مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ نُعَيْمٍ الصَّحَّافِ قَالَ كُنْتُ أَنَا وَهِشَامُ بْنُ الْحَكَمِ وَعَلِيُّ بْنُ يَقْطِينٍ بِبَغْدَادَ فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ يَقْطِينٍ كُنْتُ عِنْدَ الْعَبْدِ الصَّالِحِ جَالِساً فَدَخَلَ عَلَيْهِ ابْنُهُ عَلِيٌّ فَقَالَ لِي يَا عَلِيَّ بْنَ يَقْطِينٍ هَذَا عَلِيٌّ سَيِّدُ وُلْدِي أَمَا إِنِّي قَدْ نَحَلْتُهُ كُنْيَتِي فَضَرَبَ هِشَامُ بْنُ الْحَكَمِ بِرَاحَتِهِ جَبْهَتَهُ ثُمَّ قَالَ وَيْحَكَ كَيْفَ قُلْتَ فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ يَقْطِينٍ سَمِعْتُ وَالله مِنْهُ كَمَا قُلْتُ فَقَالَ هِشَامٌ أَخْبَرَكَ أَنَّ الامْرَ فِيهِ مِنْ بَعْدِهِ. أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ نُعَيْمٍ الصَّحَّافِ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ الْعَبْدِ الصَّالِحِ وَفِي نُسْخَةِ الصَّفْوَانِيِّ قَالَ كُنْتُ أَنَا ثُمَّ ذَكَرَ مِثْلَه۔
صحاف سے مروی ہے کہ ہشام بن الحکم اور علی بن یقطین بغداد میں تھے۔ علی بن یقطین نے بیان کیا کہ میں ایک روز امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے پاس بیٹھا تھا کہ آپ کے فرزند علی آ گئے۔ مجھ سے کہا اے علی بن یقطین یہ علی میری اولاد کا سردار ہے میں نے اپنی کنیت اسے دی۔ ہشام نے یہ سن کر اس کی پیشانی پر ہاتھ مارا اور کہا تم یہ کیسے کہتے ہو۔ علی بن یقطین نے کہا واللہ میں نے ایسے ہی سنا ہے ہشام نے کہا میں تم کو خبر دیتا ہوں کہ امام موسیٰ کاظم کے بعد وہی امام ہوںگے۔ اور راویوں نے بھی صحاف سے یہی روایت کی ہے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ حُكَيْمٍ عَنْ نُعَيْمٍ الْقَابُوسِيِّ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ علیہ السلام أَنَّهُ قَالَ إِنَّ ابْنِي عَلِيّاً أَكْبَرُ وُلْدِي وَأَبَرُّهُمْ عِنْدِي وَأَحَبُّهُمْ إِلَيَّ وَهُوَ يَنْظُرُ مَعِي فِي الْجَفْرِ وَلَمْ يَنْظُرْ فِيهِ إِلا نَبِيٌّ أَوْ وَصِيُّ نَبِيٍّ۔
فرمایا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے میرا فرزند علی اکبر اولاد ہے اور ان میں سب سے زیادہ نیک ہے اور میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ میرے ساتھ جفر میں نظر کرتا ہے اور نہیں نظر کرتا اس میں مگر نبی یا وصیِ نبی۔
أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ وَإِسْمَاعِيلَ بْنِ عَبَّادٍ الْقَصْرِيِّ جَمِيعاً عَنْ دَاوُدَ الرَّقِّيِّ قَالَ قُلْتُ لابِي إِبْرَاهِيمَ علیہ السلام جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنِّي قَدْ كَبِرَ سِنِّي فَخُذْ بِيَدِي مِنَ النَّارِ قَالَ فَأَشَارَ إِلَى ابْنِهِ أَبِي الْحَسَنِ علیہ السلام فَقَالَ هَذَا صَاحِبُكُمْ مِنْ بَعْدِي۔
راوی کہتا ہے میں نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے کہا میں بوڑھا ہو گیا ہوں۔ مجھے نار جہنم سے بچائیے۔ حضرت نے امام رضا علیہ السلام کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہ ہے تمہارا امام میرے بعد۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله عَنِ الْحَسَنِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ قَالَ قُلْتُ لابِي الْحَسَنِ الاوَّلِ علیہ السلام أَ لا تَدُلُّنِي إِلَى مَنْ آخُذُ عَنْهُ دِينِي فَقَالَ هَذَا ابْنِي عَلِيٌّ إِنَّ أَبِي أَخَذَ بِيَدِي فَأَدْخَلَنِي إِلَى قَبْرِ رَسُولِ الله ﷺ فَقَالَ يَا بُنَيَّ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ قَالَ إِنِّي جاعِلٌ فِي الارْضِ خَلِيفَةً وَإِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ إِذَا قَالَ قَوْلاً وَفَى بِهِ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے کہا آپ مجھے بتائیے کہ آپ کے بعد معاملات دینی کا تعلق ہم کس سے رکھیں۔ فرمایا یہ میرا بیٹا علی ہے میرے والد نے میرا ہاتھ پکڑا اور قبر رسول پر لے جا کر فرمایا بیٹا خدا نے فرمایا ہے کہ میں روئے زمین پر خلیفہ بنانے والا ہوں پس خدا اپنے وعدے کو وفا کرنے والا ہے ۔
أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحُسَيْنِ اللُّؤْلُؤِيِّ عَنْ يَحْيَى بْنِ عَمْرٍو عَنْ دَاوُدَ الرَّقِّيِّ قَالَ قُلْتُ لابِي الْحَسَنِ مُوسَى علیہ السلام إِنِّي قَدْ كَبِرَتْ سِنِّي وَدَقَّ عَظْمِي وَإِنِّي سَأَلْتُ أَبَاكَ علیہ السلام فَأَخْبَرَنِي بِكَ فَأَخْبِرْنِي مَنْ بَعْدَكَ فَقَالَ هَذَا أَبُو الْحَسَنِ الرِّضَا۔
میں نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے کہا میرا اب بڑھاپا ہے اور میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں میں نے آپ کے پدر بزرگوار سے بھی سوال کیا تھا پس اب آپ بتائیے کہ آپ کے بعد کون امام ہو گا۔ فرمایا ابوالحسن رضا۔
أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ زِيَادِ بْنِ مَرْوَانَ الْقَنْدِيِّ وَكَانَ مِنَ الْوَاقِفَةِ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى أَبِي إِبْرَاهِيمَ وَعِنْدَهُ ابْنُهُ أَبُو الْحَسَنِ علیہ السلام فَقَالَ لِي يَا زِيَادُ هَذَا ابْنِي فُلانٌ كِتَابُهُ كِتَابِي وَكَلامُهُ كَلامِي وَرَسُولُهُ رَسُولِي وَمَا قَالَ فَالْقَوْلُ قَوْلُهُ۔
راوی کہتا ہے میں امام موسی کاظم علیہ السلام کی خدمت میں آیا ان کے پاس ان کے فرزند امام رضا علیہ السلام تھے۔ مجھ سے فرمایا اے زید یہ میرا فلاں بیٹا ہے اس کی تحریر میری تحریر ہے اور اس کا کلام میرا کلام ہے اس کا قاصد میرا قاصد ہے جو یہ کہے سچ ہے۔
أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْفُضَيْلِ قَالَ حَدَّثَنِي الْمَخْزُومِيُّ وَكَانَتْ أُمُّهُ مِنْ وُلْدِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ علیہ السلام قَالَ بَعَثَ إِلَيْنَا أَبُو الْحَسَنِ مُوسَى علیہ السلام فَجَمَعَنَا ثُمَّ قَالَ لَنَا أَ تَدْرُونَ لِمَ دَعَوْتُكُمْ فَقُلْنَا لا فَقَالَ اشْهَدُوا أَنَّ ابْنِي هَذَا وَصِيِّي وَالْقَيِّمُ بِأَمْرِي وَخَلِيفَتِي مِنْ بَعْدِي مَنْ كَانَ لَهُ عِنْدِي دَيْنٌ فَلْيَأْخُذْهُ مِنِ ابْنِي هَذَا وَمَنْ كَانَتْ لَهُ عِنْدِي عِدَةٌ فَلْيُنْجِزْهَا مِنْهُ وَمَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ بُدٌّ مِنْ لِقَائِي فَلا يَلْقَنِي إِلا بِكِتَابِهِ۔
مخزومی نے جس کی ماں نسل جعفر بن ابی طالب سے تھی بیان کیا کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے ہمیں بلا کر فرمایا تم جانتے ہو میں نے کیوں بلایا ہے۔ ہم نے کہا نہیں۔ فرمایا اس لیے کہ گواہ بنو اس بات کے کہ میرا بیٹا میرا وصی ہے اور میرے امر امامت کا قائم کرنے والا ہے اور میرا خلیفہ ہے میرے بعد۔ پس جس کا میرے اوپر قرضہ ہو وہ میرے اس بیٹے سے لے لے اور جس سے میں نے وعدہ کیا ہو وہ اس سے پورا کرائے اور جس کو (قید خانہ میں) مجھ سے ملنا ضروری ہو وہ اس کی تحریر کے ساتھ مجھ سے ملے۔
أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ وَعَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ جَمِيعاً عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ الْمُخْتَارِ قَالَ خَرَجَتْ إِلَيْنَا أَلْوَاحٌ مِنْ أَبِي الْحَسَنِ علیہ السلام وَهُوَ فِي الْحَبْسِ عَهْدِي إِلَى أَكْبَرِ وُلْدِي أَنْ يَفْعَلَ كَذَا وَأَنْ يَفْعَلَ كَذَا وَفُلانٌ لا تُنِلْهُ شَيْئاً حَتَّى أَلْقَاكَ أَوْ يَقْضِيَ الله عَلَيَّ الْمَوْتَ۔
حسین مختار سے مروی ہے کہ ہمیں کچھ تحریریں ملیں۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی اس میں تحریر تھا کہ میرا عہد ہے میری اولاد میں سب سے بڑے سے کہ وہ ایسا ایسا کرے اور فلاں کو کچھ نہ دے یہاں تک کہ تم مجھ سے ملاقات کرو یا مجھے موت آ جائے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ الْمُغِيرَةِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ الْمُخْتَارِ قَالَ خَرَجَ إِلَيْنَا مِنْ أَبِي الْحَسَنِ علیہ السلام بِالْبَصْرَةِ أَلْوَاحٌ مَكْتُوبٌ فِيهَا بِالْعَرْضِ عَهْدِي إِلَى أَكْبَرِ وُلْدِي يُعْطَى فُلانٌ كَذَا وَفُلانٌ كَذَا وَفُلانٌ كَذَا وَفُلانٌ لا يُعْطَى حَتَّى أَجِيءَ أَوْ يَقْضِيَ الله عَزَّ وَجَلَّ عَلَيَّ الْمَوْتَ إِنَّ الله يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ۔
حسین بن مختار سے مروی ہے کہ بصرہ میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی کچھ تحریر کردہ الواح ملیں جن میں تحریر تھا کہ یہ میرا معاہدہ ہے ولد اکبر سے کہ وہ فلاں کو یہ دے اور فلاں کو یہ، اور فلاں کو کچھ نہ دے۔ یہاں تک کہ قید سے چھوٹ کر آ جاؤں یا مجھے موت آ جائے ۔ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنِ ابْنِ مُحْرِزٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَقْطِينٍ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ علیہ السلام قَالَ كَتَبَ إِلَيَّ مِنَ الْحَبْسِ أَنَّ فُلاناً ابْنِي سَيِّدُ وُلْدِي وَقَدْ نَحَلْتُهُ كُنْيَتِي۔
علی بن یقطین سے مروی ہے کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے قید خانہ سے لکھا کہ فلاں میرا بیٹا میری اولاد کا سردار ہے میں نے اپنی کنیت اسے دی۔
أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِي عَلِيٍّ الْخَزَّازِ عَنْ دَاوُدَ بْنِ سُلَيْمَانَ قَالَ قُلْتُ لابِي إِبْرَاهِيمَ علیہ السلام إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَحْدُثَ حَدَثٌ وَلا أَلْقَاكَ فَأَخْبِرْنِي مَنِ الامَامُ بَعْدَكَ فَقَالَ ابْنِي فُلانٌ يَعْنِي أَبَا الْحَسَنِ ۔
داؤد بن سلیمان راوی ہیں کہ میں نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے کہا میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ اگر کوئی حادثہ پیش آ جائے اور میں آپ کی خدمت میں حاضر نہ ہو سکوں لہذا یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ آپ کے بعد امام کون ہو گا۔ فرمایا میرا بیٹا فلاں یعنی ابوالحسن (امام رضا علیہ السلام)۔
أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْجَهْمِ عَنِ النَّصْرِ بْنِ قَابُوسَ قَالَ قُلْتُ لابِي إِبْرَاهِيمَ علیہ السلام إِنِّي سَأَلْتُ أَبَاكَ علیہ السلام مَنِ الَّذِي يَكُونُ مِنْ بَعْدِكَ فَأَخْبَرَنِي أَنَّكَ أَنْتَ هُوَ فَلَمَّا تُوُفِّيَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام ذَهَبَ النَّاسُ يَمِيناً وَشِمَالاً وَقُلْتُ فِيكَ أَنَا وَأَصْحَابِي فَأَخْبِرْنِي مَنِ الَّذِي يَكُونُ مِنْ بَعْدِكَ مِنْ وُلْدِكَ فَقَالَ ابْنِي فُلانٌ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے کہا کہ میں نے آ پکے والد سے سوال کیا تھا کہ آپ کے بعد کون امام ہو گا تو انھوں نے آپ کا بتایا۔ چنانچہ جب امام جعفر صادق کا انتقال ہوا تو لوگ ہر طرف سے جمع ہوئے ۔ میں نے آپ کے متعلق بیان کیا اور میرے اصحاب نے بھی گواہی دی۔ پس اب آپ بتائیے کہ آپ کے بعد آپ کی اولاد میں کون امام ہو گا۔ فرمایا میرا فلاں بیٹا۔
أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنِ الضَّحَّاكِ بْنِ الاشْعَثِ عَنْ دَاوُدَ بْنِ زُرْبِيٍّ قَالَ جِئْتُ إِلَى أَبِي إِبْرَاهِيمَ علیہ السلام بِمَالٍ فَأَخَذَ بَعْضَهُ وَتَرَكَ بَعْضَهُ فَقُلْتُ أَصْلَحَكَ الله لايِّ شَيْءٍ تَرَكْتَهُ عِنْدِي قَالَ إِنَّ صَاحِبَ هَذَا الامْرِ يَطْلُبُهُ مِنْكَ فَلَمَّا جَاءَنَا نَعْيُهُ بَعَثَ إِلَيَّ أَبُو الْحَسَنِ علیہ السلام ابْنُهُ فَسَأَلَنِي ذَلِكَ الْمَالَ فَدَفَعْتُهُ إِلَيْهِ۔
راوی کہتا ہے میں کچھ مال لے کر امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے پاس آیا۔ حضرت نے اس میں کچھ لے لیا اور کچھ چھوڑ دیا۔ میں نے کہا آپ نے میرے پاس کیوں چھوڑا۔ فرمایا میرے بعد والا امام تجھ سے مانگ لے گا۔ جب ہمارے پاس حضرت کے مرنے کی خبر پہنچی تو امام رضا علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو میرے پاس بھیجا اور انھوں نے وہ مال مجھ سے مانگا میں نے دیدیا۔
أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِي الْحَكَمِ الارْمَنِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الله بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الله بْنِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ سَلِيطٍ الزَّيْدِيِّ قَالَ أَبُو الْحَكَمِ وَأَخْبَرَنِي عَبْدُ الله بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَارَةَ الْجَرْمِيُّ عَنْ يَزِيدَ بْنِ سَلِيطٍ قَالَ لَقِيتُ أَبَا إِبْرَاهِيمَ علیہ السلام وَنَحْنُ نُرِيدُ الْعُمْرَةَ فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ هَلْ تُثْبِتُ هَذَا الْمَوْضِعَ الَّذِي نَحْنُ فِيهِ قَالَ نَعَمْ فَهَلْ تُثْبِتُهُ أَنْتَ قُلْتُ نَعَمْ إِنِّي أَنَا وَأَبِي لَقِينَاكَ هَاهُنَا وَأَنْتَ مَعَ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام وَمَعَهُ إِخْوَتُكَ فَقَالَ لَهُ أَبِي بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي أَنْتُمْ كُلُّكُمْ أَئِمَّةٌ مُطَهَّرُونَ وَالْمَوْتُ لا يَعْرَى مِنْهُ أَحَدٌ فَأَحْدِثْ إِلَيَّ شَيْئاً أُحَدِّثْ بِهِ مَنْ يَخْلُفُنِي مِنْ بَعْدِي فَلا يَضِلَّ قَالَ نَعَمْ يَا أَبَا عَبْدِ الله هَؤُلاءِ وُلْدِي وَهَذَا سَيِّدُهُمْ وَأَشَارَ إِلَيْكَ وَقَدْ عُلِّمَ الْحُكْمَ وَالْفَهْمَ وَالسَّخَاءَ وَالْمَعْرِفَةَ بِمَا يَحْتَاجُ إِلَيْهِ النَّاسُ وَمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنْ أَمْرِ دِينِهِمْ وَدُنْيَاهُمْ وَفِيهِ حُسْنُ الْخُلُقِ وَحُسْنُ الْجَوَابِ وَهُوَ بَابٌ مِنْ أَبْوَابِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَفِيهِ أُخْرَى خَيْرٌ مِنْ هَذَا كُلِّهِ فَقَالَ لَهُ أَبِي وَمَا هِيَ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي قَالَ علیہ السلام يُخْرِجُ الله عَزَّ وَجَلَّ مِنْهُ غَوْثَ هَذِهِ الامَّةِ وَغِيَاثَهَا وَعَلَمَهَا وَنُورَهَا وَفَضْلَهَا وَحِكْمَتَهَا خَيْرُ مَوْلُودٍ وَخَيْرُ نَاشِئٍ يَحْقُنُ الله عَزَّ وَجَلَّ بِهِ الدِّمَاءَ وَيُصْلِحُ بِهِ ذَاتَ الْبَيْنِ وَيَلُمُّ بِهِ الشَّعْثَ وَيَشْعَبُ بِهِ الصَّدْعَ وَيَكْسُو بِهِ الْعَارِيَ وَيُشْبِعُ بِهِ الْجَائِعَ وَيُؤْمِنُ بِهِ الْخَائِفَ وَيُنْزِلُ الله بِهِ الْقَطْرَ وَيَرْحَمُ بِهِ الْعِبَادَ خَيْرُ كَهْلٍ وَخَيْرُ نَاشِئٍ قَوْلُهُ حُكْمٌ وَصَمْتُهُ عِلْمٌ يُبَيِّنُ لِلنَّاسِ مَا يَخْتَلِفُونَ فِيهِ وَيَسُودُ عَشِيرَتَهُ مِنْ قَبْلِ أَوَانِ حُلُمِهِ فَقَالَ لَهُ أَبِي بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي وَهَلْ وُلِدَ قَالَ نَعَمْ وَمَرَّتْ بِهِ سِنُونَ قَالَ يَزِيدُ فَجَاءَنَا مَنْ لَمْ نَسْتَطِعْ مَعَهُ كَلاماً قَالَ يَزِيدُ فَقُلْتُ لابِي إِبْرَاهِيمَ علیہ السلام فَأَخْبِرْنِي أَنْتَ بِمِثْلِ مَا أَخْبَرَنِي بِهِ أَبُوكَ علیہ السلام فَقَالَ لِي نَعَمْ إِنَّ أَبِي علیہ السلام كَانَ فِي زَمَانٍ لَيْسَ هَذَا زَمَانَهُ فَقُلْتُ لَهُ فَمَنْ يَرْضَى مِنْكَ بِهَذَا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ الله قَالَ فَضَحِكَ أَبُو إِبْرَاهِيمَ ضَحِكاً شَدِيداً ثُمَّ قَالَ أُخْبِرُكَ يَا أَبَا عُمَارَةَ إِنِّي خَرَجْتُ مِنْ مَنْزِلِي فَأَوْصَيْتُ إِلَى ابْنِي فُلانٍ وَأَشْرَكْتُ مَعَهُ بَنِيَّ فِي الظَّاهِرِ وَأَوْصَيْتُهُ فِي الْبَاطِنِ فَأَفْرَدْتُهُ وَحْدَهُ وَلَوْ كَانَ الامْرُ إِلَيَّ لَجَعَلْتُهُ فِي الْقَاسِمِ ابْنِي لِحُبِّي إِيَّاهُ وَرَأْفَتِي عَلَيْهِ وَلَكِنْ ذَلِكَ إِلَى الله عَزَّ وَجَلَّ يَجْعَلُهُ حَيْثُ يَشَاءُ وَلَقَدْ جَاءَنِي بِخَبَرِهِ رَسُولُ الله ﷺ ثُمَّ أَرَانِيهِ وَأَرَانِي مَنْ يَكُونُ مَعَهُ وَكَذَلِكَ لا يُوصَى إِلَى أَحَدٍ مِنَّا حَتَّى يَأْتِيَ بِخَبَرِهِ رَسُولُ الله ﷺ وَجَدِّي عَلِيٌّ صَلَوَاتُ الله عَلَيْهِ وَرَأَيْتُ مَعَ رَسُولِ الله ﷺ خَاتَماً وَسَيْفاً وَعَصًا وَكِتَاباً وَعِمَامَةً فَقُلْتُ مَا هَذَا يَا رَسُولَ الله فَقَالَ لِي أَمَّا الْعِمَامَةُ فَسُلْطَانُ الله عَزَّ وَجَلَّ وَأَمَّا السَّيْفُ فَعِزُّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَأَمَّا الْكِتَابُ فَنُورُ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَأَمَّا الْعَصَا فَقُوَّةُ الله وَأَمَّا الْخَاتَمُ فَجَامِعُ هَذِهِ الامُورِ ثُمَّ قَالَ لِي وَالامْرُ قَدْ خَرَجَ مِنْكَ إِلَى غَيْرِكَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ الله أَرِنِيهِ أَيُّهُمْ هُوَ فَقَالَ رَسُولُ الله ﷺ مَا رَأَيْتُ مِنَ الائِمَّةِ أَحَداً أَجْزَعَ عَلَى فِرَاقِ هَذَا الامْرِ. مِنْكَ وَلَوْ كَانَتِ الامَامَةُ بِالْمَحَبَّةِ لَكَانَ إِسْمَاعِيلُ أَحَبَّ إِلَى أَبِيكَ مِنْكَ وَلَكِنْ ذَلِكَ مِنَ الله عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ قَالَ أَبُو إِبْرَاهِيمَ وَرَأَيْتُ وُلْدِي جَمِيعاً الاحْيَاءَ مِنْهُمْ وَالامْوَاتَ فَقَالَ لِي أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) هَذَا سَيِّدُهُمْ وَأَشَارَ إِلَى ابْنِي عَلِيٍّ فَهُوَ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ وَالله مَعَ الْمُحْسِنِينَ قَالَ يَزِيدُ ثُمَّ قَالَ أَبُو إِبْرَاهِيمَ (عَلَيْهِ السَّلام) يَا يَزِيدُ إِنَّهَا وَدِيعَةٌ عِنْدَكَ فَلا تُخْبِرْ بِهَا إِلا عَاقِلاً أَوْ عَبْداً تَعْرِفُهُ صَادِقاً وَإِنْ سُئِلْتَ عَنِ الشَّهَادَةِ فَاشْهَدْ بِهَا وَهُوَ قَوْلُ الله عَزَّ وَجَلَّ إِنَّ الله يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الاماناتِ إِلى أَهْلِها وَقَالَ لَنَا أَيْضاً وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ الله قَالَ فَقَالَ أَبُو إِبْرَاهِيمَ (عَلَيْهِ السَّلام) فَأَقْبَلْتُ عَلَى رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فَقُلْتُ قَدْ جَمَعْتَهُمْ لِي بِأَبِي وَأُمِّي فَأَيُّهُمْ هُوَ فَقَالَ هُوَ الَّذِي يَنْظُرُ بِنُورِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَيَسْمَعُ بِفَهْمِهِ وَيَنْطِقُ بِحِكْمَتِهِ يُصِيبُ فَلا يُخْطِئُ وَيَعْلَمُ فَلا يَجْهَلُ مُعَلَّماً حُكْماً وَعِلْماً هُوَ هَذَا وَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ ابْنِي ثُمَّ قَالَ مَا أَقَلَّ مُقَامَكَ مَعَهُ فَإِذَا رَجَعْتَ مِنْ سَفَرِكَ فَأَوْصِ وَأَصْلِحْ أَمْرَكَ وَافْرُغْ مِمَّا أَرَدْتَ فَإِنَّكَ مُنْتَقِلٌ عَنْهُمْ وَمُجَاوِرٌ غَيْرَهُمْ فَإِذَا أَرَدْتَ فَادْعُ عَلِيّاً فَلْيُغَسِّلْكَ وَلْيُكَفِّنْكَ فَإِنَّهُ طُهْرٌ لَكَ وَلا يَسْتَقِيمُ إِلا ذَلِكَ وَذَلِكَ سُنَّةٌ قَدْ مَضَتْ فَاضْطَجِعْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَصُفَّ إِخْوَتَهُ خَلْفَهُ وَعُمُومَتَهُ وَمُرْهُ فَلْيُكَبِّرْ عَلَيْكَ تِسْعاً فَإِنَّهُ قَدِ اسْتَقَامَتْ وَصِيَّتُهُ وَوَلِيَكَ وَأَنْتَ حَيٌّ ثُمَّ اجْمَعْ لَهُ وُلْدَكَ مِنْ بَعْدِهِمْ فَأَشْهِدْ عَلَيْهِمْ وَأَشْهِدِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَكَفَى بِالله شَهِيداً قَالَ يَزِيدُ ثُمَّ قَالَ لِي أَبُو إِبْرَاهِيمَ (عَلَيْهِ السَّلام) إِنِّي أُؤْخَذُ فِي هَذِهِ السَّنَةِ وَالامْرُ هُوَ إِلَى ابْنِي عَلِيٍّ سَمِيِّ عَلِيٍّ وَعَلِيٍّ فَأَمَّا عَلِيٌّ الاوَّلُ فَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَأَمَّا الاخِرُ فَعَلِيُّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) أُعْطِيَ فَهْمَ الاوَّلِ وَحِلْمَهُ وَنَصْرَهُ وَوُدَّهُ وَدِينَهُ وَمِحْنَتَهُ وَمِحْنَةَ الاخِرِ وَصَبْرَهُ عَلَى مَا يَكْرَهُ وَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَتَكَلَّمَ إِلا بَعْدَ مَوْتِ هَارُونَ بِأَرْبَعِ سِنِينَ ثُمَّ قَالَ لِي يَا يَزِيدُ وَإِذَا مَرَرْتَ بِهَذَا الْمَوْضِعِ وَلَقِيتَهُ وَسَتَلْقَاهُ فَبَشِّرْهُ أَنَّهُ سَيُولَدُ لَهُ غُلامٌ أَمِينٌ مَأْمُونٌ مُبَارَكٌ وَسَيُعْلِمُكَ أَنَّكَ قَدْ لَقِيتَنِي فَأَخْبِرْهُ عِنْدَ ذَلِكَ أَنَّ الْجَارِيَةَ الَّتِي يَكُونُ مِنْهَا هَذَا الْغُلامُ جَارِيَةٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِ مَارِيَةَ جَارِيَةِ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) أُمِّ إِبْرَاهِيمَ فَإِنْ قَدَرْتَ أَنْ تُبَلِّغَهَا مِنِّي السَّلامَ فَافْعَلْ قَالَ يَزِيدُ فَلَقِيتُ بَعْدَ مُضِيِّ أَبِي إِبْرَاهِيمَ (عَلَيْهِ السَّلام) عَلِيّاً (عَلَيْهِ السَّلام) فَبَدَأَنِي فَقَالَ لِي يَا يَزِيدُ مَا تَقُولُ فِي الْعُمْرَةِ فَقُلْتُ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي ذَلِكَ إِلَيْكَ وَمَا عِنْدِي نَفَقَةٌ فَقَالَ سُبْحَانَ الله مَا كُنَّا نُكَلِّفُكَ وَلا نَكْفِيكَ فَخَرَجْنَا حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى ذَلِكَ الْمَوْضِعِ فَابْتَدَأَنِي فَقَالَ يَا يَزِيدُ إِنَّ هَذَا الْمَوْضِعَ كَثِيراً مَا لَقِيتَ فِيهِ جِيرَتَكَ وَعُمُومَتَكَ قُلْتُ نَعَمْ ثُمَّ قَصَصْتُ عَلَيْهِ الْخَبَرَ فَقَالَ لِي أَمَّا الْجَارِيَةُ فَلَمْ تَجِئْ بَعْدُ فَإِذَا جَاءَتْ بَلَّغْتُهَا مِنْهُ السَّلامَ فَانْطَلَقْنَا إِلَى مَكَّةَ فَاشْتَرَاهَا فِي تِلْكَ السَّنَةِ فَلَمْ تَلْبَثْ إِلا قَلِيلاً حَتَّى حَمَلَتْ فَوَلَدَتْ ذَلِكَ الْغُلامَ قَالَ يَزِيدُ وَكَانَ إِخْوَةُ عَلِيٍّ يَرْجُونَ أَنْ يَرِثُوهُ فَعَادُونِي إِخْوَتُهُ مِنْ غَيْرِ ذَنْبٍ فَقَالَ لَهُمْ إِسْحَاقُ بْنُ جَعْفَرٍ وَالله لَقَدْ رَأَيْتُهُ وَإِنَّهُ لَيَقْعُدُ مِنْ أَبِي إِبْرَاهِيمَ بِالْمَجْلِسِ الَّذِي لا أَجْلِسُ فِيهِ أَنَا۔
