مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَبِي خَالِدٍ الْكَابُلِيِّ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ وَجَدْنَا فِي كِتَابِ علي علیہ السلام إِنَّ الارْضَ لله يُورِثُها مَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ أَنَا وَأَهْلُ بَيْتِيَ الَّذِينَ أَوْرَثَنَا الله الارْضَ وَنَحْنُ الْمُتَّقُونَ وَالارْضُ كُلُّهَا لَنَا فَمَنْ أَحْيَا أَرْضاً مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَلْيَعْمُرْهَا وَلْيُؤَدِّ خَرَاجَهَا إِلَى الامَامِ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي وَلَهُ مَا أَكَلَ مِنْهَا فَإِنْ تَرَكَهَا أَوْ أَخْرَبَهَا وَأَخَذَهَا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ مِنْ بَعْدِهِ فَعَمَرَهَا وَأَحْيَاهَا فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا مِنَ الَّذِي تَرَكَهَا يُؤَدِّي خَرَاجَهَا إِلَى الامَامِ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي وَلَهُ مَا أَكَلَ مِنْهَا حَتَّى يَظْهَرَ الْقَائِمُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي بِالسَّيْفِ فَيَحْوِيَهَا وَيَمْنَعَهَا وَيُخْرِجَهُمْ مِنْهَا كَمَا حَوَاهَا رَسُولُ الله ﷺ وَمَنَعَهَا إِلا مَا كَانَ فِي أَيْدِي شِيعَتِنَا فَإِنَّهُ يُقَاطِعُهُمْ عَلَى مَا فِي أَيْدِيهِمْ وَيَتْرُكُ الارْضَ فِي أَيْدِيهِمْ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے میں نے حضرت علی علیہ السلام کی ایک تحریر میں دیکھا کہ زمین اللہ کی ہے وہ اپنے بندوں میں جسے چاہتا ہے مالک بنا دیتا ہے اور اچھا انجام متقیوں کے لیے ہے۔ مجھے اور میرے اہل بیت کو اللہ نے زمین کا مالک بنایا ہے۔ ہم متقی ہیں اور زمین سب ہمارے لیے ہے۔ مسلمانوں میں جو کوئی زمین حاصل کرے وہ اس کو آباد کرے تو اس کو چاہیے کہ میرے اہل بیت میں سے جو امام ہو اس کو خراج (ٹیکس و لگان) دے اور باقی کو خود کھائے پیئے لیکن اگر مرنے کے بعد چھوڑ جائے یا اس کو تباہ و برباد کر دے اور ایک دوسرا مسلمان اس پر قابض ہو کر از سر نور اسے آباد کرے تو وہ اس سے زیادہ مستحق ہے جس نے اسے چھوڑ دیا تھا اس مالک کو چاہیے کہ میرے اہلبیت سے جو امام ہو اسے خراج ادا کرے اور باقی وہ کھائے یہاں تک کہ قائم آل محمد جہاد باالسیف کریں اور زمین کو احاطہ کریں اور مشرکوں اور کافروں کو نکال باہر کریں جیسا کہ رسول اللہ نے جزیرۃ العرب سے نکال باہر کیا تھا البتہ جو املاک ہمارے شیعوں کے قبضہ میں ہوں گے ان کو انہیں کے قبضہ میں رکھا جائے گا۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله عَمَّنْ رَوَاهُ قَالَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا لله تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَلِرَسُولِهِ وَلَنَا فَمَنْ غَلَبَ عَلَى شَيْءٍ مِنْهَا فَلْيَتَّقِ الله وَلْيُؤَدِّ حَقَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَلْيَبَرَّ إِخْوَانَهُ فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَالله وَرَسُولُهُ وَنَحْنُ بُرَآءُ مِنْهُ۔
