مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

(3-103)

امت کو نبی کا حکم آئمہ مسلمین سے خلوص رکھنے اور ان کی جماعت میں استقلال سے رہنے میں اور یہ کہ وہ کون ہیں

حدیث نمبر 1

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنْ أَبَانِ بْنِ عُثْمَانَ عَنِ ابْنِ أَبِي يَعْفُورٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام أَنَّ رَسُولَ الله ﷺ خَطَبَ النَّاسَ فِي مَسْجِدِ الْخَيْفِ فَقَالَ نَضَّرَ الله عَبْداً سَمِعَ مَقَالَتِي فَوَعَاهَا وَحَفِظَهَا وَبَلَّغَهَا مَنْ لَمْ يَسْمَعْهَا فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ غَيْرُ فَقِيهٍ وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ ثَلاثٌ لا يُغِلُّ عَلَيْهِنَّ قَلْبُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِخْلاصُ الْعَمَلِ لله وَالنَّصِيحَةُ لائِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَاللُّزُومُ لِجَمَاعَتِهِمْ فَإِنَّ دَعْوَتَهُمْ مُحِيطَةٌ مِنْ وَرَائِهِمْ الْمُسْلِمُونَ إِخْوَةٌ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ وَيَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ. وَرَوَاهُ أَيْضاً عَنْ حَمَّادِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أَبَانٍ عَنِ ابْنِ أَبِي يَعْفُورٍ مِثْلَهُ وَزَادَ فِيهِ وَهُمْ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ وَذَكَرَ فِي حَدِيثِهِ أَنَّهُ خَطَبَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ بِمِنًى فِي مَسْجِدِ الْخَيْفِ۔

راوی کہتا ہے میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا کہ حضرت رسول خدا نے مسجد خیف میں ایک خطبہ پڑھا اور اس میں فرمایا نعمت دے گا یا خوش رکھے گا اللہ اس بندہ کو جس نے میرے قول کو سنا اور یاد رکھا اور حفظ کر لیا اور پہنچایا اس شخص تک جس نے اس کو نہیں سنا۔ بہت سے فقہ جاننے والے ایسے ہیں جو درحقیقت فقیہہ نہیں اور بہت سے فقہ والے ایسے ہیں جو نقل کرتے ہیں ایسے لوگوں سے جو ان سے زیادہ جاننے والے ہیں یعنی آئمہ علیہم السلام تین صورتیں ہیں جن میں دل کے اندر کھوٹ نہیں پائی جاتی اور شہادت کو راہ نہیں ہوتی۔ اول اس مرد مسلم کا دل جس کا عمل خالص اللہ کے لیے ہو اور آئمہ مسلمین سے خلوص رکھتا ہو اور ان کی جماعت میں مستقلاً شامل رہے کیونکہ آئمہ مسلمین کے لیے اپنی رعایا میں انتظام معاش کرنا ہے ان کے لیے جو تابعدار ہوں اور مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ان کا خون برابر ہے اور ان میں پست درجہ کے ہیں یعنی فقراء ان کی معاش کا انتظام دوسرے مسلمان بھائیوں پر ہے ابن یعفور نے بھی ایسی ہی روایت کی ہے اور اتنا زیادہ کیا ہے کہ وہ مسلمان مددگا ہوں مخالفوں کے مقابل اور یہ کہ رسول اللہ نے یہ خطبہ حجتہ الوداع میں منیٰ کی مسجد خیف میں بیان کیا۔

