مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

(3-52)

امر دین کی تفویض رسول اللہ ﷺ اور آئمہ علیہم السلام کو

حدیث نمبر 1

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي زَاهِرٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ النَّحْوِيِّ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ أَدَّبَ نَبِيَّهُ عَلَى مَحَبَّتِهِ فَقَالَ وَإِنَّكَ لَعَلى‏ خُلُقٍ عَظِيمٍ ثُمَّ فَوَّضَ إِلَيْهِ فَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ وَما آتاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَما نَهاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ الله قَالَ ثُمَّ قَالَ وَإِنَّ نَبِيَّ الله فَوَّضَ إِلَى عَلِيٍّ وَائْتَمَنَهُ فَسَلَّمْتُمْ وَجَحَدَ النَّاسُ فَوَ الله لَنُحِبُّكُمْ أَنْ تَقُولُوا إِذَا قُلْنَا وَأَنْ تَصْمُتُوا إِذَا صَمَتْنَا وَنَحْنُ فِيمَا بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الله عَزَّ وَجَلَّ مَا جَعَلَ الله لاحَدٍ خَيْراً فِي خِلافِ أَمْرِنَا. عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ أَبِي نَجْرَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ (عَلَيْهِ السَّلام) يَقُولُ ثُمَّ ذَكَرَ نَحْوَهُ۔

راوی کہتا ہے میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت کو یہ کہتے سنا، اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کے سبب تربیت کی اپنے رسول کی اور فرمایا سورہ نون میں، اے رسول بے شک تم خلق عظیم پر فائز ہو، پھر امر دین ان کے سپرد کیا اور فرمایا جو رسول تم کو دیں اسے لے لو اور جس امر سے منع کریں اس سے باز رہو، خدا فرماتا ہے جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ پھر فرمایا رسول نے امر دین اپنے بعد علی کے سپرد کیا اور ان کو امین بنایا۔ پس تم نے ان کو مان لیا لیکن اور لوگوں نے انکار کیا۔ ہم تم سے یہ چاہتے ہیں کہ جب ہم کہیں تم تو بھی کہو اور جب ہم چپ رہیں تو تم بھی چپ رہو۔ ہم تمہارے اور اللہ کے درمیان واسطہ ہیں خدا نے ہماری مخالفت میں کسی کے لیے بہتری نہیں رکھی۔

حدیث نمبر 2

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي عِمْرَانَ عَنْ يُونُسَ عَنْ بَكَّارِ بْنِ بَكْرٍ عَنْ مُوسَى بْنِ أَشْيَمَ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ الله عَزَّ وَجَلَّ فَأَخْبَرَهُ بِهَا ثُمَّ دَخَلَ عَلَيْهِ دَاخِلٌ فَسَأَلَهُ عَنْ تِلْكَ الايَةِ فَأَخْبَرَهُ بِخِلافِ مَا أَخْبَرَ بِهِ الاوَّلَ فَدَخَلَنِي مِنْ ذَلِكَ مَا شَاءَ الله حَتَّى كَأَنَّ قَلْبِي يُشْرَحُ بِالسَّكَاكِينِ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي تَرَكْتُ أَبَا قَتَادَةَ بِالشَّامِ لا يُخْطِئُ فِي الْوَاوِ وَشِبْهِهِ وَجِئْتُ إِلَى هَذَا يُخْطِئُ هَذَا الْخَطَأَ كُلَّهُ فَبَيْنَا أَنَا كَذَلِكَ إِذْ دَخَلَ عَلَيْهِ آخَرُ فَسَأَلَهُ عَنْ تِلْكَ الايَةِ فَأَخْبَرَهُ بِخِلافِ مَا أَخْبَرَنِي وَأَخْبَرَ صَاحِبَيَّ فَسَكَنَتْ نَفْسِي فَعَلِمْتُ أَنَّ ذَلِكَ مِنْهُ تَقِيَّةٌ قَالَ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ فَقَالَ لِي يَا ابْنَ أَشْيَمَ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ فَوَّضَ إِلَى سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ فَقَالَ هذا عَطاؤُنا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسابٍ وَفَوَّضَ إِلَى نَبِيِّهِ ﷺ فَقَالَ ما آتاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَما نَهاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا فَمَا فَوَّضَ إِلَى رَسُولِ الله ﷺ فَقَدْ فَوَّضَهُ إِلَيْنَا۔