راوی کہتا ہے کہ میں عمرہ کے لیے جا رہا تھا کہ راہ میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ میں نے کہا میں آپ پر فدا ہوں یہ مقام آپ کو یاد ہے کہ یہاں ایک وقت ہم ٹھہر چکے ہیں۔ فرمایا ہاں تم کو بھی یاد ہے میں نے کہا ہاں۔ میں اور میرے والد یہاں آپ سے ملے تھے اور آپ امام جعفر صادق علیہ السلام کے ساتھ تھے اور ان کے ساتھ آپ کے بھائی بھی تھے میرے باپ نے ان سے کہا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ سب آئمہ طاہرین ہیں اور موت سے کوئی بچنے والا نہیں۔ آپ امر امامت کے متعلق مجھ سے بیان کیجیے تاکہ میں اپنے بعد والوں سے بیان کر دوں اور ان کو گمراہی سے نچاؤں۔ فرمایا اے ابو عبداللہ یہ میری اولاد ہے اور یہ میرا بیٹا ہے ان کا سردار ہے اور اشارہ کیا آپ کی طرف۔
اور وہ صاحب علم و حکمت و سخا و معرفت ہے اور اس کے پاس ہیں وہ تمام چیزیں جن کے لوگ محتاج ہوتے ہیں یا وہ دین و دنیا کے معاملات میں اختلاف کرتے ہیں ان میں حسنِ خلق ہے حسن جواب ہے وہ خدائی رازوں میں سے ایک دروازہ ہیں اور ان میں اور بھی بہت سی خوبیاں ہیں۔ میرے والد نے پوچھا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں وہ کیا ہیں۔ فرمایا اس سے پیدا ہو گا اس امت کا فریاد رس وہ داد رس خلق ہو گا وہ بلحاظ علم و نور و فضل و حکمت بہترین مولود اور بہترین پرورش یافتہ ہو گا۔ اللہ مومنوں کے خون کی اس کی وجہ سے حفاظت کرے گا اور ان کے جھگڑوں کی اصلاح کرے گا ان کی پراگندگی کو دور کرے گا ان کے برہنوں کو لباس پہنائے گا اور بھوکے کو سیر کرے گا۔ خوفزدہ اس سے امن میں ہو جائے گا اس کی برکت سے اللہ مینہ برسائے گا اور اپنے بندوں پر رحم کرے گا وہ سن رسیدوں سے بہتر ہو گا بہترین پرورش یافتہ ہو گا اس کا قول حکم ہو گا اس کا خاموش رہنا علم ہو گا وہ لوگوں کے جھگڑوں کو فیصل کرے گا اور اپنے قبیلہ کا سردار ہو گا اپنی جوابی کو پہنچنے سے پہلے ہی ۔ میرے ماں باپ نے پوچھا کیا وہ پیدا ہو گئے ہیں۔ فرمایا ہاں چند سال گزر گئے ۔ راوی کہتا ہے پس ہمارے پاس ایک شخص مخالفوں میں سے آ گیا جس کے سامنے ہم نے کلام کرنے کی جرات نہ کی۔
یزید نامی راوی ہے کہ میں نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے کہا آپ بھی اسی طرح ہمیں آگاہ کیجیے جس طرح آپ کے پدر بزرگوار نے آگاہ کیا ہے۔ فرمایا میرے والد کا زمنہ وہ تھا اب وہ زمانہ نہیں۔ میں نے کہا جو آپ کی یریشان حالی پر ضرا ہو اس پر اللہ کی لعنت ۔ حضرت یہ سن کر ہنسے۔ پھر فرمایا اے ابو عمارہ میں تمہیں بتاتا ہوں میں اپنے گھر سے نکلا اور میں نے لوگوں کے سامنے وصیت کی اپنے فلاں بیٹے کے متعلق اور بظاہر اپنے اور بیٹوں کو بھی شریک کیا لیکن درحقیقت وصیت اس کے لیے تھے۔ میں نے تنہا اسی کو وصی بیانا اگر یہ امت امامت میرے اختیار میں ہوتا تو میں اپنے بیٹے قاسم کو بناتا کیونکہ مجھے اس سے بے پناہ محبت ہے اور میری مہربانی بھی اس پر زیادہ ہے لیکن یہ امر تو خدا کے اختیار میں ہے۔
اور وہ امر امامت کو جہاں چاہتا ہے قرار دیتا ہے اور خواب میں رسول اللہ نے مجھے خبر دی اور میرے وصی کو دکھایا اور ان بادشاہان ضلالت کو بھی جو ان کے زمانہ میں ہوں گے اسی طرح ہم میں سے کوئی کسی کو وصی نہیں بناتا جب تک اس کو خبر نہ ملے۔ رسول اللہ سے اور میرے جد علی مرتضیٰ سے خدا کا دورو ہو ان پر اور میں نے خواب میں رسول اللہ کے پاس انگوٹھی دیکھی اور تلوار عصا اور کتاب اور عمامہ، میں نے پوچھا یا رسول اللہ یہ کیا ہے۔ فرمایا یہ عمامہ خدائے عزوجل کی سلطنت ہے۔ اور تلوار عزت خدا ہے اور کتاب نور خدا ہے اور عصا قوت خدا ہے اور انگوٹھی ان سب کی جامع ہے پھر مجھ سے فرمایا اب یہ امر امامت تم سے نکل کر دوسرے کی طرف جانے والا ہے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ دکھائیے کہ ان میں وہ کون ہے۔ حضرت نے فرمایا میں نے اس امر امامت کی مفارقت میں آئمہ میں سے کسی کو تم سے زیادہ مضطرب نہیں پایا اگر امامت کا معاملہ محبت سے متعلق ہوتا تو اسماعیل تمہارے باپ کے لیے تم سے زیادہ محبوب تھے لیکن یہ امر خدا کے اختیار میں ہے۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا میں نے اپنی زندہ اور مردہ اولاد کو دیکھا۔ امیر المومنین نے مجھ سے خواب میں فرمایا یہ ان کا سردار ہے اور اشارہ کیا میرے بیٹے علی کی طرف اور کہا یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور اللہ محسنوں کے ساتھ ہے۔ راوی کہتا ہے پھر امام موسیٰ کاظم نے فرمایا اے یزید (نام راوی) یہ تیرے پاس امانت ہے اس سے آگاہ نہ کرنا مگر عقلمند کو یا جسے تم سچا سمجھتے ہو اور اگر گواہی طلب کی جائے تو گواہی دو اور قولِ خدا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل کے سپرد کر دو اور یہ بھی فرمایا ہے کہ اس سے زیادہ کون ظالم ہے جو خدا سے گواہی چھپائے کہ راوی کہتا ہے پھر امام موسیٰ کاظم نے فرمایا میں رسول اللہ کی طرف متوجہ ہوا اور عرض کی میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں نے اپنی اولاد کو جمع کیا ہے پس ان میں سےکون میرے بعد امام ہو گا جو نور خدا سے دیکھتا ہے اور اس کی فہم سے سنتا ہے اور اس کی حکمت سے بولتا ہے وہ راستی پر رہتا ہے خطا نہیں کرتا علم رکھتا ہے جاہل نہیں ہوتا وہ حکمت و علم کا معلم ہوتا ہے اور وہ یہ ہےاور اس کے بعد میرے فرزند علی کا ہاتھ پکڑا پھر فرمایا تم اس کے ساتھ بہت کم دن رہو گے جب تم اپنے سفر سے لوٹو تو وصیت کر دینا اور اپنے معاملہ کو درست کر لینا اور جو ارادہ کیا ہے اسے پورا کر لینا کیونکہ تم ان سے دور ہونے والے ہو اور غیروں کے ہمسائے بننے والے ہو۔ جب تم ارادہ کرو جانے کا یعنی جب ہارون مدینہ آئے اور تمہیں قید کرنا چاہے تو اپنے فرزند علی کو بلاؤ اور اس سے کہو کہ وہ تم کو غسل دے اور کفن پہنائے اور یہ طہارت کافی ہے تمہارے لیے کیونکہ اس کے بعد پھر تمہیں غسل دینے اور کفن پہنانے کا موقع تمہارے بعد والے امام کو نہ مل سکے گا اور یہ سنت رہ جائے گی کہ امام سابق کو امام لاحق غسل و کفن دے پس تم امام رضا کے سامنے لیٹ جانا اور ان کے بھائیوں چچوں کے سامنے امام کے حسن خلق کو بیان کرنا اور حکم دینا کہ وہ نو تکبیریں تم پر کہے یعنی نماز جنازہ میں۔
اور وصیت ظاہر ہو جائے اور تمہاری زندگی میں تمہارا ولی معین ہو جائے اس کے بعد اپنی اولاد کو جمع کرو اور لوگوں کے سامنے ان کو گواہ بناؤ اور اللہ بھی ان کا گواہ ہو گا اور خدا گواہ ہونا کافی ہے۔ یزید راوی ہے کہ پھر امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا میں اس سال گرفتار ہو جاؤں گا اور میرے بعد امر امامت میرے بیٹے علیؑ سے متعلق ہو گا ہم ہمنام علی بن ابی طالب ہے علی اول علی بن ابی طالب ہیں ان کے بعد دوسرے علی بن الحسین ہیں جن کو عطا کی گئی علی اول کی فہم ان کا غلبہ مومنین کی ان سے محبت اور علی اول کا دین اور ان کی تکلیفات اور دوسرے علی کے مصائب و محن اور تکلیف دہ باتوں پر ان کا سا صبر اور اس کو چاہیے خاموش رہے اور ہارون کے مرنے کے چار برس بعد کچھ کہے۔
