مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

(3-62)

وہ امور جو واجب کرتے ہیں حجت امام علیہ السلام کو

حدیث نمبر 1

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ أَبِي نَصْرٍ قَالَ قُلْتُ لابِي الْحَسَنِ الرِّضَا علیہ السلام إِذَا مَاتَ الامَامُ بِمَ يُعْرَفُ الَّذِي بَعْدَهُ فَقَالَ لِلامَامِ عَلامَاتٌ مِنْهَا أَنْ يَكُونَ أَكْبَرَ وُلْدِ أَبِيهِ وَيَكُونَ فِيهِ الْفَضْلُ وَالْوَصِيَّةُ وَيَقْدَمَ الرَّكْبُ فَيَقُولَ إِلَى مَنْ أَوْصَى فُلانٌ فَيُقَالَ إِلَى فُلانٍ وَالسِّلاحُ فِينَا بِمَنْزِلَةِ التَّابُوتِ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ تَكُونُ الامَامَةُ مَعَ السِّلاحِ حَيْثُمَا كَانَ۔

ابو بصیر سے روایت ہے میں نے امام رضا علیہ السلام سے پوچھا جب امام مر جائے تو اس کے بعد والے امام کو کیسے پہچانیں۔ فرمایا امام کے لیے کچھ علامات ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اکبر اولاد پدر ہو اور اس کی فضیلت اور وصیت ہو اور جب بیرونی مقامات سے لوگ آئیں اور پوچھیں فلاں نے اپنا وصی کس کو بنایا ہے تو لوگ کہہ دیں فلاں کو یعنے اس کے متعلق شہرت بھی ہو اور نبی کے ہتھیار ہم میں بجائے اس تابوت کے ہیں جو بنی اسرائیل میں تھا امامت کے پاس ہتھیار ہوتے ہیں چاہے امام کہیں ہو۔

حدیث نمبر 2

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ يَزِيدَ شَعِرٍ عَنْ هَارُونَ بْنِ حَمْزَةَ عَنْ عَبْدِ الاعْلَى قَالَ قُلْتُ لابِي عَبْدِ الله علیہ السلام الْمُتَوَثِّبُ عَلَى هَذَا الامْرِ الْمُدَّعِي لَهُ مَا الْحُجَّةُ عَلَيْهِ قَالَ يُسْأَلُ عَنِ الْحَلالِ وَالْحَرَامِ قَالَ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ فَقَالَ ثَلاثَةٌ مِنَ الْحُجَّةِ لَمْ تَجْتَمِعْ فِي أَحَدٍ إِلا كَانَ صَاحِبَ هَذَا الامْرِ أَنْ يَكُونَ أَوْلَى النَّاسِ بِمَنْ كَانَ قَبْلَهُ وَيَكُونَ عِنْدَهُ السِّلاحُ وَيَكُونَ صَاحِبَ الْوَصِيَّةِ الظَّاهِرَةِ الَّتِي إِذَا قَدِمْتَ الْمَدِينَةَ سَأَلْتَ عَنْهَا الْعَامَّةَ وَالصِّبْيَانَ إِلَى مَنْ أَوْصَى فُلانٌ فَيَقُولُونَ إِلَى فُلانِ بْنِ فُلانٍ۔

راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا امر امامت کو بجبر لینے والے اور غلط دعوے کرنے والے پر حجت کیوں کر تمام ہو۔ فرمایا اس سے حلال و حرام کے متعلق پوچھا جائے۔ پھر میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا تین قسم کی حجتیں ہیں جو سوائے امام کے کسی میں نہیں پائی جاتیں۔ اول یہ کہ سب لوگوں سے اولیٰ و افضل ہو اور اس کے پاس تبرکات رسول ہوں اور اس کے لیے کھلم کھلا وصیت ہو کہ جب لوگ بڑے یا بچوں سے شہر میں آ کر پوچھیں کہ فلاں نے کس کے متعلق وصیت کی تو لوگ کہہ دیں کہ فلاں ابن فلاں کے متعلق کی ہے۔

