مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ يُونُسَ عَنْ زَيْدِ بْنِ الْجَهْمِ الْهِلالِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ لَمَّا نَزَلَتْ وَلايَةُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ علیہ السلام وَكَانَ مِنْ قَوْلِ رَسُولِ الله ﷺ سَلِّمُوا عَلَى عَلِيٍّ بِإِمْرَةِ الْمُؤْمِنِينَ فَكَانَ مِمَّا أَكَّدَ الله عَلَيْهِمَا فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ يَا زَيْدُ قَوْلُ رَسُولِ الله ﷺ لَهُمَا قُومَا فَسَلِّمَا عَلَيْهِ بِإِمْرَةِ الْمُؤْمِنِينَ فَقَالا أَ مِنَ الله أَوْ مِنْ رَسُولِهِ يَا رَسُولَ الله فَقَالَ لَهُمَا رَسُولُ الله ﷺ مِنَ الله وَمِنْ رَسُولِهِ فَأَنْزَلَ الله عَزَّ وَجَلَّ وَلا تَنْقُضُوا الايْمانَ بَعْدَ تَوْكِيدِها وَقَدْ جَعَلْتُمُ الله عَلَيْكُمْ كَفِيلاً إِنَّ الله يَعْلَمُ ما تَفْعَلُونَ يَعْنِي بِهِ قَوْلَ رَسُولِ الله ﷺ لَهُمَا وَقَوْلَهُمَا أَ مِنَ الله أَوْ مِنْ رَسُولِهِ وَلا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَها مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنْكاثاً تَتَّخِذُونَ أَيْمانَكُمْ دَخَلاً بَيْنَكُمْ أَنْ تَكُونَ أَئِمَّةٌ هِيَ أَزْكَى مِنْ أَئِمَّتِكُمْ قَالَ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ أَئِمَّةٌ قَالَ إِي وَالله أَئِمَّةٌ قُلْتُ فَإِنَّا نَقْرَأُ أَرْبى فَقَالَ مَا أَرْبَى وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ فَطَرَحَهَا إِنَّما يَبْلُوكُمُ الله بِهِ يَعْنِي بِعلي علیہ السلام وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ ما كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ. وَلَوْ شاءَ الله لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً واحِدَةً وَلكِنْ يُضِلُّ مَنْ يَشاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشاءُ وَلَتُسْئَلُنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَمَّا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ. وَلا تَتَّخِذُوا أَيْمانَكُمْ دَخَلاً بَيْنَكُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌ بَعْدَ ثُبُوتِها يَعْنِي بَعْدَ مَقَالَةِ رَسُولِ الله ﷺ فِي علي علیہ السلام وَتَذُوقُوا السُّوءَ بِما صَدَدْتُمْ عَنْ سَبِيلِ الله يَعْنِي بِهِ عَلِيّاً علیہ السلام وَلَكُمْ عَذابٌ عَظِيمٌ۔
زید بن جہم ہلالی سے مروی ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو کہتے سنا کہ جب آیت انما ولیکم اللہ نازل ہوئی تو رسول اللہ نے ان دونوں سے کہا تم علی کو امیر المومنین کہہ کر سلام کرو اور اے زید اس روز ان سے بہ تاکید کہا گیا یہ رسول اللہ کا فرمانا انہی دونوں سے تھا کہ کھڑے ہو کر علی کو یا امیر المومنین کہہ کر سلام کرو۔ انھوں نےکہا یا رسول اللہ یہ حکم خدا کی طرف سے ہے یا اس کے رسول کی طرف سے۔ رسول اللہ نے ان دونوں سے فرمایا یہ حکم اللہ کی طرف سے ہے اور اس کے رسول کی طرف سے بھی۔ پس خدا نے یہ آیت نازل کی تاکید کے بعد اپنے عہدوں کو مت توڑو تم نے اللہ کی کفالت اپنے اوپر لے لی۔ بیشک جو تم کرتے ہو اللہ اسے جانتا ہے اور اس سے مراد ہے رسول اللہ کا ان سے کہنا اور پھر ان کا یہ پوچھنا کہ یہ حکم اللہ کی طرف سے ہے یا رسول اللہ کی طرف سے یعنی انھوں نے اس قول کو موکد کرانا چاہا۔ رسول اللہ نے یہ فرما کر اور زیادہ مضبوط کر دیا کہ اللہ اور رسول دونوں کی طرف سے ہے پھر خدا نے فرمایا تم اس عورت کی طرح نہ بنوجس نے سوت کاتا اور دھاگے بٹ کر توڑ ڈالے کہ اپنے عہدوں کو اس کی مکاری کا ذریعہ بنانے لگو کہ ایک گروہ کے امام زیادہ پاکیزہ ہوں تمہارے اماموں سے۔ میں نے کہا میں آپ پر فدا ہوں سورہ نحل کی اس آیت میں تو لفظ امۃ ہے اور آپ نے آئمہ فرمایا۔ امام نے فرمایا نہیں آئمہ ہی ہے۔ میں نے کہا ہم اس آیت کو یوں پڑھتے ہیں " اس عورت کے ایسے نہ بنو جو اپنا سوت مضبوط کاتنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کر کے توڑ ڈالے کہ اپنے عہدوں کو اس بات کی مکاری کا ذریعہ بنائے کہ ایک گروہ دوسرے گروہ سے خواہ مخواہ بڑھ جائے اس سے خدا بس تم کو آزماتا ہے" اس میں امت کی جگہ حضور نے آئمہ فرمایا ہے اور اربی کی جگہ ازکی فرمایا۔ آپ نے فرمایا اربی کیا ہے پس آپ نے تعجب کے ساتھ ہاتھ اٹھایا اور پھر گرا دیا اور فرمایا اللہ اس سے تمہاری آزمائش کرتا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ علی کے ذریعہ تمہاری آزمائش کرتا ہے تاکہ روز قیامت ان باتوں کو ظاہر کر دے جن میں تم اختلاف کرتے تھے۔
اگر خدا چاہتا تو تم کو ایک ہی گروہ بنا دیتا لیکن وہ جس کو چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے روز قیامت جو کچھ تم کر چکے ہو اس کے متعلق پوچھا جائے گا اپنی قسموں کو مکاری کا ذریعہ نہ بناؤ ورنہ تمہارے قدم جمنے کے بعد اکھڑ جائیں گے اور تم راہ خدا سے ہٹانے کی سزا میں جہنم کا مزہ چکھو گے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ وَأَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْفُضَيْلِ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الثُّمَالِيِّ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ لَمَّا أَنْ قَضَى مُحَمَّدٌ نُبُوَّتَهُ وَاسْتَكْمَلَ أَيَّامَهُ أَوْحَى الله تَعَالَى إِلَيْهِ أَنْ يَا مُحَمَّدُ قَدْ قَضَيْتَ نُبُوَّتَكَ وَاسْتَكْمَلْتَ أَيَّامَكَ فَاجْعَلِ الْعِلْمَ الَّذِي عِنْدَكَ وَالايْمَانَ وَالاسْمَ الاكْبَرَ وَمِيرَاثَ الْعِلْمِ وَآثَارَ عِلْمِ النُّبُوَّةِ فِي أَهْلِ بَيْتِكَ عِنْدَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فَإِنِّي لَنْ أَقْطَعَ الْعِلْمَ وَالايمَانَ وَالاسْمَ الاكْبَرَ وَمِيرَاثَ الْعِلْمِ وَآثَارَ عِلْمِ النُّبُوَّةِ مِنَ الْعَقِبِ مِنْ ذُرِّيَّتِكَ كَمَا لَمْ أَقْطَعْهَا مِنْ ذُرِّيَّاتِ الانْبِيَاءِ۔
ابو حمزہ ثمال نے روایت کی ہے میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے سنا کہ جب حضرت رسولِ خدا کی نبوت کا وقت ختم ہوا اور ان کے دن پورے ہو گئے تو اللہ نے ان پر وحی کی، اے محمد تم نے اپنی نبوت کا دور پورا کر دیا اور اپنا زمانہ ختم کر دیا۔ پس جو علم و ایمان و اسم اکبر اور میراثِ علم اور آثار نبوت تمہارے پاس ہیں وہ اپنے اہلبیت میں سے علی بن ابی طالب کے سپرد کر دو میں نہیں منقطع کروں گا علم و ایمان و اسم اکبر اور میراث و آثار نبوت کو تمہاری ذریت سے اسی طرح جس طرح میں نے نہیں قطع کیا ان چیزوں کو ذریات انبیاء علیہم السلام سے۔
مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ وَغَيْرُهُ عَنْ سَهْلٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ جَمِيعاً عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ جَابِرٍ وَعَبْدِ الْكَرِيمِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ أَبِي الدَّيْلَمِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ أَوْصَى مُوسَى علیہ السلام إِلَى يُوشَعَ بْنِ نُونٍ وَأَوْصَى يُوشَعُ بْنُ نُونٍ إِلَى وَلَدِ هَارُونَ وَلَمْ يُوصِ إِلَى وَلَدِهِ وَلا إِلَى وَلَدِ مُوسَى إِنَّ الله تَعَالَى لَهُ الْخِيَرَةُ يَخْتَارُ مَنْ يَشَاءُ مِمَّنْ يَشَاءُ وَبَشَّرَ مُوسَى وَيُوشَعُ بِالْمَسِيحِ علیہ السلام فَلَمَّا أَنْ بَعَثَ الله عَزَّ وَجَلَّ الْمَسِيحَ علیہ السلام قَالَ الْمَسِيحُ لَهُمْ إِنَّهُ سَوْفَ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي نَبِيٌّ اسْمُهُ أَحْمَدُ مِنْ وُلْدِ إِسْمَاعِيلَ علیہ السلام يَجِيءُ بِتَصْدِيقِي وَتَصْدِيقِكُمْ وَعُذْرِي وَعُذْرِكُمْ وَجَرَتْ مِنْ بَعْدِهِ فِي الْحَوَارِيِّينَ فِي الْمُسْتَحْفَظِينَ وَإِنَّمَا سَمَّاهُمُ الله تَعَالَى الْمُسْتَحْفَظِينَ لانَّهُمُ اسْتُحْفِظُوا الاسْمَ الاكْبَرَ وَهُوَ الْكِتَابُ الَّذِي يُعْلَمُ بِهِ عِلْمُ كُلِّ شَيْءٍ الَّذِي كَانَ مَعَ الانْبِيَاءِ ﷺ يَقُولُ الله تَعَالَى وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِنْ قَبْلِكَ وَأَنْزَلْنا مَعَهُمُ الْكِتابَ وَالْمِيزانَ الْكِتَابُ الاسْمُ الاكْبَرُ وَإِنَّمَا عُرِفَ مِمَّا يُدْعَى الْكِتَابَ التَّوْرَاةُ وَالانْجِيلُ وَالْفُرْقَانُ فِيهَا كِتَابُ نُوحٍ وَفِيهَا كِتَابُ صَالِحٍ وَشُعَيْبٍ وَإِبْرَاهِيمَ علیہ السلام فَأَخْبَرَ الله عَزَّ وَجَلَّ إِنَّ هذا لَفِي الصُّحُفِ الاولى صُحُفِ إِبْراهِيمَ وَمُوسى فَأَيْنَ صُحُفُ إِبْرَاهِيمَ إِنَّمَا صُحُفُ إِبْرَاهِيمَ الاسْمُ الاكْبَرُ وَصُحُفُ مُوسَى الاسْمُ الاكْبَرُ فَلَمْ تَزَلِ الْوَصِيَّةُ فِي عَالِمٍ بَعْدَ عَالِمٍ حَتَّى دَفَعُوهَا إِلَى مُحَمَّدٍ ﷺ فَلَمَّا بَعَثَ الله عَزَّ وَجَلَّ مُحَمَّداً ﷺ أَسْلَمَ لَهُ الْعَقِبُ مِنَ الْمُسْتَحْفِظِينَ وَكَذَّبَهُ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَدَعَا إِلَى الله عَزَّ وَجَلَّ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِهِ ثُمَّ أَنْزَلَ الله جَلَّ ذِكْرُهُ عَلَيْهِ أَنْ أَعْلِنْ فَضْلَ وَصِيِّكَ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ الْعَرَبَ قَوْمٌ جُفَاةٌ لَمْ يَكُنْ فِيهِمْ كِتَابٌ وَلَمْ يُبْعَثْ إِلَيْهِمْ نَبِيٌّ وَلا يَعْرِفُونَ فَضْلَ نُبُوَّاتِ الانْبِيَاءِ (عَلَيْهم السَّلام) وَلا شَرَفَهُمْ وَلا يُؤْمِنُونَ بِي إِنْ أَنَا أَخْبَرْتُهُمْ بِفَضْلِ أَهْلِ بَيْتِي فَقَالَ الله جَلَّ ذِكْرُهُ وَلا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَقُلْ سَلامٌ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ فَذَكَرَ مِنْ فَضْلِ وَصِيِّهِ ذِكْراً فَوَقَعَ النِّفَاقُ فِي قُلُوبِهِمْ فَعَلِمَ رَسُولُ الله ﷺ ذَلِكَ وَمَا يَقُولُونَ فَقَالَ الله جَلَّ ذِكْرُهُ يَا مُحَمَّدُ وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِما يَقُولُونَ فَإِنَّهُمْ لا يُكَذِّبُونَكَ وَلكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآياتِ الله يَجْحَدُونَ وَلَكِنَّهُمْ يَجْحَدُونَ بِغَيْرِ حُجَّةٍ لَهُمْ وَكَانَ رَسُولُ الله ﷺ يَتَأَلَّفُهُمْ وَيَسْتَعِينُ بِبَعْضِهِمْ عَلَى بَعْضٍ وَلا يَزَالُ يُخْرِجُ لَهُمْ شَيْئاً فِي فَضْلِ وَصِيِّهِ حَتَّى نَزَلَتْ هَذِهِ السُّورَةُ فَاحْتَجَّ عَلَيْهِمْ حِينَ أُعْلِمَ بِمَوْتِهِ وَنُعِيَتْ إِلَيْهِ نَفْسُهُ فَقَالَ الله جَلَّ ذِكْرُهُ فَإِذا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَإِلى رَبِّكَ فَارْغَبْ يَقُولُ إِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ عَلَمَكَ وَأَعْلِنْ وَصِيَّكَ فَأَعْلِمْهُمْ فَضْلَهُ عَلانِيَةً فَقَالَ ﷺ مَنْ كُنْتُ مَوْلاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاهُ اللهمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ ثَلاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ قَالَ لابْعَثَنَّ رَجُلاً يُحِبُّ الله وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ الله وَرَسُولُهُ لَيْسَ بِفَرَّارٍ يُعَرِّضُ بِمَنْ رَجَعَ يُجَبِّنُ أَصْحَابَهُ وَيُجَبِّنُونَهُ وَقَالَ ﷺ عَلِيٌّ سَيِّدُ الْمُؤْمِنِينَ وَقَالَ عَلِيٌّ عَمُودُ الدِّينِ وَقَالَ هَذَا هُوَ الَّذِي يَضْرِبُ النَّاسَ بِالسَّيْفِ عَلَى الْحَقِّ بَعْدِي وَقَالَ الْحَقُّ مَعَ عَلِيٍّ أَيْنَمَا مَالَ وَقَالَ إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا كِتَابَ الله عَزَّ وَجَلَّ وَأَهْلَ بَيْتِي عِتْرَتِي أَيُّهَا النَّاسُ اسْمَعُوا وَقَدْ بَلَّغْتُ إِنَّكُمْ سَتَرِدُونَ عَلَيَّ الْحَوْضَ فَأَسْأَلُكُمْ عَمَّا فَعَلْتُمْ فِي الثَّقَلَيْنِ وَالثَّقَلانِ كِتَابُ الله جَلَّ ذِكْرُهُ وَأَهْلُ بَيْتِي فَلا تَسْبِقُوهُمْ فَتَهْلِكُوا وَلا تُعَلِّمُوهُمْ فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْكُمْ فَوَقَعَتِ الْحُجَّةُ بِقَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ وَبِالْكِتَابِ الَّذِي يَقْرَأُهُ النَّاسُ فَلَمْ يَزَلْ يُلْقِي فَضْلَ أَهْلِ بَيْتِهِ بِالْكَلامِ وَيُبَيِّنُ لَهُمْ بِالْقُرْآنِ إِنَّما يُرِيدُ الله لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً وَقَالَ عَزَّ ذِكْرُهُ وَاعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لله خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبى ثُمَّ قَالَ وَآتِ ذَا الْقُرْبى حَقَّهُ فَكَانَ علي علیہ السلام وَكَانَ حَقُّهُ الْوَصِيَّةَ الَّتِي جُعِلَتْ لَهُ وَالاسْمَ الاكْبَرَ وَمِيرَاثَ الْعِلْمِ وَآثَارَ عِلْمِ النُّبُوَّةِ. فَقَالَ قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى ثُمَّ قَالَ وَإِذَا الْمَوْؤُدَةُ سُئِلَتْ بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ يَقُولُ أَسْأَلُكُمْ عَنِ الْمَوَدَّةِ الَّتِي أَنْزَلْتُ عَلَيْكُمْ فَضْلَهَا مَوَدَّةِ الْقُرْبَى بِأَيِّ ذَنْبٍ قَتَلْتُمُوهُمْ وَقَالَ جَلَّ ذِكْرُهُ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ قَالَ الْكِتَابُ هُوَ الذِّكْرُ وَأَهْلُهُ آلُ مُحَمَّدٍ (عَلَيْهم السَّلام) أَمَرَ الله عَزَّ وَجَلَّ بِسُؤَالِهِمْ وَلَمْ يُؤْمَرُوا بِسُؤَالِ الْجُهَّالِ وَسَمَّى الله عَزَّ وَجَلَّ الْقُرْآنَ ذِكْراً فَقَالَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ وَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ وَسَوْفَ تُسْئَلُونَ وَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ أَطِيعُوا الله وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الامْرِ مِنْكُمْ وَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الله وَإِلَى الرَّسُولِ وَإِلى أُولِي الامْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ فَرَدَّ الامْرَ أَمْرَ النَّاسِ إِلَى أُولِي الامْرِ مِنْهُمُ الَّذِينَ أَمَرَ بِطَاعَتِهِمْ وَبِالرَّدِّ إِلَيْهِمْ فَلَمَّا رَجَعَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) مِنْ حَجَّةِ الْوَدَاعِ نَزَلَ عَلَيْهِ جَبْرَئِيلُ (عَلَيْهِ السَّلام) فَقَالَ يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَالله يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ الله لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكافِرِينَ فَنَادَى النَّاسَ فَاجْتَمَعُوا وَأَمَرَ بِسَمُرَاتٍ فَقُمَّ شَوْكُهُنَّ ثُمَّ قَالَ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ وَلِيُّكُمْ وَأَوْلَى بِكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ فَقَالُوا الله وَرَسُولُهُ فَقَالَ مَنْ كُنْتُ مَوْلاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاهُ اللهمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ ثَلاثَ مَرَّاتٍ فَوَقَعَتْ حَسَكَةُ النِّفَاقِ فِي قُلُوبِ الْقَوْمِ وَقَالُوا مَا أَنْزَلَ الله جَلَّ ذِكْرُهُ هَذَا عَلَى مُحَمَّدٍ قَطُّ وَمَا يُرِيدُ إِلا أَنْ يَرْفَعَ بِضَبْعِ ابْنِ عَمِّهِ فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ أَتَتْهُ الانْصَارُ فَقَالُوا يَا رَسُولَ الله إِنَّ الله جَلَّ ذِكْرُهُ قَدْ أَحْسَنَ إِلَيْنَا وَشَرَّفَنَا بِكَ وَبِنُزُولِكَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْنَا فَقَدْ فَرَّحَ الله صَدِيقَنَا وَكَبَّتَ عَدُوَّنَا وَقَدْ يَأْتِيكَ وُفُودٌ فَلا تَجِدُ مَا تُعْطِيهِمْ فَيَشْمَتُ بِكَ الْعَدُوُّ فَنُحِبُّ أَنْ تَأْخُذَ ثُلُثَ أَمْوَالِنَا حَتَّى إِذَا قَدِمَ عَلَيْكَ وَفْدُ مَكَّةَ وَجَدْتَ مَا تُعْطِيهِمْ فَلَمْ يَرُدَّ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) عَلَيْهِمْ شَيْئاً وَكَانَ يَنْتَظِرُ مَا يَأْتِيهِ مِنْ رَبِّهِ فَنَزَلَ جَبْرَئِيلُ (عَلَيْهِ السَّلام) وَقَالَ قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى وَلَمْ يَقْبَلْ أَمْوَالَهُمْ فَقَالَ الْمُنَافِقُونَ مَا أَنْزَلَ الله