مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

(3-64)

خدا اور رسول اللہ ﷺ کی نص آئمہ علیہم السلام کے لیے

حدیث نمبر 1

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام عَنْ قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ أَطِيعُوا الله وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الامْرِ مِنْكُمْ فَقَالَ نَزَلَتْ فِي عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ (عَلَيْهم السَّلام) فَقُلْتُ لَهُ إِنَّ النَّاسَ يَقُولُونَ فَمَا لَهُ لَمْ يُسَمِّ عَلِيّاً وَأَهْلَ بَيْتِهِ (عَلَيْهم السَّلام) فِي كِتَابِ الله عَزَّ وَجَلَّ قَالَ فَقَالَ قُولُوا لَهُمْ إِنَّ رَسُولَ الله ﷺ نَزَلَتْ عَلَيْهِ الصَّلاةُ وَلَمْ يُسَمِّ الله لَهُمْ ثَلاثاً وَلا أَرْبَعاً حَتَّى كَانَ رَسُولُ الله ﷺ هُوَ الَّذِي فَسَّرَ ذَلِكَ لَهُمْ وَنَزَلَتْ عَلَيْهِ الزَّكَاةُ وَلَمْ يُسَمِّ لَهُمْ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَماً دِرْهَمٌ حَتَّى كَانَ رَسُولُ الله ﷺ هُوَ الَّذِي فَسَّرَ ذَلِكَ لَهُمْ وَنَزَلَ الْحَجُّ فَلَمْ يَقُلْ لَهُمْ طُوفُوا أُسْبُوعاً حَتَّى كَانَ رَسُولُ الله ﷺ هُوَ الَّذِي فَسَّرَ ذَلِكَ لَهُمْ وَنَزَلَتْ أَطِيعُوا الله وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الامْرِ مِنْكُمْ وَنَزَلَتْ فِي عَلِيٍّ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ فَقَالَ رَسُولُ الله ﷺ فِي عَلِيٍّ مَنْ كُنْتُ مَوْلاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاهُ وَقَالَ ﷺ أُوصِيكُمْ بِكِتَابِ الله وَأَهْلِ بَيْتِي فَإِنِّي سَأَلْتُ الله عَزَّ وَجَلَّ أَنْ لا يُفَرِّقَ بَيْنَهُمَا حَتَّى يُورِدَهُمَا عَلَيَّ الْحَوْضَ فَأَعْطَانِي ذَلِكَ وَقَالَ لا تُعَلِّمُوهُمْ فَهُمْ أَعْلَمُ مِنْكُمْ وَقَالَ إِنَّهُمْ لَنْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ بَابِ هُدًى وَلَنْ يُدْخِلُوكُمْ فِي بَابِ ضَلالَةٍ فَلَوْ سَكَتَ رَسُولُ الله ﷺ فَلَمْ يُبَيِّنْ مَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ لادَّعَاهَا آلُ فُلانٍ وَآلُ فُلانٍ وَلَكِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ أَنْزَلَهُ فِي كِتَابِهِ تَصْدِيقاً لِنَبِيِّهِ ﷺ إِنَّما يُرِيدُ الله لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً فَكَانَ عَلِيٌّ وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ وَفَاطِمَةُ (عَلَيْهم السَّلام) فَأَدْخَلَهُمْ رَسُولُ الله ﷺ تَحْتَ الْكِسَاءِ فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ ثُمَّ قَالَ اللهمَّ إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ أَهْلاً وَثَقَلاً وَهَؤُلاءِ أَهْلُ بَيْتِي وَثَقَلِي فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ أَ لَسْتُ مِنْ أَهْلِكَ فَقَالَ إِنَّكِ إِلَى خَيْرٍ وَلَكِنَّ هَؤُلاءِ أَهْلِي وَثِقْلِي فَلَمَّا قُبِضَ رَسُولُ الله ﷺ كَانَ عَلِيٌّ أَوْلَى النَّاسِ بِالنَّاسِ لِكَثْرَةِ مَا بَلَّغَ فِيهِ رَسُولُ الله ﷺ وَإِقَامَتِهِ لِلنَّاسِ وَأَخْذِهِ بِيَدِهِ فَلَمَّا مَضَى عَلِيٌّ لَمْ يَكُنْ يَسْتَطِيعُ عَلِيٌّ وَلَمْ يَكُنْ لِيَفْعَلَ أَنْ يُدْخِلَ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ وَلا الْعَبَّاسَ بْنَ عَلِيٍّ وَلا وَاحِداً مِنْ وُلْدِهِ إِذاً لَقَالَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ إِنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنْزَلَ فِينَا كَمَا أَنْزَلَ فِيكَ فَأَمَرَ بِطَاعَتِنَا كَمَا أَمَرَ بِطَاعَتِكَ وَبَلَّغَ فِينَا رَسُولُ الله ﷺ كَمَا بَلَّغَ فِيكَ وَأَذْهَبَ عَنَّا الرِّجْسَ كَمَا أَذْهَبَهُ عَنْكَ فَلَمَّا مَضَى علي علیہ السلام كَانَ الْحَسَنُ علیہ السلام أَوْلَى بِهَا لِكِبَرِهِ فَلَمَّا تُوُفِّيَ لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يُدْخِلَ وُلْدَهُ وَلَمْ يَكُنْ لِيَفْعَلَ ذَلِكَ وَالله عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ وَأُولُوا الارْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى‏ بِبَعْضٍ فِي كِتابِ الله فَيَجْعَلَهَا فِي وُلْدِهِ إِذاً لَقَالَ الْحُسَيْنُ أَمَرَ الله بِطَاعَتِي كَمَا أَمَرَ بِطَاعَتِكَ وَطَاعَةِ أَبِيكَ وَبَلَّغَ فِيَّ رَسُولُ الله ﷺ كَمَا بَلَّغَ فِيكَ وَفِي أَبِيكَ وَأَذْهَبَ الله عَنِّي الرِّجْسَ كَمَا أَذْهَبَ عَنْكَ وَعَنْ أَبِيكَ فَلَمَّا صَارَتْ إِلَى الْحُسَيْنِ علیہ السلام لَمْ يَكُنْ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَدَّعِيَ عَلَيْهِ كَمَا كَانَ هُوَ يَدَّعِي عَلَى أَخِيهِ وَعَلَى أَبِيهِ لَوْ أَرَادَا أَنْ يَصْرِفَا الامْرَ عَنْهُ وَلَمْ يَكُونَا لِيَفْعَلا ثُمَّ صَارَتْ حِينَ أَفْضَتْ إِلَى الْحُسَيْنِ علیہ السلام فَجَرَى تَأْوِيلُ هَذِهِ الايَةِ وَأُولُوا الارْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى‏ بِبَعْضٍ فِي كِتابِ الله ثُمَّ صَارَتْ مِنْ بَعْدِ الْحُسَيْنِ لِعَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ثُمَّ صَارَتْ مِنْ بَعْدِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ إِلَى مُحَمَّدِ بن علي (عَلَيْهما السَّلام) وَقَالَ الرِّجْسُ هُوَ الشَّكُّ وَالله لا نَشُكُّ فِي رَبِّنَا أَبَداً. مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ وَالْحُسَيْنُ بْنُ سَعِيدٍ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ عِمْرَانَ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ الْحُرِّ وَعِمْرَانَ بْنِ عَلِيٍّ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) مِثْلَ ذَلِكَ۔

راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیت اطیعو اللہ و اطیعو الرسول کے متعلق پوچھا۔ فرمایا یہ آیت حضرت علی اور حسن و حسین کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ میں نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کتاب خدا میں علی اور ان کے اہلبیت کا نام نہیں۔ فرمایا تم ان سے کہو کہ نماز حضرت پر نازل ہوئی لیکن یہ نہ بتایا گیا کہ تین رکعت یا چار رکعت ۔ اس کی تفسیر رسول نے بیان کی۔ آیت زکوٰۃ نازل ہوئی لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ ہر چالیس پر ایک اس کی تفسیر رسول اللہ نے لوگوں سے بیان فرمائی۔ آیت حج نازل ہوئی لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ سات طواف کرو، یہ تفسیر رسول اللہ نے بیان فرمائی۔
آیت اطیعو اللہ الخ نازل ہوئی یہ آیت حضرت علیؑ ، حسن و حسین کی شان میں نازل ہوئی۔ رسول اللہ نے علی کے بارے میں فرمایا من کنت مولاہ فعلی مولاہ اور یہ بھی فرمایا اے مسلمانو میں تم میں اللہ کی کتاب اور اپنی اہلبیت کے بارے میں وصیت کرتا ہوں۔ میں نے خدا سے دعا کی تھی کہ ان دونوں میں تفرقہ نہ ڈالے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس آئیں۔
اور یہ بھی فرمایا کہ تم ان کو تعلیم نہ دو وہ تم سے زیادہ جاننے والے ہیں وہ تم کو باب ہدایت سے نکلنے نہ دیں گے اور باب ضلالت میں داخل نہ ہونے دیں گے۔ اگر رسول ساکت ہو جاتے اور اپنے اہل بیت کو نہ بتاتے تو فلاں فلاں خاندان والے اہل بیت ہونے کا دعویٰ کر بیٹھتے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اپنے نبی کے قول کی تصدیق کر دی۔ فرمایا اللہ کا ارادہ ہے کہ اے اہل بیت ہر قسم کے رجس کو تم سے دور رکھے اور پاک رکھے جو پاک رکھنے کا حق ہے۔ یہ اہل بیت علی و فاطمہ و حسن و حسین ہیں ان کو رسول اللہ نے خانہ ام سلمہ میں چادر کے اندر داخل کر کے فرمایا خداوندا ہر نبی کے کچھ اہل اور گرانقدر ذاتیں ہوتی ہیں۔ میرے اہل بیت اور گرانقدر عزیز یہ ہیں۔ ام سلمہ نے کہا کیا میں آپ کے اہل سے نہیں۔ فرمایا تم خیر پر ہو لیکن یہ میرے اہل اور ثقل ہیں۔
جب رسول اللہ نے وفات پائی تو علی تمام لوگوں سے بہتر تھے جیسا کہ رسول اللہ نے بکثرت ان کے بارے میں فرمایا تھا اور لوگوں پر ان کو سردار بنایا تھا اور روز غدیر ان کا ہاتھ پکڑ کر سب کو ان کی جانشینی کی خبر دے دی تھی۔ جب علی کا وقت وفات قریب آیا تو ان کی قدرت سے یہ بات باہر تھی کہ وہ اپنے فرزند محمد حنفیہ یا عباس یا حسن یا حسین کے سوا اپنے کسی اور بیٹے کو اپنا جانشین بنا دیتے اور اگر بفرض محال حضرت علی کسی اور کو اپنا جانشین بنا دیتے تو حسن اور حسین کہتے اللہ تعالیٰ نے جس طرح آپ کی فضیلت میں آیات نازل کیں جس طرح آپ کی اطاعت کا حکم دیا ہماری اطاعت کا بھی دیا ہے جس طرح رسول اللہ نے آپ کے لیے تبلیغ کی ہے ہمارے لیے بھی کی ہے جس طرح رجس سے آپ کو دور رکھا ہے ہم کو بھی دور رکھا ہے۔
اور جب حضرت علیؑ کا انتقال ہوا تو امام حسن بہ سبب اپنی بزرگی کے سب سے بہتر تھے وقت انتقال ان کی یہ طاقت نہ تھی کہ وہ اپنا قائم مقام اپنی اولاد میں سے کسی کو بنا دیتے اور وہ ایسا نہ کر سکتے تھے۔ جبکہ خدا فرماتا ہے رشتہ داروں میں بعض بعض سے بہتر ہیں اللہ کی کتاب میں اگر وہ اپنے بیٹے کو بنا دیتے تو حسین ان سے کہتے ایسا کیوں کیا جب اللہ نے میری اطاعت کا اسی طرح حکم دیا ہے جس طرح آپ کی اور آپ کے باپ کی اطاعت کا ہے رسول اللہ نے میرے بارے میں بھی اسی طرح تبلیغ کی ہے جس طرح آپ کے اور آپ کے باپ کے بارے میں خدا نے مجھ کو بھی رجس سے اسی طرح دور رکھا ہے جس طرح آپ کو اور آپ کے باپ کو
پس جب امامت امام حسین کو ملی تو ان کے خاندان میں کوئی ایسا نہ تھا کہ اس طرح مدعی امامت ہوتا جیسے امام حسین اپنے بھائی اور باپ کے مقابل ہو سکتے تھے نیز یہ وہ امر امامت کو امام حسین سے نہیں ہٹا سکتے تھے اور نہ انھوں نے ایسا کیا۔ جب امامت امام حسینؑ کو ملی تو اس آیت کی تاویل جمع طاہر ہو گئی کہ کتاب خدا کی رو سے بعض رشتہ دار بعض سے بہتر ہیں۔ امام حسین کے بعد علی بن الحسین کی طرف منتقل ہوئی پھر محمد بن علی کی طرف۔ فرمایا امام نے رجس سے مراد شک ہے ہم نے اپنے رب کے متعلق کبھی شک نہیں کیا۔ ابوبصیر نے بھی ایسی ہی روایت کی ہے۔

