عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ وَهْبٍ عَنْ سَعِيدٍ السَّمَّانِ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام إِذْ دَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلانِ مِنَ الزَّيْدِيَّةِ فَقَالا لَهُ أَ فِيكُمْ إِمَامٌ مُفْتَرَضُ الطَّاعَةِ قَالَ فَقَالَ لا قَالَ فَقَالا لَهُ قَدْ أَخْبَرَنَا عَنْكَ الثِّقَاتُ أَنَّكَ تُفْتِي وَتُقِرُّ وَتَقُولُ بِهِ وَنُسَمِّيهِمْ لَكَ فُلانٌ وَفُلانٌ وَهُمْ أَصْحَابُ وَرَعٍ وَتَشْمِيرٍ وَهُمْ مِمَّنْ لا يَكْذِبُ فَغَضِبَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام فَقَالَ مَا أَمَرْتُهُمْ بِهَذَا فَلَمَّا رَأَيَا الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ خَرَجَا فَقَالَ لِي أَ تَعْرِفُ هَذَيْنِ قُلْتُ نَعَمْ هُمَا مِنْ أَهْلِ سُوقِنَا وَهُمَا مِنَ الزَّيْدِيَّةِ وَهُمَا يَزْعُمَانِ أَنَّ سَيْفَ رَسُولِ الله ﷺ عِنْدَ عَبْدِ الله بْنِ الْحَسَنِ فَقَالَ كَذَبَا لَعَنَهُمَا الله وَالله مَا رَآهُ عَبْدُ الله بْنُ الْحَسَنِ بِعَيْنَيْهِ وَلا بِوَاحِدَةٍ مِنْ عَيْنَيْهِ وَلا رَآهُ أَبُوهُ اللهمَّ إِلا أَنْ يَكُونَ رَآهُ عِنْدَ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ فَإِنْ كَانَا صَادِقَيْنِ فَمَا عَلامَةٌ فِي مَقْبِضِهِ وَمَا أَثَرٌ فِي مَوْضِعِ مَضْرَبِهِ وَإِنَّ عِنْدِي لَسَيْفَ رَسُولِ الله ﷺ وَإِنَّ عِنْدِي لَرَايَةَ رَسُولِ الله ﷺ وَدِرْعَهُ وَلامَتَهُ وَمِغْفَرَهُ فَإِنْ كَانَا صَادِقَيْنِ فَمَا عَلامَةٌ فِي دِرْعِ رَسُولِ الله ﷺ وَإِنَّ عِنْدِي لَرَايَةَ رَسُولِ الله ﷺ الْمِغْلَبَةَ وَإِنَّ عِنْدِي أَلْوَاحَ مُوسَى وَعَصَاهُ وَإِنَّ عِنْدِي لَخَاتَمَ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ وَإِنَّ عِنْدِي الطَّسْتَ الَّذِي كَانَ مُوسَى يُقَرِّبُ بِهِ الْقُرْبَانَ وَإِنَّ عِنْدِي الاسْمَ الَّذِي كَانَ رَسُولُ الله ﷺ إِذَا وَضَعَهُ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُشْرِكِينَ لَمْ يَصِلْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِلَى الْمُسْلِمِينَ نُشَّابَةٌ وَإِنَّ عِنْدِي لَمِثْلَ الَّذِي جَاءَتْ بِهِ الْمَلائِكَةُ وَمَثَلُ السِّلاحِ فِينَا كَمَثَلِ التَّابُوتِ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ فِي أَيِّ أَهْلِ بَيْتٍ وُجِدَ التَّابُوتُ عَلَى أَبْوَابِهِمْ أُوتُوا النُّبُوَّةَ وَمَنْ صَارَ إِلَيْهِ السِّلاحُ مِنَّا أُوتِيَ الامَامَةَ وَلَقَدْ لَبِسَ أَبِي دِرْعَ رَسُولِ الله ﷺ فَخَطَّتْ عَلَى الارْضِ خَطِيطاً وَلَبِسْتُهَا أَنَا فَكَانَتْ وَكَانَتْ وَقَائِمُنَا مَنْ إِذَا لَبِسَهَا مَلاهَا إِنْ شَاءَ الله۔