ابن اشیم سے مروی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں تھا کہ ایک شخص آیا اور قرآن کی ایک آیت کے متعلق پوچھا۔ آپ نے جواب دیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک دوسرا آیا۔ اس نے بھی اسی آیت کے متعلق پوچھا۔ آپ نے اسے دوسرا جواب دیا۔ مجھے اس واقعہ سے اتنا صدمہ پہنچا گویا کسی نے میرے قلب کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ میں نے اپنے دل میں کہا میں نے شام میں ابوقتاوہ کو لکھا کہ وہ واؤ وغیرہ کی غلطی نہیں کرتا اور ایک یہ ہیں کہ انھوں نے غلطی پر غلطی کی۔ ابھی اسی خیال میں تھا کہ ایک شخص اور آیا اور اسنے بھی اسی آیت کے متعلق پوچھا۔ آپ نے اس کو جو جواب دیا وہ پچھلے دونوں جوابوں کے خلاف تھا۔ اب میرے نفس کو سکون حاصل ہوا اور میں نے یہ جانا کہ یہ ازروئے تقیہ جواب دیے گئے ہیں۔ اب حضرت میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے ابن اشیم اللہ تعالیٰ نے سلیمان بن داؤد کو دنیوی جاہ سپرد کر کے فرمایا تھا یہ ہماری بخشش ہے چاہے تو کسی کو دے کر اس پر احسان رکھو چاہے اسے بغیر حساب روکے رہو (یعنی اس سلطنت کی کوئی اہمیت نہ تھی) اور رسول کے سپرد وہ روحانی حکومت کی جس کے متعلق خدا فرماتا ہے جو تمہیں رسول دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو۔ پس جس طرح (امر دین میں حکومت مطلقہ) رسول کو خدا نے یہ حکومت سپرد کی اسی طرح ہم کو بھی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ امر دین ہمارے سپرد ہے ہم جو مصلحت سمجھتے ہیں کرتے ہیں۔

حدیث نمبر 3

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَجَّالِ عَنْ ثَعْلَبَةَ عَنْ زُرَارَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ وَأَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام يَقُولانِ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ فَوَّضَ إِلَى نَبِيِّهِ ﷺ أَمْرَ خَلْقِهِ لِيَنْظُرَ كَيْفَ طَاعَتُهُمْ ثُمَّ تَلا هَذِهِ الايَةَ ما آتاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَما نَهاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا۔

راوی کہتا ہے میں نے امام باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق سے سنا کہ امر حق اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے سپرد کیا تاکہ وہ ان کی اطاعت کو دیکھیں پھر یہ آیت پڑھی رسول جو کچھ تم کو دیں لے لو اور جس امر سے منع کریں اس سے باز رہو۔

حدیث نمبر 4

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ أُذَيْنَةَ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام يَقُولُ لِبَعْضِ أَصْحَابِ قَيْسٍ الْمَاصِرِ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ أَدَّبَ نَبِيَّهُ فَأَحْسَنَ أَدَبَهُ فَلَمَّا أَكْمَلَ لَهُ الادَبَ قَالَ إِنَّكَ لَعَلى‏ خُلُقٍ عَظِيمٍ ثُمَّ فَوَّضَ إِلَيْهِ أَمْرَ الدِّينِ وَالامَّةِ لِيَسُوسَ عِبَادَهُ فَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ ما آتاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَما نَهاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَإِنَّ رَسُولَ الله ﷺ كَانَ مُسَدَّداً مُوَفَّقاً مُؤَيَّداً بِرُوحِ الْقُدُسِ لا يَزِلُّ وَلا يُخْطِئُ فِي شَيْ‏ءٍ مِمَّا يَسُوسُ بِهِ الْخَلْقَ فَتَأَدَّبَ بِ‏آدَابِ الله ثُمَّ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ فَرَضَ الصَّلاةَ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ عَشْرَ رَكَعَاتٍ فَأَضَافَ رَسُولُ الله ﷺ إِلَى الرَّكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ وَإِلَى الْمَغْرِبِ رَكْعَةً فَصَارَتْ عَدِيلَ الْفَرِيضَةِ لا يَجُوزُ تَرْكُهُنَّ إِلا فِي سَفَرٍ وَأَفْرَدَ الرَّكْعَةَ فِي الْمَغْرِبِ فَتَرَكَهَا قَائِمَةً فِي السَّفَرِ وَالْحَضَرِ فَأَجَازَ الله عَزَّ وَجَلَّ لَهُ ذَلِكَ كُلَّهُ فَصَارَتِ الْفَرِيضَةُ سَبْعَ عَشْرَةَ رَكْعَةً ثُمَّ سَنَّ رَسُولُ الله ﷺ النَّوَافِلَ أَرْبَعاً وَثَلاثِينَ رَكْعَةً مِثْلَيِ الْفَرِيضَةِ فَأَجَازَ الله عَزَّ وَجَلَّ لَهُ ذَلِكَ وَالْفَرِيضَةُ وَالنَّافِلَةُ إِحْدَى وَخَمْسُونَ رَكْعَةً مِنْهَا رَكْعَتَانِ بَعْدَ الْعَتَمَةِ جَالِساً تُعَدُّ بِرَكْعَةٍ مَكَانَ الْوَتْرِ وَفَرَضَ الله فِي السَّنَةِ صَوْمَ شَهْرِ رَمَضَانَ وَسَنَّ رَسُولُ الله ﷺ صَوْمَ شَعْبَانَ وَثَلاثَةَ أَيَّامٍ فِي كُلِّ شَهْرٍ مِثْلَيِ الْفَرِيضَةِ فَأَجَازَ الله عَزَّ وَجَلَّ لَهُ ذَلِكَ وَحَرَّمَ الله عَزَّ وَجَلَّ الْخَمْرَ بِعَيْنِهَا وَحَرَّمَ رَسُولُ الله ﷺ الْمُسْكِرَ مِنْ كُلِّ شَرَابٍ فَأَجَازَ الله لَهُ ذَلِكَ كُلَّهُ وَعَافَ رَسُولُ الله ﷺ أَشْيَاءَ وَكَرِهَهَا وَلَمْ يَنْهَ عَنْهَا نَهْيَ حَرَامٍ إِنَّمَا نَهَى عَنْهَا نَهْيَ إِعَافَةٍ وَكَرَاهَةٍ ثُمَّ رَخَّصَ فِيهَا فَصَارَ الاخْذُ بِرُخَصِهِ وَاجِباً عَلَى الْعِبَادِ كَوُجُوبِ مَا يَأْخُذُونَ بِنَهْيِهِ وَعَزَائِمِهِ وَلَمْ يُرَخِّصْ لَهُمْ رَسُولُ الله ﷺ فِيمَا نَهَاهُمْ عَنْهُ نَهْيَ حَرَامٍ وَلا فِيمَا أَمَرَ بِهِ أَمْرَ فَرْضٍ لازِمٍ فَكَثِيرُ الْمُسْكِرِ مِنَ الاشْرِبَةِ نَهَاهُمْ عَنْهُ نَهْيَ حَرَامٍ لَمْ يُرَخِّصْ فِيهِ لاحَدٍ وَلَمْ يُرَخِّصْ رَسُولُ الله ﷺ لاحَدٍ تَقْصِيرَ الرَّكْعَتَيْنِ اللَّتَيْنِ ضَمَّهُمَا إِلَى مَا فَرَضَ الله عَزَّ وَجَلَّ بَلْ أَلْزَمَهُمْ ذَلِكَ إِلْزَاماً وَاجِباً لَمْ يُرَخِّصْ لاحَدٍ فِي شَيْ‏ءٍ مِنْ ذَلِكَ إِلا لِلْمُسَافِرِ وَلَيْسَ لاحَدٍ أَنْ يُرَخِّصَ شَيْئاً مَا لَمْ يُرَخِّصْهُ رَسُولُ الله ﷺ فَوَافَقَ أَمْرُ رَسُولِ الله ﷺ أَمْرَ الله عَزَّ وَجَلَّ وَنَهْيُهُ نَهْيَ الله عَزَّ وَجَلَّ وَوَجَبَ عَلَى الْعِبَادِ التَّسْلِيمُ لَهُ كَالتَّسْلِيمِ لله تَبَارَكَ وَتَعَالَى۔

