مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

(3-1)

کتاب الحجۃ ۔ حجت خدا کی طرف لوگوں کا مضطر ہونا

حدیث نمبر 1

قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ الْكُلَيْنِيُّ مُصَنِّفُ هَذَا الْكِتَابِ رَحِمَهُ الله حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عُمَرَ الْفُقَيْمِيِّ عَنْ هِشَامِ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) أَنَّهُ قَالَ لِلزِّنْدِيقِ الَّذِي سَأَلَهُ مِنْ أَيْنَ أَثْبَتَّ الانْبِيَاءَ وَالرُّسُلَ قَالَ إِنَّا لَمَّا أَثْبَتْنَا أَنَّ لَنَا خَالِقاً صَانِعاً مُتَعَالِياً عَنَّا وَعَنْ جَمِيعِ مَا خَلَقَ وَكَانَ ذَلِكَ الصَّانِعُ حَكِيماً مُتَعَالِياً لَمْ يَجُزْ أَنْ يُشَاهِدَهُ خَلْقُهُ وَلا يُلامِسُوهُ فَيُبَاشِرَهُمْ وَيُبَاشِرُوهُ وَيُحَاجَّهُمْ وَيُحَاجُّوهُ ثَبَتَ أَنَّ لَهُ سُفَرَاءَ فِي خَلْقِهِ يُعَبِّرُونَ عَنْهُ إِلَى خَلْقِهِ وَعِبَادِهِ وَيَدُلُّونَهُمْ عَلَى مَصَالِحِهِمْ وَمَنَافِعِهِمْ وَمَا بِهِ بَقَاؤُهُمْ وَفِي تَرْكِهِ فَنَاؤُهُمْ فَثَبَتَ الامِرُونَ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْحَكِيمِ الْعَلِيمِ فِي خَلْقِهِ وَالْمُعَبِّرُونَ عَنْهُ جَلَّ وَعَزَّ وَهُمُ الانْبِيَاءُ (عَلَيْهم السَّلام) وَصَفْوَتُهُ مِنْ خَلْقِهِ حُكَمَاءَ مُؤَدَّبِينَ بِالْحِكْمَةِ مَبْعُوثِينَ بِهَا غَيْرَ مُشَارِكِينَ لِلنَّاسِ عَلَى مُشَارَكَتِهِمْ لَهُمْ فِي الْخَلْقِ وَالتَّرْكِيبِ فِي شَيْءٍ مِنْ أَحْوَالِهِمْ مُؤَيَّدِينَ مِنْ عِنْدِ الْحَكِيمِ الْعَلِيمِ بِالْحِكْمَةِ ثُمَّ ثَبَتَ ذَلِكَ فِي كُلِّ دَهْرٍ وَزَمَانٍ مِمَّا أَتَتْ بِهِ الرُّسُلُ وَالانْبِيَاءُ مِنَ الدَّلائِلِ وَالْبَرَاهِينِ لِكَيْلا تَخْلُوَ أَرْضُ الله مِنْ حُجَّةٍ يَكُونُ مَعَهُ عِلْمٌ يَدُلُّ عَلَى صِدْقِ مَقَالَتِهِ وَجَوَازِ عَدَالَتِهِ۔

ہشام بن الحکم سے مروی ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک زندیق نے کہا انبیاء و مرسلین کے آنے کا ثبوت کیا ہے۔ فرمایا جب ہم پر یہ ثابت ہو گیا کہ ہمارا ایک خالق ہے جو صانع عالم ہے اور ہم سےاور تمام مخلوق سے بلند و برتر ہے اور یہ صانع حکیم سب پر غالب ہے اور یہ بھی جان لیا کہ مخلوق میں سے کوئی اس کو دیکھ نہیں سکتا اور نہ اس کو چھو سکتا ہے اور نہ وہ مخلوق سے ملتا ہے اور نہ مخلوق اس سے ملتی جلتی ہے تو ثابت ہو گیا کہ اس کے کچھ پیغمبر اس کے بندوں کی طرف آئے تاکہ وہ اس کی باتیں بتائیں اور اس کے مصالح اور منافع کو سمجھائیں اور ان چیزوں کو بتائیں جن کے بجا لانے میں ان کی بقاء اور ترک میں ان کی موت ہو۔ پس ثابت ہوئے خدا کی مخلوق کو امر و نہی کرنے والے اور اس کے احکام کو بتانے والے۔ وہی لوگ انبیاء علیہم السلام ہیں جو اس کے برگزیدہ بندے صاحب حکمت اور ادب آموز ہیں اور راست گفتار اور درست کردار ہیں ان کی اس خصوصیت میں کوئی ان کا شریک نہیں باوجودیکہ وہ بلحاظ خلقت وہ لوگوں کے شریک ہیں اور وہ خدائے حکیم و علیم کی طرف سے موید بالحکمہ ہیں۔
یہ بھی ثابت ہے کہ زمانہ کے ہر حصہ میں انبیاء و مرسلین دلائل و براہین کے ساتھ آتے رہے تاکہ زمین کسی وقت حجت خدا سے خالی نہ رہے اور ہر حجت کے ساتھ علم ہوتا ہے جو دلیل ہوتا ہے ان کی راستی گفتار اور صاحبِ عدل و انصاف ہونے کی۔

