عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقَاسَانِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَسْبَاطٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا الْحَسَنِ الرِّضَا (عَلَيْهِ السَّلام) عَنِ الاسْتِطَاعَةِ فَقَالَ يَسْتَطِيعُ الْعَبْدُ بَعْدَ أَرْبَعِ خِصَالٍ أَنْ يَكُونَ مُخَلَّى السَّرْبِ صَحِيحَ الْجِسْمِ سَلِيمَ الْجَوَارِحِ لَهُ سَبَبٌ وَارِدٌ مِنَ الله قَالَ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ فَسِّرْ لِي هَذَا قَالَ أَنْ يَكُونَ الْعَبْدُ مُخَلَّى السَّرْبِ صَحِيحَ الْجِسْمِ سَلِيمَ الْجَوَارِحِ يُرِيدُ أَنْ يَزْنِيَ فَلا يَجِدُ امْرَأَةً ثُمَّ يَجِدُهَا فَإِمَّا أَنْ يَعْصِمَ نَفْسَهُ فَيَمْتَنِعَ كَمَا امْتَنَعَ يُوسُفُ (عَلَيْهِ السَّلام) أَوْ يُخَلِّيَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ إِرَادَتِهِ فَيَزْنِيَ فَيُسَمَّى زَانِياً وَلَمْ يُطِعِ الله بِإِكْرَاهٍ وَلَمْ يَعْصِهِ بِغَلَبَةٍ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام رضا علیہ السلام سے پوچھا استطاعت سے کیا مراد ہے۔ فرمایا بندہ چار خصلتوں سے مستطیع ہوتا ہے اول راہ کل مزاحمت سے خالی ہو، دوسرے اس کا بدن عیب سے خالی ہو جیسے بیماری کی حالت میں آدمی پورا کام نہیں کر سکتا، تیسرے اسباب و آلات میں کمی نہ ہو (جیسے مال وغیرہ کا کم ہونا) چوتھے مشیت الہٰی کا اس سے تعلق ہونا۔
راوی نے کہا میں آپ پر فدا ہوں اس کی توضیح کیجیے۔ فرمایا اگر کوئی بندہ بغیر مزاحمت کے ہو، صحیح الجسم ہو اور اعضاء درست ہوں اور وہ زنا کا ارادہ کرے مگر عورت نہ ملے پھر اگر مل جائے تو اس کا نفس اپنے کو بچانے کی طرف متوجہ ہو پس وہ رک جائے جیسے یوسفؑ رک گئے تھے یا اس کے اور اس کے ارادہ کے درمیان خلل پیدا ہو جائے یعنی توفیق الہٰی اور مشیت ایزدی اس کے ساتھ نہ ہو اور زنا کرے تو اس کو زانی کہا جائیگا۔ درصورت اپنے کو بچانے کے لیے اس نے اطاعتِ خدا پر مجبور ہو کر نہیں کی اور در صورت معصیت اس نے خدا پر غلبہ نہیں پا لیا۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى وَعَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ جَمِيعاً عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ وَعَبْدِ الله بْنِ يَزِيدَ جَمِيعاً عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) عَنِ الاسْتِطَاعَةِ فَقَالَ أَ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَعْمَلَ مَا لَمْ يُكَوَّنْ قَالَ لا قَالَ فَتَسْتَطِيعُ أَنْ تَنْتَهِيَ عَمَّا قَدْ كُوِّنَ قَالَ لا قَالَ فَقَالَ لَهُ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) فَمَتَى أَنْتَ مُسْتَطِيعٌ قَالَ لا أَدْرِي قَالَ فَقَالَ لَهُ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) إِنَّ الله خَلَقَ خَلْقاً فَجَعَلَ فِيهِمْ آلَةَ الاسْتِطَاعَةِ ثُمَّ لَمْ يُفَوِّضْ إِلَيْهِمْ فَهُمْ مُسْتَطِيعُونَ لِلْفِعْلِ وَقْتَ الْفِعْلِ مَعَ الْفِعْلِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ الْفِعْلَ فَإِذَا لَمْ يَفْعَلُوهُ فِي مُلْكِهِ لَمْ يَكُونُوا مُسْتَطِيعِينَ أَنْ يَفْعَلُوا فِعْلاً لَمْ يَفْعَلُوهُ لانَّ الله عَزَّ وَجَلَّ أَعَزُّ مِنْ أَنْ يُضَادَّهُ فِي مُلْكِهِ أَحَدٌ قَالَ الْبَصْرِيُّ فَالنَّاسُ مَجْبُورُونَ قَالَ لَوْ كَانُوا مَجْبُورِينَ كَانُوا مَعْذُورِينَ قَالَ فَفَوَّضَ إِلَيْهِمْ قَالَ لا قَالَ فَمَا هُمْ قَالَ عَلِمَ مِنْهُمْ فِعْلاً فَجَعَلَ فِيهِمْ آلَةَ الْفِعْلِ فَإِذَا فَعَلُوهُ كَانُوا مَعَ الْفِعْلِ مُسْتَطِيعِينَ قَالَ الْبَصْرِيُّ أَشْهَدُ أَنَّهُ الْحَقُّ وَأَنَّكُمْ أَهْلُ بَيْتِ النُّبُوَّةِ وَالرِّسَالَةِ۔
علی بن حکم اور عبداللہ بن یزید سے بصرہ کے ایک شخص نے کہا میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا کہ استطاعت سے کیا مراد ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کیا تو اس پر قدرت رکھتا ہے کہ وہ عبادت بصورت ادا بجا لائے جو زمانہ ماضی میں تجھ سے قضا ہو گئی ہے۔ اس نے کہا نہیں۔ حضرت نے فرمایا کیا تو اس پر قدرت رکھتا ہے کہ اپنے کو باز رکھے اس معصیت سے جو تو کر چکا ہے زمانہ ماضی میں اور دور کر دے زمانہ ماضی کی معصیت کو۔ اس نے کہا نہیں۔ پھر فرمایا پھر تجھے قدرت کب حاصل ہوئی اس نے کہا نہیں جانتا۔
فرمایا حضرت نے کہ خدا نے جن لوگوں کو مکلف بنایا ہے تو آلاتِ استطاعت بھی دیے ہیں تاکہ وہ فعل عمل میں لا سکے جس کا مکلف بنایا گیا ہے یہ استطاعتِ وقت فعل سے متعلق ہے نہ کہ اس کو کلی اختیار سپرد کر دیے گئے ہوں۔ پس لوگ قدرت رکھتے ہیں وقت فعل جبکہ وہ فعل عمل میں لایا جائے (نہ قبل فعل نہ بعد فعل بلکہ یہ استظاعت صرف وقوع فعل کے وقت ہے)۔
پس اگر امر مکلف بہ کو بجا نہ لائے تو وہ صاحبِ استطاعت نہ کہا جائے گا کیونکہ فعل کا اظہار نہ ہو پایا جیسا کہ موسیٰ سے خضر نے کہا ، انک لن تستطیع معی صبرا، کیونکہ صبر کا وقت وقوع فعل اظہار نہ ہوا اور اللہ تعالیٰ بلند و برتر ہے اس سے کہ ملک میں کوئی ضد بن کر رہے یعنی جس کو وہ نہ چاہے وہ امر واقع ہو اس صورت میں اس کی سلطنت ضعیف ہو جائے گی۔