حدیث نمبر 2

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ الْمُغِيرَةِ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحِيمِ بْنِ رَوْحٍ الْقَصِيرِ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ النَّبِيُّ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ وَأُولُوا الارْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى‏ بِبَعْضٍ فِي كِتابِ الله فِيمَنْ نَزَلَتْ فَقَالَ نَزَلَتْ فِي الامْرَةِ إِنَّ هَذِهِ الايَةَ جَرَتْ فِي وُلْدِ الْحُسَيْنِ علیہ السلام مِنْ بَعْدِهِ فَنَحْنُ أَوْلَى بِالامْرِ وَبِرَسُولِ الله ﷺ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالانْصَارِ قُلْتُ فَوُلْدُ جَعْفَرٍ لَهُمْ فِيهَا نَصِيبٌ قَالَ لا قُلْتُ فَلِوُلْدِ الْعَبَّاسِ فِيهَا نَصِيبٌ فَقَالَ لا فَعَدَدْتُ عَلَيْهِ بُطُونَ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ كُلَّ ذَلِكَ يَقُولُ لا قَالَ وَنَسِيتُ وُلْدَ الْحَسَنِ علیہ السلام فَدَخَلْتُ بَعْدَ ذَلِكَ عَلَيْهِ فَقُلْتُ لَهُ هَلْ لِوُلْدِ الْحَسَنِ علیہ السلام فِيهَا نَصِيبٌ فَقَالَ لا وَالله يَا عَبْدَ الرَّحِيمِ مَا لِمُحَمَّدِيٍّ فِيهَا نَصِيبٌ غَيْرَنَا۔

امام محمد باقر علیہ السلام سے راوی نے پوچھا کہ آیت نبی مومنین کے نفسوں سے زیادہ ان پر اولی بالتصرف ہیں اور ان کی ازواج مومنین کی مائیں ہیں اور نبی کے رشتہ داروں میں بعض ان سے زیادہ اولیٰ ہیں کتاب خدا میں کس کے بارے میں ہوئی ہے۔ فرمایا صاحبانِ امر کے بارے میں نازل کی ہے اور اس کا حکم جاری ہوا ہے اولاد حسین کے بارے میں ان کے بعد پس ہم اس امر کے اور قرابت رسول کے بہ نسبت مومنین و مہاجرین و انصار کے زیادہ مستحق ہیں۔ میں نے کہا کیا اولاد جعفر کا بھی اس میں کوئی حصہ ہے۔ فرمایا نہیں۔ میں نے پوچھا اور اولاد عباس کا۔ فرمایا نہیں۔ پھر نبی عبدالمطلب کی ہر شاخ کا ذکر کیا۔ فرمایا نہیں۔ اولاد امام حسن کا ذکر کرنا بھول گیا۔ بعد میں میں نے ان کے متعلق بھی پوچھا۔ فرمایا نہیں۔ اور پھر فرمایا اے عبدالرحیم (راوی) محمد کے رشتہ داروں میں ہمارے سوا کسی اور کا حصہ نہیں۔

حدیث نمبر 3

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْهَاشِمِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عِيسَى عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ إِنَّما وَلِيُّكُمُ الله وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا قَالَ إِنَّمَا يَعْنِي أَوْلَى بِكُمْ أَيْ أَحَقُّ بِكُمْ وَبِأُمُورِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَأَمْوَالِكُمُ الله وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا يَعْنِي عَلِيّاً وَأَوْلادَهُ الائِمَّةَ (عَلَيْهم السَّلام) إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ثُمَّ وَصَفَهُمُ الله عَزَّ وَجَلَّ فَقَالَ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَهُمْ راكِعُونَ وَكَانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام فِي صَلاةِ الظُّهْرِ وَقَدْ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ رَاكِعٌ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ قِيمَتُهَا أَلْفُ دِينَارٍ وَكَانَ النَّبِيُّ ﷺ كَسَاهُ إِيَّاهَا وَكَانَ النَّجَاشِيُّ أَهْدَاهَا لَهُ فَجَاءَ سَائِلٌ فَقَالَ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا وَلِيَّ الله وَأَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ تَصَدَّقْ عَلَى مِسْكِينٍ فَطَرَحَ الْحُلَّةَ إِلَيْهِ وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَيْهِ أَنِ احْمِلْهَا فَأَنْزَلَ الله عَزَّ وَجَلَّ فِيهِ هَذِهِ الايَةَ وَصَيَّرَ نِعْمَةَ أَوْلادِهِ بِنِعْمَتِهِ فَكُلُّ مَنْ بَلَغَ مِنْ أَوْلادِهِ مَبْلَغَ الامَامَةِ يَكُونُ بِهَذِهِ الصِّفَةِ مِثْلَهُ فَيَتَصَدَّقُونَ وَهُمْ رَاكِعُونَ وَالسَّائِلُ الَّذِي سَأَلَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام مِنَ الْمَلائِكَةِ وَالَّذِينَ يَسْأَلُونَ الائِمَّةَ مِنْ أَوْلادِهِ يَكُونُونَ مِنَ الْمَلائِكَةِ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے آیت انما ولیکم اللہ کے متعلق کہ اس میں ولی کے معنی ہیں تم سے بہتر اور تمہارے جملہ امور اور تمہاری جانوں اور مالوں میں سب سے زیادہ حق اور اولیٰ بالتصرف اللہ اور اس کا رسول ہے اور وہ صاحبان ایمان ہیں یعنی علیؑ اور ان کی اولاد میں آئمہ علہیم السلام قیامت تک یہ لوگوں کے ولی ہیں۔ پھر خدا نے ان کا وصف یوں بیان کیا کہ وہ نماز پڑھتے ہیں اور رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔ امیر المومنین علیہ السلام نے نماز ظہر کی دوسری رکعت میں جب رکوع کیا درآنحالیکہ آپ ایک ہزار دینار کا لباس پہنے ہوئے تھے جو رسول اللہ ﷺ نے آپ کو پہنایا تھا اور نجاشی بادشاہ حبش نے بطور تحفہ آنحضرت کے پاس بھیجا تھا مسجد میں ایک سائل آیا اور کہنے لگا السلام علیک یا ولی اللہ اور مومنوں کے نفسوں سے بہتر صدقہ دو ایک مسکین کو۔ حضرت نے وہ لباس اتار کر اس سائل کو اٹھا لینے کا اشارہ کیا۔ خدا نے اس پر یہ آیت نازل کی پس اس نعمت کا سلسلہ آپ کی اس اولاد میں بھی باقی رہا جن کو منصب امامت حاصل ہوا اور وہ اس صفت میں حضرت علی کے ساتھ شریک رہے انھوں نے بھی حالت رکوع میں صدقہ دیا۔ امیر المومنین سے جس نے سوال کیا وہ ملائکہ میں سے تھا اور باقی آئمہ سے سوال کرنے والے بھی ملائکہ تھے۔
توضیح: مشہور ترین حدیث یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے بحالت رکوع انگوٹھی دی تھی لیکن یہ حدیث بتاتی ہے کہ لباس دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ دوبارہ ایسا واقع پیش آیا۔ ایک بار انگوٹھی دوسری بار لباس یہ صورت ایسی ہی ہے جیسے آنحضرت کو کئی بار معراج ہوئی مگر مشہور ایک معراج ہے۔ دیگر آئمہ کا بحالت رکوع زکوٰۃ دینا اگرچہ حضرات اہلسنت کو تسلیم نہیں اسی لیے وہ ولایت امیر المومنین سے اس بنا پر انکار کرتے ہیں کہ اس آیت میں یقیمون و یوتون و راکعون جمع کے صیغے ہیں لیکن اس کے انکار سے حقیقت پر پردہ نہیں پڑ سکتا۔ ولایت کی سند دینے والا خدا ہے اس نے آئمہ کے اس فعل پر اپنے ان ملائکہ کو گواہ بنایا ہے جنھیں بصورت سائل ان حضرات کے پاس بھیجا تھا۔