حدیث نمبر 2

مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى عَنْ مَنْصُورِ بْنِ حَازِمٍ قَالَ قُلْتُ لابِي عَبْدِ الله علیہ السلام إِنَّ الله أَجَلُّ وَأَكْرَمُ مِنْ أَنْ يُعْرَفَ بِخَلْقِهِ بَلِ الْخَلْقُ يُعْرَفُونَ بِالله قَالَ صَدَقْتَ قُلْتُ إِنَّ مَنْ عَرَفَ أَنَّ لَهُ رَبّاً فَيَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَعْرِفَ أَنَّ لِذَلِكَ الرَّبِّ رِضًا وَسَخَطاً وَأَنَّهُ لا يُعْرَفُ رِضَاهُ وَسَخَطُهُ إِلا بِوَحْيٍ أَوْ رَسُولٍ فَمَنْ لَمْ يَأْتِهِ الْوَحْيُ فَقَدْ يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَطْلُبَ الرُّسُلَ فَإِذَا لَقِيَهُمْ عَرَفَ أَنَّهُمُ الْحُجَّةُ وَأَنَّ لَهُمُ الطَّاعَةَ الْمُفْتَرَضَةَ وَقُلْتُ لِلنَّاسِ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ الله ﷺ كَانَ هُوَ الْحُجَّةَ مِنَ الله عَلَى خَلْقِهِ قَالُوا بَلَى قُلْتُ فَحِينَ مَضَى رَسُولُ الله ﷺ مَنْ كَانَ الْحُجَّةَ عَلَى خَلْقِهِ فَقَالُوا الْقُرْآنُ فَنَظَرْتُ فِي الْقُرْآنِ فَإِذَا هُوَ يُخَاصِمُ بِهِ الْمُرْجِئُ وَالْقَدَرِيُّ وَالزِّنْدِيقُ الَّذِي لا يُؤْمِنُ بِهِ حَتَّى يَغْلِبَ الرِّجَالَ بِخُصُومَتِهِ فَعَرَفْتُ أَنَّ الْقُرْآنَ لا يَكُونُ حُجَّةً إِلا بِقَيِّمٍ فَمَا قَالَ فِيهِ مِنْ شَيْءٍ كَانَ حَقّاً فَقُلْتُ لَهُمْ مَنْ قَيِّمُ الْقُرْآنِ فَقَالُوا ابْنُ مَسْعُودٍ قَدْ كَانَ يَعْلَمُ وَعُمَرُ يَعْلَمُ وَحُذَيْفَةُ يَعْلَمُ قُلْتُ كُلَّهُ قَالُوا لا فَلَمْ أَجِدْ أَحَداً يُقَالُ إِنَّهُ يَعْرِفُ ذَلِكَ كُلَّهُ إِلا عَلِيّاً علیہ السلام وَإِذَا كَانَ الشَّيْءُ بَيْنَ الْقَوْمِ فَقَالَ هَذَا لا أَدْرِي وَقَالَ هَذَا لا أَدْرِي وَقَالَ هَذَا لا أَدْرِي وَقَالَ هَذَا أَنَا أَدْرِي فَأَشْهَدُ أَنَّ عَلِيّاً علیہ السلام كَانَ قَيِّمَ الْقُرْآنِ وَكَانَتْ طَاعَتُهُ مُفْتَرَضَةً وَكَانَ الْحُجَّةَ عَلَى النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ الله ﷺ وَأَنَّ مَا قَالَ فِي الْقُرْآنِ فَهُوَ حَقٌّ فَقَالَ رَحِمَكَ الله۔

منصور ابن حازم راوی ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا اللہ تعالیٰ اجل و اکرم ہے اس سے کہ مخلوق کو اپنی معرفت کرائے بلکہ مخلوق کو چاہیے کہ اللہ کی معرفت حاصل کرے۔ فرمایا ٹھیک ہے، میں نے کہا جو کوئی اتنی بات سمجھ لے کہ اس کا کوئی رب ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ بھی جانے کہ اس کے لیے رضا اور غصہ بھی ہے۔ پس اس کی رضامندی اور ناراضی کو نہیں جانا جا سکتا مگر وحی سے یا رسول اللہ سے۔ لہذا جس کے پاس وحی نہیں آتی اسے چاہیے کہ رسولوں کو تلاش کرے اور جب مل جائیں تو یہ جان لے کہ یہ لوگ حجت خدا ہیں ان کی اطاعت فرض ہے۔ لوگوں نے کہا حجت خدا تو قرآن ہے۔ میں نے کہا قرآن سے تو مرجیہ، قدریہ اور وہ زندیق جو قرآن پر ایمان نہیں رکھتے اپنے مقصد و عقیدہ کے مطابق دلیل لاتے ہیں یہاں تک کہ اپنے مقابل کو مغلوب کر لیتے ہیں۔ لہذا معلوم ہوا کہ قرآن حجت نہیں ہے مگر اپنے ایک حافظ کے ساتھ اس کے بارے میں جو کچھ بیان کرے وہ حق ہو۔ میں نے ان لوگوں سے پوچھا تمہارے نزدیک محافظِ قرآن کون ہیں۔ انھوں نے کہا ابن مسعود کہ وہ عالم ہے عمر کہ وہ عالم ہیں حذیفہ کہ وہ بھی عالم ہیں۔ میں نے کہا یہ سب قرآن کے عالم ہیں۔ انھوں نے کہا نہیں۔ میں نے کہا پھر میں کسی کو یہ کہتے ہوئے کیوں نہیں پاتا کہ پورے قرآن کا علم رکھنے والا اور کوئی نہیں، میں تو ان کے سوا ایک کو بھی نہیں پاتا، اگر قوم میں عالم قرآن ہوتا تو ایسا کیوں ہوتا۔
ایک کہے میں نہیں جانتا، دوسرا کہے میں یہ نہیں جانتا اور علیؑ کہیں میں جانتا ہوں۔ پس میں گواہی دیتا ہوں کہ علیؑ عالم و محافظ قرآن اور لوگوں پر حجت ہیں رسول کے بعد اور جو کچھ انھوں نے قرآن کے مطابق بتایا ہے وہ حق ہے۔ یہ سن کر امام علیہ السلام نے فرمایا اللہ تم پر رحم کرے۔

حدیث نمبر 3

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَعْقُوبَ قَالَ كَانَ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام جَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ مِنْهُمْ حُمْرَانُ بْنُ أَعْيَنَ وَمُحَمَّدُ بْنُ النُّعْمَانِ وَهِشَامُ بْنُ سَالِمٍ وَالطَّيَّارُ وَجَمَاعَةٌ فِيهِمْ هِشَامُ بْنُ الْحَكَمِ وَهُوَ شَابٌّ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام يَا هِشَامُ أَ لا تُخْبِرُنِي كَيْفَ صَنَعْتَ بِعَمْرِو بْنِ عُبَيْدٍ وَكَيْفَ سَأَلْتَهُ فَقَالَ هِشَامٌ يَا ابْنَ رَسُولِ الله إِنِّي أُجِلُّكَ وَأَسْتَحْيِيكَ وَلا يَعْمَلُ لِسَانِي بَيْنَ يَدَيْكَ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله إِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ فَافْعَلُوا قَالَ هِشَامٌ بَلَغَنِي مَا كَانَ فِيهِ عَمْرُو بْنُ عُبَيْدٍ وَجُلُوسُهُ فِي مَسْجِدِ الْبَصْرَةِ فَعَظُمَ ذَلِكَ عَلَيَّ فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ وَدَخَلْتُ الْبَصْرَةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَأَتَيْتُ مَسْجِدَ الْبَصْرَةِ فَإِذَا أَنَا بِحَلْقَةٍ كَبِيرَةٍ فِيهَا عَمْرُو بْنُ عُبَيْدٍ وَعَلَيْهِ شَمْلَةٌ سَوْدَاءُ مُتَّزِراً بِهَا مِنْ صُوفٍ وَشَمْلَةٌ مُرْتَدِياً بِهَا وَالنَّاسُ يَسْأَلُونَهُ فَاسْتَفْرَجْتُ النَّاسَ فَأَفْرَجُوا لِي ثُمَّ قَعَدْتُ فِي آخِرِ الْقَوْمِ عَلَى رُكْبَتَيَّ ثُمَّ قُلْتُ أَيُّهَا الْعَالِمُ إِنِّي رَجُلٌ غَرِيبٌ تَأْذَنُ لِي فِي مَسْأَلَةٍ فَقَالَ لِي نَعَمْ فَقُلْتُ لَهُ أَ لَكَ عَيْنٌ فَقَالَ يَا بُنَيَّ أَيُّ شَيْءٍ هَذَا مِنَ السُّؤَالِ وَشَيْءٌ تَرَاهُ كَيْفَ تَسْأَلُ عَنْهُ فَقُلْتُ هَكَذَا مَسْأَلَتِي فَقَالَ يَا بُنَيَّ سَلْ وَإِنْ كَانَتْ مَسْأَلَتُكَ حَمْقَاءَ قُلْتُ أَجِبْنِي فِيهَا قَالَ لِي سَلْ قُلْتُ أَ لَكَ عَيْنٌ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ فَمَا تَصْنَعُ بِهَا قَالَ أَرَى بِهَا الالْوَانَ وَالاشْخَاصَ قُلْتُ فَلَكَ أَنْفٌ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ فَمَا تَصْنَعُ بِهِ قَالَ أَشَمُّ بِهِ الرَّائِحَةَ قُلْتُ أَ لَكَ فَمٌ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ فَمَا تَصْنَعُ بِهِ قَالَ أَذُوقُ بِهِ الطَّعْمَ قُلْتُ فَلَكَ أُذُنٌ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ فَمَا تَصْنَعُ بِهَا قَالَ أَسْمَعُ بِهَا الصَّوْتَ قُلْتُ أَ لَكَ قَلْبٌ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ فَمَا تَصْنَعُ بِهِ قَالَ أُمَيِّزُ بِهِ كُلَّ مَا وَرَدَ عَلَى هَذِهِ الْجَوَارِحِ وَالْحَوَاسِّ قُلْتُ أَ وَلَيْسَ فِي هَذِهِ الْجَوَارِحِ غِنًى عَنِ الْقَلْبِ فَقَالَ لا قُلْتُ وَكَيْفَ ذَلِكَ وَهِيَ صَحِيحَةٌ سَلِيمَةٌ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنَّ الْجَوَارِحَ إِذَا شَكَّتْ فِي شَيْءٍ شَمَّتْهُ أَوْ رَأَتْهُ أَوْ ذَاقَتْهُ أَوْ سَمِعَتْهُ رَدَّتْهُ إِلَى الْقَلْبِ فَيَسْتَيْقِنُ الْيَقِينَ وَيُبْطِلُ الشَّكَّ قَالَ هِشَامٌ فَقُلْتُ لَهُ فَإِنَّمَا أَقَامَ الله الْقَلْبَ لِشَكِّ الْجَوَارِحِ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ لا بُدَّ مِنَ الْقَلْبِ وَإِلا لَمْ تَسْتَيْقِنِ الْجَوَارِحُ قَالَ نَعَمْ فَقُلْتُ لَهُ يَا أَبَا مَرْوَانَ فَالله تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَمْ يَتْرُكْ جَوَارِحَكَ حَتَّى جَعَلَ لَهَا إِمَاماً يُصَحِّحُ لَهَا الصَّحِيحَ وَيَتَيَقَّنُ بِهِ مَا شُكَّ فِيهِ وَيَتْرُكُ هَذَا الْخَلْقَ كُلَّهُمْ فِي حَيْرَتِهِمْ وَشَكِّهِمْ وَاخْتِلافِهِمْ لا يُقِيمُ لَهُمْ إِمَاماً يَرُدُّونَ إِلَيْهِ شَكَّهُمْ وَحَيْرَتَهُمْ وَيُقِيمُ لَكَ إِمَاماً