هَذَا عَلَى مُحَمَّدٍ وَمَا يُرِيدُ إِلا أَنْ يَرْفَعَ بِضَبْعِ ابْنِ عَمِّهِ وَيَحْمِلَ عَلَيْنَا أَهْلَ بَيْتِهِ يَقُولُ أَمْسِ مَنْ كُنْتُ مَوْلاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاهُ وَالْيَوْمَ قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى ثُمَّ نَزَلَ عَلَيْهِ آيَةُ الْخُمُسِ فَقَالُوا يُرِيدُ أَنْ يُعْطِيَهُمْ أَمْوَالَنَا وَفَيْئَنَا ثُمَّ أَتَاهُ جَبْرَئِيلُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّكَ قَدْ قَضَيْتَ نُبُوَّتَكَ وَاسْتَكْمَلْتَ أَيَّامَكَ فَاجْعَلِ الاسْمَ الاكْبَرَ وَمِيرَاثَ الْعِلْمِ وَآثَارَ عِلْمِ النُّبُوَّةِ عِنْدَ علي (عَلَيْهِ السَّلام) فَإِنِّي لَمْ أَتْرُكِ الارْضَ إِلا وَلِيَ فِيهَا عَالِمٌ تُعْرَفُ بِهِ طَاعَتِي وَتُعْرَفُ بِهِ وَلايَتِي وَيَكُونُ حُجَّةً لِمَنْ يُولَدُ بَيْنَ قَبْضِ النَّبِيِّ إِلَى خُرُوجِ النَّبِيِّ الاخَرِ قَالَ فَأَوْصَى إِلَيْهِ بِالاسْمِ الاكْبَرِ وَمِيرَاثِ الْعِلْمِ وَآثَارِ عِلْمِ النُّبُوَّةِ وَأَوْصَى إِلَيْهِ بِأَلْفِ كَلِمَةٍ وَأَلْفِ بَابٍ يَفْتَحُ كُلُّ كَلِمَةٍ وَكُلُّ بَابٍ أَلْفَ كَلِمَةٍ وَأَلْفَ بَابٍ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ وصیت کی موسیٰ نے یوشع بن نون کو اور یوشع بن نون نے اولاد ہارون و موسیٰ کو کہ اللہ تعالیٰ جس گروہ میں سے جس کو چاہتا ہے انتخاب کر لیتا ہے اور بشارت دی موسیٰ و یوشع نے مسیح کے آنے کی پس جب خدا نے مسیح کو مبعوث کیا تو انھوں نے کہا میرے بعد اولاد اسماعیل سے ایک نبی آنے والا ہے جو میری تصدیق کرے گا اور تمہاری بھی اور (انجیل و توریت کے منسوخ ہونے میں) میرے لیے عذر ہو گا اور تمہارے لیے بھی اور اس کے بعد اس کے مخصوصین اور مستحفیفین کہلائے جائیں گے کیونکہ اللہ نے ان کا یہی نام رکھا ہے کیونکہ وہ حفاظت کرنے والے ہوں گے اسم اکبر کی اور یہ وہ کتاب ہے جس سے ہر شے جانی جاتی ہے جو انبیاء علیہم السلام کے پاس تھی جیسا کہ خدا فرماتا ہے ہم نے تم سے پہلے رسولوں کو بھیجا اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب و میزان نازل کی۔ کتاب اسم اکبر ہے جو مشہور ہے توریت و انجیل و فرقان سے لیکن اتنا ہے نہیں اس میں کتاب نوح و صالح و شعیب و ابراہیم بھی ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ یہ پہلے صحیفوں ابراہیم و موسیٰ میں بھی ہے صحف ابراہیم کہاں ہیں صحف ابراہیم اور صحف موسیٰ اسم اکبر ہیں وہ وصیت ایک عالم کے بعد دوسرے عالم کی طرف منتقل ہوتی رہی یہاں تک کہ اس کا سلسلہ حضرت محمد مصطفیٰ تک پہنچا۔ جب حضرت مبعوث ہوئے تو ایمان لائے ان پر دین کے حفاظت کرنے والے اعقاب اور جھٹلایا ان کو بنی اسرائیل نے رسولِ خدا نے اللہ کی طرف لوگوں کو بلایا اور راہ خدا میں جہاد کیا پھر خدا نے وحی کہ کہ اپنے وصی کے فضائل کا اعلان کرو۔ عرض کی پرودگار یہ قوم عرب جاہل ہے ان میں نہ کوئی کتاب آئی نہ کوئی نبی مبعوث ہوا وہ انبیاء کی نبوت کے فضل و شرف کو جانتے ہی نہیں۔ وہ مجھ پر ایمان نہ لائیں گے اگر میں ان کو اپنے اہلبیت کی فضیلت سے آگاہ کرونگا۔ خدا نے فرمایا ان کے بارے میں تم غم نہ کرو، تم ان کے سامنے اپنے وصی کی فضیلت کا ذکر کرو ان کے قلوب میں نفاق پیدا ہو جائے گا۔ پس رسول اللہ نے جان لیا کہ یہ ہونے والا ہے۔ خدا نے کہا اے محمد ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ یہ لوگ کہتے ہیں تمہارے سینے میں اس سے تنگی ہوتی ہے۔ بے شک وہ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم آیات خدا سے انکار کرتے ہیں اور یہ ان کا انکار بغیر حجت و دلیل کے ہے رسول اللہ ان کی تالیف قلب کرتے تھے اور بعض ان کے مقابل بعض سے مدد لیتے تھے اور برابر اپنے وصی کی کوئی نہ کوئی فضیلت بیان کرتے تھے یہاں تک کہ سورہ الم نشرح نازل ہوا پس جب اپنی موت کا علم ہوا تو لوگوں کو اپنی موت کی خبر دی اور اس آیت سے لوگوں پر حجت قائم کی اے رسول جب تم کار نبوت سے فارغ ہو جاؤ تو اپنا جانشین مقر کر دو اور اپنے رب کی طرف چلے آؤ یعنی اپنے وصی کی جانشینی کا اعلان علانیہ کرو اور سب کے سامنے ان کی فضیلت بیان کرو۔ تب حضرت نے فرمایا جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے خدا دوست رکھے اسے جو علی کو دوست رکھے اور دشمن رکھے اسے جو علی کو دوست رکھے (تین بار فرمایا) البتہ میں ایسے کو وصی بنا رہا ہوں جو رسول کو دوست رکھتا ہے اور اللہ اور رسول اسے دوست رکھتے ہیں۔ وہ ایسے لوگوں سے دور رہتا ہے جو اللہ اور جو اپنے ساتھیوں کو بزدل بتاتے تھے اور ساتھی ان کو، اور یہ بھی فرمایا علی سید المومنین ہیں علی عمود الدین ہیں یہی وہ ہیں جو میرے بعد حق پر لوگوں کی گردنیں ماریں گے علی جس طرف مائل ہوں گے حق ان کے ساتھ ہو گا۔ اور فرمایا میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جاتا ہوں اگر تم نے ان کو پکڑے رکھا تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے وہ دونوں ایک اللہ کی کتاب ہے اور دوسرے میرے اہلبیت میری عترت۔ لوگو میری بات سنو میں نے امر حق کی تبلیغ کر دی، تم عنقریب حوض کوثر پر میرے پاس آؤ گے میں تم سے ان دونوں گرانقدر چیزوں کے متعلق سوال کروں گا یعنی اللہ کی کتاب اور اپنی عترت کے متعلق تم ان پر سبقت نہ لے جاؤ ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے اور ان کو سکھاؤ پڑھاؤ مت، وہ تم سے زیادہ جاننے والے ہیں پس آنحضرت کے اس قول سے ان پر حجت تمام ہو گئی اور خدا کی اس کتاب سے جسے لوگ پڑھتے ہیں پس اہلبیت کی فضیلت رسول کے کلام قرآن کے بیان سے لوگوں پر ظاہر ہوتی رہی۔ جیسا کہ خدا فرماتا ہے خدا ارادہ رکھتا ہے کہ اے اہلبیت خدا تم سے ہر قسم کی نجاست کو دور رکھے اور پاک رکھے جو حق پاک رکھنے کا ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ جو مال غنیمت تم کو ملے اس کا پانچواں حصہ اللہ اور رسول اور ذوی القربیٰ کا ہے اور فرمایا ذوی القربیٰ کا حق ادا کرو۔ اس سے مراد علی ہیں اور ان کا حق وہ وصیت تھی جو ان کے لیے کی گئی اور اسم اکبر اور میراث علم آثار نبوت تھے اور فرمایا اے رسول تم کہہ دو کہ میں تم سے ذوی القربیٰ کی محبت کےسوا کچھ نہیں چاہتا اور فرمایا جب مودت کے متعلق سوال کیا جائے گا کہ کس گناہ پر قتل کیا گیا یعنی خدا فرماتا ہے کہ میں تم سے سوال کروں گا اس مودت کے متعلق کہ جن کی فضیلت تم پر نازل کی گئی تھی تم نے اس گناہ پر ان کو قتل کیا اور اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر سے پوچھا اور ذکر سے مراد کتاب اور اہل ذکر آل محمد علیہم السلام ہیں خدا نے ان سے سوال کرنے کا حکم دیا ہے نہیں حکم دیا ان کو جاہلوں کے سوال کا اور اللہ نے قرآن کا نام ذکر رکھا ہے جیسا کہ فرماتا ہے اور ہم نے اے رسول ذکر کو تم پر نازل کیا تاکہ تم لوگوں سے بیان کردو جو ان کے لیے نازل کیا گیا ہے تاکہ وہ غور و فکر کریں۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ ذکر ہے تمہارے لیے اور تمہاری قوم کے لیے اور عنقریب تم سے پوچھا جائے گا اور فرمایا اللہ نے اللہ کی اطاعت کرو اور اطاعت کرو رسول کی اور جو میں تم میں اولی الامر ہیں ان کی اور یہ بھی فرمایا اگر تم اپنے معاملہ میں رجوع کرو گے اللہ کی طرف اور رسول اور اولی الامر کی طرف اور ان میں جو استنباط کرنے والے ہیں وہ اس کو بتا دیں گے پس جن اولی الامر کی طرف رجوع کا حکم دیا گیا ہے وہ وہی ہیں جن کی اطاعت کا حکم ہے جب رسولِ خدا حج آخر سے واپس ہوئے تو جبرئیل آیت یاایھا الرسول بلغ لے کر آئے یعنی اے رسول جو تم پر نازل کیا گیا اسے پہنچا دو اور اگر تم نے یہ کام نہ کیا تو تم نے کار رسالت ہی انجام نہ دیا اور اللہ تو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے اور اللہ کافروں کے گروہ کو ہدایت نہیں کرتا۔ پھر منادی نے ندا دی سب لوگ جمع ہو گئے آپ نے ببول کے درختوں کے متعلق حکم دیا کہ ان کے کانٹوں کو جھاڑو سے سمیٹا جائے۔
