مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى وَغَيْرُهُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ جَمِيلِ بْنِ دَرَّاجٍ عَنِ ابْنِ الطَّيَّارِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ الله احْتَجَّ عَلَى النَّاسِ بِمَا آتَاهُمْ وَعَرَّفَهُمْ. مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ جَمِيلِ بْنِ دَرَّاجٍ مِثْلَهُ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ خدا نے اپنے بندوں پر حجت تمام کی ہے دو چیزوں سے، اول اپنی نعمتیں جو اس کو دی ہیں اور دوسرے اپنے انبیاء و مرسلین کے ذریعے ہدایت کرا کے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى وَغَيْرُهُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَكِيمٍ قَالَ قُلْتُ لابِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) الْمَعْرِفَةُ مِنْ صُنْعِ مَنْ هِيَ قَالَ مِنْ صُنْعِ الله لَيْسَ لِلْعِبَادِ فِيهَا صُنْعٌ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سےپوچھا معرفت (اللہ ، رسول و امام) کا تعلق کس کی تدبیر سے ہے۔ فرمایا تدبیر الہٰی سے ہے بندوں سے تعلق نہیں۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ حَمْزَةَ بْنِ مُحَمَّدٍ الطَّيَّارِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَما كانَ الله لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ حَتَّى يُبَيِّنَ لَهُمْ ما يَتَّقُونَ قَالَ حَتَّى يُعَرِّفَهُمْ مَا يُرْضِيهِ وَمَا يُسْخِطُهُ وَقَالَ فَأَلْهَمَها فُجُورَها وَتَقْواها قَالَ بَيَّنَ لَهَا مَا تَأْتِي وَمَا تَتْرُكُ وَقَالَ إِنَّا هَدَيْناهُ السَّبِيلَ إِمَّا شاكِراً وَإِمَّا كَفُوراً قَالَ عَرَّفْنَاهُ إِمَّا آخِذٌ وَإِمَّا تَارِكٌ وَعَنْ قَوْلِهِ وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْناهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمىعَلَى الْهُدىقَالَ عَرَّفْنَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَى عَلَى الْهُدَى وَهُمْ يَعْرِفُونَ وَفِي رِوَايَةٍ بَيَّنَّا لَهُمْ۔
ثعلبہ بن میمون نے حمزہ بن محمد طیار سے اور انھوں نے پوچھا امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس قولِ خدا کے بارے میں اللہ کسی قوم کو اس کی ہدایت کے بعد گمراہ نہیں کرتا حتیٰ کہ وہ انھیں ان چیزوں کو بتا دے جن سے وہ پرہیز کریں۔ یہاں تک کہ خدا معرفت کرا دیتا ہے ان چیزوں کی جن سے وہ راضی ہوتا ہے اور جن سے ناراض ہوتا ہے۔
اور فرمایا پس الہام کر دیا اس نے نفس پر اس فجور و تقویٰ کو فرمایا ظاہر کر دیا کہ اسے کرنا ہے اور کیا چھوڑنا ہے۔ اور فرمایا آیت ہم نے ہدایت کی اسے راہ دین کی اب وہ چاہے شکر گزار ہو چاہے کفر کرے۔ فرمایا اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے اسے معرفت کرا دی اس چیز کی جسے لینے والا ہے اور جسے چھوڑنے والا ہے۔ اور اس آیت کے متعلق قوم ثمود کو ہم نے ہدایت کی پس انھوں نے ہدایت پر گمراہی کو دوست رکھا اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے ان کو معرفت کرا دی تھی لیکن ہدایت کو چھوڑ کر گمراہی اختیار کی درآنحالیکہ وہ ہدایت کی معرفت حاصل کر چکے تھے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنِ ابْنِ بُكَيْرٍ عَنْ حَمْزَةَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ سَأَلْتُهُ عَنْ قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَهَدَيْناهُ النَّجْدَيْنِ قَالَ نَجْدَ الْخَيْرِ وَالشَّرِّ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے آیہ ہم نے دونوں راستے دکھا دیے یعنی خیر و شر۔