بصری نے کہا کہ اس صورت میں تو لوگوں کا مجبور ہونا لازم آئے گا۔ فرمایا اگر مجبور قرار دیے گئے تو پھر وہ قابل معافی ہونے چاہیے۔ اس نے کہا اگر مجبور نہیں تو پھر تفویض ہے۔ فرمایا ایسا بھی نہیں کہ خدا اپنے اختیار کھو بیٹھا ہو۔ اس نے کہا تو لوگوں کے لیے کیا صورت ہو گی جبکہ نہ جبر ہے نہ تفویض۔ فرمایا خدا کے علم میں یہ بات تھی کی فلاں شخص عمل کرے گا لہذا خدا نے لوگوں کے لیے عمل کرنے کا سامان فراہم کر دیا۔ پس اگر انھوں نے کوئی کام کرنا چاہا تو اس کی استطاعت ان میں موجود تھی۔ بصری نے کہا کہ یہ حق ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اہلبیت نبوت و رسالت میں ہیں۔
مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الله عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ وَعَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ جَمِيعاً عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ صَالِحٍ النِّيلِيِّ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) هَلْ لِلْعِبَادِ مِنَ الاسْتِطَاعَةِ شَيْءٌ قَالَ فَقَالَ لِي إِذَا فَعَلُوا الْفِعْلَ كَانُوا مُسْتَطِيعِينَ بِالاسْتِطَاعَةِ الَّتِي جَعَلَهَا الله فِيهِمْ قَالَ قُلْتُ وَمَا هِيَ قَالَ الالَةُ مِثْلُ الزَّانِي إِذَا زَنَى كَانَ مُسْتَطِيعاً لِلزِّنَا حِينَ زَنَى وَلَوْ أَنَّهُ تَرَكَ الزِّنَا وَلَمْ يَزْنِ كَانَ مُسْتَطِيعاً لِتَرْكِهِ إِذَا تَرَكَ قَالَ ثُمَّ قَالَ لَيْسَ لَهُ مِنَ الاسْتِطَاعَةِ قَبْلَ الْفِعْلِ قَلِيلٌ وَلا كَثِيرٌ وَلَكِنْ مَعَ الْفِعْلِ وَالتَّرْكِ كَانَ مُسْتَطِيعاً قُلْتُ فَعَلَى مَا ذَا يُعَذِّبُهُ قَالَ بِالْحُجَّةِ الْبَالِغَةِ وَالالَةِ الَّتِي رَكَّبَ فِيهِمْ إِنَّ الله لَمْ يُجْبِرْ أَحَداً عَلَى مَعْصِيَتِهِ وَلا أَرَادَ إِرَادَةَ حَتْمٍ الْكُفْرَ مِنْ أَحَدٍ وَلَكِنْ حِينَ كَفَرَ كَانَ فِي إِرَادَةِ الله أَنْ يَكْفُرَ وَهُمْ فِي إِرَادَةِ الله وَفِي عِلْمِهِ أَنْ لا يَصِيرُوا إِلَى شَيْءٍ مِنَ الْخَيْرِ قُلْتُ أَرَادَ مِنْهُمْ أَنْ يَكْفُرُوا قَالَ لَيْسَ هَكَذَا أَقُولُ وَلَكِنِّي أَقُولُ عَلِمَ أَنَّهُمْ سَيَكْفُرُونَ فَأَرَادَ الْكُفْرَ لِعِلْمِهِ فِيهِمْ وَلَيْسَتْ هِيَ إِرَادَةَ حَتْمٍ إِنَّمَا هِيَ إِرَادَةُ اخْتِيَارٍ۔
صالح نیلی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کیا بندوں میں کوئی کام کرنے کی استطاعت ہے۔ فرمایا جب وہ کوئی کام کرتے ہیں تو وہ اس کے کرنے پر قدرت رکھتے ہیں اور یہ خدا کی دی ہوئی طاقت ہوتی ہے ان کے اندر۔ میں نے کہا اس کی صورت کیا ہے۔ فرمایا زنا کی طرح ہے جب کوئی زنا پر آمادہ ہو تو زنا کے وقت اس میں قدرتِ زنا ہوتی ہے اور اگر وہ زنا ترک کرے تو اس کے ترک کی بھی قدرت ہوتی ہے (لیکن نہ وہ مجبور محض ہے اور نہ بالکلیہ مختار)۔ پھر فرمایا قبل فعل کسی کو قدرت حاصل نہیں ہوتی چاہے وہ کام کم ہو یا زیادہ لیکن فعل کے فاعل یا تارک ہونے کی صورت میں استطاعت ہوتی ہے۔ کلیہ ہر حالت میں نہیں نہ قبل نہ بعد، جو کچھ ہے وہ تحت مشیت الہٰی ہے اس کے دائرہ قدرت سے باہر نہیں۔
