مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

(3-104)

رعایا پر کیا حق امام واجب ہے اور امام پر رعایا کا حق

حدیث نمبر 1

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُمْهُورٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ علیہ السلام مَا حَقُّ الامَامِ عَلَى النَّاسِ قَالَ حَقُّهُ عَلَيْهِمْ أَنْ يَسْمَعُوا لَهُ وَيُطِيعُوا قُلْتُ فَمَا حَقُّهُمْ عَلَيْهِمْ قَالَ يَقْسِمَ بَيْنَهُمْ بِالسَّوِيَّةِ وَيَعْدِلَ فِي الرَّعِيَّةِ فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ فِي النَّاسِ فَلا يُبَالِي مَنْ أَخَذَ هَاهُنَا وَهَاهُنَا۔

ابو حمزہ سے مروی ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ امام کا حق لوگوں پر کیا ہے۔ فرمایا لوگ اس کا کلام سنیں اور اطاعت کریں اور رعایا کا حق امام پر یہ ہے کہ وہ مال غنیمت وغیرہ اپنی رعیت میں مساوی تقسیم کرے اور عدل کرے اور جب امام ایسا ہو تو کوئی خوف نہیں کہ کوئی یہاں جائے یا وہاں جائے مذاہب مختلفہ کی ضلالت کا کوئی اثر نہ ہو گا۔

حدیث نمبر 2

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ بَزِيعٍ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ يُونُسَ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام مِثْلَهُ إِلا أَنَّهُ قَالَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا يَعْنِي مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَخَلْفِهِ وَعَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ۔

ابو حمزہ نے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے جس میں ہے کہ چار مرتبہ آپ نے فرمایا ھکذا یعنے چاہے مخالفت سامنے سے ہو یا پیچھے سے داہنی طرف سے ہو یا بائیں طرف سے ۔

حدیث نمبر 3

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْعَطَّارُ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَنْ هَارُونَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ مَسْعَدَةَ بْنِ صَدَقَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام لا تَخْتَانُوا وُلاتَكُمْ وَلا تَغُشُّوا هُدَاتَكُمْ وَلا تَجْهَلُوا أَئِمَّتَكُمْ وَلا تَصَدَّعُوا عَنْ حَبْلِكُمْ فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَعَلَى هَذَا فَلْيَكُنْ تَأْسِيسُ أُمُورِكُمْ وَالْزَمُوا هَذِهِ الطَّرِيقَةَ فَإِنَّكُمْ لَوْ عَايَنْتُمْ مَا عَايَنَ مَنْ قَدْ مَاتَ مِنْكُمْ مِمَّنْ خَالَفَ مَا قَدْ تُدْعَوْنَ إِلَيْهِ لَبَدَرْتُمْ وَخَرَجْتُمْ وَلَسَمِعْتُمْ وَلَكِنْ مَحْجُوبٌ عَنْكُمْ مَا قَدْ عَايَنُوا وَقَرِيباً مَا يُطْرَحُ الْحِجَابُ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا اپنے والیان امر سے خیانت نہ کرو اور اپنے رہنماؤں سے ناانصافی نہ کرو اور اپنے اماموں سے جاہل نہ رہو اور اپنی رسی سے جدا نہ رہو ورنہ سست پڑ جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی تمہارے امور کی بنیاد اسی پر ہونی چاہیے اور اسی طریقہ سے قائم رہو۔ کاش تم دیکھتے اس عذاب کو جو تم میں سے ان پر مرنے والوں نے دیکھا جنھوں نے مخالفت کی اس امر کی جس کی طرف آئمہ علیہم السلام تم کو بلاتے ہیں اور البتہ منافقوں کے جہاد کی طرف نکلنے میں جلدی کرتے ہیں لیکن جو انھوں نے دیکھا وہ تمہاری نظروں سے پوشیدہ ہے اور وقت قریب ہے کہ یہ پردہ تمہاری آنکھوں نے سامنے سے ہٹ جائے۔

