مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

(3-67)

اشارہ اور نص امامت امام حسین علیہ السلام پر

حدیث نمبر 1

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ بَكْرِ بْنِ صَالِحٍ قَالَ الْكُلَيْنِيُّ وَعِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنِ ابْنِ زِيَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ الدَّيْلَمِيِّ عَنْ هَارُونَ بْنِ الْجَهْمِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ علیہ السلام يَقُولُ لَمَّا حَضَرَ الْحَسَنَ بن علي (عَلَيْهما السَّلام) الْوَفَاةُ قَالَ لِلْحُسَيْنِ علیہ السلام يَا أَخِي إِنِّي أُوصِيكَ بِوَصِيَّةٍ فَاحْفَظْهَا إِذَا أَنَا مِتُّ فَهَيِّئْنِي ثُمَّ وَجِّهْنِي إِلَى رَسُولِ الله ﷺ لاحْدِثَ بِهِ عَهْداً ثُمَّ اصْرِفْنِي إِلَى أُمِّي (عليها السلام) ثُمَّ رُدَّنِي فَادْفِنِّي بِالْبَقِيعِ وَاعْلَمْ أَنَّهُ سَيُصِيبُنِي مِنْ عَائِشَةَ مَا يَعْلَمُ الله وَالنَّاسُ صَنِيعُهَا وَعَدَاوَتُهَا لله وَلِرَسُولِهِ وَعَدَاوَتُهَا لَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ فَلَمَّا قُبِضَ الْحَسَنُ علیہ السلام وَوُضِعَ عَلَى السَّرِيرِ ثُمَّ انْطَلَقُوا بِهِ إِلَى مُصَلَّى رَسُولِ الله ﷺ الَّذِي كَانَ يُصَلِّي فِيهِ عَلَى الْجَنَائِزِ فَصَلَّى عَلَيْهِ الْحُسَيْنُ علیہ السلام وَحُمِلَ وَأُدْخِلَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَلَمَّا أُوقِفَ عَلَى قَبْرِ رَسُولِ الله ﷺ ذَهَبَ ذُو الْعُوَيْنَيْنِ إِلَى عَائِشَةَ فَقَالَ لَهَا إِنَّهُمْ قَدْ أَقْبَلُوا بِالْحَسَنِ لِيَدْفِنُوا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فَخَرَجَتْ مُبَادِرَةً عَلَى بَغْلٍ بِسَرْجٍ فَكَانَتْ أَوَّلَ امْرَأَةٍ رَكِبَتْ فِي الاسْلامِ سَرْجاً فَقَالَتْ نَحُّوا ابْنَكُمْ عَنْ بَيْتِي فَإِنَّهُ لا يُدْفَنُ فِي بَيْتِي وَيُهْتَكُ عَلَى رَسُولِ الله حِجَابُهُ فَقَالَ لَهَا الْحُسَيْنُ علیہ السلام قَدِيماً هَتَكْتِ أَنْتِ وَأَبُوكِ حِجَابَ رَسُولِ الله ﷺ وَأَدْخَلْتِ عَلَيْهِ بَيْتَهُ مَنْ لا يُحِبُّ قُرْبَهُ وَإِنَّ الله سَائِلُكِ عَنْ ذَلِكِ يَا عَائِشَةُ۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے سنا کہ جب امام حسین کی وفات کا وقت آیا تو امام حسین علیہ السلام سے کہا اے برادر میں تم کو ایک وصیت کرتا ہوں اس پر نظر رکھنا جب میں مر جاؤں تو میرا جنازہ تیار کرنا، میرا رخ قبر رسول کی طرف کرنا تاکہ ان سے اپنے عہد کو تازہ کروں پھر میرا رخ والدہ گرامی کی قبر کی طرف کرنا، پھر مجھے بقیع میں دفن کر دینا اور جان لو کہ مجھے عائشہ کی طرف سے وہ تکلیف پہنچے گی جسے اللہ بھی جانتا ہے اور وہ لوگ بھی اس کی کارگزاری کو سمجھتے ہیں کہ ان کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ہم اہلبیت سے جو عداوت ہے۔ پس جب امام حسن کا انتقال ہو گیا اور جنازہ تیار ہوا اور ان کو لے گئے مسجد رسول میں اس مقام پر جہاں آنحضرت مردوں پر نماز پڑھا کرتے تھے تو امام حسین نے نماز جنازہ پڑھی اور اس کے بعد قبر رسول کی طرف لے تو ایک ابلیس صفت نے جا کر عائشہ کو خبر کر دی۔ اس نے کہا کہ لوگ حسن کا جنازہ لے کر آئے ہیں تاکہ رسول اللہ کے پاس دفن کریں یہ سن کر وہ ایک زین کسے ہوئے خچر پر سوار ہو کر نکلیں اور وہ اسلام میں سب سے پہلی بی بی تھیں جو زین پر سوار ہوئیں اور انھوں نے کہا تم اے بنی ہاشم اپنے بیٹے کو میرے گھر سے لے جاؤ۔ یہ میرے گھر میں دفن نہ ہوں گے اور اس کے اور رسول اللہ کے درمیان پردہ چاک نہ ہو گا۔
امام حسین نے ان سے کہا کہ آپ تو یہ پردہ پہلے ہی اپنے باپ کے لیے چاک کر چکیں ہیں اور پہلو رسول میں ان کو جگہ دے چکیں جن کا قرب رسول کو پسند نہ تھا آپ کو پیش خدا اس کا جواب دینا ہو گا۔

حدیث نمبر 2

مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ الدَّيْلَمِيِّ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ لَمَّا حَضَرَتِ الْحَسَنَ بن علي (عَلَيْهما السَّلام) الْوَفَاةُ قَالَ يَا قَنْبَرُ انْظُرْ هَلْ تَرَى مِنْ وَرَاءِ بَابِكَ مُؤْمِناً مِنْ غَيْرِ آلِ مُحَمَّدٍ (عَلَيْهم السَّلام) فَقَالَ الله تَعَالَى وَرَسُولُهُ وَابْنُ رَسُولِهِ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي قَالَ ادْعُ لِي مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ فَأَتَيْتُهُ فَلَمَّا دَخَلْتُ عَلَيْهِ قَالَ هَلْ حَدَثَ إِلا خَيْرٌ قُلْتُ أَجِبْ أَبَا مُحَمَّدٍ فَعَجَّلَ عَلَى شِسْعِ نَعْلِهِ فَلَمْ يُسَوِّهِ وَخَرَجَ مَعِي يَعْدُو فَلَمَّا قَامَ بَيْنَ يَدَيْهِ سَلَّمَ فَقَالَ لَهُ الْحَسَنُ بن علي (عَلَيْهما السَّلام) اجْلِسْ فَإِنَّهُ لَيْسَ مِثْلُكَ يَغِيبُ عَنْ سَمَاعِ كَلامٍ يَحْيَا بِهِ الامْوَاتُ وَيَمُوتُ بِهِ الاحْيَاءُ كُونُوا أَوْعِيَةَ الْعِلْمِ وَمَصَابِيحَ الْهُدَى فَإِنَّ ضَوْءَ النَّهَارِ بَعْضُهُ أَضْوَأُ مِنْ بَعْضٍ أَ مَا عَلِمْتَ أَنَّ الله جَعَلَ وُلْدَ إِبْرَاهِيمَ علیہ السلام أَئِمَّةً وَفَضَّلَ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَآتَى دَاوُدَ علیہ السلام زَبُوراً وَقَدْ عَلِمْتَ بِمَا اسْتَأْثَرَ بِهِ مُحَمَّداً ﷺ يَا مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكَ الْحَسَدَ وَإِنَّمَا وَصَفَ الله بِهِ الْكَافِرِينَ فَقَالَ الله عَزَّ وَجَلَّ كُفَّاراً حَسَداً مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ ما تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ وَلَمْ يَجْعَلِ الله عَزَّ وَجَلَّ لِلشَّيْطَانِ عَلَيْكَ سُلْطَاناً يَا مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ أَ لا أُخْبِرُكَ بِمَا سَمِعْتُ مِنْ أَبِيكَ فِيكَ قَالَ بَلَى قَالَ سَمِعْتُ أَبَاكَ علیہ السلام