیا ہے۔ اس کے بعد وہ شخص میری نظروں سے غائب ہو گیا۔ میں امام محمد باقر علیہ السلام کے پاس آیا اور ان سے بیان کیا کہ ایک شخص میرے پاس آپ کی تحریر لایا جس پر آپ کی تازہ مہر تھی۔ فرمایا اے سدیر ہمارے کچھ خدمت گار جن ہیں جب جلدی کا کوئی کام ہوتا ہے تو ہم ان کو بھیجتے ہیں۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت نے فرمایا ہمارے پیرو جن بھی اسی طرح ہیں جیسے انسان جب ہم چاہتے ہیں تو ان کو بھی کسی کام کے لیے بھیج دیتے ہیں۔

حدیث نمبر 5

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَحْرَشٍ قَالَ حَدَّثَتْنِي حَكِيمَةُ بِنْتُ مُوسَى قَالَتْ رَأَيْتُ الرِّضَا علیہ السلام وَاقِفاً عَلَى بَابِ بَيْتِ الْحَطَبِ وَهُوَ يُنَاجِي وَلَسْتُ أَرَى أَحَداً فَقُلْتُ يَا سَيِّدِي لِمَنْ تُنَاجِي فَقَالَ هَذَا عَامِرٌ الزَّهْرَائِيُّ أَتَانِي يَسْأَلُنِي وَيَشْكُو إِلَيَّ فَقُلْتُ يَا سَيِّدِي أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَ كَلامَهُ فَقَالَ لِي إِنَّكِ إِنْ سَمِعْتِ بِهِ حُمِمْتِ سَنَةً فَقُلْتُ يَا سَيِّدِي أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَهُ فَقَالَ لِيَ اسْمَعِي فَاسْتَمَعْتُ فَسَمِعْتُ شِبْهَ الصَّفِيرِ وَرَكِبَتْنِيَ الْحُمَّى فَحُمِمْتُ سَنَةً۔

راوی کہتا ہے کہ حکیمہ بنت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے بیان کیا کہ میں نے امام رضا علیہ السلام کو لکڑی کی ٹال کے دروازہ پر کھڑا دیکھا۔ آپ کسی سے بات چیت کر رہے تھے۔ مگر مخاطب نظر نہ آتا تھا۔ میں نے کہا آپ کس سے بات کر رہے ہیں۔ فرمایا یہ عامر زہرانی ہے مجھ سے کچھ پوچھ رہا ہے اور شکایت کر رہا ہے۔ میں نے کہا میں اس کا کلام بھی سننا چاہتی ہوں۔ فرمایا اگر تم نے سنا تو ایک سال تک تم کو بخار آئے گا۔ میں نے کہا میں سننا چاہتی ہوں۔ فرمایا اچھا سنو۔ میں نے بلبل کی سی باریک آواز سنی اور مجھے بخار آیا جو ایک سال تک رہا۔

حدیث نمبر 6

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَيُّوبَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شِمْرٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ بَيْنَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام عَلَى الْمِنْبَرِ إِذْ أَقْبَلَ ثُعْبَانٌ مِنْ نَاحِيَةِ بَابٍ مِنْ أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ فَهَمَّ النَّاسُ أَنْ يَقْتُلُوهُ فَأَرْسَلَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام أَنْ كُفُّوا فَكَفُّوا وَأَقْبَلَ الثُّعْبَانُ يَنْسَابُ حَتَّى انْتَهَى إِلَى الْمِنْبَرِ فَتَطَاوَلَ فَسَلَّمَ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام فَأَشَارَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام إِلَيْهِ أَنْ يَقِفَ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْ خُطْبَتِهِ وَلَمَّا فَرَغَ مِنْ خُطْبَتِهِ أَقْبَلَ عَلَيْهِ فَقَالَ مَنْ أَنْتَ فَقَالَ عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ خَلِيفَتِكَ عَلَى الْجِنِّ وَإِنَّ أَبِي مَاتَ وَأَوْصَانِي أَنْ آتِيَكَ فَأَسْتَطْلِعَ رَأْيَكَ وَقَدْ أَتَيْتُكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَمَا تَأْمُرُنِي بِهِ وَمَا تَرَى فَقَالَ لَهُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام أُوصِيكَ بِتَقْوَى الله وَأَنْ تَنْصَرِفَ فَتَقُومَ مَقَامَ أَبِيكَ فِي الْجِنِّ فَإِنَّكَ خَلِيفَتِي عَلَيْهِمْ قَالَ فَوَدَّعَ عَمْرٌو أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَانْصَرَفَ فَهُوَ خَلِيفَتُهُ عَلَى الْجِنِّ فَقُلْتُ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ فَيَأْتِيكَ عَمْرٌو وَذَاكَ الْوَاجِبُ عَلَيْهِ قَالَ نَعَمْ۔