لِجَوَارِحِكَ تَرُدُّ إِلَيْهِ حَيْرَتَكَ وَشَكَّكَ قَالَ فَسَكَتَ وَلَمْ يَقُلْ لِي شَيْئاً ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ فَقَالَ لِي أَنْتَ هِشَامُ بْنُ الْحَكَمِ فَقُلْتُ لا قَالَ أَ مِنْ جُلَسَائِهِ قُلْتُ لا قَالَ فَمِنْ أَيْنَ أَنْتَ قَالَ قُلْتُ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ قَالَ فَأَنْتَ إِذاً هُوَ ثُمَّ ضَمَّنِي إِلَيْهِ وَأَقْعَدَنِي فِي مَجْلِسِهِ وَزَالَ عَنْ مَجْلِسِهِ وَمَا نَطَقَ حَتَّى قُمْتُ قَالَ فَضَحِكَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام وَقَالَ يَا هِشَامُ مَنْ عَلَّمَكَ هَذَا قُلْتُ شَيْءٌ أَخَذْتُهُ مِنْكَ وَأَلَّفْتُهُ فَقَالَ هَذَا وَالله مَكْتُوبٌ فِي صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں اصحاب کی ایک جماعت حاضر تھی جن میں حُمران بن اعین و محمد بن نعمان و ہشام بن سالم اور طیار اور ہشام بن الحکم بھی تھے۔ ہشام بن الحکم ایک جوان آدمی تھے۔ حضرت ابوعبداللہ (امام) نے فرمایا اے ہشام ذرا بتاؤ تو عمرو بن عبید اور تم نے کیا گفتگو کی تھی اور کیا کیا سوال کیے تھے۔ ہشام نے کہا یابن رسول اللہ آپؑ کا احترام میری نظر میں بہت زیادہ ہے حیا مانع ہے اور آپؑ کے سامنے بولنے کی جرات نہیں ہوتی۔ حضرت نے فرمایا جو میں نے حکم دیا ہے اس کو بجا لاؤ۔ ہشام نے کہا مجھے پتہ چلا کہ عمرو بن عبید مسجد بصرہ میں وعظ کیا کرتا ہے اور یہ مجھ پر بڑا شاق گزرا۔ میں کوفہ سے چلا اور جمعہ کے روز بصرہ پہنچا۔ پھر مسجد بصرہ میں آیا۔ میں نے دیکھا ایک بہت بڑا حلقہ جماعت ہے اور عمرو بن عبید معتزلی ان میں بیٹھا ہے۔ سیاہ عمامہ باندھے ہوئے اور اونی چادر اوڑھے ہوئے۔ لوگ اس سے سوال کر رہے ہیں۔ میں لوگوں کو ہٹاتا بچاتا آگے بڑھا اور آخر حصہ میں دو زانو ہو بیٹھا۔ میں نے کہا اے عالم میں مردِ مسافر ہوں تجھ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا پوچھ۔ میں نے کہا تمہارے آنکھ ہے۔ اس نے کہا بیٹا یہ کیسا سوال ہے تم دیکھتے ہو پھر یہ سوال کرتے ہو۔ میں نے کہا میرا سوال ایسا ہی ہے۔ اس نے کہا خیر پوچھو اگرچہ یہ احمقانہ سوال ہے۔ میں نے کہا جیسا بھی ہے آپ جواب دیجیے۔ اس نے کہا بہتر، پوچھو، میں نے کہا
میں: آپ کی آنکھ ہے؟ عمرو: ہے۔
میں: اس سے آپ کیا کام لیتے ہیں؟ عمرو: رنگ اور اجسام کو دیکھتا ہوں۔
میں: آپ کے ناک بھی ہے؟ عمرو: ہے۔
میں: اس سے کیا کام لیتے ہیں؟ عمرو: خوشبو، بدبو سونگھتا ہوں۔
میں: آپ کے کان بھی ہیں؟ عمرو: ہیں۔
میں: ان سے کیا کام لیتے ہیں؟ عمرو: آواز سنتا ہوں۔
میں: آپ کی زبان ہے؟ عمرو: ہے
میں: اس سے کیا کام لیا جاتا ہے؟ عمرو: کھانے کا ذائقہ معلوم ہوتا ہے۔
میں: آپ کے دل بھی ہے؟ عمرو: ہے۔
میں : یہ کیا کام کرتا ہے؟ عمرو: جب مجھے حواس کے مدرکات میں شک واقع ہوتا ہے تو دل کی طرف رجوع کرتا ہوں جس سے یقین حاصل ہو جاتا ہے اور شک دور ہو جاتا ہے۔
میں: تو خدا نے دل کو حواس کا شک دور کرنے کے لیے بنایا ہے۔ عمرو: بے شک۔
میں: اے ابو مروان، جب خدا نے ان چند حواس کو بغیر امام نہیں چھوڑا کہ ان کا علم صحیح رہے اور یقین حاصل ہو کر شک دور ہو تو بھلا تمام بندوں کو حیرت، شک اور اختلاف کی حالت میں کیسے چھوڑ دیا اور کوئی ایسا ہادی نہ بنایا کہ ان کے شک و حیرت کو دور کرے اور ان کے اختلاف کو مٹائے۔ یہ سن کر وہ ساکت ہو گیا اور کچھ نہ کہا اور پھر میری طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا تم ہشام بن الحکم ہو، میں نے کہا نہیں، کہا ان کے مصاحبوں میں سے ہو، میں نے کہا نہیں، اس نے کہا پھر تم کہاں کے رہنے والے ہو۔ میں نے کہا کہ اہل کوفہ سے ہوں
اس نے کہا بس تم وہی ہو پھر مجھے اپنے پاس بٹھایا اور جب تک میں بیٹھا رہا خاموش رہا۔ امام یہ سن کر ہنسے اور فرمایا ، اے ہشام یہ تمہیں کس نے سکھایا، میں نے کہا یہ تو آپ ہی سے اخذ کر کے ترتیب دیا ہے۔ فرمایا یہی دلیل ابراہیم و موسیٰ کے صحیفوں میں ہے۔

