مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

(3-7)

معرفتِ امام اور اس کی طرف رجوع

حدیث نمبر 1

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْوَشَّاءِ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ قَالَ قَالَ لِي أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام إِنَّمَا يَعْبُدُ الله مَنْ يَعْرِفُ الله فَأَمَّا مَنْ لا يَعْرِفُ الله فَإِنَّمَا يَعْبُدُهُ هَكَذَا ضَلالاً قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ فَمَا مَعْرِفَةُ الله قَالَ تَصْدِيقُ الله عَزَّ وَجَلَّ وَتَصْدِيقُ رَسُولِهِ ﷺ وَمُوَالاةُ علي علیہ السلام وَالائْتِمَامُ بِهِ وَبِأَئِمَّةِ الْهُدَى (عَلَيْهم السَّلام) وَالْبَرَاءَةُ إِلَى الله عَزَّ وَجَلَّ مِنْ عَدُوِّهِمْ هَكَذَا يُعْرَفُ الله عَزَّ وَجَلَّ۔

ابوحمزہ سے مروی ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا عبادتِ خدا وہ کرتا ہے جو اللہ کی معرفت رکھتا ہے اور جو معرفت نہیں رکھتا وہ ضلالت کے ساتھ عبادت کرتا ہے۔ میں نے پوچھا اللہ کی معرفت کیا ہے۔ فرمایا اللہ کی اور اس کے رسول کی تصدیق اور علی علیہ السلام سے دوستی اور ان کو اور دیگر آئمہ ہدیٰ کو امام ماننا اور ان کے دشمنوں سے اظہارِ براٗت کرنا۔ اس طرح معرفتِ الہٰی باری تعالیٰ حاصل ہوتی ہے۔

حدیث نمبر 2

الْحُسَيْنُ عَنْ مُعَلىً عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عَائِذٍ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أُذَيْنَةَ قَالَ حَدَّثَنَا غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ أَحَدِهِمَا (عَلَيْهما السَّلام) أَنَّهُ قَالَ لا يَكُونُ الْعَبْدُ مُؤْمِناً حَتَّى يَعْرِفَ الله وَرَسُولَهُ وَالائِمَّةَ كُلَّهُمْ وَإِمَامَ زَمَانِهِ وَيَرُدَّ إِلَيْهِ وَيُسَلِّمَ لَهُ ثُمَّ قَالَ كَيْفَ يَعْرِفُ الاخِرَ وَهُوَ يَجْهَلُ الاوَّلَ۔

ابن اذینہ سے مروی ہے کہ ایک سے زیادہ لوگوں نے امام محمد باقر علیہ السلام یا امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا کوئی بندہ مومن نہیں ہو سکتا جب تک اللہ اور اس کے رسول اور تمام آئمہ کو نہ پہچانے اور اپنے امام زمانہ کو بھی اور اپنے معاملات ان کی طرف رجوع کرے اور اپنے کو ان کے سپرد کرے۔ پھر فرمایا جو اول سے جاہل ہے وہ آخر کو کیا جانے گا۔

حدیث نمبر 3

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ زُرَارَةَ قَالَ قُلْتُ لابي جعفر علیہ السلام أَخْبِرْنِي عَنْ مَعْرِفَةِ الامَامِ مِنْكُمْ وَاجِبَةٌ عَلَى جَمِيعِ الْخَلْقِ فَقَالَ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ بَعَثَ مُحَمَّداً ﷺ إِلَى النَّاسِ أَجْمَعِينَ رَسُولاً وَحُجَّةً لله عَلَى جَمِيعِ خَلْقِهِ فِي أَرْضِهِ فَمَنْ آمَنَ بِالله وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولِ الله وَاتَّبَعَهُ وَصَدَّقَهُ فَإِنَّ مَعْرِفَةَ الامَامِ مِنَّا وَاجِبَةٌ عَلَيْهِ وَمَنْ لَمْ يُؤْمِنْ بِالله وَبِرَسُولِهِ وَلَمْ يَتَّبِعْهُ وَلَمْ يُصَدِّقْهُ وَيَعْرِفْ حَقَّهُمَا فَكَيْفَ يَجِبُ عَلَيْهِ مَعْرِفَةُ الامَامِ وَهُوَ لا يُؤْمِنُ بِالله وَرَسُولِهِ وَيَعْرِفُ حَقَّهُمَا قَالَ قُلْتُ فَمَا تَقُولُ فِيمَنْ يُؤْمِنُ بِالله وَرَسُولِهِ وَيُصَدِّقُ رَسُولَهُ فِي جَمِيعِ مَا أَنْزَلَ الله يَجِبُ عَلَى أُولَئِكَ حَقُّ مَعْرِفَتِكُمْ قَالَ نَعَمْ أَ لَيْسَ هَؤُلاءِ يَعْرِفُونَ فُلاناً وَفُلاناً قُلْتُ بَلَى قَالَ أَ تَرَى أَنَّ الله هُوَ الَّذِي أَوْقَعَ فِي قُلُوبِهِمْ مَعْرِفَةَ هَؤُلاءِ وَالله مَا أَوْقَعَ ذَلِكَ فِي قُلُوبِهِمْ إِلا الشَّيْطَانُ لا وَالله مَا أَلْهَمَ الْمُؤْمِنِينَ حَقَّنَا إِلا الله عَزَّ وَجَلَّ۔

