مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

(3-66)

اشارہ اور نص امامت امام حسن علیہ السلام

حدیث نمبر 1

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُمَرَ الْيَمَانِيِّ وَعُمَرَ بْنِ أُذَيْنَةَ عَنْ أَبَانٍ عَنْ سُلَيْمِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ شَهِدْتُ وَصِيَّةَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام حِينَ أَوْصَى إِلَى ابْنِهِ الْحَسَنِ علیہ السلام وَأَشْهَدَ عَلَى وَصِيَّتِهِ الْحُسَيْنَ علیہ السلام وَمُحَمَّداً وَجَمِيعَ وُلْدِهِ وَرُؤَسَاءَ شِيعَتِهِ وَأَهْلَ بَيْتِهِ ثُمَّ دَفَعَ إِلَيْهِ الْكِتَابَ وَالسِّلاحَ وَقَالَ لابْنِهِ الْحَسَنِ علیہ السلام يَا بُنَيَّ أَمَرَنِي رَسُولُ الله ﷺ أَنْ أُوصِيَ إِلَيْكَ وَأَنْ أَدْفَعَ إِلَيْكَ كُتُبِي وَسِلاحِي كَمَا أَوْصَى إِلَيَّ رَسُولُ الله ﷺ وَدَفَعَ إِلَيَّ كُتُبَهُ وَسِلاحَهُ وَأَمَرَنِي أَنْ آمُرَكَ إِذَا حَضَرَكَ الْمَوْتُ أَنْ تَدْفَعَهَا إِلَى أَخِيكَ الْحُسَيْنِ علیہ السلام ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى ابْنِهِ الْحُسَيْنِ علیہ السلام فَقَالَ وَأَمَرَكَ رَسُولُ الله ﷺ أَنْ تَدْفَعَهَا إِلَى ابْنِكَ هَذَا ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِ عَلِيِّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) ثُمَّ قَالَ لِعَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ وَأَمَرَكَ رَسُولُ الله ﷺ أَنْ تَدْفَعَهَا إِلَى ابْنِكَ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ وَأَقْرِئْهُ مِنْ رَسُولِ الله ﷺ وَمِنِّي السَّلامَ۔

سلیم بن قیس سے مروی ہے کہ میں اس وقت موجود تھا جب امیر المومنین نے اپنے فرزند حسن کے متعلق وصیت کی۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اس وقت امام حسین ، محمد بن حنفیہ اور حضرت علی کی تمام اولاد اور آپ کے شیعہ رؤساء اہلبیت موجود تھے۔ حضرت نے کتاب اور سلاح امام حسن علیہ السلام کو دے کر فرمایا بیٹا رسول اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہارے لیے وصیت کروں اور اپنی کتابیں اور ہتھیار اسی طرح تمہیں دوں جس طرح رسول اللہ نے اپنی کتابیں اور ہتھیار مجھے دیے اور مجھے حکم دیا کہ تمہیں حکم دوں کہ جب تمہاری وفات کا وقت قریب آئے تو یہ چیز اپنے بھائی حسین کے سپرد کرنا۔ پھر حسین سے فرمایا رسول اللہ نے تم کو حکم دیا ہے کہ یہ چیزیں اپنے بیٹے کے سپرد کرنا علی بن الحسین کا ہاتھ پکڑ کر کہا تم کو رسول اللہ نے حکم دیا ہے کہ یہ چیزیں اپنے بیٹے محمد بن علی کے سپرد کرنا اور رسول اللہ کی اور میری طرف سے ان کو سلام کہنا۔

حدیث نمبر 2

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ أَبِي الْجَارُودِ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ إِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ﷺ لَمَّا حَضَرَهُ الَّذِي حَضَرَهُ قَالَ لابْنِهِ الْحَسَنِ ادْنُ مِنِّي حَتَّى أُسِرَّ إِلَيْكَ مَا أَسَرَّ رَسُولُ الله ﷺ إِلَيَّ وَأَئْتَمِنَكَ عَلَى مَا ائْتَمَنَنِي عَلَيْهِ فَفَعَلَ۔

امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ جب امیر المومنین علیہ السلام کی وفات کا وقت آیا تو اپنے بیٹے امام حسن سے فرمایا کہ میرے پاس آؤ تا کہ وہ اسرار تمہیں تعلیم کروں جو رسول اللہ نے مجھے تعلیم کیے اور امین بناؤں ان چیزوں کا جن کا رسول اللہ نے مجھے امین بنایا اس کے بعد اسرار امامت آپ نے تعلیم کیے۔

حدیث نمبر 3

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ سَيْفِ بْنِ عَمِيرَةَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الْحَضْرَمِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي الاجْلَحُ وَسَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ وَدَاوُدُ بْنُ أَبِي يَزِيدَ وَزَيْدٌ الْيَمَامِيُّ قَالُوا حَدَّثَنَا شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ أَنَّ عَلِيّاً علیہ السلام حِينَ سَارَ إِلَى الْكُوفَةِ اسْتَوْدَعَ أُمَّ سَلَمَةَ كُتُبَهُ وَالْوَصِيَّةَ فَلَمَّا رَجَعَ الْحَسَنُ علیہ السلام دَفَعَتْهَا إِلَيْهِ۔

راوی کہتا ہے کہ جب حضرت علی علیہ السلام کوفہ کی طرف روانہ ہوئے تو اپنی کتابیں ام سلمہ کے سپرد کیں اور وصیت بھی کہ جب امام حسن مدینہ آئیں تو ام سلمہ وہ چیزیں ان کے سپرد کر دیں۔

حدیث نمبر 4

وَفِي نُسْخَةِ الصَّفْوَانِيِّ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ سَيْفٍ عَنْ أَبِي بَكْرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام أَنَّ عَلِيّاً صَلَوَاتُ الله عَلَيْهِ حِينَ سَارَ إِلَى الْكُوفَةِ اسْتَوْدَعَ أُمَّ سَلَمَةَ كُتُبَهُ وَالْوَصِيَّةَ فَلَمَّا رَجَعَ الْحَسَنُ دَفَعَتْهَا إِلَيْهِ۔

حضرت علی کوفہ روانہ ہوئے تو اپنی کتابیں جناب ام سلمہ کو دیں اور وصیت بھی کی کہ جب امام حسن مدینہ آئیں تو ام سلمہ وہ چیزیں ان کے سپرد کر دیں۔

حدیث نمبر 5

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَمْرِو بْنِ شِمْرٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ أَوْصَى أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام إِلَى الْحَسَنِ وَأَشْهَدَ عَلَى وَصِيَّتِهِ الْحُسَيْنَ علیہ السلام وَمُحَمَّداً وَجَمِيعَ وُلْدِهِ وَرُؤَسَاءَ شِيعَتِهِ وَأَهْلَ بَيْتِهِ ثُمَّ دَفَعَ إِلَيْهِ الْكِتَابَ وَالسِّلاحَ ثُمَّ قَالَ لابْنِهِ الْحَسَنِ يَا بُنَيَّ أَمَرَنِي رَسُولُ الله أَنْ أُوصِيَ إِلَيْكَ وَأَنْ أَدْفَعَ إِلَيْكَ كُتُبِي وَسِلاحِي كَمَا أَوْصَى إِلَيَّ رَسُولُ الله وَدَفَعَ إِلَيَّ كُتُبَهُ وَسِلاحَهُ وَأَمَرَنِي أَنْ آمُرَكَ إِذَا حَضَرَكَ الْمَوْتُ أَنْ تَدْفَعَهُ إِلَى أَخِيكَ الْحُسَيْنِ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى ابْنِهِ الْحُسَيْنِ وَقَالَ أَمَرَكَ رَسُولُ الله ﷺ أَنْ تَدْفَعَهُ إِلَى ابْنِكَ هَذَا ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِ ابْنِ ابْنِهِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ثُمَّ قَالَ لِعَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ يَا بُنَيَّ وَأَمَرَكَ رَسُولُ الله ﷺ أَنْ تَدْفَعَهُ إِلَى ابْنِكَ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ وَأَقْرِئْهُ مِنْ رَسُولِ الله ﷺ وَمِنِّي السَّلامَ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى ابْنِهِ الْحَسَنِ فَقَالَ يَا بُنَيَّ أَنْتَ وَلِيُّ الامْرِ وَوَلِيُّ الدَّمِ فَإِنْ عَفَوْتَ فَلَكَ وَإِنْ قَتَلْتَ فَضَرْبَةٌ مَكَانَ ضَرْبَةٍ وَلا تَأْثَمْ۔

امام باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ فرمایا امیر المومنین علیہ السلام نے وصیت کی امام حسن علیہ السلام کو اورر گواہ کیا پنی وصیت پر امام حسین اور محمد حنفیہ کو اور اپنی تمام اولاد اور رؤساء شیعہ اور اپنے اہلبیت کو پھر اپنی کتاب اور تبرکات امام حسن کو دیے اور فرمایا مجھے رسول اللہ نے حکم دیا ہے کہ تم کو اپنا وصی بناؤں اور کتابیں و ہتھیار اسی طرح تمہارے حوالے کردوں جس طرح رسول اللہ نے میرے حوالے کیے تھے اور تم کو حکم دوں کہ جب تمہاری موت آئے تو یہ چیزیں اپنے بھائی حسین کے سپرد کرنا۔ پھر اپنے فرزند حسین سے فرمایا رسول اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تم یہ چیزیں اپنے فرزند علی بن الحسین کے سپرد کر دینا اور علی بن الحسین سے فرمایا کہ رسول اللہ نے حکم دیا ہے کہ تم ان کو اپنے فرزند محمد بن علی کو دینا اور رسول اور میری طرف سے ان کو سلام کہنا۔ پھر امام حسن سے فرمایا تم ولی امر ہو اور قصاص لینے کے مجاز ہو اگر میں قتل ہو جاؤں تو ایک ضرب کے بدلے ایک ہی ضرب لگانا اور زیادتی کر کے گنہگار نہ ہونا۔

حدیث نمبر 6

الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْحَسَنِيُّ رَفَعَهُ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ إِسْحَاقَ الاحْمَرِيِّ رَفَعَهُ قَالَ لَمَّا ضُرِبَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام حَفَّ بِهِ الْعُوَّادُ وَقِيلَ لَهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَوْصِ فَقَالَ اثْنُوا لِي وِسَادَةً ثُمَّ قَالَ الْحَمْدُ لله حَقَّ قَدْرِهِ مُتَّبِعِينَ أَمْرَهُ وَأَحْمَدُهُ كَمَا أَحَبَّ وَلا إِلَهَ إِلا الله الْوَاحِدُ الاحَدُ الصَّمَدُ كَمَا انْتَسَبَ أَيُّهَا النَّاسُ كُلُّ امْرِئٍ لاقٍ فِي فِرَارِهِ مَا مِنْهُ يَفِرُّ وَالاجَلُ مَسَاقُ النَّفْسِ إِلَيْهِ وَالْهَرَبَ مِنْهُ مُوَافَاتُهُ كَمْ أَطْرَدْتُ الايَّامَ أَبْحَثُهَا عَنْ مَكْنُونِ هَذَا الامْرِ فَأَبَى الله عَزَّ ذِكْرُهُ إِلا إِخْفَاءَهُ هَيْهَاتَ عِلْمٌ مَكْنُونٌ أَمَّا وَصِيَّتِي