حدیث نمبر 3

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ وَحَفْصِ بْنِ الْبَخْتَرِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ قِيلَ لَهُ بِأَيِّ شَيْ‏ءٍ يُعْرَفُ الامَامُ قَالَ بِالْوَصِيَّةِ الظَّاهِرَةِ وَبِالْفَضْلِ إِنَّ الامَامَ لا يَسْتَطِيعُ أَحَدٌ أَنْ يَطْعُنَ عَلَيْهِ فِي فَمٍ وَلا بَطْنٍ وَلا فَرْجٍ فَيُقَالَ كَذَّابٌ وَيَأْكُلُ أَمْوَالَ النَّاسِ وَمَا أَشْبَهَ هَذَا۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ کسی نے ان سے پوچھا معرفتِ امام کس شے سے ہوتی ہے۔ فرمایا ظاہری وصیت اور فضیلت سے۔ کوئی امام کو منہ شکن یا شرمگاہ کا طعنہ نہیں دے سکتا کہ وہ جھوٹا ہے مالِ حرام کھاتا ہے کہ زنا کا مرتکب ہوتا ہے۔

حدیث نمبر 4

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ وَهْبٍ قَالَ قُلْتُ لابي جعفر علیہ السلام مَا عَلامَةُ الامَامِ الَّذِي بَعْدَ الامَامِ فَقَالَ طَهَارَةُ الْوِلادَةِ وَحُسْنُ الْمَنْشَإِ وَلا يَلْهُو وَلا يَلْعَبُ۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا امام کی علامت کیا ہے۔ فرمایا اول یہ کہ طاہر الولادت ہو دوسرے اچھے ماحول میں نشوو نما ہوا ہو تیسرے لہو و لعب سے اس کا تعلق نہ ہو۔

حدیث نمبر 5

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا علیہ السلام قَالَ سَأَلْتُهُ عَنِ الدَّلالَةِ عَلَى صَاحِبِ هَذَا الامْرِ فَقَالَ الدَّلالَةُ عَلَيْهِ الْكِبَرُ وَالْفَضْلُ وَالْوَصِيَّةُ إِذَا قَدِمَ الرَّكْبُ الْمَدِينَةَ فَقَالُوا إِلَى مَنْ أَوْصَى فُلانٌ قِيلَ إِلَى فُلانِ بْنِ فُلانٍ وَدُورُوا مَعَ السِّلاحِ حَيْثُمَا دَارَ فَأَمَّا الْمَسَائِلُ فَلَيْسَ فِيهَا حُجَّةٌ۔

راوی کہتا ہے میں نے امام رضا علیہ السلام سے پوچھا کہ امر امامت پر دلیل کیا ہے ، فرمایا یہ کہ اولاد اکبر ہو، دوسرے صاحب فضیلت ہو تیسرے اس کے لیے سابق امام نے اس طرح وصیت کی ہو کہ جب باہر کے لوگ شہر میں آ کر پوچھیں کہ فلاں نے کس کے لیے وصیت کی ہے تو سب کہیں فلاں بن فلاں کے متعلق اور یہ جہاں کہیں جائے تبرکاتِ رسول اس کے ساتھ رہیں۔

حدیث نمبر 6

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِي يَحْيَى الْوَاسِطِيِّ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ إِنَّ الامْرَ فِي الْكَبِيرِ مَا لَمْ تَكُنْ فِيهِ عَاهَةٌ۔

ہشام ابن سالم سے مروی ہے کہ فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے امر امامت اولاد اکبر کے لیے اس وقت ہے جبکہ اس میں کوئی عیب نہ ہو (یعنی علم و فضل و وصیت وغیرہ کے لحاظ سے کوئی کمی نہ ہو)۔