سعید روغن فروش سے روایت ہے کہ میں ابو عبداللہ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا کہ زیدیہ فرقہ کے دو آدمی آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے کیا تم میں کوئی امام مفترض الطاعت ہے۔ حضرتؑ نے (مصلحتِ وقت پر نظر رکھ کر) کہا کوئی نہیں۔ انھوں نے کہا ہمیں معتبر لوگوں سے خبر ملی ہے کہ آپ فتوے دیتے ہیں اقرار کرتے ہیں اورقائل کرتے ہیں اگر کہو تو ہم ان گواہوں کے نام بتا دیں وہ فلاں فلاں میں جو جھوٹ بولنے والے نہیں وہ صاحبِ زہد و ورع ہیں۔ حضرت کو غصہ آیا۔ فرمایا میں نے ان کو ایسا کہنے کا حکم نہیں دیا۔ جب دونوں نے آپ کو غضبناک دیکھا تو وہاں سے چل دیے ۔ حضرت نے مجھ سے کہا کیا تم ان دونوں کو جانتے ہو۔ میں نے کہا ہاں یہ ہمارے بازار کے رہنے والے ہیں اور زیدیہ فرقہ کے ہیں وہ گمان کرتے ہیں کہ رسول اللہ کی تلوار عبداللہ بن حسن (ابن امام حسن) کے پاس تھی۔ فرمایا وہ دونوں جھوٹے ہیں خدا کی ان پر لعنت ہو۔ نہ عبداللہ ابن حسن نے اس کو اپنی دونوں آنکھوں سے دیکھا نہ ایک آنکھ سے (آخر عمر میں ان کی ایک آنکھ جاتی رہی تھی) اور نہ ان کے پاپ (حسن مثنیٰ) نے دیکھا تھا۔ خدایا نہ دیکھا ہو۔ انھوں نے اس کو دیکھا تھا علی بن الحسینؑ نے اگر وہ دونوں سچے ہیں تو ذرا یہ بتائیں حضرت کی تلوار کے قبضہ پر کیا نشان تھا اور اس کی دھار پر کیا نشان تھا۔ بے شک رسول اللہ کی تلوار میرے پاس ہے، بیشک میرے پاس رایتِ رسول ہےجس کا نام مغلبہ ہے۔ میرے پاس الواح موسیٰ اور ان کا عصا ہے اور خاتم سلیمان بن داؤد ہے اور میرے پاس وہ طشت ہے جس سے موسیٰ نزدیکیِ الہٰی حاصل کرتے تھے اور میرے پاس وہ اسم اعظم الہٰی ہے کہ جب اس کو رسول اللہ مشرکوں اور مسلمانوں کے درمیان رکھ دیتے تھے تو مشرکین بقدر ایک تیر کے فاصلہ کے بھی ان تک نہ پہنچ سکتے تھے میرے پاس بھی ایسی چیزیں ہیں جیسی ملائکہ لایا کرتے تھے ہمارے پاس جو ہتھیار ہیں وہ ایسے ہی ہیں جیسے بنی اسرائیل کے پاس تابوت سکینہ تھا کہ بنی اسرائیل جس خاندان سے تعلق رکھتے وہ تابوت اس کے دروازوں پر ہوتا، ان کو نبوت دی گئی اور ہم کو رسول اللہ کے ہتھیاروں کے ساتھ امام بھی دی گئی۔ میرے پدر بزرگوار نے جب زرہِ رسول پہنی تو اس نے زمین پر ایک ہلکا سا خط دیا۔ میں نے بھی پہنی پس وہی صورت میرے لیے بھی ہوئی اور ہمارا قائم وہ ہے کہ جب اسے پہنے گا تو انشاء اللہ اسے پورا کر دے گا یعنی زیادہ حصہ نہ رہیگا بلحاظ قد مناسب ہو جائے گی۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الاشْعَرِيُّ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْوَشَّاءِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ عَبْدِ الاعْلَى بْنِ أَعْيَنَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام يَقُولُ عِنْدِي سِلاحُ رَسُولِ الله ﷺ لا أُنَازَعُ فِيهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ السِّلاحَ مَدْفُوعٌ عَنْهُ لَوْ وُضِعَ عِنْدَ شَرِّ خَلْقِ الله لَكَانَ خَيْرَهُمْ ثُمَّ قَالَ إِنَّ هَذَا الامْرَ يَصِيرُ إِلَى مَنْ يُلْوَى لَهُ الْحَنَكُ فَإِذَا كَانَتْ مِنَ الله فِيهِ الْمَشِيئَةُ خَرَجَ فَيَقُولُ النَّاسُ مَا هَذَا الَّذِي كَانَ وَيَضَعُ الله لَهُ يَداً عَلَى رَأْسِ رَعِيَّتِهِ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو کہتے سنا کہ رسول اللہ کے ہتھیاروں کے بارے میں میرا کسی سے جھگڑا نہیں۔ پھر فرمایا اسلحہ رسول مدفوع عنہ ہیں یعنی اگر بدترین خلق کے سامنے رکھے جائیں تو وہ نیک بن جائیں۔ یہ امر پہنچے گا اس شخص تک کہ کج ہو جائیں گے لوگوں کے ذہن اور ٹھوڑی اس کے لیے (یعنی مخالف لوگ وجود امام عصر سے انکار کرینگے) پس جب مشیت الہٰی ہو گی اور حضرت خروج کریں گے تو مخالفین کہیں گے یہ کیا ہو گیا اور اللہ امام زمانہ کا ہاتھ اس کی رعیت کے سر پر رکھے گا۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ يَحْيَى الْحَلَبِيِّ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ قَالَ تَرَكَ رَسُولُ الله ﷺ فِي الْمَتَاعِ سَيْفاً وَدِرْعاً وَعَنَزَةً وَرَحْلاً وَبَغْلَتَهُ الشَّهْبَاءَ فَوَرِثَ ذَلِكَ كُلَّهُ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ترکہ میں چھوڑا ایک تلوار ایک زرہ ایک چھوٹا نیزہ ایک پالانِ شتر ایک چت کبرا خچر اور ان سب کے وارث ہوئے علی بن ابی طالب۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْوَشَّاءِ عَنْ أَبَانِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ لَبِسَ أَبِي دِرْعَ رَسُولِ الله ﷺ ذَاتَ الْفُضُولِ فَخَطَّتْ وَلَبِسْتُهَا أَنَا فَفَضَلَتْ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ میرے پدر بزرگوار نے رسول اللہ کی زرہ ذات الفُضول پہنی تو وہ آپ کے قد سے اتنی زیادہ تھی کہ زمین پر خط دیتی تھی اور جب میں نے اس کو پہنا تو اس سے زیادہ بڑی معلوم ہوئی۔
أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الله عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا علیہ السلام قَالَ سَأَلْتُهُ عَنْ ذِي الْفَقَارِ سَيْفِ رَسُولِ الله ﷺ مِنْ أَيْنَ هُوَ قَالَ هَبَطَ بِهِ جَبْرَئِيلُ علیہ السلام مِنَ السَّمَاءِ وَكَانَتْ حِلْيَتُهُ مِنْ فِضَّةٍ وَهُوَ عِنْدِي۔
راوی کہتا ہے میں نے امام رضا علیہ السلام سے پوچھا کہ ذوالفقار شمشیر کہاں سے آئی تھی۔ فرمایا جبرئیل علیہ السلام آسمان سے لائے تھے اور اس کا قبضہ چاندی کا تھا اور وہ میرے پاس ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ أَبِي إِبْرَاهِيمَ علیہ السلام قَالَ السِّلاحُ مَوْضُوعٌ عِنْدَنَا مَدْفُوعٌ عَنْهُ لَوْ وُضِعَ عِنْدَ شَرِّ خَلْقِ الله كَانَ خَيْرَهُمْ لَقَدْ حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّهُ حَيْثُ بَنَى بِالثَّقَفِيَّةِ وَكَانَ قَدْ شُقَّ لَهُ فِي الْجِدَارِ فَنُجِّدَ الْبَيْتُ فَلَمَّا كَانَتْ صَبِيحَةُ عُرْسِهِ رَمَى بِبَصَرِهِ فَرَأَى حَذْوَهُ خَمْسَةَ عَشَرَ مِسْمَاراً فَفَزِعَ لِذَلِكَ وَقَالَ لَهَا تَحَوَّلِي فَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَدْعُوَ مَوَالِيَّ فِي حَاجَةٍ فَكَشَطَهُ فَمَا مِنْهَا مِسْمَارٌ إِلا وَجَدَهُ مُصْرِفاً طَرَفَهُ عَنِ السَّيْفِ وَمَا وَصَلَ إِلَيْهِ مِنْهَا شَيْءٌ۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ہتھیار ہمارے پاس ہیں دفع کیا جاتا (شر) ان سے اگر وہ بدترین خلق کے پاس ہوں تو ان کو نیک بنا دیں۔ میرے پدر بزرگوار نے فرمایا جب آپ نے ایک زنِ ثقیفہ سے شادی کی اور رات میں اسکے پاس آئے تو دیوار میں ہتھیاروں کے لیے ایک جگہ بنائی گئی تھی اور اوپر سے اس کو سجایا گیا تھا جب صبح ہوئی تو آپ نے دیوار پر نظر ڈالی تو آپ نے تلوار کی برابر پندرہ کیلیں ٹھکی ہوئی دیکھیں۔ اندیشہ ہوا کہ انھوں نے تلوار کو نقصان پہنچایا۔ آپ نے عروس سے فرمایا تم باہر جاؤ۔ میں اپنے غلاموں کو ایک ضرورت کے لیے بلاتا ہوں پس آپ نے تلوار کے اوپر سے پردہ ہٹایا تو دیکھا وہ سب کیلیں تلوار سے ہٹی ہوئی ہیں اور تلوار پر ان کے ٹھوکے جانے کا کوئی اثر نہیں۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ حُجْرٍ عَنْ حُمْرَانَ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ سَأَلْتُهُ عَمَّا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّهُ دُفِعَتْ إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ صَحِيفَةٌ مَخْتُومَةٌ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ الله ﷺ لَمَّا قُبِضَ وَرِثَ علي علیہ السلام عِلْمَهُ وَسِلاحَهُ وَمَا هُنَاكَ ثُمَّ صَارَ إِلَى الْحَسَنِ ثُمَّ صَارَ إِلَى الْحُسَيْنِ علیہ السلام فَلَمَّا خَشِينَا أَنْ نُغْشَى اسْتَوْدَعَهَا أُمَّ سَلَمَةَ ثُمَّ قَبَضَهَا بَعْدَ ذَلِكَ عَلِيُّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) قَالَ فَقُلْتُ نَعَمْ ثُمَّ صَارَ إِلَى أَبِيكَ ثُمَّ انْتَهَى إِلَيْكَ وَصَارَ بَعْدَ ذَلِكَ إِلَيْكَ قَالَ نَعَمْ۔
امام محمد باقر علیہ السلام سے راوی نے پوچھا لوگ کہتے ہیں کہ ام سلمہ کو آنحضرت نے ایک مہر شدہ صحیفہ دیا تھا۔ فرمایا جب رسول کا انتقال ہوا تو حضرت علیؑ ان کے علم اور ہتھیار اور ان تمام چیزوں کے جو انبیاء سے آپ تک پہنچی تھیں مالک ہوئے۔ آپ کے بعد امام حسنؑ وارث ہوئے اور ان کے بعد امام حسینؑ اور جب ان کو کربلا میں ان تبرکات کے ضائع ہونے کا خوف ہوا تو یہ اشیاء ام سلمہ کے سپرد کیں ان کی وہ سب چیزیں علی بن الحسینؑ کو ملیں ان سے مجھ کو (امام جعفر صادق علیہ السلام) پھر فرمایا میرے بعد تم کو ملیں گی۔
