مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

(3-73)

امام محمد تقی علیہ السلام کی امامت پر نص

حدیث نمبر 1

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْوَلِيدِ عَنْ يَحْيَى بْنِ حَبِيبٍ الزَّيَّاتِ قَالَ أَخْبَرَنِي مَنْ كَانَ عِنْدَ أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا علیہ السلام جَالِساً فَلَمَّا نَهَضُوا قَالَ لَهُمُ الْقَوْا أَبَا جَعْفَرٍ فَسَلِّمُوا عَلَيْهِ وَأَحْدِثُوا بِهِ عَهْداً فَلَمَّا نَهَضَ الْقَوْمُ الْتَفَتَ إِلَيَّ فَقَالَ يَرْحَمُ الله الْمُفَضَّلَ إِنَّهُ كَانَ لَيَقْنَعُ بِدُونِ هَذَا۔

راوی کہتا ہے کہ خبر دی مجھ کو اس نے جو امام رضا علیہ السلام کے پاس بیٹھا تھا جب لوگ آپ کے پاس سے اٹھ گئے تو حضرت نے فرمایا ابو جعفر (امام محمد تقی) سے ملو اور عہد ملاقات کو تازہ کرو۔ جب وہ لوگ چلے گئے تو مجھ سے فرمایا خدا مفضل پر رحم کرے کہ اس نے امامت تقی کا اقرار کیا اور قناعت کی ہمارے بیان پر بدون اشارہ کے۔

حدیث نمبر 2

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَمَّرِ بْنِ خَلادٍ قَالَ سَمِعْتُ الرِّضَا علیہ السلام وَذَكَرَ شَيْئاً فَقَالَ مَا حَاجَتُكُمْ إِلَى ذَلِكَ هَذَا أَبُو جَعْفَرٍ قَدْ أَجْلَسْتُهُ مَجْلِسِي وَصَيَّرْتُهُ مَكَانِي وَقَالَ إِنَّا أَهْلُ بَيْتٍ يَتَوَارَثُ أَصَاغِرُنَا عَنْ أَكَابِرِنَا الْقُذَّةَ بِالْقُذَّةِ۔

راوی کہتا ہے میں نے سنا امام رضا علیہ السلام سے کہ کسی نے آپ سے ایک مسئلہ پوچھا۔ فرمایا اس سے تمہارا کیا مقصد ہے۔ یہ ابو جعفر امام محمد تقی علیہ السلام ہیں میں نے ان کو اپنی جگہ بٹھایا ہے ہم اہلبیت ہیں ہمارے چھوٹے بڑوں کے وارث ہوتے ہیں کم و پیش۔

حدیث نمبر 3

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ أَبِيهِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى قَالَ دَخَلْتُ عَلَى أَبِي جَعْفَرٍ الثَّانِي علیہ السلام فَنَاظَرَنِي فِي أَشْيَاءَ ثُمَّ قَالَ لِي يَا أَبَا عَلِيٍّ ارْتَفَعَ الشَّكُّ مَا لابِي غَيْرِي۔

راوی کہتا ہے میں محمد تقی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے چند چیزوں میں مجھ سے مناظرہ کیا۔ پھر فرمایا اے ابو علی شک کو دور کرو میرے باپ کا فرزند میرے سوا کوئی نہیں۔

حدیث نمبر 4

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ يَحْيَى عَنْ مَالِكِ بْنِ أَشْيَمَ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ بَشَّارٍ قَالَ كَتَبَ ابْنُ قِيَامَا إِلَى أَبِي الْحَسَنِ علیہ السلام كِتَاباً يَقُولُ فِيهِ كَيْفَ تَكُونُ إِمَاماً وَلَيْسَ لَكَ وَلَدٌ فَأَجَابَهُ أَبُو الْحَسَنِ الرِّضَا علیہ السلام شِبْهَ الْمُغْضَبِ وَمَا عَلَّمَكَ أَنَّهُ لا يَكُونُ لِي وَلَدٌ وَالله لا تَمْضِي الايَّامُ وَاللَّيَالِي حَتَّى يَرْزُقَنِيَ الله وَلَداً ذَكَراً يَفْرُقُ بِهِ بَيْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ۔