جابر نے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ ایک روز امیر المومنین علیہ السلام منبر پر خطبہ پڑھ رہے تھے کہ ایک اژدھا مسجد کے ایک دروازے سے آتا دکھائی دیا۔ لوگوں نے اس کو مار ڈالنے کا ارادہ کیا۔ امیر المومنین علیہ السلام نے روکا۔ لوگ رک گئے۔ اژدہا سیدھا منبر کے پاس آیا۔ امیر المومنین علیہ السلام پر سلام یا۔ حضرت نے اس کو ٹھہر جانے کا اشارہ کیا۔ یہاں تک کہ حضرت خطبہ سے فارغ ہوں۔ جب فارغ ہوئے تو وہ آگے بڑھا۔ آپ نے پوچھا تو کون ہے۔ اس نے کہا میں عمرو بن عثمان کا خلیفہ ہوں۔ قوم جن پر۔ میرا باپ مر گیا ہے اور اس نے وصیت کی کہ میں آپ کے پاس آؤں اور آپ کی رائے معلوم کروں۔ پس آپ کا میرے لیے کیا حکم ہے۔ حضرت نے فرمایا میں تجھے اللہ سے ڈرنے کی ہدایت کرتا ہوں اور تو اپنے باپ کا قائم مقام بن کر اپنی قوم پر حکومت کر۔ تو ان پر میرا خلیفہ ہے۔ پس وہ حضرت سے رخصت ہو کر چلا گیا اور قوم جن میں حضرت کا خلیفہ قرار پایا۔ میں نے کہا کیا عمرو پر یہ واجب تھا کہ وہ آپ کے پاس آئے۔ فرمایا ہاں۔