وَبِهَذَا الاسْنَادِ عَنْ يُونُسَ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ عَبْدِ الاعْلَى قَالَ قُلْتُ لابِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) أَصْلَحَكَ الله هَلْ جُعِلَ فِي النَّاسِ أَدَاةٌ يَنَالُونَ بِهَا الْمَعْرِفَةَ قَالَ فَقَالَ لا قُلْتُ فَهَلْ كُلِّفُوا الْمَعْرِفَةَ قَالَ لا عَلَى الله الْبَيَانُ لا يُكَلِّفُ الله نَفْساً إِلا وُسْعَها وَلا يُكَلِّفُ الله نَفْساً إِلا ما آتاها قَالَ وَسَأَلْتُهُ عَنْ قَوْلِهِ وَما كانَ الله لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ حَتَّى يُبَيِّنَ لَهُمْ ما يَتَّقُونَ قَالَ حَتَّى يُعَرِّفَهُمْ مَا يُرْضِيهِ وَمَا يُسْخِطُهُ۔
میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا خدا آپ کی محافظت کرے کیا خدا نے آدمیوں میں سے ایسے آلات و اسباب پیدا کیے ہیں کہ وہ ان سے معرفت حاصل کریں۔ فرمایا نہیں۔ میں نے کہا پھر تکلیف معرفت کیوں دی گئی۔ فرمایا اللہ پر امور معرفت کا بیان لازم ہے وہ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا بلکہ اتنی ہی دیتا ہے جس کو برداشت کر سکے۔
راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کے متعلق پوچھا، اللہ ہدایت کے بعد کسی قوم پر ظلم نہیں کرتا۔ فرمایا وہ ان کو معرفت کرا دیتا ہے اس بات کی کہ کیا اس امر کی رضا کا باعث ہے۔
وَبِهَذَا الاسْنَادِ عَنْ يُونُسَ عَنْ سَعْدَانَ رَفَعَهُ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ الله لَمْ يُنْعِمْ عَلَى عَبْدٍ نِعْمَةً إِلا وَقَدْ أَلْزَمَهُ فِيهَا الْحُجَّةَ مِنَ الله فَمَنْ مَنَّ الله عَلَيْهِ فَجَعَلَهُ قَوِيّاً فَحُجَّتُهُ عَلَيْهِ الْقِيَامُ بِمَا كَلَّفَهُ وَاحْتِمَالُ مَنْ هُوَ دُونَهُ مِمَّنْ هُوَ أَضْعَفُ مِنْهُ وَمَنْ مَنَّ الله عَلَيْهِ فَجَعَلَهُ مُوَسَّعاً عَلَيْهِ فَحُجَّتُهُ عَلَيْهِ مَالُهُ ثُمَّ تَعَاهُدُهُ الْفُقَرَاءَ بَعْدُ بِنَوَافِلِهِ وَمَنْ مَنَّ الله عَلَيْهِ فَجَعَلَهُ شَرِيفاً فِي بَيْتِهِ جَمِيلاً فِي صُورَتِهِ فَحُجَّتُهُ عَلَيْهِ أَنْ يَحْمَدَ الله تَعَالَى عَلَى ذَلِكَ وَأَنْ لا يَتَطَاوَلَ عَلَى غَيْرِهِ فَيَمْنَعَ حُقُوقَ الضُّعَفَاءِ لِحَالِ شَرَفِهِ وَجَمَالِهِ۔
فرمایا امام علیہ السلام نے اگر خدا اپنے بندہ کو نعمت دیتا ہے تو اس پر اپنی حجت تمام کرتا ہے تاکہ وہ صحیح طریقہ سے استعمال کرے۔ پس جس کو اس نے اپنے احسان سے قوی بنایا تو اس پر لازم قرار دیا کہ وہ اپنے سے کم طاقت والے اور ضعیف کا بوجھ اٹھا لے اور جس کو مالدار بنایا اس پر لازم قرار دیا کہ وہ فقراء کی مدد کرے اور جس کو اپنے احسان سے اس کے خاندان کو عزت والا بنایا اچھی صورت عطا کی تو اس کے لیے لازم ہوا کہ اس پر خدا کی حمد کرے اور کسی پر ظلم نہ کرے، کمزوروں کے حق کو نہ روکے اپنے شرف و جمال کے وقت۔