عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ وَإِسْحَاقَ بْنِ مُحَمَّدٍ وَغَيْرِهِمَا رَفَعُوهُ قَالَ كَانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) جَالِساً بِالْكُوفَةِ بَعْدَ مُنْصَرَفِهِ مِنْ صِفِّينَ إِذْ أَقْبَلَ شَيْخٌ فَجَثَا بَيْنَ يَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ لَهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَخْبِرْنَا عَنْ مَسِيرِنَا إِلَى أَهْلِ الشَّامِ أَ بِقَضَاءٍ مِنَ الله وَقَدَرٍ فَقَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) أَجَلْ يَا شَيْخُ مَا عَلَوْتُمْ تَلْعَةً وَلا هَبَطْتُمْ بَطْنَ وَادٍ إِلا بِقَضَاءٍ مِنَ الله وَقَدَرٍ فَقَالَ لَهُ الشَّيْخُ عِنْدَ الله أَحْتَسِبُ عَنَائِي يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَقَالَ لَهُ مَهْ يَا شَيْخُ فَوَ الله لَقَدْ عَظَّمَ الله الاجْرَ فِي مَسِيرِكُمْ وَأَنْتُمْ سَائِرُونَ وَفِي مَقَامِكُمْ وَأَنْتُمْ مُقِيمُونَ وَفِي مُنْصَرَفِكُمْ وَأَنْتُمْ مُنْصَرِفُونَ وَلَمْ تَكُونُوا فِي شَيْءٍ مِنْ حَالاتِكُمْ مُكْرَهِينَ وَلا إِلَيْهِ مُضْطَرِّينَ فَقَالَ لَهُ الشَّيْخُ وَكَيْفَ لَمْ نَكُنْ فِي شَيْءٍ مِنْ حَالاتِنَا مُكْرَهِينَ وَلا إِلَيْهِ مُضْطَرِّينَ وَكَانَ بِالْقَضَاءِ وَالْقَدَرِ مَسِيرُنَا وَمُنْقَلَبُنَا وَمُنْصَرَفُنَا فَقَالَ لَهُ وَتَظُنُّ أَنَّهُ كَانَ قَضَاءً حَتْماً وَقَدَراً لازِماً إِنَّهُ لَوْ كَانَ كَذَلِكَ لَبَطَلَ الثَّوَابُ وَالْعِقَابُ وَالامْرُ وَالنَّهْيُ وَالزَّجْرُ مِنَ الله وَسَقَطَ مَعْنَى الْوَعْدِ وَالْوَعِيدِ فَلَمْ تَكُنْ لائِمَةٌ لِلْمُذْنِبِ وَلا مَحْمَدَةٌ لِلْمُحْسِنِ وَلَكَانَ الْمُذْنِبُ أَوْلَى بِالاحْسَانِ مِنَ الْمُحْسِنِ وَلَكَانَ الْمُحْسِنُ أَوْلَى بِالْعُقُوبَةِ مِنَ الْمُذْنِبِ تِلْكَ مَقَالَةُ إِخْوَانِ عَبَدَةِ الاوْثَانِ وَخُصَمَاءِ الرَّحْمَنِ وَحِزْبِ الشَّيْطَانِ وَقَدَرِيَّةِ هَذِهِ الامَّةِ وَمَجُوسِهَا إِنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى كَلَّفَ تَخْيِيراً وَنَهَى تَحْذِيراً وَأَعْطَى عَلَى الْقَلِيلِ كَثِيراً وَلَمْ يُعْصَ مَغْلُوباً وَلَمْ يُطَعْ مُكْرِهاً وَلَمْ يُمَلِّكْ مُفَوِّضاً وَلَمْ يَخْلُقِ السَّمَاوَاتِ وَالارْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلاً وَلَمْ يَبْعَثِ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ عَبَثاً ذَلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ فَأَنْشَأَ الشَّيْخُ يَقُولُ. أَنْتَ الامَامُ الَّذِي نَرْجُـــو بِطَاعَـــتِهِ يَـــــوْمَ النَّجَاةِ مِنَ الرَّحْمَنِ غُفْرَاناً أَوْضَحْتَ مِنْ أَمْرِنَا مَا كَانَ مُلْتَبِساً جَــــزَاكَ رَبُّكَ بِالاحْســــَانِ إِحْسَاناً۔