حدیث نمبر 7

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي حَمَّادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أُورَمَةَ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ النَّضْرِ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ كُنْتُ مُزَامِلاً لِجَابِرِ بْنِ يَزِيدَ الْجُعْفِيِّ فَلَمَّا أَنْ كُنَّا بِالْمَدِينَةِ دَخَلَ عَلَى ابي جعفر علیہ السلام فَوَدَّعَهُ وَخَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ وَهُوَ مَسْرُورٌ حَتَّى وَرَدْنَا الاخَيْرِجَةَ أَوَّلَ مَنْزِلٍ نَعْدِلُ مِنْ فَيْدَ إِلَى الْمَدِينَةِ يَوْمَ جُمُعَةٍ فَصَلَّيْنَا الزَّوَالَ فَلَمَّا نَهَضَ بِنَا الْبَعِيرُ إِذَا أَنَا بِرَجُلٍ طُوَالٍ آدَمَ مَعَهُ كِتَابٌ فَنَاوَلَهُ جَابِراً فَتَنَاوَلَهُ فَقَبَّلَهُ وَوَضَعَهُ عَلَى عَيْنَيْهِ وَإِذَا هُوَ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ إِلَى جَابِرِ بْنِ يَزِيدَ وَعَلَيْهِ طِينٌ أَسْوَدُ رَطْبٌ فَقَالَ لَهُ مَتَى عَهْدُكَ بِسَيِّدِي فَقَالَ السَّاعَةَ فَقَالَ لَهُ قَبْلَ الصَّلاةِ أَوْ بَعْدَ الصَّلاةِ فَقَالَ بَعْدَ الصَّلاةِ فَفَكَّ الْخَاتَمَ وَأَقْبَلَ يَقْرَؤُهُ وَيَقْبِضُ وَجْهَهُ حَتَّى أَتَى عَلَى آخِرِهِ ثُمَّ أَمْسَكَ الْكِتَابَ فَمَا رَأَيْتُهُ ضَاحِكاً وَلا مَسْرُوراً حَتَّى وَافَى الْكُوفَةَ فَلَمَّا وَافَيْنَا الْكُوفَةَ لَيْلاً بِتُّ لَيْلَتِي فَلَمَّا أَصْبَحْتُ أَتَيْتُهُ إِعْظَاماً لَهُ فَوَجَدْتُهُ قَدْ خَرَجَ عَلَيَّ وَفِي عُنُقِهِ كِعَابٌ قَدْ عَلَّقَهَا وَقَدْ رَكِبَ قَصَبَةً وَهُوَ يَقُولُ أَجِدُ مَنْصُورَ بْنَ جُمْهُورٍ أَمِيراً غَيْرَ مَأْمُورٍ وَأَبْيَاتاً مِنْ نَحْوِ هَذَا فَنَظَرَ فِي وَجْهِي وَنَظَرْتُ فِي وَجْهِهِ فَلَمْ يَقُلْ لِي شَيْئاً وَلَمْ أَقُلْ لَهُ وَأَقْبَلْتُ أَبْكِي لِمَا رَأَيْتُهُ وَاجْتَمَعَ عَلَيَّ وَعَلَيْهِ الصِّبْيَانُ وَالنَّاسُ وَجَاءَ حَتَّى دَخَلَ الرَّحَبَةَ وَأَقْبَلَ يَدُورُ مَعَ الصِّبْيَانِ وَالنَّاسُ يَقُولُونَ جُنَّ جَابِرُ بْنُ يَزِيدَ جُنَّ فَوَ الله مَا مَضَتِ الايَّامُ حَتَّى وَرَدَ كِتَابُ هِشَامِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ إِلَى وَالِيهِ أَنِ انْظُرْ رَجُلاً يُقَالُ لَهُ جَابِرُ بْنُ يَزِيدَ الْجُعْفِيُّ فَاضْرِبْ عُنُقَهُ وَابْعَثْ إِلَيَّ بِرَأْسِهِ فَالْتَفَتَ إِلَى جُلَسَائِهِ فَقَالَ لَهُمْ مَنْ جَابِرُ بْنُ يَزِيدَ الْجُعْفِيُّ قَالُوا أَصْلَحَكَ الله كَانَ رَجُلاً لَهُ عِلْمٌ وَفَضْلٌ وَحَدِيثٌ وَحَجَّ فَجُنَّ وَهُوَ ذَا فِي الرَّحَبَةِ مَعَ الصِّبْيَانِ عَلَى الْقَصَبِ يَلْعَبُ مَعَهُمْ قَالَ فَأَشْرَفَ عَلَيْهِ فَإِذَا هُوَ مَعَ الصِّبْيَانِ يَلْعَبُ عَلَى الْقَصَبِ فَقَالَ الْحَمْدُ لله الَّذِي عَافَانِي مِنْ قَتْلِهِ قَالَ وَلَمْ تَمْضِ الايَّامُ حَتَّى دَخَلَ مَنْصُورُ بْنُ جُمْهُورٍ الْكُوفَةَ وَصَنَعَ مَا كَانَ يَقُولُ جَابِرٌ۔