میں نے کہا جب بندہ کو اختیارات اور قدرت ہی نہیں تو خدا ان کو عذاب کیوں دیتا ہے۔ اس لیے کہ اس نے انبیاء و مرسلین کے ذریعہ ہر نیک و بد کو سمجھا دیا ان کو گناہ اور ترک گناہ پر قدرت بھی دے دی اور معصیت پر کسی کو مجبور بھی نہیں کیا۔ خدا کے علم و ارادہ میں یہ بات آ چکی ہے کہ فلاں فلاں لوگ خیر کی طرف آنے والے نہیں۔ میں نے کہا تو خدا نے ان کے کفر کا ارادہ کیا۔ فرمایا میں تو یہ کہتا ہوں کہ یہ بات اس کے علم میں تھی فلاں لوگ کفر کریں گے تو اس نے اپنے اس علم کی وجہ سے اپنے ارادہ کو ان کے کفر سے متعلق کیا۔ لیکن یہ ارادہ حتمی نہیں بلکہ اختیاری ہے یعنی اس نے کفر کو ان پر لازم نہیں قرار دیا بلکہ کفر اختیار کرنا یا نہ کرنا لوگوں کے اختیار میں تھا پس جو بات اس کے علم میں آ چکی اسی کے مطابق اس کا ارادہ ہوا۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَنْ عُبَيْدِ بْنِ زُرَارَةَ قَالَ حَدَّثَنِي حَمْزَةُ بْنُ حُمْرَانَ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) عَنِ الاسْتِطَاعَةِ فَلَمْ يُجِبْنِي فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ دَخْلَةً أُخْرَى فَقُلْتُ أَصْلَحَكَ الله إِنَّهُ قَدْ وَقَعَ فِي قَلْبِي مِنْهَا شَيْءٌ لا يُخْرِجُهُ إِلا شَيْءٌ أَسْمَعُهُ مِنْكَ قَالَ فَإِنَّهُ لا يَضُرُّكَ مَا كَانَ فِي قَلْبِكَ قُلْتُ أَصْلَحَكَ الله إِنِّي أَقُولُ إِنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَمْ يُكَلِّفِ الْعِبَادَ مَا لا يَسْتَطِيعُونَ وَلَمْ يُكَلِّفْهُمْ إِلا مَا يُطِيقُونَ وَأَنَّهُمْ لا يَصْنَعُونَ شَيْئاً مِنْ ذَلِكَ إِلا بِإِرَادَةِ الله وَمَشِيئَتِهِ وَقَضَائِهِ وَقَدَرِهِ قَالَ فَقَالَ هَذَا دِينُ الله الَّذِي أَنَا عَلَيْهِ وَآبَائِي أَوْ كَمَا قَالَ۔
میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا استطاعت کیا ہے۔ حضرت نے جواب نہ دیا۔ میں دوسری بار پھر حاضرِ خدمت ہوا اور کہا اللہ تعالیٰ آپ کو حفظ و امان میں رکھے ، میرے دل میں ایک خیال ہے جو اس وقت دل سے دور نہ ہو گا جب تک آپ سے جواب نہ سن لوں۔ فرمایا جو وسوسہ تیرے دل میں ہے تجھے ضرر نہ پہنچائے گا۔ میں نے کہا میں کہتا ہوں کہ خدا نے اپنے بندوں کو تکلیف نہیں دی اس امر کی جس پر وہ قدرت نہیں رکھتے اور نہیں تکلیف دی مگر اسی چیز کی جس کی وہ طاقت رکھتے ہیں اور یہ کہ وہ نہیں کرتے وہی مگر وہی جو اللہ کرتا ہے ارادہ اور اس کی مشیت ہوتی ہے اور قضا و قدر ہو ۔ فرمایا یہی اللہ کا دین ہے جس پر میں بھی ہوں اور میرے آباء بھی تھے۔