حدیث نمبر 4

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ أُذَيْنَةَ عَنْ زُرَارَةَ وَالْفُضَيْلِ بْنِ يَسَارٍ وَبُكَيْرِ بْنِ أَعْيَنَ وَمُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ وَبُرَيْدِ بْنِ مُعَاوِيَةَ وَأَبِي الْجَارُودِ جَمِيعاً عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ أَمَرَ الله عَزَّ وَجَلَّ رَسُولَهُ بِوَلايَةِ عَلِيٍّ وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ إِنَّما وَلِيُّكُمُ الله وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَفَرَضَ وَلايَةَ أُولِي الامْرِ فَلَمْ يَدْرُوا مَا هِيَ فَأَمَرَ الله مُحَمَّداً ﷺ أَنْ يُفَسِّرَ لَهُمُ الْوَلايَةَ كَمَا فَسَّرَ لَهُمُ الصَّلاةَ وَالزَّكَاةَ وَالصَّوْمَ وَالْحَجَّ فَلَمَّا أَتَاهُ ذَلِكَ مِنَ الله ضَاقَ بِذَلِكَ صَدْرُ رَسُولِ الله ﷺ وَتَخَوَّفَ أَنْ يَرْتَدُّوا عَنْ دِينِهِمْ وَأَنْ يُكَذِّبُوهُ فَضَاقَ صَدْرُهُ وَرَاجَعَ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَأَوْحَى الله عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْهِ يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَالله يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ فَصَدَعَ بِأَمْرِ الله تَعَالَى ذِكْرُهُ فَقَامَ بِوَلايَةِ علي علیہ السلام يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ فَنَادَى الصَّلاةَ جَامِعَةً وَأَمَرَ النَّاسَ أَنْ يُبَلِّغَ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ قَالَ عُمَرُ بْنُ أُذَيْنَةَ قَالُوا جَمِيعاً غَيْرَ أَبِي الْجَارُودِ وَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام وَكَانَتِ الْفَرِيضَةُ تَنْزِلُ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ الاخْرَى وَكَانَتِ الْوَلايَةُ آخِرَ الْفَرَائِضِ فَأَنْزَلَ الله عَزَّ وَجَلَّ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام يَقُولُ الله عَزَّ وَجَلَّ لا أُنْزِلُ عَلَيْكُمْ بَعْدَ هَذِهِ فَرِيضَةً قَدْ أَكْمَلْتُ لَكُمُ الْفَرَائِضَ۔

فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے خدا نے اپنے رسول کو ولایت علی کا حکم دیا اور آیت "اللہ تمہارا ولی ہے اور اس کا رسول اور وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں نماز کو قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں درآنحالیکہ وہ رکوع میں ہوں" اور فرض کیا ولایت اولی الامر کو لوگوں نے نہ جانا کہ وہ کیا ہے۔ خدا نے حضرت رسول خدا کو حکم دیا کہ وہ ان کو بتائیں جس طرح نماز روزہ اور صوم و حج کے متعلق بتایا ہے جب حضرت کے پاس خدا کا حکم آیا تو آپ دل گرفتہ ہوئے اور یہ خوف ہوا کہ کہیں لوگ مرتد نہ ہو جائیں اور حضرت کو جھٹلائیں نہیں اسی دل گرفتگی کی حالت میں آپ نے اللہ کی طرف رجوع کیا۔ خدا نے وحی کی کہ اے رسول تمہارے رب کی طرف سے جو تم پر نازل ہوا ہے اسے پہنچا دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو گویا خدا کی رسالت ہی کو نہ پہنچایا۔ اللہ تم کو دشمنوں کے شر سے بچا لے گا۔ پس خدا کے حکم کے مطابق روز غدیر خم آپ نے ولایت علی کا اعلان کیا۔ ایک منادی نے نماز کے لیے جمع ہونے کی ندا دی۔ آپ نے ولایت علی کا اعلان کر کے فرمایا جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ غائبین تک یہ خبر پہنچا دیں۔ سب سے اقرار لیا سوائے ابو جارود کے۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک فریضہ دوسرے کے بعد نازل ہوتا ولایت آخری فریضہ تھا جس کے بعد اللہ نے آیت الیوم اکملت لکم دینکم کو نازل کیا اور حضرت نے بھی فرمایا کہ اللہ کہتا ہے کہ اس فریضہ کے بعد اے رسول میں اور کوئی آیت نازل نہ کروں گا کیونکہ میں نے اپنے فرائض کو مکمل کر دیا۔

حدیث نمبر 5

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ صَالِحِ بْنِ السِّنْدِيِّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ هَارون بْنِ خَارِجَةَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ كُنْتُ عِنْدَهُ جَالِساً فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ حَدِّثْنِي عَنْ وَلايَةِ عَلِيٍ أَ مِنَ الله أَوْ مِنْ رَسُولِهِ فَغَضِبَ ثُمَّ قَالَ وَيْحَكَ كَانَ رَسُولُ الله ﷺ أَخْوَفَ لله مِنْ أَنْ يَقُولَ مَا لَمْ يَأْمُرْهُ بِهِ الله بَلِ افْتَرَضَهُ كَمَا افْتَرَضَ الله الصَّلاةَ وَالزَّكَاةَ وَالصَّوْمَ وَالْحَجّ۔

ابو بصیر کہتے ہیں امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص نے کہا آپ ولایت علی کے متعلق بیان کریں۔ آیا یہ حکم اللہ کی طرف سے تھا یا رسول اللہ کی طرف سے تھا۔ یہ سن کر حضرت غصہ ہوئے۔ فرمایا رسول بہت زیادہ خوف کرنے والے تھے اس سے کہ خلافِ حکم خدا کوئی حکم دیں بلکہ خدا نے اس امر ولایت کو بھی اسی طرح فرض قرار دیا ہے جس طرح نماز و زکوٰۃ و روزہ اور حج کو۔