حدیث نمبر 2

مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنِ الْحَكَمِ بْنِ مِسْكِينٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ قَالَ قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ اذْهَبْ بِنَا إِلَى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ فَذَهَبْتُ مَعَهُ إِلَيْهِ فَوَجَدْنَاهُ قَدْ رَكِبَ دَابَّتَهُ فَقَالَ لَهُ سُفْيَانُ يَا أَبَا عَبْدِ الله حَدِّثْنَا بِحَدِيثِ خُطْبَةِ رَسُولِ الله ﷺ فِي مَسْجِدِ الْخَيْفِ قَالَ دَعْنِي حَتَّى أَذْهَبَ فِي حَاجَتِي فَإِنِّي قَدْ رَكِبْتُ فَإِذَا جِئْتُ حَدَّثْتُكَ فَقَالَ أَسْأَلُكَ بِقَرَابَتِكَ مِنْ رَسُولِ الله ﷺ لَمَّا حَدَّثْتَنِي قَالَ فَنَزَلَ فَقَالَ لَهُ سُفْيَانُ مُرْ لِي بِدَوَاةٍ وَقِرْطَاسٍ حَتَّى أُثْبِتَهُ فَدَعَا بِهِ ثُمَّ قَالَ اكْتُبْ بِسْمِ الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ خُطْبَةُ رَسُولِ الله ﷺ فِي مَسْجِدِ الْخَيْفِ نَضَّرَ الله عَبْداً سَمِعَ مَقَالَتِي فَوَعَاهَا وَبَلَّغَهَا مَنْ لَمْ تَبْلُغْهُ يَا أَيُّهَا النَّاسُ لِيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَيْسَ بِفَقِيهٍ وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ ثَلاثٌ لا يُغِلُّ عَلَيْهِنَّ قَلْبُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِخْلاصُ الْعَمَلِ لله وَالنَّصِيحَةُ لائِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَاللُّزُومُ لِجَمَاعَتِهِمْ فَإِنَّ دَعْوَتَهُمْ مُحِيطَةٌ مِنْ وَرَائِهِمْ الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ وَهُمْ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ يَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ فَكَتَبَهُ سُفْيَانُ ثُمَّ عَرَضَهُ عَلَيْهِ وَرَكِبَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام وَجِئْتُ أَنَا وَسُفْيَانُ فَلَمَّا كُنَّا فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ قَالَ لِي كَمَا أَنْتَ حَتَّى أَنْظُرَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ فَقُلْتُ لَهُ قَدْ وَالله أَلْزَمَ أَبُو عَبْدِ الله رَقَبَتَكَ شَيْئاً لا يَذْهَبُ مِنْ رَقَبَتِكَ أَبَداً فَقَالَ وَأَيُّ شَيْ‏ءٍ ذَلِكَ فَقُلْتُ لَهُ ثَلاثٌ لا يُغِلُّ عَلَيْهِنَّ قَلْبُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِخْلاصُ الْعَمَلِ لله قَدْ عَرَفْنَاهُ وَالنَّصِيحَةُ لائِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ مَنْ هَؤُلاءِ الائِمَّةُ الَّذِينَ يَجِبُ عَلَيْنَا نَصِيحَتُهُمْ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ وَيَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ وَمَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ وَكُلُّ مَنْ لا تَجُوزُ شَهَادَتُهُ عِنْدَنَا وَلا تَجُوزُ الصَّلاةُ خَلْفَهُمْ وَقَوْلُهُ وَاللُّزُومُ لِجَمَاعَتِهِمْ فَأَيُّ الْجَمَاعَةِ مُرْجِىٌ يَقُولُ مَنْ لَمْ يُصَلِّ وَلَمْ يَصُمْ وَلَمْ يَغْتَسِلْ مِنْ جَنَابَةٍ وَهَدَمَ الْكَعْبَةَ وَنَكَحَ أُمَّهُ فَهُوَ عَلَى إِيمَانِ جَبْرَئِيلَ وَمِيكَائِيلَ أَوْ قَدَرِيٌّ يَقُولُ لا يَكُونُ مَا شَاءَ الله عَزَّ وَجَلَّ وَيَكُونُ مَا شَاءَ إِبْلِيسُ أَوْ حَرُورِيٌّ يَتَبَرَّأُ مِنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَشَهِدَ عَلَيْهِ بِالْكُفْرِ أَوْ جَهْمِيٌّ يَقُولُ إِنَّمَا هِيَ مَعْرِفَةُ الله وَحْدَهُ لَيْسَ الايمَانُ شَيْ‏ءٌ غَيْرُهَا قَالَ وَيْحَكَ وَأَيَّ شَيْ‏ءٍ يَقُولُونَ فَقُلْتُ يَقُولُونَ إِنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ علیہ السلام وَالله الامَامُ الَّذِي يَجِبُ عَلَيْنَا نَصِيحَتُهُ وَلُزُومُ جَمَاعَتِهِمْ أَهْلُ بَيْتِهِ قَالَ فَأَخَذَ الْكِتَابَ فَخَرَقَهُ ثُمَّ قَالَ لا تُخْبِرْ بِهَا أَحَداً۔

