عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ ابْنِ سِنَانٍ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ سَدِيرٍ قَالَ قُلْتُ لابي جعفر علیہ السلام إِنِّي تَرَكْتُ مَوَالِيَكَ مُخْتَلِفِينَ يَتَبَرَّأُ بَعْضُهُمْ مِنْ بَعْضٍ قَالَ فَقَالَ وَمَا أَنْتَ وَذَاكَ إِنَّمَا كُلِّفَ النَّاسُ ثَلاثَةً مَعْرِفَةَ الائِمَّةِ وَالتَّسْلِيمَ لَهُمْ فِيمَا وَرَدَ عَلَيْهِمْ وَالرَّدَّ إِلَيْهِمْ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ۔
سدیر سے مروی ہے کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے کہا کہ آپ کے دوست بلحاظ عقائد مختلف ہیں اور ایک دوسرے سے بیزار ہیں۔ فرمایا تمہارا اس سے کیا مطلب ہے۔ لوگ بلحاظ تکلیف تین طرح کے ہیں اول وہ ہیں جو معرفت آئمہ رکھتے ہیں دوسرے وہ ہیں کہ ان امور کو قبول کرتے ہیں جو ان سے وارد ہیں تیسرے وہ ہیں جو ان سے روگردانی کرتے ہیں ان سے اختلاف کرتے ہیں۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْبَرْقِيِّ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ عَبْدِ الله الْكَاهِلِيِّ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام لَوْ أَنَّ قَوْماً عَبَدُوا الله وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَحَجُّوا الْبَيْتَ وَصَامُوا شَهْرَ رَمَضَانَ ثُمَّ قَالُوا لِشَيْءٍ صَنَعَهُ الله أَوْ صَنَعَهُ رَسُولُ الله ﷺ أَلا صَنَعَ خِلافَ الَّذِي صَنَعَ أَوْ وَجَدُوا ذَلِكَ فِي قُلُوبِهِمْ لَكَانُوا بِذَلِكَ مُشْرِكِينَ ثُمَّ تَلا هَذِهِ الايَةَ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيماً ثُمَّ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام عَلَيْكُمْ بِالتَّسْلِيمِ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ اگر کوئی قوم خدائے وحدہ لا شریک کی عبادت کرے اور نماز پڑھے اور زکوٰۃ دے اور خانہ کعبہ کا حج کرے اور ماہ رمضان کے روزے رکھے۔ پھر کہے کہ جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے تدبیر کی ہے اس کے خلاف انھوں نے کیوں نہ کیا یعنی فعل خدا اور رسول پر اعتراض کرے یا اس کے دل میں بھی اسی قسم کا خیال گزرے تو وہ مشرک ہے پھر یہ آیت تلاوت فرمائی، تیرے رب کی قسم وہ ایمان نہ لائیں گے جب تک اے رسول تم کو اپنے ذاتی اختلافات میں حکم قرار نہ دیں۔ اور پھر تمہارے فیصلے سے اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور تمہارے فیصلہ کو پوری طرح تسلیم نہ کر لیں ۔ پھر حضرت نے فرمایا تمہارے اوپر خدا اور رسول کے احکام تسلیم کرنا واجب ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ الْمُخْتَارِ عَنْ زَيْدٍ الشَّحَّامِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ قُلْتُ لَهُ إِنَّ عِنْدَنَا رَجُلاً يُقَالُ لَهُ كُلَيْبٌ فَلا يَجِيءُ عَنْكُمْ شَيْءٌ إِلا قَالَ أَنَا أُسَلِّمُ فَسَمَّيْنَاهُ كُلَيْبَ تَسْلِيمٍ قَالَ فَتَرَحَّمَ عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ أَ تَدْرُونَ مَا التَّسْلِيمُ فَسَكَتْنَا فَقَالَ هُوَ وَالله الاخْبَاتُ قَوْلُ الله عَزَّ وَجَلَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ وَأَخْبَتُوا إِلى رَبِّهِمْ۔
راوی کہتا ہے میں نے حضرت ابو عبداللہ سے کہا ہمارے قریب ایک شخص ہے جس کا نام کلیب ہے آپ کی جو بات اس سے بیان کی جاتی ہے وہ کہتا ہے میں نے تسلیم کیا۔ اس لیے ہم نے اس کا نام کلیب تسلیم رکھ دیا ہے۔ فرمایا اس پر رحم کرو تم جانتے ہو تسلیم کیا ہے۔ ہم خاموش ہو گئے۔ فرمایا وہ قول خدا کے سامنے فروتنی و عاجزی کرنا ہے۔ خدا فرماتا ہے جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کیے اور اپنے رب کے سامنے فروتنی کی۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْوَشَّاءِ عَنْ أَبَانٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام فِي قَوْلِ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَمَنْ يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَهُ فِيها حُسْناً قَالَ الاقْتِرَافُ التَّسْلِيمُ لَنَا وَالصِّدْقُ عَلَيْنَا وَأَلا يَكْذِبَ عَلَيْنَا۔
فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے جو کوئی نیک کام کریگا ہم اس کی نیکی کو زیادہ کریں گے اس آیت کے متعلق کہ اس میں اقتراف سے مراد ہے ہماری بات کو تسلیم کرنا اور ہمارے قول کی تصدیق کرنا اور ہم پر جھوٹ نہ بولنا۔
عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْبَرْقِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ يُونُسَ عَنْ بَشِيرٍ الدَّهَّانِ عَنْ كَامِلٍ التَّمَّارِ قَالَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ أَ تَدْرِي مَنْ هُمْ قُلْتُ أَنْتَ أَعْلَمُ قَالَ قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الْمُسَلِّمُونَ إِنَّ الْمُسَلِّمِينَ هُمُ النُّجَبَاءُ فَالْمُؤْمِنُ غَرِيبٌ فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ۔
فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے کہ آیت قد افلح المومنون کے متعلق کیا جانتے ہو، وہ مومن کون ہیں راوی نے کہا آپ بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا فلاح پانے والے وہ مومن ہیں جو ہماری احادیث کو تسلیم کرنے والے ہیں یہ تسلیم کرنے والے نجبا کہلاتے ہیں پس مومن غریب ہے یعنی اپنے اصلی وطن سے دور ان کی تعداد کم ہے وہ یہاں بیگانوں میں زندگی بسر کرتے ہیں پس خوشخبری جنت کی ان غربا کے لیے۔
عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَنِ الْخَشَّابِ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ رَبِيعٍ الْمُسْلِيِّ عَنْ يَحْيَى بْنِ زَكَرِيَّا الانْصَارِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَسْتَكْمِلَ الايمَانَ كُلَّهُ فَلْيَقُلِ الْقَوْلُ مِنِّي فِي جَمِيعِ الاشْيَاءِ قَوْلُ آلِ مُحَمَّدٍ فِيمَا أَسَرُّوا وَمَا أَعْلَنُوا وَفِيمَا بَلَغَنِي عَنْهُمْ وَفِيمَا لَمْ يَبْلُغْنِي۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے جو کوئی خوش ہونا چاہتا ہے اس پر کہ اس کا ایمان کامل ہو تو اس کو چاہیے کہ آل محمد کے تمام اقوال کے متعلق میرا قول قبول کرے خواہ وہ پوشیدہ ہو یا ظاہر اور وہ کہ جو مجھ تک ان سے پہنچا ہے اور وہ جو مجھ تک نہیں پہنچا۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنِ ابْنِ أُذَيْنَةَ عَنْ زُرَارَةَ أَوْ بُرَيْدٍ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ قَالَ لَقَدْ خَاطَبَ الله أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام فِي كِتَابِهِ قَالَ قُلْتُ فِي أَيِّ مَوْضِعٍ قَالَ فِي قَوْلِهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جاؤُكَ فَاسْتَغْفَرُوا الله وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا الله تَوَّاباً رَحِيماً. فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ فِيمَا تَعَاقَدُوا عَلَيْهِ لَئِنْ أَمَاتَ الله مُحَمَّداً أَلا يَرُدُّوا هَذَا الامْرَ فِي بَنِي هَاشِمٍ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً مِمَّا قَضَيْتَ عَلَيْهِمْ مِنَ الْقَتْلِ أَوِ الْعَفْوِ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيماً۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا اللہ نے اپنی کتاب میں امیر المومنین علیہ السلام سے خطاب کیا ہے۔ راوی نے کہا میں نے پوچھا کہاں۔ فرمایا سورہ نساء کی اس آیت میں اور وہ لوگ جنھوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا ہے تیرے پاس آئیں اور اللہ سے استغفار کریں اور رسول بھی اسکے لیے استغفار کرے تو وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا پائیں گے۔ قسم ہے تیرے رب کی وہ ایمان نہ لائیں گے جب تک اپنے نزاعی معاملات میں اے رسول تجھے اپنا حکم نہ بنا لیں ان کے معاملات میں جن کا عہد کیا ہے اگر خدا محمد کو مار دے تو یہ امر خلافت کو بنی ہاشم میں نہ آنے دیں گے اور اس سے اپنے نفسوں میں کوئی تنگی نہ پائیں گے اس امر میں کہ جو تو نے ان کے متعلق فیصل کر دیا ہے اور دل تنگ ہوں گے اس سے جو تو نے فیصلہ کیا ہے قتل یا عضو کا اور یہ کہ تیرے حکم پوری طرح مانیں۔
أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ رَحِمَهُ الله عَنْ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْحَسَنِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَسْبَاطٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عُقْبَةَ عَنِ الْحَكَمِ بْنِ أَيْمَنَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام عَنْ قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ إِلَى آخِرِ الايَةِ قَالَ هُمُ الْمُسَلِّمُونَ لآِلِ مُحَمَّدٍ الَّذِينَ إِذَا سَمِعُوا الْحَدِيثَ لَمْ يَزِيدُوا فِيهِ وَلَمْ يَنْقُصُوا مِنْهُ جَاءُوا بِهِ كَمَا سَمِعُوهُ۔
ابو بصیر نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کے متعلق پوچھا وہ لوگ بات کو سنتے ہیں اور جو اچھی ہوتی ہے اس کی پیروی کرتے ہیں۔ فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو احادیث آل محمد کو تسلیم کرتے ہیں اور جو سنتے ہیں اس میں کمی کرتے نہ زیادتی جو انھوں نے سنا وہی بیان کرتے ہیں۔