راوی کہتا ہے میں اور جابر بن یزید جعفی سفر حج پر ایک ہی اونٹ پر تھے۔ ہم مدینہ پہنچے تو جابر امام محمد باقر علیہ السلام سے ملنے گئے۔ جب وہاں سے لوٹ کر آئے تو خوش و خرم تھے۔ جب ہم منزل اخیرجہ پر پہنچے جو اتنی ہی دور ہے جیسے مکہ مکرمہ سے منزل فید، مدینہ کی طرف جمعہ کا دن تھا۔ ہم نے نماز ظہر پڑھی اور جب اونٹ پر بیٹھ کر چلنے لگے تو ایک شخص بڑے لمبے قد کا آیا جس کے پاس ایک خط تھا جو اس نے جابر کو دیا۔ جابر نے لے کر اسے چوما اور آنکھوں سے لگایا۔ یہ خط امام محمد باقر علیہ السلام کا تھا جس پر تازہ مہر لگی ہوئی تھی۔ جابر نے اس سے پوچھا تم امام کے پاس کب چلے تھے۔ اس نے کہا ابھی ابھی۔ جابر نے کہا قبل نماز یا بعد نماز۔ اس نے کہا بعد نماز۔ جابر نے مہر توڑی اور خط پڑھنے لگا۔ اس کے چہرے سے پریشانی کا اظہار ہو رہا تھا۔ اس نے خط کو اپنے پاس رکھ لیا۔ اس کے بعد میں نے اس کو ہنستے ہوئے اور خوش ہوتے پھر نہ دیکھا اس کے بعد ہم کوفہ کی طرف چلے۔ جب کوفہ پہنچے تو میں نے اپنے مقام پر رات بسر کر۔ جب صبح ہوئی تو میں جابر کو سلام کرنے کے لیے گیا۔ میں نے اس کو اس حال میں دیکھا کہ اس کے گلے میں ایک تھیلا لٹکا ہے اور لکڑی پر سوار ہے اور کہہ رہا ہے منصور بن جمہور کو میں دیکھ رہا ہوں۔ ایسا امیر جس پر کسی کا حکم نہیں اور اسی مضمون کے کچھ اشعار پڑھ رہا تھا اس نے مجھے دیکھا اور میں نے اس کو۔ لیکن اس نے مجھ سے کچھ کہا نہیں اور نہ میں نے کوئی بات کی۔
میں اس حال میں انھیں دیکھ کر رونے لگا۔ میرے پاس اور جابر کے پاس بہت سے لڑکے اور بڑے جمع ہو گئے۔ اور لوگ کہہ رہے تھے جابر دیوانے ہو گئے وہ اسی حال میں کوفہ کے محلہ رحبہ میں پہنچے اور لڑکوں اور آدمیوں کے ساتھ ادھر ادھر گھومنے لگے۔ چند روز بعد گزرے تھے کہ ہشام بن عبدالملک نے والی کوفہ کو لکھا کہ جابر کو تلاش کرو اور قتل کر کے اس کا سر میرے پاس بھیج دو۔ اس نے اپنے درباریوں سے پوچھا یہ جابر کون ہے۔ انھوں نے کہا یہ شخص صاحب علم و فضل ہے عالم حدیث ہے اور حاجی ہے لیکن مجنون ہو گیا ہے کوفہ کے محلہ رحبہ میں لکڑی کے گھوڑے پر سوار لڑکوں کے ساتھ کھیلتا پھرتا ہے حاکم کوفہ یہ سن کر بغرض تصدیق رحبہ میں پہنچا تو دیکھا وہ بچوں کے ساتھ اپنے لکڑی کے گھوڑے پر سوار لڑکوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں ۔ یہ دیکھ کر اس نے کہا خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ان کے قتل سے بچا لیا۔ چند روز نہ گزرے تھے کہ منصور عباسی کوفہ میں داخل ہوا اور اس نے وہی کیا جو جابر نے کہا تھا۔