حدیث نمبر 4

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَعْقُوبَ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فَوَرَدَ عَلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ فَقَالَ إِنِّي رَجُلٌ صَاحِبُ كَلامٍ وَفِقْهٍ وَفَرَائِضَ وَقَدْ جِئْتُ لِمُنَاظَرَةِ أَصْحَابِكَ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله كَلامُكَ مِنْ كَلامِ رَسُولِ الله ﷺ أَوْ مِنْ عِنْدِكَ فَقَالَ مِنْ كَلامِ رَسُولِ الله ﷺ وَمِنْ عِنْدِي فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله فَأَنْتَ إِذاً شَرِيكُ رَسُولِ الله قَالَ لا قَالَ فَسَمِعْتَ الْوَحْيَ عَنِ الله عَزَّ وَجَلَّ يُخْبِرُكَ قَالَ لا قَالَ فَتَجِبُ طَاعَتُكَ كَمَا تَجِبُ طَاعَةُ رَسُولِ الله ﷺ قَالَ لا فَالْتَفَتَ أَبُو عَبْدِ الله إِلَيَّ فَقَالَ يَا يُونُسَ بْنَ يَعْقُوبَ هَذَا قَدْ خَصَمَ نَفْسَهُ قَبْلَ أَنْ يَتَكَلَّمَ ثُمَّ قَالَ يَا يُونُسُ لَوْ كُنْتَ تُحْسِنُ الْكَلامَ كَلَّمْتَهُ قَالَ يُونُسُ فَيَا لَهَا مِنْ حَسْرَةٍ فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنِّي سَمِعْتُكَ تَنْهَى عَنِ الْكَلامِ وَتَقُولُ وَيْلٌ لاصْحَابِ الْكَلامِ يَقُولُونَ هَذَا يُنْقَادُ وَهَذَا لا يُنْقَادُ وَهَذَا يُنْسَاقُ وَهَذَا لا يُنْسَاقُ وَهَذَا نَعْقِلُهُ وَهَذَا لا نَعْقِلُهُ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام إِنَّمَا قُلْتُ فَوَيْلٌ لَهُمْ إِنْ تَرَكُوا مَا أَقُولُ وَذَهَبُوا إِلَى مَا يُرِيدُونَ ثُمَّ قَالَ لِي اخْرُجْ إِلَى الْبَابِ فَانْظُرْ مَنْ تَرَى مِنَ الْمُتَكَلِّمِينَ فَأَدْخِلْهُ قَالَ فَأَدْخَلْتُ حُمْرَانَ بْنَ أَعْيَنَ وَكَانَ يُحْسِنُ الْكَلامَ وَأَدْخَلْتُ الاحْوَلَ وَكَانَ يُحْسِنُ الْكَلامَ وَأَدْخَلْتُ هِشَامَ بْنَ سَالِمٍ وَكَانَ يُحْسِنُ الْكَلامَ وَأَدْخَلْتُ قَيْسَ بْنَ الْمَاصِرِ وَكَانَ عِنْدِي أَحْسَنَهُمْ كَلاماً وَكَانَ قَدْ تَعَلَّمَ الْكَلامَ مِنْ عَلِيِّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) فَلَمَّا اسْتَقَرَّ بِنَا الْمَجْلِسُ وَكَانَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام قَبْلَ الْحَجِّ يَسْتَقِرُّ أَيَّاماً فِي جَبَلٍ فِي طَرَفِ الْحَرَمِ فِي فَازَةٍ لَهُ مَضْرُوبَةٍ قَالَ فَأَخْرَجَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام رَأْسَهُ مِنْ فَازَتِهِ فَإِذَا هُوَ بِبَعِيرٍ يَخُبُّ فَقَالَ هِشَامٌ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ قَالَ فَظَنَنَّا أَنَّ هِشَاماً رَجُلٌ مِنْ وُلْدِ عَقِيلٍ كَانَ شَدِيدَ الْمَحَبَّةِ لَهُ قَالَ فَوَرَدَ هِشَامُ بْنُ الْحَكَمِ وَهُوَ أَوَّلُ مَا اخْتَطَّتْ لِحْيَتُهُ وَلَيْسَ فِينَا إِلا مَنْ هُوَ أَكْبَرُ سِنّاً مِنْهُ قَالَ فَوَسَّعَ لَهُ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام وَقَالَ نَاصِرُنَا بِقَلْبِهِ وَلِسَانِهِ وَيَدِهِ ثُمَّ قَالَ يَا حُمْرَانُ كَلِّمِ الرَّجُلَ فَكَلَّمَهُ فَظَهَرَ عَلَيْهِ حُمْرَانُ ثُمَّ قَالَ يَا طَاقِيُّ كَلِّمْهُ فَكَلَّمَهُ فَظَهَرَ عَلَيْهِ الاحْوَلُ ثُمَّ قَالَ يَا هِشَامَ بْنَ سَالِمٍ كَلِّمْهُ فَتَعَارَفَا ثُمَّ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام لِقَيْسٍ الْمَاصِرِ كَلِّمْهُ فَكَلَّمَهُ فَأَقْبَلَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام يَضْحَكُ مِنْ كَلامِهِمَا مِمَّا قَدْ أَصَابَ الشَّامِيَّ فَقَالَ لِلشَّامِيِّ كَلِّمْ هَذَا الْغُلامَ يَعْنِي هِشَامَ بْنَ الْحَكَمِ فَقَالَ نَعَمْ فَقَالَ لِهِشَامٍ يَا غُلامُ سَلْنِي فِي إِمَامَةِ هَذَا فَغَضِبَ هِشَامٌ حَتَّى ارْتَعَدَ ثُمَّ قَالَ لِلشَّامِيِّ يَا هَذَا أَ رَبُّكَ أَنْظَرُ لِخَلْقِهِ أَمْ خَلْقُهُ لانْفُسِهِمْ فَقَالَ الشَّامِيُّ بَلْ رَبِّي أَنْظَرُ لِخَلْقِهِ قَالَ فَفَعَلَ بِنَظَرِهِ لَهُمْ مَا