حدیث نمبر 4

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَمَّادٍ وَغَيْرِهِ عَنْ حَنَانِ بْنِ سَدِيرٍ الصَّيْرَفِيِّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام يَقُولُ نُعِيَتْ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ نَفْسُهُ وَهُوَ صَحِيحٌ لَيْسَ بِهِ وَجَعٌ قَالَ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الامِينُ قَالَ فَنَادَى ﷺ الصَّلاةَ جَامِعَةً وَأَمَرَ الْمُهَاجِرِينَ وَالانْصَارَ بِالسِّلاحِ وَاجْتَمَعَ النَّاسُ فَصَعِدَ النَّبِيُّ ﷺ الْمِنْبَرَ فَنَعَى إِلَيْهِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ قَالَ أُذَكِّرُ الله الْوَالِيَ مِنْ بَعْدِي عَلَى أُمَّتِي أَلا يَرْحَمَ عَلَى جَمَاعَةِ الْمُسْلِمِينَ فَأَجَلَّ كَبِيرَهُمْ وَرَحِمَ ضَعِيفَهُمْ وَوَقَّرَ عَالِمَهُمْ وَلَمْ يُضِرَّ بِهِمْ فَيُذِلَّهُمْ وَلَمْ يُفْقِرْهُمْ فَيُكْفِرَهُمْ وَلَمْ يُغْلِقْ بَابَهُ دُونَهُمْ فَيَأْكُلَ قَوِيُّهُمْ ضَعِيفَهِمْ وَلَمْ يَخْبِزْهُمْ فِي بُعُوثِهِمْ فَيَقْطَعَ نَسْلَ أُمَّتِي ثُمَّ قَالَ قَدْ بَلَّغْتُ وَنَصَحْتُ فَاشْهَدُوا وَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام هَذَا آخِرُ كَلامٍ تَكَلَّمَ بِهِ رَسُولُ الله ﷺ عَلَى مِنْبَرِهِ۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ جبرئیل نے نبی ﷺ کو خبر مرگ دی۔ درآنحالیکہ تندرست تھے اور کوئی تکلیف آپ کو نہ تھی۔ حضرت نے نماز جماعت کے لیے ندا کرائی اور مہاجرین و انصار کو حکم دیا کہ بدن پر ہتھیار سج کر آئیں (لشکر اسامہ میں شامل ہونے کے لیے) لوگ جمع ہو گئے۔ آپ منبر پر تشریف لے گئے اور اپنے مرنے کی خبر لوگوں کو سنائی۔ پھر فرمایا میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں اپنے اس والی کو جو میرے بعد ہو گا وہ کوئی کام نہ کرے بلکہ یہ کہ مسلمانوں کی جماعت پر رحم کرے ان کے بڑوں کی عزت کرے کمزروں پر رحم کرے اور ان کے عالموں کو صاحب وقار جانے۔ ان کو کوئی نقصان نہ پہنچائے جس سے وہ ذلیل ہوں اور انھیں محتاج نہ بتائے کہ وہ کافر ہو جائیں اور اپنا دروازہ ان پر بند نہ کرے۔ پس اس صورت میں قوی لوگ ضعیفوں کو کھا جائیں گے اور ان کی بنیاد نہ اکھاڑو۔ انھیں جہاد پر بھیج کر اس صورت میں میری امت کی نسل منقطع ہو جائے گی۔ پھر فرمایا میں نے تبلیغ کر دی اور سمجھا دیا۔ گواہ رہنا اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا یہ آخری کلام تھا جو رسول اللہ نے منبر پر کیا۔

حدیث نمبر 5

مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ وَغَيْرُهُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ رَجُلٍ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ قَالَ جَاءَ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام عَسَلٌ وَتِينٌ مِنْ هَمْدَانَ وَحُلْوَانَ فَأَمَرَ الْعُرَفَاءَ أَنْ يَأْتُوا بِالْيَتَامَى فَأَمْكَنَهُمْ مِنْ رُءُوسِ الازْقَاقِ يَلْعَقُونَهَا وَهُوَ يَقْسِمُهَا لِلنَّاسِ قَدَحاً قَدَحاً فَقِيلَ لَهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَا لَهُمْ يَلْعَقُونَهَا فَقَالَ إِنَّ الامَامَ أَبُو الْيَتَامَى وَإِنَّمَا أَلْعَقْتُهُمْ هَذَا بِرِعَايَةِ الابَاءِ۔

راوی کہتا ہے کہ میں امیر المومنین علیہ السلام کے پاس شہد اور انجیر ہمدان و حلوان سے آئے۔ آپ نے عرفا (وہ لوگ جنھیں شہر کے لوگوں کا پتہ رہتا ہے) کو حکم دیا کہ یتیموں کو لائیں جب وہ آئے تو آپ نے ان کو شہد کی مشکوں کے دہانوں پر بٹھا دیا تا کہ وہ شہد چاٹیں اور دوسرے لوگوں کو پیالوں میں بھر بھر کر دیا۔ لوگوں نے کہا اے امیر المومنین ان کو چاٹنے کے لیے کیوں اجازت دی۔ فرمایا امام یتیموں کا باپ ہوتا ہے یہ ان بچوں کے باپ کی رعایت سے چاٹ رہے ہیں یعنی اگر ان کے باپ کے پاس شہد آتا تو وہ اسی طرح بے تکلفی سے چاٹتے۔