راوی کہتا ہے ابن قیاما نے امام رضا علیہ السلام کو ایک خط میں لکھا آپ کیسے امام ہو سکتے ہیں درآنحالیکہ آپ کا کوئی لڑکا نہیں۔ آپ نے غضبناک ہو کر جواب دیا تم کو یہ کیسے معلوم کہ میرا بیٹا ہو گا ہی نہیں۔ خدا کی قسم چند روز گزرنے والے ہیں کہ خدا مجھے لڑکا دے جو حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا ہو گا۔

حدیث نمبر 5

بَعْضُ أَصْحَابِنَا عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ حُكَيْمٍ عَنِ ابْنِ أَبِي نَصْرٍ قَالَ قَالَ لِيَ ابْنُ النَّجَاشِيِّ مَنِ الامَامُ بَعْدَ صَاحِبِكَ فَأَشْتَهِي أَنْ تَسْأَلَهُ حَتَّى أَعْلَمَ فَدَخَلْتُ عَلَى الرِّضَا علیہ السلام فَأَخْبَرْتُهُ قَالَ فَقَالَ لِي الامَامُ ابْنِي ثُمَّ قَالَ هَلْ يَتَجَرَّأُ أَحَدٌ أَنْ يَقُولَ ابْنِي وَلَيْسَ لَهُ وَلَدٌ۔

راوی کہتا ہے ابن نجاشی نے مجھ سے پوچھا تمہارے امام کے بعد کون امام ہو گا۔ میں چاہتا ہوں کہ تم ان سے دریافت کرو تاکہ مجھے بھی علم ہو جائے۔ میں نے بھی امام رضا علیہ السلام سے سوال کیا۔ آپ نے فرمایا میرا بیٹا امام ہے پھر فرمایا کسی کی جرات ہے کہ کہہ دے میرا بیٹا درآنحالیکہ اس کا بیٹا نہ ہو۔

حدیث نمبر 6

أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ مُعَمَّرِ بْنِ خَلادٍ قَالَ ذَكَرْنَا عِنْدَ أَبِي الْحَسَنِ علیہ السلام شَيْئاً بَعْدَ مَا وُلِدَ لَهُ أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام فَقَالَ مَا حَاجَتُكُمْ إِلَى ذَلِكَ هَذَا أَبُو جَعْفَرٍ قَدْ أَجْلَسْتُهُ مَجْلِسِي وَصَيَّرْتُهُ فِي مَكَانِي۔

راوی کہتا ہے میں نے امام رضا علیہ السلام سے امام محمد تقی علیہ السلام کے پیدا ہونے کے بعد کچھ سوال کیے آپ نے فرمایا اس سے تمھارا مقصد کیا ہے۔ یہ ہیں ابو جعفر (امام محمد تقی علیہ السلام) میں نے ان کو اپنی جگہ بٹھایا ہے۔

حدیث نمبر 7

أَحْمَدُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنِ ابْنِ قِيَامَا الْوَاسِطِيِّ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى عَلِيِّ بْنِ مُوسَى علیہ السلام فَقُلْتُ لَهُ أَ يَكُونُ إِمَامَانِ قَالَ لا إِلا وَأَحَدُهُمَا صَامِتٌ فَقُلْتُ لَهُ هُوَ ذَا أَنْتَ لَيْسَ لَكَ صَامِتٌ وَلَمْ يَكُنْ وُلِدَ لَهُ أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام بَعْدُ فَقَالَ لِي وَالله لَيَجْعَلَنَّ الله مِنِّي مَا يُثْبِتُ بِهِ الْحَقَّ وَأَهْلَهُ وَيَمْحَقُ بِهِ الْبَاطِلَ وَأَهْلَهُ فَوُلِدَ لَهُ بَعْدَ سَنَةٍ أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام وَكَانَ ابْنُ قِيَامَا وَاقِفِيّاً۔