راوی کہتا ہے کہ امام نے فرمایا دنیا و ما فیہا اللہ کے لیے ہے اور اس کے رسول کے لیے ہے پس جو کسی حصہ زمین پر غالب ہو اس کو چاہیے کہ اللہ سے ڈرے اور اس کا حق ادا کرے اور اپنے بھائیوں کے ساتھ نیکی کرے اور جو ایسا نہیں کرے گا تو اللہ اور اس کا رسول اور ہم اس سے الگ ہیں۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ يَزِيدَ قَالَ رَأَيْتُ مِسْمَعاً بِالْمَدِينَةِ وَقَدْ كَانَ حَمَلَ إِلَى أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام تِلْكَ السَّنَةَ مَالاً فَرَدَّهُ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام فَقُلْتُ لَهُ لِمَ رَدَّ عَلَيْكَ أَبُو عَبْدِ الله الْمَالَ الَّذِي حَمَلْتَهُ إِلَيْهِ قَالَ فَقَالَ لِي إِنِّي قُلْتُ لَهُ حِينَ حَمَلْتُ إِلَيْهِ الْمَالَ إِنِّي كُنْتُ وُلِّيتُ الْبَحْرَيْنَ الْغَوْصَ فَأَصَبْتُ أَرْبَعَمِائَةِ أَلْفِ دِرْهَمٍ وَقَدْ جِئْتُكَ بِخُمُسِهَا بِثَمَانِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ وَكَرِهْتُ أَنْ أَحْبِسَهَا عَنْكَ وَأَنْ أَعْرِضَ لَهَا وَهِيَ حَقُّكَ الَّذِي جَعَلَهُ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي أَمْوَالِنَا فَقَالَ أَ وَمَا لَنَا مِنَ الارْضِ وَمَا أَخْرَجَ الله مِنْهَا إِلا الْخُمُسُ يَا أَبَا سَيَّارٍ إِنَّ الارْضَ كُلَّهَا لَنَا فَمَا أَخْرَجَ الله مِنْهَا مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ لَنَا فَقُلْتُ لَهُ وَأَنَا أَحْمِلُ إِلَيْكَ الْمَالَ كُلَّهُ فَقَالَ يَا أَبَا سَيَّارٍ قَدْ طَيَّبْنَاهُ لَكَ وَأَحْلَلْنَاكَ مِنْهُ فَضُمَّ إِلَيْكَ مَالَكَ وَكُلُّ مَا فِي أَيْدِي شِيعَتِنَا مِنَ الارْضِ فَهُمْ فِيهِ مُحَلَّلُونَ حَتَّى يَقُومَ قَائِمُنَا فَيَجْبِيَهُمْ طَسْقَ مَا كَانَ فِي أَيْدِيهِمْ وَيَتْرُكَ الارْضَ فِي أَيْدِيهِمْ وَأَمَّا مَا كَانَ فِي أَيْدِي غَيْرِهِمْ فَإِنَّ كَسْبَهُمْ مِنَ الارْضِ حَرَامٌ عَلَيْهِمْ حَتَّى يَقُومَ قَائِمُنَا فَيَأْخُذَ الارْضَ مِنْ أَيْدِيهِمْ وَيُخْرِجَهُمْ صَغَرَةً قَالَ عُمَرُ بْنُ يَزِيدَ فَقَالَ لِي أَبُو سَيَّارٍ مَا أَرَى أَحَداً مِنْ أَصْحَابِ الضِّيَاعَ وَلا مِمَّنْ يَلِي الاعْمَالَ يَأْكُلُ حَلالاً غَيْرِي إِلا مَنْ طَيَّبُوا لَهُ ذَلِكَ۔
