عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مِهْرَانَ قَالَ لَمَّا خَرَجَ أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى بَغْدَادَ فِي الدَّفْعَةِ الاولَى مِنْ خَرْجَتَيْهِ قُلْتُ لَهُ عِنْدَ خُرُوجِهِ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنيِِ أَخَافُ عَلَيْكَ فِي هَذَا الْوَجْهِ فَإِلَى مَنِ الامْرُ بَعْدَكَ فَكَرَّ بِوَجْهِهِ إِلَيَّ ضَاحِكاً وَقَالَ لَيْسَ الْغَيْبَةُ حَيْثُ ظَنَنْتَ فِي هَذِهِ السَّنَةِ فَلَمَّا أُخْرِجَ بِهِ الثَّانِيَةَ إِلَى الْمُعْتَصِمِ صِرْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ أَنْتَ خَارِجٌ فَإِلَى مَنْ هَذَا الامْرُ مِنْ بَعْدِكَ فَبَكَى حَتَّى اخْضَلَّتْ لِحْيَتُهُ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ فَقَالَ عِنْدَ هَذِهِ يُخَافُ عَلَيَّ الامْرُ مِنْ بَعْدِي إِلَى ابْنِي عَلِيٍّ۔
راوی کہتا ہے جب پہلی بار حضرت امام علی نقی علیہ السلام بغداد جانے لگے تو میں نے چلتے وقت کہا میں آپ پر فدا ہوں میں اس پیش آنے والی صورت حال سے ڈرتا ہوں لہذا یہ بتائیے کہ آپ کے بعد کون امام ہو گا۔ پس آپ نے ہنستے ہوئے میری طرف دیکھا اور فرمایا اس سال میرا جانا وہاں نہیں ہے جو تم نے گمان کیا ہے (یعنی اس سفر میں میری وفات نہ ہو گی کیونکہ اس مرتبہ مامون نے میری دامادی کے لیے بلایا تھا) جب آپ دوسری بار معتصم کے بلانے پر جانے لگے تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا میں آپ پر فدا ہوں آپ جا رہے ہیں ۔ یہ تو فرمائیے آپ کے بعد کون امام ہو گا۔ یہ سن کر حضرت اتنا روئے کہ ریش مبارک تر ہو گئی پھر مجھ سے فرمایا اس مرتبہ خوف کی صورت ہے پس میرے بعد میرے بیٹے علی امام ہیں۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ الْخَيْرَانِيِّ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ قَالَ كَانَ يَلْزَمُ بَابَ ابي جعفر علیہ السلام لِلْخِدْمَةِ الَّتِي كَانَ وُكِّلَ بِهَا وَكَانَ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى يَجِيءُ فِي السَّحَرِ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ لِيَعْرِفَ خَبَرَ عِلَّةِ ابي جعفر علیہ السلام وَكَانَ الرَّسُولُ الَّذِي يَخْتَلِفُ بَيْنَ ابي جعفر علیہ السلام وَبَيْنَ أَبِي إِذَا حَضَرَ قَامَ أَحْمَدُ وَخَلا بِهِ أَبِي فَخَرَجْتُ ذَاتَ لَيْلَةٍ وَقَامَ أَحْمَدُ عَنِ الْمَجْلِسِ وَخَلا أَبِي بِالرَّسُولِ وَاسْتَدَارَ أَحْمَدُ فَوَقَفَ حَيْثُ يَسْمَعُ الْكَلامَ فَقَالَ الرَّسُولُ لابِي إِنَّ مَوْلاكَ يَقْرَأُ عَلَيْكَ السَّلامَ وَيَقُولُ لَكَ إِنِّي مَاضٍ وَالامْرُ صَائِرٌ إِلَى ابْنِي عَلِيٍّ وَلَهُ عَلَيْكُمْ بَعْدِي مَا كَانَ لِي عَلَيْكُمْ بَعْدَ أَبِي ثُمَّ مَضَى