يَقُولُ يَوْمَ الْبَصْرَةِ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَبَرَّنِي فِي الدُّنْيَا وَالاخِرَةِ فَلْيَبَرَّ مُحَمَّداً وَلَدِي يَا مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ لَوْ شِئْتُ أَنْ أُخْبِرَكَ وَأَنْتَ نُطْفَةٌ فِي ظَهْرِ أَبِيكَ لاخْبَرْتُكَ يَا مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ أَ مَا عَلِمْتَ أَنَّ الْحُسَيْنَ بن علي (عَلَيْهما السَّلام) بَعْدَ وَفَاةِ نَفْسِي وَمُفَارَقَةِ رُوحِي جِسْمِي إِمَامٌ مِنْ بَعْدِي وَعِنْدَ الله جَلَّ اسْمُهُ فِي الْكِتَابِ وِرَاثَةً مِنَ النَّبِيِّ ﷺ أَضَافَهَا الله عَزَّ وَجَلَّ لَهُ فِي وِرَاثَةِ أَبِيهِ وَأُمِّهِ فَعَلِمَ الله أَنَّكُمْ خِيَرَةُ خَلْقِهِ فَاصْطَفَى مِنْكُمْ مُحَمَّداً ﷺ وَاخْتَارَ مُحَمَّدٌ عَلِيّاً علیہ السلام وَاخْتَارَنِي علي علیہ السلام بِالامَامَةِ وَاخْتَرْتُ أَنَا الْحُسَيْنَ علیہ السلام فَقَالَ لَهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ أَنْتَ إِمَامٌ وَأَنْتَ وَسِيلَتِي إِلَى مُحَمَّدٍ ﷺ وَالله لَوَدِدْتُ أَنَّ نَفْسِي ذَهَبَتْ قَبْلَ أَنْ أَسْمَعَ مِنْكَ هَذَا الْكَلامَ أَلا وَإِنَّ فِي رَأْسِي كَلاماً لا تَنْزِفُهُ الدِّلاءُ وَلا تُغَيِّرُهُ نَغْمَةُ الرِّيَاحِ كَالْكِتَابِ الْمُعْجَمِ فِي الرَّقِّ الْمُنَمْنَمِ أَهُمُّ بِإِبْدَائِهِ فَأَجِدُنِي سُبِقْتُ إِلَيْهِ سَبَقَ الْكِتَابُ الْمُنْزَلُ أَوْ مَا جَاءَتْ بِهِ الرُّسُلُ وَإِنَّهُ لَكَلامٌ يَكِلُّ بِهِ لِسَانُ النَّاطِقِ وَيَدُ الْكَاتِبِ حَتَّى لا يَجِدَ قَلَماً وَيُؤْتَوْا بِالْقِرْطَاسِ حُمَماً فَلا يَبْلُغُ إِلَى فَضْلِكَ وَكَذَلِكَ يَجْزِي الله الْمُحْسِنِينَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِالله الْحُسَيْنُ أَعْلَمُنَا عِلْماً وَأَثْقَلُنَا حِلْماً وَأَقْرَبُنَا مِنْ رَسُولِ الله ﷺ رَحِماً كَانَ فَقِيهاً قَبْلَ أَنْ يُخْلَقَ وَقَرَأَ الْوَحْيَ قَبْلَ أَنْ يَنْطِقَ وَلَوْ عَلِمَ الله فِي أَحَدٍ خَيْراً مَا اصْطَفَى مُحَمَّداً ﷺ فَلَمَّا اخْتَارَ الله مُحَمَّداً وَاخْتَارَ مُحَمَّدٌ عَلِيّاً وَاخْتَارَكَ عَلِيٌّ إِمَاماً وَاخْتَرْتَ الْحُسَيْنَ سَلَّمْنَا وَرَضِينَا مَنْ هُوَ بِغَيْرِهِ يَرْضَى وَمَنْ غَيْرُهُ كُنَّا نَسْلَمُ بِهِ مِنْ مُشْكِلاتِ أَمْرِنَا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ جناب کی وفات کا وقت قریب آیا تو قنبر سے فرمایا دروازہ آل محمد کے سوا کوئی اور تو نہیں۔ میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول اور فرزند بہتر جانتے ہیں کہ اور کوئی نہیں۔ فرمایا تم جا کر محمد حنفیہ کو بلا لاؤ۔ میں ان کے پاس گیا۔ انھوں نے کہا خیر تو ہے۔ آپ کو امام حسین علیہ السلام نے بلایا ہے۔ انھوں نے جلدی سے جوتے کے بند باندھے اور جلدی میں ٹھیک نہ بندھ سکے اور دوڑتے ہوئے آئے۔ جب حضرت کے پاس پہنچے تو سلام کیا امام حسین نے فرمایا بیٹھو تم جیسا اور کون ہے جو اس کلام کو سنے، جس سے مردے زندہ ہو جاتے ہیں اور زندہ مر جاتے ہیں۔ تم ظرفِ علم بنے رہو اور چراغ ہدایت دن کی روشنی بعض حصہ کی بعض سے زیادہ تیز ہوتی ہے۔ تم نہیں جانتے کہ اللہ نے اولاد ابراہیم کو امام بنایا اور بعض کو بعض پر فضیلت دی اور داؤد کو زبور عطا کی اور تم کو معلوم ہے کہ حضرت رسولِ خدا کے بعد بھی یہی طریقہ جاری رہا۔
اے محمد بن علی تم کو حسد سے ڈراتا ہوں خدا نے اس حسد کا وصف کافروں کے لیے بیان کیا ہے جیسا کہ فرماتا ہے وہ کافر ہیں حسد کرتے ہیں اپنوں ہی سے بعد ان کے کہ حق ان پر ظاہر ہو چکا ہے اور اے محمد بن علی اللہ تعالیٰ تم پر شیطان کو قابو نہ دے۔ کیا میں تم کو آگاہ کروں جو میں نے تمہارے بارے میں تمہارے باپ سے سنا ہے۔ انھوں نے کہا ضرور۔ فرمایا میں یوم بصرہ (جنگ جمل) تمہارے پدر بزرگوار کو کہتے سنا کہ جو چاہتا ہے کہ دنیا و آخرت میں مجھ سے نیکی کرے اس کو چاہیے کہ میرے بیٹے محمد سے نیکی کرے اور اے محمد بن علی اگر تم چاہو تو میں تم کو آگاہ کر دوں اس وقت سے جبکہ تم بصورت نطفہ اپنے باپ کی پشت میں تھے۔ اے محمد بن علی کیا تم نہیں جانتے کہ امام حسین نے فرمایا تھا میری وفات کے بعد یہ امام ہے میرے بعد اور خدا کے نزدیک یہ کتاب میں ہے اور یہ وراثت ہے نبی کی جس کو عطا کیا امام حسین کو اللہ نے ان کے ماں باپ کی طرف سے خدا کے علم میں یہ تھا کہ اے بنی ہاشم تم اس کی مخلوق میں سے سب بہتر ہو۔ پس بنی ہاشم میں سے اس نے محمد کا انتخاب کیا اور محمد نے علی کو منتخب کیا اور امام حسن نے فرمایا علی نے مجھے منتخب کیا اور فرمایا میں حسین کو منتخب کرتا ہوں۔
یہ سن کر محمد بن علی نے کہا آپ امام ہیں اور وسیلہ ہیں رسولِ خدا تک پہنچنے کا واللہ میں یہ پسند کرتا کہ آپ سے یہ کلام سننے سے پہلے مر جاتا۔ میرے سر میں وہ کلام ہے جو اس کثیر پانی والے کنویں کی مانند ہے جس کا پانی کثیر ڈول کھینچنے سے کم نہیں ہوتا اور ہوائیں بو نہیں پیدا کرتیں(کاش میں حسد کو اپنی طرف دیے جانے سے پہلے مر جاتا اور یہ کہ آپ کے فضائل مجھے اتنے معلوم ہیں کہ وہ ختم ہونیوالے نہیں)۔
وہ ایک لکھی ہوئی گویا کتاب ہے مزین کاغذ پر میں نے چاہا کہ ان فضائل کو بیان کروں لیکن میں نے دیکھا کہ وہ کتاب خدا میں پہلے سے موجود ہیں اور سابقہ کتب میں خدا کے رسول ان کو پڑھ چکے ہیں۔ بیشک یہ کلام ایسا ہے کہ بولنے والوں کی زبانیں خاموش ہیں اور کاتبوں کے قلم شکستہ بلکہ وہ قلم کو ان کے فضائل کے لیے پاتے ہی نہیں اور دیکھنے والوں نے اتنا لکھا ہے کہ کاغذ کا کوئی حصہ سیاہ ہوئے بغیر نہیں رہا۔ آپ کی فضیلت کو کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ خدا محسنوں کو ایسا ہی بدلہ دیتا ہے اور نہیں ہے قوت مگر جو اللہ دیتا ہے۔