زرارہ سے مروی ہے کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے کہا کہ مجھے معرفت امام کے متعلق بتائیے کہ کیا وہ واجب ہے تمام مخلوق پر۔ فرمایا اللہ نے محمد مصطفی ﷺ کو بھیجا تمام لوگوں کی طرف رسول اور اپنی حجت بنا کر تمام مخلوق پر۔ پس جو اللہ اور محمد رسول اللہ پر ایمان لایا اور اللہ کی پیروی کی اور تصدیق کی تو اس پر ہم میں سے ہر امام کی معرفت واجب ہے اور جو اللہ اور رسول پر ایمان نہ لایا اور نہ انکا اتباع کیا اور نہ رسول کی اطاعت کی اور نہ ان دونوں کے حق کو پہچانا تو معرفتِ امام ان پر کیسے واجب ہو گی ۔ راوی کہتا ہے میں نے پوچھا آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا اور جو کچھ رسول پر نازل ہوا ہے اس کی تصدیق کی ہو تو کیا آپ لوگوں کا حق معرفت ان پر واجب ہے۔ فرمایا یہ لوگ فلاں فلاں کو پہچانتے ہیں۔ میں نے کہا ہاں۔ فرمایا کیا اللہ نے ان کے دلوں میں ان کی معرفت ڈالی ہے اللہ نے تو مومنین کے دلوں میں ہمارے حق کا الہام کیا ہے۔

حدیث نمبر 4

عَنْهُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي الْمِقْدَامِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ علیہ السلام يَقُولُ إِنَّمَا يَعْرِفُ الله عَزَّ وَجَلَّ وَيَعْبُدُهُ مَنْ عَرَفَ الله وَعَرَفَ إِمَامَهُ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ وَمَنْ لا يَعْرِفِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَلا يَعْرِفِ الامَامَ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ فَإِنَّمَا يَعْرِفُ وَيَعْبُدُ غَيْرَ الله هَكَذَا وَالله ضَلالاً۔

جابر سے مروی ہے کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے سنا کہ جو خدا کی معرفت رکھتا ہے اور اس کی عبادت کرتا ہے وہ ہم اہلبیت میں سے اپنے امام کو بھی پہچانتا ہے اور جو اللہ کی معرفت نہیں رکھتا اور ہم اہلبیت کی معرفت نہیں رکھتا تو غیر خدا کی عبادت کرتا ہے اور یہ کھلی گمراہی ہے۔

حدیث نمبر 5

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُمْهُورٍ عَنْ فَضَالَةَ بْنِ أَيُّوبَ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ وَهْبٍ عَنْ ذَرِيحٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام عَنِ الائِمَّةِ بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ كَانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام إِمَاماً ثُمَّ كَانَ الْحَسَنُ علیہ السلام إِمَاماً ثُمَّ كَانَ الْحُسَيْنُ علیہ السلام إِمَاماً ثُمَّ كَانَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ إِمَاماً ثُمَّ كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ إِمَاماً مَنْ أَنْكَرَ ذَلِكَ كَانَ كَمَنْ أَنْكَرَ مَعْرِفَةَ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَمَعْرِفَةَ رَسُولِهِ ﷺ ثُمَّ قَالَ قُلْتُ ثُمَّ أَنْتَ جُعِلْتُ فِدَاكَ فَأَعَدْتُهَا عَلَيْهِ ثَلاثَ مَرَّاتٍ فَقَالَ لِي إِنِّي إِنَّمَا حَدَّثْتُكَ لِتَكُونَ مِنْ شُهَدَاءِ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي أَرْضِهِ۔

راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے آنحضرت ﷺ کے بعد آئمہ کے متعلق پوچھا۔ فرمایا حضرت کے بعد امیر المومنین امام تھے پھر حضرت امام حسن پھر امام حسین پھر علی بن الحسین پھر محمد بن علی ہوئے۔ جس نے انکار کیا ان سے اس نے معرفت باری تعالیٰ سے انکار کیا اس نے رسول کی معرفت سے انکار کیا۔ میں نے کہا کہ امام محمد باقر علیہ السلام کے بعد آپؑ امام ہیں۔ میں نے اس کا اعادہ تین بار کیا۔ فرمایا میں نے تم سے سلسلہ بیان کر دیا (اب میرے سوا اور کون ہو گا ) یہ اس لیے بیان کیا ہے کہ روئے زمین پر تم اللہ کے گواہوں میں سے ہو جاؤ۔

حدیث نمبر 6

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِيهِ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ إِنَّكُمْ لا تَكُونُونَ صَالِحِينَ حَتَّى تَعْرِفُوا وَلا تَعْرِفُوا حَتَّى تُصَدِّقُوا وَلا تُصَدِّقُوا حَتَّى تُسَلِّمُوا أَبْوَاباً أَرْبَعَةً لا يَصْلُحُ أَوَّلُهَا إِلا بِآخِرِهَا ضَلَّ أَصْحَابُ الثَّلاثَةِ وَتَاهُوا تَيْهاً بَعِيداً إِنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى لا يَقْبَلُ إِلا الْعَمَلَ الصَّالِحَ وَلا يَقْبَلُ الله إِلا الْوَفَاءَ بِالشُّرُوطِ وَالْعُهُودِ فَمَنْ وَفَى لله عَزَّ وَجَلَّ بِشَرْطِهِ وَاسْتَعْمَلَ مَا وَصَفَ فِي عَهْدِهِ نَالَ مَا عِنْدَهُ وَاسْتَكْمَلَ مَا وَعَدَهُ إِنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَخْبَرَ الْعِبَادَ بِطُرُقِ الْهُدَى وَشَرَعَ لَهُمْ فِيهَا الْمَنَارَ وَأَخْبَرَهُمْ كَيْفَ يَسْلُكُونَ فَقَالَ وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدىوَقَالَ إِنَّما يَتَقَبَّلُ الله مِنَ الْمُتَّقِينَ فَمَنِ اتَّقَى الله فِيمَا أَمَرَهُ لَقِيَ الله مُؤْمِناً بِمَا جَاءَ بِهِ مُحَمَّدٌ ﷺ هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ فَاتَ قَوْمٌ وَمَاتُوا قَبْلَ أَنْ يَهْتَدُوا وَظَنُّوا أَنَّهُمْ آمَنُوا وَأَشْرَكُوا مِنْ حَيْثُ لا يَعْلَمُونَ إِنَّهُ مَنْ أَتَى الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا اهْتَدَى وَمَنْ أَخَذَ فِي غَيْرِهَا سَلَكَ طَرِيقَ الرَّدَى وَصَلَ الله طَاعَةَ وَلِيِّ أَمْرِهِ بِطَاعَةِ رَسُولِهِ وَطَاعَةَ رَسُولِهِ بِطَاعَتِهِ فَمَنْ تَرَكَ طَاعَةَ وُلاةِ الامْرِ لَمْ يُطِعِ الله وَلا رَسُولَهُ وَهُوَ الاقْرَارُ بِمَا أُنْزِلَ مِنْ عِنْدِ الله عَزَّ وَجَلَّ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَالْتَمِسُوا الْبُيُوتَ الَّتِي أَذِنَ الله أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ فَإِنَّهُ أَخْبَرَكُمْ أَنَّهُمْ رِجَالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ الله وَإِقَامِ الصَّلاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ يَخَافُونَ يَوْماً تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالابْصَارُ إِنَّ الله قَدِ اسْتَخْلَصَ الرُّسُلَ لامْرِهِ ثُمَّ اسْتَخْلَصَهُمْ مُصَدِّقِينَ بِذَلِكَ فِي نُذُرِهِ فَقَالَ وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلا خَلا فِيها نَذِيرٌ تَاهَ مَنْ جَهِلَ وَاهْتَدَى مَنْ أَبْصَرَ وَعَقَلَ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ فَإِنَّها لا تَعْمَى الابْصارُ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ وَكَيْفَ يَهْتَدِي مَنْ لَمْ يُبْصِرْ وَكَيْفَ يُبْصِرُ مَنْ لَمْ يَتَدَبَّرْ اتَّبِعُوا رَسُولَ الله وَأَهْلَ بَيْتِهِ وَأَقِرُّوا بِمَا نَزَلَ مِنْ عِنْدِ الله وَاتَّبِعُوا آثَارَ الْهُدَى فَإِنَّهُمْ عَلامَاتُ الامَانَةِ وَالتُّقَى وَاعْلَمُوا أَنَّهُ لَوْ أَنْكَرَ رَجُلٌ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ علیہ السلام وَأَقَرَّ بِمَنْ سِوَاهُ مِنَ الرُّسُلِ لَمْ يُؤْمِنْ اقْتَصُّوا الطَّرِيقَ بِالْتِمَاسِ الْمَنَارِ وَالْتَمِسُوا مِنْ وَرَاءِ الْحُجُبِ الاثَارَ تَسْتَكْمِلُوا أَمْرَ دِينِكُمْ وَتُؤْمِنُوا بِالله رَبِّكُمْ۔

فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے تم صالحین میں سے نہیں ہو سکتے جب تک خدا کی معرفت حاصل نہ کرو اور معرفت نہیں ہو گی بغیر نبی کی تصدیق کیے اور یہ تصدیق نہیں ہو گی بغیر چار باتوں کے تسلیم کیے اور نہیں درست ہو گا پہلا بغیر آخر کے۔ جس نے تین کو مانا وہ گمراہ ہو گیا اور بہت حیران (سرگرداں) پھرا۔ خدا نہیں قبول کرتا مگر عملِ صالح کو اور خدا نہیں قبول کرتا مگر وفا کو جو شرط و عہود کے ساتھ ہو۔ پس جس نے شرط عہد کو پورا کیا اور ان امور کو بجا لایا جو داخل عہد تھے تو اس نے اپنے وعدے کو پورا کر لیا۔ خداوند عالم نے بندوں کو آگاہ کیا ہے ہدایت کے طریقوں سے اور قائم کیے انکے لیے ہدایت کے منارے اور آگاہ کیا ان کو کہ شریعت کی راہ میں کیسے چلیں اور فرمایا میں گناہوں کا بخشنے والا ہوں اس کو جو توبہ کرے اور ایمان کے ساتھ عمل صالح بجا لائے اور ہدایت قبول کرے اور فرمایا خدا متقیوں کے عمل کو قبول کرتا ہے پس جو اللہ سے ڈرا اس عمل میں جس کا اس نے حکم دیا ہے تو وہ مومن ہو کر اللہ سے ملے گا۔ افسوس افسوس اس قوم پر جو ہدایت حاصل کرنے سے پہلے مر گئی اور اسے اپنے مومن ہونے کا گمان رہا اور انھوں نے شرک کیا اس صورت سے کہ انہیں پتہ بھی نہ چلا۔ بے شک جو گھروں میں دروازے سے آیا اس نے ہدایت پائی اور جس نے غیر سے لیا اس نے ہلاکت کا راستہ طے کیا۔ خدا نے اپنے ولی امر کی اطاعت کو اپنے رسول کی اطاعت سے ملایا اور رسول کی اطاعت کو اپنی اطاعت سے جس نے والیان امر کی اطاعت ترک کی اس نے نہ اللہ کی اطاعت کی نہ رسول کی اور یہ اطاعت اقرار ہے ماجابہ النبی کا یعنی جو احکام آنحضرت پر نازل ہوئے ہر نماز کے وقت زینت کرو اور ان گھروں کو تلاش کرو جن کو بلند کیا ہے اور جن میں ذکر خدا ہوتا ہے اس لیے کہ تم کو خبر دی ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں کہ نہ بیع و فروخت ان کو ذکر خدا سے غافل کرتی ہے اور نہ تجارت اور وہ نماز کو قائم کرنے والے اور زکوٰۃ کو دینے والے ہیں اور ڈرتے ہیں اس روز سے جس میں دل پلٹ جائیں گے اور آنکھیں۔ خدا نے مخصوص کیا اپنے رسولوں کو اپنے امر کے لیے اور خالص کیا ان کو اس کی تصدیق کرنے کے لیے اپنے انداز میں جیسا کہ فرماتا ہے کہ کوئی امت ایسی نہیں ہوئی کی جس میں ڈرانے والا نہ آیا ہو۔ حیران پریشان ہوا جو اس سے جاہل رہا اور ہدایت یافتہ ہوا جس نے غور کیا اور عقل سے کام لیا۔
خدا کہتا ہے کہ جہالت آنکھوں کو اندھا نہیں کرتی بلکہ وہ ان دلوں کو اندھا بنا دیتی ہے جو سینوں کے اندر ہیں۔ کیونکر ہدایت پائے گا وہ جس نے سمجھا نہیں اور کیوں کر سمجھے گا وہ جس نے غور نہیں کیا۔ اللہ کے رسول کا اتباع کرو اور ان کے اہلبیت کا تباع کرو اور آثار ہدایت کا وہ امانت اور تقویٰ کے نشان ہیں اور سمجھ لو اگر کوئی عیسی ابن مریم علیہ السلام کا انکار کرے اور ان کے سوا دوسرے رسولوں کا اقرار کرے تو وہ ایمان نہیں لایا جو ہدایت کے منارے ہیں۔ ان تک پہنچو اور پردوں کے پیچھے آثار قدرت تلاش کرو تاکہ تمہارے دین کا معاملہ پورا ہو جائے اور تم اپنے رب اللہ پر ایمان لانے والے بن جاؤ۔