پھر مجھ سے فرمایا اے یزید جب تم اس جگہ پہنچو اور میرے پسر سے ملاقات کرو اور تم عنقریب اس سے ملو گے تو بشارت دینا کہ ایک لڑکا پیدا ہو گا جو امین خدا ہو گا اور مامون و مبارک ہو گا وہ تمہیں بتائے گا کہ تم مجھ سے ملے ہو۔ تم عندالملاقات کہنا کہ یہ لڑکا جس کنیز سے ہو گا وہ خاندان سے ہو گی ماریہ کے جو کنیز رسول تھیں اور ابراہیم پسر رسول اللہ کی ماں اگر ممکن ہو تو میرا سلام اسے پہنچا دینا۔ یزید کہتا ہے کہ امام موسیٰ کاظم کے انتقال کے بعد آپ کے فرزند امام رضا علیہ السلام سے ملا حضرت نے فرمایا عمرہ کا ارادہ ہے یا نہیں۔ میں نے کہا آپ کے اختیار میں ہے میرے پاس زاد راہ نہیں۔ حضرت نے تعجب سے فرمایا سبحان اللہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم عمرہ کی تکلیف تو دیں اور زاد راہ نہ دیں۔ پس ہم چلے جب اس جگہ پہنچے جہاں امام موسیٰ کاظم سے ملاقات ہوئی تھی تو حضرت نے کلام کی ابتدا کی اور فرمایا اے یزید یہی وہ جگہ ہے جہاں تم اکثر اپنے چچا زار بھائیوں سے ملے ہو میں نے کہا بے شک پھر میں نے امام موسیٰ کاظم کی ملاقات کا حال بیان کیا۔ حضرت نے فرمایا وہ کنیز ابھی نہیں آئی جب آئے گی تو میں اپنے والد کا سلام اسے پہنچا دوں گا۔
ہم مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور اس کنیز کو خریدا اسی سال کچھ دن بعد وہ حاملہ ہوئی اور وہ لڑکا پیدا ہوا۔ یزید نے کہا کہ امام رضا علیہ السلام کے بھائی ان کے لاولد ہونے کی وجہ سے یہ امید دل میں لیے ہوئے تھے کہ ان کے وارث ہوں گے وہ مجھ سے بھی عداوت رکھنے لگے۔ اسحاق بن جعفر علیہ السلام نے لوگوں سے کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ یہ شخص مجلس امام موسیٰ علیہ السلام میں بیٹھتا تھا جہاں میں نہ بیٹھتا تھا۔
أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِي الْحَكَمِ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الله بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْجَعْفَرِيُّ وَعَبْدُ الله بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَارَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ سَلِيطٍ قَالَ لَمَّا أَوْصَى أَبُو إِبْرَاهِيمَ علیہ السلام أَشْهَدَ إِبْرَاهِيمَ بْنَ مُحَمَّدٍ الْجَعْفَرِيَّ وَإِسْحَاقَ بْنَ مُحَمَّدٍ الْجَعْفَرِيَّ وَإِسْحَاقَ بْنَ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَجَعْفَرَ بْنَ صَالِحٍ وَمُعَاوِيَةَ الْجَعْفَرِيَّ وَيَحْيَى بْنَ الْحُسَيْنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَلِيٍّ وَسَعْدَ بْنَ عِمْرَانَ الانْصَارِيَّ وَمُحَمَّدَ بْنَ الْحَارِثِ الانْصَارِيَّ وَيَزِيدَ بْنَ سَلِيطٍ الانْصَارِيَّ وَمُحَمَّدَ بْنَ جَعْفَرِ بْنِ سَعْدٍ الاسْلَمِيَّ وَهُوَ كَاتِبُ الْوَصِيَّةِ الاولَى أَشْهَدَهُمْ أَنَّهُ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا الله وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَأَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ لا رَيْبَ فِيهَا وَأَنَّ الله يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُورِ وَأَنَر الْبَعْثَ بَعْدَ الْمَوْتِ حَقٌّ وَأَنَّ الْوَعْدَ حَقٌّ وَأَنَّ الْحِسَابَ حَقٌّ وَالْقَضَاءَ حَقٌّ وَأَنَّ الْوُقُوفَ بَيْنَ يَدَيِ الله حَقٌّ وَأَنَّ مَا جَاءَ بِهِ مُحَمَّدٌ ﷺ حَقٌّ وَأَنَّ مَا نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الامِينُ حَقٌّ عَلَى ذَلِكَ أَحْيَا وَعَلَيْهِ أَمُوتُ وَعَلَيْهِ أُبْعَثُ إِنْ شَاءَ الله وَأَشْهَدَهُمْ أَنَّ هَذِهِ وَصِيَّتِي بِخَطِّي وَقَدْ نَسَخْتُ وَصِيَّةَ جَدِّي أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ علیہ السلام وَوَصِيَّةَ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قَبْلَ ذَلِكَ نَسَخْتُهَا حَرْفاً بِحَرْفٍ وَوَصِيَّةَ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَلَى مِثْلِ ذَلِكَ وَإِنِّي قَدْ أَوْصَيْتُ إِلَى عَلِيٍّ وَبَنِيَّ بَعْدُ مَعَهُ إِنْ شَاءَ وَآنَسَ مِنْهُمْ رُشْداً وَأَحَبَّ أَنْ يُقِرَّهُمْ فَذَاكَ لَهُ وَإِنْ كَرِهَهُمْ وَأَحَبَّ أَنْ يُخْرِجَهُمْ فَذَاكَ لَهُ وَلا أَمْرَ لَهُمْ مَعَهُ وَأَوْصَيْتُ إِلَيْهِ بِصَدَقَاتِي وَأَمْوَالِي وَمَوَالِيَّ وَصِبْيَانِيَ الَّذِينَ خَلَّفْتُ وَوُلْدِي إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَالْعَبَّاسِ وَقَاسِمٍ وَإِسْمَاعِيلَ وَأَحْمَدَ وَأُمِّ أَحْمَدَ وَإِلَى عَلِيٍّ أَمْرُ نِسَائِي دُونَهُمْ وَثُلُثُ صَدَقَةِ أَبِي وَثُلُثِي يَضَعُهُ حَيْثُ يَرَى وَيَجْعَلُ فِيهِ مَا يَجْعَلُ ذُو الْمَالِ فِي مَالِهِ فَإِنْ أَحَبَّ أَنْ يَبِيعَ أَوْ يَهَبَ أَوْ يَنْحَلَ أَوْ يَتَصَدَّقَ بِهَا عَلَى مَنْ سَمَّيْتُ لَهُ وَعَلَى غَيْرِ مَنْ سَمَّيْتُ فَذَاكَ لَهُ. وَهُوَ أَنَا فِي وَصِيَّتِي فِي مَالِي وَفِي أَهْلِي وَوُلْدِي وَإِنْ يَرَى أَنْ يُقِرَّ إِخْوَتَهُ الَّذِينَ سَمَّيْتُهُمْ فِي كِتَابِي هَذَا أَقَرَّهُمْ وَإِنْ كَرِهَ فَلَهُ أَنْ يُخْرِجَهُمْ غَيْرَ مُثَرَّبٍ عَلَيْهِ وَلا مَرْدُودٍ فَإِنْ آنَسَ مِنْهُمْ غَيْرَ الَّذِي فَارَقْتُهُمْ عَلَيْهِ فَأَحَبَّ أَنْ يَرُدَّهُمْ فِي وَلايَةٍ فَذَاكَ لَهُ وَإِنْ أَرَادَ رَجُلٌ مِنْهُمْ أَنْ يُزَوِّجَ أُخْتَهُ فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يُزَوِّجَهَا إِلا بِإِذْنِهِ وَأَمْرِهِ فَإِنَّهُ أَعْرَفُ بِمَنَاكِحِ قَوْمِهِ وَأَيُّ سُلْطَانٍ أَوْ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ كَفَّهُ عَنْ شَيْءٍ أَوْ حَالَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ شَيْءٍ مِمَّا ذَكَرْتُ فِي كِتَابِي هَذَا أَوْ أَحَدٍ مِمَّنْ ذَكَرْتُ فَهُوَ مِنَ الله وَمِنْ رَسُولِهِ بَرِيءٌ وَالله وَرَسُولُهُ مِنْهُ بُرَآءُ وَعَلَيْهِ لَعْنَةُ الله وَغَضَبُهُ وَلَعْنَةُ اللاعِنِينَ وَالْمَلائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ وَالنَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ وَجَمَاعَةِ الْمُؤْمِنِينَ وَلَيْسَ لاحَدٍ مِنَ السَّلاطِينِ أَنْ يَكُفَّهُ عَنْ شَيْءٍ وَلَيْسَ لِي عِنْدَهُ تَبِعَةٌ وَلا تِبَاعَةٌ وَلا لاحَدٍ مِنْ وُلْدِي لَهُ قِبَلِي مَالٌ فَهُوَ مُصَدَّقٌ فِيمَا ذَكَرَ فَإِنْ أَقَلَّ فَهُوَ أَعْلَمُ وَإِنْ أَكْثَرَ فَهُوَ الصَّادِقُ كَذَلِكَ وَإِنَّمَا أَرَدْتُ بِإِدْخَالِ الَّذِينَ أَدْخَلْتُهُمْ مَعَهُ مِنْ وُلْدِي التَّنْوِيهَ بِأَسْمَائِهِمْ وَالتَّشْرِيفَ لَهُمْ وَأُمَّهَاتُ أَوْلادِي مَنْ أَقَامَتْ مِنْهُنَّ فِي مَنْزِلِهَا وَحِجَابِهَا فَلَهَا مَا كَانَ يَجْرِي عَلَيْهَا فِي حَيَاتِي إِنْ رَأَى ذَلِكَ وَمَنْ خَرَجَتْ مِنْهُنَّ إِلَى زَوْجٍ فَلَيْسَ لَهَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَى مَحْوَايَ إِلا أَنْ يَرَى عَلِيٌّ غَيْرَ ذَلِكَ وَبَنَاتِي بِمِثْلِ ذَلِكَ وَلا يُزَوِّجُ بَنَاتِي أَحَدٌ مِنْ إِخْوَتِهِنَّ مِنْ أُمَّهَاتِهِنَّ وَلا سُلْطَانٌ وَلا عَمٌّ إِلا بِرَأْيِهِ وَمَشُورَتِهِ فَإِنْ فَعَلُوا غَيْرَ ذَلِكَ فَقَدْ خَالَفُوا الله وَرَسُولَهُ وَجَاهَدُوهُ فِي مُلْكِهِ وَهُوَ أَعْرَفُ بِمَنَاكِحِ قَوْمِهِ فَإِنْ أَرَادَ أَنْ يُزَوِّجَ زَوَّجَ وَإِنْ أَرَادَ أَنْ يَتْرُكَ تَرَكَ وَقَدْ أَوْصَيْتُهُنَّ بِمِثْلِ مَا ذَكَرْتُ فِي كِتَابِي هَذَا وَجَعَلْتُ الله عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِنَّ شَهِيداً وَهُوَ وَأُمُّ أَحْمَدَ شَاهِدَانِ وَلَيْسَ لاحَدٍ أَنْ يَكْشِفَ وَصِيَّتِي وَلا يَنْشُرَهَا وَهُوَ مِنْهَا عَلَى غَيْرِ مَا ذَكَرْتُ وَسَمَّيْتُ فَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهِ وَمَنْ أَحْسَنَ فَلِنَفْسِهِ وَمَا رَبُّكَ بِظَلامٍ لِلْعَبِيدِ وَصَلَّى الله عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِهِ وَلَيْسَ لاحَدٍ مِنْ سُلْطَانٍ وَلا غَيْرِهِ أَنْ يَفُضَّ كِتَابِي هَذَا الَّذِي خَتَمْتُ عَلَيْهِ الاسْفَلَ فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ الله وَغَضَبُهُ وَلَعْنَةُ اللاعِنِينَ وَالْمَلائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ وَجَمَاعَةِ الْمُرْسَلِينَ وَالْمُؤْمِنِينَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَعَلَى مَنْ فَضَّ كِتَابِي هَذَا وَكَتَبَ وَخَتَمَ أَبُو إِبْرَاهِيمَ وَالشُّهُودُ وَصَلَّى الله عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِهِ قَالَ أَبُو الْحَكَمِ فَحَدَّثَنِي عَبْدُ الله بْنُ آدَمَ الْجَعْفَرِيُّ عَنْ يَزِيدَ بْنِ سَلِيطٍ قَالَ كَانَ أَبُو عِمْرَانَ الطَّلْحِيُّ قَاضِيَ الْمَدِينَةِ فَلَمَّا مَضَى مُوسَى قَدَّمَهُ إِخْوَتُهُ إِلَى الطَّلْحِيِّ الْقَاضِي فَقَالَ الْعَبَّاسُ بْنُ مُوسَى أَصْلَحَكَ الله وَأَمْتَعَ بِكَ إِنَّ فِي أَسْفَلِ هَذَا الْكِتَابِ كَنْزاً وَجَوْهَراً وَيُرِيدُ أَنْ يَحْتَجِبَهُ. وَيَأْخُذَهُ دُونَنَا وَلَمْ يَدَعْ أَبُونَا رَحِمَهُ الله شَيْئاً إِلا أَلْجَأَهُ إِلَيْهِ وَتَرَكَنَا عَالَةً وَلَوْ لا أَنِّي أَكُفُّ نَفْسِي لاخْبَرْتُكَ بِشَيْءٍ عَلَى رُءُوسِ الْمَلا فَوَثَبَ إِلَيْهِ إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ فَقَالَ إِذاً وَالله تُخْبِرُ بِمَا لا نَقْبَلُهُ مِنْكَ وَلا نُصَدِّقُكَ عَلَيْهِ ثُمَّ تَكُونُ عِنْدَنَا مَلُوماً مَدْحُوراً نَعْرِفُكَ بِالْكَذِبِ صَغِيراً وَكَبِيراً وَكَانَ أَبُوكَ أَعْرَفَ بِكَ لَوْ كَانَ فِيكَ خَيْراً وَإِنْ كَانَ أَبُوكَ لَعَارِفاً بِكَ فِي الظَّاهِرِ وَالْبَاطِنِ وَمَا كَانَ لِيَأْمَنَكَ عَلَى تَمْرَتَيْنِ ثُمَّ وَثَبَ إِلَيْهِ إِسْحَاقُ بْنُ جَعْفَرٍ عَمُّهُ فَأَخَذَ بِتَلْبِيبِهِ فَقَالَ لَهُ إِنَّكَ لَسَفِيهٌ ضَعِيفٌ أَحْمَقُ اجْمَعْ هَذَا مَعَ مَا كَانَ بِالامْسِ مِنْكَ وَأَعَانَهُ الْقَوْمُ أَجْمَعُونَ فَقَالَ أَبُو عِمْرَانَ الْقَاضِي لِعَلِيٍّ قُمْ يَا أَبَا الْحَسَنِ حَسْبِي مَا لَعَنَنِي أَبُوكَ الْيَوْمَ وَقَدْ وَسَّعَ لَكَ أَبُوكَ وَلا وَالله مَا أَحَدٌ أَعْرَفَ بِالْوَلَدِ مِنْ وَالِدِهِ وَلا وَالله مَا كَانَ أَبُوكَ عِنْدَنَا بِمُسْتَخَفٍّ فِي عَقْلِهِ وَلا ضَعِيفٍ فِي رَأْيِهِ فَقَالَ الْعَبَّاسُ لِلْقَاضِي أَصْلَحَكَ الله فُضَّ الْخَاتَمَ وَاقْرَأْ مَا تَحْتَهُ فَقَالَ أَبُو عِمْرَانَ لا أَفُضُّهُ حَسْبِي مَا لَعَنَنِي أَبُوكَ الْيَوْمَ فَقَالَ الْعَبَّاسُ فَأَنَا أَفُضُّهُ فَقَالَ ذَاكَ إِلَيْكَ فَفَضَّ الْعَبَّاسُ الْخَاتَمَ فَإِذَا فِيهِ إِخْرَاجُهُمْ وَإِقْرَارُ عَلِيٍّ لَهَا وَحْدَهُ وَإِدْخَالُهُ إِيَّاهُمْ فِي وَلايَةِ عَلِيٍّ إِنْ أَحَبُّوا أَوْ كَرِهُوا وَإِخْرَاجُهُمْ مِنْ حَدِّ الصَّدَقَةِ وَغَيْرِهَا وَكَانَ فَتْحُهُ عَلَيْهِمْ بَلاءً وَفَضِيحَةً وَذِلَّةً وَلِعلي (عَلَيْهِ السَّلام) خِيَرَةً وَكَانَ فِي الْوَصِيَّةِ الَّتِي فَضَّ الْعَبَّاسُ تَحْتَ الْخَاتَمِ هَؤُلاءِ الشُّهُودُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَإِسْحَاقُ بْنُ جَعْفَرٍ وَجَعْفَرُ بْنُ صَالِحٍ وَسَعِيدُ بْنُ عِمْرَانَ وَأَبْرَزُوا وَجْهَ أُمِّ أَحْمَدَ فِي مَجْلِسِ الْقَاضِي وَادَّعَوْا أَنَّهَا لَيْسَتْ إِيَّاهَا حَتَّى كَشَفُوا عَنْهَا وَعَرَفُوهَا فَقَالَتْ عِنْدَ ذَلِكَ قَدْ وَالله قَالَ سَيِّدِي هَذَا إِنَّكِ سَتُؤْخَذِينَ جَبْراً وَتُخْرَجِينَ إِلَى الْمَجَالِسِ فَزَجَرَهَا إِسْحَاقُ بْنُ جَعْفَرٍ وَقَالَ اسْكُتِي فَإِنَّ النِّسَاءَ إِلَى الضَّعْفِ مَا أَظُنُّهُ قَالَ مِنْ هَذَا شَيْئاً ثُمَّ إِنَّ عَلِيّاً (عَلَيْهِ السَّلام) الْتَفَتَ إِلَى الْعَبَّاسِ فَقَالَ يَا أَخِي إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّهُ إِنَّمَا حَمَلَكُمْ عَلَى هَذِهِ الْغَرَائِمُ وَالدُّيُونُ الَّتِي عَلَيْكُمْ فَانْطَلِقْ يَا سَعِيدُ فَتَعَيَّنْ لِي مَا عَلَيْهِمْ ثُمَّ اقْضِ عَنْهُمْ وَلا وَالله لا أَدَعُ مُوَاسَاتَكُمْ وَبِرَّكُمْ مَا مَشَيْتُ عَلَى الارْضِ فَقُولُوا مَا شِئْتُمْ فَقَالَ الْعَبَّاسُ مَا تُعْطِينَا إِلا مِنْ فُضُولِ أَمْوَالِنَا و مَا لَنَا عِنْدَكَ أَكْثَرُ فَقَالَ قُولُوا مَا شِئْتُمْ فَالْعِرْضُ عِرْضُكُمْ فَإِنْ تُحْسِنُوا فَذَاكَ لَكُمْ عِنْدَ الله وَإِنْ تُسِيئُوا فَإِنَّ الله غَفُورٌ رَحِيمٌ وَالله إِنَّكُمْ لَتَعْرِفُونَ أَنَّهُ مَا لِي يَوْمِي هَذَا وَلَدٌ وَلا وَارِثٌ غَيْرُكُمْ وَلَئِنْ حَبَسْتُ شَيْئاً مِمَّا تَظُنُّونَ أَوِ ادَّخَرْتُهُ فَإِنَّمَا هُوَ لَكُمْ وَمَرْجِعُهُ إِلَيْكُمْ وَالله مَا مَلَكْتُ مُنْذُ مَضَى أَبُوكُمْ رَضِيَ الله عَنْهُ شَيْئاً إِلا وَقَدْ سَيَّبْتُهُ حَيْثُ رَأَيْتُمْ فَوَثَبَ الْعَبَّاسُ فَقَالَ وَالله مَا هُوَ كَذَلِكَ وَمَا جَعَلَ الله لَكَ مِنْ رَأْيٍ عَلَيْنَا وَلَكِنْ حَسَدُ أَبِينَا لَنَا وَإِرَادَتُهُ مَا أَرَادَ مِمَّا لا يُسَوِّغُهُ الله إِيَّاهُ وَلا إِيَّاكَ وَإِنَّكَ لَتَعْرِفُ أَنِّي أَعْرِفُ صَفْوَانَ بْنَ يَحْيَى بَيَّاعَ السَّابِرِيِّ بِالْكُوفَةِ وَلَئِنْ سَلِمْتُ لاغْصِصَنَّهُ بِرِيقِهِ وَأَنْتَ مَعَهُ فَقَالَ علي (عَلَيْهِ السَّلام) لا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِالله الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ أَمَّا إِنِّي يَا إِخْوَتِي فَحَرِيصٌ عَلَى مَسَرَّتِكُمْ الله يَعْلَمُ اللهمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي أُحِبُّ صَلاحَهُمْ وَأَنِّي بَارٌّ بِهِمْ وَاصِلٌ لَهُمْ رَفِيقٌ عَلَيْهِمْ أُعْنَى بِأُمُورِهِمْ لَيْلاً وَنَهَاراً فَاجْزِنِي بِهِ خَيْراً وَإِنْ كُنْتُ عَلَى غَيْرِ ذَلِكَ فَأَنْتَ عَلامُ الْغُيُوبِ فَاجْزِنِي بِهِ مَا أَنَا أَهْلُهُ إِنْ كَانَ شَرّاً فَشَرّاً وَإِنْ كَانَ خَيْراً فَخَيْراً اللهمَّ أَصْلِحْهُمْ وَأَصْلِحْ لَهُمْ وَاخْسَأْ عَنَّا وَعَنْهُمُ الشَّيْطَانَ وَأَعِنْهُمْ عَلَى طَاعَتِكَ وَوَفِّقْهُمْ لِرُشْدِكَ أَمَّا أَنَا يَا أَخِي فَحَرِيصٌ عَلَى مَسَرَّتِكُمْ جَاهِدٌ عَلَى صَلاحِكُمْ وَالله عَلَى مَا نَقُولُ وَكِيلٌ فَقَالَ الْعَبَّاسُ مَا أَعْرَفَنِي بِلِسَانِكَ وَلَيْسَ لِمِسْحَاتِكَ عِنْدِي طِينٌ فَافْتَرَقَ الْقَوْمُ عَلَى هَذَا وَصَلَّى الله عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ۔
