مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ حُمَيْدٍ وَجَابِرٍ الْعَبْدِيِّ قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام إِنَّ الله جَعَلَنِي إِمَاماً لِخَلْقِهِ فَفَرَضَ عَلَيَّ التَّقْدِيرَ فِي نَفْسِي وَمَطْعَمِي وَمَشْرَبِي وَمَلْبَسِي كَضُعَفَاءِ النَّاسِ كَيْ يَقْتَدِيَ الْفَقِيرُ بِفَقْرِي وَلا يُطْغِيَ الْغَنِيَّ غِنَاهُ۔
فرمایا امیر المومنین علیہ السلام نے خدا نے مجھے خلق کا امام بنایا ہے پس میرے لیے ایک مقدار معین کر دی ہے کھانے پینے اور پہننے کی۔ ضعیف اور کمزور آدمیوں کی طرح تاکہ فقیر میرے فقر کی پیروی کرے اور غنی اس سے سرکشی نہ کرے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عُثْمَانَ عَنِ الْمُعَلَّى بْنِ خُنَيْسٍ قَالَ قُلْتُ لابِي عَبْدِ الله علیہ السلام يَوْماً جُعِلْتُ فِدَاكَ ذَكَرْتُ آلَ فُلانٍ وَمَا هُمْ فِيهِ مِنَ النَّعِيمِ فَقُلْتُ لَوْ كَانَ هَذَا إِلَيْكُمْ لَعِشْنَا مَعَكُمْ فَقَالَ هَيْهَاتَ يَا مُعَلَّى أَمَا وَالله أَنْ لَوْ كَانَ ذَاكَ مَا كَانَ إِلا سِيَاسَةَ اللَّيْلِ وَسِيَاحَةَ النَّهَارِ وَلُبْسَ الْخَشِنِ وَأَكْلَ الْجَشِبِ فَزُوِيَ ذَلِكَ عَنَّا فَهَلْ رَأَيْتَ ظُلامَةً قَطُّ صَيَّرَهَا الله تَعَالَى نِعْمَةً إِلا هَذِهِ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک دن کہا کہ مجھے ایک دن خیال آیا بنی عباس کی حکومت و دولت و عیش و عشرت کا۔ میں نے دل میں کہا اگر یہ حکومت آپ کے لیے ہوتی تو ہم بھی عیش سے زندگی بسر کرتے۔ حضرت نے فرمایا وائے ہو تم پر اے معلیٰ اگر ایسا ہوتا تو ہم راتوں کو عبادت کرتے اور دنوں میں لوگوں کی خبر گیری کا کام انجام دیتے موٹا کپڑا پہنتے گھٹیا قسم کا کھانا کھاتے خدا نے ہمیں اس دولت سے دور رکھا یہ ظلم نعمت بن گیا ہے ہمارے لیے (اس نعمت والے اپنے ظلم کے باعث عذاب الہٰی میں گرفتار ہوں گے)۔
عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي حَمَّادٍ وَعِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ وَغَيْرُهُمَا بِأَسَانِيدَ مُخْتَلِفَةٍ فِي احْتِجَاجِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام عَلَى عَاصِمِ بْنِ زِيَادٍ حِينَ لَبِسَ الْعَبَاءَ وَتَرَكَ الْمُلاءَ وَشَكَاهُ أَخُوهُ الرَّبِيعُ بْنُ زِيَادٍ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام أَنَّهُ قَدْ غَمَّ أَهْلَهُ وَأَحْزَنَ وُلْدَهُ بِذَلِكَ فَقَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام عَلَيَّ بِعَاصِمِ بْنِ زِيَادٍ فَجِيءَ بِهِ فَلَمَّا رَآهُ عَبَسَ فِي وَجْهِهِ فَقَالَ لَهُ أَ مَا اسْتَحْيَيْتَ مِنْ أَهْلِكَ أَ مَا رَحِمْتَ وُلْدَكَ أَ تَرَى الله أَحَلَّ لَكَ الطَّيِّبَاتِ وَهُوَ يَكْرَهُ أَخْذَكَ مِنْهَا أَنْتَ أَهْوَنُ عَلَى الله مِنْ ذَلِكَ أَ وَلَيْسَ الله يَقُولُ وَالارْضَ وَضَعَها لِلانامِ. فِيها فاكِهَةٌ وَالنَّخْلُ ذاتُ الاكْمامِ أَ وَلَيْسَ الله يَقُولُ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيانِ. بَيْنَهُما بَرْزَخٌ لا يَبْغِيانِ إِلَى قَوْلِهِ يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجانُ فَبِالله لابْتِذَالُ نِعَمِ الله بِالْفَعَالِ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنِ ابْتِذَالِهَا بِالْمَقَالِ وَقَدْ قَالَ الله عَزَّ وَجَلَّ وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ فَقَالَ عَاصِمٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَعَلَى مَا اقْتَصَرْتَ فِي مَطْعَمِكَ عَلَى الْجُشُوبَةِ وَفِي مَلْبَسِكَ عَلَى الْخُشُونَةِ فَقَالَ وَيْحَكَ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ فَرَضَ عَلَى أَئِمَّةِ الْعَدْلِ أَنْ يُقَدِّرُوا أَنْفُسَهُمْ بِضَعَفَةِ النَّاسِ كَيْلا يَتَبَيَّغَ بِالْفَقِيرِ فَقْرُهُ فَأَلْقَى عَاصِمُ بْنُ زِيَادٍ الْعَبَاءَ وَلَبِسَ الْمُلاءَ۔
