مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى عَنْ مَنْصُورِ بْنِ حَازِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ إِنَّ الله خَلَقَ السَّعَادَةَ وَالشَّقَاءَ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ خَلْقَهُ فَمَنْ خَلَقَهُ الله سَعِيداً لَمْ يُبْغِضْهُ أَبَداً وَإِنْ عَمِلَ شَرّاً أَبْغَضَ عَمَلَهُ وَلَمْ يُبْغِضْهُ وَإِنْ كَانَ شَقِيّاً لَمْ يُحِبَّهُ أَبَداً وَإِنْ عَمِلَ صَالِحاً أَحَبَّ عَمَلَهُ وَأَبْغَضَهُ لِمَا يَصِيرُ إِلَيْهِ فَإِذَا أَحَبَّ الله شَيْئاً لَمْ يُبْغِضْهُ أَبَداً وَإِذَا أَبْغَضَ شَيْئاً لَمْ يُحِبَّهُ أَبَداً۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے خدا نے اپنی مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے سعادت (عافیت بخیرہونا) و شقاوت (عافیت بخیر نہ ہونا) کو پیدا کیا۔ جس کو سعید پیدا کیا اس سے کبھی دشمنی نہ کی اگرچہ اس نے کوئی برا کام کیا اس کے عمل سے بعض رکھا اس کی ذات سے نہیں اور جس کو شقی پیدا کیا اس کی ذات کو محبوب نہ رکھا اگر اس نے اچھا عمل کیا تو اس کے کام کو تو پسند کیا لیکن اس کی ذات سے دشمنی رکھی۔ خدا جب کسی شے کو دوست رکھتا ہے تو پھر اس سے دشمنی نہیں کرتا اور جس سے دشمنی رکھتا ہے اسے کبھی دوست نہیں رکھتا اسے کبھی دوست نہیں بناتا جب تک کہ وہ اپنی حالت کو نہ بدلے مثلاً کافر کو وہ دشمن رکھتا ہے پس بحالتِ کفر وہ کبھی اس کو دوست نہ رکھے گا چاہے وہ کیسا نیک کام کیوں نہ کرے۔ ہاں اگر اسلام قبول کر لے گا تو عداوت محبت میں بدل جائے گی۔
عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ رَفَعَهُ عَنْ شُعَيْبٍ الْعَقَرْقُوفِيِّ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ كُنْتُ بَيْنَ يَدَيْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام جَالِساً وَقَدْ سَأَلَهُ سَائِلٌ فَقَالَ جُعِلْتُ فِدَاكَ يَا ابْنَ رَسُولِ الله مِنْ أَيْنَ لَحِقَ الشَّقَاءُ أَهْلَ الْمَعْصِيَةِ حَتَّى حَكَمَ الله لَهُمْ فِي عِلْمِهِ بِالْعَذَابِ عَلَى عَمَلِهِمْ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله أَيُّهَا السَّائِلُ حُكْمُ الله عَزَّ وَجَلَّ لا يَقُومُ لَهُ أَحَدٌ مِنْ خَلْقِهِ بِحَقِّهِ فَلَمَّا حَكَمَ بِذَلِكَ وَهَبَ لاهْلِ مَحَبَّتِهِ الْقُوَّةَ عَلَى مَعْرِفَتِهِ وَوَضَعَ عَنْهُمْ ثِقْلَ الْعَمَلِ بِحَقِيقَةِ مَا هُمْ أَهْلُهُ وَوَهَبَ لاهْلِ الْمَعْصِيَةِ الْقُوَّةَ عَلَى مَعْصِيَتِهِمْ لِسَبْقِ عِلْمِهِ فِيهِمْ وَمَنَعَهُمْ إِطَاقَةَ الْقَبُولِ مِنْهُ فَوَافَقُوا مَا سَبَقَ لَهُمْ فِي عِلْمِهِ وَلَمْ يَقْدِرُوا أَنْ يَأْتُوا حَالاً تُنْجِيهِمْ مِنْ عَذَابِهِ لانَّ عِلْمَهُ أَوْلَى بِحَقِيقَةِ التَّصْدِيقِ وَهُوَ مَعْنَى شَاءَ مَا شَاءَ وَهُوَ سِرُّهُ۔
