الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْوَشَّاءِ قَالَ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ أَبَانٍ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فَذَكَرُوا الاوْصِيَاءَ وَذَكَرْتُ إِسْمَاعِيلَ فَقَالَ لا وَالله يَا أَبَا مُحَمَّدٍ مَا ذَاكَ إِلَيْنَا وَمَا هُوَ إِلا إِلَى الله عَزَّ وَجَلَّ يُنْزِلُ وَاحِداً بَعْدَ وَاحِدٍ۔
ابو بصیر سے مروی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا کہ لوگوں نے اوصیاء کا ذکر کیا۔ میں نے اسماعیل (حضرت کے بڑے صاحبزادے) کا ذکر کیا۔ فرمایا نہیں اے ابو محمد ایسا نہیں ہے۔ یہ اختیار اللہ کو ہے اس نے ایک کے بعد دوسرے کا نام نازل کر دیا ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ عَمْرِو بْنِ الاشْعَثِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام يَقُولُ أَ تَرَوْنَ الْمُوصِيَ مِنَّا يُوصِي إِلَى مَنْ يُرِيدُ لا وَالله وَلَكِنْ عَهْدٌ مِنَ الله وَرَسُولِهِ ﷺ لِرَجُلٍ فَرَجُلٍ حَتَّى يَنْتَهِيَ الامْرُ إِلَى صَاحِبِهِ. الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُمْهُورٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ مِنْهَالٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الاشْعَثِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) مِثْلَهُ۔
میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو کہتے سنا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ وصیت کرنے والا ہم میں سے جس کو چاہتا ہے وصیت کرتا ہے۔ بخدا ایسا نہیں ہے بلکہ یہ عہد ہے اللہ اور رسول کا ایک شخص کے بعد دوسرے کے لیے یہاں تک کہ امر امامت صاحب امر تک منتہی ہو۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ بَكْرِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ عَيْثَمِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ إِنَّ الامَامَةَ عَهْدٌ مِنَ الله عَزَّ وَجَلَّ مَعْهُودٌ لِرِجَالٍ مُسَمَّيْنَ لَيْسَ لِلامَامِ أَنْ يَزْوِيَهَا عَنِ الَّذِي يَكُونُ مِنْ بَعْدِهِ إِنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَوْحَى إِلَى دَاوُدَ علیہ السلام أَنِ اتَّخِذْ وَصِيّاً مِنْ أَهْلِكَ فَإِنَّهُ قَدْ سَبَقَ فِي عِلْمِي أَنْ لا أَبْعَثَ نَبِيّاً إِلا وَلَهُ وَصِيٌّ مِنْ أَهْلِهِ وَكَانَ لِدَاوُدَ علیہ السلام أَوْلادٌ عِدَّةٌ وَفِيهِمْ غُلامٌ كَانَتْ أُمُّهُ عِنْدَ دَاوُدَ وَكَانَ لَهَا مُحِبّاً فَدَخَلَ دَاوُدُ علیہ السلام عَلَيْهَا حِينَ أَتَاهُ الْوَحْيُ فَقَالَ لَهَا إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ أَوْحَى إِلَيَّ يَأْمُرُنِي أَنِ أَتَّخِذَ وَصِيّاً مِنْ أَهْلِي فَقَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ فَلْيَكُنِ ابْنِي قَالَ ذَلِكَ أُرِيدُ وَكَانَ السَّابِقُ فِي عِلْمِ الله الْمَحْتُومِ عِنْدَهُ أَنَّهُ سُلَيْمَانُ فَأَوْحَى الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِلَى دَاوُدَ أَنْ لا تَعْجَلْ دُونَ أَنْ يَأْتِيَكَ أَمْرِي فَلَمْ يَلْبَثْ دَاوُدُ علیہ السلام أَنْ وَرَدَ عَلَيْهِ رَجُلانِ يَخْتَصِمَانِ فِي الْغَنَمِ وَالْكَرْمِ فَأَوْحَى الله عَزَّ وَجَلَّ إِلَى دَاوُدَ أَنِ اجْمَعْ وُلْدَكَ فَمَنْ قَضَى بِهَذِهِ الْقَضِيَّةِ فَأَصَابَ فَهُوَ وَصِيُّكَ مِنْ بَعْدِكَ فَجَمَعَ دَاوُدُ علیہ السلام وُلْدَهُ فَلَمَّا أَنْ قَصَّ الْخَصْمَانِ قَالَ سُلَيْمَانُ علیہ السلام يَا صَاحِبَ الْكَرْمِ مَتَى دَخَلَتْ غَنَمُ هَذَا الرَّجُلِ كَرْمَكَ قَالَ دَخَلَتْهُ لَيْلاً قَالَ قَضَيْتُ عَلَيْكَ يَا صَاحِبَ الْغَنَمِ بِأَوْلادِ غَنَمِكَ وَأَصْوَافِهَا فِي عَامِكَ هَذَا ثُمَّ قَالَ لَهُ دَاوُدُ فَكَيْفَ لَمْ تَقْضِ بِرِقَابِ الْغَنَمِ وَقَدْ قَوَّمَ ذَلِكَ عُلَمَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَانَ ثَمَنُ الْكَرْمِ قِيمَةَ الْغَنَمِ فَقَالَ سُلَيْمَانُ إِنَّ الْكَرْمَ لَمْ يُجْتَثَّ مِنْ أَصْلِهِ وَإِنَّمَا أُكِلَ حِمْلُهُ وَهُوَ عَائِدٌ فِي قَابِلٍ فَأَوْحَى الله عَزَّ وَجَلَّ إِلَى دَاوُدَ إِنَّ الْقَضَاءَ فِي هَذِهِ الْقَضِيَّةِ مَا قَضَى سُلَيْمَانُ بِهِ يَا دَاوُدُ أَرَدْتَ أَمْراً وَأَرَدْنَا أَمْراً غَيْرَهُ فَدَخَلَ دَاوُدُ عَلَى امْرَأَتِهِ فَقَالَ أَرَدْنَا أَمْراً وَأَرَادَ الله عَزَّ وَجَلَّ أَمْراً غَيْرَهُ وَلَمْ يَكُنْ إِلا مَا أَرَادَ الله عَزَّ وَجَلَّ فَقَدْ رَضِينَا بِأَمْرِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَسَلَّمْنَا وَكَذَلِكَ الاوْصِيَاءُ (عَلَيْهم السَّلام) لَيْسَ لَهُمْ أَنْ يَتَعَدَّوْا بِهَذَا الامْرِ فَيُجَاوِزُونَ صَاحِبَهُ إِلَى غَيْرِهِ. قَالَ الْكُلَيْنِيُّ مَعْنَى الْحَدِيثِ الاوَّلِ أَنَّ الْغَنَمَ لَوْ دَخَلَتِ الْكَرْمَ نَهَاراً لَمْ يَكُنْ عَلَى صَاحِبِ الْغَنَمِ شَيْءٌ لانَّ لِصَاحِبِ الْغَنَمِ أَنْ يُسَرِّحَ غَنَمَهُ بِالنَّهَارِ تَرْعَى وَعَلَى صَاحِبِ الْكَرْمِ حِفْظُهُ وَعَلَى صَاحِبِ الْغَنَمِ أَنْ يَرْبِطَ غَنَمَهُ لَيْلاً وَلِصَاحِبِ الْكَرْمِ أَنْ يَنَامَ فِي بَيْتِهِ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ امامت خدا کی طرف سے ایک عہد ہے خدا نے نام بنام کچھ لوگوں کو معین کر دیا ہے امام کے لیے سزوار نہیں کہ وہ اس سے پوشیدہ رکھے جو اس کے بعد ہونے والا امام ہے۔ خدا نے وحی کی داؤد علیہ السلام کو کہ وہ اپنے خاندان سے ایک شخص کو اپنا وصی بنائیں اور فرمایا میرے علم میں یہ گذر چکا ہے کہ جب کسی نبی کو بھیجوں گا تو اس کے خاندان سے اس کا ایک وصی بھی بناؤں گا اور داؤد کے بہت سے بیٹے تھے ان میں ایک لڑکا تھا جس کی ماں داؤد کی زوجیت میں تھی اور زندہ تھی داؤد اس سے بہت محبت کرتے تھے۔ جب وحی ہوئی تو انھوں نے کہا خدا نے یہ وحی کی ہے کہ میں اپنے اہل میں سے کسی کو اپنا وصی بناؤں۔ ان کی بی بی نے کہا میرے بیٹے کو بنا دیجیے۔ فرمایا ہاں میں بھی یہی چاہتا ہوں اور علم الہٰی میں یہ بات گزر چکی تھی کہ داؤد کے وصی سلیمان ہیں۔ خدا نے داؤد کو وحی کی کہ جلدی نہ کرو اس سے پہلے کہ میرا حکم تمہارے پاس آئے۔ کچھ دیر کے بعد داؤد کے پاس دو آدمی جھگڑا کرتے ہوئے آئے۔ ایک بکریوں والا تھا اور دوسرا انگور کے باغ کا مالک، خدا نے داؤد کو وحی کی کہ اپنی سب اولاد کو جمع کرو اور اس کا فیصلہ پوچھو جو فیصلہ کر دے وہی تمہارا وصی ہو گا۔ پس داؤد نے سب کو جمع کیا جب ان کے سامنے یہ قضیہ پیش ہوا تو سلیمان نے کہا اے انگور والے بکریاں تیرے کھیت میں کب آئی تھیں۔ اس نے کہا رات کو۔ فرمایا میں نے یہ فیصلہ کیا کہ بکریوں والا اس سال بکریوں کے بچے اور اون تجھے دی۔ داؤد نے کہا یہ کیسے، کیوں یہ فیصلہ نہیں کرتے کہ یہ سب بکریاں انگور والے کو دے دی جائیں علماء بنی اسرائیل اس فیصلے کو حق جانتے ہیں جناب سلیمان نے کہا ان بکریوں نے انگور کے درخت جڑ سے نہیں اکھاڑے ہیں صرف انگور کھائے ہیں آئندہ سال وہ پھر آ جائیں گے یعنی نقصان صرف ایک سال کے منافع کا ہے لہذا اسے بکریوں کے بچوں اور اون سے پورا کر دیا جائے گا۔ خدا نے داؤد کو وحی کی کہ اس قضیہ کا فیصلہ یہی ہے جو سلیمان نے کیا ہے اے داؤد ایک امر کا ارادہ میں نے کیا اور ایک امر کا تم نے (میرا ارادہ پورا ہوا) داؤد اپنی بیوی کے پاس آئے اور کہنے لگے ہم نے ایک ارادہ کیا اور اس کے علاوہ خدا نے ارادہ کیا اور اصلی ارادہ اللہ ہی کا ہے۔ ہم نے اس کو تسلیم کر لیا۔ امام نے فرمایا بس یہی صورت اوصیاء کی ہے اس معاملے میں امر الہٰی سے تجاوز نہیں کرتے اور معین وصی کے سوا دوسرے کو نہیں بناتے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنِ ابْنِ بُكَيْرٍ وَجَمِيلٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُصْعَبٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام يَقُولُ أَ تَرَوْنَ أَنَّ الْمُوصِيَ مِنَّا يُوصِي إِلَى مَنْ يُرِيدُ لا وَالله وَلَكِنَّهُ عَهْدٌ مِنْ رَسُولِ الله ﷺ إِلَى رَجُلٍ فَرَجُلٍ حَتَّى انْتَهَى إِلَى نَفْسِهِ۔
راوی کہتا ہے فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایسا نہیں ہے کہ ہمارا وصیت کرنے والا جس کے لیے چاہے وصیت کر دے بلکہ وہ عہد ہے رسول اللہ کی طرف سے ایک کے بعد دوسرے کے لیے یہاں تک کہ آخر امام اس کو اپنے نفس پر ختم کر دے۔