حسین نے ہم کو علم دیا اور حلم والا بنایا اور ازروئے رحم ہم کو رسول اللہ سے قریب کیا۔ امام حسین فقیہہ ہیں پیدا ہونے سے پہلے ہی سے اور انھوں نے وحی کو پڑھا ہے بولنے سے پہلے اگر خدا خیر میں کسی اور میں پاتا تو حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو انتخاب نہ کرتا۔ خدا نے محمد کا انتخاب کیا اور انھوں نے علی کا اور علی نے آپ کو امامت کے لیے منتخب کیا اور آپ نے حسین کو انتخاب کیا ہم نے تسلیم کر لیا اور راضی ہو گئے اور ان کے سوا اور کون ہے جس سے ہم راضی ہوتے ہم نے مشکلات میں اپنے امر کا مالک انہی کو تسلیم کر لیا ہے۔

حدیث نمبر 3

وَبِهَذَا الاسْنَادِ عَنْ سَهْلٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ هَارُونَ بْنِ الْجَهْمِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ علیہ السلام يَقُولُ لَمَّا احْتُضِرَ الْحَسَنُ بن علي (عَلَيْهما السَّلام) قَالَ لِلْحُسَيْنِ يَا أَخِي إِنِّي أُوصِيكَ بِوَصِيَّةٍ فَاحْفَظْهَا فَإِذَا أَنَا مِتُّ فَهَيِّئْنِي ثُمَّ وَجِّهْنِي إِلَى رَسُولِ الله ﷺ لاحْدِثَ بِهِ عَهْداً ثُمَّ اصْرِفْنِي إِلَى أُمِّي فَاطِمَةَ (عليها السلام) ثُمَّ رُدَّنِي فَادْفِنِّي بِالْبَقِيعِ وَاعْلَمْ أَنَّهُ سَيُصِيبُنِي مِنَ الْحُمَيْرَاءِ مَا يَعْلَمُ النَّاسُ مِنْ صَنِيعِهَا وَعَدَاوَتِهَا لله وَلِرَسُولِهِ ﷺ وَعَدَاوَتِهَا لَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ فَلَمَّا قُبِضَ الْحَسَنُ علیہ السلام وَوُضِعَ عَلَى سَرِيرِهِ فَانْطَلَقُوا بِهِ إِلَى مُصَلَّى رَسُولِ الله ﷺ الَّذِي كَانَ يُصَلِّي فِيهِ عَلَى الْجَنَائِزِ فَصَلَّى عَلَى الْحَسَنِ علیہ السلام فَلَمَّا أَنْ صَلَّى عَلَيْهِ حُمِلَ فَأُدْخِلَ الْمَسْجِدَ فَلَمَّا أُوقِفَ عَلَى قَبْرِ رَسُولِ الله ﷺ بَلَغَ عَائِشَةَ الْخَبَرُ وَقِيلَ لَهَا إِنَّهُمْ قَدْ أَقْبَلُوا بِالْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ لِيُدْفَنَ مَعَ رَسُولِ الله فَخَرَجَتْ مُبَادِرَةً عَلَى بَغْلٍ بِسَرْجٍ فَكَانَتْ أَوَّلَ امْرَأَةٍ رَكِبَتْ فِي الاسْلامِ سَرْجاً فَوَقَفَتْ وَقَالَتْ نَحُّوا ابْنَكُمْ عَنْ بَيْتِي فَإِنَّهُ لا يُدْفَنُ فِيهِ شَيْ‏ءٌ وَلا يُهْتَكُ عَلَى رَسُولِ الله حِجَابُهُ فَقَالَ لَهَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ صَلَوَاتُ الله عَلَيْهِمَا قَدِيماً هَتَكْتِ أَنْتِ وَأَبُوكِ حِجَابَ رَسُولِ الله وَأَدْخَلْتِ بَيْتَهُ مَنْ لا يُحِبُّ رَسُولُ الله قُرْبَهُ وَإِنَّ الله سَائِلُكِ عَنْ ذَلِكِ يَا عَائِشَةُ إِنَّ أَخِي أَمَرَنِي أَنْ أُقَرِّبَهُ مِنْ أَبِيهِ رَسُولِ الله ﷺ لِيُحْدِثَ بِهِ عَهْداً وَاعْلَمِي أَنَّ أَخِي أَعْلَمُ النَّاسِ بِالله وَرَسُولِهِ وَأَعْلَمُ بِتَأْوِيلِ كِتَابِهِ مِنْ أَنْ يَهْتِكَ عَلَى رَسُولِ الله سِتْرَهُ لانَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَقُولُ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ وَقَدْ أَدْخَلْتِ أَنْتِ بَيْتَ رَسُولِ الله ﷺ الرِّجَالَ بِغَيْرِ إِذْنِهِ وَقَدْ قَالَ الله عَزَّ وَجَلَّ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَرْفَعُوا أَصْواتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَعَمْرِي لَقَدْ ضَرَبْتِ أَنْتِ لابِيكِ وَفَارُوقِهِ عِنْدَ أُذُنِ رَسُولِ الله ﷺ الْمَعَاوِلَ وَقَالَ الله عَزَّ وَجَلَّ إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْواتَهُمْ عِنْدَ رَسُولِ الله أُولئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ الله قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوى‏ وَلَعَمْرِي لَقَدْ أَدْخَلَ أَبُوكِ وَفَارُوقُهُ عَلَى رَسُولِ الله ﷺ بِقُرْبِهِمَا مِنْهُ الاذَى وَمَا رَعَيَا مِنْ حَقِّهِ مَا أَمَرَهُمَا الله بِهِ عَلَى لِسَانِ رَسُولِ الله ﷺ إِنَّ الله حَرَّمَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَمْوَاتاً مَا حَرَّمَ مِنْهُمْ أَحْيَاءً وَتَالله يَا عَائِشَةُ لَوْ كَانَ هَذَا الَّذِي كَرِهْتِيهِ مِنْ دَفْنِ الْحَسَنِ عِنْدَ أَبِيهِ رَسُولِ الله ﷺ جَائِزاً فِيمَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الله لَعَلِمْتِ أَنَّهُ سَيُدْفَنُ وَإِنْ رَغِمَ مَعْطِسُكِ قَالَ ثُمَّ تَكَلَّمَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَنَفِيَّةِ وَقَالَ يَا عَائِشَةُ يَوْماً عَلَى بَغْلٍ وَيَوْماً عَلَى جَمَلٍ فَمَا تَمْلِكِينَ نَفْسَكِ وَلا تَمْلِكِينَ الارْضَ عَدَاوَةً لِبَنِي هَاشِمٍ قَالَ فَأَقْبَلَتْ عَلَيْهِ فَقَالَتْ يَا ابْنَ الْحَنَفِيَّةِ هَؤُلاءِ الْفَوَاطِمُ يَتَكَلَّمُونَ فَمَا كَلامُكَ فَقَالَ لَهَا الْحُسَيْنُ علیہ السلام وَأَنَّى تُبْعِدِينَ مُحَمَّداً مِنَ الْفَوَاطِمِ فَوَ الله لَقَدْ وَلَدَتْهُ ثَلاثُ فَوَاطِمَ فَاطِمَةُ بِنْتُ عِمْرَانَ بْنِ عَائِذِ بْنِ عَمْرِو بْنِ مَخْزُومٍ وَفَاطِمَةُ بِنْتُ أَسَدِ بْنِ هَاشِمٍ وَفَاطِمَةُ بِنْتُ زَائِدَةَ بْنِ الاصَمِّ ابْنِ رَوَاحَةَ بْنِ حِجْرِ بْنِ عَبْدِ مَعِيصِ بْنِ عَامِرٍ قَالَ فَقَالَتْ عَائِشَةُ لِلْحُسَيْنِ علیہ السلام نَحُّوا ابْنَكُمْ وَاذْهَبُوا بِهِ فَإِنَّكُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ قَالَ فَمَضَى الْحُسَيْنُ علیہ السلام إِلَى قَبْرِ أُمِّهِ ثُمَّ أَخْرَجَهُ فَدَفَنَهُ بِالْبَقِيعِ۔

راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو یہ کہتے سنا کہ جب امام حسن کا وقت وفات قریب آیا تو آپ نے امام حسین سے فرمایا اے میرے بھائی میں تم کو وصیت کرتا ہوں اسے یاد رکھنا۔ پس جب میں مر جاؤں تو مجھے تجہیز و تکفین کر کے رسول کی قبر کے طرف میرا رخ کر دینا تاکہ میں اپنا عہد ان سے تازہ کروں پھر میرا رخ میری والدہ کی ماجدہ کی طرف کر دینا۔ پھر مجھ کو جنت البقیع میں دفن کر دینا اور یہ جان لو کہ عائشہ سے مجھے وہ تکلیف پہنچے گی جسے تم جانتے ہو اور لوگ بھی جانتے ہیں ان کو اللہ کے رسول سے اور ہم اہلبیت سے عداوت ہے جب امام حسن کی روح قبض ہوئی اور ان کا جنازہ تیار ہوا تو بنی ہاشم اس مقام پر لے گئے جہاں رسول اللہ نماز جنازہ پڑھا کرتے تھے۔ بعد نماز جنازہ کو قبر رسول کے پاس لائے کسی نے حضرت عائشہ کو خبر دی کہ بنی ہاشم حضرت حسن بن علی کو رسول اللہ کے پاس دفن کرنا چاہتے ہیں وہ یہ سن کر زین کسے ہوئے خچر پر سوار ہو کر نکلیں ، اسلام میں سبب سے پہلے عورتوں میں ایسی سواری کرنے والی وہی تھیں انھوں نے بنی ہاشم سے کہا تم اپنے بیٹے کو میرے گھر سے لے جاؤ یہاں وہ دفن نہیں ہونگے ان کے اور رسول کے درمیان پردہ نہیں ہٹے گا۔ امام حسین علیہ السلام نے کہا یہ تو آپ اپنے باپ کو دفن کر کے کر چکیں اور جن کو رسول اللہ دوست نہ رکھتے تھے وہ ہو چکا۔ خدا اس کے متعلق آپ سے باز پرس کریگا۔ میرے بھائی کی یہ وصیت کہ وہ اپنے پدر بزرگوار اور رسول اللہ کے پاس دفن ہوں اور اپنے عہد کو ان سے پورا کریں آپ کو معلوم ہے کہ میرے بھائی اللہ اور رسول کی سب سے زیادہ معرفت رکھنے والے تھے اور قرآن کی تاویل کے سب سے زیادہ جاننے والے تھے ان کے اور رسول کے درمیان حجاب کیسا۔
اور اللہ فرماتا ہے کہ اے ایمان والو نبی کے گھروں میں داخل نہ ہو مگر ان کے اذن اور اجازت سے اور آپ نے بغیر آنحضرت سے اذن لیے لوگوں کو داخل کر دیا (یعنی ابوبکر و عمر کو دفن کر دیا) حالانکہ خدا فرماتا ہے کہ اے ایمان والو نبی کی آواز سے اونچی آواز نہ کرو۔ تم نے اپنے باپ کو اور ان کے فاروق کو رسول اللہ کے پاس دفن کر دیا حالانکہ خدا فرماتا ہے جو لوگ اپنی آوازوں کو رسول اللہ کے سامنے نیچا رکھتے ہیں وہ ہیں جن کے دلوں کا اللہ نے تقویٰ سے امتحان لیا ہے تم نے ان دونوں کو رسول اللہ کے پاس دفن کر دیا حالانکہ انھوں نے اس امر کی رعایت نہ کی جس کا رسول نے حکم دیا تھا۔ بے شک اللہ نے حرام کیا ہے مردہ مومنین پر اس چیز کو جو حرام کی ہے زندوں پر۔ خدا کی قسم اے آئشہ دفن حسن جو تمہیں برا معلوم ہو رہا ہے اگر اپنے باپ رسول اللہ کے پاس دفن ہونا ضروری ہوتا توتم دیکھتیں کہ تمہاری مرضی کے خلاف وہ ضرور دفن کیے جاتے ۔ پھر محمد بن حنفیہ نے کہا آپ ایک دن خچر پر سوار ہوئیں ایک دن اونٹ پر پس اس پر بھی اپنے نفس پر قابو حاصل نہ کیا اور عداوت بنی ہاشم میں مالکِ زمین بھی نہ ہوئیں۔ یہ سن کر انھوں نے فرمایا اے ابن حنفیہ یہ (امام حسین) تو کئی فاطموں سے نسبت رکھتے ہیں مگر تم کلام کرنے والے کون۔ امام حسین نے فرمایا تم محمد کو فواطم سے کیسے ہٹاتی ہو۔ واللہ ان کو بھی تین فاطموں نے پیدا کیا ہے فاطمہ مخزومی زوجہ عبدالمطلب فاطمہ بنت اسد مادر علی اور فاطمہ عامری نے۔ عائشہ نے کہا تم اپنے بیٹے کو یہاں سے ہٹاؤ اور ان کو لے جاؤ کیونکہ تم عداوت والے ہو۔ امام محمد باقر نے فرمایا پس امام حسین جنازہ کو بقیع میں لے گئے اور وہاں دفن کر دیا۔