حدیث نمبر 6

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْبَرْقِيِّ وَعَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ جَمِيعاً عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ الاصْبَهَانِيِّ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ الْمِنْقَرِيِّ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ أَنَا أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ وَعَلِيٌّ أَوْلَى بِهِ مِنْ بَعْدِي فَقِيلَ لَهُ مَا مَعْنَى ذَلِكَ فَقَالَ قَوْلُ النَّبِيِّ ﷺ مَنْ تَرَكَ دَيْناً أَوْ ضَيَاعاً فَعَلَيَّ وَمَنْ تَرَكَ مَالاً فَلِوَرَثَتِهِ فَالرَّجُلُ لَيْسَتْ لَهُ عَلَى نَفْسِهِ وِلايَةٌ إِذَا لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ وَلَيْسَ لَهُ عَلَى عِيَالِهِ أَمْرٌ وَلا نَهْيٌ إِذَا لَمْ يُجْرِ عَلَيْهِمُ النَّفَقَةَ وَالنَّبِيُّ وَأَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام وَمَنْ بَعْدَهُمَا أَلْزَمَهُمْ هَذَا فَمِنْ هُنَاكَ صَارُوا أَوْلَى بِهِمْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَمَا كَانَ سَبَبُ إِسْلامِ عَامَّةِ الْيَهُودِ إِلا مِنْ بَعْدِ هَذَا الْقَوْلِ مِنْ رَسُولِ الله ﷺ وَإِنَّهُمْ آمَنُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَعَلَى عِيَالاتِهِمْ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ حضرت رسول خدا نے فرمایا کہ میں ہر مومن کے نفس سے اولیٰ ہوں اور میرے بعد علی اولیٰ ہیں۔ کسی نے پوچھا اس کے کیا معنی ہیں۔ حضرت نے فرمایا رسول اللہ نے فرمایا ہے جو شخص قرضہ چھوڑ مرے یا عیال بے معاش چھوڑے تو اس کا بار میرے اوپر ہے اور جو کوئی مال چھوڑے تو اس کا مالک اس کے ورثا ہوں گے ایسا شخص جس کا مال بے سبب نہ ہونے کے اپنے اوپر قابو نہ ہو اور وہ دوسرے کا محتاج ہو اور اپنے اہل و عیال کے نفقہ کا کفیل نہ ہو تو نبی اور امیر المومنین علیہ السلام اور ان کے بعد ہونے والے امام ان کے کفیل ہوں گے اس طرح وہ لوگوں کے نفسوں سے اولیٰ ہوں گے۔ رسول کا یہی قول عام یہودیوں کے اسلام لانے کا سبب بنا وہ خود بھی ایمان لائے اور ان کے اہل و عیال بھی۔

حدیث نمبر 7

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ أَبَانِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ صَبَّاحِ بْنِ سَيَابَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ قَالَ رَسُولُ الله ﷺ أَيُّمَا مُؤْمِنٍ أَوْ مُسْلِمٍ مَاتَ وَتَرَكَ دَيْناً لَمْ يَكُنْ فِي فَسَادٍ وَلا إِسْرَافٍ فَعَلَى الامَامِ أَنْ يَقْضِيَهُ فَإِنْ لَمْ يَقْضِهِ فَعَلَيْهِ إِثْمُ ذَلِكَ إِنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَقُولُ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ وَالْمَساكِينِ الايَةَ فَهُوَ مِنَ الْغَارِمِينَ وَلَهُ سَهْمٌ عِنْدَ الامَامِ فَإِنْ حَبَسَهُ فَإِثْمُهُ عَلَيْهِ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول اللہ نے فرمایا جو کوئی مومن یا مسلم مر جائے اور وہ اپنے اوپر قرضہ چھوڑ جائے بشرطیکہ وہ قرضہ لغویات و فضول خرچی میں نہ ہوا ہو تو امام کا فرض ہے کہ اس کو ادا کرے اور اگر ادا نہ کرے گا تو اس کا گناہ اس پر ہو گا۔ خدا فرماتا ہے کہ صدقات کے مستحق فقراء و مساکین ہیں پس چونکہ وہ مومن مقروض ہے لہذا امام کے پاس اس کا حصہ ہے اس کو دینا چاہیے اور اگر اس کو روک لے گا تو گنہگار ہو گا۔

حدیث نمبر 8

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ صَالِحِ بْنِ السِّنْدِيِّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ حَنَانٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ قَالَ رَسُولُ الله ﷺ لا تَصْلُحُ الامَامَةُ إِلا لِرَجُلٍ فِيهِ ثَلاثُ خِصَالٍ وَرَعٌ يَحْجُزُهُ عَنْ مَعَاصِي الله وَحِلْمٌ يَمْلِكُ بِهِ غَضَبَهُ وَحُسْنُ الْوِلايَةِ عَلَى مَنْ يَلِي حَتَّى يَكُونَ لَهُمْ كَالْوَالِدِ الرَّحِيمِ. وَفِي رِوَايَةٍ أُخْرَى حَتَّى يَكُونَ لِلرَّعِيَّةِ كَالابِ الرَّحِيمِ۔

امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا امامت کے صلاحیت نہیں رکھتا مگر وہ شخص جس میں تین خصلتیں ہوں اول پرہیزگاری جو اسے بچائے گناہ کرنے سے دوسرے حلم جس سے وہ اپنے غصہ پر قابو پائے۔ تیسرے لوگوں پر اچھی حکومت کرے اور اپنے متعلقین سے اس طرح ملے جیسے باپ اپنی اولاد سے ملتا ہے اور دوسری روایت میں ہے کہ اس طرح برتاؤ کرے جیسے مہربان باپ اپنی رعایا سے۔