حدیث نمبر 6

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ جَمِيعاً عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ بَزِيعٍ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ يُونُسَ عَنْ أَبِي الْجَارُودِ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ علیہ السلام يَقُولُ فَرَضَ الله عَزَّ وَجَلَّ عَلَى الْعِبَادِ خَمْساً أَخَذُوا أَرْبَعاً وَتَرَكُوا وَاحِداً قُلْتُ أَ تُسَمِّيهِنَّ لِي جُعِلْتُ فِدَاكَ فَقَالَ الصَّلاةُ وَكَانَ النَّاسُ لا يَدْرُونَ كَيْفَ يُصَلُّونَ فَنَزَلَ جَبْرَئِيلُ (علَيْهِ السَّلام) فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْهُمْ بِمَوَاقِيتِ صَلاتِهِمْ ثُمَّ نَزَلَتِ الزَّكَاةُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْهُمْ مِنْ زَكَاتِهِمْ مَا أَخْبَرْتَهُمْ مِنْ صَلاتِهِمْ ثُمَّ نَزَلَ الصَّوْمُ فَكَانَ رَسُولُ الله ﷺ إِذَا كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ بَعَثَ إِلَى مَا حَوْلَهُ مِنَ الْقُرَى فَصَامُوا ذَلِكَ الْيَوْمَ فَنَزَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ بَيْنَ شَعْبَانَ وَشَوَّالٍ ثُمَّ نَزَلَ الْحَجُّ فَنَزَلَ جَبْرَئِيلُ علیہ السلام فَقَالَ أَخْبِرْهُمْ مِنْ حَجِّهِمْ مَا أَخْبَرْتَهُمْ مِنْ صَلاتِهِمْ وَزَكَاتِهِمْ وَصَوْمِهِمْ ثُمَّ نَزَلَتِ الْوَلايَةُ وَإِنَّمَا أَتَاهُ ذَلِكَ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ بِعَرَفَةَ أَنْزَلَ الله عَزَّ وَجَلَّ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَكَانَ كَمَالُ الدِّينِ بِوَلايَةِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ علیہ السلام فَقَالَ عِنْدَ ذَلِكَ رَسُولُ الله ﷺ أُمَّتِي حَدِيثُو عَهْدٍ بِالْجَاهِلِيَّةِ وَمَتَى أَخْبَرْتُهُمْ بِهَذَا فِي ابْنِ عَمِّي يَقُولُ قَائِلٌ وَيَقُولُ قَائِلٌ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْطِقَ بِهِ لِسَانِي فَأَتَتْنِي عَزِيمَةٌ مِنَ الله عَزَّ وَجَلَّ بَتْلَةً أَوْعَدَنِي إِنْ لَمْ أُبَلِّغْ أَنْ يُعَذِّبَنِي فَنَزَلَتْ يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَالله يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ الله لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكافِرِينَ فَأَخَذَ رَسُولُ الله ﷺ بِيَدِ علي علیہ السلام فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ مِنَ الانْبِيَاءِ مِمَّنْ كَانَ قَبْلِي إِلا وَقَدْ عَمَّرَهُ الله ثُمَّ دَعَاهُ فَأَجَابَهُ فَأَوْشَكَ أَنْ أُدْعَى فَأُجِيبَ وَأَنَا مَسْئُولٌ وَأَنْتُمْ مَسْئُولُونَ فَمَا ذَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ فَقَالُوا نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ وَنَصَحْتَ وَأَدَّيْتَ مَا عَلَيْكَ فَجَزَاكَ الله أَفْضَلَ جَزَاءِ الْمُرْسَلِينَ فَقَالَ اللهمَّ اشْهَدْ ثَلاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ قَالَ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ هَذَا وَلِيُّكُمْ مِنْ بَعْدِي فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ مِنْكُمُ الْغَائِبَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام كَانَ وَالله علي علیہ السلام أَمِينَ الله عَلَى خَلْقِهِ وَغَيْبِهِ وَدِينِهِ الَّذِي ارْتَضَاهُ لِنَفْسِهِ ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ الله ﷺ حَضَرَهُ الَّذِي حَضَرَ فَدَعَا عَلِيّاً فَقَالَ يَا عَلِيُّ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَئْتَمِنَكَ عَلَى مَا ائْتَمَنَنِيَ الله عَلَيْهِ مِنْ غَيْبِهِ وَعِلْمِهِ وَمِنْ خَلْقِهِ وَمِنْ دِينِهِ الَّذِي ارْتَضَاهُ لِنَفْسِهِ فَلَمْ يُشْرِكْ وَالله فِيهَا يَا زِيَادُ أَحَداً مِنَ الْخَلْقِ ثُمَّ إِنَّ عَلِيّاً علیہ السلام حَضَرَهُ الَّذِي حَضَرَهُ فَدَعَا وُلْدَهُ وَكَانُوا اثْنَيْ عَشَرَ ذَكَراً فَقَالَ لَهُمْ يَا بَنِيَّ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَبَى إِلا أَنْ يَجْعَلَ فِيَّ سُنَّةً مِنْ يَعْقُوبَ وَإِنَّ يَعْقُوبَ دَعَا وُلْدَهُ وَكَانُوا اثْنَيْ عَشَرَ ذَكَراً فَأَخْبَرَهُمْ بِصَاحِبِهِمْ أَلا وَإِنِّي أُخْبِرُكُمْ بِصَاحِبِكُمْ أَلا إِنَّ هَذَيْنِ ابْنَا رَسُولِ الله ﷺ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ (عَلَيْهما السَّلام) فَاسْمَعُوا لَهُمَا وَأَطِيعُوا وَوَازِرُوهُمَا فَإِنِّي قَدِ ائْتَمَنْتُهُمَا عَلَى مَا ائْتَمَنَنِي عَلَيْهِ رَسُولُ الله ﷺ مِمَّا ائْتَمَنَهُ الله عَلَيْهِ مِنْ خَلْقِهِ وَمِنْ غَيْبِهِ وَمِنْ دِينِهِ الَّذِي ارْتَضَاهُ لِنَفْسِهِ فَأَوْجَبَ الله لَهُمَا مِنْ علي علیہ السلام مَا أَوْجَبَ لِعلي مِنْ رَسُولِ الله ﷺ فَلَمْ يَكُنْ لاحَدٍ مِنْهُمَا فَضْلٌ عَلَى صَاحِبِهِ إِلا بِكِبَرِهِ وَإِنَّ الْحُسَيْنَ كَانَ إِذَا حَضَرَ الْحَسَنُ لَمْ يَنْطِقْ فِي ذَلِكَ الْمَجْلِسِ حَتَّى يَقُومَ ثُمَّ إِنَّ الْحَسَنَ علیہ السلام حَضَرَهُ الَّذِي حَضَرَهُ فَسَلَّمَ ذَلِكَ إِلَى الْحُسَيْنِ علیہ السلام ثُمَّ إِنَّ حُسَيْناً حَضَرَهُ الَّذِي حَضَرَهُ فَدَعَا ابْنَتَهُ الْكُبْرَى فَاطِمَةَ بِنْتَ الْحُسَيْنِ علیہ السلام فَدَفَعَ إِلَيْهَا كِتَاباً مَلْفُوفاً وَوَصِيَّةً ظَاهِرَةً وَكَانَ عَلِيُّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) مَبْطُوناً لا يَرَوْنَ إِلا أَنَّهُ لِمَا بِهِ فَدَفَعَتْ فَاطِمَةُ الْكِتَابَ إِلَى عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ثُمَّ صَارَ وَالله ذَلِكَ الْكِتَابُ إِلَيْنَا. الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُمْهُورٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ بَزِيعٍ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ يُونُسَ عَنْ أَبِي الْجَارُودِ عَنْ ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) مِثْلَهُ۔