راوی کہتا ہے میں نے سنا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک صحابی قیس بن عامر سے فرمایا کہ خدا نے ادب سکھایا اپنے نبی کو اور بہت اچھا ادب سکھایا۔ پس جب ادب میں کمال حاصل ہوا تو فرمایا بے شک تم خلقِ عظیم پر ہو۔ پھر امر دین اور امت کو حضرت کے سپرد کیا تاکہ وہ خدا کے بندوں پر اپنی حکومت کریں۔ پس خدا نے فرمایا جو کچھ رسول تمہیں دیں اسے لے لو اور جس سے روکیں اس سے باز رہو۔ بے شک رسول اللہ راست پر تھے توفیق دیے ہوئے اور ان میں روح القدس کی تائید حاصل تھی سیاست خلق و ہدایت مخلوق کے متعلق نہ ان سے کوئی لغزش سرزد ہوئی اور نہ کوئی خطا ۔ پس حضرت نے لوگوں کو آداب الہٰی کی تعلیم دی۔ پھر خدا نے فرض کیں نماز کی دو رکعتیں (پانچ وقت میں) کل دس رکعت، رسول اللہ نے دو رکعتوں کے ساتھ دو دو رکعتوں کا اضافہ کیا اور مغرب میں ایک رکعت جو فریضہ کی مثل قرار پائیں جن کا ترک کرنا جائز نہیں سوائے سفر کے اور مغرب کی نماز میں جو ایک رکعت کا اضافہ ہوا تھا سفر میں وہ باقی رہا۔ اس صورت میں سترہ رکعتیں فرض ہوئیں۔ پھر رسول اللہ نے سنتیں قرار دیں 34 رکعتیں یعنی فرض رکعتوں سے دوگنی۔ خدا نے ان کو اجازت دی، فریضہ و نافلہ مل کر 51 رکتعیں ہو گئیں ان میں سے دو رکعت بعد نماز عشا بیٹھ کر پڑھی جاتی ہیں بجائے نماز وتر اور فرض کیا اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کو اور رسول اللہ نے سنت قرار دیا ماہ شبان کے روزوں کو اور تین دن ہر ماہ میں (یعنی بقیہ دس ماہ میں) اس طرح روزے فرض سے دو حصے زیادہ ہو گئے۔ پھر خدا نے اس کی اجازت دی۔ پھر خدا نے حرام کیا شراب کو اور رسول اللہ نے حرام کیا ہر نشہ دینے والی چیز کو۔ خدا نے اس کو منظور کیا بعض چیزوں کو رسول اللہ نے مکروہ قرار دیا لیکن نہی ایسی نہیں جیسی حرام کے لیے ہے۔ نہی ہے مگر وہ نہی ازروئے ناخوشی و کراہت ہے بعض چیزوں کی رسول اللہ نے اجازت دی ہے تو ان کا بجا لانا بندوں پر اسی طرح ہے جیسے واجب کا ہو اور نہیں اجازت دی رسول اللہ نے اس کے کرنے کی جس سے روکا ہے نہی حرام کی طرح، اسی طرح جس کا حکم دیا ہے فرض لازم کی طرح اس کے خلاف کرنے کی۔ پس پینے کی بہت سی نشہ آور چیزیں ہیں جن سے نہی حرام کی رسول نے روکا ہے اور کسی کو اس کے بجا لانے کی اجازت نہیں دی۔ اسی طرح حضرت نے نہیں اجازت دی ان دو رکعتوں کے کم کرنے کی جن کو اللہ کی فرض کی ہوئی رکعتوں کے ساتھ ملا دیا ہے بلکہ ان کو واجب قرار دے دیا ہے کسی کو ان کے کم کرنے کا حق نہیں۔ سوائے مسافر کے کوئی مجاز نہیں اس امر کا جس کی اجازت رسول اللہ نے نہیں دی اس کو بجا لائے۔ پس رسول اللہ کا حکم خدا کی طرح اور ان کی نہی نہیِ خدا کی مثل ہے ہر حکم و نہی رسول کو اسی طرح قبول کر لینا چاہے جیسے خدا کے امر و نہی کو۔