فَأَنْ لا تُشْرِكُوا بِالله جَلَّ ثَنَاؤُهُ شَيْئاً وَمُحَمَّداً ﷺ فَلا تُضَيِّعُوا سُنَّتَهُ أَقِيمُوا هَذَيْنِ الْعَمُودَيْنِ وَأَوْقِدُوا هَذَيْنِ الْمِصْبَاحَيْنِ وَخَلاكُمْ ذَمٌّ مَا لَمْ تَشْرُدُوا حُمِّلَ كُلُّ امْرِئٍ مَجْهُودَهُ وَخُفِّفَ عَنِ الْجَهَلَةِ رَبٌّ رَحِيمٌ وَإِمَامٌ عَلِيمٌ وَدِينٌ قَوِيمٌ أَنَا بِالامْسِ صَاحِبُكُمْ وَأَنَا الْيَوْمَ عِبْرَةٌ لَكُمْ وَغَداً مُفَارِقُكُمْ إِنْ تَثْبُتِ الْوَطْأَةُ فِي هَذِهِ الْمَزَلَّةِ فَذَاكَ الْمُرَادُ وَإِنْ تَدْحَضِ الْقَدَمُ فَإِنَّا كُنَّا فِي أَفْيَاءِ أَغْصَانٍ وَذَرَى رِيَاحٍ وَتَحْتَ ظِلِّ غَمَامَةٍ اضْمَحَلَّ فِي الْجَوِّ مُتَلَفِّقُهَا وَعَفَا فِي الارْضِ مَحَطُّهَا وَإِنَّمَا كُنْتُ جَاراً جَاوَرَكُمْ بَدَنِي أَيَّاماً وَسَتُعْقَبُونَ مِنِّي جُثَّةً خَلاءً سَاكِنَةً بَعْدَ حَرَكَةٍ وَكَاظِمَةً بَعْدَ نُطْقٍ لِيَعِظَكُمْ هُدُوِّي وَخُفُوتُ إِطْرَاقِي وَسُكُونُ أَطْرَافِي فَإِنَّهُ أَوْعَظُ لَكُمْ مِنَ النَّاطِقِ الْبَلِيغِ وَدَّعْتُكُمْ وَدَاعَ مُرْصِدٍ لِلتَّلاقِي غَداً تَرَوْنَ أَيَّامِي وَيَكْشِفُ الله عَزَّ وَجَلَّ عَنْ سَرَائِرِي وَتَعْرِفُونِّي بَعْدَ خُلُوِّ مَكَانِي وَقِيَامِ غَيْرِي مَقَامِي إِنْ أَبْقَ فَأَنَا وَلِيُّ دَمِي وَإِنْ أَفْنَ فَالْفَنَاءُ مِيعَادِي وَإِنْ أَعْفُ فَالْعَفْوُ لِي قُرْبَةٌ وَلَكُمْ حَسَنَةٌ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا أَ لا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ الله لَكُمْ فَيَا لَهَا حَسْرَةً عَلَى كُلِّ ذِي غَفْلَةٍ أَنْ يَكُونَ عُمُرُهُ عَلَيْهِ حُجَّةً أَوْ تُؤَدِّيَهُ أَيَّامُهُ إِلَى شِقْوَةٍ جَعَلَنَا الله وَإِيَّاكُمْ مِمَّنْ لا يَقْصُرُ بِهِ عَنْ طَاعَةِ الله رَغْبَةٌ أَوْ تَحُلُّ بِهِ بَعْدَ الْمَوْتِ نَقِمَةٌ فَإِنَّمَا نَحْنُ لَهُ وَبِهِ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى الْحَسَنِ علیہ السلام فَقَالَ يَا بُنَيَّ ضَرْبَةً مَكَانَ ضَرْبَةٍ وَلا تَأْثَمْ۔