ابو جارود نے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت کو فرماتے سنا کہ خدا نے بندوں پر پانچ چیزوں کو فرض کیا ہے جن میں سے انھوں نے چار کو لیا اور ایک کو چھوڑ دیا۔ میں نے کہا اس کا نام بتائیے۔ فرمایا اول کو نماز کو واجب کیا ، لوگ نہیں جانتے تھے کہ کیسے پڑھیں۔ جبرئیل نے آ کر کہا اے محمد ان کو نماز کے اوقات وغیرہ بتائیے۔ پھر زکوٰۃ کا حکم فرمایا اے محمد نماز کی طرف ان کو زکوٰۃ کے مسائل بھی بتائیے جیسے نماز کے بتائے ہیں پھر روزہ کا حکم آیا جب روزہ عاشور ہوا تو آپ نے قرب و جوار کی بستیوں میں روزہ کا حکم بھیجا (پھر اس روزہ کا حکم منسوخ ہوا) اس کے بعد رمضان کے روزے فرض ہوئے۔ پھر حج کا حکم آیا۔ نماز ، زکوٰۃ اور روزے کی طرح آپ نے حج کو بھی سمجھایا۔ پھر ولایت کا حکم آیا روز عرفہ کو جمعہ کا دن تھا۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی الیوم اکملت لکم دینکم ، اور کمالِ دین ہوا ولایت علی کا حکم آنے کے بعد اس وقت رسول اللہ نے فرمایا میری امت عہد جاہلیت کے عقیدے کو لیے ہوئے ہے جب میں انہیں اپنے ابن عم کے متعلق ایسا حکم سناؤں گا تو کوئی یہ کہے گا کوئی وہ بغیر زبان پر لائے یہ بات میرے دل میں آئی۔ پس خدا کا ایک تاکیدی حکم میرے پاس آیا اور مجھے ڈرایا۔ اگر تم نے میرے اس حکم کی تبلیغ نہ کی تو مجھے معذب کریگا۔ اس کے بعد یہ آیت یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک نازل ہوئی بے شک اللہ کافروں کو ہدایت نہیں کرتا۔ پس رسول اللہ نے علی کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا، لوگو مجھ سے پہلے کوئی نبی دنیا میں نہیں آیا مگر یہ کہ خدا نے اسے عمر عطا فرمائی پھر اسے اپنے پاس بلا لیا پس عنقریب میں بھی بلایا جاؤں گا اور میں اس کی دعوت کو قبول کروں گا۔ خدا کے یہاں مجھ سے بھی سوال کیا جائے گا اور تم سے بھی پس تم کیا کہو گے۔ انھوں نے کہا ہم اس کی گواہی دیں گے کہ آپ نے حق تبلیغ و نصیحت ادا کیا اور جو آپ کی ذمہ داری تھی اسے پورا کیا۔ پس اللہ آپ کو تمام رسولوں سے بہتر جزا دے۔ حضرت نے فرمایا خداوند گواہ رہنا (تین بار) پھر فرمایا اے مسلمانوں یہ علی تمہارا ولی ہے میرے بعد حاضرین کو چاہیے کہ یہ خبر غائبین تک پہنچا دیں۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا علی خدا کے امین ہیں اس کی مخلوق پر اور اس کے غیب کے اور اس کے دین کے محافظ ہیں وہ دین جسے اس نے اپنی ذات کے لیے انتخاب کیا۔ پھر رسول اللہ کو جو پیش آیا وہ پیش آیا۔ آپ نے حضرت علیؑ کو بلا کر فرمایا میں تم کو اس چیز کا امین بنانا چاہتا ہوں جس کا امین مجھے خدا نے بنایا ہے اپنے غیب اور اپنے علم کا اور اپنی مخلوق کا اور اپنے اس دین کا جسے اس نے اپنی ذات کے لیے پسند کیا۔ اے زیاد اس نے اس فضیلت میں اور کسی کو شریک نہیں کیا۔ اس کے بعد ایک مدت گزرنے پر حضرت علی نے اپنے بیٹوں کو بلایا جن کی تعداد بارہ تھی۔ فرمایا اے میرے فرزندو اللہ چاہتا ہے کہ وہ میرے اندر سنت یعقوب کو جاری کرے۔ یعقوب نے اپنے بارہ بیٹوں کو بلا کر کہا میں تم کو آگاہ کرتا ہوں تمہارے صاحب کے بارے میں (حکم سے یعنی میرے بعد میرے قائم مقام یوسف ہوں) پس اسی طرح میں بھی تمہارے صاحب حکومت کو بتاتا ہوں آگاہ رہو کہ یہ دونوں بیٹے رسول اللہ کے حسن و حسین ہیں پس ان کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو اور ان کی مدد کرو۔ میں نے ان دونوں کو ان چیزوں کا امانت دار بنایا جس کا رسول نے مجھے امانتدار بنایا تھا اپنی خلق پر اپنے غیب پر اور اپنے اس دین پر جس کو اس نے اپنی ذات کے لیے انتخاب کیا تھا۔ پس خدا نے ان دونوں کے لیے ان چیزوں کو واجب کیا ہے جن کو علی پر واجب کیا تھا۔ رسول اللہ نے پس ان دونوں میں ایک کو دوسرے پر فضیلت حاصل نہیں مگر بزرگی سن کی وجہ سے اور حسین کا معمول تھا کہ جب تک مجلس امام حسن میں بیٹھتے خاموش بیٹھتے۔ پھر جب امام حسن کی وفات کا وقت قریب آیا تو انھوں نے امانت امام حسین کے سپرد کی اور جب ان کی وفات کا وقت آیا تو انھوں نے اپنی بیٹی فاطمہ کبریٰ کے سپرد کی تو ان کو ایک لپٹی ہوئی تحریر دی اور الفاظ میں وصیت بھی کی۔ حضرت علی بن الحسین واقعہ کربلا میں مرض اسہال میں مبتلا تھے یہ بیماری سب کو معلوم تھی۔ فاطمہ نے یہ تحریر علی بن الحسن کو دی پھر خدا کی قسم یہ تحریر ہم تک پہنچی۔