امیر المومنین علیہ السلام جنگ صفین میں واپسی پر ایک روز کوفہ میں بیٹھے تھے کہ ایک شیخ آپؑ کی خدمت میں آیا اور آپؑ کے سامنے بیٹھ کر کہنے لگا ، اے امیر المومنینؑ مجھے یہ بتائیے کہ اہلِ شام سے مقابلہ کے لیے ہمارا جانا آیا قضا و قدر الہٰی سے تھا۔ حضرت نے فرمایا ہاں اے شیخ، ہم نے طے نہیں کی کوئی بلندی اور نہ کوئی پستی مگر قضاء و قدرِ الہٰی سے۔ شیخ نے کہا تو اے امیر المومنین میری اس تکلیف کا خدا سے اجر ملے گا۔ فرمایا سن اے شیخ، بخدا اللہ تعالیٰ نے بڑا ثواب رکھا ہے۔ تمہارے چلنے میں جبکہ تم راہِ خدا میں جہاد کے ارادے سے چلنے والے تھے اور تمہارے قیام میں جبکہ تم دشمن کے سامنے کھڑے ہونے والے تھےاور تمہاری بازگشت میں جبکہ تم ایمان کے ساتھ لوٹنے والے تھے اور تم اپنے ان تمام حالات میں کسی وقت کراہت کرنے والے تھے اور نہ اضطراب ظاہر کرنے والے تھے تو تمہارا یہ جانا لڑنا اور لوٹنا سب قضا و قدر الہٰی سے تھا۔ شیخ نے کہا چونکہ یہ سب خدا ہی کی طرف سے تھا اور ہم اس فعل پر مجبور تھے اور فعل اختیاری نہ تھا تو ہم کیوں ہوتے ان حالات میں کسی حال میں کراہت کرنے والے اور اضطراب کرنے والے جبکہ یہ سب تحت قضا و قدر الہٰی تھا خواہ چلنا ہو یا ٹھہرنا یا واپس آنا۔ حضرت نے فرمایا تو کیا تیرا خیال یہ ہے کہ قضا کے معنے یہ ہیں کہ بندوں کو ان کے افعال پر مجبور کر دیا جائے اور قدر لازم ذاتِ باری ہو جس کا کرنا ثواب و عذاب اور امر و نہی اور خدا کی طرف سے سب عبث اور وعدہ و وعید سب ساقط اور پھر گنہگار کے لیے ملامت کیسی اور نیکی کرنے والے کے لیے تعریف کیسی بلکہ گنہگار نیکوکار سے زیادہ احسان کا مستحق ہو گا اور نیکوکار گنہگار سے زیادہ عذاب کا حقدار ہو گا (کیونکہ جب کوئی فعل بندوں کے اختیار میں نہیں تو بد سے بد کرانے والا خدا ہوا لہذا اس بدی میں جو تکالیف دنیا میں اسے پہنچیں آخرت میں اس کا اچھا بدلہ ملنا چاہیے اسی طرح نیکوکاروں کو سزا ملنی چاہیے۔ یعنی جبر کا قائل ہونا برادران مفوضہ کا عقیدہ ہے اور یہ مفوضہ بت پرست ہیں اور دشمنانِ خدا ہیں اور شیطان گروہ ہیں اور قدریہ اس امت کے مجوس ہیں۔
جبریہ فرقہ کا عقیدہ یہ ہے کہ بندہ اپنے ہر فعل میں مرضیِ الہٰی سے مجبور ہے خدا جو چاہتا ہے بندہ وہی کرتا ہے مفوضہ کا عقیدہ ہے کہ خدا نے کافر سے اطاعت کو چاہا اور شیطان نے معصیت کو پس جو شیطان نے چاہا وہ ہوا اور وہ غالب رہا۔ مفوضہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ خدا چند لوگوں کے سپرد اپنا کام کر کے معطل ہو بیٹھا۔ قدریہ فرقہ ہر قسم کی قدرت و تدبیر کو اپنی طرف نسبت دیتے ہیں خدا کو کسی کام میں دخل نہیں۔ فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ قدریہ اس امت کے مجوس ہیں یہی وہ ہیں جنھوں نے عدل کے ساتھ خدا کی تعریف کا ارادہ کیا مگر اس کی سلطنت سے اس کو خارج کر دیا انہی کے بارے میں یہ آیت ہے روز قیامت ان کو جہنم کی طرف منہ کے بل کھینچا جائے گا اور کہا جائے گا جہنم کا ذائقہ چکھو ہم نے ہر شے کو صحیح انداز پر پیدا کیا ہے۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْوَشَّاءِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله قَالَ مَنْ زَعَمَ أَنَّ الله يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ فَقَدْ كَذَبَ عَلَى الله وَمَنْ زَعَمَ أَنَّ الْخَيْرَ وَالشَّرَّ إِلَيْهِ فَقَدْ كَذَبَ عَلَى الله۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے جس نے گمان کیا کہ اللہ برائیوں کا حکم دیتا ہے تو اس نے اللہ پر جھوٹ بولا اور جس نے یہ گمان کیا کہ خیر و شر خدا کی طرف سے ہے اس نے خدا پر جھوٹ بولا۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْوَشَّاءِ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ سَأَلْتُهُ فَقُلْتُ الله فَوَّضَ الامْرَ إِلَى الْعِبَادِ قَالَ الله أَعَزُّ مِنْ ذَلِكَ قُلْتُ فَجَبَرَهُمْ عَلَى الْمَعَاصِي قَالَ الله أَعْدَلُ وَأَحْكَمُ مِنْ ذَلِكَ قَالَ ثُمَّ قَالَ قَالَ الله يَا ابْنَ آدَمَ أَنَا أَوْلَى بِحَسَنَاتِكَ مِنْكَ وَأَنْتَ أَوْلَى بِسَيِّئَاتِكَ مِنِّي عَمِلْتَ الْمَعَاصِيَ بِقُوَّتِيَ الَّتِي جَعَلْتُهَا فِيكَ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام رضا علیہ السلام سے پوچھا کیا خدا نے تمام معاملات کو بندوں کے سپرد کر دیا ہے۔ فرمایا خدا کی شان اس سے بلند ہے۔ میں نے کہا تو پھر کیا اس نے بندوں کو گناہوں پر مجبور کیا ہے۔ فرمایا وہ اس سے بڑھ کر انصاف کرنے والا اور حکم کرنے والا ہے۔ پھر فرمایا خدا فرماتا ہے (حدیث قدسی) اے ابنِ آدم میں تیری نیکیوں کا تجھ سے زیادہ مستحق ہوں اور تو اپنی برائیوں کے حق کا مجھ سے زیادہ حقدار ہے کیونکہ تو نے اس قوت کی وجہ سے گناہ کیے جو میں نے تیرے اندر قرار دی ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مَرَّارٍ عَنْ يُونُسَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ قَالَ لِي أَبُو الْحَسَنِ الرِّضَا (عَلَيْهِ السَّلام) يَا يُونُسُ لا تَقُلْ بِقَوْلِ الْقَدَرِيَّةِ فَإِنَّ الْقَدَرِيَّةَ لَمْ يَقُولُوا بِقَوْلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَلا بِقَوْلِ أَهْلِ النَّارِ وَلا بِقَوْلِ إِبْلِيسَ فَإِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ قَالُوا الْحَمْدُ لله الَّذِي هَدانا لِهذا وَما كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْ لا أَنْ هَدانَا الله وَقَالَ أَهْلُ النَّارِ رَبَّنا غَلَبَتْ عَلَيْنا شِقْوَتُنا وَكُنَّا قَوْماً ضالِّينَ وَقَالَ إِبْلِيسُ رَبِّ بِما أَغْوَيْتَنِي فَقُلْتُ وَالله مَا أَقُولُ بِقَوْلِهِمْ وَلَكِنِّي أَقُولُ لا يَكُونُ إِلا بِمَا شَاءَ الله وَأَرَادَ وَقَدَّرَ وَقَضَى