یزید بن سلیط سے مروی ہے کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے وصیت کی تو گواہ بنایا ابراہیم بن محمد جعفری، اسحاق بن جعفر بن محمد و جعفر بن صالح و معاویہ جعفر و یحیٰ بن الحسین بن زید بن علی و سعد ابن عمران انصاری و محمد بن الحارث انصاری و یزید بن سلیط انصاری اور محمد بن جعفر کو اور حضرت خود اس وصیت کو لکھنے والے تھے۔ فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد اس کے عبد و رسول ہیں اور قیامت آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں اور جو لوگ قبروں میں ہیں خدا ان کو اٹھائے گا اور اس کا وعدہ حق ہے اور حساب حق ہے اور قضا حق ہے اور خدا کے رو برو کھڑا ہونا حق ہے اور جو محمد مصطفیٰ پر نازل ہوا حق ہے اور جو روح الامین لے کر آئے وہ حق ہے اسی عقیدہ پر میں زندہ ہوں اور اسی عقیدہ پر میں مروں گا اور اسی عقیدہ پر روزِ قیامت میں اٹھوں گا انشاء اللہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے اس وصیت کو اپنے ہاتھ سے لکھا ہے اور یہ وہی خصوصیت ہے جو میرے بعد امیر المومنین نے کی اور اس کے وصی محمد بن علی نے اس سے پہلے میں نے حرف بحرف وہی لکھا اور ایسی ہی وصیت میرے والد جعفر بن محمد نے کی تھی اور میں نے وصیت کی ہے اپنے فرزند علی کے لیے اور اپنے بیٹوں کے لیے جو اس کے ساتھ ہیں اور میں ان کی صلاحیت سے مانوس ہوں اور میں چاہتا ہوں یکہ وہ ان سے اقرار لے کہ یہ میرے فرزند علی رضا کے لیے ہے نہ کہ اور بھائیوں کے لیے میں نے اپنے فرزند علی کو وصیت کی ہے اپنے صدقات اور اوقاف کے متعلق اور اپنے غلاموں اور ان کے بچوں کے متعلق جو پیدا ہو چکے ہیں اور اپنے بیٹوں کے لیے ابراہیم اور عباس و قاسم و اسماعیل اور احمد کے لیے اور ام احمد (کنیز امام موسیٰ کاظم) کے لیے اور میرے فرزند علی کے لیے وصیت کی ہے کہ میری ازواج کے لیے ایک تہائی صدقات میرے والد کے اوقاف سے اور ایک تہائی میرے اوقاف سے دیں باقی جہاں مناسب سمجھیں خرچ کریں صاحب مال کی طرح چاہے فروخت کریں چاہے ہبہ کریں عطا کریں یا تصدق کریں ان پر جن کے نام میں نے لیے ہیں اور ان پر جن کے نام نہیں لیے۔
وہ مثل میری ذات کے ہے میرے مال و اولاد کے معاملے میں چاہیں تو ان بھائیوں کو جن کا ذکر میں نے اپنی تحریر میں کر دیا ہے اپنے پاس رکھیں اور اگر ناپسند کریں تو ان کو علیحدہ کر دیں اس بارے میں ان پر کوئی الزام نہ ہو گا اور نہ رائے بدلنے کی ضرورت پیش آئے گی کہ اگر ان میں سے کچھ ایسے ہوں کہ اپنا سلوک بدل دیں تو ان کو ساتھ لیں ان کا انحصار ان کی رائے پر ہے۔
اگر (خاندان میں) کوئی اپنی بہن کی شادی کرنا چاہے تو بغیر امام کی اجازت کے اور امر کے شادی نہ کرے کیونکہ وہ قوم کے مناکح کے اچھے جاننے والے ہیں اور اگر کوئی بادشاہ یا کوئی شخص کسی امر کی بجاآوری میں مانع ہو یا حائل ہو ان امور کے درمیان جو میں نے اپنے وصیت نامے میں ذکر کیے ہیں تو وہ اللہ اور رسول سے الگ رہے اللہ اور رسول اس سے بیزار ہیں اس پر اللہ لعنت اور غضب ہے اور لعنت کرنے والوں کی لعنت اور ملائکہ و مقربین کی انبیاء و مرسلین اور تمام مسلمانوں کی لعنت۔
اور کسی بادشاہ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ہمارے اوقاف و صدقات وغیرہ کے متعلق علی کو باز رکھے ہماری طر سے علی کے کام باز رکھے۔ کوئی باز پرس نہیں اور نہ میری اولاد میں کسی کو یہ حق ہے میری طرف سے مال کے وہ مالک ہیں۔ اور وہ راست گو ہیں جن امور کا ذکر کیا گیا ہے اگر وہ مال کم بتائیں تو صحیح ہے اور اگر زیادہ بتائیں تو صحیح ہے میں نے وصیت نامہ میں علی کے ساتھ اپنی اولاد کے جو نام رکھے ہیں تو صرف ان کی عزت افزائی اور نیک نامی کے لیے اور انتظامی امور میں ام کا کوئی دخل نہیں۔
اور میری اولاد کی مائیں اگر اپنے گھروں میں پردہ کے اندر رہیں تو ان کو نفقہ اتنا ہی ملے گا جتنا میری زندگی میں ملتا رہا ہے۔ اگر علی اس کو مناسب سمجھیں اور میری لڑکیوں کے لیے بھی یہ صورت ہے کوئی بھائی اپنی بہن کی اور کوئی ماں اپنی بیٹی کی ترویج بغیر علی کے مشورہ کے کرے گا اور نہ اس کا حق بادشہ کو ہے اور نہ چچوں کو مگر علی کی رائے اور مشورہ کے بعد۔ اگر اس کے خلاف انھوں نے علم کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور انھوں نے میرے فرزند کے اختیارات میں جھگڑا کیا درآنحالیک وہ مناکح قوم کا سب سے زیادہ جاننے والا ہے اگر وہ ترویج کرنی چاہے تو کر دے اور نہ کرنے چاہے تو نہ کرے اور میں نے یہی وصیت جو اس کتاب میں ہے لڑکیوں کو بھی کر دی ہے اور میں نے ان پر خدا کو گواہ قرار دیا ہے اور علی اور ام احمد بھی ان پر گواہ ہیں اور نہیں جائز کسی کو میری اس تحریر کو کھولے اور نہ اس کا اعلان کرے درآنحالیکہ وہ ان لوگوں میں سےہو جان کا میں نے ذکر کیا ہے اور نامزد کیا ہے پس جو اس کے خلاف کرے گا اس کا مظلمہ اس پر ہو گا اور نیکی کرے گا تو اس کا فائدہ اس کی ذات کو پہنچے گا اور خدا اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں اور درود ہو محمد اور ان کی آل پر اور کسی بادشاہ وغیرہ کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس تحریر کی مہر کو جس کے نیچے میں نے مہر لگا دی ہے توڑے اور جو ایسا کرے گا تواس پر اللہ کی لعنت ہو گی اور غضب خدا نازل ہو گا اور لعنت ہو گی لعن کرنے والوں کی اور ملائکہ و مقربین کی انبیاء اور مومنین کی جماعت کی اور یہ تحریر حضرت نے لکھی اور مہر لگائی ابو ابراہیم علیہ السلام نے اور گواہوں نے بھی مہر لگائی اور درود ہو محمد و آل محمد پر۔
ابن الحکم نے بیان کیا کہ روایت کی مجھ سے عبداللہ بن آدم جعفری نے یزید بن سلیط سے کہ ابو ابراہیم طلحی قاضی مدینہ تھا جب امام موسیٰ کاظم کا انتقال ہوا تو ان کے بھائی طلحی قاضی کے پاس آئے اور عباس ابن موسیٰ نے ان سے کہا کہ اس تحریر کے نیچے خزانہ اور جواہرات ہیں علی نے ان کو چھپا لیا اور ہم کو محروم کر کے ان پر قبضہ کر لیا ہے اور ہمارے پدر بزرگوار نے جو کچھ مال چھوڑا ہے انھوں نے سب پر قبضہ کر لیا ہے اور ہمیں مفلس بنا دیا ہے اور خودداری ملحوظ نہ ہوتی تو میں ایک ایک چیز کو سب کے سامنے بیان کر دیتا۔
ابراہیم بن محمد جو اس تحریر کے گواہوں میں سے تھے آگے بڑھے اور کہنے لگے تم جو کچھ بیان کر رہے ہو ہم اسے قبول نہیں کرتے اور تمہارے اس بیان کی تصدیق نہیں کرتے اور ہمارے نزدیک ملعون و ذلیل ہو۔ ہم تمھارے جھوٹ کو طفلی اور بزرگی دونوں حالتوں میں جاننے والے ہیں تمہارے والد تمہاری حالت کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے اگر تم میں کوئی خوبی ہوتی تو تمہارے باپ تمہاری ظاہری و باطنی صورت میں ضرور اسکے جاننے والے ہوتے تو ضرور تم کو امین بناتے لیکن انھوں نے کبھی دو خرموں پر بھی تم کو امین نہیں بنایا۔ پھر اس کے چچا اسحاق بن جعفر اس کی طرف بڑھے اور اس کا گریبان پکڑ کر کہا تو نادان کمزور عقل اور احمق ہے تجھ سے یہ گستاخانہ باتیں آج بھی اور کل بھی علی کے بارے میں سرزد ہوئیں تمام قوم نے ان کی تصدیق و اعانت کی۔ ابو عمران قاضی نے کہا امام رضا علیہ السلام سے اے علی ابوالحسن کافی ہے میرے لیے لعنت آپ کے باپ کی لکھا جو بادشاہ یا کوئی حاکم اس مہر کوتوڑے تو اس پر خدا و مرسلین کی لعنت ہو آپ کےوالد نے آپ کو اختیار دیا ہے قسم خدا کی ہر باپ اپنے بیٹے کے متعلق سب سے زیادہ جاننے والا ہوتا ہے۔