ابن قیاما نے امام رضا علیہ السلام سے سوال کیا کیا ایک وقت میں دو امام ہوتے ہیں۔ فرمایا نہیں مگر یہ کہ ایک ان میں صامت ہو۔ میں نے کہا اب تو آپ اکیلے ہی ہیں صامت تو کوئی نہیں اور امام محمد تقی علیہ السلام اس وقت تک پیدا نہ ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا خدا اس کو مجھ سے پیدا کرے گا جو حق اور اہل حق کو ثابت قدم بنائے گا اور باطل اور اہل باطل کو مٹائے گا۔ ایک سال بعد امام محمد تقی علیہ السلام پیدا ہوئے اور ابن قیاما واقف تھا۔

حدیث نمبر 8

أَحْمَدُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْجَهْمِ قَالَ كُنْتُ مَعَ أَبِي الْحَسَنِ علیہ السلام جَالِساً فَدَعَا بِابْنِهِ وَهُوَ صَغِيرٌ فَأَجْلَسَهُ فِي حَجْرِي فَقَالَ لِي جَرِّدْهُ وَانْزِعْ قَمِيصَهُ فَنَزَعْتُهُ فَقَالَ لِيَ انْظُرْ بَيْنَ كَتِفَيْهِ فَنَظَرْتُ فَإِذَا فِي أَحَدِ كَتِفَيْهِ شَبِيهٌ بِالْخَاتَمِ دَاخِلٌ فِي اللَّحْمِ ثُمَّ قَالَ أَ تَرَى هَذَا كَانَ مِثْلُهُ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ مِنْ أَبِي ۔

راوی کہتا ہے میں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا آپ نے اپنے فرزند کو بلایا وہ بہت کم سن تھے۔ حضرت نے ان کو اپنے پہلو میں بٹھا کر مجھ سے فرمایا ان کے کپڑے اتارو اور ان کے دونوں کندھوں کے درمیان دیکھو۔ میں نے دیکھا تو آپ کے ایک شانے پر ایک مہر لگی ہوئی تھی جس کا اثر گوشت کے اندر تک تھا۔ فرمایا تم نے اسے دیکھا اسی طرح کا نشان اسی جگہ میرے پدر بزرگوار کے بھی تھا۔

حدیث نمبر 9

عَنْهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِي يَحْيَى الصَّنْعَانِيِّ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا علیہ السلام فَجِي‏ءَ بِابْنِهِ ابي جعفر علیہ السلام وَهُوَ صَغِيرٌ فَقَالَ هَذَا الْمَوْلُودُ الَّذِي لَمْ يُولَدْ مَوْلُودٌ أَعْظَمُ بَرَكَةً عَلَى شِيعَتِنَا مِنْهُ۔

راوی کہتا ہے میں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ کے فرزند ابو جعفر (امام محمد تقی علیہ السلام) درآنحالیکہ وہ کم سن تھے آئے۔ آپ نے فرمایا یہ وہ بچہ ہے جس سے زیادہ برکت والا ہمارے شیعوں کے لیے اور کوئی نہیں۔

حدیث نمبر 10

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى قَالَ قُلْتُ لِلرِّضَا علیہ السلام قَدْ كُنَّا نَسْأَلُكَ قَبْلَ أَنْ يَهَبَ الله لَكَ أَبَا جَعْفَرٍ علیہ السلام فَكُنْتَ تَقُولُ يَهَبُ الله لِي غُلاماً فَقَدْ وَهَبَهُ الله لَكَ فَأَقَرَّ عُيُونَنَا فَلا أَرَانَا الله يَوْمَكَ فَإِنْ كَانَ كَوْنٌ فَإِلَى مَنْ فَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى ابي جعفر علیہ السلام وَهُوَ قَائِمٌ بَيْنَ يَدَيْهِ فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ هَذَا ابْنُ ثَلاثِ سِنِينَ فَقَالَ وَمَا يَضُرُّهُ مِنْ ذَلِكَ فَقَدْ قَامَ عِيسَى علیہ السلام بِالْحُجَّةِ وَهُوَ ابْنُ ثَلاثِ سِنِينَ۔