فَقَالَ يَا يُونُسُ لَيْسَ هَكَذَا لا يَكُونُ إِلا مَا شَاءَ الله وَأَرَادَ وَقَدَّرَ وَقَضَى يَا يُونُسُ تَعْلَمُ مَا الْمَشِيئَةُ قُلْتُ لا قَالَ هِيَ الذِّكْرُ الاوَّلُ فَتَعْلَمُ مَا الارَادَةُ قُلْتُ لا قَالَ هِيَ الْعَزِيمَةُ عَلَى مَا يَشَاءُ فَتَعْلَمُ مَا الْقَدَرُ قُلْتُ لا قَالَ هِيَ الْهَنْدَسَةُ وَوَضْعُ الْحُدُودِ مِنَ الْبَقَاءِ وَالْفَنَاءِ قَالَ ثُمَّ قَالَ وَالْقَضَاءُ هُوَ الابْرَامُ وَإِقَامَةُ الْعَيْنِ قَالَ فَاسْتَأْذَنْتُهُ أَنْ أُقَبِّلَ رَأْسَهُ وَقُلْتُ فَتَحْتَ لِي شَيْئاً كُنْتُ عَنْهُ فِي غَفْلَةٍ۔
یونس بن عبدالرحمٰن نے کہا کہ فرمایا امام رضا علیہ السلام نے، اے یونس قدریہ کا قول نہ کہو کیونکہ انھوں نے تو اہل جنت کی سی بات کہی اور نہ اہل دوزخ کی سی اور نہ ابلیس کی سی۔ اہل جنت نے کہا حمد ہے اس ذات کے لیے جس نے ہم کو اپنے دین کی طرف ہدایت کی اور اگر وہ ہم کو ہدایت نہ کرتا تو ہم ہدایت پاتے ہی نہیں اور اہل نار نے کہا اے ہمارے رب ہم پر بدبختی غالب آئی تھی اور ہم گمراہ قوم سے ہو گئے اور ابلیس نے کہا اے پالنے والے تو نے تو گمراہی میں چھوڑا ہی ہے۔ میں نے کہا میں ان کے قول کا قائل تو نہیں۔ یعنی معتزلہ کی طرح تفویض کا قائل نہیں لیکن یہ کہنا چاہتا ہون کہ جو کچھ ہوتا ہے اللہ کی مشیت اور ارادہ اور قضا و قدر کے تحت ہوتا ہے۔ فرمایا اے یونس ایسا نہیں ہے نہیں ہوتی کوئی چیز مگر اس کی مشیت اور ارادہ اس کے قضا و قدر سے۔ فرمایا یونس تم جانتے ہو مشیت کیا ہے میں نے۔ امام علیہ السلام نے یہ ظاہر فرمایا کہ مشیت و ارادہ اور قضا و قدر الہٰی کا تعلق امور خیر سے ہے نیز یہ کہ مشیئت الہٰی بندوں جیسی مشیت نہیں کہ اس کا تعلق معاصی سے ہو معاصی سے تعلق ہونا منافی عدالت ہے۔فرمایا اے یونس تم جانتے ہو مشیت کیا ہے میں نے کہا نہیں۔ فرمایا مشیت الہٰیہ تدبیر اول ہے پھر فرمایا تم جانتے ہو ارادہ کیا فررمایا وہ باقی رہنا ہے اس خواہش پر جسے چاہا ہے تم جانتے ہو قدر کیا ہے۔ میں نے کہا نہیں۔ فرمایا وہ تدبیر الہیہ ہے معین کرنے میں حرکات و اطراف کو اپنے بندہ کے اور اس کے حدود و بقا و فنا کا تعین، اس کے بعد فرمایا قضا کا تعلق فعل بندہ کی استواری اور اپنے کسی فعل کی ایجاد ہے۔
توضیح:۔ امام علیہ السلام نے یہ ظاہر فرمایا کہ مشیت و ارادہ اور قضا و قدر الہٰی کا تعلق امور خیر سے ہے نیز یہ کہ مشیئت الہٰی بندوں جیسی مشیت نہیں کہ اس کا تعلق معاصی سے ہو معاصی سے تعلق ہونا منافی عدالت ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُمَرَ الْيَمَانِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ الله خَلَقَ الْخَلْقَ فَعَلِمَ مَا هُمْ صَائِرُونَ إِلَيْهِ وَأَمَرَهُمْ وَنَهَاهُمْ فَمَا أَمَرَهُمْ بِهِ مِنْ شَيْءٍ فَقَدْ جَعَلَ لَهُمُ السَّبِيلَ إِلَى تَرْكِهِ وَلا يَكُونُونَ آخِذِينَ وَلا تَارِكِينَ إِلا بِإِذْنِ الله۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا اور وہ جانتا تھا کہ ان کی بازگشت اسی کی طرف ہو گی اس نے ان کو بعض چیزوں کے کرنے کا حکم دیا ہے اور بعض کے کرنے سے روکا ہے اور جس چیز کے بجا لانے کا ان کو حکم دیا ہے اس کے ترک کرنے کا راستہ بھی ان کے لیے قرار دیا (تاکہ فعل اختیای رہے ورنہ ایک ہی صورت میں مجبوری لازم آتی) اور جو کچھ کرنے والے ہیں یا نہیں کرنے والے ہیں وہ تحت قدر الہٰیہ ہیں۔ ایسا نہیں کہ ہر امر بندوں کو تفویض کر کے خود معطل ہو بیٹھا اگر وہ چاہے تو ہر برے امر سے روک سکتا ہے لیکن چونکہ بندہ کو فاعل مختار بنا دیا ہے لہذا روکتا نہیں یہی اذنِ الہٰی ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ حَفْصِ بْنِ قُرْطٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ قَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) مَنْ زَعَمَ أَنَّ الله يَأْمُرُ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ فَقَدْ كَذَبَ عَلَى الله وَمَنْ زَعَمَ أَنَّ الْخَيْرَ وَالشَّرَّ بِغَيْرِ مَشِيئَةِ الله فَقَدْ أَخْرَجَ الله مِنْ سُلْطَانِهِ وَمَنْ زَعَمَ أَنَّ الْمَعَاصِيَ بِغَيْرِ قُوَّةِ الله فَقَدْ كَذَبَ عَلَى الله وَمَنْ كَذَبَ عَلَى الله أَدْخَلَهُ الله النَّارَ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ حضرت رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا، جس نے یہ گمان کیا کہ اللہ برائی اور بدکاری کا حکم دیتا ہے تو اس نے اللہ پر جھوٹ بولا اور جس نے یہ گمان کیا کہ خیر و شر بغیر مشیئت خدا ہے اس نے اللہ کو اس کی سلطنت سے علیحدہ کر دیا اور جس نے یہ گمان کیا کہ معاصی بغیر خدا کی دی ہوئی قوت کے بجا لاتا ہے اس نے خدا پر جھوٹ بولا اور ایسے کا ٹھکانا جہنم ہے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الله عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِيسَى عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ جَابِرٍ قَالَ كَانَ فِي مَسْجِدِ الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَتَكَلَّمُ فِي الْقَدَرِ وَالنَّاسُ مُجْتَمِعُونَ قَالَ فَقُلْتُ يَا هَذَا أَسْأَلُكَ قَالَ سَلْ قُلْتُ يَكُونُ فِي مُلْكِ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى مَا لا يُرِيدُ قَالَ فَأَطْرَقَ طَوِيلاً ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيَّ فَقَالَ لِي يَا هَذَا لَئِنْ قُلْتُ إِنَّهُ يَكُونُ فِي مُلْكِهِ مَا لا يُرِيدُ إِنَّهُ لَمَقْهُورٌ وَلَئِنْ قُلْتُ لا يَكُونُ فِي مُلْكِهِ إِلا مَا يُرِيدُ أَقْرَرْتُ لَكَ بِالْمَعَاصِي قَالَ فَقُلْتُ لابِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) سَأَلْتُ هَذَا الْقَدَرِيَّ فَكَانَ مِنْ جَوَابِهِ كَذَا وَكَذَا فَقَالَ لِنَفْسِهِ نَظَرَ أَمَا لَوْ قَالَ غَيْرَ مَا قَالَ لَهَلَكَ۔