حدیث نمبر 7

مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى عَنْ صَبَّاحٍ الازْرَقِ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ قُلْتُ لابي جعفر علیہ السلام إِنَّ رَجُلاً مِنَ الْمُخْتَارِيَّةِ لَقِيَنِي فَزَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ الْحَنَفِيَّةِ إِمَامٌ فَغَضِبَ أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام ثُمَّ قَالَ أَ فَلا قُلْتَ لَهُ قَالَ قُلْتُ لا وَالله مَا دَرَيْتُ مَا أَقُولُ قَالَ أَ فَلا قُلْتَ لَهُ إِنَّ رَسُولَ الله ﷺ أَوْصَى إِلَى عَلِيٍّ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ فَلَمَّا مَضَى علي علیہ السلام أَوْصَى إِلَى الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ وَلَوْ ذَهَبَ يَزْوِيهَا عَنْهُمَا لَقَالا لَهُ نَحْنُ وَصِيَّانِ مِثْلُكَ وَلَمْ يَكُنْ لِيَفْعَلَ ذَلِكَ وَأَوْصَى الْحَسَنُ إِلَى الْحُسَيْنِ وَلَوْ ذَهَبَ يَزْوِيهَا عَنْهُ لَقَالَ أَنَا وَصِيٌّ مِثْلُكَ مِنْ رَسُولِ الله ﷺ وَمِنْ أَبِي وَلَمْ يَكُنْ لِيَفْعَلَ ذَلِكَ قَالَ الله عَزَّ وَجَلَّ وَأُولُوا الارْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى‏ بِبَعْضٍ هِيَ فِينَا وَفِي أَبْنَائِنَا۔

ابو بصیر سے مروی ہے کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے کہا کہ پیروان مختار میں سے ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ محمد حنفیہ امام تھے۔ یہ سن کر حضرت کو غصہ آیا۔ فرمایا پھر تم نے کیا کہا۔ میں نے کہا میری سمجھ میں تو آیا نہیں کہ کیا کہوں۔ فرمایا تم نے یہ کیوں نہ کہا کہ رسول اللہ نے علی و حسن و حسین کے متعلق وصیت کی اور جب علی کے انتقال کا وقت آیا تو حسن و حسین کے متعلق وصیت کی اور اگر وہ ان دونوں سے چھپاتے رہتے تو وہ کہتے کہ ہم دونوں آپ کے وصی ہیں اور حضرت علی ایسا کرتے ہی نہیں۔ امام حسن و امام حسین کے لیے وصیت کی اور اگر وہ ایسا نہ کرتے تو امام حسین کہتے کہ میں آپ کا وصی ہوں رسول اللہ کے فرمان کے مطابق اور اپنے پدر بزرگوار کے اعلان کے مطابق اور وہ ایسا کیوں کرتے یعنی امام حسن و امام حسین کو وصیت کرنے سے کیونکر روکتے درآنحالیکہ یہ آیت موجود ہے بعض رشتہ دار بعض سے بہتر ہیں اور یہ وصایت تو ہم میں اور ہماری اولاد میں ہے۔
توضیح: مقصد حضرت کا یہ تھا کہ اگر محمد حنفیہ امام ہوتے تو جب اس وصایت کا اعلان حضرت علی بن الحسین کے حق میں کیا گیا تھا تو محمد حنفیہ نے امام حسین سے کیوں نہ کہا کہ حسب فرمان رسول و امیر المومنین یہ حق میرا ہے۔ ان کا خاموش رہنا اس کے دلیل ہے کہ وہ اپنے کو مستحق امامت نہیں جانتے تھے۔