مُحَمَّدٌ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ فَضَالَةَ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبَانٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام عَمَّا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّهُ دُفِعَ إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ صَحِيفَةٌ مَخْتُومَةٌ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ الله ﷺ لَمَّا قُبِضَ وَرِثَ علي علیہ السلام عِلْمَهُ وَسِلاحَهُ وَمَا هُنَاكَ ثُمَّ صَارَ إِلَى الْحَسَنِ ثُمَّ صَارَ إِلَى الْحُسَيْنِ علیہ السلام قَالَ قُلْتُ ثُمَّ صَارَ إِلَى عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ثُمَّ صَارَ إِلَى ابْنِهِ ثُمَّ انْتَهَى إِلَيْكَ فَقَالَ نَعَمْ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا لوگ کہتے ہیں حضرت رسولِ خدا ﷺ نے ایک مہر شدہ صحیفہ ام سلمہ کے سپرد کیا تھا۔ فرمایا جب رسول اللہ ﷺ کا انتقال ہوا تو حضرت کے علم اور ہتھیاروں اور جو کچھ حضرت کے پاس تھا اس کے وارث ہوئے علی علیہ السلام پھر حسن پھر حسین علیہما السلام۔ میں نے پوچھا پھر۔ فرمایا علی بن الحسین اس کے بعد ان کے فرزند (امام محمد باقر علیہ السلام) پھر یہ چیز تمہاری طرف آئی یعنی میں وارث ہوا۔ راوی نے کہا درست ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْوَلِيدِ شَبَابٍ الصَّيْرَفِيِّ عَنْ أَبَانِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ لَمَّا حَضَرَتْ رَسُولَ الله ﷺ الْوَفَاةُ دَعَا الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَأَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام فَقَالَ لِلْعَبَّاسِ يَا عَمَّ مُحَمَّدٍ تَأْخُذُ تُرَاثَ مُحَمَّدٍ وَتَقْضِي دَيْنَهُ وَتُنْجِزُ عِدَاتِهِ فَرَدَّ عَلَيْهِ فَقَالَ يَا رَسُولَ الله بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي إِنِّي شَيْخٌ كَثِيرُ الْعِيَالِ قَلِيلُ الْمَالِ مَنْ يُطِيقُكَ وَأَنْتَ تُبَارِي الرِّيحَ قَالَ فَأَطْرَقَ ﷺ هُنَيْئَةً ثُمَّ قَالَ يَا عَبَّاسُ أَ تَأْخُذُ تُرَاثَ مُحَمَّدٍ وَتُنْجِزُ عِدَاتِهِ وَتَقْضِي دَيْنَهُ فَقَالَ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي شَيْخٌ كَثِيرُ الْعِيَالِ قَلِيلُ الْمَالِ وَأَنْتَ تُبَارِي الرِّيحَ قَالَ أَمَا إِنِّي سَأُعْطِيهَا مَنْ يَأْخُذُهَا بِحَقِّهَا ثُمَّ قَالَ يَا عَلِيُّ يَا أَخَا مُحَمَّدٍ أَ تُنْجِزُ عِدَاتِ مُحَمَّدٍ وَتَقْضِي دَيْنَهُ وَتَقْبِضُ تُرَاثَهُ فَقَالَ نَعَمْ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي ذَاكَ عَلَيَّ وَلِي قَالَ فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ حَتَّى نَزَعَ خَاتَمَهُ مِنْ إِصْبَعِهِ فَقَالَ تَخَتَّمْ بِهَذَا فِي