حدیث نمبر 5

أَبُو عَلِيٍّ الاشْعَرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ زُرَارَةَ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا جَعْفَرٍ وَأَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام يَقُولانِ إِنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَوَّضَ إِلَى نَبِيِّهِ ﷺ أَمْرَ خَلْقِهِ لِيَنْظُرَ كَيْفَ طَاعَتُهُمْ ثُمَّ تَلا هَذِهِ الايَةَ ما آتاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَما نَهاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا. مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَجَّالِ عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ زُرَارَةَ مِثْلَهُ۔

راوی کہتا ہے میں نے امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہم السلام سے سنا کہ امر خلق کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے سپرد کر دیا تاکہ وہ ان کی اطاعت کو دیکھیں پھر یہ آیت پڑھی ، جو کچھ تم کو دیں اسے لے لو اور جس امر سے روکیں اس سے باز رہو۔

حدیث نمبر 6

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ إِنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَدَّبَ نَبِيَّهُ ﷺ فَلَمَّا انْتَهَى بِهِ إِلَى مَا أَرَادَ قَالَ لَهُ إِنَّكَ لَعَلى‏ خُلُقٍ عَظِيمٍ فَفَوَّضَ إِلَيْهِ دِينَهُ فَقَالَ وَما آتاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَما نَهاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَإِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ فَرَضَ الْفَرَائِضَ وَلَمْ يَقْسِمْ لِلْجَدِّ شَيْئاً وَإِنَّ رَسُولَ الله ﷺ أَطْعَمَهُ السُّدُسَ فَأَجَازَ الله جَلَّ ذِكْرُهُ لَهُ ذَلِكَ وَذَلِكَ قَوْلُ الله عَزَّ وَجَلَّ هذا عَطاؤُنا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسابٍ۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ نے فضائل و کمالات سے آراستہ کیا اپنے نبی کو جب منشائے الہٰی کے مطابق بن گئے تو فرمایا تم خلقِ عظیم پر ہو۔ پھر اپنا دین ان کے سپرد کر کے فرمایا جو رسول تم کو دیں اسے لے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو اور اللہ تعالیٰ نے میت کے ترکہ کی تقسیم قرار دی اور اس میں جد کے لیے کوئی حصہ قرار نہ پایا۔ رسول اللہ نے اس کے لیے چھٹا حصہ معین کیا۔ خدا نے اسے منظور کیا۔ اسی لیے خدا نے فرمایا یہ ہماری عطا ہے چاہے کسی کو دے ڈالو یا روک لو۔ تم سے کوئی حساب نہ ہو گا یعنی حضرت سلیمان کی طرح آنحضرت کو امر دین میں مختار کل بنا دیا گیا تھا۔