ذَا قَالَ أَقَامَ لَهُمْ حُجَّةً وَدَلِيلاً كَيْلا يَتَشَتَّتُوا أَوْ يَخْتَلِفُوا يَتَأَلَّفُهُمْ وَيُقِيمُ أَوَدَهُمْ وَيُخْبِرُهُمْ بِفَرْضِ رَبِّهِمْ قَالَ فَمَنْ هُوَ قَالَ رَسُولُ الله ﷺ قَالَ هِشَامٌ فَبَعْدَ رَسُولِ الله ﷺ قَالَ الْكِتَابُ وَالسُّنَّةُ قَالَ هِشَامٌ فَهَلْ نَفَعَنَا الْيَوْمَ الْكِتَابُ وَالسُّنَّةُ فِي رَفْعِ الاخْتِلافِ عَنَّا قَالَ الشَّامِيُّ نَعَمْ قَالَ فَلِمَ اخْتَلَفْنَا أَنَا وَأَنْتَ وَصِرْتَ إِلَيْنَا مِنَ الشَّامِ فِي مُخَالَفَتِنَا إِيَّاكَ قَالَ فَسَكَتَ الشَّامِيُّ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام لِلشَّامِيِّ مَا لَكَ لا تَتَكَلَّمُ قَالَ الشَّامِيُّ إِنْ قُلْتُ لَمْ نَخْتَلِفْ كَذَبْتُ وَإِنْ قُلْتُ إِنَّ الْكِتَابَ وَالسُّنَّةَ يَرْفَعَانِ عَنَّا الاخْتِلافَ أَبْطَلْتُ لانَّهُمَا يَحْتَمِلانِ الْوُجُوهَ وَإِنْ قُلْتُ قَدِ اخْتَلَفْنَا وَكُلُّ وَاحِدٍ مِنَّا يَدَّعِي الْحَقَّ فَلَمْ يَنْفَعْنَا إِذَنِ الْكِتَابُ وَالسُّنَّةُ إِلا أَنَّ لِي عَلَيْهِ هَذِهِ الْحُجَّةَ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام سَلْهُ تَجِدْهُ مَلِيّاً فَقَالَ الشَّامِيُّ يَا هَذَا مَنْ أَنْظَرُ لِلْخَلْقِ أَ رَبُّهُمْ أَوْ أَنْفُسُهُمْ فَقَالَ هِشَامٌ رَبُّهُمْ أَنْظَرُ لَهُمْ مِنْهُمْ لانْفُسِهِمْ فَقَالَ الشَّامِيُّ فَهَلْ أَقَامَ لَهُمْ مَنْ يَجْمَعُ لَهُمْ كَلِمَتَهُمْ وَيُقِيمُ أَوَدَهُمْ وَيُخْبِرُهُمْ بِحَقِّهِمْ مِنْ بَاطِلِهِمْ قَالَ هِشَامٌ فِي وَقْتِ رَسُولِ الله ﷺ أَوِ السَّاعَةِ. قَالَ الشَّامِيُّ فِي وَقْتِ رَسُولِ الله رَسُولُ الله ﷺ وَالسَّاعَةِ مَنْ فَقَالَ هِشَامٌ هَذَا الْقَاعِدُ الَّذِي تُشَدُّ إِلَيْهِ الرِّحَالُ وَيُخْبِرُنَا بِأَخْبَارِ السَّمَاءِ وَالارْضِ وِرَاثَةً عَنْ أَبٍ عَنْ جَدٍّ قَالَ الشَّامِيُّ فَكَيْفَ لِي أَنْ أَعْلَمَ ذَلِكَ قَالَ هِشَامٌ سَلْهُ عَمَّا بَدَا لَكَ قَالَ الشَّامِيُّ قَطَعْتَ عُذْرِي فَعَلَيَّ السُّؤَالُ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام يَا شَامِيُّ أُخْبِرُكَ كَيْفَ كَانَ سَفَرُكَ وَكَيْفَ كَانَ طَرِيقُكَ كَانَ كَذَا وَكَذَا فَأَقْبَلَ الشَّامِيُّ يَقُولُ صَدَقْتَ أَسْلَمْتُ لله السَّاعَةَ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام بَلْ آمَنْتَ بِالله السَّاعَةَ إِنَّ الاسْلامَ قَبْلَ الايمَانِ وَعَلَيْهِ يَتَوَارَثُونَ وَيَتَنَاكَحُونَ وَالايمَانُ عَلَيْهِ يُثَابُونَ فَقَالَ الشَّامِيُّ صَدَقْتَ فَأَنَا السَّاعَةَ أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا الله وَأَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ الله ﷺ وَأَنَّكَ وَصِيُّ الاوْصِيَاءِ ثُمَّ الْتَفَتَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام إِلَى حُمْرَانَ فَقَالَ تُجْرِي الْكَلامَ عَلَى الاثَرِ فَتُصِيبُ وَالْتَفَتَ إِلَى هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ فَقَالَ تُرِيدُ الاثَرَ وَلا تَعْرِفُهُ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى الاحْوَلِ فَقَالَ قَيَّاسٌ رَوَّاغٌ تَكْسِرُ بَاطِلاً بِبَاطِلٍ إِلا أَنَّ بَاطِلَكَ أَظْهَرُ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى قَيْسٍ الْمَاصِرِ فَقَالَ تَتَكَلَّمُ وَأَقْرَبُ مَا تَكُونُ مِنَ الْخَبَرِ عَنْ رَسُولِ الله ﷺ أَبْعَدُ مَا تَكُونُ مِنْهُ تَمْزُجُ الْحَقَّ مَعَ الْبَاطِلِ وَقَلِيلُ الْحَقِّ يَكْفِي عَنْ كَثِيرِ الْبَاطِلِ أَنْتَ وَالاحْوَلُ قَفَّازَانِ حَاذِقَانِ قَالَ يُونُسُ فَظَنَنْتُ وَالله أَنَّهُ يَقُولُ لِهِشَامٍ قَرِيباً مِمَّا قَالَ لَهُمَا ثُمَّ قَالَ يَا هِشَامُ لا تَكَادُ تَقَعُ تَلْوِي رِجْلَيْكَ إِذَا هَمَمْتَ بِالارْضِ طِرْتَ مِثْلُكَ فَلْيُكَلِّمِ النَّاسَ فَاتَّقِ الزَّلَّةَ وَالشَّفَاعَةُ مِنْ وَرَائِهَا إِنْ شَاءَ الله۔

