عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ سَلامِ بْنِ عَبْدِ الله وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ وَأَبُو عَلِيٍّ الاشْعَرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَسَّانَ جَمِيعاً عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَسْبَاطٍ عَنْ سَلامِ بْنِ عَبْدِ الله الْهَاشِمِيِّ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ وَقَدْ سَمِعْتُهُ مِنْهُ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ بَعَثَ طَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ رَجُلاً مِنْ عَبْدِ الْقَيْسِ يُقَالُ لَهُ خِدَاشٌ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ﷺ وَقَالا لَهُ إِنَّا نَبْعَثُكَ إِلَى رَجُلٍ طَالَ مَا كُنَّا نَعْرِفُهُ وَأَهْلَ بَيْتِهِ بِالسِّحْرِ وَالْكِهَانَةِ وَأَنْتَ أَوْثَقُ مَنْ بِحَضْرَتِنَا مِنْ أَنْفُسِنَا مِنْ أَنْ تَمْتَنِعَ مِنْ ذَلِكَ وَأَنْ تُحَاجَّهُ لَنَا حَتَّى تَقِفَهُ عَلَى أَمْرٍ مَعْلُومٍ وَاعْلَمْ أَنَّهُ أَعْظَمُ النَّاسِ دَعْوًى فَلا يَكْسِرَنَّكَ ذَلِكَ عَنْهُ وَمِنَ الابْوَابِ الَّتِي يَخْدَعُ النَّاسَ بِهَا الطَّعَامُ وَالشَّرَابُ وَالْعَسَلُ وَالدُّهْنُ وَأَنْ يُخَالِيَ الرَّجُلَ فَلا تَأْكُلْ لَهُ طَعَاماً وَلا تَشْرَبْ لَهُ شَرَاباً وَلا تَمَسَّ لَهُ عَسَلاً وَلا دُهْناً وَلا تَخْلُ مَعَهُ وَاحْذَرْ هَذَا كُلَّهُ مِنْهُ وَانْطَلِقْ عَلَى بَرَكَةِ الله فَإِذَا رَأَيْتَهُ فَاقْرَأْ آيَةَ السُّخْرَةِ وَتَعَوَّذْ بِالله مِنْ كَيْدِهِ وَكَيْدِ الشَّيْطَانِ فَإِذَا جَلَسْتَ إِلَيْهِ فَلا تُمَكِّنْهُ مِنْ بَصَرِكَ كُلِّهِ وَلا تَسْتَأْنِسْ بِهِ ثُمَّ قُلْ لَهُ إِنَّ أَخَوَيْكَ فِي الدِّينِ وَابْنَيْ عَمِّكَ فِي الْقَرَابَةِ يُنَاشِدَانِكَ الْقَطِيعَةَ وَيَقُولانِ لَكَ أَ مَا تَعْلَمُ أَنَّا تَرَكْنَا النَّاسَ لَكَ وَخَالَفْنَا عَشَائِرَنَا فِيكَ مُنْذُ قَبَضَ الله عَزَّ وَجَلَّ مُحَمَّداً ﷺ فَلَمَّا نِلْتَ أَدْنَى مَنَالٍ ضَيَّعْتَ حُرْمَتَنَا وَقَطَعْتَ رَجَاءَنَا ثُمَّ قَدْ رَأَيْتَ أَفْعَالَنَا فِيكَ وَقُدْرَتَنَا عَلَى النَّأْيِ عَنْكَ وَسَعَةِ الْبِلادِ دُونَكَ وَأَنَّ مَنْ كَانَ يَصْرِفُكَ عَنَّا وَعَنْ صِلَتِنَا كَانَ أَقَلَّ لَكَ نَفْعاً وَأَضْعَفَ عَنْكَ دَفْعاً مِنَّا وَقَدْ وَضَحَ الصُّبْحُ لِذِي عَيْنَيْنِ وَقَدْ بَلَغَنَا عَنْكَ انْتِهَاكٌ لَنَا وَدُعَاءٌ عَلَيْنَا فَمَا الَّذِي يَحْمِلُكَ عَلَى ذَلِكَ فَقَدْ كُنَّا نَرَى أَنَّكَ أَشْجَعُ فُرْسَانِ الْعَرَبِ أَ تَتَّخِذُ اللَّعْنَ لَنَا دِيناً وَتَرَى أَنَّ ذَلِكَ يَكْسِرُنَا عَنْكَ فَلَمَّا أَتَى خِدَاشٌ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام صَنَعَ مَا أَمَرَاهُ فَلَمَّا نَظَرَ إِلَيْهِ علي علیہ السلام وَهُوَ يُنَاجِي نَفْسَهُ ضَحِكَ وَقَالَ هَاهُنَا يَا أَخَا عَبْدِ قَيْسٍ وَأَشَارَ لَهُ إِلَى مَجْلِسٍ قَرِيبٍ مِنْهُ فَقَالَ مَا أَوْسَعَ الْمَكَانَ أُرِيدُ أَنْ أُؤَدِّيَ إِلَيْكَ رِسَالَةً قَالَ بَلْ تَطْعَمُ وَتَشْرَبُ وَتَحُلُّ ثِيَابَكَ وَتَدَّهِنُ ثُمَّ تُؤَدِّي رِسَالَتَكَ قُمْ يَا قَنْبَرُ فَأَنْزِلْهُ قَالَ مَا بِي إِلَى شَيْءٍ مِمَّا ذَكَرْتَ حَاجَةٌ قَالَ فَأَخْلُو بِكَ قَالَ كُلُّ سِرٍّ لِي عَلانِيَةٌ قَالَ فَأَنْشُدُكَ بِالله الَّذِي هُوَ أَقْرَبُ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِكَ الْحَائِلِ بَيْنَكَ وَبَيْنَ قَلْبِكَ الَّذِي يَعْلَمُ خَائِنَةَ الاعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ أَ تَقَدَّمَ إِلَيْكَ الزُّبَيْرُ بِمَا عَرَضْتُ عَلَيْكَ قَالَ اللهمَّ نَعَمْ قَالَ لَوْ كَتَمْتَ بَعْدَ مَا سَأَلْتُكَ مَا ارْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَأَنْشُدُكَ الله هَلْ عَلَّمَكَ كَلاماً تَقُولُهُ إِذَا أَتَيْتَنِي قَالَ اللهمَّ نَعَمْ قَالَ علي علیہ السلام آيَةَ السُّخْرَةِ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَاقْرَأْهَا فَقَرَأَهَا وَجَعَلَ علي علیہ السلام يُكَرِّرُهَا وَيُرَدِّدُهَا وَيَفْتَحُ عَلَيْهِ إِذَا أَخْطَأَ حَتَّى إِذَا قَرَأَهَا سَبْعِينَ مَرَّةً قَالَ الرَّجُلُ مَا يَرَى أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام أَمْرَهُ بِتَرَدُّدِهَا سَبْعِينَ مَرَّةً ثُمَّ قَالَ لَهُ أَ تَجِدُ قَلْبَكَ اطْمَأَنَّ قَالَ إِي وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ قَالَ فَمَا قَالا لَكَ فَأَخْبَرَهُ فَقَالَ قُلْ لَهُمَا كَفَى بِمَنْطِقِكُمَا حُجَّةً عَلَيْكُمَا وَلَكِنَّ الله لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ زَعَمْتُمَا أَنَّكُمَا أَخَوَايَ فِي الدِّينِ وَابْنَا عَمِّي فِي النَّسَبِ فَأَمَّا النَّسَبُ فَلا أُنْكِرُهُ وَإِنْ كَانَ النَّسَبُ مَقْطُوعاً إِلا مَا وَصَلَهُ الله بِالاسْلامِ وَأَمَّا قَوْلُكُمَا إِنَّكُمَا أَخَوَايَ فِي الدِّينِ فَإِنْ كُنْتُمَا صَادِقَيْنِ فَقَدْ فَارَقْتُمَا كِتَابَ الله عَزَّ وَجَلَّ وَعَصَيْتُمَا أَمْرَهُ بِأَفْعَالِكُمَا فِي أَخِيكُمَا فِي الدِّينِ وَإِلا فَقَدْ كَذَبْتُمَا وَافْتَرَيْتُمَا بِادِّعَائِكُمَا أَنَّكُمَا أَخَوَايَ فِي الدِّينِ وَأَمَّا مُفَارَقَتُكُمَا النَّاسَ مُنْذُ قَبَضَ الله مُحَمَّداً ﷺ فَإِنْ كُنْتُمَا فَارَقْتُمَاهُمْ بِحَقٍّ فَقَدْ نَقَضْتُمَا ذَلِكَ الْحَقَّ بِفِرَاقِكُمَا إِيَّايَ أَخِيراً وَإِنْ فَارَقْتُمَاهُمْ بِبَاطِلٍ فَقَدْ وَقَعَ إِثْمُ ذَلِكَ الْبَاطِلِ عَلَيْكُمَا مَعَ الْحَدَثِ الَّذِي أَحْدَثْتُمَا مَعَ أَنَّ صَفْقَتَكُمَا بِمُفَارَقَتِكُمَا النَّاسَ لَمْ تَكُنْ. إِلا لِطَمَعِ الدُّنْيَا زَعَمْتُمَا وَذَلِكَ قَوْلُكُمَا فَقَطَعْتَ رَجَاءَنَا لا تَعِيبَانِ بِحَمْدِ الله مِنْ دِينِي شَيْئاً وَأَمَّا الَّذِي صَرَفَنِي عَنْ صِلَتِكُمَا فَالَّذِي صَرَفَكُمَا عَنِ الْحَقِّ وَحَمَلَكُمَا عَلَى خَلْعِهِ مِنْ رِقَابِكُمَا كَمَا يَخْلَعُ الْحَرُونُ لِجَامَهُ وَهُوَ الله رَبِّي لا أُشْرِكُ بِهِ شَيْئاً فَلا تَقُولا أَقَلَّ نَفْعاً وَأَضْعَفَ دَفْعاً فَتَسْتَحِقَّا اسْمَ الشِّرْكِ مَعَ النِّفَاقِ وَأَمَّا قَوْلُكُمَا إِنِّي أَشْجَعُ فُرْسَانِ الْعَرَبِ وَهَرْبُكُمَا مِنْ لَعْنِي وَدُعَائِي فَإِنَّ لِكُلِّ مَوْقِفٍ عَمَلاً إِذَا اخْتَلَفَتِ الاسِنَّةُ وَمَاجَتْ لُبُودُ الْخَيْلِ وَمَلا سَحَرَاكُمَا أَجْوَافَكُمَا فَثَمَّ يَكْفِينِيَ الله بِكَمَالِ الْقَلْبِ وَأَمَّا إِذَا أَبَيْتُمَا بِأَنِّي أَدْعُو الله فَلا تَجْزَعَا مِنْ أَنْ يَدْعُوَ عَلَيْكُمَا رَجُلٌ سَاحِرٌ مِنْ قَوْمٍ سَحَرَةٍ زَعَمْتُمَا اللهمَّ أَقْعِصِ الزُّبَيْرَ بِشَرِّ قِتْلَةٍ وَاسْفِكْ دَمَهُ عَلَى ضَلالَةٍ وَعَرِّفْ طَلْحَةَ الْمَذَلَّةَ وَادَّخِرْ لَهُمَا فِي الاخِرَةِ شَرّاً مِنْ ذَلِكَ إِنْ كَانَا ظَلَمَانِي وَافْتَرَيَا عَلَيَّ وَكَتَمَا شَهَادَتَهُمَا وَعَصَيَاكَ وَعَصَيَا رَسُولَكَ فِيَّ قُلْ آمِينَ قَالَ خِدَاشٌ آمِينَ ثُمَّ قَالَ خِدَاشٌ لِنَفْسِهِ وَالله مَا رَأَيْتُ لِحْيَةً قَطُّ أَبْيَنَ خَطَأً مِنْكَ حَامِلَ حُجَّةٍ يَنْقُضُ بَعْضُهَا بَعْضاً لَمْ يَجْعَلِ الله لَهَا مِسَاكاً أَنَا أَبْرَأُ إِلَى الله مِنْهُمَا قَالَ علي (عَلَيْهِ السَّلام) ارْجِعْ إِلَيْهِمَا وَأَعْلِمْهُمَا مَا قُلْتُ قَالَ لا وَالله حَتَّى تَسْأَلَ الله أَنْ يَرُدَّنِي إِلَيْكَ عَاجِلاً وَأَنْ يُوَفِّقَنِي لِرِضَاهُ فِيكَ فَفَعَلَ فَلَمْ يَلْبَثْ أَنِ انْصَرَفَ وَقُتِلَ مَعَهُ يَوْمَ الْجَمَلِ رَحِمَهُ الله۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ خِداش نامے ایک شخص کو طلحہ و زبیر نے امیر المومنین علیہ السلام کے پاس بھیجا اور اس سے کہا کہ ہم تجھے ایک ایسے شخص کے پاس بھیج رہے ہیں جس کو اور جس کے خاندان کو ہم برسوں سے جانتے ہیں کہ وہ سحر و کہانت والے ہیں یعنی معاذ اللہ بڑے فریب دینے والے ہیں اور تو ہمارے لیے ہمارے نفسوں سے زیادہ معتمد ہے اظہار پیغام سے رکنا نہیں اور امر معلوم میں ہمارے دعویٰ کو قوی دلائل سے ثابت کر دینا اور آگاہ رہو کہ یہ شخص اثبات دعویٰ میں بہت بڑا آدمی ہے اس کی دلیلیں تجھے لاجواب نہ کر دیں اور جن چیزوں سے وہ لوگوں کا دل موہ لیتے ہیں اور دامِ فریب میں پھانستے ہیں وہ کھانا پلانا شہد چٹانا اور بدن و سر پر تیل ملوانا ہے اور خلوت میں میٹھی میٹھی باتیں کرنا ہے پس ان کے یہاں کوئی کھانا نہ کھانا ان کے یہاں کا پانی نہ پینا، ان کے شہد و تیل کو ہاتھ نہ لگانا ان سے خلوت نہ کرنا اور پوری پوری طرح ان سے بچے رہنا۔ اللہ کی برکت کے ساتھ جا جب ان کو دیکھنا تو آیہ سخرہ (سورہ اعراف) پڑھنا اور اللہ سے پناہ مانگنا ان کے اور شیطان کے مکر سے۔
جب تو ان کے پاس بیٹھے تو اپنی آنکھ سے اس کی عزت نہ کرنا اور اس سے مانوس نہ ہو جانا ان سے یوں کہنا کہ تمہارے اور دو چچا کے بیٹے ہیں ازروئے قرابت اور قسم دیتے ہیں وہ تم کو اس بارے میں کہ تم ان سے قطع تعلق کرنے والے ہو اور وہ تم سے کہتے ہیں کہ کیا تم نہیں جانتے کہ ہم نے تمہاری خاطر ان لوگوں سے ترک تعلق کیا اور اپنے قبیلہ والوں کی مخالفت مول کی۔ حضرت رسولِ خدا کے انتقال کے بعد لیکن تمہارا یہ حال ہے کہ جب تمہیں تھوڑی سی دولت مل گئی تو تم نے ہماری عزت و حرمت کو ضائع کر دیا اور ہماری امیدوں پر پانی پھیر دیا اور صورت یہ ہے کہ ہمارے افعال کو اپنے معاملہ میں دیکھ چکے ہیں کہ لوگوں سے ساز باز کر کے تم کو نقصان پہنچا ہے اور ہم سےعلیحدگی کی صورت میں تم نے ہماری قوت و طاقت کا اندازہ کر ہی لیا ہے۔
اور ہمارے شہروں کی وسعت تم سے زیادہ ہم تمہارے محکو م نہیں جس شخص نے تمہاری توجہ ہماری طرف سے ہٹائی ہے ہم نے دیکھ لیا کہ وہ تمہیں کس قدر کم نقصان پہنچانے والا ہے اور ہمارا مقابلہ کرنے میں اس کی قوت کس قدر کم ہے۔ اور ہر آنکھ پر ہماری شوکت و قوت ظاہر ہو چکی ہے اور ہمیں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ہماری ہتک و حرمت کرتے ہیں اور ہمارے لیے بد دعا کرتے ہیں پس کس چیز نے آپ کو اس بات پر ابھارا ہے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ عرب کے شہسواروں میں سب سے زیادہ بہار ہیں کیا ہم پر لعن کرنا آپ دینداری جانتے ہیں اور کیا آپ کا یہ خیال ہے کہ یہ لعن کرنا ہماری قوت کو توڑ دے گا۔
جب خداش امیر المومنین کے پاس آیا تو وہی کیا جو ان کے دونوں نے حکم دیا تھا جب امیرالمومنین نے اس کی طرف دیکھا تو وہ اپنے ہونٹوں میں آہستہ آہستہ کچھ پڑھ رہا تھا (آیت مسخرہ) حضرت ہنسے اور فرمایا اے بھائی عبد قیس یہاں آ اور اپنے قریب کی جگہ کا اشارہ کیا۔ اس نے کہا موجودہ جگہ خاصی گنجائش کی ہے میں تو آپ کے پاس ایک پیغام پہنچانے آیا ہوں۔ فرمایا ٹھیک لیکن کچھ کھاؤ پیو کپڑے اتارو تیل کی مالش کرو۔ پھر پیغام بھی پہنچا دینا۔ اے قنبر اٹھ اور اسے مقام ضیافت میں لے چل۔ اس نے کہا اس کی مجھے ضرورت نہیں۔ فرمایا خلوت میں چل کر بات کر اس نے کہا کوئی پوشیدہ راز نہیں کھلم کھلا بات ہے۔ فرمایا میں تجھے قسم دیتا ہوں اس ذات کی جو تیرے نفس سے زیادہ قریب ہے اور تیرے اور تیرے دل کے درمیان حائل ہے اور جو آنکھ کی چوری اور دل کی چھپی ہوئی بات کو جانتا ہے بتا کیا زبیر تیرے پاس نہیں آئے تھے اور جو باتیں میں نے تجھ پر پیش کیں کیا وہ انھوں نے تجھ سے بیان نہیں کیں تھیں اس نے کہا ضرور کی تھیں۔
فرمایا اگر میرے سوال کے بعد تو چھپاتا تو چشم زدن میں مر کے رہ جاتا اب میں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا جب تو میرے پاس آنے والا تھا تجھے زبیر نے وہ باتیں نہیں سکھائیں تھیں جو تو نے بیان کیں۔ اس نے کہا بے شک ایسا ہی ہے۔ فرمایا کیا آیت سخرہ بھی تعلیم دی تھی اس نے کہا اسے بار بار پڑھو اور اس کی غلطی درست کی یہاں تک کہ اس نے ستر بار پڑھا اس نے کہا کیا وجہ ہے کہ امیر المومنین نے ستر بار پڑھوایا۔ حضرت نے فرمایا کیا تو اپنے قلب کو مطمئن پاتا ہے اس نے کہا ضرور قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔
فرمایا اب بیان کر جو انھوں نے کہا سن ان دونوں سے کہہ دینا کہ تماری گفتگو تمہارے اوپر حجت ہونے کو کافی ہے خدا ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا۔ تمہارا گمان ہے کہ تم دونوں میرے دینی بھائی ہو اور ازروئے نسب میرے چچا زاد بھائی ہو۔ رہا نسب کا معاملہ تو میں اس سے انکار نہیں کرتا اگرچہ نسب کا سلسلہ قطع ہو جاتا ہے سوائے اس کے کہ اللہ اس کو بصورت اسلام باقی رکھے اور تم نے جو یہ کہا کہ تم دونوں دین میں میرے بھائی ہو تو اگر تم سچے ہو تو تم نے کتاب اللہ کو کیوں چھوڑا اور اس کے حکم کی نافرمانی کیوں کی اپنے افعال سے اپنی دینی بھائی کے متعلق مگر یہ کہ تم دونوں جھوٹے ہو اور تم نے افترا پردازی کی یہ کہہ کر کہ تم دونوں میرے دینی بھائی ہو اور آنحضرت کے انتقال کے بعد جو تم نے لوگوں کو چھوڑا اور اگر یہ چھوڑنا حق پر تھا تو تم نے اپنے اس حق پر ہونے کو مجھ سے علیحدہ ہو کر توڑ دیا۔ کیا یہ امر خیر تھا اور اگر تم کو چھوڑنا باطل پر تھا تو اس باطل کا گناہ تمہارے اوپر ہوا اور اس کے ساتھ یہ گناہ اور کیا کہ تم نے احداث فی الدین کیا پھر یہ کہ تم نے جو لوگوں کو چھوڑا اور میری طرف آئے تو محض طمع دنیا کے لیے تھا اور یہ تمہارے اس قول سے ظاہر ہے کہ آپ نے ہماری امیدوں کو منقطع کر دیا یعنی جو حکومت کی امید تم نے مجھ سے ملنے میں رکھی تھی وہ پوری نہ ہوئی کیونکہ میں تمہاری حالت کو جانتا ہوں۔ اور امر دین میں بحمد للہ تم مجھ پر کوئی الزام عائد نہ کر سکے اب رہا یہ امر کہ میں نے تم سے قطع رحم کیوں کیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ تم امر حق سے ہٹ گئے اور اس روگردانی کی بناء پر تم نے میری بیعت کو اپنی گردن سے اس طرح نکال پھینکا جیسے ایک سرکش گھوڑا اپنی لگام کو منہ سے نکال دے۔ میرا رب اللہ ہے میں نے کسی چیز کو اکے ساتھ شریک قرار نہیں دیا پس تم مت کہو یہ بات کہ مجھے کم نفع پہنچا اور دفاعی قوت کمزور رہی تم دونوں نفاق کے ساتھ مستحق شریک ہوئے۔
اور تمہارا یہ کہنا کہ میں اشجاع العرب ہوں اور تم میری لعن اور بد دعا سے بچنا چاہتے ہو تو جان لو کہ ہر مقام کے لیے ایک جداگانہ عمل ہوتا ہے جس وقت میدان جنگ میں سنائیں ٹکرا رہی ہوں اور گھوڑوں کی گردنوں کے بال کھڑے ہوں اور تمہارے پھیپھڑے پھولے ہوئے ہوں تو اس وقت خدا میرے قلب میں قوت دیتا ہے اور میں ڈٹ کر جنگ کرتا ہوں۔ لیکن جب تم نے امر حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تو پھر میں نے خدا سے دعا کی پس اب اس شخص کی بد دعا سے گھبراتے کیوں ہو جو تمہارے گمان میں ایک مرد ساحر ہے اور جادوگروں کی قوم سے ہے۔ خدایا جلد ہلاک کر زبیر کو بدترین ہلاکت کے ساتھ اور گمراہی کی حالت میں اس کا خون بہا اور طلحہ کو ذلت کے ساتھ مار اور آخرت میں ان دونوں کو بدترین عذاب میں مبتلا کر اگر ان دونوں نے مجھ پر ظلم کیا ہے اور مجھ پر افترا پردازی کی ہے اور میرے بارے میں ان دونوں نے اپنی گواہیوں کو چھپایا ہے اور تیری اور تیرے رسول کی نافرمانی کی ہے میرے بارے میں۔ خداش سے کہا کہو آمین۔ اس نے آمین کہی اور اپنے دل میں کہنے لگا واللہ میں نے آپ سے زیادہ الزام ہٹانے والا نہیں دیکھا۔ آپ نے ان کی ایک ایک دلیل توڑ کر رکھ دی۔ میں ان دونوں سے برات چاہتا ہوں۔ حضرت نے فرمایا واپس جا اور جو میں نے کہا ہے وہ انھیں سنا دے۔ اس نے کہا جب جاؤں گا کہ جب آپ خدا سے یہ دعا کریں کہ وہ مجھے آپ کے پاس واپس لائے جلد اور مجھے توفیق دے کہ میں آپ کے بارے میں اس کی مرضی حاصل کروں ۔ پس حضرت نے دعا کی وہ گیا اور واپس آ گیا اور جنگ جمل میں شہید ہوا اللہ اس پر رحم کرے۔
عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ وَأَبُو عَلِيٍّ الاشْعَرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَسَّانَ جَمِيعاً عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ نَصْرِ بْنِ مُزَاحِمٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ عَنْ جَرَّاحِ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ رَافِعِ بْنِ سَلَمَةَ قَالَ كُنْتُ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ صَلَوَاتُ الله عَلَيْهِ يَوْمَ النَّهْرَوَانِ فَبَيْنَا علي علیہ السلام جَالِسٌ إِذْ جَاءَ فَارِسٌ فَقَالَ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا عَلِيُّ فَقَالَ لَهُ علي علیہ السلام وَعَلَيْكَ السَّلامُ مَا لَكَ ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ لَمْ تُسَلِّمْ عَلَيَّ بِإِمْرَةِ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ بَلَى سَأُخْبِرُكَ عَنْ ذَلِكَ كُنْتُ إِذْ كُنْتَ عَلَى الْحَقِّ بِصِفِّينَ فَلَمَّا حَكَّمْتَ الْحَكَمَيْنِ بَرِئْتُ مِنْكَ وَسَمَّيْتُكَ مُشْرِكاً فَأَصْبَحْتُ لا أَدْرِي إِلَى أَيْنَ أَصْرِفُ وَلايَتِي وَالله لانْ أَعْرِفَ هُدَاكَ مِنْ ضَلالَتِكَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا فَقَالَ لَهُ علي علیہ السلام ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ قِفْ مِنِّي قَرِيباً أُرِيكَ عَلامَاتِ الْهُدَى مِنْ عَلامَاتِ الضَّلالَةِ فَوَقَفَ الرَّجُلُ قَرِيباً مِنْهُ فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ أَقْبَلَ فَارِسٌ يَرْكُضُ حَتَّى أَتَى عَلِيّاً علیہ السلام فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَبْشِرْ بِالْفَتْحِ أَقَرَّ الله عَيْنَكَ قَدْ وَالله قُتِلَ الْقَوْمُ أَجْمَعُونَ فَقَالَ لَهُ مِنْ دُونِ النَّهَرِ أَوْ مِنْ خَلْفِهِ قَالَ بَلْ مِنْ دُونِهِ فَقَالَ كَذَبْتَ وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ لا يَعْبُرُونَ أَبَداً حَتَّى يُقْتَلُوا فَقَالَ الرَّجُلُ فَازْدَدْتُ فِيهِ بَصِيرَةً فَجَاءَ آخَرُ يَرْكُضُ عَلَى فَرَسٍ لَهُ فَقَالَ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ فَرَدَّ عَلَيْهِ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام مِثْلَ الَّذِي رَدَّ عَلَى صَاحِبِهِ قَالَ الرَّجُلُ الشَّاكُّ وَهَمَمْتُ أَنْ أَحْمِلَ عَلَى علي علیہ السلام فَأَفْلَقَ هَامَتَهُ بِالسَّيْفِ ثُمَّ جَاءَ فَارِسَانِ يَرْكُضَانِ قَدْ أَعْرَقَا فَرَسَيْهِمَا فَقَالا أَقَرَّ الله عَيْنَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَبْشِرْ بِالْفَتْحِ قَدْ وَالله قُتِلَ الْقَوْمُ أَجْمَعُونَ فَقَالَ علي علیہ السلام أَ مِنْ خَلْفِ النَّهَرِ أَوْ مِنْ دُونِهِ قَالا لا بَلْ مِنْ خَلْفِهِ إِنَّهُمْ لَمَّا اقْتَحَمُوا خَيْلَهُمُ النَّهْرَوَانَ وَضَرَبَ الْمَاءُ لَبَّاتِ خُيُولِهِمْ رَجَعُوا فَأُصِيبُوا فَقَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام صَدَقْتُمَا فَنَزَلَ الرَّجُلُ عَنْ فَرَسِهِ فَأَخَذَ بِيَدِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام وَبِرِجْلِهِ فَقَبَّلَهُمَا فَقَالَ علي علیہ السلام هَذِهِ لَكَ آيَةٌ۔
رافع بن سلمہ سے مروی ہے کہ میں علی بن ابی طالب کی خدمت میں یوم نہروان حاضر تھا جبکہ حضرت علی بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک گھڑ سوار آیا اور کہنے لگا اسلام علیک یا علی۔ حضرت نے فرمایا تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے تو نے امیر المومنین کہہ کر سلام کیوں نہ کیا۔ اس نے کہا میں اس کی وجہ بتاتا ہوں آپ امیر المومنین اس وقت تھے جب تک آپ صفین میں حق پر لڑ رہے تھے مگر جب آپ حکمین (ابو موسیٰ اور عمر بن عاص) کے فیصلہ پر راضی ہو گئے تو میں آپ سے الگ ہو گیا اور آپ کا نام میں نے مشرک رکھا پس اس وقت سے میں نہیں جانتا کہ کس کی محبت کی طرف لوٹوں میرے نزدیک دنیا و مافیہا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب بہ نسبت آپ کی ضلالت کے آپ کی ہدایت ہے۔ حضرت نے فرمایا تیری ماں تیرے ماتم میں بیٹھے میرے قریب آ تاکہ میں تجھے علامات ہدایت دکھلاؤں ۔ وہ شخص حضرت کے قریب آ گیا۔ ناگاہ ایک شخص گھوڑے کو مہمیز کرتا آیا اور کہنے لگا یا امیر المومنین فتح کی بشارت ہو اور خدا آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈا کر دے۔ واللہ تمام قوم قتل ہو گئی۔ فرمایا نہر کے اس پار یا اس پار۔ اس نے کہا اس پار۔ فرمایا تو جھوٹا ہے قسم خدا کی جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور ہواؤں کو چلایا وہ ہرگز نہر کو عبور نہ کریں گے کہ وہ قتل ہو جائیں۔ اس پہلے شخص نے پوچھا چلو یہ اچھا موقع حضرت کی صداقت جاننے کا ملا۔ کچھ دیر بعد ایک شخص اور گھوڑا کداتا آیا اور اس نے بھی ایسا بیان کیا۔ حضرت نے اس کے متعلق بھی وہی فرمایا۔ اس شک کرنے والے آدمی نے کہا میں نے ارادہ کیا کہ میں علی پر حملہ کر کے ان کا سر تلوار سے جدا کر دوں۔
پھر دو سوار گھوڑے کداتے آئے ان کے دونوں گھوڑے پسینے پسینے ہو رہے تھے۔ انھوں نے کہا اے امیر المومنین اللہ آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈا رکھے واللہ تمام قوم قتل ہو گئی۔ حضرت نے فرمایا نہر کے اس پار یا اس پار انھوں نے جواب میں کہا کہ اس پار۔ جب انھوں نے نہر میں اپنے گھوڑے ڈالے اور پانی ان کے گھوڑوں کے سینوں تک آ گیا تو پلٹ پڑے اور مصیبت میں مبتلا ہوئے۔ امیر المومنین نے فرمایا تم نے سچ کیا۔ پس وہ شخص گھوڑے سے اترا اور حضرت کے ہاتھ اور پیر کو بوسہ دیا۔ حضرت نے فرمایا تیرے لیے ہماری صداقت کا یہی نشان ہے۔
عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِي عَلِيٍّ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ الْقَاسِمِ الْعِجْلِيِّ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ يَحْيَى الْمَعْرُوفِ بِكُرْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خُدَاهِيِّ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ أَيُّوبَ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ هَاشِمٍ عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ بْنِ عَمْرٍو الْخَثْعَمِيِّ عَنْ حَبَابَةَ الْوَالِبِيَّةِ قَالَتْ رَأَيْتُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام فِي شُرْطَةِ الْخَمِيسِ وَمَعَهُ دِرَّةٌ لَهَا سَبَابَتَانِ يَضْرِبُ بِهَا بَيَّاعِي الْجِرِّيِّ وَالْمَارْمَاهِي وَالزِّمَّارِ وَيَقُولُ لَهُمْ يَا بَيَّاعِي مُسُوخِ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَجُنْدِ بَنِي مَرْوَانَ فَقَامَ إِلَيْهِ فُرَاتُ بْنُ أَحْنَفَ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَمَا جُنْدُ بَنِي مَرْوَانَ قَالَ فَقَالَ لَهُ أَقْوَامٌ حَلَقُوا اللِّحَى وَفَتَلُوا الشَّوَارِبَ فَمُسِخُوا فَلَمْ أَرَ نَاطِقاً أَحْسَنَ نُطْقاً مِنْهُ ثُمَّ اتَّبَعْتُهُ فَلَمْ أَزَلْ أَقْفُو أَثَرَهُ حَتَّى قَعَدَ فِي رَحَبَةِ الْمَسْجِدِ فَقُلْتُ لَهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَا دَلالَةُ الامَامَةِ يَرْحَمُكَ الله قَالَتْ فَقَالَ ائْتِينِي بِتِلْكِ الْحَصَاةِ وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى حَصَاةٍ فَأَتَيْتُهُ بِهَا فَطَبَعَ لِي فِيهَا بِخَاتَمِهِ ثُمَّ قَالَ لِي يَا حَبَابَةُ إِذَا ادَّعَى مُدَّعٍ الامَامَةَ فَقَدَرَ أَنْ يَطْبَعَ كَمَا رَأَيْتِ فَاعْلَمِي أَنَّهُ إِمَامٌ مُفْتَرَضُ الطَّاعَةِ وَالامَامُ لا يَعْزُبُ عَنْهُ شَيْءٌ يُرِيدُهُ قَالَتْ ثُمَّ انْصَرَفْتُ حَتَّى قُبِضَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام فَجِئْتُ إِلَى الْحَسَنِ علیہ السلام وَهُوَ فِي مَجْلِسِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام وَالنَّاسُ يَسْأَلُونَهُ فَقَالَ يَا حَبَابَةُ الْوَالِبِيَّةُ فَقُلْتُ نَعَمْ يَا مَوْلايَ فَقَالَ هَاتِي مَا مَعَكِ قَالَ فَأَعْطَيْتُهُ فَطَبَعَ فِيهَا كَمَا طَبَعَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام قَالَتْ ثُمَّ أَتَيْتُ الْحُسَيْنَ علیہ السلام وَهُوَ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ الله ﷺ فَقَرَّبَ وَرَحَّبَ ثُمَّ قَالَ لِي إِنَّ فِي الدَّلالَةِ دَلِيلاً عَلَى مَا تُرِيدِينَ أَ فَتُرِيدِينَ دَلالَةَ الامَامَةِ فَقُلْتُ نَعَمْ يَا سَيِّدِي فَقَالَ هَاتِي مَا مَعَكِ فَنَاوَلْتُهُ الْحَصَاةَ فَطَبَعَ لِي فِيهَا قَالَتْ ثُمَّ أَتَيْتُ عَلِيَّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) وَقَدْ بَلَغَ بِيَ الْكِبَرُ إِلَى أَنْ أُرْعِشْتُ وَأَنَا أَعُدُّ يَوْمَئِذٍ مِائَةً وَثَلاثَ عَشْرَةَ سَنَةً فَرَأَيْتُهُ رَاكِعاً وَسَاجِداً وَمَشْغُولاً بِالْعِبَادَةِ فَيَئِسْتُ مِنَ الدَّلالَةِ فَأَوْمَأَ إِلَيَّ بِالسَّبَّابَةِ فَعَادَ إِلَيَّ شَبَابِي قَالَتْ فَقُلْتُ يَا سَيِّدِي كَمْ مَضَى مِنَ الدُّنْيَا وَكَمْ بَقِيَ فَقَالَ أَمَّا مَا مَضَى فَنَعَمْ وَأَمَّا مَا بَقِيَ فَلا قَالَتْ ثُمَّ قَالَ لِي هَاتِي مَا مَعَكِ فَأَعْطَيْتُهُ الْحَصَاةَ فَطَبَعَ لِي فِيهَا ثُمَّ أَتَيْتُ أَبَا جَعْفَرٍ علیہ السلام فَطَبَعَ لِي فِيهَا ثُمَّ أَتَيْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام فَطَبَعَ لِي فِيهَا ثُمَّ أَتَيْتُ أَبَا الْحَسَنِ مُوسَى علیہ السلام فَطَبَعَ لِي فِيهَا ثُمَّ أَتَيْتُ الرِّضَا علیہ السلام فَطَبَعَ لِي فِيهَا وَعَاشَتْ حَبَابَةُ بَعْدَ ذَلِكَ تِسْعَةَ أَشْهُرٍ عَلَى مَا ذَكَرَ مُحَمَّدُ بْنُ هِشَامٍ۔
حبابہ سے مروی ہے کہ میں نے امیر المومنین علی علیہ السلام کو دیکھا کہ لشکر کے سپاہیوں کے ساتھ ہیں اور آپ کے ہاتھ میں دو سر والا کوڑا ہے اور آپ جری مارماہی اور ژمار (بے سین والی مچھلیاں) فروخت کرنے والوں سے فرما رہے ہٰں (اے بنی اسرائیل کے مسوخات بیچنے والو) اے بنی مروان کے لشکریو۔ فرات بن احنف نے پوچھا اے امیر الموممنین بن مروان کا لشکر کیسا۔ فرمایا مراد وہ لوگ ہیں جو داڑھی منڈاتے ہیں اور مونچھوں پر بل دیتے ہیں پس وہ لوگ صورت کے لحاظ سے مسخ ہو گئے (مروان کے لشکر میں ایسے ہی لوگ تھے) میں دیکھا کہ حضرت علی سے بہتر ازروئے نطق کوئی نہیں۔ پھر میں حضرت کے پیچھے لگی رہی۔ جب حضرت مسجد کے چبوترے پر بیٹھے تو میں نے کہا اے امیر المومنین دلالت امامت کیا ہے۔ فرمایا یہ کنکری اٹھا اور اپنے ہاتھ سے ایک کنکری کی طرف اشارہ کیا۔ حضرت نے اس پر مہر لگائی وہ پتھروں میں بیٹھ گئی۔ پھر فرمایا اے حبابہ کوئی مدعی امامت ہو تو اس سے کہو کہ اس پتھر پر مہر لگا دے جیسے میں نے مہر لگا دی ہے اگر لگا دے تو سمجھنا کہ وہ امام ہے اور مفترض الطاعت ہے اور امام جس چیز کا ارادہ کرتا ہے وہ شے اس سے پوشیدہ نہیں رہتی۔ حبابہ کہتی ہے میں حضرت کے انتقال کے بعد امام حسن کی پاس آئی آپ امیر المومنین کی جگہ بیٹھے تھے اور لوگ آپ سے سوال کر رہے تھے۔ مجھ سے فرمایا اے حبابہ لا جو تیرے پاس ہے میں نے وہ پتھر کا ٹکڑا دے دیا۔ حضرت نے اس پر اسی طرح مہر لگا دی جس طرح امیر المومنین نے لگائی تھی۔ پھر میں امام حسن کے بعد امام حسین کی خدمت میں آئی آپ اس وقت مسجد نبوی میں تھے پس حضرت نے مجھے اپنے پاس بلایا اور مرحبا کہا۔ پھر فرمایا جو میں نے ارادہ کیا ہے اس کی دلالت میں ایک دلیل ہے کیا تیرا ارادہ دلیل امامت معلوم کرنے کا نہیں۔ میں نے کہا ضرور میرے سید و مولا۔ فرمایا جو تیرے پاس ہے میں نے وہی پتھری نکال کر دی۔ آپ نے اس پر مہر لگا دی پھر میں علی بن الحسین کے پاس آئی اور اب بڑھاپے کی وجہ سے رعشہ تھا ور میری عمر ایک سو تیرہ برس کی ہو گئی تھی۔ میں نے امام علیہ السلام کو رکوع و سجود اور عبادت میں مشغول پایا پس میں دلالت سے مایوس ہوئی حضرت نے انگشت شہادت سے اشارہ کیا۔ پس میرا شباب لوٹ آیا میں نے کہا میرے آقا میری عمر کتنی گز گئی اور کتنی باقی ہے۔ فرمایا گزری کو بتا دوں گا باقی کو نہیں بتاؤں گا۔
پھر فرمایا جو تیرے پاس ہے وہ لا میں نے وہ پتھر دیا آپ نے اس پر مہر لگائی پھر میں امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں آئی آپ نے بھی مہر لگا دی پھر میں امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس آئی انھوں نے بھی مہر لگا دی پھر امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے پاس آئی انھوں نے بھی مہر لگا دی پھر امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں آئی انھوں نے بھی مہر لگا دی اس کے بعد جیسا کہ محمد بن ہاشم نے ذکر کیا ہے حبابہ نو ماہ تک اور زندہ رہی ۔
مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الله وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ مُحَمَّدٍ النَّخَعِيِّ عَنْ أَبِي هَاشِمٍ دَاوُدَ بْنِ الْقَاسِمِ الْجَعْفَرِيِّ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ أَبِي مُحَمَّدٍ علیہ السلام فَاسْتُؤْذِنَ لِرَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ عَلَيْهِ فَدَخَلَ رَجُلٌ عَبْلٌ طَوِيلٌ جَسِيمٌ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ بِالْوَلايَةِ فَرَدَّ عَلَيْهِ بِالْقَبُولِ وَأَمَرَهُ بِالْجُلُوسِ فَجَلَسَ مُلاصِقاً لِي فَقُلْتُ فِي نَفْسِي لَيْتَ شِعْرِي مَنْ هَذَا فَقَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ علیہ السلام هَذَا مِنْ وُلْدِ الاعْرَابِيَّةِ صَاحِبَةِ الْحَصَاةِ الَّتِي طَبَعَ آبَائِي (عَلَيْهم السَّلام) فِيهَا بِخَوَاتِيمِهِمْ فَانْطَبَعَتْ وَقَدْ جَاءَ بِهَا مَعَهُ يُرِيدُ أَنْ أَطْبَعَ فِيهَا ثُمَّ قَالَ هَاتِهَا فَأَخْرَجَ حَصَاةً وَفِي جَانِبٍ مِنْهَا مَوْضِعٌ أَمْلَسُ فَأَخَذَهَا أَبُو مُحَمَّدٍ علیہ السلام ثُمَّ أَخْرَجَ خَاتَمَهُ فَطَبَعَ فِيهَا فَانْطَبَعَ فَكَأَنِّي أَرَى نَقْشَ خَاتَمِهِ السَّاعَةَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ فَقُلْتُ لِلْيَمَانِيِّ رَأَيْتَهُ قَبْلَ هَذَا قَطُّ قَالَ لا وَالله وَإِنِّي لَمُنْذُ دَهْرٍ حَرِيصٌ عَلَى رُؤْيَتِهِ حَتَّى كَانَ السَّاعَةَ أَتَانِي شَابٌّ لَسْتُ أَرَاهُ فَقَالَ لِي قُمْ فَادْخُلْ فَدَخَلْتُ ثُمَّ نَهَضَ الْيَمَانِيُّ وَهُوَ يَقُولُ رَحْمَةُ الله وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ أَشْهَدُ بِالله إِنَّ حَقَّكَ لَوَاجِبٌ كَوُجُوبِ حَقِّ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام وَالائِمَّةِ مِنْ بَعْدِهِ صَلَوَاتُ الله عَلَيْهِمْ أَجْمَعِينَ ثُمَّ مَضَى فَلَمْ أَرَهُ بَعْدَ ذَلِكَ قَالَ إِسْحَاقُ قَالَ أَبُو هَاشِمٍ الْجَعْفَرِيُّ وَسَأَلْتُهُ عَنِ اسْمِهِ فَقَالَ اسْمِي مِهْجَعُ بْنُ الصَّلْتِ بْنِ عُقْبَةَ بْنِ سِمْعَانَ بْنِ غَانِمِ ابْنِ أُمِّ غَانِمٍ وَهِيَ الاعْرَابِيَّةُ الْيَمَانِيَّةُ صَاحِبَةُ الْحَصَاةِ الَّتِي طَبَعَ فِيهَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام وَالسِّبْطُ إِلَى وَقْتِ أَبِي الْحَسَنِ۔
راوی کہتا ہے کہ میں امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا کہ یمن کے ایک شخص نے داخلہ چاہا۔ حضرت نے اجازت دے دی۔ ایک شخص لمبا ترنگا موٹا تازہ اندر آیا اور سلام کیا۔ اسلام علیک اے ولی اللہ ۔ حضرت نے جواب سلام دے کر بیٹھنے کا حکم دیا وہ مجھ سے مل کر بیٹھا مجھے فکر ہوئی کہ یہ کون ہے۔ حضرت نے فرمایا یہ اولاد اس عربی عورت کی ہے جو صاحب حصاۃ تھی اور جس کے پتھر پر میرے آبا و اجداد نے مہریں لگائیں اور وہ مہر پتھر میں بیٹھ گئی یہ اس پتھر کو لے کر آیا ہے تاکہ میں بھی مہر لگاؤں۔ پھر اس سے فرمایا اسے لا پس اس نے پتھر نکالا اس میں ایک جگہ خالی تھی۔ حضرت نے اسے لے لیا اور اپنی انگوٹھی نکال کر اس پر مہر لگائی جو اس کے اوپر در آئی۔ گویا میں یہ نقش اس پر دیکھ رہا تھا الحسن بن علی۔
میں نے اس مرد یمنی سے کہا کیا تم نے امام علیہ السلام کو اس سے پہلے کبھی دیکھا تھا۔ اس نے کہا کبھی نہیں میں ایک مدت سے حضرت کی زیارت کا مشتاق تھا ناگاہ ابھی ایک جوان آیا جس کو میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا اس نے مجھ سے کہا اندر آ پس میں آ گیا۔ پھر وہ یمنی یہ کہتا ہوا اٹھا اللہ کی رحمت اور برکت ہو تم پر اے اہلبیت ذریت بعضھا من بعض یعنی ایک کو دوسرے پر فضیلت ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کا حق اسی طرح واجب ہے جس طرح حق امیر المومنین اور حق دیگر آئمہ خدا کا ان سب پر درود و سلام ہو۔ پھر وہ چلا گیا اور پھر کسی نے اس کو نہ دیکھا۔ اسحاق راوی ہے کہ ابو ہاشم جعفری نے فرمایا میں نے اس کا نام پوچھا۔ اس نے کہا میرا نام مہج ابن صلت بن عقبہ بن سمان بن غانم بن ام خانم ہے اور یہ وہی زن عربیہ ہے جس کو صاحب الحصاۃ کہتے ہیں اس کے پتھر پر مہر لگائی امیر المومنین علیہ السلام سے لیکر امام حسن عسکری علیہ السلام تک آئمہ نے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ رِئَابٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ وَزُرَارَةَ جَمِيعاً عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ لَمَّا قُتِلَ الْحُسَيْنُ علیہ السلام أَرْسَلَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَنَفِيَّةِ إِلَى عَلِيِّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) فَخَلا بِهِ فَقَالَ لَهُ يَا ابْنَ أَخِي قَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ الله ﷺ دَفَعَ الْوَصِيَّةَ وَالامَامَةَ مِنْ بَعْدِهِ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام ثُمَّ إِلَى الْحَسَنِ علیہ السلام ثُمَّ إِلَى الْحُسَيْنِ علیہ السلام وَقَدْ قُتِلَ أَبُوكَ رَضِيَ الله عَنْهُ وَصَلَّى عَلَى رُوحِهِ وَلَمْ يُوصِ وَأَنَا عَمُّكَ وَصِنْوُ أَبِيكَ وَوِلادَتِي مِنْ علي علیہ السلام فِي سِنِّي وَقَدِيمِي أَحَقُّ بِهَا مِنْكَ فِي حَدَاثَتِكَ فَلا تُنَازِعْنِي فِي الْوَصِيَّةِ وَالامَامَةِ وَلا تُحَاجَّنِي فَقَالَ لَهُ عَلِيُّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) يَا عَمِّ اتَّقِ الله وَلا تَدَّعِ مَا لَيْسَ لَكَ بِحَقٍّ إِنِّي أَعِظُكَ أَنْ تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ إِنَّ أَبِي يَا عَمِّ صَلَوَاتُ الله عَلَيْهِ أَوْصَى إِلَيَّ قَبْلَ أَنْ يَتَوَجَّهَ إِلَى الْعِرَاقِ وَعَهِدَ إِلَيَّ فِي ذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يُسْتَشْهَدَ بِسَاعَةٍ وَهَذَا سِلاحُ رَسُولِ الله ﷺ عِنْدِي فَلا تَتَعَرَّضْ لِهَذَا فَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكَ نَقْصَ الْعُمُرِ وَتَشَتُّتَ الْحَالِ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَ الْوَصِيَّةَ وَالامَامَةَ فِي عَقِبِ الْحُسَيْنِ علیہ السلام فَإِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَعْلَمَ ذَلِكَ فَانْطَلِقْ بِنَا إِلَى الْحَجَرِ الاسْوَدِ حَتَّى نَتَحَاكَمَ إِلَيْهِ وَنَسْأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام وَكَانَ الْكَلامُ بَيْنَهُمَا بِمَكَّةَ فَانْطَلَقَا حَتَّى أَتَيَا الْحَجَرَ الاسْوَدَ فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ لِمُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ ابْدَأْ أَنْتَ فَابْتَهِلْ إِلَى الله عَزَّ وَجَلَّ وَسَلْهُ أَنْ يُنْطِقَ لَكَ الْحَجَرَ ثُمَّ سَلْ فَابْتَهَلَ مُحَمَّدٌ فِي الدُّعَاءِ وَسَأَلَ الله ثُمَّ دَعَا الْحَجَرَ فَلَمْ يُجِبْهُ فَقَالَ عَلِيُّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) يَا عَمِّ لَوْ كُنْتَ وَصِيّاً وَإِمَاماً لاجَابَكَ قَالَ لَهُ مُحَمَّدٌ فَادْعُ الله أَنْتَ يَا ابْنَ أَخِي وَسَلْهُ فَدَعَا الله عَلِيُّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) بِمَا أَرَادَ ثُمَّ قَالَ أَسْأَلُكَ بِالَّذِي جَعَلَ فِيكَ مِيثَاقَ الانْبِيَاءِ وَمِيثَاقَ الاوْصِيَاءِ وَمِيثَاقَ النَّاسِ أَجْمَعِينَ لَمَّا أَخْبَرْتَنَا مَنِ الْوَصِيُّ وَالامَامُ بَعْدَ الْحُسَيْنِ بن علي (عَلَيْهما السَّلام) قَالَ فَتَحَرَّكَ الْحَجَرُ حَتَّى كَادَ أَنْ يَزُولَ عَنْ مَوْضِعِهِ ثُمَّ أَنْطَقَهُ الله عَزَّ وَجَلَّ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ فَقَالَ اللهمَّ إِنَّ الْوَصِيَّةَ وَالامَامَةَ بَعْدَ الْحُسَيْنِ بن علي (عَلَيْهما السَّلام) إِلَى عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَابْنِ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ الله ﷺ قَالَ فَانْصَرَفَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ وَهُوَ يَتَوَلَّى عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ (عَلَيْهما السَّلام ) عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) مِثْلَهُ۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا جب امام حسین شہید ہو گئے تو محمد حنفیہ نے ایک روز خلوت میں امام زین العابدین علیہ السلام سے کہا اے پسر برادر تم کو معلوم ہے کہ رسول اللہ نے اپنے بعد وصیت و امامت امیر المومنین کے سپرد کی۔ پھر انھوں نے امام حسن کو دی اور امام حسن نے امام حسین اور تمہارے پدر بزرگوار نے خدا کا درود اور رحمت ہو ان پر کہ وہ شہید ہوئے اور انھوں نے اپنا وصی کسی کو نہیں بنایا اور میں تمہارا چچا ہوں تمہارے باپ کا بھائی ہوں اور علی کا بیٹا بلحاط عمر تم سے بڑا ہوں پس امر وصیت اور امر امامت میں مجھ سے جھگڑا نہ کرو۔ حضرت علی بن الحسین نے فرمایا اے چچا اللہ سے ڈرو اور اس چیز کا دعویٰ نہ کرو جس کے تم حق دار نہیں ہو۔ میں نصیحت کرتا ہوں کہ تم جاہلوں میں نہ بنو۔ بے شک اے چچا میرے باپ نے خدا کی رحمت ہو ان پر عراق جانے سے پہلے میرے لیے وصیت فرمائی تھی اور شہادت سے کچھ دیر قبل یہ عہد میرے سپرد کیا تھا۔ یہ رسول اللہ کے تبرکات ہیں ان میں مجھ سے جھگڑا نہ کرو۔ مجھے ڈر ہے کہیں تمہاری عمر کم نہ ہو جائے اور حال تباہ نہ ہو۔ خدا نے وصیت اور وراثت کو اولاد حسین میں قرار دیا ہے اگر تم یہ جاننا چاہتے ہو تو میرے ساتھ حجر اسود کے پاس چلو تا کہ ہم اس کا فیصلہ کرائیں اور اس بارے میں سوال کریں امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ بات مکہ میں ہوئی پس دونوں چلے۔ جب حجر اسود کے پاس آئے تو علی بن الحسین نے فرمایا اب آپ اللہ کی طرف رجوع کیجیے اور درخواست کیجیے کہ وہ حجر اسود کو ناطق کر دے۔ پس محمد نے ایسا ہی کیا اور حجر اسود سے سوال کیا۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا ۔ تب علی بن الحسین نے فرمایا اے چچا اگر آپ وصی و امام ہوتے تو یہ ضرور جواب دیتا۔ انھوں نے کہا اب تم بھی ایسا کرو جب حضرت علی بن الحسین نے خدا سے دعا کی پھر فرمایا میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس ذات کے واسطہ سے جس نے قرار دیا تجھ میں میثاق انبیاء و اوصیاء اور تمام لوگوں کے میثاق کو کہ خبر دے مجھ کو اس امر کی کہ حسین علیہ السلام کے بعد وصی اور امام کون ہے ۔ راوی کہتا ہے کہ حجر کو اس زور سے حرکت ہوئی گویا وہ اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا۔ پھر خدا نے اس کو گویا کیا اور اس نے واضح عربی میں کہا خدا گواہ ہے کہ علی بن الحسین علیہ السلام وصی اور امام ہیں یہ سن کر محمد حنفیہ علی بن الحسین کی امامت کے قائل ہو گئے۔ ایسی ہی روایت علی بن ابراہیم نے اپنے باپ سے اس نے حماد بن عیسیٰ سے اس نے حریز سے اس نے زرارہ سے اس نے امام جعفر صادق سے بیان کی ہے۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ الْمُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ أَخْبَرَنِي سَمَاعَةُ بْنُ مِهْرَانَ قَالَ أَخْبَرَنِي الْكَلْبِيُّ النَّسَّابَةُ قَالَ دَخَلْتُ الْمَدِينَةَ وَلَسْتُ أَعْرِفُ شَيْئاً مِنْ هَذَا الامْرِ فَأَتَيْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا جَمَاعَةٌ مِنْ قُرَيْشٍ فَقُلْتُ أَخْبِرُونِي عَنْ عَالِمِ أَهْلِ هَذَا الْبَيْتِ فَقَالُوا عَبْدُ الله بْنُ الْحَسَنِ فَأَتَيْتُ مَنْزِلَهُ فَاسْتَأْذَنْتُ فَخَرَجَ إِلَيَّ رَجُلٌ ظَنَنْتُ أَنَّهُ غُلامٌ لَهُ فَقُلْتُ لَهُ اسْتَأْذِنْ لِي عَلَى مَوْلاكَ فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ لِيَ ادْخُلْ فَدَخَلْتُ فَإِذَا أَنَا بِشَيْخٍ مُعْتَكِفٍ شَدِيدِ الاجْتِهَادِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ لِي مَنْ أَنْتَ فَقُلْتُ أَنَا الْكَلْبِيُّ النَّسَّابَةُ فَقَالَ مَا حَاجَتُكَ فَقُلْتُ جِئْتُ أَسْأَلُكَ فَقَالَ أَ مَرَرْتَ بِابْنِي مُحَمَّدٍ قُلْتُ بَدَأْتُ بِكَ فَقَالَ سَلْ فَقُلْتُ أَخْبِرْنِي عَنْ رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِهِ أَنْتِ طَالِقٌ عَدَدَ نُجُومِ السَّمَاءِ فَقَالَ تَبِينُ بِرَأْسِ الْجَوْزَاءِ وَالْبَاقِي وِزْرٌ عَلَيْهِ وَعُقُوبَةٌ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي وَاحِدَةٌ فَقُلْتُ مَا يَقُولُ الشَّيْخُ فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ فَقَالَ قَدْ مَسَحَ قَوْمٌ صَالِحُونَ وَنَحْنُ أَهْلَ الْبَيْتِ لا نَمْسَحُ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي ثِنْتَانِ فَقُلْتُ مَا تَقُولُ فِي أَكْلِ الْجِرِّيِّ أَ حَلالٌ هُوَ أَمْ حَرَامٌ فَقَالَ حَلالٌ إِلا أَنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ نَعَافُهُ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي ثَلاثٌ فَقُلْتُ فَمَا تَقُولُ فِي شُرْبِ النَّبِيذِ فَقَالَ حَلالٌ إِلا أَنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ لا نَشْرَبُهُ فَقُمْتُ فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِهِ وَأَنَا أَقُولُ هَذِهِ الْعِصَابَةُ تَكْذِبُ عَلَى أَهْلِ هَذَا الْبَيْتِ فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَنَظَرْتُ إِلَى جَمَاعَةٍ مِنْ قُرَيْشٍ وَغَيْرِهِمْ مِنَ النَّاسِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِمْ ثُمَّ قُلْتُ لَهُمْ مَنْ أَعْلَمُ أَهْلِ هَذَا الْبَيْتِ فَقَالُوا عَبْدُ الله بْنُ الْحَسَنِ فَقُلْتُ قَدْ أَتَيْتُهُ فَلَمْ أَجِدْ عِنْدَهُ شَيْئاً فَرَفَعَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ رَأْسَهُ فَقَالَ ائْتِ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ (عَلَيْهما السَّلام) فَهُوَ أَعْلَمُ أَهْلِ هَذَا الْبَيْتِ فَلامَهُ بَعْضُ مَنْ كَانَ بِالْحَضْرَةِ فَقُلْتُ إِنَّ الْقَوْمَ إِنَّمَا مَنَعَهُمْ مِنْ إِرْشَادِي إِلَيْهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ الْحَسَدُ فَقُلْتُ لَهُ وَيْحَكَ إِيَّاهُ أَرَدْتُ فَمَضَيْتُ حَتَّى صِرْتُ إِلَى مَنْزِلِهِ فَقَرَعْتُ الْبَابَ فَخَرَجَ غُلامٌ لَهُ فَقَالَ ادْخُلْ يَا أَخَا كَلْبٍ فَوَ الله لَقَدْ أَدْهَشَنِي فَدَخَلْتُ وَأَنَا مُضْطَرِبٌ وَنَظَرْتُ فَإِذَا شَيْخٌ عَلَى مُصَلىً بِلا مِرْفَقَةٍ وَلا بَرْدَعَةٍ فَابْتَدَأَنِي بَعْدَ أَنْ سَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ لِي مَنْ أَنْتَ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي يَا سُبْحَانَ الله غُلامُهُ يَقُولُ لِي بِالْبَابِ ادْخُلْ يَا أَخَا كَلْبٍ وَيَسْأَلُنِي الْمَوْلَى مَنْ أَنْتَ فَقُلْتُ لَهُ أَنَا الْكَلْبِيُّ. النَّسَّابَةُ فَضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى جَبْهَتِهِ وَقَالَ كَذَبَ الْعَادِلُونَ بِالله وَضَلُّوا ضَلالاً بَعِيداً وَخَسِرُوا خُسْرَاناً مُبِيناً يَا أَخَا كَلْبٍ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ وَعاداً وَثَمُودَ وَأَصْحابَ الرَّسِّ وَقُرُوناً بَيْنَ ذلِكَ كَثِيراً أَ فَتَنْسِبُهَا أَنْتَ فَقُلْتُ لا جُعِلْتُ فِدَاكَ فَقَالَ لِي أَ فَتَنْسِبُ نَفْسَكَ قُلْتُ نَعَمْ أَنَا فُلانُ بْنُ فُلانِ بْنِ فُلانٍ حَتَّى ارْتَفَعْتُ فَقَالَ لِي قِفْ لَيْسَ حَيْثُ تَذْهَبُ وَيْحَكَ أَ تَدْرِي مَنْ فُلانُ بْنُ فُلانٍ قُلْتُ نَعَمْ فُلانُ بْنُ فُلانٍ قَالَ إِنَّ فُلانَ بْنَ فُلانٍ ابْنُ فُلانٍ الرَّاعِي الْكُرْدِيِّ إِنَّمَا كَانَ فُلانٌ الرَّاعِي الْكُرْدِيُّ عَلَى جَبَلِ آلِ فُلانٍ فَنَزَلَ إِلَى فُلانَةَ امْرَأَةِ فُلانٍ مِنْ جَبَلِهِ الَّذِي كَانَ يَرْعَى غَنَمَهُ عَلَيْهِ فَأَطْعَمَهَا شَيْئاً وَغَشِيَهَا فَوَلَدَتْ فُلاناً وَفُلانُ بْنُ فُلانٍ مِنْ فُلانَةَ وَفُلانِ بْنِ فُلانٍ ثُمَّ قَالَ أَ تَعْرِفُ هَذِهِ الاسَامِيَ قُلْتُ لا وَالله جُعِلْتُ فِدَاكَ فَإِنْ رَأَيْتَ أَنْ تَكُفَّ عَنْ هَذَا فَعَلْتَ فَقَالَ إِنَّمَا قُلْتَ فَقُلْتُ فَقُلْتُ إِنِّي لا أَعُودُ قَالَ لا نَعُودُ إِذاً وَاسْأَلْ عَمَّا جِئْتَ لَهُ فَقُلْتُ لَهُ أَخْبِرْنِي عَنْ رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِهِ أَنْتِ طَالِقٌ عَدَدَ نُجُومِ السَّمَاءِ فَقَالَ وَيْحَكَ أَ مَا تَقْرَأُ سُورَةَ الطَّلاقِ قُلْتُ بَلَى قَالَ فَاقْرَأْ فَقَرَأْتُ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ قَالَ أَ تَرَى هَاهُنَا نُجُومَ السَّمَاءِ قُلْتُ لا قُلْتُ فَرَجُلٌ قَالَ لامْرَأَتِهِ أَنْتِ طَالِقٌ ثَلاثاً قَالَ تُرَدُّ إِلَى كِتَابِ الله وَسُنَّةِ نَبِيِّهِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) ثُمَّ قَالَ لا طَلاقَ إِلا عَلَى طُهْرٍ مِنْ غَيْرِ جِمَاعٍ بِشَاهِدَيْنِ مَقْبُولَيْنِ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي وَاحِدَةٌ ثُمَّ قَالَ سَلْ قُلْتُ مَا تَقُولُ فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ فَتَبَسَّمَ ثُمَّ قَالَ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ وَرَدَّ الله كُلَّ شَيْءٍ إِلَى شَيْئِهِ وَرَدَّ الْجِلْدَ إِلَى الْغَنَمِ فَتَرَى أَصْحَابَ الْمَسْحِ أَيْنَ يَذْهَبُ وُضُوؤُهُمْ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي ثِنْتَانِ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ فَقَالَ سَلْ فَقُلْتُ أَخْبِرْنِي عَنْ أَكْلِ الْجِرِّيِّ فَقَالَ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ مَسَخَ طَائِفَةً مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ فَمَا أَخَذَ مِنْهُمْ بَحْراً فَهُوَ الْجِرِّيُّ وَالْمَارْمَاهِي وَالزِّمَّارُ وَمَا سِوَى ذَلِكَ وَمَا أَخَذَ مِنْهُمْ بَرّاً فَالْقِرَدَةُ وَالْخَنَازِيرُ وَالْوَبْرُ وَالْوَرَكُ وَمَا سِوَى ذَلِكَ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي ثَلاثٌ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ فَقَالَ سَلْ وَقُمْ فَقُلْتُ مَا تَقُولُ فِي النَّبِيذِ فَقَالَ حَلالٌ فَقُلْتُ إِنَّا نَنْبِذُ فَنَطْرَحُ فِيهِ الْعَكَرَ وَمَا سِوَى ذَلِكَ وَنَشْرَبُهُ فَقَالَ شَهْ شَهْ تِلْكَ الْخَمْرَةُ الْمُنْتِنَةُ فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ فَأَيَّ نَبِيذٍ تَعْنِي فَقَالَ إِنَّ أَهْلَ الْمَدِينَةِ شَكَوْا إِلَى رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) تَغْيِيرَ الْمَاءِ وَفَسَادَ طَبَائِعِهِمْ فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَنْبِذُوا فَكَانَ الرَّجُلُ يَأْمُرُ خَادِمَهُ أَنْ يَنْبِذَ لَهُ فَيَعْمِدُ إِلَى كَفٍّ مِنَ التَّمْرِ فَيَقْذِفُ بِهِ فِي الشَّنِّ فَمِنْهُ شُرْبُهُ وَمِنْهُ طَهُورُهُ فَقُلْتُ وَكَمْ كَانَ عَدَدُ التَّمْرِ الَّذِي كَانَ فِي الْكَفِّ فَقَالَ مَا حَمَلَ الْكَفُّ فَقُلْتُ وَاحِدَةٌ وَثِنْتَانِ فَقَالَ رُبَّمَا كَانَتْ وَاحِدَةً وَرُبَّمَا كَانَتْ ثِنْتَيْنِ فَقُلْتُ وَكَمْ كَانَ يَسَعُ الشَّنُّ فَقَالَ مَا بَيْنَ الارْبَعِينَ إِلَى الثَّمَانِينَ إِلَى مَا فَوْقَ ذَلِكَ فَقُلْتُ بِالارْطَالِ فَقَالَ نَعَمْ أَرْطَالٌ بِمِكْيَالِ الْعِرَاقِ قَالَ سَمَاعَةُ قَالَ الْكَلْبِيُّ ثُمَّ نَهَضَ (عَلَيْهِ السَّلام) وَقُمْتُ فَخَرَجْتُ وَأَنَا أَضْرِبُ بِيَدِي عَلَى الاخْرَى وَأَنَا أَقُولُ إِنْ كَانَ شَيْءٌ فَهَذَا فَلَمْ يَزَلِ الْكَلْبِيُّ يَدِينُ الله بِحُبِّ آلِ هَذَا الْبَيْتِ حَتَّى مَاتَ۔
کلبی نسابہ نے بیان کیا کہ میں مدینہ میں آیا اور مجھے علم نہ تھا کہ امر امامت کس کے متعلق ہے میں مسجد رسول میں آیا وہاں کچھ لوگ جمع تھے میں نے ان سے پوچھا کہ اہل بیت میں عالم کون ہے انھوں نے کہا عبداللہ بن الحسن میں ان کے گھر آیا اذنِ دخول چاہا۔ پس ایک شخص گھر میں سے نکلا۔ میں سمجھا کہ یہ ان کا نوکر ہے میں نے اس سے کہا کہ تم اپنے آقا سے میرے لیے اجازت لو۔ وہ اندر گیا اور باہر آیا اور مجھ سے کہا اندر آؤ۔ میں نے اندر جا کر ایک بزرگِ گوشہ نشین کو دیکھا جو سخت ریاضت نفس کرنے والے تھے میں نے سلام کیا۔ انھوں نے پوچھا تم کون ہو ۔ میں نے کہا میں کلبی نسابہ ہوں۔
فرمایا تمہاری حاجت کیا ہے۔ میں نے کہا کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں۔ فرمایا کیا تم میرے فرزند محمد سے ملے ہو۔ میں نے کہا نہیں۔ میں تو پہلے آپ ہی کے پاس آیا ہوں۔ انھوں نے کہا پوچھو جو چاہتے ہو۔ میں نے کہا ایک شخص نے اپنی عورت سے کہا تجھ کو میں نے طلاق دی ستاروں کی تعداد کے برابر، انھوں نے کہا طلاق بائین تو تین بار ہوتی ہے باقی ستاروں کے برابر اس پر عذاب ہو گا کیونکہ اس نے بدعت کی۔ (جوز ابرج میں چونکہ تین ستارے ہیں لہذا طلاق بائین مراد لی گئی) میں نے پوچھا اے شیخ آپ موزوں پر مسح کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ انھوں نے کہا نیک لوگ مسح کرتے ہیں لیکن ہم اہلبیت مسح نہیں کرتے۔ میں نے کہا یہ دوسری غلطی ہے۔ پھر میں نے پوچھا آپ بے چھلکے کی مچھلی کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ فرمایا حلال ہے لیکن ہم اہلبیت نہیں کھاتے۔ میں نے پوچھا بنیذ (جو کی شراب) کے متعلق کیا کہتے ہیں۔ فرمایا حلال ہے لیکن ہم اہلبیت نہیں پیتے۔ یہ سن کر میں اٹھ کھڑا ہوا اور وہاں سے نکل آیا۔ میں دل میں کہتا تھا اس گروہ نے اہلبیت پر جھوٹ بولا۔ پھر میں مسجد میں آیا وہاں کچھ لوگ قریش وغیرہ کے بیٹھے تھے میں نے سلام کر کے کہا اہلبیت میں کون زیادہ عالم ہے۔ انھوں نے کہا عبداللہ بن الحسن۔ میں نے کہا ان سے تو میں مل آیا ہوں ان کے کے پاس تو کچھ نہیں ان میں سے ایک شخص نے سر اٹھایا اور کہا تم جعفر بن محمد کے پاس جاؤ وہ اہلبیت میں سب سے زیادہ عالم ہیں۔ لوگوں نے اسے ملامت کی۔ مجھے بھی لوگوں نے ازروئے حسد ان کے پاس جانے سے روکا تھا۔ میں نے اس شحص سے کہا جس کا پتہ دیا ہے وہاں لے چلو۔ پس میں وہاں گیا اور دروازہ کھٹ کھٹایا۔ ایک غلام نکلا اس نے کہا اے برادر کلب آؤ۔ واللہ تم نے مجھے اضطراب میں ڈال دیا۔ اب تک کہاں تھے۔ میں یہ سن کر گھبرا گیا اندر جا کر ایک بزرگ کو دیکھا وہ ایک مصلے پر بیٹھے ہیں جس کا کوئی فرش نہیں اور نہ کوئی تکیہ ہے جب میں نے سلام کیا تو انھوں نے پوچھا تم کون ہو۔ میں نے کہا سبحان اللہ نوکر نے دروازہ پر یا اخا الکلب کہا اور آقا پوچھتا ہے تم کون ہو۔ میں نے کہا میں کلبی ہوں نسب عرب کا سب سے زیادہ جاننے والا۔ حضرت نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مار کر کہا عادلوں نے جھوٹ بولا اور پوری طرح گمراہ ہو گئے اور پورے پورے خسارے میں رہے۔ اے بھائی کلبی خدا فرماتا ہے ہم نے ہلاک کیا عاد و ثمود کو اور کنویں والوں کو (جنھوں نے نافرمانی کی) اور ان کے علاوہ اور بہت سے لوگوں کو کیا تو ان قوموں کے نسب کو جانتا ہے میں نے کہا میں نہیں جانتا۔
پھر مجھ سے فرمایا تو اپنے نسب کے متعلق جانتا ہے میں نے کہا ہاں فلاں بن فلاں ہوں اور سلسلہ کو آگے بڑھایا فرمایا ٹھہر جا۔ ایسا نہیں جیسا تو بیان کر رہا ہے تو جانتا ہے کہ فلاں کس کا بیٹا ہے میں نے کہا میں جانتا ہوں۔ فرمایا فلاں ایسا نہیں وہ ایک کروی چرواہے (عمرو) کا بیٹا ہے یہ اپنی بکریاں فلاں قبیلہ کے پہاڑ پر چرایا کرتا تھا وہ اس قبیلہ کی ایک عورت کے پاس آیا جو فلاں کی زوجہ تھی پس اس سے کچھ طمع دے کر اس سے جماع کیا اس سے فلاں پیدا ہوا پس وہ ہیان بن عمرو بن مرتعیا ہے تو غلطی سے بیان کا بیٹا بتا رہا ہے کیسا نساب ہے۔ پھر فرمایا جو نام میں نے بتائے کیا تجھے یہ معلوم تھے۔ میں نے کہا نہیں اگر حضور مناسب سمجھیں تو اس کا ذکر کسی سے نہ کریں یہ میرے لیے بدنامی کا باعث ہے۔ فرمایا تو نے نسابی کا دعویٰ کیا تھا اس لیے میں نے کہا۔ اب میں ایسا نہ کہوں گا۔ فرمایا ہم بھی کسی سے ذکر نہ کریں گے۔ اچھا اب جن سوالات کے جوابات کے لیے تو آیا ہے وہ دریافت کر۔ میں نے کہا مجھے اس مسئلے کا جواب بتائیے ایک شخص نے اپنی زوجہ سے کہا تجھے طلاق ہے ستاروں کی تعداد کے مطابق (کیا طلاق بائن ہو گئی) فرمایا تو نے سورہ طلاق پڑھا ہے میں نے کہا ہاں۔ فرمایا پڑھو میں نے پڑھا جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے وقت طلاق دو اور عدہ کا شمار رکھو۔ فرمایا اس آیت میں نجوم سما کا ذکر ہے میں نے کہا نہیں۔ پھر فرمایا طلاق نہیں دی جاتی مگر طہر میں جبکہ جماع نہ کیا ہو اور اس کے گواہ دو عادل ہوں میں نے دل میں کہا یہ پہلا ثبوت ہے علم امامت کا۔ پھر فرمایا اور پوچھ میں نے کہا آپ کیا فرماتے ہیں موزوں پر مسح کے متعلق یہ سن کر حضرت نے تبسم فرمایا (عبداللہ بن الحسن کے جواب پر) اور پھر فرمایا روز قیامت خدا ہر شے کو اس کی صورت پر لے آئے گا پس جنھوں نے موزہ پر مسح کیا (عرب کا موزہ بکری کی پوست کا ہوتا تھا) ان کے پیروں پر بکری کی کھال ہو گی اب غور کر ایسے مسح کرنے والوں کا وضو کہاں جائے گا۔
فرمایا اب اور پوچھ میں نے کہا کیا جری حلال ہے (ایک قسم کی مچھلی بے چھلکے کی) فرمایا خدا نے مسخ کیا ایک گروہ کو بنی اسرائیل جو دریا کے حصہ میں آئے وہ جری زمار اور مارماہی ہیں جو خشکی میں وہ بندر اور سور اور دبر اور ورک بنے ہیں میں نے دل میں کہا یہ تیسری علامت ہے۔ پھر فرمایا اب آخری سوال بھی پوچھ اور اٹھ کھڑا ہو۔ میں نے کہا بنیذ کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں۔ فرمایا حلال ہے میں نے کہا ہم بنیذ میں درد بنیذ اور دوسری ادویہ ڈالتے ہیں تاکہ وہ جوش کھا جائے۔ فرمایا دور رہو دور رہو یہ تو گندی شراب ہے جو حرام ہے میں نے کہا پھر نبیذ سے آپ کی کیا مراد ہے۔ فرمایا سن اہل مدینہ نے حضرت رسول خدا سے شکایت کی کہ مدینہ کا پانی تلخ ہو گیا ہے اور اس کے پینے سے صحت خراب ہو رہی ہے۔ فرمایا اس میں خرمے ڈالو اس شخص نے ایک نوکر کو حکم دیا کہ ایسا کرے اس نے ایک مٹھی خرمے ایک کنستر میں ڈال دیے اس نے اس کو پیا اور طہار کی یعنی وضو و غسل کیا۔ میں نے کہا وہ خرمے کتنے تھے جو اس کی مٹھی میں تھے فرمایا جتنے اس کی مٹھی میں سمائے میں نے کہا ایک مٹھی میں یا دونوں میں فرمایا کبھی ایک کبھی دو۔ میں نے کہا اس میں پانی کتنا تھا۔ فرمایا چالیس سے لیکر اسی یا اس سے کچھ زیادہ۔ میں نے کہا اس سے مراد آپ کی رطل ہے۔ فرمایا ہاں رطلِ عراق۔ سماعہ نے کہا کہ کلبی نے بیان کیا کہ پھر امام اٹھ کھڑے ہوئے اور میں بھی باہر نکلا۔ میں نے اپنے ہاتھ پر ہاتھ مار کر کہا کہ اگر کوئی چیز قابل عمل ہے تو یہ ہے کلبی مرتے دم تک محبت اہلبیت پر قائم رہا۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ أَبِي يَحْيَى الْوَاسِطِيِّ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ قَالَ كُنَّا بِالْمَدِينَةِ بَعْدَ وَفَاةِ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام أَنَا وَصَاحِبُ الطَّاقِ وَالنَّاسُ مُجْتَمِعُونَ عَلَى عَبْدِ الله بْنِ جَعْفَرٍ أَنَّهُ صَاحِبُ الامْرِ بَعْدَ أَبِيهِ فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ أَنَا وَصَاحِبُ الطَّاقِ وَالنَّاسُ عِنْدَهُ وَذَلِكَ أَنَّهُمْ رَوَوْا عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام أَنَّهُ قَالَ إِنَّ الامْرَ فِي الْكَبِيرِ مَا لَمْ تَكُنْ بِهِ عَاهَةٌ فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ نَسْأَلُهُ عَمَّا كُنَّا نَسْأَلُ عَنْهُ أَبَاهُ فَسَأَلْنَاهُ عَنِ الزَّكَاةِ فِي كَمْ تَجِبُ فَقَالَ فِي مِائَتَيْنِ خَمْسَةٌ فَقُلْنَا فَفِي مِائَةٍ فَقَالَ دِرْهَمَانِ وَنِصْفٌ فَقُلْنَا وَالله مَا تَقُولُ الْمُرْجِئَةُ هَذَا قَالَ فَرَفَعَ يَدَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَقَالَ وَالله مَا أَدْرِي مَا تَقُولُ الْمُرْجِئَةُ قَالَ فَخَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِ ضُلالاً لا نَدْرِي إِلَى أَيْنَ نَتَوَجَّهُ أَنَا وَأَبُو جَعْفَرٍ الاحْوَلُ فَقَعَدْنَا فِي بَعْضِ أَزِقَّةِ الْمَدِينَةِ بَاكِينَ حَيَارَى لا نَدْرِي إِلَى أَيْنَ نَتَوَجَّهُ وَلا مَنْ نَقْصِدُ وَنَقُولُ إِلَى الْمُرْجِئَةِ إِلَى الْقَدَرِيَّةِ إِلَى الزَّيْدِيَّةِ إِلَى الْمُعْتَزِلَةِ إِلَى الْخَوَارِجِ فَنَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ رَأَيْتُ رَجُلاً شَيْخاً لا أَعْرِفُهُ يُومِئُ إِلَيَّ بِيَدِهِ فَخِفْتُ أَنْ يَكُونَ عَيْناً مِنْ عُيُونِ أَبِي جَعْفَرٍ الْمَنْصُورِ وَذَلِكَ أَنَّهُ كَانَ لَهُ بِالْمَدِينَةِ جَوَاسِيسُ يَنْظُرُونَ إِلَى مَنِ اتَّفَقَتْ شِيعَةُ جَعْفَرٍ علیہ السلام عَلَيْهِ فَيَضْرِبُونَ عُنُقَهُ فَخِفْتُ أَنْ يَكُونَ مِنْهُمْ فَقُلْتُ لِلاحْوَلِ تَنَحَّ فَإِنِّي خَائِفٌ عَلَى نَفْسِي وَعَلَيْكَ وَإِنَّمَا يُرِيدُنِي لا يُرِيدُكَ فَتَنَحَّ عَنِّي لا تَهْلِكْ وَتُعِينَ عَلَى نَفْسِكَ فَتَنَحَّى غَيْرَ بَعِيدٍ وَتَبِعْتُ الشَّيْخَ وَذَلِكَ أَنِّي ظَنَنْتُ أَنِّي لا أَقْدِرُ عَلَى التَّخَلُّصِ مِنْهُ فَمَا زِلْتُ أَتْبَعُهُ وَقَدْ عَزَمْتُ عَلَى الْمَوْتِ حَتَّى وَرَدَ بِي عَلَى بَابِ أَبِي الْحَسَنِ علیہ السلام ثُمَّ خَلانِي وَمَضَى فَإِذَا خَادِمٌ بِالْبَابِ فَقَالَ لِيَ ادْخُلْ رَحِمَكَ الله فَدَخَلْتُ فَإِذَا أَبُو الْحَسَنِ مُوسَى علیہ السلام فَقَالَ لِيَ ابْتِدَاءً مِنْهُ لا إِلَى الْمُرْجِئَةِ وَلا إِلَى الْقَدَرِيَّةِ وَلا إِلَى الزَّيْدِيَّةِ وَلا إِلَى الْمُعْتَزِلَةِ وَلا إِلَى الْخَوَارِجِ إِلَيَّ إِلَيَّ فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ مَضَى أَبُوكَ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ مَضَى مَوْتاً قَالَ نَعَمْ قُلْتُ فَمَنْ لَنَا مِنْ بَعْدِهِ فَقَالَ إِنْ شَاءَ الله أَنْ يَهْدِيَكَ هَدَاكَ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنَّ عَبْدَ الله يَزْعُمُ أَنَّهُ مِنْ بَعْدِ أَبِيهِ قَالَ يُرِيدُ عَبْدُ الله أَنْ لا يُعْبَدَ الله قَالَ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ فَمَنْ لَنَا مِنْ بَعْدِهِ قَالَ إِنْ شَاءَ الله أَنْ يَهْدِيَكَ هَدَاكَ قَالَ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ فَأَنْتَ هُوَ قَالَ لا مَا أَقُولُ ذَلِكَ قَالَ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي لَمْ أُصِبْ طَرِيقَ الْمَسْأَلَةِ ثُمَّ قُلْتُ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ عَلَيْكَ إِمَامٌ قَالَ لا فَدَاخَلَنِي شَيْءٌ لا يَعْلَمُ إِلا الله عَزَّ وَجَلَّ إِعْظَاماً لَهُ وَهَيْبَةً أَكْثَرَ مِمَّا كَانَ يَحُلُّ بِي مِنْ أَبِيهِ إِذَا دَخَلْتُ عَلَيْهِ ثُمَّ قُلْتُ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ أَسْأَلُكَ عَمَّا كُنْتُ أَسْأَلُ أَبَاكَ فَقَالَ سَلْ تُخْبَرْ وَلا تُذِعْ فَإِنْ أَذَعْتَ فَهُوَ الذَّبْحُ فَسَأَلْتُهُ فَإِذَا هُوَ بَحْرٌ لا يُنْزَفُ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ شِيعَتُكَ وَشِيعَةُ أَبِيكَ ضُلالٌ فَأُلْقِي إِلَيْهِمْ وَأَدْعُوهُمْ إِلَيْكَ وَقَدْ أَخَذْتَ عَلَيَّ الْكِتْمَانَ قَالَ مَنْ آنَسْتَ مِنْهُ رُشْداً فَأَلْقِ إِلَيْهِ وَخُذْ عَلَيْهِ الْكِتْمَانَ فَإِنْ أَذَاعُوا فَهُوَ الذَّبْحُ وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى حَلْقِهِ قَالَ فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِهِ فَلَقِيتُ أَبَا جَعْفَرٍ الاحْوَلَ فَقَالَ لِي مَا وَرَاءَكَ قُلْتُ الْهُدَى فَحَدَّثْتُهُ بِالْقِصَّةِ قَالَ ثُمَّ لَقِينَا الْفُضَيْلَ وَأَبَا بَصِيرٍ فَدَخَلا عَلَيْهِ وَسَمِعَا كَلامَهُ وَسَاءَلاهُ وَقَطَعَا عَلَيْهِ بِالامَامَةِ ثُمَّ لَقِينَا النَّاسَ أَفْوَاجاً فَكُلُّ مَنْ دَخَلَ عَلَيْهِ قَطَعَ إِلا طَائِفَةَ عَمَّارٍ وَأَصْحَابَهُ وَبَقِيَ عَبْدُ الله لا يَدْخُلُ إِلَيْهِ إِلا قَلِيلٌ مِنَ النَّاسِ فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ قَالَ مَا حَالَ النَّاسَ فَأُخْبِرَ أَنَّ هِشَاماً صَدَّ عَنْكَ النَّاسَ قَالَ هِشَامٌ فَأَقْعَدَ لِي بِالْمَدِينَةِ غَيْرَ وَاحِدٍ لِيَضْرِبُونِي۔
ہشام بن سالم سے مروی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی وفات کے بعد میں اور مومن طاق (ابو جعفر بن نعمان احول) مدینہ گئے۔ وہاں معلوم ہوا کہ لوگوں نے اس امر پر اتفاق کیا کہ امام جعفر صادق کے بعد امام عبداللہ بن جعفر ہیں اور اس لیے کہ انھوں نے روایت بیان کی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہ امامت منتقل ہو گی ولد اکبر کی طرف بشرطیکہ اس میں کوئی عیب نہ ہو۔ پس ہم عبداللہ بن جعفر کے پاس آئے اور سوال کیا ان سے جیسے ان کے باپ سے کرتے تھے۔