حدیث نمبر 7

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ صَغِيرٍ عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام أَنَّهُ قَالَ أَبَى الله أَنْ يُجْرِيَ الاشْيَاءَ إِلا بِأَسْبَابٍ فَجَعَلَ لِكُلِّ شَيْءٍ سَبَباً وَجَعَلَ لِكُلِّ سَبَبٍ شَرْحاً وَجَعَلَ لِكُلِّ شَرْحٍ عِلْماً وَجَعَلَ لِكُلِّ عِلْمٍ بَاباً نَاطِقاً عَرَفَهُ مَنْ عَرَفَهُ وَجَهِلَهُ مَنْ جَهِلَهُ ذَاكَ رَسُولُ الله ﷺ وَنَحْنُ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا خدا نے تمام اشیاء کو اسباب سے جاری کیا ہے اور ہر شے کا ایک سبب قرار دیا ہے اور ہر سبب کی ایک شرح ہے اور ہر تشریح کے لیے ایک علم ہے اور ہر علم کے لیے ایک باب ناطق ہے جس نے ان کو جانا اس نے معرفت حاصل کر لی اور جو جاہل رہا وہ جاہل رہا اور یہ علم والے رسول اللہ ہیں اور ہم۔

حدیث نمبر 8

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى عَنِ الْعَلاءِ بْنِ رَزِينٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ علیہ السلام يَقُولُ كُلُّ مَنْ دَانَ الله عَزَّ وَجَلَّ بِعِبَادَةٍ يُجْهِدُ فِيهَا نَفْسَهُ وَلا إِمَامَ لَهُ مِنَ الله فَسَعْيُهُ غَيْرُ مَقْبُولٍ وَهُوَ ضَالٌّ مُتَحَيِّرٌ وَالله شَانِئٌ لاعْمَالِهِ وَمَثَلُهُ كَمَثَلِ شَاةٍ ضَلَّتْ عَنْ رَاعِيهَا وَقَطِيعِهَا فَهَجَمَتْ ذَاهِبَةً وَجَائِيَةً يَوْمَهَا فَلَمَّا جَنَّهَا اللَّيْلُ بَصُرَتْ بِقَطِيعِ غَنَمٍ مَعَ رَاعِيهَا فَحَنَّتْ إِلَيْهَا وَاغْتَرَّتْ بِهَا فَبَاتَتْ مَعَهَا فِي مَرْبِضِهَا فَلَمَّا أَنْ سَاقَ الرَّاعِي قَطِيعَهُ أَنْكَرَتْ رَاعِيَهَا وَقَطِيعَهَا فَهَجَمَتْ مُتَحَيِّرَةً تَطْلُبُ رَاعِيَهَا وَقَطِيعَهَا فَبَصُرَتْ بِغَنَمٍ مَعَ رَاعِيهَا فَحَنَّتْ إِلَيْهَا وَاغْتَرَّتْ بِهَا فَصَاحَ بِهَا الرَّاعِي الْحَقِي بِرَاعِيكِ وَقَطِيعِكِ فَأَنْتِ تَائِهَةٌ مُتَحَيِّرَةٌ عَنْ رَاعِيكَ وَقَطِيعِكَ فَهَجَمَتْ ذَعِرَةً مُتَحَيِّرَةً تَائِهَةً لا رَاعِيَ لَهَا يُرْشِدُهَا إِلَى مَرْعَاهَا أَوْ يَرُدُّهَا فَبَيْنَا هِيَ كَذَلِكَ إِذَا اغْتَنَمَ الذِّئْبُ ضَيْعَتَهَا فَأَكَلَهَا وَكَذَلِكَ وَالله يَا مُحَمَّدُ مَنْ أَصْبَحَ مِنْ هَذِهِ الامَّةِ لا إِمَامَ لَهُ مِنَ الله عَزَّ وَجَلَّ ظَاهِرٌ عَادِلٌ أَصْبَحَ ضَالاً تَائِهاً وَإِنْ مَاتَ عَلَى هَذِهِ الْحَالَةِ مَاتَ مِيتَةَ كُفْرٍ وَنِفَاقٍ وَاعْلَمْ يَا مُحَمَّدُ أَنَّ أَئِمَّةَ الْجَوْرِ وَأَتْبَاعَهُمْ لَمَعْزُولُونَ عَنْ دِينِ الله قَدْ ضَلُّوا وَأَضَلُّوا فَأَعْمَالُهُمُ الَّتِي يَعْمَلُونَهَا كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ لا يَقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُوا عَلَى شَيْءٍ ذَلِكَ هُوَ الضَّلالُ الْبَعِيدُ۔

فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے جو شخص اللہ سے قربت چاہے اور عبادت میں مشقت اٹھائے اور اس کا منصوص من اللہ امام نہ ہو تو اس کی یہ کوشش غیر مقبول ہے وہ گمراہ ہے اور امر دین میں متحیر ہے اور خدا اس کے اعمال کا دشمن ہے اس کی مثال اس بکری کی سی ہے جو اپنے چرواہے سے جدا ہو گئی ہو اور اپنے غلہ کو اس نے چھوڑ دیا ہو اور اپنی گمشدگی کے دن اپنی آمد و رفت کے دن مضطرب ہو اس حالت میں کہ جب رات نے اس کو آ لیا تو اس نے بکریوں کے ایک گلہ کو اپنے چرواہے کے ساتھ دیکھا۔ پس وہ دھوکہ میں اس کی طرف چلی اور رات کو انہی کے تھان پر رہی۔ صبح کو جب گلہ بان اپنے گلے کو لے کر چلنے لگا تو اس کو یہ بکری غیر معلوم ہوئی۔ لہذا اپنے گلے سے اسے جدا کر دیا۔ اب وہ حیران ہو کر اپنے چرواہے اور گلہ کو ڈھونڈنے لگی۔ اب اس نے ایک بکری کو اس کے چرواہے کے ساتھ دیکھا پس دھوکا کھا کر اس کے ساتھ ہو لی۔ چرواہے نے کہا تو اپنے چرواہے اور گلے کے پاس جا۔ یہاں کیسے آ گئی۔ تو اپنے چرواہے اور گلے سے الگ ہو کر حیران و پریشان پھر رہی ہے اب وہ اس حالت میں مضطرب الحال اور گم کردہ راہ تھی کہ کوئی چرواہا اس کا نہ تھا۔ ناگاہ ایک بھیڑیے نے اس کی گمشدگی کو غنیمت جان کر چیر پھاڑ ڈالا۔ پس اے محمد (راوی) یہی حال اس امت کے اس شخص کا ہے جس کا کوئی امام منصوص من اللہ نہیں جو ظاہر و عادل ہو ایسی صورت میں وہ گمراہ ہو کر حیران و پریشان پھرتا ہے۔ اگر وہ اس حالت میں مر گیا تو کفر کی موت مرا اور نفاق کی حالت میں مرا۔ اے محمد جان لو کہ آئمہ کفر اور انکے تابعین دین سے الگ ہیں اور خود گمراہ ہیں اور دوسروں کو گمراہ کرنے والے۔ ان کے اعمال اس راکھ کی طرح ہیں جس کو آندھی کا جھونکا اڑا کر لے جائے جو کچھ انھوں نے کیا ہے وہ اس کی کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتے بس اسی کا نام کھلی گمراہی ہے۔