راوی کہتا ہے مسجد مدینہ میں ایک شخص قضا و قدر کے بارے میں کلام کر رہا تھا اور لوگ اس کے پاس جمع تھے۔ میں نے کہا اے شخص میں تجھ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا پوچھ۔ میں نے کہا ملکِ خدا میں کوئی امر ایسا بھی ہو سکتا ہےجس کو وہ نہ چاہتا ہو (یعنی یہ اس کی قدرت سے باہر ہو) اس نے سر جھکا لیا اور پھر سر اٹھایا اور کہا۔ اگر میں کہتا ہوں کہ اس کے ملک میں وہ ہوتا ہے جس کو وہ نہیں چاہتا تو وہ مغلوب و مقہور قرار پاتا ہے اور اگر یہ کہتا ہوں کہ اس کے ملک میں وہی ہوتا ہے جس کا وہ ارادہ کرے تو میں نے تیرے معاصی کا اقرار کر لیا۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق سے بیان کیا کہ میں نے اس قدریہ سے یہ سوال کیا۔ پس اس نے ایسا ایسا جواب دیا۔ فرمایا اس نے اپنے نفس پر غور کیا اگر وہ اس کے خلاف کہتا تو مستحق جہنم ہوتا۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ زَعْلانَ عَنْ أَبِي طَالِبٍ الْقُمِّيِّ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ قُلْتُ أَجْبَرَ الله الْعِبَادَ عَلَى الْمَعَاصِي قَالَ لا قُلْتُ فَفَوَّضَ إِلَيْهِمُ الامْرَ قَالَ قَالَ لا قَالَ قُلْتُ فَمَا ذَا قَالَ لُطْفٌ مِنْ رَبِّكَ بَيْنَ ذَلِكَ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے راوی نے پوچھا کیا معاصی پر خدا نے اپنے بندوں کو مجبور کیا ہے۔ فرمایا نہیں۔ پوچھا پھر کیا اپنا معاملہ ان کے سپرد کر دیا ہے۔ فرمایا نہیں۔ پوچھا پھر کیا ہے۔ فرمایا خدا کا لطف ہے ان دونوں کے درمیان۔ (یعنی انسان محبور ہے نہ مختار کُل بلکہ ان کے درمیان ایک منزل ہے وہ اپنے فعل کا مختار ہے لیکن اسباب فعل مہیا کرنا اس کے اختیار میں نہیں وہ اپنے کالے رنگ کو گورا نہیں بنا سکتا اپنے لمبے قد کو چھوٹا نہیں کر سکتا۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ وَأَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالا إِنَّ الله أَرْحَمُ بِخَلْقِهِ مِنْ أَنْ يُجْبِرَ خَلْقَهُ عَلَى الذُّنُوبِ ثُمَّ يُعَذِّبَهُمْ عَلَيْهَا وَالله أَعَزُّ مِنْ أَنْ يُرِيدَ أَمْراً فَلا يَكُونَ قَالَ فَسُئِلا (عَلَيْهما السَّلام) هَلْ بَيْنَ الْجَبْرِ وَالْقَدَرِ مَنْزِلَةٌ ثَالِثَةٌ قَالا نَعَمْ أَوْسَعُ مِمَّا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالارْضِ۔
امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا خدا اس سے زیادہ مہربان ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو گناہوں پر مجبور کرے اور پھر اس پر ان کو سزا بھی دے اور خدا زیادہ عزت و بزرگی والا ہے اس سے کہ وہ کسی امر کا ارادہ کرے اور وہ نہ ہو۔ پوچھا گیا کیا جبر و قدر کے درمیان کوئی تیسری منزل اور ہے۔ فرمایا ہے وہ آسمان اور زمین کی وسعت سے زیادہ ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ صَالِحِ بْنِ سَهْلٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ سُئِلَ عَنِ الْجَبْرِ وَالْقَدَرِ فَقَالَ لا جَبْرَ وَلا قَدَرَ وَلَكِنْ مَنْزِلَةٌ بَيْنَهُمَا فِيهَا الْحَقُّ الَّتِي بَيْنَهُمَا لا يَعْلَمُهَا إِلا الْعَالِمُ أَوْ مَنْ عَلَّمَهَا إِيَّاهُ الْعَالِمُ۔
کسی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے جبر و قدر کے متعلق پوچھا۔ فرمایا نہ جبر ہے نہ قدر ہے بلکہ ان دونوں کے درمیان ایک منزلت ہے اور وہی حق ہے، نہیں جانتا اس کو مگر عالم یا وہ جسے عالم نے تعلیم دی ہو۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ عِدَّةٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ قَالَ لَهُ رَجُلٌ جُعِلْتُ فِدَاكَ أَجْبَرَ الله الْعِبَادَ عَلَى الْمَعَاصِي فَقَالَ الله أَعْدَلُ مِنْ أَنْ يُجْبِرَهُمْ عَلَى الْمَعَاصِي ثُمَّ يُعَذِّبَهُمْ عَلَيْهَا فَقَالَ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ فَفَوَّضَ الله إِلَى الْعِبَادِ قَالَ فَقَالَ لَوْ فَوَّضَ إِلَيْهِمْ لَمْ يَحْصُرْهُمْ بِالامْرِ وَالنَّهْيِ فَقَالَ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ فَبَيْنَهُمَا مَنْزِلَةٌ قَالَ فَقَالَ نَعَمْ أَوْسَعُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالارْضِ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے کسی نے پوچھا کیا خدا نے اپنے بندوں کو گناہوں پر مجبور کیا ہے۔ فرمایا جبکہ خدا عادل ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے بندوں کو معاصی پر بھی مجبور کرے اور پھر ان پر اپنا عذاب بھی نازل کرے۔ راوی نے کہا تو کیا خدا نے ہر معاملہ کو بندوں کے سپرد کر دیا ہے۔ فرمایا اگر سپرد کر دیا جاتا تو ان کے لیے امر و نہی کے بتانے کی کیا ضرورت تھی۔ راوی نےپھر کیا ان کے لیے تیسری منزل ہے۔ فرمایا وہ زمین و آسمان سے زیادہ وسیع ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الله وَغَيْرُهُ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ قَالَ قُلْتُ لابِي الْحَسَنِ الرِّضَا (عَلَيْهِ السَّلام) إِنَّ بَعْضَ أَصْحَابِنَا يَقُولُ بِالْجَبْرِ وَبَعْضَهُمْ يَقُولُ بِالاسْتِطَاعَةِ قَالَ فَقَالَ لِي اكْتُبْ بِسْمِ الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ قَالَ الله عَزَّ وَجَلَّ يَا ابْنَ آدَمَ بِمَشِيئَتِي كُنْتَ أَنْتَ الَّذِي تَشَاءُ وَبِقُوَّتِي أَدَّيْتَ إِلَيَّ فَرَائِضِي وَبِنِعْمَتِي قَوِيتَ عَلَى مَعْصِيَتِي جَعَلْتُكَ سَمِيعاً بَصِيراً مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ الله وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ وَذَلِكَ أَنِّي أَوْلَى بِحَسَنَاتِكَ مِنْكَ وَأَنْتَ أَوْلَى بِسَيِّئَاتِكَ مِنِّي وَذَلِكَ أَنِّي لا أُسْأَلُ عَمَّا أَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ قَدْ نَظَمْتُ لَكَ كُلَّ شَيْءٍ تُرِيدُ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام رضا علیہ السلام سے کہا کہ ہمارے بعض اصحاب جبر کے قائل ہیں اور بعض استطاعت کے۔ حضرت نے مجھ سے فرمایا لکھو، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ فرمایا امام زین العابدینؑ نے کہا کہ خدا نے فرمایا، اے ابن آدم میری مشیت سے تو نے کوئی چیز چاہی اور میری دی ہوئی قوت سے تو نے میرے فرائض انجام دیے اور میری نعمت کی وجہ سے تو میری معصیت پر قوی دل ہوا۔ میں نے تجھ کو سننے والا اور دیکھنے والا بنایا۔ پس جو نیکی تجھ سے ہوتی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو برائی ہوتی ہےوہ تیرے نفس کی طرف سے ہے۔ غور کر تیری نیکیوں کا میں تجھ سے زیادہ حقدار ہوں اور برائیوں کا مجھ سے زیادہ تو، مجھ سے سوال کا کسی کو حق نہیں اور بندوں سے سوال ہو گا جس بات کا تو ارادہ کرتا اس کا انتظام میں کرتا ہوں۔
مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الله عَنْ حُسَيْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ لا جَبْرَ وَلا تَفْوِيضَ وَلَكِنْ أَمْرٌ بَيْنَ أَمْرَيْنِ قَالَ قُلْتُ وَمَا أَمْرٌ بَيْنَ أَمْرَيْنِ قَالَ مَثَلُ ذَلِكَ رَجُلٌ رَأَيْتَهُ عَلَى مَعْصِيَةٍ فَنَهَيْتَهُ فَلَمْ يَنْتَهِ فَتَرَكْتَهُ فَفَعَلَ تِلْكَ الْمَعْصِيَةَ فَلَيْسَ حَيْثُ لَمْ يَقْبَلْ مِنْكَ فَتَرَكْتَهُ كُنْتَ أَنْتَ الَّذِي أَمَرْتَهُ بِالْمَعْصِيَةِ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا نہ جبر ہے نہ تفویض ہے بلکہ ایک امر ہے ان دونوں امروں کے درمیان۔ راوی نے پوچھا وہ کیا امر ہے۔ فرمایا اس کی مثل ہے کہ ایک شخص معصیت پر آمادہ تمہارے پاس آیا۔ تم نے اس کو باز رکھنا چاہا۔ وہ باز نہیں آیا۔ تم نے اسے چھوڑ دیا۔ اس نے ہر برائی کر ڈالی اور تمہاری بات نہ سنی تو کیا اس صورت میں کہا جائیگا کہ تم نے اسے معصیت کا حکم دیا۔ مراد یہ ہے کہ اللہ تو اپنے احکام کے ذریعہ سے برے کاموں سے روکنا چاہتا ہے لیکن جبر سے نہیں۔ پس جو بندہ گناہ سے باز نہیں آتا تو اس کا الزام خدا پر کیا۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْبَرْقِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ الله أَكْرَمُ مِنْ أَنْ يُكَلِّفَ النَّاسَ مَا لا يُطِيقُونَ وَالله أَعَزُّ مِنْ أَنْ يَكُونَ فِي سُلْطَانِهِ مَا لا يُرِيدُ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا اللہ کی شان اس سے بزرگ ہے کہ وہ لوگوں کو ایسے امر کی تکلیف دے جس کی وہ طاقت نہیں رکھتے اور یہ امر عزتِ باری تعالیٰ کے خلاف ہے کہ اس کی حکومت میں کوئی ایسا کام ہو جس کو وہ نہیں چاہتا۔