ہم نے سوال کیا کہ زکوٰۃ کتنے مال پر واجب ہے۔ انھوں نے کہا دو سو پر پانچ ہم نے کہا سو پر اڑھائی درہم (حالانکہ دو سے کم پر زکوٰۃ نہیں ہے) ہم نے کہا ایسا تو مرجیہ فرقہ کہتا ہے پس ہم ان سے گمراہی کی حالت میں اٹھ آئے۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ میں اور ابو جعفر احول کس کی طرف رجوع کریں۔ ہم مدینہ کے ایک کوچہ میں بیٹھے رو رہے تھے اور حیران تھے کہ کس کی طرف جائیں مرجیہ کی طرف، قدریہ کی طرف ، زیدیہ کی طرف، معتزلہ کی طرف یا خوارج کی طرف۔ ہم اسی حالت میں تھے کہ میں نے ایک بوڑھے کو جسے میں نہیں جانتا تھا اپنی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے پایا۔ میں خائف ہو گیا کہ کہیں یہ ابو جعفر منصور بادشاہ عباسی کا جاسوس نہ ہو اور صورت اس کی یہ تھی کہ منصور کے جاسوس یہ دیکھتے پھرتے تھے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے شیعہ کس طرف امامت پر متفق ہوتے ہیں تاکہ اس کی گردن مار دیں۔ میں ڈرا کہ یہ شخص انہی میں سے نہ ہو۔ میں نے احول سے کہا کہ ایک طرف ہو جاؤ میں اپنے اور تمہارے متعلق اس سے ڈرتا ہوں اس کا ارادہ مجھ سے متعلق ہے اور نہ تم سے تم مجھ سے علیحدہ ہو جاؤ اور اپنے کو ہلاکت میں مت ڈالو اور اپنے نفس کی حفاظت کرو۔ پس وہ مجھ سے تھوڑی دور ہو گیا اور میں اسکی طرف بڑھا کیونکہ میں نے گمان کیا کہ میں اس سے چھٹکارہ حاصل کرنے پر قادر نہیں۔ پس میں اس کی طرف بڑھتا رہا اور موت میرے سامنے تھی یہاں تک کہ وہ مجھے لے کر امام موسیٰ کاظم کے دروازہ پر پہنچا۔
اس کے بعد اس نے مجھ کو چھوڑ دیا اور چلا گیا۔ ناگاہ ایک خادم دروازہ پر آیا اور مجھ سے کہنے لگا اندر آؤ اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے۔ میں اندر داخل ہوا اور وہاں ابو الحسن موسیٰ کاظم علیہ السلام تھے۔ حضرت نے بغیر میرے کچھ کہے فرمایا نہ مرجیہ کے پاس جاؤ نہ قدریہ کے پاس نہ زیدیہ کے اور نہ معتزلہ اور خوارج کے بلکہ میرے پاس آؤ۔ میں نے کہا مین آپ پر فدا ہوں آپ کے پدر بزرگوار کا انتقال ہو گیا۔ فرمایا ہاں۔ میں نے کہا اپنی موت مرے۔ فرمایا ہاں۔ میں نے کہا پھر ان کے بعد ہمارا امام کون ہے۔ فرمایا اگر خدا تمہاری ہدایت چاہے گا تو ہدایت کر دے گا میں نے کہا عبداللہ کا خیال ہے کہ اپنے باپ کے قائم مقام وہ ہیں۔ فرمایا عبداللہ چاہتے ہیں کہ اللہ کی عبادت نہ کریں۔ میں نے کہا پھر ہمارا امام حضرت کے بعد کون ہے۔ فرمایا اگر خدا تمہاری ہدایت کرنا چاہے گا تو کر دے گا۔ میں نے کہا وہ آپ ہیں۔ فرمایا نہیں میں خود نہیں کہتا۔اللہ اللہ کیسا خطرناک دور تھا کہ اگر زبان سے کہتے کہ میں امام ہوں اور یہ خبر بادشاہ تک پہنچ جاتی تو وہ قتل کرا دیتا۔ میں نے دل میں کہا معاملہ صاف نہ ہوا۔ پھر میں نے کہا کیا آپ کا کوئی امام آپ سے بالاتر ہے فرمایا نہیں۔ میرے دل میں ایسی بات پیدا ہوئی جس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ حضرت کی عظمت و ہیبت کا اثر تھا میرے دل پر اس سے زیادہ تھا جتنا ان کے والد کی خدمت میں حاضر ہونے پر میرے دل میں ہوتا تھا۔ پھر میں نے کہا میں آ سے اسی طرح سوال کرنا چاہتا ہوں جس طرح آ کے والد ماجد سے پوچھا کرتا تھا۔ فرمایا پوچھو آگاہ کیے جاؤ گے مگر کسی پر ظاہر نہ کرنا اگر ظاہر کر دیا تو اس کا نتیجہ قتل ہے۔ میں نے سوالات کیے پس میں نے دیکھا کہ حضرت علم کے ایسے دریا ہیں جس کا زور کم نہیں ہوتا۔
میں نے کہا آپ کے اور آپ کے آبا و اجداد کے شیعہ گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں ان سے اپنی امامت کو بیان کیجیے اور ان کو اپنی طرف بلائیے اور یہ کام میں خفیہ انجام دوں گا۔ فرمایا جن میں صلاحیت ہدایت پاؤ ان سے بیان کر دینا اور ان سے بھی پوشیدہ رکھنے کا عہد لے لینا۔ اگر انھوں نے ظاہر کر دیا تو میرا ذبح ہونا یقینی ہے اشارہ کیا اپنے حلق کی طرف۔ میں حضرت کے پاس سے چلا آیا اور ابو جعفر احول سے ملا۔ انھوں نے کہا کیا صورت پیش آئی۔ میں نے کہا بحمد للہ ہدایت حاصل ہوئی پھر تمام قصہ ان سے بیان کیا۔
ہشام نے کہا پھر ہم نے ملاقات کی فضیل اور ابو بصیر سے انھوں نے خلوت کی امام علیہ السلام سے اور سنا حضرت کے کلام کو اور ان سے سوالات کیے اور ان کی امامت پر پورا پورا یقین ہو گیا۔ پھر ہم بہت سے لوگوں سے ملے پس جو کوئی حضرت کے پاس گیا اس نے آپ کی امامت کا اقرار کر لیا۔ سوائے عمار ساہاطی کے اوراس کے اصحاب کے اور عبداللہ کا یہ حال رہا کہ بہت کم لوگ ان کے پاس جاتے تھے یہ صورت دیکھ کر انھوں نے کہا لوگ جاہل ہو گئے ہیں اور یہ بھی ان سے بیان کیا گیا کہ ہشام لوگوں کو تمہارے پاس آنے سے روکتے ہیں انھوں نے کہا کچھ لوگ مدینہ میں میرے مارنے کے لیے بٹھا دیے گئے ہیں۔
توضیح: مرجیہ۔ وہ فرقہ ہے جو ایمان کو محض علم ماجاء بہ النبی تک محدود رکھتے ہیں اورر عمل کو داخل ایمان نہیں جانتے خواہ عمل دل سے ہو جیسے تصدیق باعمل وہ افراد ایمان میں قوت و ضعف کا کوئی فرق نہیں کرتے بد سے بد آدمی ایمانی مرتبہ میں جبرئیل کے برابر جانتے ہیں اور امیر المومنین کو چوتھے نمبر پر خلیفہ مانتے ہیں۔
قدریہ۔ یہ وہ فرقہ ہے جو بندہ کو بالاستقلال اپنے افعال پر قادر مانتے ہیں یہ عقیدہ میں جبریہ فرقہ کی ضد ہیں، شیعہ ان دونوں کے درمیان ہیں۔
زیدیہ۔ یہ امامت زید بن علی بن الحسین کے قائل ہیں اور اجتہاد اور خروج بالسیف کو شرط امامت مانتے ہیں۔
معتزلہ: مرتکب زنا وغیرہ کو ایمان سے خارج جانتے ہیں خواہ وہ گناہ بے اصرار ہو یا بہ اصرار بے توبہ مرنے والے کو جہنمی جانتے ہیں۔
خوارج: حکم غیر اللہ کو اگرچہ ازروئے علم ہو شرک جانتے ہیں یہ جماعت صفین میں حضرت علی سے اس لیے علیحدہ ہوئی کہ آپ حکمین کے فیصلہ پر کیوں راضی ہوئے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ فُلانٍ الْوَاقِفِيِّ قَالَ كَانَ لِيَ ابْنُ عَمٍّ يُقَالُ لَهُ الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ الله كَانَ زَاهِداً وَكَانَ مِنْ أَعْبَدِ أَهْلِ زَمَانِهِ وَكَانَ يَتَّقِيهِ السُّلْطَانُ لِجِدِّهِ فِي الدِّينِ وَاجْتِهَادِهِ وَرُبَّمَا اسْتَقْبَلَ السُّلْطَانَ بِكَلامٍ صَعْبٍ يَعِظُهُ وَيَأْمُرُهُ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُ عَنِ الْمُنْكَرِ وَكَانَ السُّلْطَانُ يَحْتَمِلُهُ لِصَلاحِهِ وَلَمْ تَزَلْ هَذِهِ حَالَتَهُ حَتَّى كَانَ يَوْمٌ مِنَ الايَّامِ إِذْ دَخَلَ عَلَيْهِ أَبُو الْحَسَنِ مُوسَى علیہ السلام وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ فَرَآهُ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ فَأَتَاهُ فَقَالَ لَهُ يَا أَبَا عَلِيٍّ مَا أَحَبَّ إِلَيَّ مَا أَنْتَ فِيهِ وَأَسَرَّنِي إِلا أَنَّهُ لَيْسَتْ لَكَ مَعْرِفَةٌ فَاطْلُبِ الْمَعْرِفَةَ قَالَ جُعِلْتُ فِدَاكَ وَمَا الْمَعْرِفَةُ قَالَ اذْهَبْ فَتَفَقَّهْ وَاطْلُبِ الْحَدِيثَ قَالَ عَمَّنْ قَالَ عَنْ فُقَهَاءِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ثُمَّ اعْرِضْ عَلَيَّ الْحَدِيثَ قَالَ فَذَهَبَ فَكَتَبَ ثُمَّ جَاءَهُ فَقَرَأَهُ عَلَيْهِ فَأَسْقَطَهُ كُلَّهُ ثُمَّ قَالَ لَهُ اذْهَبْ فَاعْرِفِ الْمَعْرِفَةَ وَكَانَ الرَّجُلُ مَعْنِيّاً بِدِينِهِ فَلَمْ يَزَلْ يَتَرَصَّدُ أَبَا الْحَسَنِ علیہ السلام حَتَّى خَرَجَ إِلَى ضَيْعَةٍ لَهُ فَلَقِيَهُ فِي الطَّرِيقِ فَقَالَ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنِّي أَحْتَجُّ عَلَيْكَ بَيْنَ يَدَيِ الله فَدُلَّنِي عَلَى الْمَعْرِفَةِ قَالَ فَأَخْبَرَهُ بِأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام وَمَا كَانَ بَعْدَ رَسُولِ الله ﷺ وَأَخْبَرَهُ بِأَمْرِ الرَّجُلَيْنِ فَقَبِلَ مِنْهُ ثُمَّ قَالَ لَهُ فَمَنْ كَانَ بَعْدَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام قَالَ الْحَسَنُ علیہ السلام ثُمَّ الْحُسَيْنُ علیہ السلام حَتَّى انْتَهَى إِلَى نَفْسِهِ ثُمَّ سَكَتَ قَالَ فَقَالَ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ فَمَنْ هُوَ الْيَوْمَ قَالَ إِنْ أَخْبَرْتُكَ تَقْبَلُ قَالَ بَلَى جُعِلْتُ فِدَاكَ قَالَ أَنَا هُوَ قَالَ فَشَيْءٌ أَسْتَدِلُّ بِهِ قَالَ اذْهَبْ إِلَى تِلْكَ الشَّجَرَةِ وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى أُمِّ غَيْلانَ فَقُلْ لَهَا يَقُولُ لَكِ مُوسَى بْنُ جَعْفَرٍ أَقْبِلِي قَالَ فَأَتَيْتُهَا فَرَأَيْتُهَا وَالله تَخُدُّ الارْضَ خَدّاً حَتَّى وَقَفَتْ بَيْنَ يَدَيْهِ ثُمَّ أَشَارَ إِلَيْهَا فَرَجَعَتْ قَالَ فَأَقَرَّ بِهِ ثُمَّ لَزِمَ الصَّمْتَ وَالْعِبَادَةَ فَكَانَ لا يَرَاهُ أَحَدٌ يَتَكَلَّمُ بَعْدَ ذَلِكَ. مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ مِثْلَهُ۔
راوی کہتا ہے حسن بن عبداللہ میرے چچا کا بیٹا زاہد تھا اور اپنے زمانہ کے تمام لوگوں سے زیادہ عابد ، اس کی دینی جدوجہد اور سخت ریاضت کی بنا پر بادشاہ اس سے ڈرتا تھا بسا اوقات وہ بادشاہ سے بڑے سخت کلمات بطور نصیحت کہہ جاتا تھا اور اس کو نیک کام کرنے کا حکم دیتا تھا اور برائی سے روکتا تھا اور بادشاہ اس کی باتوں کو برداشت کرتا تھا اور اسی حالت میں چلا آ رہا تھا ایک دن جبکہ وہ مسجد میں تھا امام موسیٰ کاظم وہاں تشریف لائے اس کو دیکھا اور اشارہ سے بلایا۔ آپ نے اس سے فرمایا تمہاری اس حالت نے مجھے بہت مسرت بخشی مگر یہ کہ تمہارے لیے معرفت نہیں اس کو تلاش کرو۔ اس نے کہا کیسی معرفت۔ فرمایا جاؤ علم فقہ حاصل کرو۔ اس نے کہا کس سے ۔ فرمایا فقہائے مدینہ ے۔ پھر ان احادیث کو میرے سامنے پیش کرو۔ پس وہ گیا اور احادیث کو لکھ لایا۔ حضرت نے فرمایا پڑھو۔ اس نے پڑھا۔ آپ نے فرمایا یہ سب ساقط الاعتبار اور غلط ہیں تم معرفت حاصل کرو اور اس شخص کو امر دین میں عنایت خدا حاصل تھی وہ ہمیشہ حضرت سے ملنے کا متمنی رہتا۔ ایک روز حضرت اپنی زمین پر تشریف لے جا رہے تھے اس نے راستہ میں ملاقات کی اور کہا میں آپ پر فدا ہوں آپ کی ہدایت کا محتاج ہوں آپ معرفت الہٰی کی طرف میری رہنمائی کیجیے۔ آپ نے امیر المومنین کے حالات اس سے بیان کیے اور جو کچھ ان دونوں (حضرت ابوبکر و عمر) نے کیا تھا وہ بھی سنایا اس نے قبول کیا۔ پھر دریافت کیا۔ امیر المومنین کے بعد کون امام ہوا۔ فرمایا امام حسن ان کے بعد فرمایا امام حسین یہاں تک کہ اپنی ذات تک پہنچے پھر خاموش ہو گئے اس نے کہا میں آپ پر فدا ہوں اب امام کون ہے۔ فرمایا اگر میں تجھے بتا دوں تو تو قبول کرے گا۔ اس نے کہا ضرور تب آپ نے فرمایا وہ میں ہوں۔ اس پر دلیل چاہی۔ فرمایا اس درخت کے پاس جا اور اپنے ہاتھ سے ایک ببول کے درخت کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ اس کے پاس جا کر کہو کہ موسیٰ بن جعفر کہتے ہیں میرے پاس آ۔ اس نے ایسا ہی کیا بس اس نے دیکھا کہ زمین شق ہوئی اور وہ اکھڑ کر حضرت کے سامنے آ گیا۔ پھر اشارہ کیا وہ اپنی جگہ پر واپس گیا۔ اس نے حضرت کی امامت کا اقرار کیا پھر خاموش ہو کر مشغولِ عبادت ہوا اور پھر کسی نے اس کو کلام کرتے نہ پایا۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الطَّيِّبِ عَنْ عَبْدِ الْوَهَّابِ بْنِ مَنْصُورٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي الْعَلاءِ قَالَ سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ أَكْثَمَ قَاضِيَ سَامَرَّاءَ بَعْدَ مَا جَهَدْتُ بِهِ وَنَاظَرْتُهُ وَحَاوَرْتُهُ وَوَاصَلْتُهُ وَسَأَلْتُهُ عَنْ عُلُومِ آلِ مُحَمَّدٍ فَقَالَ بَيْنَا أَنَا ذَاتَ يَوْمٍ دَخَلْتُ أَطُوفُ بِقَبْرِ رَسُولِ الله ﷺ فَرَأَيْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ الرِّضَا علیہ السلام يَطُوفُ بِهِ فَنَاظَرْتُهُ فِي مَسَائِلَ عِنْدِي فَأَخْرَجَهَا إِلَيَّ فَقُلْتُ لَهُ وَالله إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ مَسْأَلَةً وَإِنِّي وَالله لاسْتَحْيِي مِنْ ذَلِكَ فَقَالَ لِي أَنَا أُخْبِرُكَ قَبْلَ أَنْ تَسْأَلَنِي تَسْأَلُنِي عَنِ الامَامِ فَقُلْتُ هُوَ وَالله هَذَا فَقَالَ أَنَا هُوَ فَقُلْتُ عَلامَةً فَكَانَ فِي يَدِهِ عَصًا فَنَطَقَتْ وَقَالَتْ إِنَّ مَوْلايَ إِمَامُ هَذَا الزَّمَانِ وَهُوَ الْحُجَّةُ۔
راوی کہتا ہے میں نے قاضی سامرہ یحییٰ بن اکثم سے سنا اس کے بعد میں نے اس کو آزمایا ، مناظرہ کیا۔ گفتگو کی۔ میں نے علوم آل محمد سے متعلق اس سے سوال کیا۔ اس نے کہا میں ایک روز قبر رسول کا طواف کر رہا تھا کہ میں نے امام محمد تقی علیہ السلام کو بھی طواف کرتے پایا۔ میں نے ان سے چند سوالات کیے جن کے انھوں نے تسلی بخش جواب دیے۔ پھر میں نے ان سے کہا ایک سوال آپ سے کرتے مجھے حیا آتی ہے۔ فرمایا میں تمہارے سوال سے پہلے بتائے دیتا ہوں۔ تم مجھ سے یہ پوچھنا چاہتے ہو امام کون ہے۔ میں نے کہا بے شک یہی سوال میرے ذہن میں تھا لیکن اس کا ثبوت، آپ کے ہاتھ میں عصا تھا وہ گویا ہوا۔ میرا مولا یہ امام زمانہ ہے اور وہی خدا کی حجت ہیں۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ أَوْ غَيْرِهِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عُمَرَ بْنِ يَزِيدَ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى الرِّضَا علیہ السلام وَأَنَا يَوْمَئِذٍ وَاقِفٌ وَقَدْ كَانَ أَبِي سَأَلَ أَبَاهُ عَنْ سَبْعِ مَسَائِلَ فَأَجَابَهُ فِي سِتٍّ وَأَمْسَكَ عَنِ السَّابِعَةِ فَقُلْتُ وَالله لاسْأَلَنَّهُ عَمَّا سَأَلَ أَبِي أَبَاهُ فَإِنْ أَجَابَ بِمِثْلِ جَوَابِ أَبِيهِ كَانَتْ دَلالَةً فَسَأَلْتُهُ فَأَجَابَ بِمِثْلِ جَوَابِ أَبِيهِ أَبِي فِي الْمَسَائِلِ السِّتِّ فَلَمْ يَزِدْ فِي الْجَوَابِ وَاواً وَلا يَاءً وَأَمْسَكَ عَنِ السَّابِعَةِ وَقَدْ كَانَ أَبِي قَالَ لابِيهِ إِنِّي أَحْتَجُّ عَلَيْكَ عِنْدَ الله يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنَّكَ زَعَمْتَ أَنَّ عَبْدَ الله لَمْ يَكُنْ إِمَاماً فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى عُنُقِهِ ثُمَّ قَالَ لَهُ نَعَمْ احْتَجَّ عَلَيَّ بِذَلِكَ عِنْدَ الله عَزَّ وَجَلَّ فَمَا كَانَ فِيهِ مِنْ إِثْمٍ فَهُوَ فِي رَقَبَتِي فَلَمَّا وَدَّعْتُهُ قَالَ إِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ شِيعَتِنَا يُبْتَلَى بِبَلِيَّةٍ أَوْ يَشْتَكِي فَيَصْبِرُ عَلَى ذَلِكَ إِلا كَتَبَ الله لَهُ أَجْرَ أَلْفِ شَهِيدٍ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي وَالله مَا كَانَ لِهَذَا ذِكْرٌ فَلَمَّا مَضَيْتُ وَكُنْتُ فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ خَرَجَ بِي عِرْقُ الْمَدِينِيِّ فَلَقِيتُ مِنْهُ شِدَّةً فَلَمَّا كَانَ مِنْ قَابِلٍ حَجَجْتُ فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ وَقَدْ بَقِيَ مِنْ وَجَعِي بَقِيَّةٌ فَشَكَوْتُ إِلَيْهِ وَقُلْتُ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ عَوِّذْ رِجْلِي وَبَسَطْتُهَا بَيْنَ يَدَيْهِ فَقَالَ لِي لَيْسَ عَلَى رِجْلِكَ هَذِهِ بَأْسٌ وَلَكِنْ أَرِنِي رِجْلَكَ الصَّحِيحَةَ فَبَسَطْتُهَا بَيْنَ يَدَيْهِ فَعَوَّذَهَا فَلَمَّا خَرَجْتُ لَمْ أَلْبَثْ إِلا يَسِيراً حَتَّى خَرَجَ بِيَ الْعِرْقُ وَكَانَ وَجَعُهُ يَسِيراً۔
راوی کہتا ہے میں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا میں اس زمانہ میں مذہب وافقیہ رکھتا تھا (یعنے اس کا عقیدہ تھا کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام زندہ ہیں اور وہی مہدی موعود ہیں) میرے باپ نے امام موسیٰ کاظم سے سات سوال کیے تھے چھ کے جواب انھوں نے دیے ساتویں کے جواب سے رک گئے۔ میں نے دل میں کہا میں وہی مسئلے پوچھتا ہوں جو میرے پاب نے آپ سے پوچھے تھے اگر وہی جواب دیے جو ان کے باپ نے دیا تھا تو ان کی امامت کی دلیل ہو گی۔ پس سوال کیا انھوں نے جواب دیا جو میرے باپ کو ان کے باپ نے دیا تھا ۔ انھوں نے جواب میں ایک واؤ ایک ی کی بھی زیادتی نہ کی اور ساتویں سوال کے جواب میں رک گئے۔ میرے باپ نے ان کے باپ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے کہا میں روز قیامت پیش خدا احتجاج کروں گا کہ آپ کا گمان یہ ہے کہ عبداللہ بن جعفر امام نہیں ہیں۔ حضرت نے اپنا ہاتھ اپنی گردن پر رکھا اور فرمایا تم ایسا کرنا جو اس کا گناہ ہو گا وہ میری گردن پر۔ جب میں رخصت ہو کر چل تو فرمایا ہمارے شیعوں میں سے جو کوئی کسی مصیبت میں مبتلا ہو اور صبرکرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہزار شہیدوں کا اجر تحریر فرماتا ہے (یعنی امام مظلوم اور بے اختیار کے زمانہ میں جو شیعہ حکومت کے ظلم و جور پر صبر کرتے ہیں وہ اپنے عقیدہ پر ثابت قدم رہتے ہیں تو ان کے اعمال کا اجر ان لوگوں سے ہزار درجہ زیادہ ہو گا جو امام صاحب حکومت و دولت کے زمانہ میں بجا لائیں میں نے اپنے دل میں کہا کہ اس بات کا کوئی ذکر تھا ہی نہیں تو یہ حضرت نے کسی وجہ سے کہا ہے) جبکہ میں راستہ میں جا رہا تھا مجھے نارو کی بیماری لاحق ہو گئی میرے اوپر اس کی بڑی شدت تھی اگلے سال جب میں حج کے لیے آیا تو حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور میری تکلیف باقی تھی۔ میں نے حضرت سے بیان کر کے کہا آپ میرے لیے دعا کیجیے اور اپنا پیر آپ کے سامنے پھیلا دیا۔ فرمایا اس کا تو کوئی خوف نہیں صحیح پیر دکھاؤ۔ حضرت نے دعا کی اب جو میں وہاں سے چلا تو نارو باہر آ گیا اور تھوڑا سا درد باقی رہ گیا۔
أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنِ ابْنِ قِيَامَا الْوَاسِطِيِّ وَكَانَ مِنَ الْوَاقِفَةِ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى عَلِيِّ بْنِ مُوسَى الرِّضَا علیہ السلام فَقُلْتُ لَهُ يَكُونُ إِمَامَانِ قَالَ لا إِلا وَأَحَدُهُمَا صَامِتٌ فَقُلْتُ لَهُ هُوَ ذَا أَنْتَ لَيْسَ لَكَ صَامِتٌ وَلَمْ يَكُنْ وُلِدَ لَهُ أَبُو جَعْفَرٍ بَعْدُ فَقَالَ لِي وَالله لَيَجْعَلَنَّ الله مِنِّي مَا يُثْبِتُ بِهِ الْحَقَّ وَأَهْلَهُ وَيَمْحَقُ بِهِ الْبَاطِلَ وَأَهْلَهُ فَوُلِدَ لَهُ بَعْدَ سَنَةٍ أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام فَقِيلَ لابْنِ قِيَامَا أَ لا تُقْنِعُكَ هَذِهِ الايَةُ فَقَالَ أَمَا وَالله إِنَّهَا لآَيَةٌ عَظِيمَةٌ وَلَكِنْ كَيْفَ أَصْنَعُ بِمَا قَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام فِي ابْنِهِ۔
ابن قیاما مذہب واقفیہ رکھتا تھا اس نے بیان کیا کہ میں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور عرض کی کیا ایک وقت میں دو امام ہوتے ہیں۔ فرمایا ہاں مگر ان میں ایک صامت ہوتا ہے یعنی اس کا حکم جاری نہیں ہوتا۔ میں نے کہا کیا آپ امام ہیں درآنحالیکہ آپ کے لیے امام صامت نہیں امام محمد تقی اس وقت تک پیدا نہیں ہوئے تھے۔ مجھ سے حضرت نے فرمایا اللہ تعالیٰ عطا کریگا مجھے ایک لڑکا جو حق اور اس کے اہل کو ثابت و برقرار رکھے گا اور باطل اور اہل باطل کو مٹا دے گا۔ چنانچہ ایک سال بعد امام محمد تقی پیدا ہوئے ۔ ابن قیاما سے لوگوں نے کہا کیا تم اس علامت امامت پر قانع نہ ہو گے۔ اس نے کہا یہ آیت تو عظیم الشان ہے لیکن میں کیا کروں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے فرزند امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے متعلق ہی فرمایا ہے۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْوَشَّاءِ قَالَ أَتَيْتُ خُرَاسَانَ وَأَنَا وَاقِفٌ فَحَمَلْتُ مَعِي مَتَاعاً وَكَانَ مَعِي ثَوْبٌ وَشِيٌّ فِي بَعْضِ الرِّزَمِ وَلَمْ أَشْعُرْ بِهِ وَلَمْ أَعْرِفْ مَكَانَهُ فَلَمَّا قَدِمْتُ مَرْوَ وَنَزَلْتُ فِي بَعْضِ مَنَازِلِهَا لَمْ أَشْعُرْ إِلا وَرَجُلٌ مَدَنِيٌّ مِنْ بَعْضِ مُوَلَّدِيهَا فَقَالَ لِي إِنَّ أَبَا الْحَسَنِ الرِّضَا علیہ السلام يَقُولُ لَكَ ابْعَثْ إِلَيَّ الثَّوْبَ الْوَشِيَّ الَّذِي عِنْدَكَ قَالَ فَقُلْتُ وَمَنْ أَخْبَرَ أَبَا الْحَسَنِ بِقُدُومِي وَأَنَا قَدِمْتُ آنِفاً وَمَا عِنْدِي ثَوْبٌ وَشِيٌّ فَرَجَعَ إِلَيْهِ وَعَادَ إِلَيَّ فَقَالَ يَقُولُ لَكَ بَلَى هُوَ فِي مَوْضِعِ كَذَا وَكَذَا وَرِزْمَتُهُ كَذَا وَكَذَا فَطَلَبْتُهُ حَيْثُ قَالَ فَوَجَدْتُهُ فِي أَسْفَلِ الرِّزْمَةِ فَبَعَثْتُ بِهِ إِلَيْهِ۔
راوی کہتا ہے میں خراسان میں آیا اور میں مذہب واقفیہ رکھتا تھا میرے ساتھ کچھ سامان تھا جس میں کچھ چھینٹ کی قسم کا کپڑا بھی تھا جس کا مجھے علم نہ تھا اور نہ یہ پتہ تھا کہ کس گٹھری میں ہے جب مقام مرو میں پہنچا تو ایک مکان میں اترا ایک شخص مدنی جو مرو کا رہنے والا باشندہ تھا میرے پاس آیا اور مجھ سے کہنے لگا امام رضا علیہ السلام نے کہا ہے کہ جو قلمکار کپڑا تیرے پاس ہے مجھے بھیج دے میں نے کہا میرے آنے کی خبر حضرت کو کیسے ہوئی حالانکہ میں ابھی آیا ہوں اور میرے پاس چھینٹ کی قسم کا کوئی کپڑا نہیں۔وہ لوٹ کر آیا اور کہنے لگا حضرت نے فرمایا ہے تیرے پاس ہے اور فلاں جگہ ہے اور وہاں گھٹری میں بندھا ہوا ہے میں نے تلاش کیا تو ایک گھٹری میں سب سے نیچے اسے پایا۔ پس میں نے اس کو حضرت کے پاس بھیج دیا۔