الرَّسُولُ وَرَجَعَ أَحْمَدُ إِلَى مَوْضِعِهِ وَقَالَ لابِي مَا الَّذِي قَدْ قَالَ لَكَ قَالَ خَيْراً قَالَ قَدْ سَمِعْتُ مَا قَالَ فَلِمَ تَكْتُمُهُ وَأَعَادَ مَا سَمِعَ فَقَالَ لَهُ أَبِي قَدْ حَرَّمَ الله عَلَيْكَ مَا فَعَلْتَ لانَّ الله تَعَالَى يَقُولُ وَلا تَجَسَّسُوا فَاحْفَظِ الشَّهَادَةَ لَعَلَّنَا نَحْتَاجُ إِلَيْهَا يَوْماً مَا وَإِيَّاكَ أَنْ تُظْهِرَهَا إِلَى وَقْتِهَا فَلَمَّا أَصْبَحَ أَبِي كَتَبَ نُسْخَةَ الرِّسَالَةِ فِي عَشْرِ رِقَاعٍ وَخَتَمَهَا وَدَفَعَهَا إِلَى عَشْرَةٍ مِنْ وُجُوهِ الْعِصَابَةِ وَقَالَ إِنْ حَدَثَ بِي حَدَثُ الْمَوْتِ قَبْلَ أَنْ أُطَالِبَكُمْ بِهَا فَافْتَحُوهَا وَأَعْلِمُوا بِمَا فِيهَا فَلَمَّا مَضَى أَبُو جَعْفَر علیہ السلام ذَكَرَ أَبِي أَنَّهُ لَمْ يَخْرُجْ مِنْ مَنْزِلِهِ حَتَّى قَطَعَ عَلَى يَدَيْهِ نَحْوٌ مِنْ أَرْبَعِمِائَةِ إِنْسَانٍ وَاجْتَمَعَ رُؤَسَاءُ الْعِصَابَةِ عِنْدَ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَرَجِ يَتَفَاوَضُونَ هَذَا الامْرَ فَكَتَبَ مُحَمَّدُ بْنُ الْفَرَجِ إِلَى أَبِي يُعْلِمُهُ بِاجْتِمَاعِهِمْ عِنْدَهُ وَأَنَّهُ لَوْ لا مَخَافَةُ الشُّهْرَةِ لَصَارَ مَعَهُمْ إِلَيْهِ وَيَسْأَلُهُ أَنْ يَأْتِيَهُ فَرَكِبَ أَبِي وَصَارَ إِلَيْهِ فَوَجَدَ الْقَوْمَ مُجْتَمِعِينَ عِنْدَهُ فَقَالُوا لابِي مَا تَقُولُ فِي هَذَا الامْرِ فَقَالَ أَبِي لِمَنْ عِنْدَهُ الرِّقَاعُ أَحْضِرُوا الرِّقَاعَ فَأَحْضَرُوهَا فَقَالَ لَهُمْ هَذَا مَا أُمِرْتُ بِهِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ قَدْ كُنَّا نُحِبُّ أَنْ يَكُونَ مَعَكَ فِي هَذَا الامْرِ شَاهِدٌ آخَرُ فَقَالَ لَهُمْ قَدْ أَتَاكُمُ الله عَزَّ وَجَلَّ بِهِ هَذَا أَبُو جَعْفَرٍ الاشْعَرِيُّ يَشْهَدُ لِي بِسَمَاعِ هَذِهِ الرِّسَالَةِ وَسَأَلَهُ أَنْ يَشْهَدَ بِمَا عِنْدَهُ فَأَنْكَرَ أَحْمَدُ أَنْ يَكُونَ سَمِعَ مِنْ هَذَا شَيْئاً فَدَعَاهُ أَبِي إِلَى الْمُبَاهَلَةِ فَقَالَ لَمَّا حَقَّقَ عَلَيْهِ قَالَ قَدْ سَمِعْتُ ذَلِكَ وَهَذَا مَكْرُمَةٌ كُنْتُ أُحِبُّ أَنْ تَكُونَ لِرَجُلٍ مِنَ الْعَرَبُ لا لِرَجُلٍ مِنَ الْعَجَمِ فَلَمْ يَبْرَحِ الْقَوْمُ حَتَّى قَالُوا بِالْحَقِّ جَمِيعاً۔
خیرانی نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ وہ خادم تھا امام علی نقی علیہ السلام کا اور احمد بن محمد ہر رات کو آتا تھا تاکہ امام علی نقی علیہ السلام کی بیماری کا حال معلوم کرے۔ جب وہ شخص جو امام کے اور میرے باپ کے درمیان پیغام رساں تھا آیا تو احمد اٹھ گیا اور اس نے تنہائی میں گفتگو کی میرے باپ نے ایک رات میں گھر سے نکلا تو احمد مجلس سے اٹھ کھڑا ہوا اور میرے باپ نے قاصد امام سے خلوت کی احمد نے چکر لگایا اور ایسی جگہ چھپ کر کھڑا ہوا تاکہ بات چیت کو سنے۔ قاصد نے میرے باپ سے کہا آپ کے مولا نے آپ کو سلام کہا ہے اور فرمایا ہے میں دنیا سے جانے والا ہوں اور امر امامت منتقل ہونے والا ہے میرے فرزند علی کی طرف اس کی اطاعت تم پر اسی طرح فرض ہے جس طرح میرے باپ کے بعد میری اطاعت تم پر فرض تھی۔ قاصد یہ کہہ کر چلا گیا اور احمد اپنی جگہ پر آیا اور میرے باپ سے کہنے لگا تم سے اور اس سے کیا بات چیت ہوئی۔ انھوں نے کہا اچھی بات چیت ہوئی اس نے کہا میں نے سن لیا ہے پس تم مجھ سے کیوں چھپاتے ہو اور جو سنا تھا بیان کر دیا۔ میرے باپ نے کہا تم نے فعل حرام کیا خدا فرماتا ہے احوال المسلمین کا تجسس نہ کرو۔ پس اس گواہی کو محفوظ رکھو شاید کہ ہم کسی دن اس کی طرف محتاج ہوں اور تم پر لازم ہے کہ جب وقت آئے تو اس کو ظاہر کر دینا۔ جب صبح ہوئی تو میرے باپ نے دس پرچوں پر ایک پیغام لکھا اور وہ پرچے قوم کے سربرآوردہ لوگوں کے حوالے کر کے کہا کہ اس سے پہلے کہ میں تم کو بلاؤں اگر میری موت واقع ہو جائے تو اس کو کھولنا اور جو اس میں ہے اس پر عمل کرنا۔ جب امام محمد تقی علیہ السلام کا انتقال ہو گیا تو میرے باپ نے بیان کیا کہ جنازہ ابھی گھر سے نہ نکلنے پایا تھا کہ تقریباً چار سو آدمیوں نے آپ کی امامت کا اقرار کیا قوم کے رؤسا محمد بن الفرج کے یہاں جمع ہوئے اور امر امامت کے متعلق گفتگو کرنے لگے محمد بن الفرج نے میرے باپ کو اس اجتماع کی خبر دی اور لکھا ہے کہ اگر شہرت کا خوف نہ ہوتا تو میں ان کو لے کر آتا لہذا آپ آئیے میرے باپ سوار ہو کر ان کے پاس پہنچ گئے۔ وہاں قوم جمع تھی انھوں نے میرے باپ سے کہا اس معاملے میں آپ کیا کہتے ہیں۔ میرے باپ نے کہا ان میرے رقعوں کو لاؤ وہ لے آئے۔ ان سے کہا مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے بعض لوگوں نے کہا ہم چاہتے ہیں کہ اس امر کا کوئی گواہ بھی ہو۔ انھوں نے کہا یہ ابو اشعری اس پیغام کا گواہ ہے جو مجھے امام محمد تقی علیہ السلام سے پہنچا تھا۔ اور انھوں نے اس سے گواہی دینے کو کہا احمد نے انکار کر دیا میرے باپ نے اس کو مباہلہ کی دعوت دی انھوں نے جب معاملہ کی صورت پائی تو کہا میں نے اس پیغام کو سنا ہے چاہتا ہوں امام عرب ہو عجم نہ ہو پس ان سب لوگوں نے اقرار کر لیا۔
وَفِي نُسْخَةِ الصَّفْوَانِيِّ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْكُوفِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ الْوَاسِطِيِّ أَنَّهُ سَمِعَ أَحْمَدَ بْنَ أَبِي خَالِدٍ مَوْلَى أَبِي جَعْفَرٍ يَحْكِي أَنَّهُ أَشْهَدَهُ عَلَى هَذِهِ الْوَصِيَّةِ الْمَنْسُوخَةِ شَهِدَ أَحْمَدُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ مَوْلَى أَبِي جَعْفَرٍ أَنَّ أَبَا جَعْفَرٍ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيِّ بْنِ مُوسَى بْنِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ علیہ السلام أَشْهَدَهُ أَنَّهُ أَوْصَى إِلَى عَلِيٍّ ابْنِهِ بِنَفْسِهِ وَأَخَوَاتِهِ وَجَعَلَ أَمْرَ مُوسَى إِذَا بَلَغَ إِلَيْهِ وَجَعَلَ عَبْدَ الله بْنَ الْمُسَاوِرِ قَائِماً عَلَى تَرِكَتِهِ مِنَ الضِّيَاعِ وَالامْوَالِ وَالنَّفَقَاتِ وَالرَّقِيقِ وَغَيْرِ ذَلِكَ إِلَى أَنْ يَبْلُغَ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ صَيَّرَ عَبْدُ الله بْنُ الْمُسَاوِرِ ذَلِكَ الْيَوْمَ إِلَيْهِ يَقُومُ بِأَمْرِ نَفْسِهِ وَأَخَوَاتِهِ وَيُصَيِّرُ أَمْرَ مُوسَى إِلَيْهِ يَقُومُ لِنَفْسِهِ بَعْدَهُمَا عَلَى شَرْطِ أَبِيهِمَا فِي صَدَقَاتِهِ الَّتِي تَصَدَّقَ بِهَا وَذَلِكَ يَوْمُ الاحَدِ لِثَلاثِ لَيَالٍ خَلَوْنَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ سَنَةَ عِشْرِينَ وَمِائَتَيْنِ وَكَتَبَ أَحْمَدُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ شَهَادَتَهُ بِخَطِّهِ وَشَهِدَ الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ علیہ السلام وَهُوَ الْجَوَّانِيُّ عَلَى مِثْلِ شَهَادَةِ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ فِي صَدْرِ هَذَا الْكِتَابِ وَكَتَبَ شَهَادَتَهُ بِيَدِهِ وَشَهِدَ نَصْرٌ الْخَادِمُ وَكَتَبَ شَهَادَتَهُ بِيَدِهِ۔
احمد بن ابی خالد غلام امام محمد تقی علیہ السلام نے بیان کیا کہ اس نے وصیت مکتوبہ کی گواہی دی۔ گواہی دی احمد بن ابی خالد غلام امام محمد تقی علیہ السلام نے اس کی کہ ابو جعفر بن علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب علیہم السلام نے اس بات کی گواہی دی کہ وصیت کی امام محمد تقی علیہ السلام نے اپنے فرزند علی اور ان کی بہنوں کے متعلق اور امر موسیٰ کو ان کے بلوغ تک تابع بنایا اور عبداللہ بن مساور کو متولی بنایا زمینوں اور اموال اور نفقات و غلام و کنیزوں کا جب تک امام علی نقی علیہ السلام بالغ ہوں (ان کی عمر اس وقت چھ یا آٹھ سال کی تھی) عبداللہ بن مساور اس دن سے وکیل امام ہوئے امام علی نقی اور ان کی بہنوں کے معاملات کے اور امر موسیٰ متعلق ہوا امام علی نقی علیہ السلام کے بعد بلوغ جبکہ حاجت وکیل نہ رہے صدقات وغیرہ میں وہ بالغ ہوں امام علی نقی علیہ السلام کے۔ یہ واقعہ روز یک شنبہ 3 ذی الحجہ 220 ھ کا ہے احمد بن خالد نے اپنے قلم سے گواہی لکھی اور اس کے گواہ ہیں حسن بن محمد بن عبداللہ بن الحسین بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب علیہم السلام جو جوانی مشہور ہیں ان کی گواہی احمد بن ابی خالد کی گواہی کی طرح اس تحریر کے صدر میں تھی انھوں نے اپنی گواہی اپنے ہاتھ سے لکھی اور نصر خادم نے اپنی گواہی اپنے ہاتھ سے لکھی۔