حدیث نمبر 7

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْوَشَّاءِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ وَضَعَ رَسُولُ الله ﷺ دِيَةَ الْعَيْنِ وَدِيَةَ النَّفْسِ وَحَرَّمَ النَّبِيذَ وَكُلَّ مُسْكِرٍ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ وَضَعَ رَسُولُ الله ﷺ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَكُونَ جَاءَ فِيهِ شَيْ‏ءٌ قَالَ نَعَمْ لِيَعْلَمَ مَنْ يُطِيعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَعْصِيهِ۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول اللہ نے آنکھ کی اور قتل نفس کی دیت قرار دی اور جو کی شراب اور ہر نشہ دینے والی چیز کو حرام قرار دیا۔ ایک شخص نے امام علیہ السلام سے سوال کیا جو چیز قرآن میں تھی کیا رسول اللہ نے اسے معین کیا۔ فرمایا ہاں تاکہ یہ جانا جائے کہ رسول کی اطاعت کرنے والا کون ہے اور معصیت کرنے والا کون۔

حدیث نمبر 8

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ قَالَ وَجَدْتُ فِي نَوَادِرِ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ سِنَانٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام لا وَالله مَا فَوَّضَ الله إِلَى أَحَدٍ مِنْ خَلْقِهِ إِلا إِلَى رَسُولِ الله ﷺ وَإِلَى الائِمَّةِ قَالَ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّا أَنْزَلْنا إِلَيْكَ الْكِتابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِما أَراكَ الله وَهِيَ جَارِيَةٌ فِي الاوْصِيَاءِ (عَلَيْهم السَّلام )۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے خدا کی قسم اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے کسی کے سپرد امر دین کو نہیں کیا سوائے رسول اور آئمہ کے اور فرماتا ہے ہم نے سچی کتاب کو تم پر نازل کیا ہے تاکہ جو کچھ اللہ نے تم کو دکھایا ہے اس کے مطابق لوگوں کے درمیان حکم کرو، یہی طریقہ جاری رہا اوصیائے نبی کے لیے بھی۔

حدیث نمبر 9

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ يَزِيدَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الْمِيثَمِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ أَدَّبَ رَسُولَهُ حَتَّى قَوَّمَهُ عَلَى مَا أَرَادَ ثُمَّ فَوَّضَ إِلَيْهِ فَقَالَ عَزَّ ذِكْرُهُ ما آتاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَما نَهاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا فَمَا فَوَّضَ الله إِلَى رَسُولِهِ ﷺ فَقَدْ فَوَّضَهُ إِلَيْنَا۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے خدا نے اپنے رسول کو مکارم اخلاق سے آراستہ کیا جب درجہ کمال تک پہنچے تو امر دین کو ان کے سپرد کیا اور فرمایا جو رسول تمہیں دیں اسے لے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو۔ پس جو کچھ رسول کو سپرد کیا گیا ہے وہی ہم کو سپرد کیا گیا ہے۔

حدیث نمبر 10

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ صَنْدَلٍ الْخَيَّاطِ عَنْ زَيْدٍ الشَّحَّامِ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام فِي قَوْلِهِ تَعَالَى هذا عَطاؤُنا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسابٍ قَالَ أَعْطَى سُلَيْمَانَ مُلْكاً عَظِيماً ثُمَّ جَرَتْ هَذِهِ الايَةُ فِي رَسُولِ الله ﷺ فَكَانَ لَهُ أَنْ يُعْطِيَ مَا شَاءَ مَنْ شَاءَ وَيَمْنَعَ مَنْ شَاءَ وَأَعْطَاهُ الله أَفْضَلَ مِمَّا أَعْطَى سُلَيْمَانَ لِقَوْلِهِ ما آتاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَما نَهاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیت ہدا عطاؤنا الخ کے متعلق پوچھا گیا۔ فرمایا خدا نے سلیمان کے متعلق فرمایا ہذا عطاؤنا اور خدا نے ان کو ملک عظیم دیا۔ پھر اس آیت کا حکم جاری ہوا رسول اللہ کے لیے پس حضرت کو اختیار تھا جس کو چاہیں دیں جس کو چاہیں نہ دیں ان کو سلیمان سے زیادہ دیا گیا تھا۔