یونس بن یعقوب سے مروی ہے کہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں ایک روز حاضر تھا کہ ایک شامی آیا اور کہنے لگا میں شام کا رہنے والا ہوں اور علمِ کلام و فقہ کے فرائض کا عالم ہوں۔ اس لیے آیا ہوں کہ آپ کے اصحاب سے مناظرہ کروں۔
حضرت نے فرمایا، تیرا کلام رسول کے کلام سے ہوگا یا تیری طرف سے۔ اس نے کہا کچھ رسول کا کلام ہو گا اور کچھ میری طرف سے ہو گا۔
حضرت نے فرمایا تو اس صورت میں تو رسول اللہ کا شریک بن گیا۔ اس نے کہا نہیں۔ فرمایا کیا تو نے اللہ کی وحی سنی ہے جس نے تجھے خبر دی ہے۔ اس نے کہا نہیں۔ فرمایا تو کیا تیری اطاعت رسول کی اطاعت کی طرح واجب ہے، کہا نہیں۔
حضرت نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا اے یونس بن یعقوب دیکھو، اس نے مکالمہ سے پہلے ہی اپنے کو ملزم بنا لیا۔ پھر حضرت نے فرمایا کہ اگر میرے کلام کو تو نے اچھی طرح سمجھ لیا ہے تو اس سے کلام کر، پھر فرمایا اے یونس افسوس ہے اس پر کہ تو نے علم کلام کو اچھی طرح حاصل نہیں کیا۔ میں نے کہا آپ نے چونکہ کلام سے روک دیا ہے اور فرمایا ہے کہ وائے ہو اہلِ کلام پر کہ وہ کہتے ہیں کہ یہاں اخفائے دلیل ہے یہاں نہیں ہے، یہاں ظہور دلیل ہے یہاں نہیں ہے۔ یہ ہماری سمجھ میں آتا ہے یہ نہیں آتا یعنی مجادلہ اور مکابرہ کرتے ہیں اور قرآن و حدیث سے روگردانی کر کے کچھ کا کچھ کہتے ہیں۔ پس ایسے کلام سے منع کیا ہے۔ پھر حضرت نے فرمایا وائے ہو ان لوگوں پر جنھوں نے میرے قول کو ترک کیا اور دوسرے لوگوں کی باتوں کو بیان کرنے لگے۔
پھر مجھ سے فرمایا دروازہ پر جاؤ اور دیکھو متکلمین شیعہ میں سے جو نظر آئے اس کو بلا لو۔ پس میں نے بلایا حمران بن اعین کو، یہ علمِ کلام خوب جانتے تھے۔ پھر احول کو بلایا، علم کلام کے یہ بھی ماہر تھے، پھر ہشام ابن سالم کو بلایا، یہ بھی علمِ کلام سے خوب واقف تھے۔پھر ماصر آئے۔ میرے نزدیک سب سے زیادہ قابل تھے کیونکہ انھوں نے علم حضرت علی بن الحسین علیہ السلام سے حاصل کیا تھا۔
اس کے بعد ہم سب بیٹھ گئے۔ اس ضمن میں یہ بھی کہہ دوں کہ امام علیہ السلام نے قبل حج کچھ دن حرم کے پاس ایک پہاڑ کے دامن میں گزارے تھے۔ وہاں آپ کے لیے ایک چھوٹا سا خیمہ نصب کر دیا گی تھا آپ نے اس میں سے سر نکال کر دیکھا تو ایک اونٹ بلبلاتا نظر آیا۔ فرمایا خدا کی قسم یہ ہشام آ رہا ہے۔
ہم کو معلوم ہوا تھا کہ ہشام اولاد عقیل ابن ابوطالب سے ہیں اور بڑے شدید المحنت انسان ہیں۔ پس ہشام بن الحکم آ گئے وہ سبزہ آغاز تھے اور وہ ہم سے سب سے کم سن تھے۔ امام علیہ السلام نے ان کو اپنے پہلو میں جگہ دی اور فرمایا ہماری مدد کرو اپنے قلب اور زبان اور ہاتھ سے۔
فرمایا اے حمران اس شامی سے مناظرہ کرو۔ وہ اس پر غالب آ گئے۔ پھر فرمایا اے طاتی اب تم بحث کرو، وہ بھی اس پر غالب آئے۔ پھر ہشام بن سالم سے فرمایا اب تم اس کی خبر لو۔ انھوں نے دونوں سے الگ بحث کی۔ پھر امام علیہ السلام نے قیس یاصر کو حکم دیا۔ حضرت ان دونوں کے مکالمہ سے ہنسے۔شامی کو ان کے مقابل کامیابی نہ ہوئی اور اس کو اضطراب لاحق ہوا۔
شامی نے کہا اے لڑکے مجھ سے ان کی امامت میں گفتگو کرو، ہشام کو یہ سن کو غصہ آیا اور انتہائے غیظ میں تھر تھر کانپنے لگے اور فرمایا اے شخص یہ بتا تیرا رب مخلوق کی کارسازی زیادہ کر سکتا ہے یا مخلوق خود۔ شامی نے کہا اللہ ہی بہتر کارساز ہے بہ نسبت مخلوق کے۔
ہشام نے کہا خدا نے مخلوق کی بہتری کے لیے کیا کیا۔ اس نے کہا ان کے لیے دلیل و حجت کو قائم کیا تاکہ وہ متفرق نہ ہوں اور اختلاف ان میں پیدا نہ ہو اور الفت سے رہیں اور ان کی کج روی درست ہو جائے۔ ہشام نے کہا وہ کون ہے؟۔ شامی نے کہا رسول اللہ، پوچھا رسول کے بعد کہا کتاب و سنت ۔ کیا کتاب و سنت نے ہمارے اختلاف کو دور کر دیا۔ شامی نے کہا ضرور۔ ہشام نےکہا پھر تمہارے درمیان اختلاف کیوں ہے اور تم ہماری مخالفت میں شام سے کیوں آئے ہو۔ یہ سن کر وہ شامی چپ ہو گیا۔ امام نے فرمایا بولتے کیوں نہیں۔ اس نے کہا کیا بولوں اگر کہتا ہوں اختلاف نہیں تو جھوٹ ہے اور اگر یہ کہوں کہ کتاب و سنت اختلاف کو دور کرنے والے ہیں تو بھی صحیح نہیں اور اگر کہتا ہوں کہ ہم میں اختلاف ہے اور ہم میں ہر شخص اپنے حق پر ہونے کا مدعی ہے تو ایسی صورت میں کتاب و سنت نے ہمیں فائدہ کیا دیا۔ بے شک اس کی یہ حجت مجھ پر قائم ہوئی۔ حضرت نے فرمایا اے شامی اب یہی سوال تو ہشام سے کر تو اس کو پورا پائے گا۔ یہ سن کر شامی نے کہا اے ہشام یہ بتاؤ کہ خدا بندوں کا زیادہ سازگار ہے یا بندے خود اپنے لیے۔ ہشام نے کہا ان کا رب ان کے لیے ان سے زیادہ کارسازہے۔ شامی نے کہا پس اس نے کوئی ایسی چیز بندوں کے لیے کی ہے جس سے وہ ایک مرکز پر جمع ہو جائیں ان کی کجی دور ہو جائے اور ان کو اپنے حق سے آگاہی ہو۔ ہشام نے کہا رسول کے وقت میں بتاؤں یا اب؟ اس نے کہا اب کے لیے بتاؤ۔ ہشام نے کہا اب حجت خدا یہ ہیں جو تیرے سامنے بیٹھے ہیں دور دور سے لوگ آ کر انہی سے زمین و آسمان کی خبرین معلوم کرتے ہیں یہ اپنے باپ دادا کے علوم کے وارث ہیں۔ اس نے کہا میں یہ کیسے جانوں، ہشام نے کہا جو تیرا دل چاہے ان سے سوال کر لے۔ شامی نے کہا تم نے مجھے قائل کر دیا۔ اب مجھے سوال کرنا ہے۔ حضرت نے فرمایا اے شامی کیا میں تجھے تیرے سفر کے حالات بتا دوں۔ سن یہ یہ واقعات تجھے راہ میں پیش آئے۔ اس نے کہا آپ نے سچ فرمایا میں اب اللہ پر اسلام لے آیا۔ کیونکہ اسلام قبل ایمان ہے اسلام لانے کے بعد میراث ملتی ہے مناکحت صحیح ہوتی ہے اور ایمان کے بعد اعمال کا ثواب ملتا ہے۔ ہشام نے کہا آپ نے سچ فرمایا۔ پھر اس نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور آپ وصی الاوصیاء ہیں پھر حضرت نے حمران سے فرمایا، تم نے اپنے کلام کو بنا اثر جاری کیا اور اس میں اس لیے کامیاب ہوئے کہ آپ کی سند محکمات سے تھی۔ پھر احوال سے فرمایا تم نے قیاس سے کام لیا اور باطل کو باطل سے توڑا۔ لیکن تمہارا باطل زیادہ ظاہر تھا۔ پھر قیس ماصر سے فرمایا تم نے جو کچھ کہا وہ احادیث رسول سے زیادہ قریب تر تھا اور احادیثِ مخالفان سے کم یعنی تم نے ان احادیث شیعہ کو پیش کیا جن کو مخالف نہیں مانتا۔ تم نے حق و باطل کو ملا کر پیش کیا۔ حالانکہ کم حق باطل کثیر پر غالب آتا ہے اور احول کود پھاند کر کنارے پر آنے والے ہو۔ یونس نے کہا کہ میرا گمان یہ تھا کہ ہشام کے بارہ میں بھی کچھ ایسا ہی کہیں گے جیسا کہ ان دونوں کے بارہ میں کہا ہے۔ لیکن آپ نے فرمایا اے ہشام تم مخالفوں کے فریب میں کبھی نہ آؤ گے اور پائے ثبات میں تزلزل اور اضطراب نہ ہو گا۔ جب تم قصد بحث کرتے ہو تو زمین سے بلند ہو کر اس کے اطراف پر خوب نظر کر لیتے ہو۔ پس اللہ نے چاہا تو اس کے بعد ہر لغزش سے محفوظ رہو گے۔