حَيَاتِي قَالَ فَنَظَرْتُ إِلَى الْخَاتَمِ حِينَ وَضَعْتُهُ فِي إِصْبَعِي فَتَمَنَّيْتُ مِنْ جَمِيعِ مَا تَرَكَ الْخَاتَمَ ثُمَّ صَاحَ يَا بِلالُ عَلَيَّ بِالْمِغْفَرِ وَالدِّرْعِ وَالرَّايَةِ وَالْقَمِيصِ وَذِي الْفَقَارِ وَالسَّحَابِ وَالْبُرْدِ وَالابْرَقَةِ وَالْقَضِيبِ قَالَ فَوَ الله مَا رَأَيْتُهَا غَيْرَ سَاعَتِي تِلْكَ يَعْنِي الابْرَقَةَ فَجِيءَ بِشِقَّةٍ كَادَتْ تَخْطَفُ الابْصَارَ فَإِذَا هِيَ مِنْ أَبْرُقِ الْجَنَّةِ فَقَالَ يَا عَلِيُّ إِنَّ جَبْرَئِيلَ أَتَانِي بِهَا وَقَالَ يَا مُحَمَّدُ اجْعَلْهَا فِي حَلْقَةِ الدِّرْعِ وَاسْتَذْفِرْ بِهَا مَكَانَ الْمِنْطَقَةِ ثُمَّ دَعَا بِزَوْجَيْ نِعَالٍ عَرَبِيَّيْنِ جَمِيعاً أَحَدُهُمَا مَخْصُوفٌ وَالاخَرُ غَيْرُ مَخْصُوفٍ وَالْقَمِيصَيْنِ الْقَمِيصِ الَّذِي أُسْرِيَ بِهِ فِيهِ وَالْقَمِيصِ الَّذِي خَرَجَ فِيهِ يَوْمَ أُحُدٍ وَالْقَلانِسِ الثَّلاثِ قَلَنْسُوَةِ السَّفَرِ وَقَلَنْسُوَةِ الْعِيدَيْنِ وَالْجُمَعِ وَقَلَنْسُوَةٍ كَانَ يَلْبَسُهَا وَيَقْعُدُ مَعَ أَصْحَابِهِ ثُمَّ قَالَ يَا بِلالُ عَلَيَّ بِالْبَغْلَتَيْنِ الشَّهْبَاءِ وَالدُّلْدُلِ وَالنَّاقَتَيْنِ الْعَضْبَاءِ وَالْقَصْوَاءِ وَالْفَرَسَيْنِ الْجَنَاحِ كَانَتْ تُوقَفُ بِبَابِ الْمَسْجِدِ لِحَوَائِجِ رَسُولِ الله ﷺ يَبْعَثُ الرَّجُلَ فِي حَاجَتِهِ فَيَرْكَبُهُ فَيَرْكُضُهُ فِي حَاجَةِ رَسُولِ الله ﷺ وَحَيْزُومٍ وَهُوَ الَّذِي كَانَ يَقُولُ أَقْدِمْ حَيْزُومُ وَالْحِمَارِ عُفَيْرٍ فَقَالَ اقْبِضْهَا فِي حَيَاتِي فَذَكَرَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام أَنَّ أَوَّلَ شَيْءٍ مِنَ الدَّوَابِّ تُوُفِّيَ عُفَيْرٌ سَاعَةَ قُبِضَ رَسُولُ الله ﷺ قَطَعَ خِطَامَهُ ثُمَّ مَرَّ يَرْكُضُ حَتَّى أَتَى بِئْرَ بَنِي خَطْمَةَ بِقُبَا فَرَمَى بِنَفْسِهِ فِيهَا فَكَانَتْ قَبْرَهُ وَرُوِيَ أَنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام قَالَ إِنَّ ذَلِكَ الْحِمَارَ كَلَّمَ رَسُولَ الله ﷺ فَقَالَ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي إِنَّ أَبِي حَدَّثَنِي عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ كَانَ مَعَ نُوحٍ فِي السَّفِينَةِ فَقَامَ إِلَيْهِ نُوحٌ فَمَسَحَ عَلَى كَفَلِهِ ثُمَّ قَالَ يَخْرُجُ مِنْ صُلْبِ هَذَا الْحِمَارِ حِمَارٌ يَرْكَبُهُ سَيِّدُ النَّبِيِّينَ وَخَاتَمُهُمْ فَالْحَمْدُ لله الَّذِي جَعَلَنِي ذَلِكَ الْحِمَارَ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جب حضرت رسولِ خدا ﷺ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے عباس بن عبدالمطلب کے ذریعہ امیر المومنین علیہ السلام کو بلایا اور عباس سے فرمایا چچا آپ میری میراث لیں، میرا قرضہ ادا کریں اور میرے وعدے پورے کریں۔ انھوں نے کہا میں بوڑھا کثیر العیال اور قلیل المال ہوں آپ مجھ سے اتنی سخاوت کا مقابلہ کرتے ہیں یعنی آپ کا قرضہ کیسے ادا کر سکتا ہوں اور آپ کے وعدے کیسے پورے کر سکتا ہوں پھر فرمایا یہ چیزیں اسے دوں گا جو ان کا حقدار ہو گا۔ پھر فرمایا اے علیؑ اے محمد کے بھائی تم محمد کے وعدے پورے کرو گے اس کا قرضہ ادا کرو گے اس کی میراث پر قابض ہو گے؟ آپ نے فرمایا ہاں میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یہ قرضہ میرے اوپر ہے اور یہ میراث میرے لیے ہے اس کے بعد میں حضرت کی طرف دیکھنے لگا۔ حضرت نے اپنی انگلی سے انگوٹھی اتاری اور فرمایا لو اس کو میری زندگی میں پہن لو، میں نے انگلی میں پہنتے وقت اس کو دیکھا میں نے خیال کیا کہ یہ انگوٹھی تمام ترکہ سے زیادہ قیمتی ہے۔ پھر حضرت نے بلال کو بلا کر فرمایا میرا خود، زرہ، رایت، قمیض، زوالفقار (تلوار) و عمامہ، سحاب اور چارد ابرقہ اور چھڑی لاؤ، میں نے ابرقہ کو اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا یہ ایک کپڑے کا ٹکڑہ تھا جس کی چمک سے آنکھیں چندھیا جاتی تھیں وہ جنت کے کپڑوں میں سے تھا مجھ سے حضرت نے فرمایا یا علی یہ جبرئیل میرے پاس لائے تھے اور مجھ سے کہا اس کو اپنی زرہ کے حلقوں پر رکھ کر کمر سے باندھو۔ پھر آپ نے اپنے عربی جوتے کا جوڑا منگوایا ایک ان میں پیونددار تھا اور دوسرا بے پیوند، اور دو قمیضیں منگائیں ایک وہ جو شب معراج پہنے ہوئے تھے اور دوسری وہ جو جنگ احد میں پہنے ہوئے تھے اور تین ٹوپیاں منگائیں ایک سفر والی دوسری عیدین اور جمعہ والی اور تیسری وہ جسے پہن کر اصحاب کے درمیان بیٹھتے تھے۔ پھر فرمایا اے بلال دو خچر لاؤ ایک شہبا نامے اور دوسرے دلدل اور دو ناقے لاؤ، ناقہ غضبا اور ناقہ قصویٰ اور دونوں گھوڑے ایک جناح نامے جو مسجد کے دروازے پر کھڑا رہتا تھا تاکہ اگر کسی ضرورت سے کسی کو کہیں بھیجنا پڑے تو اس پر سوار ہو کر چلا جائے، دوسرے حیزم نامے تھا، یہ وہ تھا جس سے حضرت فرمایا کرتے تھے کہ آگے بڑھ اے حیزم اور عفیر نامے گدھا تھا جب رسول کا انتقال ہوا تو اس نے اپنی رسی توڑی اور وہاں سے بھاگ کر قبا میں بنی خطمہ کے کنویں پر آیا اور اپنے کو اس میں ڈال دیا، وہیں اس کی قبر بنی، امیر المومنین سے مروی ہے کہ اس گدھے نے حضرت رسولِ خدا سے کہا تھا کہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں میرے باپ نے اپنے باپ سے اور اس نے اپنے دادا سے اور اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ نوح علیہ السلام کی کشتی میں ایک گدھا تھا ، نوح اس کے پاس آئے اور اسکے پٹھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا اس گدھے کی نسل سے ایک گدھا پیدا ہو گا جس پر سید النبین اور خاتم المرسلین سواری کریں گے پس شکر ہے اس خدا کے لیے جس نے اس گدھے کو مجھے بنایا۔