راوی کہتا ہے میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص نے سوال کیا یابن رسول اللہ اہل معصیت کو شقاوت لاحق کہاں سے ہوئی کہ خدا نے اپنے علم میں ان کے لیے بد اعمالی پر عذاب کا حکم دیا۔ حضرت نے فرمایا اے سائل حکمِ خدا کسی کو اس کا حق ادا کرنے پر مجبور نہیں کرتا ۔ جب حکم دیتا ہے تو اپنے محبت والوں کو اپنی معرفت کے لیے قوت دیتا ہے اور سخت اعمال کو ان سے ہٹا لیتا ہے۔ اور ان کی قابلیت کے لحاظ سے تکلیف دیتا ہے اور اہل معصیت کو قوت دیتا ہے تاکہ جو سابق میں اس کے علم میں گزر چکا ہے وہ صحیح ہو اور نہ دی ان کو استطاعت قبول یا توفیق صبر۔ پس ان کا عمل موافق ہوا اس علم الہٰی کے جو سابق میں ان کے متعلق ہو چکا تھا اور وہ ایسے حالات پیدا کرنے پر قادر نہ ہوئے جو عذابِ خدا سے ان کو نجات دیتے کہ علم الہٰی اولیٰ ہے حقیقت تصدیق کے لیے اور نشان اہل محبت و اہل معصیت کے لیے کیوں قرار دیے ہیں یہ اللہ کا راز ہے جس کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ عِمْرَانَ الْحَلَبِيِّ عَنْ مُعَلَّى بْنِ عُثْمَانَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حَنْظَلَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام أَنَّهُ قَالَ يُسْلَكُ بِالسَّعِيدِ فِي طَرِيقِ الاشْقِيَاءِ حَتَّى يَقُولَ النَّاسُ مَا أَشْبَهَهُ بِهِمْ بَلْ هُوَ مِنْهُمْ ثُمَّ يَتَدَارَكُهُ السَّعَادَةُ وَقَدْ يُسْلَكُ بِالشَّقِيِّ فِي طَرِيقِ السُّعَدَاءِ حَتَّى يَقُولَ النَّاسُ مَا أَشْبَهَهُ بِهِمْ بَلْ هُوَ مِنْهُمْ ثُمَّ يَتَدَارَكُهُ الشَّقَاءُ إِنَّ مَنْ كَتَبَهُ الله سَعِيداً وَإِنْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلا فُوَاقُ نَاقَةٍ خَتَمَ لَهُ بِالسَّعَادَةِ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کبھی مردِ سعید اشقیاء کی راہ پر گامزن ہوتا ہے اور لوگ کہنے لگتے ہیں یہ ان سے کس قدر مشابہ ہے بلکہ ان ہی میں سے ہے۔ پھر اس کو سعادت پا لیتی ہے اور شقاوت اس سے برطرف ہو جاتی ہے۔ پس جس کو اللہ نے سعید قرار دیا ہے اس کا خاتمہ سعادت پر ہو گا اگرچہ دنیا کی مدت اتنی کم رہ جائے جتنی ایک اونٹنی کی دودھ دوہنے کی ہوتی ہے۔
توضیح:۔ اس حدیث سے یہ نہ سمجھا جائے کہ سعید و شقی خدا بناتا ہے ورنہ اس صورت میں بندہ مجبور محض رہ جائے گا بلکہ صورت اس کی یہ ہے کہ جس طرح کسی شخص کے گزشتہ واقعات پر نظر رکھ کر کسی کو سعید اور کسی کو شقی کہتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے علم سے ہر شخص کے ان افعال کو جان لیتا ہے جو وہ زندگی میں کرنے والا ہے لہذا اسی علم کے لحاظ سے اس کو شقی و سعید کہا جاتا ہے اس علم الہٰی کے خلاف نہیں ہو سکتا۔ لیکن یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ علمِ الہٰی میں گزر جانے کے باعث بندہ ان افعال پر مجبور ہوتا ہے۔ علم تو اس کے تمام افعال کا فوٹو ہے جس طرح ہمارا علم کسی کے گزشتہ افعال بجا لانے کا سبب قرار نہیں پاتا اسی طرح علم الہٰی بندہ کو اس کے نیک و بد افعال پر مجبور نہیں کرتا۔