راوی کہتا ہے میں نے امام رضا علیہ السلام سے کہا کہ قبل اس کے کہ ابو جعفر پیدا ہوں تو ہم نے آپ سے آپ کے بعد والے امام کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ خدا مجھے لڑکا عطا کرے گا۔ چنانچہ اس نے عطا کیا جس سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں۔ پس خدا ہمیں آپ کی موت کا دن نہ دکھائے اگر ایسا ہو تو آپ کے بعد کون امام ہو گا۔ آپ نے ابو جعفر کی طرف اشارہ کیا میں نے کہا یہ تو تین ہی برس کے ہیں۔ فرمایا کیا مضائقہ ہے عیسیٰ علیہ السلام تین ہی سال کے حجت خدا تھے۔

حدیث نمبر 11

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُمْهُورٍ عَنْ مُعَمَّرِ بْنِ خَلادٍ قَالَ سَمِعْتُ إِسْمَاعِيلَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ يَقُولُ لِلرِّضَا علیہ السلام إِنَّ ابْنِي فِي لِسَانِهِ ثِقْلٌ فَأَنَا أَبْعَثُ بِهِ إِلَيْكَ غَداً تَمْسَحُ عَلَى رَأْسِهِ وَتَدْعُو لَهُ فَإِنَّهُ مَوْلاكَ فَقَالَ هُوَ مَوْلَى أَبِي جَعْفَرٍ فَابْعَثْ بِهِ غَداً إِلَيْهِ۔

راوی کہتا ہے میں نے سنا ابراہیم بن اسماعیل نے امام رضا علیہ السلام سے کہا میرے بیٹے کی زبان میں لکنت ہے کل میں اسے آپ کے پاس بھیجوں گا آپ اس کے سر پر ہاتھ پھیر دیں اور دعا کریں وہ آپ کا غلام ہے۔ فرمایا وہ ابو جعفر کا غلام ہے کل انہی کے پاس بھیجنا۔

حدیث نمبر 12

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ النَّهْدِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَلادٍ الصَّيْقَلِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَمَّارٍ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ عَلِيِّ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ جَالِساً بِالْمَدِينَةِ وَكُنْتُ أَقَمْتُ عِنْدَهُ سَنَتَيْنِ أَكْتُبُ عَنْهُ مَا يَسْمَعُ مِنْ أَخِيهِ يَعْنِي أَبَا الْحَسَنِ علیہ السلام إِذْ دَخَلَ عَلَيْهِ أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الرِّضَا علیہ السلام الْمَسْجِدَ مَسْجِدَ الرَّسُولِ ﷺ فَوَثَبَ عَلِيُّ بْنُ جَعْفَرٍ بِلا حِذَاءٍ وَلا رِدَاءٍ فَقَبَّلَ يَدَهُ وَعَظَّمَهُ فَقَالَ لَهُ أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام يَا عَمِّ اجْلِسْ رَحِمَكَ الله فَقَالَ يَا سَيِّدِي كَيْفَ أَجْلِسُ وَأَنْتَ قَائِمٌ فَلَمَّا رَجَعَ عَلِيُّ بْنُ جَعْفَرٍ إِلَى مَجْلِسِهِ جَعَلَ أَصْحَابُهُ يُوَبِّخُونَهُ وَيَقُولُونَ أَنْتَ عَمُّ أَبِيهِ وَأَنْتَ تَفْعَلُ بِهِ هَذَا الْفِعْلَ فَقَالَ اسْكُتُوا إِذَا كَانَ الله عَزَّ وَجَلَّ وَقَبَضَ عَلَى لِحْيَتِهِ لَمْ يُؤَهِّلْ هَذِهِ الشَّيْبَةَ وَأَهَّلَ هَذَا الْفَتَى وَوَضَعَهُ حَيْثُ وَضَعَهُ أُنْكِرُ فَضْلَهُ نَعُوذُ بِالله مِمَّا تَقُولُونَ بَلْ أَنَا لَهُ عَبْدٌ۔