مکہ کے ایک قریشی نے سفیان ثوری سے کہا مجھے جعفر بن محمد کے پاس لے چلیے۔ سفیان کہتا ہے اسے میں حضرت کے پاس لے گیا۔ حضرت اس وقت گھوڑے پر سوار ہو چکے تھے۔ میں نے کہا اے ابو عبداللہ مجھ سے وہ حدیث بیان کیجیے جو رسول اللہ نے اپنے خطبہ میں مسجد خیف میں بیان فرمائی تھی۔ حضرت نے فرمایا اب تو میں ایک ضرورت کے لیے جا رہا ہوں جب لوٹوں گا تو تم سے بیان کر دوں گا۔ سفیان نے کہا واسطہ قرابت رسول کا آپ ابھی بیان فرما دیجیے۔ حضرت سواری سے اتر پڑے۔ سفیان نے کہا ذرا ٹھہریے تاکہ کاغذ دوات لے لیں تاکہ لکھ لیا جائے۔ جب یہ چیزیں آ گئیں تو فرمایا لکھو بسم اللہ الرحمٰں الرحیم مسجد خیف میں رسول اللہ نے اپنے خطبہ میں فرمایا بہجیت و مسرت عطا کرے گا خدا اپنے بندہ کو جو میری بات سنے اسے یاد رکھے اور محفوظ رکھے اور پہنچا دے ان لوگوں کو جن تک نہیں پہنچی۔ لوگو جو تم میں اس وقت موجود ہیں وہ ان کو پہنچا دیں جو موجود نہیں۔ آگاہ رہو کہ بہت سے عالم دین ایسے ہیں جو حقیقتاً عالم نہیں اور بہت سے علم والے ایسے ہیں جو رجوع کرتے ہیں اس شخص کی طرف جو ان سے زیادہ عالم ہے۔ تین باتیں ہیں جن سے مرد مسلم کا دل بیگانگی نہیں کرتا۔ اول خدا کی عبادت میں اخلاص عمل، دوسرے آئمہ مسلمین سے خلوق، تیسرے ان کی جماعت میں رہنا، اپنے اوپر لازم کرنا۔ کیونکہ اپنی مطیع رعایا کے لیے معاش مہیا کرنے کی ان کی ذمہ داری ہے۔ مومنین آپس میں ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہیں ان کے خون برابر ہیں وہ مددگار ہیں مخالفوں کے مقابل اور ذمہ دار ہیں اپنے سے پست درجہ والوں یعنی فقراء کے لیے کوشش کرنے کے۔ سفیان نے لکھ کر حضرت کو دکھلا بھی دیا۔ اس کے بعد حضرت سوار ہو کر تشریف لے گئے۔ راوی کہتا ہے میں اور ابو سفیان جب راستہ میں تھے تو اس نے مجھ سے کہا ذرا ٹھہرو تاکہ ہم اس حدیث پر غور کریں۔ میں نے کہا واللہ حضرت ابو عبداللہ نے تیری گردن پر ایسا بوجھ رکھ دیا ہے جس کو تو کبھی نہیں اتارسکتا۔ اس نے کہا وہ کیا۔ میں نے کہا وہی تین باتیں اللہ سے خلوص عمل، اسے تو خیر ہم جانتے ہیں، دوسرے آئمہ مسلمین سے خلوص بتا یہ کون ہیں جن سے خالص ارادت و محبت رکھنا ہم پر واجب ہے کیا ان سے مراد معاویہ و یزید و مروان ہیں۔ ان کی گواہی ہمارے نزدیک جائز نہیں۔ نہ ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔ تیسرے ان کی جماعت میں شامل رہنا۔ تو یہ کون سی جماعت ہے کیا یہ مرجیہ فرقہ کی جماعت ہے کہ جو یہ کہتے ہیں کہ جو نماز نہیں پڑھتا یا روزہ نہیں رکھتا اور غسل جنابت نہیں کرتا اور کعبہ کو ڈھائے اور اپنی ماں سے نکاح کرے تو وہ وہ ایمان میں جبرئیل و مکائیل کے برابر ہو گا یا قدریہ جماعت مراد ہے جو کہتے ہیں جو اللہ چاہتا ہے وہ نہیں ہوتا اور جو شیطان چاہتا ہے وہ ہوتا ہے یا حروری جماعت جو علی بن ابی طالب پر تبرا کرتی ہے اور ان کے کفر کی گواہی دیتی ہے یا جہنمی جماعت جو کہتی ہے کہ ایمان صرف اللہ کی معرفت کا نام ہے اس کے سوا کچھ اور نہیں۔ اس نے کہا یہ تم نے عجیب بات کہی۔ اور یہ بتاؤ شیعہ لوگ کیا کہتے ہیں۔ میں نے کہا وہ کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب ایسے امام ہیں جن سے خالص محبت رکھنا واجب ہے اور ان کی جماعت میں جو اہلبیت ہیں شامل رہنا ضروری ہے یہ سن کر اس نے اس تحریر کو مجھ سے لے لیا اور چاک کر ڈالا اور مجھ سے کہنے لگا اس کا ذکر کسی سے نہ کرنا۔

حدیث نمبر 3

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنْ أَبِي جَمِيلَةَ عَنْ مُحَمَّدٍ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ مَنْ فَارَقَ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ قِيدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الاسْلامِ مِنْ عُنُقِهِ۔

فرمایا صادق آل محمد علیہ السلام نے جس نے مسلمانوں میں ایک بالشت برابر بھی جدائی ڈالی اس نے اپنی گردن سے اسلام کی رسی نکال پھینکی۔

حدیث نمبر 4

وَبِهَذَا الاسْنَادِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ مَنْ فَارَقَ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَنَكَثَ صَفْقَةَ الامَامِ جَاءَ إِلَى الله عَزَّ وَجَلَّ أَجْذَمَ۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے جس نے جماعت مسلمین میں تفرقہ ڈالا اور امام کے معاہدہ کو توڑ دیا تو خدا کے سامنے مجذوم ہو کر آئے گا۔