حدیث نمبر 7

أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ قُلْتُ لابِي الْحَسَنِ علیہ السلام جُعِلْتُ فِدَاكَ بِمَ يُعْرَفُ الامَامُ قَالَ فَقَالَ بِخِصَالٍ أَمَّا أَوَّلُهَا فَإِنَّهُ بِشَيْ‏ءٍ قَدْ تَقَدَّمَ مِنْ أَبِيهِ فِيهِ بِإِشَارَةٍ إِلَيْهِ لِتَكُونَ عَلَيْهِمْ حُجَّةً وَيُسْأَلُ فَيُجِيبُ وَإِنْ سُكِتَ عَنْهُ ابْتَدَأَ وَيُخْبِرُ بِمَا فِي غَدٍ وَيُكَلِّمُ النَّاسَ بِكُلِّ لِسَانٍ ثُمَّ قَالَ لِي يَا أَبَا مُحَمَّدٍ أُعْطِيكَ عَلامَةً قَبْلَ أَنْ تَقُومَ فَلَمْ أَلْبَثْ أَنْ دَخَلَ عَلَيْنَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ خُرَاسَانَ فَكَلَّمَهُ الْخُرَاسَانِيُّ بِالْعَرَبِيَّةِ فَأَجَابَهُ أَبُو الْحَسَنِ علیہ السلام بِالْفَارِسِيَّةِ فَقَالَ لَهُ الْخُرَاسَانِيُّ وَالله جُعِلْتُ فِدَاكَ مَا مَنَعَنِي أَنْ أُكَلِّمَكَ بِالْخُرَاسَانِيَّةِ غَيْرُ أَنِّي ظَنَنْتُ أَنَّكَ لا تُحْسِنُهَا فَقَالَ سُبْحَانَ الله إِذَا كُنْتُ لا أُحْسِنُ أُجِيبُكَ فَمَا فَضْلِي عَلَيْكَ ثُمَّ قَالَ لِي يَا أَبَا مُحَمَّدٍ إِنَّ الامَامَ لا يَخْفَى عَلَيْهِ كَلامُ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ وَلا طَيْرٍ وَلا بَهِيمَةٍ وَلا شَيْ‏ءٍ فِيهِ الرُّوحُ فَمَنْ لَمْ يَكُنْ هَذِهِ الْخِصَالُ فِيهِ فَلَيْسَ هُوَ بِإِمَامٍ۔

ابو بصیر سے مروی ہے میں نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے پوچھا کہ میں آپ پر فدا ہوں امام کی شناخت کیسے ہوتی ہے۔ حضرت نے فرمایا چند خصلتوں سے، اول وہ چیز جو اس کے پدر بزرگوار کی طرف سے ہوتی ہے اس سے اشارہ تھا اپنے نصب و تعین کے متعلق تا کہ لوگوں پر حجت ہو دوسرے جب اس سے سوال کیا جائے تو جواب دے اور اگر ابتداء سکوت ہو تو کل کی خبر دے اور ہر زبان میں کلام کرے۔ مجھ سے فرمایا اے ابو محمد یہاں سے اٹھنے سے پہلے ایک علامت ہمارے سامنے آنے والی ہے۔ تھوڑی دیر بعد ایک مرد خراسانی آیا اور اس نے عربی زبان میں گفتگو کی۔ حضرت نے اس کا جواب فارسی میں دیا۔ مردِ خراسانی نے کہا میں نے یہ سمجھتے ہوئے عربی زبان میں کلام کیا کہ آپ فارسی سے بخوبی واقف نہ ہوں گے۔ فرمایا سبحان اللہ اگر میں اچھی طرح جواب نہ دوں تو پھر تجھ پر میری فضیلت کیسی۔ پھر حضرت نے مجھ سے فرمایا اے ابو محمد (کنیت ابو بصیر) امام پر نہ کسی آدمی کا کلام پوشیدہ ہوتا ہے نہ پرندہ کا نہ چوپائے کا اور نہ کسی اور جاندار چیز کا۔ پس جس میں یہ خصوصیتیں نہیں وہ امام نہیں۔