عاصم ابن زیاد کے متعلق اس کے بھائی ربیع بن زیاد نے امیر المومنین سے یہ شکایت کی کہ اس نے موٹے کپڑے کا لباس پہنا ہے اور نرم کپڑا پہننا ترک کر دیا ہے اس کے بال بچے اور اس کا باپ تارک دنیا ہونے کی بنا پر سخت پریشان ہے۔ حضرت نے فرمایا عاصم کو میرے پاس لاؤ۔ جب وہ آیا تو آپ کے چہرے پر آثار غضب نمایاں ہوئے۔ حضرت نے فرمایا تجھے اپنے اہل و عیال سے شرم نہیں آتی، کیا تجھے اپنی اولاد پر رحم نہیں آتا۔ جس خدا نے پاکیزہ چیزوں کو تیرے لیے حلال کر دیا ہے کیا تو اس کے استعمال کو برا جانے گا خدا کے نزدیک تیرا یہ عمل سست و ضعیف ہے۔ اے عاصم کیا خدا یہ نہیں فرماتا اور زمین کو ہم نے لوگوں کے لیے میوے اور کھجور جن کے خوشوں پر غلاف ہوتے ہیں پیدا کیے کیا خدا یہ نہیں فرماتا کہ دو دریا ملتے ہیں اور ان کے درمیان ایک روک ہے جس سے وہ ایک دوسرے کی طرف نہیں بڑھتے تا اینکہ فرمایا ان کے اندر موتی اور مونگے نکلتے ہیں پس لوگو خدا کے لیے خدا کی نعمتوں کا عملی طور پر کام میں لانا اس سے زیادہ محبوب خدا ہے۔ صرف زبانی ذکر کرنے اور ان کے استعمال سے اجتناب کرنے سے۔ لیکن ذکر بھی کرنا چاہیے۔ جیسا کہ فرماتا ہے اپنے رب کی نعمت کا ذکر کرو۔ عاصم نے کہا اے امیر المومنین پھر آپ کیوں کمتر قسم کا لباس پہنتے ہیں۔ فرمایا وائے ہو تجھ پر خدا نے آئمہ عدل پر فرض کیا ہے کہ وہ اپنے نفسوں کو غریب لوگوں جیسا نفس بنائیں تاکہ فقیر اپنے فقر کے صدمے سے ہلاک نہ ہو۔ عاصم نے اپنی گدڑی اتار ڈالی اور نرم لباس پہن لیا۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْبَرْقِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى الْخَزَّازِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عُثْمَانَ قَالَ حَضَرْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام وَقَالَ لَهُ رَجُلٌ أَصْلَحَكَ الله ذَكَرْتَ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ علیہ السلام كَانَ يَلْبَسُ الْخَشِنَ يَلْبَسُ الْقَمِيصَ بِأَرْبَعَةِ دَرَاهِمَ وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ وَنَرَى عَلَيْكَ اللِّبَاسَ الْجَدِيدَ فَقَالَ لَهُ إِنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ علیہ السلام كَانَ يَلْبَسُ ذَلِكَ فِي زَمَانٍ لا يُنْكَرُ عَلَيْهِ وَلَوْ لَبِسَ مِثْلَ ذَلِكَ الْيَوْمَ شُهِرَ بِهِ فَخَيْرُ لِبَاسِ كُلِّ زَمَانٍ لِبَاسُ أَهْلِهِ غَيْرَ أَنَّ قَائِمَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ (عَلَيْهم السَّلام) إِذَا قَامَ لَبِسَ ثِيَابَ علي علیہ السلام وَسَارَ بِسِيرَةِ عَلِيٍّ ۔
راوی کہتا ہے میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا ایک شخص نے سوال کیا۔ حضرت علی تو بہت گھٹیا لباس پہنتے تھے یعنی چار درہم قیمت کی قمیص اور آپ قیمتی لباس پہنتے ہیں۔ فرمایا علی علیہ السلام ایسا لباس اس زمانہ میں پہنتے تھے جب وہ برا نہ سمجھا جاتا تھا کیونکہ صحیح معنی میں اسلامی حکومت تھی اگر ایسا لباس اس زمانہ میں پہنتے تو ہر طرف سے مذمت ہونے لگتی۔ جب ہمارے قائم ظہور فرمائیں گے تو حضرت علی کا سا لباس پہنے ہوں گے اور انہی کی سیرت پر عامل ہوں گے۔