خدا کی قسم آپ کے پدر بزرگوار میرے نزدیک نہ تو خفیف العقل تھے اور نہ ضعیف الرائے۔ عباس نے قاضی سے کہا کہ اللہ تمہاری حفاظت کرے اس مہر کو توڑئیے اور جو کچھ اس کے نیچے لکھا ہے اسے پڑھیے اس نے کہ میں تو مہر نہ توڑوں گا۔ تمہارے باپ کی لعنت میرے لیے کافی ہے عباس نے کہا میں توڑوں گا اس نے کہا عباس نے مہر کو توڑا تو اس میں تھا کہ ان لوگون کو تولیت سے خارج کرو۔ اس کے مالک علی (امام رضا ) ہیں اور ان کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اطاعت علی میں داخل ہوں باخوشی یا با کراہت اور یہ کہ صدقات وغیرہ سے ان کو علیحدہ رکھا جائے اس مہر کا توڑنا ان لوگوں کے لیے مصیبت رسوائی اور ذلت کا باعث بن گیا اور امام رضا علیہ السلام کے لیے سبب خیر ہوا۔
جب وصیت نامہ کہ مہر عباس نے توڑی تو اس کے نیچے حسب ذیل گواہوں کی گواہی تھی ابراہیم بن محمد، اسحاق بن جعفر و جعفر بن صالح و سعید بن عمران، انھوں نے ام احمد کا چہرہ کھول دیا۔ قاضی کی کچہری میں ان کا دعویٰ تھا کہ یہ ام احمد نہیں اس لیے انھوں نے ان کے چہرے سے پردہ ہٹایا۔
پھر انھوں نے پہچان لیا تب ام احمد نے کہا واللہ میرے سردار نے ایسا ہی کہا تھا کہ تو عنقریب پکڑی جائے گی جبراً اور گھر سے مجلس کی طرف نکالی جائے گی اس پر اسحاق بن جعفر نے ڈانٹا اور کہا عورتیں ناقص العقل ہوتی ہیں انھوں نے ایسی کوڑی بات نہیں کی۔ پھر امام رضا علیہ السلام نے عباس سے فرمایا اے بھائی میں جانتا ہوں کہ یہ باتیں تم نے ان قرضوں کی وجہ سے کی ہیں جو لوگوں کے تم پر ہیں پس اے سعید تم میرے ساتھ چلو اور بتاؤ ان پر کتنا قرضہ ہے میں اس کو ادا کر دوں گا واللہ میں جب تک زمین پر چلتا ہوں تم سے ہمدردی کرنا اور نیکی کرنا نہ چھوڑوں گا اب تم بتاؤ کیا چاہتے ہو۔ عباس نے کہا آپ ہم کو ہمارے زائد مال سے دینا چاہتے ہیں حالانکہ ہمارے حق کا مال آپ کے پاس بہت زیادہ ہے حضرت نے فرمایا تم جو چاہو کہو ہماری غرض تمہاری غرض ہے اگر اچھی بات کہو گے تو خدا سے اس کا اچھا بدلہ پاؤ گے اور اگر برا کرو گے تو اللہ غور الرحیم ہے اور تم کو معلوم ہے کہ ابھی تک میرے لڑکا نہیں ہے اور تمہارے سوا اور کوئی میرا وارث نہیں اگر جیسا تمہارا گمان ہے میں نے کوئی شے روک رکھی ہے یا ذخیرہ کر لی ہے تو تم ہی کو ملے گی اور خدا کی قسم جب سے والد ماجد مرے ہیں جو چیز مجھے ملی ہے میں نے اسے متفرق کر دیا ہے جیسا کہ تم نے دیکھا ہے یہ سن کر عباس اچھل پڑا اور کہنےلگا واللہ ایسا نہیں ہے۔ اللہ کا کوئی حکم ہمارے خلاف نہیں ہے بلکہ تم نے جو کچھ ہمارے ساتھ کیا ہے ازروئے حسد کیا ہے اور ہمارے باپ نے جو ارادہ کیا تھا وہ نہیں جائز کیا اللہ نے نہ ان کے لیے نہ تمہارے لیے اور تم اس بات کو جانتے ہو اور میں بھی جانتا ہوں صفوان بن یحیٰ (وکیل امام رضا) جو کوفہ کا پارچہ فروش ہے اس نے ہمارے حق کی چیز کو فروخت کیا اگر میں زندہ ہوں تو اس کو اور تم کو شرمندہ ضرور کروں گا۔
امام علیہ السلام نے فرمایا نہیں مدد اور قوت مگر خدائے عظیم سےاے میرے بھائیو میں تمہاری مسرت کا حریص ہوں خدا اس کو جانتا ہے خدایا اگر تو جانتا ہے کہ میں ان کے درستیِ حال کو دوست رکھتا ہوں اور ان کے ساتھ نیکی کرنے والا ہوں اور صلہ رحم کرنے والا ہوں اور ان پر مہربان ہوں اور رات دن ان کے معاملات میں انکی مدد کرتا ہوں تو مجھے اس کی بہتر جزا دے اور ایسا نہیں اور تو علام الغیوب ہے تو میرے ساتھ وہ کر جس کا میں اہل ہوں، شر کا بدلہ شر ہے اور خیر کا بدلہ خیر خداوندا ان کی اصلاح کر اور ان کے معاملات کو درست کر اور ہم سے اور ان سے شیطان کو دور رکھ اور ذلیل کر، اپنی اطاعت میں ان کی مدد کر اور ہدایت کی توفیق دے اور جو کچھ میں کہتا ہوں اللہ اس کا وکیل ہے۔ عباس نے کہا آپ کی چرب زبانی جانتا ہوں آپ کی بات کی میری نزدیک کوئی وقعت نہیں۔ یہ بدکلامی سن کر سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور محمد و آل محمد پر دوربھیجا۔
مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ وَعُبَيْدِ الله بْنِ الْمَرْزُبَانِ عَنِ ابْنِ سِنَانٍ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى أَبِي الْحَسَنِ مُوسَى علیہ السلام مِنْ قَبْلِ أَنْ يَقْدَمَ الْعِرَاقَ بِسَنَةٍ وَعَلِيٌّ ابْنُهُ جَالِسٌ بَيْنَ يَدَيْهِ فَنَظَرَ إِلَيَّ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ أَمَا إِنَّهُ سَيَكُونُ فِي هَذِهِ السَّنَةِ حَرَكَةٌ فَلا تَجْزَعْ لِذَلِكَ قَالَ قُلْتُ وَمَا يَكُونُ جُعِلْتُ فِدَاكَ فَقَدْ أَقْلَقَنِي مَا ذَكَرْتَ فَقَالَ أَصِيرُ إِلَى الطَّاغِيَةِ أَمَا إِنَّهُ لا يَبْدَأُنِي مِنْهُ سُوءٌ وَمِنَ الَّذِي يَكُونُ بَعْدَهُ قَالَ قُلْتُ وَمَا يَكُونُ جُعِلْتُ فِدَاكَ قَالَ يُضِلُّ الله الظَّالِمِينَ وَيَفْعَلُ الله مَا يَشَاءُ قَالَ قُلْتُ وَمَا ذَاكَ جُعِلْتُ فِدَاكَ قَالَ مَنْ ظَلَمَ ابْنِي هَذَا حَقَّهُ وَجَحَدَ إِمَامَتَهُ مِنْ بَعْدِي كَانَ كَمَنْ ظَلَمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ حَقَّهُ وَجَحَدَهُ إِمَامَتَهُ بَعْدَ رَسُولِ الله ﷺ قَالَ قُلْتُ وَالله لَئِنْ مَدَّ الله لِي فِي الْعُمُرِ لاسَلِّمَنَّ لَهُ حَقَّهُ وَلاقِرَّنَّ لَهُ بِإِمَامَتِهِ قَالَ صَدَقْتَ يَا مُحَمَّدُ يَمُدُّ الله فِي عُمُرِكَ وَتُسَلِّمُ لَهُ حَقَّهُ وَتُقِرُّ لَهُ بِإِمَامَتِهِ وَإِمَامَةِ مَنْ يَكُونُ مِنْ بَعْدِهِ قَالَ قُلْتُ وَمَنْ ذَاكَ قَالَ مُحَمَّدٌ ابْنُهُ قَالَ قُلْتُ لَهُ الرِّضَا وَالتَّسْلِيمُ۔
ابن سنان سے مروی ہے کہ میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے پاس آیا عراق آپ کے جانے سے قبل اور امام رضا علیہ السلام آپ کے پاس بیٹھے تھے مجھ سے فرمایا اے محمد اس سال ایک واقعہ ہونے والا ہے تم اس سے مضطرب نہ ہونا۔ میں نے کہا وہ کیا ہے آپ کے اس فرمانے نے مجھے پریشانی میں ڈال دیا۔ فرمایا صبر کرنا بغاوت و سر کشی پر لیکن اس سے مجھے اور میرے بعد والے کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔ میں نے کہا میں فدا ہوں وہ ہو گا کیا۔ فرمایا خدا ظالموں کو گمراہی میں چھوڑ دے گا اور اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ میں نے کہا وہ ہے کیا بات۔ فرمایا میرے اس بیٹے کے حق کو غصب کیا اور اس کی امامت کا انکار کیا تو ایسا ہے جیسے علی کا حق اور بعد رسول اللہ ان کی امامت کا انکار کر دیا۔ میں نے کہا واللہ اگر میں زندہ رہا تو ان کا حق ضرور ان کے سپرد کر دوں گا اور ہم ان کی امامت کا اقرار کریں گے آپ کے بعد کون ہو گا۔ فرمایا میرا بیٹا محمد (امام محمد تقی علیہ السلام) میں نے کہا ہم ان پر راضی ہیں اور ان کی امامت کو تسلیم کرتے ہیں۔
توضیح: امام محمد تقی علیہ السلام کو بعض لوگ امام رضا علیہ السلام کا فرزند تسلیم نہیں کرتے تھے اور اس مخالفت میں بڑا زور پیدا ہو گیا۔ سادات کے اکثر افراد نے اس بارے میں امام رضا علیہ السلام سے جھگڑا کیا تھا۔ آپ نے اوقاف و صدقات کو ہم سے الگ رکھنے کے لیے امام محمد تقی کو اپنا بیٹا ظاہر کیا ہے اسی قضیہ کی طرف امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے مذکورہ بالا حدیث میں اشارہ فرمایا ہے۔