راوی کہتا ہے کہ جب امیر المومنین کے مسجد میں ضرب لگی تو عیادت کرنے والے لوگ جمع ہوئے اور کہنے لگے اے امیر المومنین وصیت کیجیے۔ فرمایا میری پیٹھ کے پیچھے تکیہ لگاؤ۔ پھر فرمایا حمد ہے اس ذات کے لیے جس کے امر کے تابع بقدر اپنی طاقت کے حمد کرتے ہیں اور میں حمد کرتا ہوں اس کی جو اسے پسند ہے کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے اور وہ واحد و احد و صمد ہے۔ اے لوگو ہر شخص ملاقات کرے گا اس سے جس سے بچنے کی کوئی راہ نہیں۔ موت ہر نفس کو اپنی طرف کھینچنے والی ہے اور جس سے بھاگنا بے سود ہے بہت دن ایسے آئے کہ میں نے اس امر کو آشکارا کرنا چاہے لیکن خدا کو اس کا پوشیدہ رکھنا ہی منظور تھا۔ اس امر مکنوں پر اطلاع پانا بہت دور ہے میری وصیت یہ ہے کہ اللہ کی ذات میں کسی کو شریک نہ کرو اور سنت محمد مصطفیٰ کو ضائع نہ کرو اور دین کے ان دونوں ستونوں کو قائم رکھو اور ان دونوں چراغوں کو روشن رکھو، تمہاری فروگزاشت قابل مذمت ہو گی ہر شخص کو تکلیف دی گئی بقدر اس کی طاقت کے اور جاہلوں کے بار کو ہلکا کیا گیا ہے یعنی جو نہیں جانتے اس میں فتویٰ نہ دو۔ تمہارا رب رحیم ہے تکلیف ما لا یطاق نہیں دیتا اور تمہارا امام ہر مشکل کا جاننے والا ہے اور تمہارا دین استوار ہے میں کل تمہارا حاکم تھا اور آج تمہارے لیے عبرت ہوں اور کل تم سے جدا ہونے والا ہوں۔
اگر اس منزل پر قدم جمے رہے (میں زندہ رہا) تو مراد بر آئی اور اگر قدم میں لغزش ہوئی (موت آ گئی) تو ہم ہیں ہی شاخوں کے سایہ میں ہوا کی گزرگاہ میں، بادل کے سایہ میں جو افق آسمان پر پھیل کر ہلکا پڑ جاتا ہے اور زمین و آسمان میں اس کے اجزاء متفرق ہو چکے ہیں میرا بدن کچھ دن تمہارا ہمسایہ رہا پھر میرا یہ جسم تمہارے سامنے ہو گا جو ایک قالب بے روح ہو گا ساکن ہو گا حرکت کے بعد خاموش ہو گا گویائی کے بعد، البتہ تمہارے لیے میری خاموشی پند آموز ہو گی اور میرے پر از ضیائع کلام کا ختم ہو جانا اور میرے اجزاء کا بے حس ہو جانا تمہارے لیے نصیحت کرنے والا ہو گا۔ این طور کہ ایک ناطق بلیغ خاموش ہے اور وراع کرنا ایسی ذات کو جو تمہاری ملاقات کا مشتاق رہتا ہے کل روز قیامت تم میری حکومت کو دیکھو گے اس روز خداوند عالم ان اسرار کو جو میرے دل میں مخفی ہیں آشکارا کرے گا تب تم پہچانو گے مجھے، میرے یہ مکان خالی کرنے کے بعد اور میری جگہ میرے غیر کے آنے کے بعد (یعنی اعراف و صراط و کوثر وغیرہ پر مجھے پہچانو گے) اگر میں باقی رہا یعنی اس ضرب کے بعد زندہ رہ گیا تو اپنے خون کا ولی میں خود ہوں گا اور اگر مر جاؤں تو فنا میری وعدہ گاہ ہے اور اگر میں معاف کروں تو میرے لیے یہ عفو درجہ قرابت ایزدی ہو گا اور تمہارے لیے نیکی، پس عفو کرو اور درگزر کرو۔ کیا تم کو یہ پسند نہیں کہ خدا تمہارے گناہ بخش دے پس لوگو حیرت کا مقام ہے ہر غفلت پر کہ اس کی اس پر حجت قرار پائی اور اس کی زندگی کا زمانہ بدبختی میں گزرا ہو۔ خدا ہمیں اور تمہیں ان لوگوں میں سے قرار دے جنھوں نے طاعت خدا میں کوتاہی نہیں کی اور برغبت عبادت کرتے ہیں اور مرنے کے بعد ان کے لیے عذاب نہ ہو گا، ہمارا نیکی کرنا اور بدی سے بچنا سب اللہ کی مدد سے ہے۔ پھر امام حسن سے فرمایا ایک ضربت کے بدلے میں تم قاتل کو ایک ہی ضرب لگانا اور زیادہ کر کے گناہ نہ کرنا۔

حدیث نمبر 7

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْعَقِيلِيِّ يَرْفَعُهُ قَالَ قَالَ لَمَّا ضَرَبَ ابْنُ مُلْجَمٍ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام قَالَ لِلْحَسَنِ يَا بُنَيَّ إِذَا أَنَا مِتُّ فَاقْتُلِ ابْنَ مُلْجَمٍ وَاحْفِرْ لَهُ فِي الْكُنَاسَةِ وَوَصَفَ الْعَقِيلِيُّ الْمَوْضِعَ عَلَى بَابِ طَاقِ الْمَحَامِلِ مَوْضِعُ الشُّوَّاءِ وَالرُّؤَّاسِ ثُمَّ ارْمِ بِهِ فِيهِ فَإِنَّهُ وَادٍ مِنْ أَوْدِيَةِ جَهَنَّمَ۔

راوی کہتا ہے جب ابن ملجم نے حضرت علی کو ضرب لگائی تو آپ نے امام حسن سے فرمایا اگر میں مر جاؤں تو ابن ملجم کو قتل کر کے کوفہ کے کوڑے گھر میں دبا دینا۔