مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى وَالْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مِهْرَانَ عَنْ أَبِي جَمِيلَةَ عَنْ مُعَاذِ بْنِ كَثِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ إِنَّ الْوَصِيَّةَ نَزَلَتْ مِنَ السَّمَاءِ عَلَى مُحَمَّدٍ كِتَاباً لَمْ يُنْزَلْ عَلَى مُحَمَّدٍ ﷺ كِتَابٌ مَخْتُومٌ إِلا الْوَصِيَّةُ فَقَالَ جَبْرَئِيلُ علیہ السلام يَا مُحَمَّدُ هَذِهِ وَصِيَّتُكَ فِي أُمَّتِكَ عِنْدَ أَهْلِ بَيْتِكَ فَقَالَ رَسُولُ الله ﷺ أَيُّ أَهْلِ بَيْتِي يَا جَبْرَئِيلُ قَالَ نَجِيبُ الله مِنْهُمْ وَذُرِّيَّتُهُ لِيَرِثَكَ عِلْمَ النُّبُوَّةِ كَمَا وَرَّثَهُ إِبْرَاهِيمُ علیہ السلام وَمِيرَاثُهُ لِعلي علیہ السلام وَذُرِّيَّتِكَ مِنْ صُلْبِهِ قَالَ وَكَانَ عَلَيْهَا خَوَاتِيمُ قَالَ فَفَتَحَ علي علیہ السلام الْخَاتَمَ الاوَّلَ وَمَضَى لِمَا فِيهَا ثُمَّ فَتَحَ الْحَسَنُ علیہ السلام الْخَاتَمَ الثَّانِيَ وَمَضَى لِمَا أُمِرَ بِهِ فِيهَا فَلَمَّا تُوُفِّيَ الْحَسَنُ وَمَضَى فَتَحَ الْحُسَيْنُ علیہ السلام الْخَاتَمَ الثَّالِثَ فَوَجَدَ فِيهَا أَنْ قَاتِلْ فَاقْتُلْ وَتُقْتَلُ وَاخْرُجْ بِأَقْوَامٍ لِلشَّهَادَةِ لا شَهَادَةَ لَهُمْ إِلا مَعَكَ قَالَ فَفَعَلَ علیہ السلام فَلَمَّا مَضَى دَفَعَهَا إِلَى عَلِيِّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) قَبْلَ ذَلِكَ فَفَتَحَ الْخَاتَمَ الرَّابِعَ فَوَجَدَ فِيهَا أَنِ اصْمُتْ وَأَطْرِقْ لِمَا حُجِبَ الْعِلْمُ فَلَمَّا تُوُفِّيَ وَمَضَى دَفَعَهَا إِلَى مُحَمَّدِ بن علي (عَلَيْهما السَّلام) فَفَتَحَ الْخَاتَمَ الْخَامِسَ فَوَجَدَ فِيهَا أَنْ فَسِّرْ كِتَابَ الله تَعَالَى وَصَدِّقْ أَبَاكَ وَوَرِّثِ ابْنَكَ وَاصْطَنِعِ الامَّةَ وَقُمْ بِحَقِّ الله عَزَّ وَجَلَّ وَقُلِ الْحَقَّ فِي الْخَوْفِ وَالامْنِ وَلا تَخْشَ إِلا الله فَفَعَلَ ثُمَّ دَفَعَهَا إِلَى الَّذِي يَلِيهِ قَالَ قُلْتُ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ فَأَنْتَ هُوَ قَالَ فَقَالَ مَا بِي إِلا أَنْ تَذْهَبَ يَا مُعَاذُ فَتَرْوِيَ عَلَيَّ قَالَ فَقُلْتُ أَسْأَلُ الله الَّذِي رَزَقَكَ مِنْ آبَائِكَ هَذِهِ الْمَنْزِلَةَ أَنْ يَرْزُقَكَ مِنْ عَقِبِكَ مِثْلَهَا قَبْلَ الْمَمَاتِ قَالَ قَدْ فَعَلَ الله ذَلِكَ يَا مُعَاذُ قَالَ فَقُلْتُ فَمَنْ هُوَ جُعِلْتُ فِدَاكَ قَالَ هَذَا الرَّاقِدُ وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى الْعَبْدِ الصَّالِحِ وَهُوَ رَاقِدٌ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ خدا نے وصیت نامہ نازل کیا بصورت کتاب اور آنحضرت پر سوائے اس وصیت نامہ کے کوئی تحریر مہر شدہ نازل نہیں ہوئی جبرئیل نے کہا اے محمد یہ وصیت نامہ ہے تمہاری امت کے لیے تمہارے اہل بیت کے بارے میں۔ رسول اللہ نے پوچھا اے جبرئیل میرے اہلبیت کون ہیں۔ انھوں نے کہا ان میں کا نجیب اور اس کی ذریت تاکہ وہ وارث ہوں تمہارے علم نبوت میں جیسا کہ تم کو اس کا وارث ابراہیم نے بنایا اور یہ میراث علی کے لیے ہے اور ان کی اولاد کے لیے جو ان کے صلب سے ہو اور انہی پر خاتمہ ہے۔ پس علی نے مہر کو کھولا اور اس میں جو کچھ تھا اس پر اطلاع پائی پھر امام حسن نے دوسری مہر کو توڑا اور جو کچھ اس میں تھا اس کو پڑھا۔ جب امام حسن کا انتقال ہوا تو تیسری مہر کو امام حسین نے کھولا اس میں قتال کرو دشمنوں سے اور قتل ہو جاؤ اور ایک قوم کو لے کر شہادت کے لیے نکلو۔ پس حضرت نے ایسا ہی کیا۔ جب انھوں نے شہادت پائی تو وہ وصیت نامہ علی بن حسین کو دے دیا۔ انھوں نے چوتھی مہر توڑی لکھا تھا چپ رہو اور رضائے الہٰی میں سرجھکائے رہو کیونکہ علم حجاب میں ہے۔ جب انھوں نے وفات پائی تو وہ تحریر امام محمد باقر علیہ السلام کو ملی۔ آپ نے پانچویں مہر توڑی اس میں تھا کتابِ خدا کی تفسیر بیان کرو اور اپنے آباء و اجداد کی تصدیق کرو اور اپنے بیٹے کو اپنا وارث بناؤ، امت سے نیکی کرو اور اللہ کے حق کے اثبات کے لیےکھڑے ہو جاؤ اور خوف اور امر ہر حالت میں حق کہو اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرو۔ پس حضرت نے ایسا ہی کیا اس کے بعد وہ وصیت نامہ اپنے بعد والے کو دیا۔ میں نے کہا (راوی) وہ آپ ہیں۔ فرمایا مجھے یہی کہنا ہے کہ تم جاؤ اور مجھ سے روایت کرو۔ میں نے کہا میں سوال کرتا ہوں کہ جس طرح خدا نے آپ اور آپ کے آبا کو امامت عطا فرمائی ہے کیا آپ کے مرنے سے پہلے وصایت کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ فرمایا اے معاذ خدا نے ایسا ہی کیا ہے۔ میں نے کہا آپ کے بعد کون ہو گا۔ فرمایا یہ سونے والا اشارہ کیا اپنے ہاتھ سے عبد صالح (امام محمد باقر علیہ السلام) کی طرف جو سو رہے تھے۔
أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الْكِنَانِيِّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ نَجِيحٍ الْكِنْدِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ عُبَيْدِ الله الْعُمَرِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ أَنْزَلَ عَلَى نَبِيِّهِ ﷺ كِتَاباً قَبْلَ وَفَاتِهِ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ هَذِهِ وَصِيَّتُكَ إِلَى النُّجَبَةِ مِنْ أَهْلِكَ قَالَ وَمَا النُّجَبَةُ يَا جَبْرَئِيلُ فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَوُلْدُهُ (عَلَيْهم السَّلام) وَكَانَ عَلَى الْكِتَابِ خَوَاتِيمُ مِنْ ذَهَبٍ فَدَفَعَهُ النَّبِيُّ ﷺ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام وَأَمَرَهُ أَنْ يَفُكَّ خَاتَماً مِنْهُ وَيَعْمَلَ بِمَا فِيهِ فَفَكَّ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام خَاتَماً وَعَمِلَ بِمَا فِيهِ ثُمَّ دَفَعَهُ إِلَى ابْنِهِ الْحَسَنِ علیہ السلام فَفَكَّ خَاتَماً وَعَمِلَ بِمَا فِيهِ ثُمَّ دَفَعَهُ إِلَى الْحُسَيْنِ علیہ السلام فَفَكَّ خَاتَماً فَوَجَدَ فِيهِ أَنِ اخْرُجْ بِقَوْمٍ إِلَى الشَّهَادَةِ فَلا شَهَادَةَ لَهُمْ إِلا مَعَكَ وَاشْرِ نَفْسَكَ لله عَزَّ وَجَلَّ فَفَعَلَ ثُمَّ دَفَعَهُ إِلَى عَلِيِّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) فَفَكَّ خَاتَماً فَوَجَدَ فِيهِ أَنْ أَطْرِقْ وَاصْمُتْ وَالْزَمْ مَنْزِلَكَ وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ فَفَعَلَ ثُمَّ دَفَعَهُ إِلَى ابْنِهِ مُحَمَّدِ بن علي (عَلَيْهما السَّلام) فَفَكَّ خَاتَماً فَوَجَدَ فِيهِ حَدِّثِ النَّاسَ وَأَفْتِهِمْ وَلا تَخَافَنَّ إِلا الله عَزَّ وَجَلَّ فَإِنَّهُ لا سَبِيلَ لاحَدٍ عَلَيْكَ فَفَعَلَ ثُمَّ دَفَعَهُ إِلَى ابْنِهِ جَعْفَرٍ فَفَكَّ خَاتَماً فَوَجَدَ فِيهِ حَدِّثِ النَّاسَ وَأَفْتِهِمْ وَانْشُرْ عُلُومَ أَهْلِ بَيْتِكَ وَصَدِّقْ آبَاءَكَ الصَّالِحِينَ وَلا تَخَافَنَّ إِلا الله عَزَّ وَجَلَّ وَأَنْتَ فِي حِرْزٍ وَأَمَانٍ فَفَعَلَ ثُمَّ دَفَعَهُ إِلَى ابْنِهِ مُوسَى علیہ السلام وَكَذَلِكَ يَدْفَعُهُ مُوسَى إِلَى الَّذِي بَعْدَهُ ثُمَّ كَذَلِكَ إِلَى قِيَامِ الْمَهْدِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے خدا نے اپنے نبی کی وفات سے پہلے ایک کتاب نازل کی اور فرمایا اے محمد یہ ہماری وصیت ہے تمہارے اہل جو نجباء ہیں ان کے لیے۔ حضرت نے فرمایا اے جبرئیل وہ کون ہیں۔ انھوں نے کہا علی بن ابی طالب اور ان کی اولاد۔ اس کتاب پر مہریں لگی ہوئیں تھیں سونے کی۔ وہ کتاب آنحضرت نے امیر المومنین کو دے دی اور حکم دیا کی ان میں سے ایک مہر کو توڑیں اور جو لکھا ہے اس پر عمل کریں۔ امیر المومنین نے ایک مہر کو توڑا اور حسب ہدایت عمل کیا۔ پھر اسے امام حسن کو دیدیا ایک مہر انھوں نے توڑی اور عمل کیا پھر انھوں نے اپنی مرگ کے وقت امام حسین کو دے دی۔ انھوں نے تیسری مہر توڑی اس میں لکھا تھا ایک گروہ کے ساتھ شہادت کے لیے نکلو ان کی شہادت تمہارے ہی ساتھ ہے اور راہِ خدا میں اپنا نفس بیچ ڈالو۔ پس انھوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر وہ کتاب علی بن الحسین کو دے دی گئی انھوں نے چوتھی مہر کو توڑا اس میں لکھا تھا سر تسلیم خم کرو خموشی کے ساتھ اپنے گھر میں بیٹھ کے مرتے دم تک عبادتِ خدا کرو انھوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر اسے دیا اپنے فرزند امام محمد باقر کو انھوں نے مہر کو توڑا تو اس میں دیکھا لوگوں سے احادیث بیان کرو اور ان کو فتویٰ دو اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرو تم پر کسی کو قابو نہ ہو گا۔ انھوں نے ایسا ہی کیا پھر وہ ان کے فرزند امام جعفر صادق علیہ السلام کو ملی انھوں نے مہر کو توڑا تو اس میں تھا احادیث کو بیان کرو اور فتویٰ دو اور علوم اہلبیت کو نشر کرو اور تصدیق کرو اپنے آباء صالحین کی اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرو، تم اس کی پناہ میں ہو انھوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر انھوں نے امام موسیٰ کاظم کو وہ کتاب دی پھر اسی طرح ہوتا رہیگا قیام امام مہدیؑ تک۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنِ ابْنِ رِئَابٍ عَنْ ضُرَيْسٍ الْكُنَاسِيِّ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ قَالَ لَهُ حُمْرَانُ جُعِلْتُ فِدَاكَ أَ رَأَيْتَ مَا كَانَ مِنْ أَمْرِ عَلِيٍّ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ علیہ السلام وَخُرُوجِهِمْ وَقِيَامِهِمْ بِدِينِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَمَا أُصِيبُوا مِنْ قَتْلِ الطَّوَاغِيتِ إِيَّاهُمْ وَالظَّفَرِ بِهِمْ حَتَّى قُتِلُوا وَغُلِبُوا فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام يَا حُمْرَانُ إِنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَدْ كَانَ قَدَّرَ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ وَقَضَاهُ وَأَمْضَاهُ وَحَتَمَهُ ثُمَّ أَجْرَاهُ فَبِتَقَدُّمِ عِلْمِ ذَلِكَ إِلَيْهِمْ مِنْ رَسُولِ الله قَامَ عَلِيٌّ وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ وَبِعِلْمٍ صَمَتَ مَنْ صَمَتَ مِنَّا۔
حمران نے امام محمد باقر علیہ السلام سے کہا آپ نے غور کیا حضرت علیؑ اور امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کے واقعات پر ان کا نکلنا اور دین خدا کی حفاظت پر قائم رہنا اور جو مصیبت ان کو باغیوں اور شیاطین انس کے ہاتھ سے بصورت قتل اور غلبہ پہنچیں۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا اےحمران یہ امور قضا و قدر الہٰی سے متعلق ہیں اسی کے حکم و مشیت سے ان کا اجراء ہوا ان امور کا علم ان کو رسول اللہ کے ذریعے سے پہلے ہی ہو چکا تھا اس پر علی و حسن و حسین قائم رہے اور جس کے لیے ہم میں سے خاموش زندگی کا حکم تھا خاموش رہے۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الاشْعَرِيُّ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ يَقْطِينٍ عَنْ عِيسَى بْنِ الْمُسْتَفَادِ أَبِي مُوسَى الضَّرِيرِ قَالَ حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ جَعْفَرٍ (عَلَيْهما السَّلام) قَالَ قُلْتُ لابِي عَبْدِ الله أَ لَيْسَ كَانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام كَاتِبَ الْوَصِيَّةِ وَرَسُولُ الله ﷺ الْمُمْلِي عَلَيْهِ وَجَبْرَئِيلُ وَالْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ (عَلَيْهم السَّلام) شُهُودٌ قَالَ فَأَطْرَقَ طَوِيلاً ثُمَّ قَالَ يَا أَبَا الْحَسَنِ قَدْ كَانَ مَا قُلْتَ وَلَكِنْ حِينَ نَزَلَ بِرَسُولِ الله ﷺ الامْرُ نَزَلَتِ الْوَصِيَّةُ مِنْ عِنْدِ الله كِتَاباً مُسَجَّلاً نَزَلَ بِهِ جَبْرَئِيلُ مَعَ أُمَنَاءِ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى مِنَ الْمَلائِكَةِ فَقَالَ جَبْرَئِيلُ يَا مُحَمَّدُ مُرْ بِإِخْرَاجِ مَنْ عِنْدَكَ إِلا وَصِيَّكَ لِيَقْبِضَهَا مِنَّا وَتُشْهِدَنَا بِدَفْعِكَ إِيَّاهَا إِلَيْهِ ضَامِناً لَهَا يَعْنِي عَلِيّاً علیہ السلام فَأَمَرَ النَّبِيُّ ﷺ بِإِخْرَاجِ مَنْ كَانَ فِي الْبَيْتِ مَا خَلا عَلِيّاً علیہ السلام وَفَاطِمَةُ فِيمَا بَيْنَ السِّتْرِ وَالْبَابِ فَقَالَ جَبْرَئِيلُ يَا مُحَمَّدُ رَبُّكَ يُقْرِئُكَ السَّلامَ وَيَقُولُ هَذَا كِتَابُ مَا كُنْتُ عَهِدْتُ إِلَيْكَ وَشَرَطْتُ عَلَيْكَ وَشَهِدْتُ بِهِ عَلَيْكَ وَأَشْهَدْتُ بِهِ عَلَيْكَ مَلائِكَتِي وَكَفَى بِي يَا مُحَمَّدُ شَهِيداً قَالَ فَارْتَعَدَتْ مَفَاصِلُ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ يَا جَبْرَئِيلُ رَبِّي هُوَ السَّلامُ وَمِنْهُ السَّلامُ وَإِلَيْهِ يَعُودُ السَّلامُ صَدَقَ عَزَّ وَجَلَّ وَبَرَّ هَاتِ الْكِتَابَ فَدَفَعَهُ إِلَيْهِ وَأَمَرَهُ بِدَفْعِهِ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام فَقَالَ لَهُ اقْرَأْهُ فَقَرَأَهُ حَرْفاً حَرْفاً فَقَالَ يَا عَلِيُّ هَذَا عَهْدُ رَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِلَيَّ وَشَرْطُهُ عَلَيَّ وَأَمَانَتُهُ وَقَدْ بَلَّغْتُ وَنَصَحْتُ وَأَدَّيْتُ فَقَالَ علي علیہ السلام وَأَنَا أَشْهَدُ لَكَ بِأَبِي وَأُمِّي أَنْتَ بِالْبَلاغِ وَالنَّصِيحَةِ وَالتَّصْدِيقِ عَلَى مَا قُلْتَ وَيَشْهَدُ لَكَ بِهِ سَمْعِي وَبَصَرِي وَلَحْمِي وَدَمِي فَقَالَ جَبْرَئِيلُ علیہ السلام وَأَنَا لَكُمَا عَلَى ذَلِكَ مِنَ الشَّاهِدِينَ فَقَالَ رَسُولُ الله ﷺ يَا عَلِيُّ أَخَذْتَ وَصِيَّتِي وَعَرَفْتَهَا وَضَمِنْتَ لله وَلِيَ الْوَفَاءَ بِمَا فِيهَا فَقَالَ علي علیہ السلام نَعَمْ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي عَلَيَّ ضَمَانُهَا وَعَلَى الله عَوْنِي وَتَوْفِيقِي عَلَى أَدَائِهَا فَقَالَ رَسُولُ الله ﷺ يَا عَلِيُّ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُشْهِدَ عَلَيْكَ بِمُوَافَاتِي بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَقَالَ علي علیہ السلام نَعَمْ أَشْهِدْ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِنَّ جَبْرَئِيلَ وَمِيكَائِيلَ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَكَ الانَ وَهُمَا حَاضِرَانِ مَعَهُمَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ لاشْهِدَهُمْ عَلَيْكَ فَقَالَ نَعَمْ لِيَشْهَدُوا وَأَنَا بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي أُشْهِدُهُمْ فَأَشْهَدَهُمْ رَسُولُ الله ﷺ وَكَانَ فِيمَا اشْتَرَطَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ بِأَمْرِ جَبْرَئِيلَ علیہ السلام فِيمَا أَمَرَ الله عَزَّ وَجَلَّ أَنْ قَالَ لَهُ يَا عَلِيُّ تَفِي بِمَا فِيهَا مِنْ مُوَالاةِ مَنْ وَالَى الله وَرَسُولَهُ وَالْبَرَاءَةِ وَالْعَدَاوَةِ لِمَنْ عَادَى الله وَرَسُولَهُ وَالْبَرَاءَةِ مِنْهُمْ عَلَى الصَّبْرِ مِنْكَ وَعَلَى كَظْمِ الْغَيْظِ وَعَلَى ذَهَابِ حَقِّي وَغَصْبِ خُمُسِكَ وَانْتِهَاكِ حُرْمَتِكَ فَقَالَ نَعَمْ يَا رَسُولَ الله فَقَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ لَقَدْ سَمِعْتُ جَبْرَئِيلَ علیہ السلام يَقُولُ لِلنَّبِيِّ يَا مُحَمَّدُ عَرِّفْهُ أَنَّهُ يُنْتَهَكُ الْحُرْمَةُ وَهِيَ حُرْمَةُ الله وَحُرْمَةُ رَسُولِ الله ﷺ وَعَلَى أَنْ تُخْضَبَ لِحْيَتُهُ مِنْ رَأْسِهِ بِدَمٍ عَبِيطٍ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام فَصَعِقْتُ حِينَ فَهِمْتُ الْكَلِمَةَ مِنَ الامِينِ جَبْرَئِيلَ حَتَّى سَقَطْتُ عَلَى وَجْهِي وَقُلْتُ نَعَمْ قَبِلْتُ وَرَضِيتُ وَإِنِ انْتَهَكَتِ الْحُرْمَةُ وَعُطِّلَتِ السُّنَنُ وَمُزِّقَ الْكِتَابُ وَهُدِّمَتِ الْكَعْبَةُ وَخُضِبَتْ لِحْيَتِي مِنْ رَأْسِي بِدَمٍ عَبِيطٍ صَابِراً مُحْتَسِباً أَبَداً حَتَّى أَقْدَمَ عَلَيْكَ ثُمَّ دَعَا رَسُولُ الله ﷺ فَاطِمَةَ وَالْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ وَأَعْلَمَهُمْ مِثْلَ مَا أَعْلَمَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَقَالُوا مِثْلَ قَوْلِهِ فَخُتِمَتِ الْوَصِيَّةُ بِخَوَاتِيمَ مِنْ ذَهَبٍ لَمْ تَمَسَّهُ النَّارُ وَدُفِعَتْ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام فَقُلْتُ لابِي الْحَسَنِ علیہ السلام بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي أَ لا تَذْكُرُ مَا كَانَ فِي الْوَصِيَّةِ فَقَالَ سُنَنُ الله وَسُنَنُ رَسُولِهِ فَقُلْتُ أَ كَانَ فِي الْوَصِيَّةِ تَوَثُّبُهُمْ وَخِلافُهُمْ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام فَقَالَ نَعَمْ وَالله شَيْئاً شَيْئاً وَحَرْفاً حَرْفاً أَ مَا سَمِعْتَ قَوْلَ الله عَزَّ وَجَلَّ إِنَّا نَحْنُ نُحْيِ الْمَوْتى وَنَكْتُبُ ما قَدَّمُوا وَآثارَهُمْ وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْناهُ فِي إِمامٍ مُبِينٍ وَالله لَقَدْ قَالَ رَسُولُ الله ﷺ لامِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَفَاطِمَةَ (عليها السلام) أَ لَيْسَ قَدْ فَهِمْتُمَا مَا تَقَدَّمْتُ بِهِ إِلَيْكُمَا وَقَبِلْتُمَاهُ فَقَالا بَلَى وَصَبَرْنَا عَلَى مَا سَاءَنَا وَغَاظَنَا۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں کیا امیر المومنین نے اس وصیت کو نہیں لکھا اور رسول اللہ نے انھیں نہیں لکھوایا اور جبرئیل اور ملائکہ مقربین اس پر گواہ نہیں ہوئے۔ حضرت یہ سن کر دیر تک سر جھکائے رہے پھر فرمایا اے ابو الحسنؑ (کنیت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام) جو تم نے کہا ایسا ہی ہونا تھا لیکن جب رسول اللہ پر امر رسالت کا نزول ہوا تو خدا نے یہ وصیت بصورت کتاب و دستاویز نازل کی اے جبرئیل معہ ان ملائکہ کے جو امنا باللہ ہیں لے کر آئے اور جبرئیل نے کہا اے محمد جو لوگ آپ کے پاس ہیں ان کو چلے جانے کا حکم دیں سوائے آپ کے وصی کے کوئی نہ رہے تاکہ ہم سے وہ وصیت نامہ لے لیں اور ہم آپ کو اس کے دینے پر گواہ بنائیں اور ضامن قرار دیں۔ وصی سے ہماری مراد علیؑ ہیں۔ پس رسول اللہ نے سب کو ہٹا دیا سوائے علی و فاطمہ کوئی نہ رہا۔ دروازہ اور گھر کے درمیان پردہ حائل تھا۔ جبرئیل نے کہا اے محمد تمہارا رب سلام کرتا ہے اور فرماتا ہے یہ وہ نوشتہ ہے جس کا میں نے تم سے وعدہ کیا تھا اور شرط کی تھی اس پر میں نے تم کو گواہ بنایا اور تم پر ملائکہ کو گواہ قرار دیا اور اے محمد میرا گواہ ہونا کافی ہے یہ سن کر رسول اللہ کے بدن کا ایک ایک جوڑ کانپنے لگا اور فرمایا اے جبرئیل میرے رب پر سلام ہو اس کی طرف سے سلامتی ہے اس کی طرف سلامتی لوٹتی ہے۔ میرے معبود نے سچ کہا۔ نوشتہ لاؤ۔ آنحضرت نے فرمایا اے علی یہ میرے رب کا عہد ہے اور اس کی شرط مجھ سے ہے اور یہ خدا کی امانت میں نے تبلیغ کر دی نصیحت کر دی اور تم تک پہنچا دیا۔ حضرت علیؑ نے فرمایا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے تبلیغ کر دی نصیحت کر دی اور جو کچھ آپ نے کہا اس کی تصدیق کرتا ہوں اور میرے کان، آنکھ اور میرا خون، میرا گوشت گواہی دیتا ہے۔ جبرئیل نے کہا میں تم دونوں کی گواہی دیتا ہوں۔ رسول اللہ نے فرمایا اے علی تم نے میری وصیت سن لی اور اس کو جان لیا اور اللہ اور میری طرف سے ضامن ہو گئے اس عہد کے وفا کرنے کے۔ حضرت علی نے کہا بے شک میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں میں ضامن ہوں خدا میری مدد کرے اور اس کی ادا پر توفیق دے۔ رسول اللہ نے فرمایا اے علی میں چاہتا ہوں کہ اس کے متعلق روز قیامت گواہی دوں۔ حضرت علی نے کہا میں آپ کے اس ارادے کا گواہ ہوں۔ رسول اللہ نے فرمایا جبرئیل میکائیل ملائکہ اور مقربین جو ان کے ساتھ ہیں وہ بھی اس واقعہ کے گواہ ہیں۔ حضرت علی نے کہا ان کو گواہی دینی چاہیے میں ان پر گواہ ہوں۔ پس رسول اللہ نے گواہی دی اور بحکم خدا جبرئیل نے جو شرائط نبی سے بیان کی تھیں اس کو گواہی دی اور فرمایا اے علی اس میں جو کچھ ہے اسے پورا کرو، دوستی رکھو اس سے جو اللہ اور اس کے رسول کو دوست رکھے اور برات اور دشمنی رکھو اس سے جس سے اللہ اور اس کا رسول دشمنی رکھتے ہیں اور صبر کے ساتھ اپنی برات کا اظہار کرو اور غصہ کو پی جاؤ اپنے حق کے ضائع ہونے پر، اپنے خمس کے غضب پر اور اپنی ہت و حرمت پر۔ حضرت نے کہا اچھا یا رسول اللہ ۔ امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور ہواؤں کو چلایا کہ میں نے جبرئیل کو رسول اللہ سے کہتے سنا اے محمد ان کو آگاہ کر دو کہ ان کی ہتک حرمت اللہ اور اس کے رسول کی ہتک حرمت ہے اور یہ بھی بتا دو کہ ان کی داڑھی ان کے سر کے خون سے خضاب ہو گی۔ امیر المومنین نے فرمایا ان واقعات کو سن کر مجھے اضطراب لاحق ہوا یہاں تک کہ میں اوندھے منہ گر گیا۔ پھر میں نے کہا میں نے ان سب باتوں کو قبول کیا اور ان مصیبتوں پر راضی ہوں اگرچہ ہتک، حرمت ہو اور امر سنت معطل ہو جائے اور کتاب خدا پارہ پارہ ہو کعبہ کو ڈھا دیا جائے اور میری داڑھی میرے سر کے تازہ خون سے خضاب ہو، میں ہمیشہ صبر سے کام لوں گا یہاں تک کہ آپ کے پاس پہنچ جاؤں۔ پھر رسول اللہ نے فاطمہ اور حسن و حسین کو بلایا اور ان واقعات سے جس طرح امیر المومنین کو آگاہ کیا تھا ان کو بھی آگاہ کیا۔ انھوں نے حضرت علی کی طرح جواب دیا۔ اس کے بعد یہ وصیت سونے سے سر بمہر کر دی گئی تاکہ آگ کا اثر نہ ہو اور وہ امیر المومنین کو دے دی گئی۔ راوی کہتا ہے میں نے امام رضا علیہ السلام سے پوچھا اس میں وصیت کیا تھی۔ فرمایا اللہ اور رسول کے طریقے، میں نے کہا کیا وصیت میں یہ بھی تھا کہ لوگ امیرالمومنین پر بہ جبر و قہر غلبہ حاصل کریں گے اور ان کی مخالفت پر کمر باندھیں گے۔ فرمایا ایک ایک چیز ایک ایک حرف، کیا تم نے خدا کا قول نہیں سنا ہم لکھتے ہیں اس چیز کو جو وہ کر چکے ہیں اور ان کے نشانات کو اور ہم نے ہر شے کا احصا امام مبین میں کر دیا ہے پھر آنحضرت نے حضرت علی اور حضرت فاطمہ سے فرمایا جو کچھ میں نے تم سے بیان کیا تم نے اسے سمجھ لیا اور قبول کر لیا۔ انھوں نے کہا جی ہاں ہم صبر کریں گے ہر اس چیز پر جس سے ہمیں رنج پہنچے یا وہ ہم کو غضب ناک کرنے والی ہو۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الاصَمِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله الْبَزَّازِ عَنْ حَرِيزٍ قَالَ قُلْتُ لابِي عَبْدِ الله علیہ السلام جُعِلْتُ فِدَاكَ مَا أَقَلَّ بَقَاءَكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ وَأَقْرَبَ آجَالَكُمْ بَعْضَهَا مِنْ بَعْضٍ مَعَ حَاجَةِ النَّاسِ إِلَيْكُمْ فَقَالَ إِنَّ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنَّا صَحِيفَةً فِيهَا مَا يَحْتَاجُ إِلَيْهِ أَنْ يَعْمَلَ بِهِ فِي مُدَّتِهِ فَإِذَا انْقَضَى مَا فِيهَا مِمَّا أُمِرَ بِهِ عَرَفَ أَنَّ أَجَلَهُ قَدْ حَضَرَ فَأَتَاهُ النَّبِيُّ ﷺ يَنْعَى إِلَيْهِ نَفْسَهُ وَأَخْبَرَهُ بِمَا لَهُ عِنْدَ الله وَأَنَّ الْحُسَيْنَ علیہ السلام قَرَأَ صَحِيفَتَهُ الَّتِي أُعْطِيَهَا وَفُسِّرَ لَهُ مَا يَأْتِي بِنَعْيٍ وَبَقِيَ فِيهَا أَشْيَاءُ لَمْ تُقْضَ فَخَرَجَ لِلْقِتَالِ وَكَانَتْ تِلْكَ الامُورُ الَّتِي بَقِيَتْ أَنَّ الْمَلائِكَةَ سَأَلَتِ الله فِي نُصْرَتِهِ فَأَذِنَ لَهَا وَمَكَثَتْ تَسْتَعِدُّ لِلْقِتَالِ وَتَتَأَهَّبُ لِذَلِكَ حَتَّى قُتِلَ فَنَزَلَتْ وَقَدِ انْقَطَعَتْ مُدَّتُهُ وَقُتِلَ علیہ السلام فَقَالَتِ الْمَلائِكَةُ يَا رَبِّ أَذِنْتَ لَنَا فِي الانْحِدَارِ وَأَذِنْتَ لَنَا فِي نُصْرَتِهِ فَانْحَدَرْنَا وَقَدْ قَبَضْتَهُ فَأَوْحَى الله إِلَيْهِمْ أَنِ الْزَمُوا قَبْرَهُ حَتَّى تَرَوْهُ وَقَدْ خَرَجَ فَانْصُرُوهُ وَابْكُوا عَلَيْهِ وَعَلَى مَا فَاتَكُمْ مِنْ نُصْرَتِهِ فَإِنَّكُمْ قَدْ خُصِّصْتُمْ بِنُصْرَتِهِ وَبِالْبُكَاءِ عَلَيْهِ فَبَكَتِ الْمَلائِكَةُ تَعَزِّياً وَحُزْناً عَلَى مَا فَاتَهُمْ مِنْ نُصْرَتِهِ فَإِذَا خَرَجَ يَكُونُونَ أَنْصَارَهُ۔
حریز سے مروی ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا آپ اہلبیت حضرات کی زندگی کس قدر کم ہوتی ہے حالانکہ لوگوں کی حاجتیں آپ سے وابستہ رہتی ہیں۔ فرمایا ہم میں سے ہر ایک کے پاس ایک صحیفہ ہوتا ہے جس میں وہ سب لکھا ہوتا ہے جس پر عمل کرنا ان کے لیے ضروری ہوتا ہے اور اس میں مدت عمل بھی درج ہوتی ہے پس جب وہ کام ہو چکتے ہیں اور وہ جان لیتا ہے کہ اس کی موت قریب ہوتی ہے تو نبی اکرم ﷺ اس کے پاس آتے ہیں اور اس کو خبر وفات دیتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ پیشِ خدا اس کا کیا مرتبہ ہے امام حسین علیہ السلام نے اس صحیفہ کو پڑھا اور جو واقعات پیش آنے والے تھے ان کو واضح کیا گیا اور جو واقعات عمل میں آنے سے رہ گئے تھے وہ بھی بتائے۔ پس حضرت جہاد کے لیے نکلے ملائکہ نے ان کی نصرت کی خواہش اللہ سے کی، خدا نے اجازت دے دی اور اس کے بعد وہ جنگ کی آمادگی کے لیے کچھ دیر ٹھہرے یہاں تک کہ حضرت شہید ہو گئے تب وہ نازل ہوئے ملائکہ نے کہا پروردگار اس میں کیا مصلحت تھی کہ تو نے ہمیں اترنے کا حکم دیا اور نصرت کی اجازت دی لیکن جب ہم اترے تو تو نے ان کی روح قبض کر لی۔ خدا نے وحی کی کہ اب تم ان کی قبر پر رہو یہاں تک کہ تم ان کا خروج دیکھو (اشارہ ہے خروج حضرت حجت کی طرف) پس تم ان کی مدد کرو اور اس پر گریہ کرو اور جو خدمت تم نہ کر سکے اس پر تم کو میں نے مخصوص کیا اس کی نصرت اور بکا کے لیے۔ پس ملائکہ محرومی نصرت پر روئے۔ اب جب رجعت میں وہ خروج کریں گے تو وہ مدد کریں گے۔