حدیث نمبر 5

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ أَبَانٍ قَالَ أَخْبَرَنِي الاحْوَلُ أَنَّ زَيْدَ بْنَ عَلِيِّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) بَعَثَ إِلَيْهِ وَهُوَ مُسْتَخْفٍ قَالَ فَأَتَيْتُهُ فَقَالَ لِي يَا أَبَا جَعْفَرٍ مَا تَقُولُ إِنْ طَرَقَكَ طَارِقٌ مِنَّا أَ تَخْرُجُ مَعَهُ قَالَ فَقُلْتُ لَهُ إِنْ كَانَ أَبَاكَ أَوْ أَخَاكَ خَرَجْتُ مَعَهُ قَالَ فَقَالَ لِي فَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَخْرُجَ أُجَاهِدُ هَؤُلاءِ الْقَوْمَ فَاخْرُجْ مَعِي قَالَ قُلْتُ لا مَا أَفْعَلُ جُعِلْتُ فِدَاكَ قَالَ فَقَالَ لِي أَ تَرْغَبُ بِنَفْسِكَ عَنِّي قَالَ قُلْتُ لَهُ إِنَّمَا هِيَ نَفْسٌ وَاحِدَةٌ فَإِنْ كَانَ لله فِي الارْضِ حُجَّةٌ فَالْمُتَخَلِّفُ عَنْكَ نَاجٍ وَالْخَارِجُ مَعَكَ هَالِكٌ وَإِنْ لا تَكُنْ لله حُجَّةٌ فِي الارْضِ فَالْمُتَخَلِّفُ عَنْكَ وَالْخَارِجُ مَعَكَ سَوَاءٌ قَالَ فَقَالَ لِي يَا أَبَا جَعْفَرٍ كُنْتُ أَجْلِسُ مَعَ أَبِي عَلَى الْخِوَانِ فَيُلْقِمُنِي الْبَضْعَةَ السَّمِينَةَ وَيُبَرِّدُ لِيَ اللُّقْمَةَ الْحَارَّةَ حَتَّى تَبْرُدَ شَفَقَةً عَلَيَّ وَلَمْ يُشْفِقْ عَلَيَّ مِنْ حَرِّ النَّارِ إِذاً أَخْبَرَكَ بِالدِّينِ وَلَمْ يُخْبِرْنِي بِهِ فَقُلْتُ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ مِنْ شَفَقَتِهِ عَلَيْكَ مِنْ حَرِّ النَّارِ لَمْ يُخْبِرْكَ خَافَ عَلَيْكَ أَنْ لا تَقْبَلَهُ فَتَدْخُلَ النَّارَ وَأَخْبَرَنِي أَنَا فَإِنْ قَبِلْتُ نَجَوْتُ وَإِنْ لَمْ أَقْبَلْ لَمْ يُبَالِ أَنْ أَدْخُلَ النَّارَ ثُمَّ قُلْتُ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ أَنْتُمْ أَفْضَلُ أَمِ الانْبِيَاءُ قَالَ بَلِ الانْبِيَاءُ قُلْتُ يَقُولُ يَعْقُوبُ لِيُوسُفَ يَا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَى إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْداً لِمَ لَمْ يُخْبِرْهُمْ حَتَّى كَانُوا لا يَكِيدُونَهُ وَلَكِنْ كَتَمَهُمْ ذَلِكَ فَكَذَا أَبُوكَ كَتَمَكَ لانَّهُ خَافَ عَلَيْكَ قَالَ فَقَالَ أَمَا وَالله لَئِنْ قُلْتَ ذَلِكَ لَقَدْ حَدَّثَنِي صَاحِبُكَ بِالْمَدِينَةِ أَنِّي أُقْتَلُ وَأُصْلَبُ بِالْكُنَاسَةِ وَإِنَّ عِنْدَهُ لَصَحِيفَةً فِيهَا قَتْلِي وَصَلْبِي فَحَجَجْتُ فَحَدَّثْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام بِمَقَالَةِ زَيْدٍ وَمَا قُلْتُ لَهُ فَقَالَ لِي أَخَذْتَهُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ وَعَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ وَمِنْ فَوْقِ رَأْسِهِ وَمِنْ تَحْتِ قَدَمَيْهِ وَلَمْ تَتْرُكْ لَهُ مَسْلَكاً يَسْلُكُهُ۔

ابان سے مروی ہے کہ خبر دی مجھے احول نے کہ زید بن علی بن الحسین نے کسی کو ان کی تلاش میں بھیجا۔ اس زمانے میں زید چھپے ہوئے تھے پس میں ان کے پاس آیا۔ انھوں نے مجھ سے کہا اے ابو جعفر اگر ہم میں سے کوئی آنے والا تمہارے پاس آئے تو کیا تم اس کے ساتھ خروج کرو گے ۔ اس نے کہا اگر آپ کے باپ یا بھائی ہوں گے تو میں ان کے ساتھ ضرور خروج کروں گا۔ انھوں نے کہا کہ میرا ارادہ ہے کہ میں اس قوم سے جہاد کرنے نکلوں لہذا تم میرے ساتھ ہو۔ میں نے کہا میں ایسا نہ کروں گا۔ انھوں نے کہا کیا تم مجھ سے نفرت کرتے ہو۔ میں نے کہا میری ایک اکیلی جان ہے (آپ کو اس سے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے ) اگر روئے زمین پر خدا کی کوئی حجت (منصوص من اللہ امام ) ہے تو آپ سے روگردانی کرنے والا ناجی ہے اور آپ کے ساتھ نکلنے والا ہلاک ہونے والا ہے اور اگر روئے زمین پر کوئی حجت خدا نہ ہو تو آپ سے روگردانی کرنے والا اور آپ کے ساتھ خروج کرنے والا دونوں برابر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اے ابوجعفر تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب میں دسترخوان پر کھانا کھاتا تھا تو میرے پدر بزرگوار میرے منہ میں لقمے دیتے تھے اور عمدہ گوشت کی بوٹیاں مجھے کھلاتے تھے۔
اور گرم لقموں کو پھونک کر ٹھنڈا کرتے تھے تاکہ گرم نہ کھاؤں۔ یہ شفقت تھی میرے حال پر۔ تو جب کھانے کی گرمی میرے لیے برداشت نہ کرتے تھے تو کیا دوزخ میں جانا برداشت کر لیتے۔ بایں طور کہ جس امر سے تم کو آگاہ کیا مجھے اس کی خبر نہ دی۔ میں نے کہا کہ یہ بھی اسی شفقت کے لحاظ سے تھا جو ان کو آپ پر تھی اس لیے آپ کو خبر نہ دی کہ اگر آپ نے اس کی امامت کو قبول نہ کیا تو نار جہنم کا سامنا ہو گا اور مجھے اس لیے آگاہ کیا کہ اگر میں نے اس کی امامت کو قبول کر لیا تو نجات ہو جائے گی اور اگر قبول نہ کروں گا تو انھیں میرے دوزخ میں جانے کی پرواہ نہ ہو گی۔ پھر میں نے کہا یہ تو بتائیے آپ افضل ہیں یا انبیاء انھوں نے کہا انبیاء۔ میں نے کہا یعقوب نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا کہ اپنے خواب اپنے بھائیوں سے نہ بیان کرنا ورنہ کوئی چال تمہارے ساتھ چل جائیں گے۔ غرض ان کو خبر دی تاکہ مکر نہ کریں اور یہ خبر ان سے چھپائے رکھی ایسی ہی آپ کے پدر بزرگوار نے چھپایا کیونکہ انکو آپ سے خوف تھا۔ انھوں نے کہا جو کچھ تم نے کہا میں اس سے رکنے والا نہیں کیونکہ تمہارے صاحب (امام جعفر صادق) نے مدینہ میں لوگوں کو بتایا ہے کہ میں کناسہ میں قتل کیا جاؤں گا اور سولی دیا جاؤں گا ان کے پاس ایک صحیفہ ہے جس میں میرے قتل ہونے اور سولی دیے جانے کا ذکر ہے۔ اس کے بعد میں نے حج کیا اور امام علیہ السلام سے یہ حال بیان کیا۔ آپ نے فرمایا تم نے تو سامنے سے پیچھے سے دائیں بائیں اوپر نیچے ہر طرف سے ان کو گھیرا مگر وہ اپنی راہ نہ چھوڑیں گے۔