ابْنُ فَضَّالٍ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ الْمُغِيرَةِ قَالَ كُنْتُ وَاقِفاً وَحَجَجْتُ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ فَلَمَّا صِرْتُ بِمَكَّةَ خَلَجَ فِي صَدْرِي شَيْءٌ فَتَعَلَّقْتُ بِالْمُلْتَزَمِ ثُمَّ قُلْتُ اللهمَّ قَدْ عَلِمْتَ طَلِبَتِي وَإِرَادَتِي فَأَرْشِدْنِي إِلَى خَيْرِ الادْيَانِ فَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنْ آتِيَ الرِّضَا علیہ السلام فَأَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَوَقَفْتُ بِبَابِهِ وَقُلْتُ لِلْغُلامِ قُلْ لِمَوْلاكَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ بِالْبَابِ قَالَ فَسَمِعْتُ نِدَاءَهُ وَهُوَ يَقُولُ ادْخُلْ يَا عَبْدَ الله بْنَ الْمُغِيرَةِ ادْخُلْ يَا عَبْدَ الله بْنَ الْمُغِيرَةِ فَدَخَلْتُ فَلَمَّا نَظَرَ إِلَيَّ قَالَ لِي قَدْ أَجَابَ الله دُعَاءَكَ وَهَدَاكَ لِدِينِهِ فَقُلْتُ أَشْهَدُ أَنَّكَ حُجَّةُ الله وَأَمِينُهُ عَلَى خَلْقِهِ۔
عبداللہ بن مغیرہ کہتا ہے میں واقفیہ مذہب رکھتا تھا اسی حالت میں میں نے حج کیا۔ جب میں مکہ پہنچا تو اپنے مذہب کے بارے میں میرے دل کے اندر ایک شک پیدا ہوا پس میں مقام ملتزم (خانہ کعبہ میں دروازہ اور رکن یمانی کے درمیان یہاں لباس کعبہ کو پکڑ کر لوگ دعا کرتے ہیں) میں آیا اور کعبہ کے پردہ کو پکڑ کر دعا کرنے لگا۔ خداوندا تو میری طلب اور میرے ارادہ کو جانتا ہے پس مجھے ہدایت کر بہترین دین کی طرف، میرے دل میں یہ بات پیدا ہوئی کہ میں امام رضا علیہ السلام کے پاس جاؤں پس میں مدینہ آیا اور حضرت کے دروازہ پر پہنچا۔ غلام سے کہا اپنے آقا سے کہدے ایک شخص اہل عراق سے آیا ہے میں نے حضرت کی آواز سنی اے عبداللہ بن مغیرہ اندر آ۔ میں اندر آیا تو حضرت نے مجھے دیکھ کر فرمایا خدا نے تجھے اپنے دین کی طرف ہدایت کی۔ میں نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خدا کی حجت ہیں اور اس کی مخلوق پر اس کے امین ہیں۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله قَالَ كَانَ عَبْدُ الله بْنُ هُلَيْلٍ يَقُولُ بِعَبْدِ الله فَصَارَ إِلَى الْعَسْكَرِ فَرَجَعَ عَنْ ذَلِكَ فَسَأَلْتُهُ عَنْ سَبَبِ رُجُوعِهِ فَقَالَ إِنِّي عَرَضْتُ لابِي الْحَسَنِ علیہ السلام أَنْ أَسْأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ فَوَافَقَنِي فِي طَرِيقٍ ضَيِّقٍ فَمَالَ نَحْوِي حَتَّى إِذَا حَاذَانِي أَقْبَلَ نَحْوِي بِشَيْءٍ مِنْ فِيهِ فَوَقَعَ عَلَى صَدْرِي فَأَخَذْتُهُ فَإِذَا هُوَ رَقٌّ فِيهِ مَكْتُوبٌ مَا كَانَ هُنَالِكَ وَلا كَذَلِكَ۔
راوی کہتا ہے عبداللہ بن ہلیل نے بیان کیا کہ وہ عبداللہ افطع کی امامت کا قائل تھا وہ سامرہ گیا۔ وہاں سے آیا تو اپنے سابقہ عقیدے کو چھوڑ کر آیا ۔ میں نے اس کا سبب پوچھا۔ اس نے کہا میں نے اپنے آپ کو تیار کیا امام علی نقی علیہ السلام سے سوال کرنے پر پس حضرت مجھے ایک تنگ راستہ پر مل گئے۔ جب میرے مقابل ہوئے تو حضرت نے اپنے منہ سے کوئی چیز میری طرف پھینکی جو میرے سینے پر لگی وہ ایک جھلی تھی جس پر لکھا تھا وہ (عبداللہ افطح) نہ یہاں ہے اور نہ وہ امام ہے۔
عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا ذَكَرَ اسْمَهُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عُبَيْدِ الله بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ زَيْدِ بْنِ مُوسَى عَنْ أَبِيهِ عَنْ آبَائِهِ (عَلَيْهم السَّلام) قَالُوا جَاءَتْ أُمُّ أَسْلَمَ يَوْماً إِلَى النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ فِي مَنْزِلِ أُمِّ سَلَمَةَ فَسَأَلَتْهَا عَنْ رَسُولِ الله ﷺ فَقَالَتْ خَرَجَ فِي بَعْضِ الْحَوَائِجِ وَالسَّاعَةَ يَجِيءُ فَانْتَظَرَتْهُ عِنْدَ أُمِّ سَلَمَةَ حَتَّى جَاءَ ﷺ فَقَالَتْ أُمُّ أَسْلَمَ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ الله إِنِّي قَدْ قَرَأْتُ الْكُتُبَ وَعَلِمْتُ كُلَّ نَبِيٍّ وَوَصِيٍّ فَمُوسَى كَانَ لَهُ وَصِيٌّ فِي حَيَاتِهِ وَوَصِيٌّ بَعْدَ مَوْتِهِ وَكَذَلِكَ عِيسَى فَمَنْ وَصِيُّكَ يَا رَسُولَ الله فَقَالَ لَهَا يَا أُمَّ أَسْلَمَ وَصِيِّي فِي حَيَاتِي وَبَعْدَ مَمَاتِي وَاحِدٌ ثُمَّ قَالَ لَهَا يَا أُمَّ أَسْلَمَ مَنْ فَعَلَ فِعْلِي هَذَا فَهُوَ وَصِيِّي ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ إِلَى حَصَاةٍ مِنَ الارْضِ فَفَرَكَهَا بِإِصْبَعِهِ فَجَعَلَهَا شِبْهَ الدَّقِيقِ ثُمَّ عَجَنَهَا ثُمَّ طَبَعَهَا بِخَاتَمِهِ ثُمَّ قَالَ مَنْ فَعَلَ فِعْلِي هَذَا فَهُوَ وَصِيِّي فِي حَيَاتِي وَبَعْدَ مَمَاتِي فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِهِ فَأَتَيْتُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام فَقُلْتُ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي أَنْتَ وَصِيُّ رَسُولِ الله ﷺ قَالَ نَعَمْ يَا أُمَّ أَسْلَمَ ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ إِلَى حَصَاةٍ فَفَرَكَهَا فَجَعَلَهَا كَهَيْئَةِ الدَّقِيقِ ثُمَّ عَجَنَهَا وَخَتَمَهَا بِخَاتَمِهِ ثُمَّ قَالَ يَا أُمَّ أَسْلَمَ مَنْ فَعَلَ فِعْلِي هَذَا فَهُوَ وَصِيِّي فَأَتَيْتُ الْحَسَنَ علیہ السلام وَهُوَ غُلامٌ فَقُلْتُ لَهُ يَا سَيِّدِي أَنْتَ وَصِيُّ أَبِيكَ فَقَالَ نَعَمْ يَا أُمَّ أَسْلَمَ وَضَرَبَ بِيَدِهِ وَأَخَذَ حَصَاةً فَفَعَلَ بِهَا كَفِعْلِهِمَا فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِهِ فَأَتَيْتُ الْحُسَيْنَ وَإِنِّي لَمُسْتَصْغِرَةٌ لِسِنِّهِ فَقُلْتُ لَهُ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي أَنْتَ وَصِيُّ أَخِيكَ فَقَالَ نَعَمْ يَا أُمَّ أَسْلَمَ ائْتِينِي بِحَصَاةٍ ثُمَّ فَعَلَ كَفِعْلِهِمْ فَعَمَرَتْ أُمُّ أَسْلَمَ حَتَّى لَحِقَتْ بِعَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بَعْدَ قَتْلِ الْحُسَيْنِ علیہ السلام فِي مُنْصَرَفِهِ فَسَأَلَتْهُ أَنْتَ وَصِيُّ أَبِيكَ فَقَالَ نَعَمْ ثُمَّ فَعَلَ كَفِعْلِهِمْ صَلَوَاتُ الله عَلَيْهِمْ أَجْمَعِينَ۔
راوی کہتا ہے کہ ام اسلم ایک روز رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی جبکہ آپ کی باری خانہ ام سلمہ میں تھی۔ ان سے آنحضرت کے متعلق سوا کیا۔ انھوں نے کہا کسی ضرورت سے باہر تشریف لے گئے ہیں ابھی آئے جاتے ہیں۔ اس نے انتظار کیا۔ حضرت تشریف لے آئے۔ ام اسلم نے کہا اے اللہ کے رسول میں نے آسمانی کتابوں میں پڑھا ہے مجھے معلوم ہے ہر نبی و وصی کے متعلق موسیٰ کے وصی زندگی میں ہارون تھے اور مرنے کے بعد یوشع ہوئے ایسے ہی عیسیٰ کے وصی ہوئے پس یا رسول اللہ آپ کے وصی کون ہوئے۔ فرمایا میرا وصی میری زندگی میں اور میرے مرنے کے بعد ایک ہی ہے اے ام اسلم جو کوئی میرا سا کام کر کے دکھائے وہی میرا وصی ہے پھر آپ نے زمین پر سے ایک سنگ ریزہ اٹھایا اور اسے اپنی چٹکی میں لے کر دبایا اور آٹے کی طرح باریک کر دیا پھر اسے گوندھا اور اس پر اپنی انگوٹھی سے مہر لگا کر فرمایا جو کوئی میری طرح ایسا کام کرے وہی میرا وصی ہے میری زندگی میں اور میرے مرنے کے بعد۔ پھر میں حضرت کے پاس چلی آئی امیر المومنین کی خدمت میں آئی اور ان سے کہا کیا آپ وصی رسول ہیں۔ فرمایا ہاں پھر آپ نے ایک سنگ ریزہ لے کر اسے چٹکی سے آٹے کی طرح باریک کیا پھر اسے گوندھا اور اپنی انگوٹھی سے اس پر مہر لگا دی اور مجھ سے کہا جو کوئی میری طرح ایسا کرے وہ میرا وصی ہے۔ پھر میں امام حسن کے پاس آئی وہ لڑکے تھے میں نے کہا کیا آپ اپنے باپ کے وصی ہیں۔ فرمایا ہاں اے ام اسلم۔ پھر انھوں نے کنکری اٹھا کر ویسا ہی کیا جیسا حضرت رسول خدا اور حضرت علی نے کیا تھا۔ میں وہاں سے امام حسین کے پاس آئی وہ بہت ہی صغیر السن تھے میں نے کہا کیا آپ اپنے بھائی کے وصی ہیں۔ فرمایا ہاں اے ام اسلم کنکری لا۔ پس انھوں نے بھی وہی کر کے دکھایا۔ ام اسلم کی عمر اتنی زیادہ ہوئی کہ وہ حضرت علی بن الحسین سے ملی مدینہ واپس آنے کے بعد ان سے کہا کیا آپ اپنے باپ کے وصی ہیں۔ فرمایا ہاں اور انھوں نے وہی کر کے دکھایا۔ اللہ کا درود و سلام ہو ان پر۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ الْجَارُودِ عَنْ مُوسَى بْنِ بَكْرِ بْنِ دَابٍ عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام أَنَّ زَيْدَ بْنَ عَلِيِّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) دَخَلَ عَلَى أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ وَمَعَهُ كُتُبٌ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ يَدْعُونَهُ فِيهَا إِلَى أَنْفُسِهِمْ وَيُخْبِرُونَهُ بِاجْتِمَاعِهِمْ وَيَأْمُرُونَهُ بِالْخُرُوجِ فَقَالَ لَهُ أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام هَذِهِ الْكُتُبُ ابْتِدَاءٌ مِنْهُمْ أَوْ جَوَابُ مَا كَتَبْتَ بِهِ إِلَيْهِمْ وَدَعَوْتَهُمْ إِلَيْهِ فَقَالَ بَلِ ابْتِدَاءٌ مِنَ الْقَوْمِ لِمَعْرِفَتِهِمْ بِحَقِّنَا وَبِقَرَابَتِنَا مِنْ رَسُولِ الله ﷺ وَلِمَا يَجِدُونَ فِي كِتَابِ الله عَزَّ وَجَلَّ مِنْ وُجُوبِ مَوَدَّتِنَا وَفَرْضِ طَاعَتِنَا وَلِمَا نَحْنُ فِيهِ مِنَ الضِّيقِ وَالضَّنْكِ وَالْبَلاءِ فَقَالَ لَهُ أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام إِنَّ الطَّاعَةَ مَفْرُوضَةٌ مِنَ الله عَزَّ وَجَلَّ وَسُنَّةٌ أَمْضَاهَا فِي الاوَّلِينَ وَكَذَلِكَ يُجْرِيهَا فِي الاخِرِينَ وَالطَّاعَةُ لِوَاحِدٍ مِنَّا وَالْمَوَدَّةُ لِلْجَمِيعِ وَأَمْرُ الله يَجْرِي لاوْلِيَائِهِ بِحُكْمٍ مَوْصُولٍ وَقَضَاءٍ مَفْصُولٍ وَحَتْمٍ مَقْضِيٍّ وَقَدَرٍ مَقْدُورٍ وَأَجَلٍ مُسَمًّى لِوَقْتٍ مَعْلُومٍ فَلا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِينَ لا يُوقِنُونَ إِنَّهُمْ لَنْ يُغْنُوا عَنْكَ مِنَ الله شَيْئاً فَلا تَعْجَلْ فَإِنَّ الله لا يَعْجَلُ لِعَجَلَةِ الْعِبَادِ وَلا تَسْبِقَنَّ الله فَتُعْجِزَكَ الْبَلِيَّةُ فَتَصْرَعَكَ قَالَ فَغَضِبَ زَيْدٌ عِنْدَ ذَلِكَ ثُمَّ قَالَ لَيْسَ الامَامُ مِنَّا مَنْ جَلَسَ فِي بَيْتِهِ وَأَرْخَى سِتْرَهُ وَثَبَّطَ عَنِ الْجِهَادِ وَلَكِنَّ الامَامَ مِنَّا مَنْ مَنَعَ حَوْزَتَهُ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ الله حَقَّ جِهَادِهِ وَدَفَعَ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَذَبَّ عَنْ حَرِيمِهِ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام هَلْ تَعْرِفُ يَا أَخِي مِنْ نَفْسِكَ شَيْئاً مِمَّا نَسَبْتَهَا إِلَيْهِ فَتَجِيءَ عَلَيْهِ بِشَاهِدٍ مِنْ كِتَابِ الله أَوْ حُجَّةٍ مِنْ رَسُولِ الله ﷺ أَوْ تَضْرِبَ بِهِ مَثَلاً فَإِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ أَحَلَّ حَلالاً وَحَرَّمَ حَرَاماً وَفَرَضَ فَرَائِضَ وَضَرَبَ أَمْثَالاً وَسَنَّ سُنَناً وَلَمْ يَجْعَلِ الامَامَ الْقَائِمَ بِأَمْرِهِ شُبْهَةً فِيمَا فَرَضَ لَهُ مِنَ الطَّاعَةِ أَنْ يَسْبِقَهُ بِأَمْرٍ قَبْلَ مَحَلِّهِ أَوْ يُجَاهِدَ فِيهِ قَبْلَ حُلُولِهِ وَقَدْ قَالَ الله عَزَّ وَجَلَّ فِي الصَّيْدِ لا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ أَ فَقَتْلُ الصَّيْدِ أَعْظَمُ أَمْ قَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ الله وَجَعَلَ لِكُلِّ شَيْءٍ مَحَلاً وَقَالَ الله عَزَّ وَجَلَّ وَإِذا حَلَلْتُمْ فَاصْطادُوا وَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ لا تُحِلُّوا شَعائِرَ الله وَلا الشَّهْرَ الْحَرامَ فَجَعَلَ الشُّهُورَ عِدَّةً مَعْلُومَةً فَجَعَلَ مِنْهَا أَرْبَعَةً حُرُماً وَقَالَ فَسِيحُوا فِي الارْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي الله ثُمَّ قَالَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَإِذَا انْسَلَخَ الاشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ فَجَعَلَ لِذَلِكَ مَحَلاً وَقَالَ وَلا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكاحِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتابُ أَجَلَهُ فَجَعَلَ لِكُلِّ شَيْءٍ أَجَلاً وَلِكُلِّ أَجَلٍ كِتَاباً فَإِنْ كُنْتَ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّكَ وَيَقِينٍ مِنْ أَمْرِكَ وَتِبْيَانٍ مِنْ شَأْنِكَ فَشَأْنَكَ وَإِلا فَلا تَرُومَنَّ أَمْراً أَنْتَ مِنْهُ فِي شَكٍّ وَشُبْهَةٍ وَلا تَتَعَاطَ زَوَالَ مُلْكٍ لَمْ تَنْقَضِ أُكُلُهُ وَلَمْ يَنْقَطِعْ مَدَاهُ وَلَمْ يَبْلُغِ الْكِتَابُ أَجَلَهُ فَلَوْ قَدْ بَلَغَ مَدَاهُ وَانْقَطَعَ أُكُلُهُ وَبَلَغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ لانْقَطَعَ الْفَصْلُ وَتَتَابَعَ النِّظَامُ وَلاعْقَبَ الله فِي التَّابِعِ وَالْمَتْبُوعِ الذُّلَّ وَالصَّغَارَ أَعُوذُ بِالله مِنْ إِمَامٍ ضَلَّ عَنْ وَقْتِهِ فَكَانَ التَّابِعُ فِيهِ أَعْلَمَ مِنَ الْمَتْبُوعِ أَ تُرِيدُ يَا أَخِي أَنْ تُحْيِيَ مِلَّةَ قَوْمٍ قَدْ كَفَرُوا بِآيَاتِ الله وَعَصَوْا رَسُولَهُ وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ بِغَيْرِ هُدًى مِنَ الله وَادَّعَوُا الْخِلافَةَ بِلا بُرْهَانٍ مِنَ الله وَلا عَهْدٍ مِنْ رَسُولِهِ أُعِيذُكَ بِالله يَا أَخِي أَنْ تَكُونَ غَداً الْمَصْلُوبَ بِالْكُنَاسَةِ ثُمَّ ارْفَضَّتْ عَيْنَاهُ وَسَالَتْ دُمُوعُهُ ثُمَّ قَالَ الله بَيْنَنَا وَبَيْنَ مَنْ هَتَكَ سِتْرَنَا وَجَحَدَنَا حَقَّنَا وَأَفْشَى سِرَّنَا وَنَسَبَنَا إِلَى غَيْرِ جَدِّنَا وَقَالَ فِينَا مَا لَمْ نَقُلْهُ فِي أَنْفُسِنَا۔
زید بن علی ایک روز امام محمد باقر علیہ السلام کے پاس اہل کوفہ کے کچھ خطوط لے کر آئے جس میں انھوں نے زید کو اپنی طرف آنے کی دعوت دی تھی اور لکھا تھا کہ لوگ ان کی مدد کے لیے جمع ہیں اور خروج کرنے کی ترغیب دی تھی۔ امام باقر علیہ السلام نے فرمایا ان خطوط کی ابتداء انھوں نے کی ہے یا تم نے جو لکھا تھا ان کو اپنی طرف بلایا تھا یہ اس کا جواب ہے۔ انھوں نے کہا اس کی ابتداء انھوں نے ہی کی ہے ہمارے حق کو اور رسول اللہ سے ہماری قرابت کو پہنچانتے ہوئے اور اس لیے کہ انھوں نے کتاب خدا میں ہماری مودت کے وجوب کو اور ہماری اطاعت کو فرض پایا اور اس لیے کہ انھوں نے ہماری پریشان حالی ، تنگدستی اور حکومت کے مظالم کو دیکھا ہے۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا اطاعت تو اللہ کی طرف سے فرض کی ہوتی ہے اور یہ وہ طریقہ ہے جو اولین کے لیے تھا اور یہی آخرین کے لیے ہے اور اطاعت تو ہم میں سے صرف ایک کے لیے ہے البتہ مودت سب کے لیے ہے اور امر خدا جاری ہوتا ہے اس کے اولیاء میں بالاتصال حکم کے ساتھ اور یہ کہ ان کی طرف رجوع فیصل شدہ ہے اور ایک یقینی امر ہے اور ایک وقت معلوم تک کی مدت معین ہے۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ جو خدا کی ربوبیت پر یقین نہیں رکھتے تمہیں بے وقوف بنائیں (چونکہ تم امام منصوص اللہ نہ ہوتے ہوئے خروج کا ارادہ رکھتے ہو لہذا) یہ لوگ تم کو عذاب الہٰی سے نہیں بچا سکتے۔ پس جلدی نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ بندوں کی جلدی کرنے پر جلدی نہیں کرتا۔ اور تم اللہ پر سبقت نہ کرو ورنہ مصیبت تم کو عاجز بنا دے گی اور گرا دے گی یہ سن کر زید کو غصہ آیا اور کہنے لگا وہ امام نہیں ہو سکتا جو گھر میں پردے چھوڑ کر بیٹھے اور جہاد فی سبیل اللہ سے کنارہ کش ہو بلکہ امام وہ ہے جو حدود اسلام سے دشمنوں کو روکے اللہ کی راہ میں ڈٹ کر جہاد کرے اور رعیت سے ظالموں کو دفع کرے اور اپنے حرم کی حفاظت کرے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا اے بھائی جس چیز کی طرف تم اپنے کو نسبت دے رہے ہو اس کے متعلق کوئی گواہی تمہارے پاس کتاب خدا سے یا طریقہ رسول سے ہے یا زمانہ سابق کی کوئی مثال ایسی دے سکتے ہو جس سے معلوم ہو کہ تلوار چلائے بغیر کوئی امام نہیں ہوتا یا علوم دین سے جاہل امام ہو سکتا ہے خدا نے بعض چیزوں کو حلال کیا ہے بعض کو حرام اسی نے فرائض بتائے ہیں اسی نے مثالیں قائم کی ہیں اور طریقے بنائے ہیں ہم کو ان امور میں دخل نہیں کہ وہ اپنی طرف سے جو چاہیں کر لیں خدا نے اپنے امر پر قائم رہنے والا کوئی امام ایسا نہیں بنایا جو طاعت کے فرائض میں شک و شبہ رکھتا ہو اور وہ کسی امر میں وقت سے پہلے سبقت کرنے لگے اور جہاد کا وقت آنے سے پہلے جہاد پر تیار ہو جائے۔ خدا نے فرمایا کہ احرام کی حالت میں شکار نہ کرو تو آیا شکار کا قتل زیادہ برا ہے یا اس نفس انسانی کا جس کی حرمت اللہ نے رکھی ہے اور قتل حرام قرار دیا ہے ۔
ہر شے کا ایک محل ہوتا ہے فرماتا ہے جب تم احرام کھول دو تو شکار کر لو پہلے جس کی ممانعت کی تھی اب اس کی اجازت ہو گئی اور خدا نے فرمایا کہ ترک نہ کرو حرمت کو صاحب عزت احترام مقامات کی اور نہ حرمت والے مہینوں کی (شوال، زیقعد، ذالحجہ اور محرم) خدا نے بارہ مہینے رکھے ہیں ان میں چار کو صاحب حرمت قرار دیا ہے ان میں جنگ کرنے سے منع کیا ہے اور فرمایا کہ ان چار مہینوں میں روئے زمین کی سیر کرو اور یہ سمجھ لو کہ تم ان کو عاجز کرنے والے نہیں۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا جب یہ حرمت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو جہاں پاؤ قتل کرو۔ مطلب یہ ہے کہ ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے۔ اے زید تم بے موقع بے حکم خدا کے جہاد کے لیے کھڑے ہو رہے ہو۔ خدا نے قتل مشرکین کا ایک وقت معین فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ عدہ وفات میں عورت سے عقد نہ کرو جب تک اس کی مدت ختم نہ ہو جائے پس خدا نے ہر شے کے لیے ایک محل قرار دیا ہے اور ہر امر کے لیے ایک مدت ہے۔
پس اگر تمہارے پاس اپنے اس ارادہ کے متعلق خدا کی طرف سے کوئی دلیل ہے اور تمہیں اس امر میں اپنی صداقت کا یقین ہے اور تمہارا معاملہ واضح ہے تو ٹھیک ہے جو کرنا چاہتے ہو کرو ورنہ ایسے امر کا قصد نہ کرو۔ اور اس سلطنت کو ختم کرنے کی کوشش نہ کرو جن کا نصیب ابھی دنیا سے ختم نہ ہوا (یعنی سلطنت بنی امیہ) اور ان کی مدت حکومت ابھی آخر نہیں ہوئی اور ان کے زوال کا وقت بھی نہیں آیا پس جب ان کی مدت ختم ہو جائے گی اور دنیا سے ان کا رزق اٹھ جائے گا اور مدت سلطنت اپنے آخری نقطہ پر پہنچ جائے گی اور یہ ان کی فضیلت اور باقاعدہ انتظام کا سلسلہ ختم ہو جائے گا اور رعیت اور بادشاہ دونوں کو اللہ ذلت و حقارت میں مبتلا کر دے گا۔
میں پناہ مانگتا ہوں خدا سے اس امام کے بارے میں جو وقتی ضرورت کو نہیں سمجھتا اور جو اتنا جاہل ہو کر اس کی رعایا اپنے بادشاہ سے زیادہ عالم ہو اے بھائی کیا تم زندہ کرنا چاہتے ہو ان لوگوں کے طریقہ حکومت کو جنھوں نے آیات خدا کا انکار کیا اور اس کے رسول کی نافرمانی کی اور بغیر خدا کی ہدایت کے اپنی خواہشوں کی پیروی کی اور دعویٰ خلافت کیا بغیر کسی خدائی دلیل کے اور بغیر حکم رسول کے۔ میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں اس امر میں کے اے بھائی تم کو سولی دی جائے کناسہ میں۔ یہ فرما کر آپ کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں اور آنسو جاری ہو گئے۔ پھر فرمایا اللہ ہی فیصلہ کرنے والا ہے ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان جنھوں نے ہماری پردہ دری کی اور ہمارے حق سے انکار کیا اور ہمارے بھید کو افشا کیا اور نسبت دی ہم کو ہمارے جد کے غیر سے اور ہمارے بارے میں ان باتوں کو بیان کیا جو ہمارے دل میں نہ تھیں۔