راوی کہتا ہے میں علی بن جعفر بن محمد کے پاس مدینہ میں بیٹھا تھا اور میں ان کے پاس دو سال سے قیام کیے ہوئے تھا جو کچھ وہ اپنے بھائی امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے سنا ہوا بیان کرتے تھے اس کو لکھتا جاتا تھا۔ ناگاہ امام محمد تقی علیہ السلام تشریف لائے مسجد رسول میں۔ پس آئے علی بن جعفر بغیر جوتوں اور ردا کے ان کے ہاتھ کو بوسہ دیا اور تعظیم کی۔ امام محمد تقی علیہ السلام نے فرمایا اے چچا بیٹھیے اللہ آپ پر رحم کرے۔ فرمایا اے میرے سردار میں کیسے بیٹھوں درآنحالیکہ آپ کھڑے ہیں جب علی بن جعفر اپنے مقام پر آئے تو ان کے یاروں نے یہ کہہ کر جھڑکا کہ وہ آپ کے باپ کے چچا ہیں آپ ان کے ساتھ ایسا بزرگوں کا سا برتاؤ کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا چپ ہو جاؤ جبکہ اللہ عزوجل اتنا کہہ کر اپنی داڑھی کو پکڑا میری یہ سفید داڑھی قابلِ عظمت ہو اور یہ جوان نہ ہوا۔ میں اس کو قابل عظمت جانتا ہوں خدا نے انھیں جس مقام پر رکھا ہے میں ان کی فضیلت کا کیسے انکار کروں جو کچھ تم کہتے ہو میں اس سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں میں تو ان کا غلام ہوں۔

حدیث نمبر 13

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ الْخَيْرَانِيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كُنْتُ وَاقِفاً بَيْنَ يَدَيْ أَبِي الْحَسَنِ علیہ السلام بِخُرَاسَانَ فَقَالَ لَهُ قَائِلٌ يَا سَيِّدِي إِنْ كَانَ كَوْنٌ فَإِلَى مَنْ قَالَ إِلَى أَبِي جَعْفَرٍ ابْنِي فَكَأَنَّ الْقَائِلَ اسْتَصْغَرَ سِنَّ ابي جعفر علیہ السلام فَقَالَ أَبُو الْحَسَنِ علیہ السلام إِنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى بَعَثَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولاً نَبِيّاً صَاحِبَ شَرِيعَةٍ مُبْتَدَأَةٍ فِي أَصْغَرَ مِنَ السِّنِّ الَّذِي فِيهِ أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام ۔

راوی کہتا ہے میں نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ میں خراسان میں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص نے آ کر کہا اگر آپ کی موت کا حادثہ ہو جائے تو آپ کے بعد امام کون ہو گا۔ حضرت نے فرمایا میرا بیٹا ابو جعفر، یہ کہنے والا شخص امام محمد تقی علیہ السلام کو کم سن ہونے کی وجہ سے ذلیل جانتا تھا۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے بھیجا عیسیٰ بن مریم کو رسول نبی اور صاحب شریعت بنا کر ایسے سن میں جو کم تھا سن ابو جعفر علیہ السلام سے۔