پھر فرمایا لوگو بتاؤ تمہارے نفسوں سے بہتر کون ہے انھوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول، فرمایا پس جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے خدا دوست رکھ اس کو جو اسے دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو اسے دشمن رکھے تین مرتبہ یہ کلمات کہے۔ پس قوم کے دل میں نفاق کا کانٹا کھٹکا اور کہنے لگے خدا نے ایسا حکم محمد پر ہرگز نازل نہیں کیا بلکہ وہ اس سے اپنے ابن عم کا مرتبہ بلند کرنا چاہتےہیں جب حضرت مدینہ آئے تو انصار نے حاضر خدمت ہو کر کہا یا رسول اللہ خدا نے ہم پر احسان کیا ہے اور آپ کی وجہ سے ہمیں شرف بخشا ہے آپ کے ظہور سے ہمارے دوست خوش ہوئے اور دشمن دل سوختہ آپ کے پاس اطراف و جوانب سے وفد آیا کرتے ہیں اور آپ کے پاس کوئی چیز ان کو دینے کے لیے نہیں اس بنا پر ہمارے دشمن شماتت کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کا تہائی مال آپ لے لیں تاکہ مکہ کا وفد جب آئے تو آپ کے پاس ان کو دینے کے لیے مال ہو۔ حضرت نے کوئی جواب نہ دیا اور منتظر وحی رہے۔ جبرئیل نازل ہوئے اور کہا کہ اے رسول آپ ان سے کہہ دیں کہ میں سوائے اپنے ذوالقربیٰ کی محبت کے اور کچھ نہیں چاہتا۔ پھر آیت خمس نازل ہوئی تو منافق کہنے لگے رسول چاہتے ہیں کہ ہمارے اموال اور مال غنیمت میں سے اپنے اہلبیت کو دیں۔ پس جبرئیل آئے اور کہا اے محمد آپ نے نبوت کو پورا کر دیا اور اپنے ایام کو ختم کر دیا لہذا اب اسم اکبر میراث علم اور آثار علم نبوت علی کے سپرد کر دو اس حال میں زمین کو نہیں چھوڑوں گا کہ اس میں کوئی ایسا عالم نہ ہو جس سے میری اطاعت اور میری ولایت کا تعارف نہ اور حجت ہو ان لوگوں کے لیے جو نبی کی وفات کے بعد وصی یعنی بارھویں امام کے خروج تک پیدا ہوں۔ پس حضرت نے وصیت کی علی علیہ السلام کواسم اکبر کی اور میراث علم اور آثار علم نبوت اور وصیت کی ہزار کلموں اور ہزار باب کی کہ ہر ایک کلمہ اور ہر باب سے ہزار کلمے اور ہزار باب منکشف ہوئے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَصَالِحِ بْنِ السِّنْدِيِّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ مُعَمَّرٍ الْعَطَّارِ عَنْ بَشِيرٍ الدَّهَّانِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ قَالَ رَسُولُ الله ﷺ فِي مَرَضِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ ادْعُوا لِي خَلِيلِي فَأَرْسَلَتَا إِلَى أَبَوَيْهِمَا فَلَمَّا نَظَرَ إِلَيْهِمَا رَسُولُ الله ﷺ أَعْرَضَ عَنْهُمَا ثُمَّ قَالَ ادْعُوا لِي خَلِيلِي فَأُرْسِلَ إِلَى عَلِيٍّ فَلَمَّا نَظَرَ إِلَيْهِ أَكَبَّ عَلَيْهِ يُحَدِّثُهُ فَلَمَّا خَرَجَ لَقِيَاهُ فَقَالا لَهُ مَا حَدَّثَكَ خَلِيلُكَ فَقَالَ حَدَّثَنِي أَلْفَ بَابٍ يَفْتَحُ كُلُّ بَابٍ أَلْفَ بَابٍ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے اپنے مرض الموت میں میرے پاس میرے خلیل کو بلاؤ پس دونوں بیویوں نے اپنے اپنے باپ کو بلا لیا۔ جب ان کو رسول نے دیکھا تو اپنا منہ پھیر لیا اور فرمایا میرے دوست کو بلاؤ۔ پس علی کو بلایا گیا۔ حضرت ان کی طرف جھکے اور باتیں کیں۔ جب علی نکلے تو دونوں نے پوچھا آپ سے آپ کے خلیل نے کیا کہا۔ فرمایا مجھے ہزار باب علم کے تعلیم کیے اور ہر باب سے ہزار باب میرے اور منکشف ہو گئے۔
أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ يُونُسَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الْحَضْرَمِيِّ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ عَلَّمَ رَسُولُ الله ﷺ عَلِيّاً ﷺ أَلْفَ حَرْفٍ كُلُّ حَرْفٍ يَفْتَحُ أَلْفَ حَرْفٍ۔
امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے علی کو ہزار حرف تعلیم کیے اور ہزار حروف اور ان پر منکشف ہو گئے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ كَانَ فِي ذُؤَابَةِ سَيْفِ رَسُولِ الله ﷺ صَحِيفَةٌ صَغِيرَةٌ فَقُلْتُ لابِي عَبْدِ الله علیہ السلام أَيُّ شَيْءٍ كَانَ فِي تِلْكَ الصَّحِيفَةِ قَالَ هِيَ الاحْرُفُ الَّتِي يَفْتَحُ كُلُّ حَرْفٍ أَلْفَ حَرْفٍ قَالَ أَبُو بَصِيرٍ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام فَمَا خَرَجَ مِنْهَا حَرْفَانِ حَتَّى السَّاعَةِ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول اللہ کے قبضہ شمشیر میں ایک چھوٹا سا صحیفہ تھا ابوبصیر کہتے ہیں میں نے پوچھا اس صحیفہ میں کیا تھا۔ فرمایا وہ حروف تھے کہ ہر حرف سے ہزار حرف اور ظاہر ہوتے تھے اور یہ بھی فرمایا کہ ان میں سے دو حروف بھی اب تک ظاہر نہیں ہوئے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ سُكَّرَةَ قَالَ قُلْتُ لابِي عَبْدِ الله علیہ السلام جُعِلْتُ فِدَاكَ هَلْ لِلْمَاءِ الَّذِي يُغَسَّلُ بِهِ الْمَيِّتُ حَدٌّ مَحْدُودٌ قَالَ إِنَّ رَسُولَ الله ﷺ قَالَ لِعلي علیہ السلام إِذَا مِتُّ فَاسْتَقِ سِتَّ قِرَبٍ مِنْ مَاءِ بِئْرِ غَرْسٍ فَغَسِّلْنِي وَكَفِّنِّي وَحَنِّطْنِي فَإِذَا فَرَغْتَ مِنْ غُسْلِي وَكَفْنِي فَخُذْ بِجَوَامِعِ كَفَنِي وَأَجْلِسْنِي ثُمَّ سَلْنِي عَمَّا شِئْتَ فَوَ الله لا تَسْأَلُنِي عَنْ شَيْءٍ إِلا أَجَبْتُكَ فِيهِ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا میں آپ پر فدا ہوں میت کے غسل کے پانی کی کیا حد ہے۔ فرمایا کہ رسول اللہ نے علی علیہ السلام سے کہا کہ اگر میں مر جاؤں تو چاہِ غرس (مدینہ کا کنواں) سے چھ بڑے ڈول پانی کے لینا مجھے غسل و کفن دینا اور حنوظ کرنا اور جب غسل و کفن سے فارغ ہونا تو مجھے کفن سمیت بٹھا دینا اور جو چاہنا دریافت کرنا پس خدا کی قسم جو تم پوچھو گے جواب دوں گا۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنِ ابْنِ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ أَبَانِ بْنِ تَغْلِبَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ لَمَّا حَضَرَ رَسُولَ الله ﷺ الْمَوْتُ دَخَلَ عَلَيْهِ علي علیہ السلام فَأَدْخَلَ رَأْسَهُ ثُمَّ قَالَ يَا عَلِيُّ إِذَا أَنَا مِتُّ فَغَسِّلْنِي وَكَفِّنِّي ثُمَّ أَقْعِدْنِي وَسَلْنِي وَاكْتُبْ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے جب رسول اللہ کی موت کا وقت آیا تو حضرت علی علیہ السلام کو اپنی ردا میں داخل کر کے فرمایا تم مجھے غسل و کفن دینا پھر مجھے بٹھانا اور جو چاہنا پوچھ لینا۔
عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْوَلِيدِ شَبَابٍ الصَّيْرَفِيِّ عَنْ يُونُسَ بْنِ رِبَاطٍ قَالَ دَخَلْتُ أَنَا وَكَامِلٌ التَّمَّارُ عَلَى أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فَقَالَ لَهُ كَامِلٌ جُعِلْتُ فِدَاكَ حَدِيثٌ رَوَاهُ فُلانٌ فَقَالَ اذْكُرْهُ فَقَالَ حَدَّثَنِي أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ حَدَّثَ عَلِيّاً علیہ السلام بِأَلْفِ بَابٍ يَوْمَ تُوُفِّيَ رَسُولُ الله ﷺ كُلُّ بَابٍ يَفْتَحُ أَلْفَ بَابٍ فَذَلِكَ أَلْفُ أَلْفِ بَابٍ فَقَالَ لَقَدْ كَانَ ذَلِكَ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ فَظَهَرَ ذَلِكَ لِشِيعَتِكُمْ وَمَوَالِيكُمْ فَقَالَ يَا كَامِلُ بَابٌ أَوْ بَابَانِ فَقُلْتُ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ فَمَا يُرْوَى مِنْ فَضْلِكُمْ مِنْ أَلْفِ أَلْفِ بَابٍ إِلا بَابٌ أَوْ بَابَانِ قَالَ فَقَالَ وَمَا عَسَيْتُمْ أَنْ تَرْوُوا مِنْ فَضْلِنَا مَا تَرْوُونَ مِنْ فَضْلِنَا إِلا أَلْفاً غَيْرَ مَعْطُوفَةٍ۔
یونس بن رباط سے مروی ہے کہ میں اور کامل تمار امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس آئے۔ کامل نے کہا میں آپ پر فدا ہوں ایک حدیث فلاں فلاں بیان کرتا ہے ۔ فرمایا بیان کرو وہ کیا ہے کہا نبی نے علی کو بہ وقت وفات ایک ہزار باب علم کے تعلیم فرمائے اور ہر باب سے علم کے ایک ایک ہزار باب اور کھل گئے۔ فرمایا ٹھیک ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کے شیعوں یا دوستوں کو یہ معلوم ہیں۔ فرمایا ایک باب یا دو باب، میں نے کہا آپ کی فضیلت سے نہیں بیان کیے جاتے مگر ایک یا دو باب کے۔ فرمایا عنقریب تم ہماری فضیلت سے نہ بیان کرو گے مگر ایک الف غیر مربوط یعنی بہت ہی کم۔