بَعْضُ أَصْحَابِنَا عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رَنْجَوَيْهِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ الْحَكَمِ الارْمَنِيِّ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْجَعْفَرِيِّ قَالَ أَتَيْنَا خَدِيجَةَ بِنْتَ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ علیہ السلام نُعَزِّيهَا بِابْنِ بِنْتِهَا فَوَجَدْنَا عِنْدَهَا مُوسَى بْنَ عَبْدِ الله بْنِ الْحَسَنِ فَإِذَا هِيَ فِي نَاحِيَةٍ قَرِيباً مِنَ النِّسَاءِ فَعَزَّيْنَاهُمْ ثُمَّ أَقْبَلْنَا عَلَيْهِ فَإِذَا هُوَ يَقُولُ لابْنَةِ أَبِي يَشْكُرَ الرَّاثِيَةِ قُولِي فَقَالَتْ. اعْدُدْ رَسُولَ الله وَاعْدُدْ بَعْدَهُ***أَسَدَ الالَهِ وَثَالِثاً عَبَّاسَا وَاعْدُدْ عَلِيَّ الْخَيْرِ وَاعْدُدْ جَعْفَراً***وَاعْدُدْ عَقِيلاً بَعْدَهُ الرُّوَّاسَا فَقَالَ أَحْسَنْتِ وَأَطْرَبْتِنِي زِيدِينِي فَانْدَفَعَتْ تَقُولُ. وَمِنَّا إِمَامُ الْمُتَّقِينَ مُحَمَّدٌ*** وَفَارِسُهُ ذَاكَ الامَامُ الْمُطَهَّرُ وَ مِنَّا عَلِيٌّ صِهْرُهُ وَابْنُ عَمِّهِ*** وَحَمْزَةُ مِنَّا وَالْمُهَذَّبُ جَعْفَرُ فَأَقَمْنَا عِنْدَهَا حَتَّى كَادَ اللَّيْلُ أَنْ يَجِيءَ ثُمَّ قَالَتْ خَدِيجَةُ سَمِعْتُ عَمِّي مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ صَلَوَاتُ الله عَلَيْهِ وَهُوَ يَقُولُ إِنَّمَا تَحْتَاجُ الْمَرْأَةُ فِي الْمَأْتَمِ إِلَى النَّوْحِ لِتَسِيلَ دَمْعَتُهَا وَلا يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تَقُولَ هُجْراً فَإِذَا جَاءَ اللَّيْلُ فَلا تُؤْذِي الْمَلائِكَةَ بِالنَّوْحِ ثُمَّ خَرَجْنَا فَغَدَوْنَا إِلَيْهَا غُدْوَةً فَتَذَاكَرْنَا عِنْدَهَا اخْتِزَالَ مَنْزِلِهَا مِنْ دَارِ أَبِي عَبْدِ الله جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ فَقَالَ هَذِهِ دَارٌ تُسَمَّى دَارَ السَّرِقَةِ فَقَالَتْ هَذَا مَا اصْطَفَى مَهْدِيُّنَا تَعْنِي مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الله بْنِ الْحَسَنِ تُمَازِحُهُ بِذَلِكَ فَقَالَ مُوسَى بْنُ عَبْدِ الله وَالله لاخْبِرَنَّكُمْ بِالْعَجَبِ رَأَيْتُ أَبِي رَحِمَهُ الله لَمَّا أَخَذَ فِي أَمْرِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله وَأَجْمَعَ عَلَى لِقَاءِ أَصْحَابِهِ فَقَالَ لا أَجِدُ هَذَا الامْرَ يَسْتَقِيمُ إِلا أَنْ أَلْقَى أَبَا عَبْدِ الله جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ فَانْطَلَقَ وَهُوَ مُتَّكٍ عَلَيَّ فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ حَتَّى أَتَيْنَا أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) فَلَقِينَاهُ خَارِجاً يُرِيدُ الْمَسْجِدَ فَاسْتَوْقَفَهُ أَبِي وَكَلَّمَهُ فَقَالَ لَهُ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) لَيْسَ هَذَا مَوْضِعَ ذَلِكَ نَلْتَقِي إِنْ شَاءَ الله فَرَجَعَ أَبِي مَسْرُوراً ثُمَّ أَقَامَ حَتَّى إِذَا كَانَ الْغَدُ أَوْ بَعْدَهُ بِيَوْمٍ انْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَاهُ فَدَخَلَ عَلَيْهِ أَبِي وَأَنَا مَعَهُ فَابْتَدَأَ الْكَلامَ ثُمَّ قَالَ لَهُ فِيمَا يَقُولُ قَدْ عَلِمْتَ جُعِلْتُ فِدَاكَ أَنَّ السِّنَّ لِي عَلَيْكَ وَأَنَّ فِي قَوْمِكَ مَنْ هُوَ أَسَنُّ مِنْكَ وَلَكِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ قَدْ قَدَّمَ لَكَ فَضْلاً لَيْسَ هُوَ لاحَدٍ مِنْ قَوْمِكَ وَقَدْ جِئْتُكَ مُعْتَمِداً لِمَا أَعْلَمُ مِنْ بِرِّكَ وَأَعْلَمُ فَدَيْتُكَ أَنَّكَ إِذَا أَجَبْتَنِي لَمْ يَتَخَلَّفْ عَنِّي أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِكَ وَلَمْ يَخْتَلِفْ عَلَيَّ اثْنَانِ مِنْ قُرَيْشٍ وَلا غَيْرِهِمْ فَقَالَ لَهُ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) إِنَّكَ تَجِدُ غَيْرِي أَطْوَعَ لَكَ مِنِّي وَلا حَاجَةَ لَكَ فِيَّ فَوَ الله إِنَّكَ لَتَعْلَمُ أَنِّي أُرِيدُ الْبَادِيَةَ أَوْ أَهُمُّ بِهَا فَأَثْقُلُ عَنْهَا وَأُرِيدُ الْحَجَّ فَمَا أُدْرِكُهُ إِلا بَعْدَ كَدٍّ وَتَعَبٍ وَمَشَقَّةٍ عَلَى نَفْسِي فَاطْلُبْ غَيْرِي وَسَلْهُ ذَلِكَ وَلا تُعْلِمْهُمْ أَنَّكَ جِئْتَنِي فَقَالَ لَهُ النَّاسُ مَادُّونَ أَعْنَاقَهُمْ إِلَيْكَ وَإِنْ أَجَبْتَنِي لَمْ يَتَخَلَّفْ عَنِّي أَحَدٌ وَلَكَ أَنْ لا تُكَلَّفَ قِتَالاً وَلا مَكْرُوهاً قَالَ وَهَجَمَ عَلَيْنَا نَاسٌ فَدَخَلُوا وَقَطَعُوا كَلامَنَا فَقَالَ أَبِي جُعِلْتُ فِدَاكَ مَا تَقُولُ فَقَالَ نَلْتَقِي إِنْ شَاءَ الله فَقَالَ أَ لَيْسَ عَلَى مَا أُحِبُّ فَقَالَ عَلَى مَا تُحِبُّ إِنْ شَاءَ الله مِنْ إِصْلاحِكَ ثُمَّ انْصَرَفَ حَتَّى جَاءَ الْبَيْتَ فَبَعَثَ رَسُولاً إِلَى مُحَمَّدٍ فِي جَبَلٍ بِجُهَيْنَةَ يُقَالُ لَهُ الاشْقَرُ عَلَى لَيْلَتَيْنِ مِنَ الْمَدِينَةِ فَبَشَّرَهُ وَأَعْلَمَهُ أَنَّهُ قَدْ ظَفِرَ لَهُ بِوَجْهِ حَاجَتِهِ وَمَا طَلَبَ ثُمَّ عَادَ بَعْدَ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ فَوُقِّفْنَا بِالْبَابِ وَلَمْ نَكُنْ نُحْجَبُ إِذَا جِئْنَا فَأَبْطَأَ الرَّسُولُ ثُمَّ أَذِنَ لَنَا فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ فَجَلَسْتُ فِي نَاحِيَةِ الْحُجْرَةِ وَدَنَا أَبِي إِلَيْهِ فَقَبَّلَ رَأْسَهُ ثُمَّ قَالَ جُعِلْتُ فِدَاكَ قَدْ عُدْتُ إِلَيْكَ رَاجِياً مُؤَمِّلاً قَدِ انْبَسَطَ رَجَائِي وَأَمَلِي وَرَجَوْتُ الدَّرْكَ لِحَاجَتِي فَقَالَ لَهُ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) يَا ابْنَ عَمِّ إِنِّي أُعِيذُكَ بِالله مِنَ التَّعَرُّضِ لِهَذَا الامْرِ الَّذِي أَمْسَيْتَ فِيهِ وَإِنِّي لَخَائِفٌ عَلَيْكَ أَنْ يُكْسِبَكَ شَرّاً فَجَرَى الْكَلامُ بَيْنَهُمَا حَتَّى أَفْضَى إِلَى مَا لَمْ يَكُنْ يُرِيدُ وَكَانَ مِنْ قَوْلِهِ بِأَيِّ شَيْءٍ كَانَ الْحُسَيْنُ أَحَقَّ بِهَا مِنْ الْحَسَنِ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) رَحِمَ الله الْحَسَنَ وَرَحِمَ الْحُسَيْنَ وَكَيْفَ ذَكَرْتَ هَذَا قَالَ لانَّ الْحُسَيْنَ (عَلَيْهِ السَّلام) كَانَ يَنْبَغِي لَهُ إِذَا عَدَلَ أَنْ يَجْعَلَهَا فِي الاسَنِّ مِنْ وُلْدِ الْحَسَنِ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) إِنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَمَّا أَنْ أَوْحَى إِلَى مُحَمَّدٍ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) أَوْحَى إِلَيْهِ بِمَا شَاءَ وَلَمْ يُؤَامِرْ أَحَداً مِنْ خَلْقِهِ وَأَمَرَ مُحَمَّدٌ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) عَلِيّاً (عَلَيْهِ السَّلام) بِمَا شَاءَ فَفَعَلَ مَا أُمِرَ بِهِ وَلَسْنَا نَقُولُ فِيهِ إِلا مَا قَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) مِنْ تَبْجِيلِهِ وَتَصْدِيقِهِ فَلَوْ كَانَ أَمَرَ الْحُسَيْنَ أَنْ يُصَيِّرَهَا فِي الاسَنِّ أَوْ يَنْقُلَهَا فِي وُلْدِهِمَا يَعْنِي الْوَصِيَّةَ لَفَعَلَ ذَلِكَ الْحُسَيْنُ وَمَا هُوَ بِالْمُتَّهَمِ عِنْدَنَا فِي الذَّخِيرَةِ لِنَفْسِهِ وَلَقَدْ وَلَّى وَتَرَكَ ذَلِكَ وَلَكِنَّهُ مَضَى لِمَا أُمِرَ بِهِ وَهُوَ جَدُّكَ وَعَمُّكَ فَإِنْ قُلْتَ خَيْراً فَمَا أَوْلاكَ بِهِ وَإِنْ قُلْتَ هُجْراً فَيَغْفِرُ الله لَكَ أَطِعْنِي يَا ابْنَ. عَمِّ وَاسْمَعْ كَلامِي فَوَ الله الَّذِي لا إِلَهَ إِلا هُوَ لا آلُوكَ نُصْحاً وَحِرْصاً فَكَيْفَ وَلا أَرَاكَ تَفْعَلُ وَمَا لامْرِ الله مِنْ مَرَدٍّ فَسُرَّ أَبِي عِنْدَ ذَلِكَ فَقَالَ لَهُ أَبُو عَبْدِ الله وَالله إِنَّكَ لَتَعْلَمُ أَنَّهُ الاحْوَلُ الاكْشَفُ الاخْضَرُ الْمَقْتُولُ بِسُدَّةِ أَشْجَعَ عِنْدَ بَطْنِ مَسِيلِهَا فَقَالَ أَبِي لَيْسَ هُوَ ذَلِكَ وَالله لَيُحَارِبَنَّ بِالْيَوْمِ يَوْماً وَبِالسَّاعَةِ سَاعَةً وَبِالسَّنَةِ سَنَةً وَلَيَقُومَنَّ بِثَأْرِ بَنِي أَبِي طَالِبٍ جَمِيعاً فَقَالَ لَهُ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) يَغْفِرُ الله لَكَ مَا أَخْوَفَنِي أَنْ يَكُونَ هَذَا الْبَيْتُ يَلْحَقُ صَاحِبَنَا مَنَّتْكَ نَفْسُكَ فِي الْخَلاءِ ضَلالاً لا وَالله لا يَمْلِكُ أَكْثَرَ مِنْ حِيطَانِ الْمَدِينَةِ وَلا يَبْلُغُ عَمَلُهُ الطَّائِفَ إِذَا أَحْفَلَ يَعْنِي إِذَا أَجْهَدَ نَفْسَهُ وَمَا لِلامْرِ مِنْ بُدٍّ أَنْ يَقَعَ فَاتَّقِ الله وَارْحَمْ نَفْسَكَ وَبَنِي أَبِيكَ فَوَ الله إِنِّي لارَاهُ أَشْأَمَ سَلْحَةٍ أَخْرَجَتْهَا أَصْلابُ الرِّجَالِ إِلَى أَرْحَامِ النِّسَاءِ وَالله إِنَّهُ الْمَقْتُولُ بِسُدَّةِ أَشْجَعَ بَيْنَ دُورِهَا وَالله لَكَأَنِّي بِهِ صَرِيعاً مَسْلُوباً بِزَّتُهُ بَيْنَ رِجْلَيْهِ لَبِنَةٌ وَلا يَنْفَعُ هَذَا الْغُلامَ مَا يَسْمَعُ قَالَ مُوسَى بْنُ عَبْدِ الله يَعْنِينِي وَلَيَخْرُجَنَّ مَعَهُ فَيُهْزَمُ وَيُقْتَلُ صَاحِبُهُ ثُمَّ يَمْضِي فَيَخْرُجُ مَعَهُ رَايَةٌ أُخْرَى فَيُقْتَلُ كَبْشُهَا وَيَتَفَرَّقُ جَيْشُهَا فَإِنْ أَطَاعَنِي فَلْيَطْلُبِ الامَانَ عِنْدَ ذَلِكَ مِنْ بَنِي الْعَبَّاسِ حَتَّى يَأْتِيَهُ الله بِالْفَرَجِ وَلَقَدْ عَلِمْتَ بِأَنَّ هَذَا الامْرَ لا يَتِمُّ وَإِنَّكَ لَتَعْلَمُ وَنَعْلَمُ أَنَّ ابْنَكَ الاحْوَلُ الاخْضَرُ الاكْشَفُ الْمَقْتُولُ بِسُدَّةِ أَشْجَعَ بَيْنَ دُورِهَا عِنْدَ بَطْنِ مَسِيلِهَا فَقَامَ أَبِي وَهُوَ يَقُولُ بَلْ يُغْنِي الله عَنْكَ وَلَتَعُودَنَّ أَوْ لَيَقِي الله بِكَ وَبِغَيْرِكَ وَمَا أَرَدْتَ بِهَذَا إِلا امْتِنَاعَ غَيْرِكَ وَأَنْ تَكُونَ ذَرِيعَتَهُمْ إِلَى ذَلِكَ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) الله يَعْلَمُ مَا أُرِيدُ إِلا نُصْحَكَ وَرُشْدَكَ وَمَا عَلَيَّ إِلا الْجُهْدُ فَقَامَ أَبِي يَجُرُّ ثَوْبَهُ مُغْضَباً فَلَحِقَهُ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) فَقَالَ لَهُ أُخْبِرُكَ أَنِّي سَمِعْتُ عَمَّكَ وَهُوَ خَالُكَ يَذْكُرُ أَنَّكَ وَبَنِي. أَبِيكَ سَتُقْتَلُونَ فَإِنْ أَطَعْتَنِي وَرَأَيْتَ أَنْ تَدْفَعَ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَافْعَلْ فَوَ الله الَّذِي لا إِلَهَ إِلا هُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ الْكَبِيرُ الْمُتَعَالِ عَلَى خَلْقِهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي فَدَيْتُكَ بِوُلْدِي وَبِأَحَبِّهِمْ إِلَيَّ وَبِأَحَبِّ أَهْلِ بَيْتِي إِلَيَّ وَمَا يَعْدِلُكَ عِنْدِي شَيْءٌ فَلا تَرَى أَنِّي غَشَشْتُكَ فَخَرَجَ أَبِي مِنْ عِنْدِهِ مُغْضَباً أَسِفاً قَالَ فَمَا أَقَمْنَا بَعْدَ ذَلِكَ إِلا قَلِيلاً عِشْرِينَ لَيْلَةً أَوْ نَحْوَهَا حَتَّى قَدِمَتْ رُسُلُ أَبِي جَعْفَرٍ فَأَخَذُوا أَبِي وَعُمُومَتِي سُلَيْمَانَ بْنَ حَسَنٍ وَحَسَنَ بْنَ حَسَنٍ وَإِبْرَاهِيمَ بْنَ حَسَنٍ وَدَاوُدَ بْنَ حَسَنٍ وَعَلِيَّ بْنَ حَسَنٍ وَسُلَيْمَانَ بْنَ دَاوُدَ بْنِ حَسَنٍ وَعَلِيَّ بْنَ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حَسَنٍ وَحَسَنَ بْنَ جَعْفَرِ بْنِ حَسَنٍ وَطَبَاطَبَا إِبْرَاهِيمَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ بْنِ حَسَنٍ وَعَبْدَ الله بْنَ دَاوُدَ قَالَ فَصُفِّدُوا فِي الْحَدِيدِ ثُمَّ حُمِلُوا فِي مَحَامِلَ أَعْرَاءً لا وِطَاءَ فِيهَا وَوُقِّفُوا بِالْمُصَلَّى لِكَيْ يُشْمِتَهُمُ النَّاسُ قَالَ فَكَفَّ النَّاسُ عَنْهُمْ وَرَقُّوا لَهُمْ لِلْحَالِ الَّتِي هُمْ فِيهَا ثُمَّ انْطَلَقُوا بِهِمْ حَتَّى وُقِّفُوا عِنْدَ بَابِ مَسْجِدِ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) قَالَ عَبْدُ الله بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْجَعْفَرِيُّ فَحَدَّثَتْنَا خَدِيجَةُ بِنْتُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ أَنَّهُمْ لَمَّا أُوقِفُوا عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ الْبَابِ الَّذِي يُقَالُ لَهُ بَابُ جَبْرَئِيلَ اطَّلَعَ عَلَيْهِمْ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) وَعَامَّةُ رِدَائِهِ مَطْرُوحٌ بِالارْضِ ثُمَّ اطَّلَعَ مِنْ بَابِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ لَعَنَكُمُ الله يَا مَعَاشِرَ الانْصَارِ ثَلاثاً مَا عَلَى هَذَا عَاهَدْتُمْ رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَلا بَايَعْتُمُوهُ أَمَا وَالله إِنْ كُنْتُ حَرِيصاً وَلَكِنِّي غُلِبْتُ وَلَيْسَ لِلْقَضَاءِ مَدْفَعٌ ثُمَّ قَامَ وَأَخَذَ إِحْدَى نَعْلَيْهِ فَأَدْخَلَهَا رِجْلَهُ وَالاخْرَى فِي يَدِهِ وَعَامَّةُ رِدَائِهِ يَجُرُّهُ فِي الارْضِ ثُمَّ دَخَلَ بَيْتَهُ فَحُمَّ عِشْرِينَ لَيْلَةً لَمْ يَزَلْ يَبْكِي فِيهِ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ حَتَّى خِفْنَا عَلَيْهِ فَهَذَا حَدِيثُ خَدِيجَةَ قَالَ الْجَعْفَرِيُّ وَحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الله بْنِ الْحَسَنِ أَنَّهُ لَمَّا طُلِعَ بِالْقَوْمِ فِي الْمَحَامِلِ قَامَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) مِنَ الْمَسْجِدِ ثُمَّ أَهْوَى إِلَى الْمَحْمِلِ الَّذِي فِيهِ عَبْدُ الله بْنُ الْحَسَنِ يُرِيدُ كَلامَهُ فَمُنِعَ أَشَدَّ الْمَنْعِ وَأَهْوَى إِلَيْهِ الْحَرَسِيُّ فَدَفَعَهُ وَقَالَ تَنَحَّ عَنْ هَذَا فَإِنَّ الله سَيَكْفِيكَ وَيَكْفِي غَيْرَكَ ثُمَّ دَخَلَ بِهِمُ الزُّقَاقَ وَرَجَعَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) إِلَى مَنْزِلِهِ فَلَمْ يَبْلُغْ بِهِمُ الْبَقِيعَ حَتَّى ابْتُلِيَ الْحَرَسِيُّ بَلاءً شَدِيداً رَمَحَتْهُ نَاقَتُهُ فَدَقَّتْ وَرِكَهُ فَمَاتَ فِيهَا وَمَضَى بِالْقَوْمِ فَأَقَمْنَا بَعْدَ ذَلِكَ حِيناً ثُمَّ أَتَى مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الله بْنِ حَسَنٍ فَأُخْبِرَ أَنَّ أَبَاهُ وَعُمُومَتَهُ قُتِلُوا قَتَلَهُمْ أَبُو جَعْفَرٍ إِلا حَسَنَ. بْنَ جَعْفَرٍ وَطَبَاطَبَا وَعَلِيَّ بْنَ إِبْرَاهِيمَ وَسُلَيْمَانَ بْنَ دَاوُدَ وَدَاوُدَ بْنَ حَسَنٍ وَعَبْدَ الله بْنَ دَاوُدَ قَالَ فَظَهَرَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الله عِنْدَ ذَلِكَ وَدَعَا النَّاسَ لِبَيْعَتِهِ قَالَ فَكُنْتُ ثَالِثَ ثَلاثَةٍ بَايَعُوهُ وَاسْتَوْسَقَ النَّاسَ لِبَيْعَتِهِ وَلَمْ يَخْتَلِفْ عَلَيْهِ قُرَشِيٌّ وَلا أَنْصَارِيٌّ وَلا عَرَبِيٌّ قَالَ وَشَاوَرَ عِيسَى بْنَ زَيْدٍ وَكَانَ مِنْ ثِقَاتِهِ وَكَانَ عَلَى شُرَطِهِ فَشَاوَرَهُ فِي الْبِعْثَةِ إِلَى وُجُوهِ قَوْمِهِ فَقَالَ لَهُ عِيسَى بْنُ زَيْدٍ إِنْ دَعَوْتَهُمْ دُعَاءً يَسِيراً لَمْ يُجِيبُوكَ أَوْ تَغْلُظَ عَلَيْهِمْ فَخَلِّنِي وَإِيَّاهُمْ فَقَالَ لَهُ مُحَمَّدٌ امْضِ إِلَى مَنْ أَرَدْتَ مِنْهُمْ فَقَالَ ابْعَثْ إِلَى رَئِيسِهِمْ وَكَبِيرِهِمْ يَعْنِي أَبَا عَبْدِ الله جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ (عَلَيْهما السَّلام) فَإِنَّكَ إِذَا أَغْلَظْتَ عَلَيْهِ عَلِمُوا جَمِيعاً أَنَّكَ سَتُمِرُّهُمْ عَلَى الطَّرِيقِ الَّتِي أَمْرَرْتَ عَلَيْهَا أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ فَوَ الله مَا لَبِثْنَا أَنْ أُتِيَ بِأَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) حَتَّى أُوقِفَ بَيْنَ يَدَيْهِ فَقَالَ لَهُ عِيسَى بْنُ زَيْدٍ أَسْلِمْ تَسْلَمْ فَقَالَ لَهُ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) أَ حَدَثَتْ نُبُوَّةٌ بَعْدَ مُحَمَّدٍ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فَقَالَ لَهُ مُحَمَّدٌ لا وَلَكِنْ بَايِعْ تَأْمَنْ عَلَى نَفْسِكَ وَمَالِكَ وَوُلْدِكَ وَلا تُكَلَّفَنَّ حَرْباً فَقَالَ لَهُ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) مَا فِيَّ حَرْبٌ وَلا قِتَالٌ وَلَقَدْ تَقَدَّمْتُ إِلَى أَبِيكَ وَحَذَّرْتُهُ الَّذِي حَاقَ بِهِ وَلَكِنْ لا يَنْفَعُ حَذَرٌ مِنْ قَدَرٍ يَا ابْنَ أَخِي عَلَيْكَ بِالشَّبَابِ وَدَعْ عَنْكَ الشُّيُوخَ فَقَالَ لَهُ مُحَمَّدٌ مَإ؛ججّّ أَقْرَبَ مَا بَيْنِي وَبَيْنَكَ فِي السِّنِّ فَقَالَ لَهُ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) إِنِّي لَمْ أُعَازَّكَ وَلَمْ أَجِئْ لاتَقَدَّمَ عَلَيْكَ فِي الَّذِي أَنْتَ فِيهِ فَقَالَ لَهُ مُحَمَّدٌ لا وَالله لا بُدَّ مِنْ أَنْ تُبَايِعَ فَقَالَ لَهُ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) مَا فِيَّ يَا ابْنَ أَخِي طَلَبٌ وَلا حَرْبٌ وَإِنِّي لارِيدُ الْخُرُوجَ إِلَى الْبَادِيَةِ فَيَصُدُّنِي ذَلِكَ وَيَثْقُلُ عَلَيَّ حَتَّى تُكَلِّمَنِي فِي ذَلِكَ الاهْلُ غَيْرَ مَرَّةٍ وَلا يَمْنَعُنِي مِنْهُ إِلا الضَّعْفُ وَالله وَالرَّحِمِ أَنْ تُدْبِرَ عَنَّا وَنَشْقَى بِكَ فَقَالَ لَهُ يَا أَبَا عَبْدِ الله قَدْ وَالله مَاتَ أَبُو الدَّوَانِيقِ يَعْنِي أَبَا جَعْفَرٍ فَقَالَ لَهُ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) وَمَا تَصْنَعُ بِي وَقَدْ مَاتَ قَالَ أُرِيدُ الْجَمَالَ بِكَ قَالَ مَا إِلَى مَا تُرِيدُ سَبِيلٌ لا وَالله مَا مَاتَ أَبُو الدَّوَانِيقِ إِلا أَنْ يَكُونَ مَاتَ مَوْتَ النَّوْمِ قَالَ وَالله لَتُبَايِعُنِي طَائِعاً أَوْ مُكْرَهاً وَلا تُحْمَدُ فِي بَيْعَتِكَ فَأَبَى عَلَيْهِ إِبَاءً شَدِيداً وَأَمَرَ بِهِ إِلَى الْحَبْسِ فَقَالَ لَهُ عِيسَى بْنُ زَيْدٍ أَمَا إِنْ طَرَحْنَاهُ فِي السِّجْنِ وَقَدْ خَرِبَ السِّجْنُ وَلَيْسَ عَلَيْهِ الْيَوْمَ غَلَقٌ خِفْنَا أَنْ يَهْرُبَ مِنْهُ فَضَحِكَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) ثُمَّ قَالَ لا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِالله الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ أَ وَتُرَاكَ تُسْجِنُنِي قَالَ نَعَمْ وَالَّذِي أَكْرَمَ مُحَمَّداً (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) بِالنُّبُوَّةِ لاسْجِنَنَّكَ وَلاشَدِّدَنَّ عَلَيْكَ فَقَالَ عِيسَى بْنُ زَيْدٍ احْبِسُوهُ فِي الْمَخْبَإِ وَذَلِكَ دَارُ رَيْطَةَ الْيَوْمَ فَقَالَ لَهُ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) أَمَا وَالله إِنِّي سَأَقُولُ ثُمَّ أُصَدَّقُ فَقَالَ لَهُ عِيسَى بْنُ زَيْدٍ لَوْ تَكَلَّمْتَ لَكَسَرْتُ فَمَكَ فَقَالَ لَهُ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) أَمَا وَالله يَا أَكْشَفُ يَا أَزْرَقُ لَكَأَنِّي بِكَ تَطْلُبُ لِنَفْسِكَ جُحْراً تَدْخُلُ فِيهِ وَمَا أَنْتَ فِي الْمَذْكُورِينَ عِنْدَ اللِّقَاءِ وَإِنِّي لاظُنُّكَ إِذَا صُفِّقَ خَلْفَكَ طِرْتَ مِثْلَ الْهَيْقِ النَّافِرِ فَنَفَرَ عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ بِانْتِهَارٍ احْبِسْهُ وَشَدِّدْ عَلَيْهِ وَاغْلُظْ عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) أَمَا وَالله لَكَأَنِّي بِكَ خَارِجاً مِنْ سُدَّةِ أَشْجَعَ إِلَى بَطْنِ الْوَادِي وَقَدْ حَمَلَ عَلَيْكَ فَارِسٌ مُعْلَمٌ فِي يَدِهِ طِرَادَةٌ نِصْفُهَا أَبْيَضُ وَنِصْفُهَا أَسْوَدُ عَلَى فَرَسٍ كُمَيْتٍ أَقْرَحَ فَطَعَنَكَ فَلَمْ يَصْنَعْ فِيكَ شَيْئاً وَضَرَبْتَ خَيْشُومَ فَرَسِهِ فَطَرَحْتَهُ وَحَمَلَ عَلَيْكَ آخَرُ خَارِجٌ مِنْ زُقَاقِ آلِ أَبِي عَمَّارٍ الدُّؤَلِيِّينَ عَلَيْهِ غَدِيرَتَانِ مَضْفُورَتَانِ وَقَدْ خَرَجَتَا مِنْ تَحْتِ بَيْضَةٍ كَثِيرُ شَعْرِ الشَّارِبَيْنِ فَهُوَ وَالله صَاحِبُكَ فَلا رَحِمَ الله رِمَّتَهُ فَقَالَ لَهُ مُحَمَّدٌ يَا أَبَا عَبْدِ الله حَسِبْتَ فَأَخْطَأْتَ وَقَامَ إِلَيْهِ السُّرَاقِيُّ بْنُ سَلْخِ الْحُوتِ فَدَفَعَ فِي ظَهْرِهِ حَتَّى أُدْخِلَ السِّجْنَ وَاصْطُفِيَ مَا كَانَ لَهُ مِنْ مَالٍ وَمَا كَانَ لِقَوْمِهِ مِمَّنْ لَمْ يَخْرُجْ مَعَ مُحَمَّدٍ قَالَ فَطُلِعَ بِإِسْمَاعِيلَ بْنِ عَبْدِ الله بْنِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَهُوَ شَيْخٌ كَبِيرٌ ضَعِيفٌ قَدْ ذَهَبَتْ إِحْدَى عَيْنَيْهِ وَذَهَبَتْ رِجْلاهُ وَهُوَ. يُحْمَلُ حَمْلاً فَدَعَاهُ إِلَى الْبَيْعَةِ فَقَالَ لَهُ يَا ابْنَ أَخِي إِنِّي شَيْخٌ كَبِيرٌ ضَعِيفٌ وَأَنَا إِلَى بِرِّكَ وَعَوْنِكَ أَحْوَجُ فَقَالَ لَهُ لا بُدَّ مِنْ أَنْ تُبَايِعَ فَقَالَ لَهُ وَأَيَّ شَيْءٍ تَنْتَفِعُ بِبَيْعَتِي وَالله إِنِّي لاضَيِّقُ عَلَيْكَ مَكَانَ اسْمِ رَجُلٍ إِنْ كَتَبْتَهُ قَالَ لا بُدَّ لَكَ أَنْ تَفْعَلَ وَأَغْلَظَ لَهُ فِي الْقَوْلِ فَقَالَ لَهُ إِسْمَاعِيلُ ادْعُ لِي جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ فَلَعَلَّنَا نُبَايِعُ جَمِيعاً قَالَ فَدَعَا جَعْفَراً (عَلَيْهِ السَّلام) فَقَالَ لَهُ إِسْمَاعِيلُ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنْ رَأَيْتَ أَنْ تُبَيِّنَ لَهُ فَافْعَلْ لَعَلَّ الله يَكُفُّهُ عَنَّا قَالَ قَدْ أَجْمَعْتُ أَلا أُكَلِّمَهُ أَ فَلْيَرَ فِيَّ بِرَأْيِهِ فَقَالَ إِسْمَاعِيلُ لابِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) أَنْشُدُكَ الله هَلْ تَذْكُرُ يَوْماً أَتَيْتُ أَبَاكَ مُحَمَّدَ بن علي (عَلَيْهما السَّلام) وَعَلَيَّ حُلَّتَانِ صَفْرَاوَانِ فَدَامَ النَّظَرَ إِلَيَّ فَبَكَى فَقُلْتُ لَهُ مَا يُبْكِيكَ فَقَالَ لِي يُبْكِينِي أَنَّكَ تُقْتَلُ عِنْدَ كِبَرِ سِنِّكَ ضَيَاعاً لا يَنْتَطِحُ فِي دَمِكَ عَنْزَانِ قَالَ قُلْتُ فَمَتَى ذَاكَ قَالَ إِذَا دُعِيتَ إِلَى الْبَاطِلِ فَأَبَيْتَهُ وَإِذَا نَظَرْتَ إِلَى الاحْوَلِ مَشُومِ قَوْمِهِ يَنْتَمِي مِنْ آلِ الْحَسَنِ عَلَى مِنْبَرِ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) يَدْعُو إِلَى نَفْسِهِ قَدْ تَسَمَّى بِغَيْرِ اسْمِهِ فَأَحْدِثْ عَهْدَكَ وَاكْتُبْ وَصِيَّتَكَ فَإِنَّكَ مَقْتُولٌ فِي يَوْمِكَ أَوْ مِنْ غَدٍ فَقَالَ لَهُ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) نَعَمْ وَهَذَا وَرَبِّ الْكَعْبَةِ لا يَصُومُ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ إِلا أَقَلَّهُ فَأَسْتَوْدِعُكَ الله يَا أَبَا الْحَسَنِ وَأَعْظَمَ الله أَجْرَنَا فِيكَ وَأَحْسَنَ الْخِلافَةَ عَلَى مَنْ خَلَّفْتَ وَإِنَّا لله وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ قَالَ ثُمَّ احْتُمِلَ إِسْمَاعِيلُ وَرُدَّ جَعْفَرٌ إِلَى الْحَبْسِ قَالَ فَوَ الله مَا أَمْسَيْنَا حَتَّى دَخَلَ عَلَيْهِ بَنُو أَخِيهِ بَنُو مُعَاوِيَةَ بْنِ عَبْدِ الله بْنِ جَعْفَرٍ فَتَوَطَّئُوهُ حَتَّى قَتَلُوهُ وَبَعَثَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الله إِلَى جَعْفَرٍ فَخَلَّى سَبِيلَهُ قَالَ وَأَقَمْنَا بَعْدَ ذَلِكَ حَتَّى اسْتَهْلَلْنَا شَهْرَ رَمَضَانَ فَبَلَغَنَا خُرُوجُ عِيسَى بْنِ مُوسَى يُرِيدُ الْمَدِينَةَ قَالَ فَتَقَدَّمَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الله عَلَى مُقَدِّمَتِهِ يَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ عَبْدِ الله بْنِ جَعْفَرٍ وَكَانَ عَلَى مُقَدِّمَةِ عِيسَى بْنِ مُوسَى وُلْدُ الْحَسَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحَسَنِ وَقَاسِمٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ زَيْدٍ وَعَلِيٌّ وَإِبْرَاهِيمُ بَنُو الْحَسَنِ بْنِ زَيْدٍ فَهُزِمَ يَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ وَقَدِمَ عِيسَى بْنُ مُوسَى الْمَدِينَةَ وَصَارَ الْقِتَالُ بِالْمَدِينَةِ فَنَزَلَ بِذُبَابٍ وَدَخَلَتْ عَلَيْنَا الْمُسَوِّدَةُ مِنْ خَلْفِنَا وَخَرَجَ مُحَمَّدٌ فِي أَصْحَابِهِ حَتَّى بَلَغَ السُّوقَ. فَأَوْصَلَهُمْ وَمَضَى ثُمَّ تَبِعَهُمْ حَتَّى انْتَهَى إِلَى مَسْجِدِ الْخَوَّامِينَ فَنَظَرَ إِلَى مَا هُنَاكَ فَضَاءٍ لَيْسَ فِيهِ مُسَوِّدٌ وَلا مُبَيِّضٌ فَاسْتَقْدَمَ حَتَّى انْتَهَى إِلَى شِعْبِ فَزَارَةَ ثُمَّ دَخَلَ هُذَيْلَ ثُمَّ مَضَى إِلَى أَشْجَعَ فَخَرَجَ إِلَيْهِ الْفَارِسُ الَّذِي قَالَ أَبُو عَبْدِ الله مِنْ خَلْفِهِ مِنْ سِكَّةِ هُذَيْلَ فَطَعَنَهُ فَلَمْ يَصْنَعْ فِيهِ شَيْئاً وَحَمَلَ عَلَى الْفَارِسِ فَضَرَبَ خَيْشُومَ فَرَسِهِ بِالسَّيْفِ فَطَعَنَهُ الْفَارِسُ فَأَنْفَذَهُ فِي الدِّرْعِ وَانْثَنَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ فَضَرَبَهُ فَأَثْخَنَهُ وَخَرَجَ عَلَيْهِ حُمَيْدُ بْنُ قَحْطَبَةَ وَهُوَ مُدْبِرٌ عَلَى الْفَارِسِ يَضْرِبُهُ مِنْ زُقَاقِ الْعَمَّارِيِّينَ فَطَعَنَهُ طَعْنَةً أَنْفَذَ السِّنَانَ فِيهِ فَكُسِرَ الرُّمْحُ وَحَمَلَ عَلَى حُمَيْدٍ فَطَعَنَهُ حُمَيْدٌ بِزُجِّ الرُّمْحِ فَصَرَعَهُ ثُمَّ نَزَلَ إِلَيْهِ فَضَرَبَهُ حَتَّى أَثْخَنَهُ وَقَتَلَهُ وَأَخَذَ رَأْسَهُ وَدَخَلَ الْجُنْدُ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ وَأُخِذَتِ الْمَدِينَةُ وَأُجْلِينَا هَرَباً فِي الْبِلادِ قَالَ مُوسَى بْنُ عَبْدِ الله فَانْطَلَقْتُ حَتَّى لَحِقْتُ بِإِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الله فَوَجَدْتُ عِيسَى بْنَ زَيْدٍ مُكْمَناً عِنْدَهُ فَأَخْبَرْتُهُ بِسُوءِ تَدْبِيرِهِ وَخَرَجْنَا مَعَهُ حَتَّى أُصِيبَ رَحِمَهُ الله ثُمَّ مَضَيْتُ مَعَ ابْنِ أَخِي الاشْتَرِ عَبْدِ الله بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله بْنِ حَسَنٍ حَتَّى أُصِيبَ بِالسِّنْدِ ثُمَّ رَجَعْتُ شَرِيداً طَرِيداً تُضَيَّقُ عَلَيَّ الْبِلادُ فَلَمَّا ضَاقَتْ عَلَيَّ الارْضُ وَاشْتَدَّ بِيَ الْخَوْفُ ذَكَرْتُ مَا قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) فَجِئْتُ إِلَى الْمَهْدِيِّ وَقَدْ حَجَّ وَهُوَ يَخْطُبُ النَّاسَ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ فَمَا شَعَرَ إِلا وَأَنِّي قَدْ قُمْتُ مِنْ تَحْتِ الْمِنْبَرِ فَقُلْتُ لِيَ الامَانُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَأَدُلُّكَ عَلَى نَصِيحَةٍ لَكَ عِنْدِي فَقَالَ نَعَمْ مَا هِيَ قُلْتُ أَدُلُّكَ عَلَى مُوسَى بْنِ عَبْدِ الله بْنِ حَسَنٍ فَقَالَ لِي نَعَمْ لَكَ الامَانُ فَقُلْتُ لَهُ أَعْطِنِي مَا أَثِقُ بِهِ فَأَخَذْتُ مِنْهُ عُهُوداً وَمَوَاثِيقَ وَوَثَّقْتُ لِنَفْسِي ثُمَّ قُلْتُ أَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الله فَقَالَ لِي إِذاً تُكْرَمَ وَتُحْبَى فَقُلْتُ لَهُ أَقْطِعْنِي إِلَى بَعْضِ أَهْلِ بَيْتِكَ يَقُومُ بِأَمْرِي عِنْدَكَ فَقَالَ لِيَ انْظُرْ إِلَى مَنْ أَرَدْتَ فَقُلْتُ عَمَّكَ الْعَبَّاسَ بْنَ مُحَمَّدٍ فَقَالَ الْعَبَّاسُ لا حَاجَةَ لِي فِيكَ فَقُلْتُ وَلَكِنْ لِي فِيكَ الْحَاجَةُ أَسْأَلُكَ بِحَقِّ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ إِلا قَبِلْتَنِي فَقَبِلَنِي شَاءَ أَوْ أَبَى وَقَالَ لِيَ الْمَهْدِيُّ مَنْ يَعْرِفُكَ وَحَوْلَهُ أَصْحَابُنَا أَوْ أَكْثَرُهُمْ فَقُلْتُ هَذَا الْحَسَنُ بْنُ زَيْدٍ يَعْرِفُنِي وَهَذَا مُوسَى بْنُ جَعْفَرٍ يَعْرِفُنِي وَهَذَا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ الله بْنِ الْعَبَّاسِ يَعْرِفُنِي فَقَالُوا نَعَمْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ كَأَنَّهُ لَمْ يَغِبْ عَنَّا ثُمَّ قُلْتُ لِلْمَهْدِيِّ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَقَدْ أَخْبَرَنِي بِهَذَا الْمَقَامِ أَبُو هَذَا الرَّجُلِ وَأَشَرْتُ إِلَى مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ مُوسَى بْنُ عَبْدِ الله وَكَذَبْتُ عَلَى جَعْفَرٍ كَذِبَةً فَقُلْتُ لَهُ وَأَمَرَنِي أَنْ أُقْرِئَكَ السَّلامَ وَقَالَ إِنَّهُ إِمَامُ عَدْلٍ وَسَخَاءٍ قَالَ فَأَمَرَ لِمُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ بِخَمْسَةِ آلافِ دِينَارٍ فَأَمَرَ لِي مِنْهَا مُوسَى بِأَلْفَيْ دِينَارٍ وَوَصَلَ عَامَّةَ أَصْحَابِهِ وَوَصَلَنِي فَأَحْسَنَ صِلَتِي فَحَيْثُ مَا ذُكِرَ وُلْدُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ فَقُولُوا صَلَّى الله عَلَيْهِمْ وَمَلائِكَتُهُ وَحَمَلَةُ عَرْشِهِ وَالْكِرَامُ الْكَاتِبُونَ وَخُصُّوا أَبَا عَبْدِ الله بِأَطْيَبِ ذَلِكَ وَجَزَى مُوسَى بْنَ جَعْفَرٍ عَنِّي خَيْراً فَأَنَا وَالله مَوْلاهُمْ بَعْدَ الله۔
راوی کہتا ہے کہ ہم حضرت علی بن الحسن کی پوتی خدیجہ کے پاس ان کی بھانجی کی تعزیت کے لیے آئے ہم نے ان کے پاس عبداللہ بن الحسین علیہ السلام کے فرزند موسیٰ کو دیکھا جو عورتوں کے قریب ایک گوشہ میں بیٹھے تھے ہم نے تعزیت کی گھر والوں سے پھر ہم موسیٰ کے پاس آئے انھوں نے دخترابی لشکر سے جو مرثیہ گو تھی کہا مرثیہ پڑھو۔ اس نے یہ شعر پڑھے۔
گنو مرنے والوں کو رسول اللہ حمزہ عباس، علی جو خیر پر تھے پھر جعفر پھر عقیل پھر آئمہ اہلبیت۔
موسیٰ نے کہا تو نے خوب شعر پڑھے اور ہم کو خوش کیا اور پڑھ اس نے دو شعر اور پڑھے۔ ہم میں متقویوں کے امام محمد تھے اور ہم میں حمزہ تھے اور مہذب جعفر ہم میں علی تھے رسول کے داماد پاک و پاکیزہ ہم ان کے پاس آنے تک ٹھہرے خدیجہ نے کہا میں نے اپنے چچا محمد بن علی علیہ السلام سے سنا ہے کہ انھوں نے فرمایا ہے عورتوں کو ماتم میں نوحہ کی ضرورت ہے تاکہ وہ روئیں نہ کی طرب میں لانے والے اشعار کی اور جب رات آئے تو ملائکہ کو ایسے نوحہ سے اذیت نہ دو۔
پھر ہم وہاں سے نکل آئے اور صبح ہی پھر خدیجہ کے پاس آئے ہم نے ان سے ذکر کیا امام جعفر صادق علیہ السلام کا مکان چھوڑ کر اس مکان میں آنے کا موسیٰ نے کہا یہ دارا السرقیہ یعنی چرایا ہوا گھر ہے۔ خدیجہ نے کہا یہ سب کیا کرایا ہے ہمارے مہدی صاحب کا یعنی محمد بن عبداللہ بن الحسن جو اپنے آپ کو مہدی بنائے ہوئے تھے یہ جواب تھا مزاحیہ بات کا (امام جعفر صادق علیہ السلام جس گھر میں رہتے تھے یہ گھر اس کا ایک جزو تھا عبداللہ محض کے فرزند محمد نے جو مدعی مہدویت تھے عدالت دیوانی سے اس مکان کو امام کے مکان سے جدا کرا لیا اور خدیجہ کو عاریتاً رہنے کے لیے دے دیا تھا۔
موسیٰ بن عبداللہ نے کہا میں تم کو ایک عجیب بات سناتا ہوں جب میرے باپ نے محمد بن عبداللہ کی امامت کے معاملے کو اٹھایا تو اپنے اصحاب کو جمع کر کے فرمایا اس معاملے میں بغیر امام جعفر صادق علیہ السلام کے میرے لیے کامیابی نہیں ہو سکتی درآنحالیکہ میرے اوپر تکیہ کیے ہوئے تھے ہم ان سے گھر کے باہر ملے جبکہ وہ مسجد کی طرف جا رہے تھے میرے والد نے ان کو ٹھہرا لیا اور بات چیت شروع کی۔ انھوں نے فرمایا ایسی گفتگو کی یہ جگہ نہیں۔ انشاء اللہ ہم پھر ملیں گے میرے والد خوش و خرم وہاں سے لوٹے اور دوسرے یا تیسرے روز ہم پھر چلے اور حضرت کے پاس آئے میرے باپ میرے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے پھر بات چیت شروع ہوئی میرے باپ نے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ بلحاظ سن میں آپ سے بڑا ہوں بلکہ تمام خاندان میں مجھ سے کوئی بڑا نہیں لیکن خدا نے آپ کو وہ فضیلت دی ہے جو قوم کے کسی ایک فرد کو نہیں ملی۔ میں آپ کے پاس پورے اعتماد کے ساتھ آیا ہوں۔ کیونکہ میں آپ کی نیکی اور ایثار کو خوب جانتا ہوں مجھے امید ہے کہ آپ میری بات کو مان لیں گے آپ کے اصحاب میں سے کسی نے اختلاف نہیں کیا اور قریش وغیرہ میں سے دو شخص بھی ایسے نہیں جو مخالف ہوں۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا جب آپ میرے غیر کو مجھ سے زیادہ اطاعت والا پاتے ہیں تو آپ کو میری ضرورت ہی کیا ہے بخدا آپ جانت ہیں کہ میں صحرا میں جا کر رہنے کا ارادہ رکھتا ہوں اور پوری کوشش اس کے لیے کرتا ہوں پس آپ بھی اپنے نفس پر جفا و مشقت اٹھائیے اور میں تو حج کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں اور اس کو میں اپنے نفس پر بڑی مشقت و تکان و کوشش کے بعد حاصل کروں گا آپ میرے غیر کو تلاش کیجیے اور اس امر کے بارے میں ان سے سوال کیجیے اور ان سے یہ نہ بتائیے کہ آپ میرے پاس آئے تھے۔
انھوں نے کہا کہ لوگوں کی گردنیں آپ کی طرف اٹھی ہوئی ہیں اگر آپ نے میری بات مان لی تو پھر کوئی میری مخالفت نہ کرے گا میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کو نہ تو جنگ کی تکلیف دی جائے گی اور نہ کسی ایسے امر کی جو آپ کی طبیعت کے خلاف ہو اسی اثناء میں کچھ لوگ آ گئے اور سلسلہ کلام منقطع ہو گیا۔ اس کے بعد میرے باپ نے کہا آپ نے کیا فیصلہ کیا ۔ فرمایا ہم پھر انشاء اللہ ملیں گے انھوں نے کہا کیا آپ کو میری خواہش منظور نہیں۔ فرمایا انشاء اللہ تمہاری اصلاح کی تمہاری خواہش کے مطابق کوئی صورت نکالی جائے گی۔
پھر میرے باپ اپنے گھر آ گئے اور انھوں نے اپنے بیٹے محمد کے پاس بھیجا وعہ جہنیتہ کے پہاڑ پر جسے اشقر کہتے ہیں مقیم تھے یہ مقام مدینہ سے دو رات کے فاصلے پر ہے ان کو خوشخبری دی اور بتایا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے تمہارے معاملہ میں کامیابی حاصل کر لی ہے تین دن بعد ہم باپ بیٹے پھر امام علیہ السلام کے دروازہ پر آئے اور اس سے پہلے جب ہم آتے تھے تو کوئی رکاوٹ نہ ہوتی تھی۔ اب دربان نے روکا پھر ہمارے لیے اجازت حاصل کی اور ہم اندر آئے میں حجرہ کے ایک گوشہ میں بیٹھ گیا اور میرے والد حضرت کے قریب بیٹھے اور کہنے لگے میں آپ پر فدا ہوں میں آپ کے پاس امیدوں سے پر آیا ہوں اور مجھے قوی امید ہے کہ میری حاجت آپ سے ضرور پوری ہو گی۔
امام علیہ السلام نے فرمایا اے میرے چچا زاد بھائی میں تم کو پناہ میں دیتا ہوں اللہ کی اس امر کے متعلق جس پر غور و فکر کرنے میں تم راتیں گزار رہے ہو اور ڈر رہا ہوں اس بات سے کہ اس امر میں آپ کو شر سے تعلق نہ ہو جائے ۔ اس کے بعد ان کی درمیان ترش گفتگو ہوئی اور میرے باپ کو جو نہ کہنا چاہے تھا وہ کہہ گزرے۔ انھوں نے کہا امر امامت میں کس وجہ سے امام حسین کو امام حسن پر ترجیح ہوئی۔ امام علیہ السلام نے فرمایا اللہ کی رحمت نازل ہو امام حسن اور امام حسین علیہ السلام پر۔ اور تم نے یہ بات کیوں کہی انھوں نے کہا اس لیے کہ ازروئے انصاف امامت بڑے بھائی کی اولاد میں چلنی چاہیے تھے امام علیہ السلام نے فرمایا خداوند عالم نے وحی کی حضرت رسول خدا کو۔ خدا نے اپنے رسول کی طرف جو چاہا وحی کی اس کی مخلوق میں اور کسی کو کوئی حکم نہیں دیا گیا اور حضرت محمد مصطفیﷺ نے علی علیہ السلام کو حکم دیا جیسا مناسب جانا انھوں نے وہی کیا جو ان کو حکم دیا گیا تھا اور ہم اس بارے میں وہی کہتے ہیں جو رسول خدا نے کہا ۔ رسول کی عظمت شان اور حضرت علی کی تصدیق کے لحاظ سے اگر امام حسین بلحاظ بزرگی سن ہوتا یا امر وصیت دونوں بھائیوں کی اولاد کے منتقل کرنے کے لیے ہوتا تو امام حسین ضرور ایسا کرتے اور ہمارے نزدیک امام حسین اس تہمت سے بری ہیں کہ وہ بے حکم خدا امامت کو اپنے لیے مخصوص کر لیتے دنیا سے رخصت ہوئے اور ان کو جو حکم دیا گیا تھا وہ انھوں نے پورا کیا وہ آپ کے جد اور عم تھے۔
اگر تم ان کے لیے کلمہ خیر کہو تو تمہارے لیے یہی زیبا ہے اور اگر ان کی شان میں ہرزہ سرائی کی تو اللہ تمہیں بخشے اے میرے ابن عم میری اطاعت کرو میرا کلام سنو پس قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں کوتاہی نہیں کر رہا ہوں نصیحت کرنے میں اور حرص ہے تمہارے اصلاح کی لیکن میں کیا کروں تم کو ایسا کرتے نہیں دیکھ پا رہا۔ دیکھیے حکم خدا کا کوئی رد کرنے والا نہیں میرے باپ یہ سن کر خوش ہوئے امام نے کہا خدا کی قسم آپ جانتے ہیں کہ آپ کا بیٹا محمد (جس کو آپ امام بنانا چاہتے ہیں) بھینگا اکشف و احضر ہے وہ اشجع کے بند پر پانی کے بہاؤ کی جگہ قتل کیا جائے گا۔ میرے باپ نے کہا واللہ وہ ایسا نہیں خدا کی قسم خدا اس کے دشمنوں سے بدلہ لے گا دن کا دن میں ساعت کا ساعت میں اور سال کا سال میں اور اللہ کھڑا کریگا لوگوں کو تمام اولاد ابوطالب کے خون کا بدلہ لینے کے لیے۔
امام علیہ السلام نے فرمایا خدا تمہارے گناہ بخشے تم نے مجھے یہ شعر پڑھ کر ڈرایا حالانکہ اس کا مضمون ہمارے صاحب یعنی تم ہی سے متعلق ہے (شعر کا مضمون یہ ہے کہ بکری کو بھیڑیے کے سامنے جانے سے روکو)۔ تمہارے نفس نے خلوتوں میں ایسی آرزو کو پیدا کر کے تم کو گمراہی میں ڈال دیا ہے اور تمہارے بیٹے کی حکومت حدود مدینہ سے آگے نہ بڑھے گی اور اس کی پوری جدوجہد کے بعد طائف سے آگے نہ جائے گی جس امر سے چارہ کار نہیں وہ تو ہو کر ہی رہیگا پس اللہ سے ڈرو اور اپنے نفس پر رحم کرو اور اپنے باپ کی اولاد پر ترس کھاؤ۔ واللہ میں تمہارے بیٹے کو بچہ کبک سے زیادہ شوم و منحوس جانتا ہوں۔ اصلاب آباء نے ارحام نساء میں اس سے زیادہ منحوس نطفہ نہیں ڈالا واللہ وہ مقتول ہو گا سدہ اشجع میں پانے کے بہاؤ کی جگہ واللہ گویا زمین پر پچھاڑا ہوا ہے اس کا لباس اتار لیا گیا ہے اور اس کے دونوں پیروں کے درمیان اینٹ رکھ دی گئی ہے اور اس لڑکے کو جو میری گفتگو سن رہا ہے کوئی فائدہ نہ پہنچے گا موسیٰ بن عبداللہ نے کہا حضرت کا یہ شارہ میری طرف تھا۔ پھر فرمایا یہ خروج کرے گا اپنے بھائی محمد کے ساتھ اور شکست کھائے گا اس کا ساتھی قتل کیا جائے گا پھر یہ خروج کرے گا دوسرے جھنڈے کے ساتھ ۔پس ان کا سردار قتل کیا جائے گا اور اس کا لشکر تتر بتر ہو جائے گا پس میری بات مانو اور بنی عباس سے ایمان طلب کرو اور یہ جانتے ہیں کہ بیل منڈھے چڑھنے والی نہیں اور آپ کو جاننا چاہیے کہ آپ کا بیٹا جو احول (بھینگا) سبز چشم اور اکشف ہے یہ سدہ اشجع میں اس کے پانی کے بہاؤ کی جگہ قتل کر دیا جائے گا۔
موسیٰ نے کہا یہ سن کر میرے باپ یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے خدا تمہاری مدد سے ہمیں بے پرواہ بنا دیگا اور تم ضرور بطور خود ہماری طرف لوٹو گے یا خدا تم کو اور تمہارے غیر کو بے اختیار اس طرف لائے گا تم نے یہ طریقہ اختیار کر کے اپنے غیر کی امداد کو ہم سے روکا ہے اور یہ تمہارا انکار ان کے لیے رک جانے کا ذریعہ بن جائے گا۔
فرمایا امام علیہ السلام نے اللہ جانتا ہے کہ میرا ارادہ محض تم کو نصیحت و ہدایت کرنے کا تھا اور ہمارا فرض تو کوشش ہی کرنا ہے۔ یہ سن کر میرے باپ غصہ میں اٹھے اور اپنی ردا کا دامن طیش میں زور سے جھٹکا۔ امام علیہ السلام ان کے قریب آئے اور فرمایا میں نے تمہارے چچا (امام محمد باقر علیہ السلام) اور ماں کی طرف سے تمہارے ماموں سے یہ فقرہ سنا ہے کہ تم اور تمہارے باپ کی اولاد عنقریب قتل کر دی جائے گی۔ اگر تم میری بات مان لو اور اس بلا کو حسن تدبیر سے ٹال سکتے ہو تو ٹال دو قسم اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ظاہر و باطن کا جاننے والا رحمٰن و رحیم اور اپنی مخلوق سے اعلیٰ مرتبہ والا ہے میں دوست رکھتا ہوں اس بات کو کہ فدا کروں تم پر اپنا وہ بیٹا جو میرے نزدیک اور میرے اہلبیت کے نزدیک زیادہ محبوب ہے (مراد اسماعیل) تم میری برابری کسی چیز میں نہیں کر سکتے۔ پس یہ خیال مت کرو کہ میں تمہیں دھوکہ دے رہا ہوں اور خلاف حق بات کہہ رہا ہوں۔ میرے باپ وہاں غصہ سے بھرے ہوئے اور افسوس کرتے ہوئے اٹھ آئے اس واقعہ کو بیس روز یا کچھ کم و بیش گزرے ہوں گے کہ ابو جعفر منصور بادشاہ کے لوگ آئے اور انھوں نے گرفتار کیا میرے باپ کو اور میرے چچوں میں سلیمان بن حسن، حسن بن حسن، ابراہیم بن حسن، داؤد بن حسن، علی بن حسن، سلیمان بن داؤد بن حسن اور علی بن ابراہیم بن حسن، حسن بن جعفر ابن حسن، طباطبائی ابراہیم بن اسماعیل بن حسن اور عبداللہ بن داؤد کو اور انھوں نے ان سب کو زنجیرون سے جکڑ لیا اور ایسی محمول میں بٹھایا جن میں کوئی گدا نہ تھا۔ خالی لکڑیاں تھیں یہ انھیں گرفتار کر کے مدینہ کے مقام مصلیٰ تک لے آئے تاکہ لوگ ان کی شماتت کریں۔
پس لوگوں نے اپنے کو ان سے بچایا اور ان کے حال پر لوگوں کے دل کڑھ رہے تھے پھر وہاں سے چل کر مسجد نبوی کے دروازے پر آئے جس کو باب جبرئیل کہتے ہیں امام جعفر صادق علیہ السلام اس طرح تشریف لے لائے کہ آپ کی ردا کا بیشتر حصہ زمین پر تھا پھر باب مسجد سے آپ اندرون مسجد آئے اور جو لوگ وہاں جمع تھے ان سے فرمایا تین بار اے گروہ انصار کیا تم نے رسول اللہ سے اس کا عہد کیا تھا اسی پر بیعت کی تھی۔ خدا تم پر لعنت کرے واللہ میں ان کی عزت کا چاہنے والا تھا مگر ان کے نہ ماننے سے میں مغلوب ہو گیا۔ یہ فرما کر حضرت وہاں سے چلے درآنحالیکہ ایک جوتا آپ کے ہاتھ میں تھا (یعنے انتہائی اضطرابی حالت میں)۔ ایک جوتے میں اپنا پیر داخل کیا اور دوسرا ہاتھ میں تھا اور آپ کی راد کا بیشتر حصہ زمین پر کھنچ رہا تھا۔ پھر حضرت اپنے گھر پر آئے اور اس غم میں بیس روز تک مبتلائے بخار رہے اور رات دن گریہ فرماتے تھے یہاں تک کہ ہمیں آپ کی موت کا خوف ہونے لگا یہ خدیجہ کا بیان تھا۔
جعفری کا بیان ہے میں نے موسیٰ بن عبداللہ بن الحسن سے سنا کہ جب وہ خاندان کے ساتھ اونٹوں پر تھے اور امام جعفر صادق علیہ السلام مسجد سے نکل کر اس اونٹ کی طرف بڑھے جس پر عبداللہ بن حسن سوار تھے چاہتے تھے کہ ان سے کچھ بات کریں ان کو سختی سے روکا گیا اور ایک سپاہی نے یہ کہہ کر ہٹا دیا کہ ان سے الگ رہو۔ اللہ بہت جلد تم کو اور تمہارے علاوہ دوسروں کو گرفتار کریگا جو خلیفہ مخالف ہیں اس کے بعد وہ لوگ ان سب قیدیوں کو لے کر کوچوں میں داخل ہوئے امام علیہ السلام لوٹ آئے ابھی جنت البقیع تک نہ پہنچے تھے کہ وہ سپاہی بلا میں مبتلا ہوا۔ اونٹ نے اس کو کچل دیا۔ وہ وہیں مر کر رہ گیا اور وہ لوگ قیدیوں کو لے کر بغداد کی طرف چل دیے۔ کچھ مدت ہم منتظر احوال رہے پھر محمد بن عبداللہ (جو قیدیوں میں شامل نہ تھے) آئے اور انھوں نے خبر دی کہ ان کے باپ اور ان کے چچا قتل کر دیے گئے ان کو منصور بادشاہ نے قتل کیا۔ سوائے حسن بن جعفر طباطبائی و علی بن ابراہیم و سلیمان بن داؤد و عبداللہ بن داؤد کے اس کے بعد محمد بن عبداللہ نے ظاہر ہو کر لوگوں کو اپنی بیعت کی دعوت دی۔ موسیٰ کا بیان ہے کہ اول بیعت کرنے والوں میں میں تین میں کا تیسرا تھا اور لوگوں نے پکی بیعت نہ کی کسی قریشی نے اختلاف کیا نہ انصاری نے اور نہ عربی نے اور مشورہ دیا محمد کو عیسی بن زید بن علی بن الحسین نے اور وہ ان کے لشکر کے افسر تھے۔