حدیث نمبر 9

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُمْهُورٍ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنِ الْهَيْثَمِ بْنِ وَاقِدٍ عَنْ مُقَرِّنٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام يَقُولُ جَاءَ ابْنُ الْكَوَّاءِ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَعَلَى الاعْرافِ رِجالٌ يَعْرِفُونَ كُلاً بِسِيماهُمْ فَقَالَ نَحْنُ عَلَى الاعْرَافِ نَعْرِفُ أَنْصَارَنَا بِسِيمَاهُمْ وَنَحْنُ الاعْرَافُ الَّذِي لا يُعْرَفُ الله عَزَّ وَجَلَّ إِلا بِسَبِيلِ مَعْرِفَتِنَا وَنَحْنُ الاعْرَافُ يُعَرِّفُنَا الله عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى الصِّرَاطِ فَلا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلا مَنْ عَرَفَنَا وَعَرَفْنَاهُ وَلا يَدْخُلُ النَّارَ إِلا مَنْ أَنْكَرَنَا وَأَنْكَرْنَاهُ إِنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَوْ شَاءَ لَعَرَّفَ الْعِبَادَ نَفْسَهُ وَلَكِنْ جَعَلَنَا أَبْوَابَهُ وَصِرَاطَهُ وَسَبِيلَهُ وَالْوَجْهَ الَّذِي يُؤْتَى مِنْهُ فَمَنْ عَدَلَ عَنْ وَلايَتِنَا أَوْ فَضَّلَ عَلَيْنَا غَيْرَنَا فَإِنَّهُمْ عَنِ الصِّرَاطِ لَنَاكِبُونَ فَلا سَوَاءٌ مَنِ اعْتَصَمَ النَّاسُ بِهِ وَلا سَوَاءٌ حَيْثُ ذَهَبَ النَّاسُ إِلَى عُيُونٍ كَدِرَةٍ يَفْرَغُ بَعْضُهَا فِي بَعْضٍ وَذَهَبَ مَنْ ذَهَبَ إِلَيْنَا إِلَى عُيُونٍ صَافِيَةٍ تَجْرِي بِأَمْرِ رَبِّهَا لا نَفَادَ لَهَا وَلا انْقِطَاعَ۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ ابن الکوا امیر المومنین علیہ السلام کے پاس آیا اور کہنے لگا امیر المومنین کیا مطلب ہے اس آیت کا " اعراف پر کچھ لوگ ہوں گے جو سب کو ان کی پیشانیاں دیکھ کر پہچانیں گے"۔ فرمایا اعراف ہم ہیں ہم اپنے انصار کو ان کی پیشانیوں سے پہچانیں گے۔ ہم ہی وہ اعراف ہیں کہ اللہ کی معرفت نہیں ہوتی مگر ہماری معرفت کی راہ سے اور ہم ہی وہ اعراف ہیں جن کی معرفت خدا روز قیامت صراط پر کرائیگا۔ پس جنت میں داخل نہ ہو گا مگر وہ جس نے ہمیں پہچانا ہو گا اور جس کو ہم نے پہچانا ہو گا اور دوزخ میں نہیں داخل ہو گا مگر وہ جس نے ہمارا اور ہم نے اس کا انکار کیا ہو گا۔ اگر خدا چاہتا تو اپنے بندوں کو اپنی معرفت خود کرا دیتا لیکن اس نے ہم کو اپنے دروازے، اپنی صراط اور اپنا راستہ قرار دیا اور وجہ بنایا جس سے اس کی طرف توجہ کی جاتی ہے۔ پس جس نے ہماری ولایت سے عدول کیا اور ہمارے غیر کو ہم پر فضیلت دی تو ایسے لوگ صراط سے دھکیل دیے جائیں گے جو لوگ غیروں سے تمسک کریں اور مکدر چشموں سے سیراب ہوں وہ کیسے برابر ہوں گے ان کے جو ہماری طرف رجوع کریں اور ایسے چشموں سے سیراب ہوں جو امرِ رب سے جاری ہیں ان کے لیے ختم ہوناہے اور نہ قطع ہونا۔

حدیث نمبر 10

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ بَكْرِ بْنِ صَالِحٍ عَنِ الرَّيَّانِ بْنِ شَبِيبٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْخَزَّازِ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ قَالَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام يَا أَبَا حَمْزَةَ يَخْرُجُ أَحَدُكُمْ فَرَاسِخَ فَيَطْلُبُ لِنَفْسِهِ دَلِيلاً وَأَنْتَ بِطُرُقِ السَّمَاءِ أَجْهَلُ مِنْكَ بِطُرُقِ الارْضِ فَاطْلُبْ لِنَفْسِكَ دَلِيلاً۔

فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے اے ابوحمزہ اگر تم میں سے کوئی چند فرسخ جاتا ہے تو اپنے لیے ایک رہنما تلاش کرتا ہے اور تم آسمانی راستوں سے بہ نسبت زمین کے راستوں کے زیادہ بے خبر ہو تو ایسی صورت میں اپنے لیے بھی ایک رہنما تلاش کرو۔

حدیث نمبر 11

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ الْحُرِّ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً كَثِيراً فَقَالَ طَاعَةُ الله وَمَعْرِفَةُ الامَامِ۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس آیت کے متعلق "جس کو حکمت دی گئی اسے خیر کثیر دی گئی" اس حکمت سے مراد اللہ کی اطاعت اور معرفت امام ہے۔

حدیث نمبر 12

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ عَبْدِ الله بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ أَبَانٍ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ قَالَ لِي أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام هَلْ عَرَفْتَ إِمَامَكَ قَالَ قُلْتُ إِي وَالله قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ مِنَ الْكُوفَةِ فَقَالَ حَسْبُكَ إِذاً۔

ابو بصیر سے امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا، تم نے اپنے امام کو پہچانا۔ میں نے کہا خدا کی قسم میں نے کوفہ سے نکلنے سے پہلے یہی کیا ہے یعنی آپ کی خدمت میں اسی لیے آیا ہوں۔ فرمایا تو ٹھیک ہے۔

حدیث نمبر 13

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ يُونُسَ عَنْ بُرَيْدٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ علیہ السلام يَقُولُ فِي قَوْلِ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَ وَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ فَقَالَ مَيْتٌ لا يَعْرِفُ شَيْئاً وَنُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ إِمَاماً يُؤْتَمُّ بِهِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها قَالَ الَّذِي لا يَعْرِفُ الامَامَ۔

برید سے روایت ہے کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے سنا آیت "جو میت کی طرح تھا ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس کے لیے ایک نور قرار دیا کہ وہ اس کی روشنی میں لوگوں کے درمیان چلے" کے متعلق فرمایا میت سے مراد وہ شخص ہے جو اپنی مشکلات کو نہیں پہچانتا اور نور سے مراد امام ہے جس کی اقتداء کی جائے مشکلات میں اور جو پیروی نہ کرے وہ اس کی مانند ہے کہ شبہات کی تاریکیوں میں اس طرح لپٹا ہوا ہو کہ اس سے نہ نکل سکے یہ وہ ہے جو امام کی معرفت نہیں رکھتا۔

حدیث نمبر 14

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أُورَمَةَ وَمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ عَلِيِّ بْنِ حَسَّانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَثِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام دَخَلَ أَبُو عَبْدِ الله الْجَدَلِيُّ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ فَقَالَ علیہ السلام يَا أَبَا عَبْدِ الله أَ لا أُخْبِرُكَ بِقَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ مَنْ جاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِنْها وَهُمْ مِنْ فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ. وَمَنْ جاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ هَلْ تُجْزَوْنَ إِلا ما كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ قَالَ بَلَى يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ جُعِلْتُ فِدَاكَ فَقَالَ الْحَسَنَةُ مَعْرِفَةُ الْوَلايَةِ وَحُبُّنَا أَهْلَ الْبَيْتِ وَالسَّيِّئَةُ إِنْكَارُ الْوَلايَةِ وَبُغْضُنَا أَهْلَ الْبَيْتِ ثُمَّ قَرَأَ عَلَيْهِ هَذِهِ الايَةَ۔

فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے ابو عبداللہ جدلی امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا فرمایا حضرت نے کہا کیا خبر دوں تجھے اس آیت کے متعلق "جس نے نیکی کی خدا کی طرف سے بہتر نیکی اس کے لیے ہے اور روز قیامت کے دن کی بے چینی سے امن پائے گا اور جس نے بدی کی وہ اوندھے منہ جہنم میں دھکیل دیا جائے گا یہ بدلہ اس عمل کا ہے جو اس نے کیا تھا"۔ میں نے کہا اے امیر المومنین ضرور آگاہ کیجیے۔ فرمایا حسنہ سے مراد معرفت ولایت اور ہم اہلبیتؑ کی محبت اور سیّہ سے مراد انکار ولایت اور ہم اہلبیت سے بغض۔