عمر بن یزید سے مروی ہے کہ میں نے مسمع کو مدینہ میں کہتے سنا کہ میں اس سال کچھ مال امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس لے گیا۔ آپ نے اسے رد کر دیا۔ میں نے پوچھا کیوں رد کیا۔ اس نے حضرت سے کہا میں بحرین میں غوطہ خوری پر مامور ہوا اور وہاں سے میں نے چار لاکھ درہم کے موتی حاصل کیے جس کا خمس اسی ہزار درہم آپ کی خدمت میں لایا ہوں۔ؕ میں نے اس امر کو برا سمجھا کہ جو آپ کا حق ہے اسے روکوں اور روگردانی کروں جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اموال میں اس حق کو مقرر فرمایا ہے۔ آپ نے فرمایا کیا زمین اور اس کی پیداوار میں ہمارا حق بس خمس ہی ہے۔ اے ابو سیار تمام روئے زمین ہمارے لیے ہے۔ جو کچھ زمینوں میں پیدا ہو وہ سب ہمارے لیے ہے۔ میں نے کہا میں کل مال حاضر کر دوں گا۔ فرمایا اے ابو سیار ہم نے اس کو تمہارے لیے پاک قرار دیا اور حلال و جائز کیا اس کو اپنے مال میں شامل کر لو۔ ہمارے شیعوں کے پاس جو کچھ از قسم زمین ہے وہ ان کے لیے حلال ہے جب تک قائم آل محمد کا ظہور ہو وہ دشمنوں کو نکال لیں گے اور ان کو ذلت سے باہر کر دیں گے عمرو بن یزید کہتا ہے ابو سیار نے کہا میرے سوا حلال کھانے والے زمینوں کی پیداوار سے اور ان کے حاملوں میں کوئی نہیں ہاں صرف وہ لوگ جن کے لیے آئمہ نے حلال کر دیا ہو۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله الرَّازِيِّ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ قُلْتُ لَهُ أَ مَا عَلَى الامَامِ زَكَاةٌ فَقَالَ أَحَلْتَ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ أَ مَا عَلِمَتْ أَنَّ الدُّنْيَا وَالاخِرَةَ لِلامَامِ يَضَعُهَا حَيْثُ يَشَاءُ وَيَدْفَعُهَا إِلَى مَنْ يَشَاءُ جَائِزٌ لَهُ ذَلِكَ مِنَ الله إِنَّ الامَامَ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ لا يَبِيتُ لَيْلَةً أَبَداً وَلله فِي عُنُقِهِ حَقٌّ يَسْأَلُهُ عَنْهُ۔
ابو بصیر سے مروی ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کیا امام پر بھی زکوٰۃ ہے۔ فرمایا اے ابو محمد تم نے اوروں کا قیاس ہم پر کیا۔ کیا تم نہیں جانتے کہ دنیا و آخرت امام کی ہے وہ جہاں چاہتا ہے اس کو رکھتا ہے اور جس کو چاہتا ہے دے ڈالتا ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے امام کے لیے جائز ہے۔ اے ابو محمد امام نہیں گزارتا کوئی ایسی رات کہ اس کی گردن پر کوئی ایسا حق ہو جس کے متعلق اس سے سوال کیا جائے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله بْنِ أَحْمَدَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ النُّعْمَانِ عَنْ صَالِحِ بْنِ حَمْزَةَ عَنْ أَبَانِ بْنِ مُصْعَبٍ عَنْ يُونُسَ بْنِ ظَبْيَانَ أَوِ الْمُعَلَّى بْنِ خُنَيْسٍ قَالَ قُلْتُ لابِي عَبْدِ الله علیہ السلام مَا لَكُمْ مِنْ هَذِهِ الارْضِ فَتَبَسَّمَ ثُمَّ قَالَ إِنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى بَعَثَ جَبْرَئِيلَ علیہ السلام وَأَمَرَهُ أَنْ يَخْرِقَ بِإِبْهَامِهِ ثَمَانِيَةَ أَنْهَارٍ فِي الارْضِ مِنْهَا سَيْحَانُ وَجَيْحَانُ وَهُوَ نَهَرُ بَلْخَ وَالْخشوع وَهُوَ نَهَرُ الشَّاشِ وَمِهْرَانُ وَهُوَ نَهَرُ الْهِنْدِ وَنِيلُ مِصْرَ وَدِجْلَةُ وَالْفُرَاتُ فَمَا سَقَتْ أَوِ اسْتَقَتْ فَهُوَ لَنَا وَمَا كَانَ لَنَا فَهُوَ لِشِيعَتِنَا وَلَيْسَ لِعَدُوِّنَا مِنْهُ شَيْءٌ إِلا مَا غَصَبَ عَلَيْهِ وَإِنَّ وَلِيَّنَا لَفِي أَوْسَعَ فِيمَا بَيْنَ ذِهْ إِلَى ذِهْ يَعْنِي بَيْنَ السَّمَاءِ وَالارْضِ ثُمَّ تَلا هَذِهِ الايَةَ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَياةِ الدُّنْيا الْمَغْصُوبِينَ عَلَيْهَا خالِصَةً لَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ بِلا غَصْبٍ۔
راوی کہتا ہے میں نے حضرت ابو عبداللہ سے پوچھا اس زمین پر آپ کا کیا حق ہے۔ یہ سن کو حضرت مسکرائے۔ فرمایا اللہ نے جبرئیل کو اس حکم کے تعمیل کو بھیجا کہ وہ اپنے پیر کو زمین پر مار کو آٹھ نہریں بہا دیں۔ ان میں زیادہ مشہور یہ ہیں سیحاں جیحاں یہ بلخ میں ہیں خشوع یہ دریا برف پوش ہے مہران (دریائے سندھ ) گنگا جو ہندوستان میں ہے نیل مصر میں ہے اور دجلہ اور فرات اور ہر وہ جگہ جہاں سے لوگ بغیر ڈول یا رسی کے سیراب ہوتے ہیں یا ڈول اور رسی کے ذریعہ سے پس وہ پانی ہمارا ہے اور جو ہمارا ہے وہ ہمارے شیعوں کا ہے ہمارے دشمن کا اس میں کوئی حق نہیں۔ مگر غاصب بن کر ہمارا دوست مالک ہے جو اس کے اور اس کے درمیان ہے یعنی مابین زمین و آسمان پھر یہ آیت پڑھی۔ ان لوگوں سے کہہ دو جو اس دنیا میں ایمان لائے ہیں اور ان کا حق چھینا گیا ہے روز قیامت وہ سب خاص ان کا ہو گا۔
عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الرَّيَّانِ قَالَ كَتَبْتُ إِلَى الْعَسْكَرِيِّ جُعِلْتُ فِدَاكَ رُوِيَ لَنَا أَنْ لَيْسَ لِرَسُولِ الله ﷺ مِنَ الدُّنْيَا إِلا الْخُمُسُ فَجَاءَ الْجَوَابُ إِنَّ الدُّنْيَا وَمَا عَلَيْهَا لِرَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام علی نقی علیہ السلام کو لکھا ہم سے بیان کیا گیا ہے کہ دنیا میں سوائے خمس کے رسول کا اور کوئی حق نہیں حضرت امام نے جواب میں لکھا کہ اس دنیا میں جو کچھ ہے رسول اللہ کا ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ رَفَعَهُ عَنْ عَمْرِو بْنِ شِمْرٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ قَالَ رَسُولُ الله ﷺ خَلَقَ الله آدَمَ وَأَقْطَعَهُ الدُّنْيَا قَطِيعَةً فَمَا كَانَ لآِدَمَ علیہ السلام فَلِرَسُولِ الله ﷺ وَمَا كَانَ لِرَسُولِ الله فَهُوَ لِلائِمَّةِ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه ۔
فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے کہ جب خدا نے آدم کو پیدا کیا تو تمام روئے زمین کا ان کو مالک بنا دیا۔ پس جو کچھ آدم کے لیے تھا وہ سب حضرت رسول خدا ﷺ کے لیے ہے اور جو آنحضرت ﷺ کے لیے ہے وہ سب آئمہ آل محمد کے لیے ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ وَعَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ جَمِيعاً عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ حَفْصِ بْنِ الْبَخْتَرِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ إِنَّ جَبْرَئِيلَ علیہ السلام كَرَى بِرِجْلِهِ خَمْسَةَ أَنْهَارٍ وَلِسَانُ الْمَاءِ يَتْبَعُهُ الْفُرَاتَ وَدِجْلَةَ وَنِيلَ مِصْرَ وَمِهْرَانَ وَنَهْرَ بَلْخَ فَمَا سَقَتْ أَوْ سُقِيَ مِنْهَا فَلِلامَامِ وَالْبَحْرُ الْمُطِيفُ بِالدُّنْيَا لِلامَامِ. عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنِ السَّرِيِّ بْنِ الرَّبِيعِ قَالَ لَمْ يَكُنِ ابْنُ أَبِي عُمَيْرٍ يَعْدِلُ بِهِشَامِ بْنِ الْحَكَمِ شَيْئاً وَكَانَ لا يَغُبُّ إِتْيَانَهُ ثُمَّ انْقَطَعَ عَنْهُ وَخَالَفَهُ وَكَانَ سَبَبُ ذَلِكَ أَنَّ أَبَا مَالِكٍ الْحَضْرَمِيَّ كَانَ أَحَدَ رِجَالِ هِشَامٍ وَوَقَعَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ مُلاحَاةٌ فِي شَيْءٍ مِنَ الامَامَةِ قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَيْرٍ الدُّنْيَا كُلُّهَا لِلامَامِ (عَلَيْهِ السَّلام) عَلَى جِهَةِ الْمِلْكِ وَإِنَّهُ أَوْلَى بِهَا مِنَ الَّذِينَ هِيَ فِي أَيْدِيهِمْ وَقَالَ أَبُو مَالِكٍ لَيْسَ كَذَلِكَ أَمْلاكُ النَّاسِ لَهُمْ إِلا مَا حَكَمَ الله بِهِ لِلامَامِ مِنَ الْفَيْءِ وَالْخُمُسِ وَالْمَغْنَمِ فَذَلِكَ لَهُ وَذَلِكَ أَيْضاً قَدْ بَيَّنَ الله لِلامَامِ أَيْنَ يَضَعُهُ وَكَيْفَ يَصْنَعُ بِهِ فَتَرَاضَيَا بِهِشَامِ بْنِ الْحَكَمِ وَصَارَا إِلَيْهِ فَحَكَمَ هِشَامٌ لابِي مَالِكٍ عَلَى ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ فَغَضِبَ ابْنُ أَبِي عُمَيْرٍ وَهَجَرَ هِشَاماً بَعْدَ ذَلِكَ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ زمین پر جبرئیل نے پانچ دریا پیدا کیے۔ جن سے فرات و دجلہ و نیل و مہران و نہر بلخ پھوٹ نکلے۔ پس یہ سب اور جہاں سے لوگ پانی پیتے ہیں امام کے لیے ہیں اور وہ سمندر جو دنیا کو گھیرے ہوئے ہے امام کا ہے۔ سری بن ربیع سے مروی ہے کہ بن ابی عمیر ہشام بن الحکم کی برابر کسی کو نہیں جانتا تھا اور کس دن اس کے پاس آنے سے نہیں رکتا تھا۔ پھر قطع تعلق کر لیا اور اس کا مخالف ہو گیا اور اس کا سبب یہ ہوا کہ ابو مالک خضرمی ہشام کا خاص آدمی تھا اور اس کے اور ابی عمری کے درمیان امر امامت میں جھگڑا ہو گیا۔ ابن ابی عمیر کہتا تھا کہ روئے زمین کی ہر شے کا مالک امام ہےوہ ان سب سے اولیٰ ہے جو مالک زمین بنے ہوئے ہیں اور ابو مالک کہتا تھا ایسا نہیں ہے جس چیز کا جو مالک ہے وہ اسی کا ہے سوائے اس کے جس کا حکم خدا نے امام کے لیے دیا ہے۔ جیسے مال فے خمس اور غنیمت۔ یہ چیزیں بے شک امام کی ہیں اسے اختیار ہے جس طرح چاہے تصرف کرے۔ آخر دونوں اس پر راضی ہو گئے کہ ہشام سے دریافت کریں چنانچہ وہ دونوں ان کے پاس آئے۔ ہشام نے ابن مالک کے قول سے موافقت کی۔ اس پرابن ابی عمیر کو غصہ آیا اور ہشام سے اس کے بعد ملنا ترک کر دیا۔