حدیث نمبر 14

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَعَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقَاسَانِيِّ جَمِيعاً عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ يَحْيَى بْنِ النُّعْمَانِ الصَّيْرَفِيِّ قَالَ سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ جَعْفَرٍ يُحَدِّثُ الْحَسَنَ بْنَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ فَقَالَ وَالله لَقَدْ نَصَرَ الله أَبَا الْحَسَنِ الرِّضَا علیہ السلام فَقَالَ لَهُ الْحَسَنُ إِي وَالله جُعِلْتُ فِدَاكَ لَقَدْ بَغَى عَلَيْهِ إِخْوَتُهُ فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ جَعْفَرٍ إِي وَالله وَنَحْنُ عُمُومَتُهُ بَغَيْنَا عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُ الْحَسَنُ جُعِلْتُ فِدَاكَ كَيْفَ صَنَعْتُمْ فَإِنِّي لَمْ أَحْضُرْكُمْ قَالَ قَالَ لَهُ إِخْوَتُهُ وَنَحْنُ أَيْضاً مَا كَانَ فِينَا إِمَامٌ قَطُّ حَائِلَ اللَّوْنِ فَقَالَ لَهُمُ الرِّضَا علیہ السلام هُوَ ابْنِي قَالُوا فَإِنَّ رَسُولَ الله ﷺ قَدْ قَضَى بِالْقَافَةِ فَبَيْنَنَا وَبَيْنَكَ الْقَافَةُ قَالَ ابْعَثُوا أَنْتُمْ إِلَيْهِمْ فَأَمَّا أَنَا فَلا وَلا تُعْلِمُوهُمْ لِمَا دَعَوْتُمُوهُمْ وَلْتَكُونُوا فِي بُيُوتِكُمْ فَلَمَّا جَاءُوا أَقْعَدُونَا فِي الْبُسْتَانِ وَاصْطَفَّ عُمُومَتُهُ وَإِخْوَتُهُ وَأَخَوَاتُهُ وَأَخَذُوا الرِّضَا علیہ السلام وَأَلْبَسُوهُ جُبَّةَ صُوفٍ وَقَلَنْسُوَةً مِنْهَا وَوَضَعُوا عَلَى عُنُقِهِ مِسْحَاةً وَقَالُوا لَهُ ادْخُلِ الْبُسْتَانَ كَأَنَّكَ تَعْمَلُ فِيهِ ثُمَّ جَاءُوا بِابي جعفر علیہ السلام فَقَالُوا أَلْحِقُوا هَذَا الْغُلامَ بِأَبِيهِ فَقَالُوا لَيْسَ لَهُ هَاهُنَا أَبٌ وَلَكِنَّ هَذَا عَمُّ أَبِيهِ وَهَذَا عَمُّ أَبِيهِ وَهَذَا عَمُّهُ وَهَذِهِ عَمَّتُهُ وَإِنْ يَكُنْ لَهُ هَاهُنَا أَبٌ فَهُوَ صَاحِبُ الْبُسْتَانِ فَإِنَّ قَدَمَيْهِ وَقَدَمَيْهِ وَاحِدَةٌ فَلَمَّا رَجَعَ أَبُو الْحَسَنِ علیہ السلام قَالُوا هَذَا أَبُوهُ قَالَ عَلِيُّ بْنُ جَعْفَرٍ فَقُمْتُ فَمَصَصْتُ رِيقَ ابي جعفر علیہ السلام ثُمَّ قُلْتُ لَهُ أَشْهَدُ أَنَّكَ إِمَامِي عِنْدَ الله فَبَكَى الرِّضَا علیہ السلام ثُمَّ قَالَ يَا عَمِّ أَ لَمْ تَسْمَعْ أَبِي وَهُوَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ الله ﷺ بِأَبِي ابْنُ خِيَرَةِ الامَاءِ ابْنُ النُّوبِيَّةِ الطَّيِّبَةِ الْفَمِ الْمُنْتَجَبَةِ الرَّحِمِ وَيْلَهُمْ لَعَنَ الله الاعَيْبِسَ وَذُرِّيَّتَهُ صَاحِبَ الْفِتْنَةِ وَيَقْتُلُهُمْ سِنِينَ وَشُهُوراً وَأَيَّاماً يَسُومُهُمْ خَسْفاً وَيَسْقِيهِمْ كَأْساً مُصْبِرَةً وَهُوَ الطَّرِيدُ الشَّرِيدُ الْمَوْتُورُ بِأَبِيهِ وَجَدِّهِ صَاحِبُ الْغَيْبَةِ يُقَالُ مَاتَ أَوْ هَلَكَ أَيَّ وَادٍ سَلَكَ أَ فَيَكُونُ هَذَا يَا عَمِّ إِلا مِنِّي فَقُلْتُ صَدَقْتَ جُعِلْتُ فِدَاكَ۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے علی بن جعفر سے سنا کہ اس نے روایت کی ہے حسن بن الحسین بن علی بن الحسین سے کہا کہ اس نے بیان کیا کہ خدا نے مدد کی امام رضا علیہ السلام کی۔ انھوں نے کہا خدا کی قسم ہم سے ان کے چچا ہیں۔ ہم نے بھی ان پر زیادتی کی حسن نے کہا میں آپ پر فدا ہوں یہ کیسے آپ لوگوں نے کیا کیا۔ میں تو موجود نہ تھا ۔ انھوں نے کہا امام رضا علیہ السلام کے بھائیوں نے اور ہم نے بھی کہا کہ ہم میں سے کوئی امام سیاہ رنگ والا نہیں ہوا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا وہ (امام تقی علیہ السلام) میرا بیٹا ہے انھوں نے کہا زید بن حارثہ کے بارے میں رسول اللہ نے قیافہ شناسوں کے ذریعے فیصلہ کیا تھا پس ہمارے اور تمہارے درمیان بھی قیافہ سے فیصلہ ہو جائے۔ حضرت نے فرمایا تم ان کو بلا لو مجھے تو ان کے بلانے کی ضرورت نہیں اور وہ تمھارے ہی گھروں میں آئیں جب وہ آئے تو انھوں نے ہم کو باغ میں بٹھایا اور امام رضا علیہ السلام کے چچا بھائی اور بہنیں سب وہاں جمع ہوئے اور انھوں نے امام رضا علیہ السلام کو ادنی جبہ پہنایا اور اسی کی ٹوپی سر پر رکھی اور گردن پر بیلچہ رکھا (کاشتکاروں اور دہقانوں کے سے لباس میں آپ کو نمایاں کیا)
اور کہا باغ میں اس طرح داخل ہوں گویا آپ اس کے مالی ہیں اور قیافہ شناسوں سے کہا بناؤ اس لڑکے کا باپ کون ہے انھوں نے کہا ان میں سے اس کا کوئی باپ نہیں ہے بلکہ یہ اس کے باپ کا چچا ہے اور یہ اس کا چچا ہے اور یہ اس کا چچا ہے اور یہ اس کی پھوپھی ہے البتہ اس کا باپ یہ صاحب بستان ہے ان دونوں کے قدیم ایک سے ہیں۔ پس امام رضا علیہ السلام چلنے لگے تو انھوں نے کہا کہ یہ اس کے باپ ہیں۔ علی بن جعفر نے کہا میں اٹھا اور میں نے امام محمد تقی علیہ السلام کے لعاب دہن کو چوسا اور کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خدا کی طرف سے میرے امام ہیں۔
امام رضا علیہ السلام نے گریہ فرمایا اور کہا اے چچا کیا تم نے میرے باپ کو کہتے نہیں سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے بہترین کنیز کا فرزند آئیگا وہ اس زن حبشیہ کا فرزند ہو گا جس کے منہ سے خوشبو آتی ہو گی اور طیب الرحم ہو گی اور الہام کیا جائیگا اس پر خدا کی لعن ہو ان عباسیوں پر اور ان کی ذریت پر وہ (امام عصر) کو قتل کریں گے ان کو برسوں مہینوں اور دنوں اور ان کو ذلت کی طرف کھینچیں گے اور وہ دور رہیں گے اپنے اب وجد سے وہ صاحب غنیمت ہوں گے اور اے چچا یہ سب میری نسل سے ہو گا۔ میں نے کہا میں آپ پر فدا ہوں یہ آپ نے سچ کہا۔