انھوں نے مشورہ دیا کہ لوگوں کو اپنے رشتہ داروں کے پاس بیعت کے لیے بھیجیں اگر آپ نے نرمی سے کام لیا توہ قبول نہ کریں گے لہذا سختی سے کام لیجیے اور ان کا معاملہ میرے سپرد کیجیے۔ محمد نے کہا میں نے اختیار دیا جو چاہو کرو۔ اس نے کہا پہلے ان کے سردار اور بزرگ یعنی امام جعفر صادق کے پاس بھیجیے۔ جب آپ ان پر سختی کریں گے تو لوگ سمجھ جائیں گے کہ تم ان کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرو گے جیسا ابو عبداللہ کے ساتھ کیا ہے۔ موسیٰ کہتا ہے تھوڑی دیر کے بعد محمد و عیسی امام علیہ السلام کے پاس آئے اور کہنے لگے آپ محمد کی بیعت کر لیجیے جان کی سلامتی اسی میں ہے۔ آپ نے محمد کو مخاطب کر کے کہا کیا تم نے حضرت رسولِ خدا کے بعد اور نبوت پیدا کر لی۔ محمد نے کہا نہیں۔ مگر آپ کو بیعت کرنی ہے تاکہ آپ کی جان محفوظ رہے اور آپ کی اولاد بھی اور آپ کو لڑنے کی تکلیف نہ دی جائے گی۔ حضرت نے فرمایا نہ مجھے کسی سے لڑنا ہے اورنہ مجھ میں قوتِ جنگ ہے جو کچھ مجھے کہنا تھا تمہارے باپ سے کہہ چکا ہوں میں نے اس مصیبت سے جو ان کو گھیرے ہوئے تھی ڈرایا تھا مگر مقدرات کے سامنے ڈرانا کیا کام دیتا ہے۔ میرے بھتیجیے تم اس کام کے لیے جوانوں کو لو او بوڑھوں کو چھوڑ دو۔ محمد نے کہا بلحاظ سن میرے اور آپ کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ حضرت نے فرمایا میں تم سے نہ جھگڑنا چاہتا ہوں اور نہ مقابلہ میں آنا چاہتا ہوں اور نہ جس کام کے لیے تم اٹھے ہو اس میں پیش قدمی کرنا چاہتا ہوں۔ محمد نے کہا آپ کو اب بغیر بیعت کے چھٹکارہ نہیں۔ حضرت نے فرمایا نہ میری تم سے کوئی خواہش ہے اور نہ لڑنے کا ارادہ ہے بلکہ میں اس شہر سے نکل کر جنگل میں جانے کا ارادہ رکھتا ہوں لیکن یہ امر مجھے روک رہا ہے اور میرے اوپر یہاں سے جانا گراں بھی ہے۔
میرے اہل و عیال بار بار مجھ سے بہ منت و زاری کہہ چکے ہیں کہ برائے کسب معاش یہاں سے باہر نکلوں میرا ضعف مانع ہے خدا کے لیے مجھ پر رحم کرو اور مجھ سے روگردانی کرو تاکہ ہم تمہاری بے ادبی سے تکلیف نہ اٹھائیں۔ محمد نے کہا اے ابو عبداللہ واللہ منصور دوانقی مر گیا (اب زمانہ میری حکومت کا ہے) فرمایا اگر بالفرض وہ مر گیا ہے تو تم میرے ساتھ کیا کرو گے۔ انھوں نے کہا میں تمہاری شان بڑھانا چاہتا ہوں ۔ فرمایا جو تم ارادہ رکھتے ہو وہ پورا نہ ہو گا خدا کی قسم منصور دوانقی مرا نہیں اس کی موت نیند کی سی موت یعنی یہ خبر غلط ہے۔ محمد نے کہا واللہ آپ کو میری بیعت کرنا ہو گی چاہے بخوشی یا بہ کراہت کرنے میں آپ کی تعریف نہ ہو گی پس حضرت نے سختی سے انکار کیا۔ محمد نے قید کرنے کا حکم دیا۔ عیسیٰ نے زید سے کہا قید خانہ خراب ہے ابھی اس میں تالا نہیں لگ سکتا۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ قید خانہ سے بھاگ نہ جائیں یہ سن کر امام علیہ السلام ہنسے اور فرمایا لا حول ولا قوہ الا بااللہ العلی العظیم کیا تم مجھے قید کرنا ہی چاہتے ہو اس نے کہا ہاں۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد کو نبوت دے کر ہمیں عزت بخشی میں تم کو ضرور قید کروں گا اور تم پر سختی روا رکھوں گا۔ عیسیٰ بن زید نے کہا ان کو مخبار میں قید کرو۔ اس وقت وہی مضبوط گھر ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا میں جو کچھ کہوں گا اس کی تصدیق ہو جائے گی عیسی بن زید نے کہا اگر آپ کچھ بولے تو میں آپ کا منہ توڑ دوں گا۔ حضرت نے فرمایا اے شوم کبود و چشم میں گویا دیکھ رہا ہوں کہ تو اپنے کو چھپانے کے لیے سوراخ ڈھونڈ رہا اور تو ان لوگوں میں نہیں کہ دو لشکروں کے ٹکراتے وقت تیری جرات قابل ذکر ہو تو ایسا بزدل ہے کہ کوئی تالی بجائے تو تو تیز رفتار اونٹ کی طرح بھاگ کھڑا ہو۔ محمد نے آپ کے انکار کو بہت برا جانا۔ اور اس نے حضرت کو قید کر دیا اور حکم دیا کہ ان پر ہر طرح کی سختی روا رکھی جائے۔ حضرت نے فرمایا خدا کی قسم گویا میں اس وقت کو دیکھ رہا ہوں کہ تو سدہ اشجع سے نکل کر اس کے رودخانہ میں آ رہا ہے اور تجھ پر ایک سوار نے حملہ کیا ہے جس کے ہاتھ میں ایک نیزہ ہے آدھا سفید اور آدھا سیاہ وہ سفید پیشانی والے کست گھوڑے پر سوار ہو گا و تیرے اوپر نیزہ مارے گا مگر اس سے تجھے ضرر نہ پہنچے گا تو اس کے گھوڑے کے دماغ پر نیزہ مارے گا اور تو اس کو گرا دے گا پھر حلمہ کرے گا تجھ پر ایک دوسرا آدمی جو برآمد ہو گا کوچہ آل عمار و لین سے اس کے ڈوبے ہوئے گیسو ہوں گے جو اس کے خود کے نیچے سے ظاہر ہوں گے اور مونچھوں کے بال گھنے ہوں گے وہی تیرا قاتل ہو گا خدا اس کی بوسیدہ ہڈیوں پر رحم نہ کرے ۔ محمد نے کہا اے ابو عبداللہ آپ نے یہ حساب لگانے میں غلطی کی ہے اس کے بعد سراقی بن سلح المحوت نے حضرت کے پشت پر ہاتھ مارا اور حضرت کو قید خانہ میں بند کر دیا اور ان کا اور ان کے رشتہ داروں کا جنھوں نے محمد کے ساتھ خروج نہ کیا تھا تمام مال ضبط کر لیا۔ اس کے بعد اسماعیل بن عبداللہ بن جعفر ابی طالب کے پاس پہنچے یہ مرد بزرگ اور ضعیف تھے ایک آنکھ ان کی جاتی رہی تھی اور پیروں کی طاقت بھی ان کی زائل ہو گئی تھی لوگوں کے سہارے چلتے تھے ان سے بیعت طلب کی گئی انھوں نے کہا برادر زادے میں تو بوڑھا ہوں کمزور ہوں تمہاری نیکی اور مدد کا محتاج ہوں۔ اس نے کہا تم کو بیعت ضرور کرنا ہو گی انھوں نے کہا میری بیعت سے تم کو کیا فائدہ ہو گا میں تمہارے لشکر کے ایک کارآمد سپاہی کی جگہ کو تنگ بنا دوں گا یعنی بہتر یہ ہے کہ میری بجائے کسی کارآمد سپاہی کو رکھو۔ اس نے کہا بغیر بیعت تمہارے لیے چارہ کار نہیں اور ان سے سخت کلامی کی۔ اسماعیل نے کہا اچھا تو جعفر بن محمد علیہ السلام کو بلاؤ تاکہ ہم سب مل کر تمہاری بیعت کریں۔ پس امام علیہ السلام کو بلایا اسماعیل نے ان سے کہا میں آپ پر فدا ہوں اگر مناسب ہو تو آپ اس شخص اک انجام کار بیان کر دیں شاید یہ ہم سے باز رہے۔ فرمایا میں نے پکا ارادہ کر لیا ہے کہ اس شخص سے کلام نہ کروں گے میرے بارے میں جو اس کا دل چاہے کر لے۔
اسماعیل نے کہا میں آ کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ کو یاد ہے کہ میں آپ کے پدر بزرگوار محمد بن علی کی خدمت میں ایک روز دو کپڑے زرد رنگ کے پہنے ہوئے آیا۔ حضرت نے دیر تک مجھ کو دیکھا اور رونے لگے۔ میں نے کہا آپ کیوں رو رہے ہیں۔ فرمایا تمہارا مستقبل خیال کر کے رو رہا ہوں تم بڑھاپے میں عبث قتل کیے جاؤ گے تمہارے خون کی شکایت تک نہ کی جا سکے گی۔ میں نے کہا ایسا کب ہو گا۔ فرمایا جب تم کو باطل کی طرف بلایا جائے گا اور تم اسے انکار کر دو گے اور اس وقت تم دیکھو گے بھینگے اور قوم کے منحوس ترین انسان کو اولاد حسن سے کہ وہ منبر رسول پر چڑھے گا اور اپنی امامت کی طرف لوگوں کو بلائے گا اور اپنا نام رکھے گا اپنے اصلی نام کے علاوہ۔ پس تازہ کرنا اس روز اپنے ایمان کو اور لکھنا اپنی وصیت پس تم یا تو اسی روز قتل کیے جاؤ گے یا دوسرے روز امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہاں یہ بات مجھے یاد ہے قسم ہے رب کعبہ کی یہ ماہ رمضان کے بہت کم روزے رکھ پائے گا پس میں تم کو خدا کے سپرد کرتا ہوں۔ اے ابو الحسن اور دعا کرتا ہوں کہ تمہاری مصیبت میں صبر کرنے پر خدا ہم کو اجر دے۔ اور آپ کی اولاد کو آپ کا اچھا جانشین بنائے۔ پھر انا للہ و انا الیہ راجعون فرمایا اس کے بعد اسماعیل کو وہاں سے اٹھا لے گئے اور امام علیہ السلام کو قید خانہ میں لے گئے۔ موسیٰ بن عبداللہ کہتا ہے کہ ایک رات گزری تھی کہ اسماعیل کے بھتیجے معاویہ بن عبداللہ بن جعفر کی اولاد آئی اور انھوں نے اسماعیل کو لات گھونسوں سے اتنا مارا کہ وہ مر گئے پھر محمد نے کسی کو امام علیہ السلام کے پاس بھیجا اس نے ان کو رہا کر دیا۔ اس کے بعد چند روز توقف رہا یہاں تک کہ ہم نے ماہ رمضان کا چاند دیکھا۔ ناگاہ ہمیں خبر ملی کی عیسی بن موسیٰ (منصور عباسی کا چچا) نے چڑھائی کی ہے یہ سن کر محمد ابن عبداللہ نے اپنے لشکر کے اگلے حسے کا سردار یزید بن معاویہ بن عبداللہ بن جعفر کو معین کیا اور عیسیٰ بن موسیٰ نے اپنے لشکر کے سردار بنائے اولاد حسن بن زید بن الحسن و محمد بن زید و علی بن ابراہیم کو جو حسن بن زید کے بیٹے تھے۔ یزید بن معاویہ نے شکست کھائی اور عیسیٰ بن موسٰ مدینہ آیا اور مدینہ میں کشت و خون ہوا۔ عیسی کوفہ باب پر آ کر ٹھہرا۔ موسیٰ بن عبداللہ کہتے ہیں پس عباسی لشکر کے سیاہ پوش سپاہی ہمارے پیچھے سے آئے اور محمد نے معہ اپنے اصحاب کے خروج کیا۔ بازار تک پہنچا اور اپنے لشکر کو وہاں پہنچا کر اپنے گھر کی طرف لوٹا پھر آیا اور مسجد تراب فروشاں تک پہنچا وہاں دیکھا نہ کوئی سیاپ پوش اور نہ سفید پوش وہ آگے بڑھ کر قبیلہ قبیلہ فزارہ کی گھاٹی تک پہنچا اور نیچے آیا۔ جہاں قبیلہ ہذیل تھا۔ وہاں سے اشجع کے بند پر آیا۔ نگاہ حسب پیش گوئی امام جعفر صادق علیہ السلام ایک سوار اس کے پیچھے سے آیا ہذیل کے کوچہ سے نکل کر اور محمد کے نیزہ مارا لیکن یہ وار کارگر نہ ہوا۔ پھر محمد نے حملہ کیا اور اپنی تلوار اس کے گھوڑے کے سر پر ماری سوار نے بھی نیزہ مارا۔ وہ محمد کی زرہ میں رہ گیا اور کوئی نقصان نہ پہنچا۔ وہ سوار چونکہ گھوڑے کے زخمی ہونے سے پیادہ ہو گیا تھا لہذا محمد نے اس پر جھک کر وار کیا اور اس کو عاجز کر دیا۔ ابھی محمد متوجہ تھا اس سوار کی طرف کی حمید بن قحطبہ نے کوچہ عمار سے نکل کر محمد پر حملہ کیا اور ایسا نیزہ مارا کہ اس کی سنان بدن محمد میں در آئی اور نیزہ ٹوٹ گیا۔ محمد نے حمید پر حملہ کیا حمید نے ٹوٹے نیزے کی جڑ سے حملہ کیا اور محمد کو زمین پر گراکر مار دیا اور بے بس کر کے قتل کر دیا اور سر کاٹلیا اس کے بعد عباسی لشکر ہر طرف سے سمٹ آیا اور مدینہ کو گھیر لیا بہت سے لوگ وہاں سے جلا وطن ہو کر اور شہروں کو چلے گئے۔ موسیٰ بن عبداللہ کا بیان ہے کہ میں وہاں سے اپنے بھائی ابراہیم بن عبداللہ کی پاس پہنچا وہاں میں نے عیسیٰ بن زید کو سوراخ میں چھپا ہوا پایا۔ میں نے ابراہیم کو محمد کی غلط تدبیر سے آگاہ کیا پھر ہم نے ابراہیم کے ساتھ خروج کیا وہ بھی قتل کر دیے گئے خدا اس پر رحم کرے۔ پھر اپنے ہونٹ پھٹے بھائی عبداللہ بن محمد کے ساتھ سندھ میں چلا گیا باحال پریشان اس حال میں لوٹا کہ شہروں کی رہائش میرے اوپر تنگ تھی بادشاہ کا خوف مجھ پر غالب تھا۔ حضرت امام جعفر صاق علیہ السلام کا قول مجھے یاد آیا میں خلیفہ کے پاس گیا جبکہ وہ حج کے ایام میں کعبہ کی دیوار کے سایہ میں خطبہ سنا رہا تھا میری اسے اطلاع نہ تھی۔ میں منبر کے نیچے کھڑا ہوا اور میں نے کہا اگر مجھے جان کی امام دی جائے تو میں ایک اچھی بات آپ سے بیان کروں۔ اس نے کہا امان ہے بتا وہ کیا ہے میں نے کہا میں آپ کو موسیٰ بن عبداللہ بن حسن کا پتہ بتاتا ہوں۔ اس نے کہا اچھا تیرے لیے امان ہے میں نے کہا پکا وعدہ کیجیے غرض میں نے اس سے عہد لیا پھر کہا موسیٰ بن عبداللہ میں ہی ہوں۔ اس نے کہا ایسا ہے تو تیری عزت کی جائے گی اور انعام دیا جائے گا۔ میں نے کہا آپ اپنے خاندان میں سے کسی کے حوالے مجھے کر دیجیے تاکہ وہ میرے حالات سے آپ کو اطلاع دیتا رہے۔ اس نے کہا جس کی طرف چاہتا ہو بیان کر۔ میں نے عباس بن محمد آپ کے چچا عباس نے کہا مجھے تمہاری ضرورت نہیں۔ میں نے کہا مجھے تو ہے امیر المومنین کے حق کا واسطہ آپ قبول کر لیں پس اس نے خوش و ناخوش قبول کر لیا۔
پھر مہدی نے کہا تمہیں یہاں پہچانتا کون ہے اور اس کے پاس ہمارے اصحاب یا ان کے اکثر لوگ موجود تھے میں نے کہا یہ حسن بن زید مجھے پہچانتے ہیں انھوں نے کہا بے شک اے امیر المومنین جتنی مدت یہ ہندوستان میں رہے گویا ہم سے غائب نہیں تھے۔ میں نے مہدی سے کہا اے امیر المومنین اس مقام کی خبر مجھے اس شخص کے باپ نے دی تھی اور میں نے اشارہ کیا موسیٰ بن جعفر کی طرف موسیٰ بن عبداللہ نے کہا اس وقت میں نے حسب مصلحت امام جعفر صادق علیہ السلام پر ایک جھوٹ بولا۔ میں نے مہدی سے کہا کہ انھوں نے تم کو سلام کہا ہے اور یہ فرمایا ہےوہ امام عادل اور سخی ہے۔ پس مہدی نے حکم دیا موسیٰ بن جعفر کے لیے پانچہزار دینار کے لیے اس میں امام موسیٰ کاظم نے مجھے دو ہزار دینار دیے اور مہدی نے امام موسیٰ کاظم کے اصحاب کو بھی رقوم دیں اور مجھے بھی اور مجھے زیادہ دیا۔ اس طرح کہ اس نے حکم دیا کہ جہاں کہیں اولاد امام محمد باقر کا ذکر ہو تو کہا خدا کی رحمت ہو ان پر اور ملائکہ اور حاملان عرش اور کرام کاتبین کا درود ہو ان پر بالخصوص امام جعفر پر سب سے بہتر اور موسیٰ بن جعفر نے بہترین بدلہ دیا اللہ کے بعد میں ان کا غلام ہوں۔
وَبِهَذَا الاسْنَادِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ جَعْفَرِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْجَعْفَرِيِّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الله بْنُ الْمُفَضَّلِ مَوْلَى عَبْدِ الله بْنِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ لَمَّا خَرَجَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْمَقْتُولُ بِفَخٍّ وَاحْتَوَى عَلَى الْمَدِينَةِ دَعَا مُوسَى بْنَ جَعْفَرٍ إِلَى الْبَيْعَةِ فَأَتَاهُ فَقَالَ لَهُ يَا ابْنَ عَمِّ لا تُكَلِّفْنِي مَا كَلَّفَ ابْنُ عَمِّكَ عَمَّكَ أَبَا عَبْدِ الله فَيَخْرُجَ مِنِّي مَا لا أُرِيدُ كَمَا خَرَجَ مِنْ أَبِي عَبْدِ الله مَا لَمْ يَكُنْ يُرِيدُ فَقَالَ لَهُ الْحُسَيْنُ إِنَّمَا عَرَضْتُ عَلَيْكَ أَمْراً فَإِنْ أَرَدْتَهُ دَخَلْتَ فِيهِ وَإِنْ كَرِهْتَهُ لَمْ أَحْمِلْكَ عَلَيْهِ وَالله الْمُسْتَعَانُ ثُمَّ وَدَّعَهُ فَقَالَ لَهُ أَبُو الْحَسَنِ مُوسَى بْنُ جَعْفَرٍ حِينَ وَدَّعَهُ يَا ابْنَ عَمِّ إِنَّكَ مَقْتُولٌ فَأَجِدَّ الضِّرَابَ فَإِنَّ الْقَوْمَ فُسَّاقٌ يُظْهِرُونَ إِيمَاناً وَيَسْتُرُونَ شِرْكاً وَإِنَّا لله وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ أَحْتَسِبُكُمْ عِنْدَ الله مِنْ عُصْبَةٍ ثُمَّ خَرَجَ الْحُسَيْنُ وَكَانَ مِنْ أَمْرِهِ مَا كَانَ قُتِلُوا كُلُّهُمْ كَمَا قَالَ ۔
ابراہیم جعفری سے مروی ہے کہ بیان کیا محمد سے عبداللہ بن مفضل غلام عبداللہ بن جعفر ابی طالب نے کہ جب خروج کیا حسن بن علی مقتول فتح نے تو وہ مدینہ آئے اور امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو بلا کر اپنی بیعت کی دعوت دی آپ نے فرمایا اے میرے چچا زاد بھائی مجھے اس امر کی تکلیف نہ دو جس کی تکلیف تمہارے چچا زاد (محمد بن عبداللہ) نے تمہارے چچا امام جعفر صادق علیہ السلام کو دی تھی ایسا نہ ہو کہ میری زبان سے ایسی بات نکلے جسے میں کہنا نہیں چاہتا جس طرح امام جعفر صادق علیہ السلام کو وہ کہنا پڑا تھا جسے وہ نہیں چاہتے تھے ۔ حسین نے کہا میں نے تو ایک امر آپ کے سامنے پیش کیا تھا اگر آپ چاہیں منظور کر لیں چاہیں رد کر دیں میں کوئی تعرض نہ کروں گا۔ اللہ میرا مددگار رہے پھر حضرت کو رخصت کیا۔ وقت رخصت آپ نے فرمایا اے بھائی تم قتل کر دیے جاؤ گے پس خوب جم کر لڑو (جتنے دشمن مارے جائیں اچھا ہے) یہ لوگ فاسق ہیں ایمان کو ظاہر کرتے ہیں اور شرک کو چھپاتے ہیں انا للہ و انا الیہ راجعون میں تمہیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں کہ تم ہمارے خاندان کے ہو اس کے بعد حسین نے خروج کیا اور پھر جو کچھ ہوا وہ ہوا جیسا امام نے فرمایا تھا سب کے سب قتل ہو گئے۔
وَبِهَذَا الاسْنَادِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ جَعْفَرِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْجَعْفَرِيِّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الله بْنُ الْمُفَضَّلِ مَوْلَى عَبْدِ الله بْنِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ لَمَّا خَرَجَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْمَقْتُولُ بِفَخٍّ وَاحْتَوَى عَلَى الْمَدِينَةِ دَعَا مُوسَى بْنَ جَعْفَرٍ إِلَى الْبَيْعَةِ فَأَتَاهُ فَقَالَ لَهُ يَا ابْنَ عَمِّ لا تُكَلِّفْنِي مَا كَلَّفَ ابْنُ عَمِّكَ عَمَّكَ أَبَا عَبْدِ الله فَيَخْرُجَ مِنِّي مَا لا أُرِيدُ كَمَا خَرَجَ مِنْ أَبِي عَبْدِ الله مَا لَمْ يَكُنْ يُرِيدُ فَقَالَ لَهُ الْحُسَيْنُ إِنَّمَا عَرَضْتُ عَلَيْكَ أَمْراً فَإِنْ أَرَدْتَهُ دَخَلْتَ فِيهِ وَإِنْ كَرِهْتَهُ لَمْ أَحْمِلْكَ عَلَيْهِ وَالله الْمُسْتَعَانُ ثُمَّ وَدَّعَهُ فَقَالَ لَهُ أَبُو الْحَسَنِ مُوسَى بْنُ جَعْفَرٍ حِينَ وَدَّعَهُ يَا ابْنَ عَمِّ إِنَّكَ مَقْتُولٌ فَأَجِدَّ الضِّرَابَ فَإِنَّ الْقَوْمَ فُسَّاقٌ يُظْهِرُونَ إِيمَاناً وَيَسْتُرُونَ شِرْكاً وَإِنَّا لله وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ أَحْتَسِبُكُمْ عِنْدَ الله مِنْ عُصْبَةٍ ثُمَّ خَرَجَ الْحُسَيْنُ وَكَانَ مِنْ أَمْرِهِ مَا كَانَ قُتِلُوا كُلُّهُمْ كَمَا قَالَ۔
عبداللہ بن حسن نے ایک خط میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو لکھا جس طرح میں اپنے نفس کو اللہ سے ڈرنے کی ہدایت کرتا ہوں تم کو بھی کرتا ہوں اللہ کی ہدایت جس طرح اولین کے لیے تھی اسی طرح آخرین کے لیے بھی ہے مجھے ایک دیندار معتبر آدمی نے خبر دی ہے کہ تم اپنی امامت کے اظہار کا شوق رکھتے ہو باوجودیکہ خدا نے اپنی مدد کو تم سے روک کر تمہیں ذلیل بنا دیا ہے اور تم نے رخنہ ڈالا میری امامت کی امت میں میں جو موافق رضائے الہٰی ہے تم نے ہماری امت کے بارے میں پوشیدہ طور پر اس طرح مخالفت کی ہے جس طرح تمہارے باپ نے کی تھی تم سے پہلے اور ہمیشہ سے تم اس چیز کے دعویدار ہو جو تمہارے لیے معین نہیں تم نے اپنی آرزوؤں کو اس چیز کے لیے پھیلا رکھا ہے جو اللہ نے تم کو عطا نہیں کیں۔ تم خواہشوں میں پھنس کر گمراہ ہو گئے اور میں تم کو اس چیز سے ڈراتا ہوں جس سے خود اللہ نے تم کو ڈرایا ہے۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے جواب میں لکھا یہ خط موسیٰ بن جعفر اور علی رضا کی طرف جو خضوع و خشوع اور اطاعت میں برابر کے شریک ہیں یحیٰ بن عبداللہ کے لیے اما بعد تم کو اور اپنے نفس کو اللہ سے ڈراتا ہوں اور تم کو آگاہ کرتا ہوں اس دردناک عذاب سخت عتاب اور اس کے پورے پورے انتقال سے اور تجھ کو اور اپنے نفس کو وصیت کرتا ہوں اللہ کے تقویٰ کی جو زینت کلام ہے اور اس کی نعمتوں کو قائم رکھتا ہے تمہارا خط آیا جس میں تم نے لکھا ہے کہ میں مدعی امامت ہوں اور مجھ سے پہلے میرے باپ تھے اس کی گواہیاں لوگ دیتے ہیں ان سے پوچھو مجھ سے تو دعویٰ نہ سنا ہو گا۔
دنیا کی حرص اور اس کی طلب نے لوگوں کے لیے آخرت کا کوئی مقصد باقی ہی نہیں رکھا۔ دنیا ہی کے مقاصد و اغراض ان کے لیے رہ گئے اور تم نے لکھا ہے کہ میں لوگوں کو روک رہا ہوں کہ میری خواہش ہے اس چیز کی طرف جو تمہارے پاس ہے (یعنی مال و متاع و حکومت) حالانکہ تمہارے گروہ میں داخل ہونے سے مجھے نہیں روکا مگر اسی چیز نے جس میں تم پھنسے ہوئےہو اگر میں اس چیز کی طرف راغب ہوتا تو یہ کمزوری ہوتی سنت رسول پر قائم رہنے میں نہ کہ کمی بصیرت کی وجہ سے برہان الہٰی میں لیکن خدا نے انسانوں کو مخلوط پیدا کیا ہے جو مختلف ہیں طبائع میں اور بیگانہ ہیں عادات میں (اگر تم مدعی امامت ہو) تو تمہارے علم کی جانچ کے لیے دو لفظوں کے معانی پوچھتا ہوں عترف تمہارے بدن میں ہے اور صہلح انسان میں کیا چیز ہے۔ اس کا جواب دو۔ پھر امر مذکور کے بارے میں لکھنا میں تم کو خلیفہ کی مخالفت سے بچانا چاہتا ہوں اور تم کو رغبت دلاتا ہوں اس کی نیکی حاصل کرنے اور اس کی اطاعت کی طرف اور اس سے امان چاہو۔ قبل اس کے کہ تم اس کے پنجہ میں پھنسو اور ہر طرف سے تمہاری گردن میں رسی بندھے اور ہر طرف سے اپنے لیے راحت طلب کرو اور کوئی کوشش نہ کرو یہاں تک کہ خدا تم پر اپنا احسان کرے اور خلیفہ کو تم پر مہربان کرے۔ خدا اس کو باقی رکھے تاکہ تم کو امان دے اور رسول کے رشتہ داروں کی حفاظت کرے۔ سلام ہو طالب ہدایت پر وحی کہتی ہے عذاب اس کے لیے جس نے تکذیب کی اور روگردانی کی۔ جعفری نے کہا حضرت کا یہ خط ہارون کے ہاتھ لگ گیا اس نے پڑھ کر کہا لوگوں نے خواہ مخواہ موسیٰ بن جعفر پر تہمت لگائی۔