عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الله عَنْ أَبِيهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ الدَّيْلَمِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْهَاشِمِيِّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْحَسَنِ مُوسَى بْنَ جَعْفَرٍ (عَلَيْهما السَّلام) يَقُولُ لا يَكُونُ شَيْءٌ إِلا مَا شَاءَ الله وَأَرَادَ وَقَدَّرَ وَقَضَى قُلْتُ مَا مَعْنَى شَاءَ قَالَ ابْتِدَاءُ الْفِعْلِ قُلْتُ مَا مَعْنَى قَدَّرَ قَالَ تَقْدِيرُ الشَّيْءِ مِنْ طُولِهِ وَعَرْضِهِ قُلْتُ مَا مَعْنَى قَضَى قَالَ إِذَا قَضَى أَمْضَاهُ فَذَلِكَ الَّذِي لا مَرَدَّ لَهُ۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا کوئی شے نہیں ہوئی مگر جب اللہ نے چاہا، ارادہ کیا، اندازہ کیا اور وجود میں لایا۔ راوی کہتا ہے میں نے پوچھا مشیئت کے کیا معنی ہیں۔ فرمایا آغاز فعل یعنی تدبیر ہر حادث ہے وقت احداث۔ میں نے کہا ارادہ کے کیا معنی ہیں۔ فرمایا وہ باقی رہنا ہے کسی چیز کے احداث فعل پر۔ میں نے کہا تقدیر کیا ہے۔ فرمایا اندازہ کرنا کسی چیز کے طول و عرض وغیرہ کا پھر میں نے پوچھا قضا کے کیا معنی ہیں۔ وہ طے کرتا ہے کسی چیز کے پیدا کرنے کو۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبَانٍ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ قُلْتُ لابِي عَبْدِ الله علیہ السلام شَاءَ وَأَرَادَ وَقَدَّرَ وَقَضَى قَالَ نَعَمْ قُلْتُ وَأَحَبَّ قَالَ لا قُلْتُ وَكَيْفَ شَاءَ وَأَرَادَ وَقَدَّرَ وَقَضَى وَلَمْ يُحِبَّ قَالَ هَكَذَا خَرَجَ إِلَيْنَا۔
راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ بندوں سے جو افعال سرزد ہوتے ہیں کیا ان میں خدا کی مشیئت، ارادہ اور قضا و قدر کو دخل ہے اور آیا وہ اس کو دوست بھی رکھتا ہے۔ فرمایا نہیں۔ راوی نے کہا جب وہ دوست نہیں رکھتا تو پھر مشیئت اور ارادہ کا تعلق کیوں ہے۔ فرمایا ہم پر ایسا ہی ظاہر ہوا ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مَعْبَدٍ عَنْ وَاصِلِ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ أَمَرَ الله وَلَمْ يَشَأْ وَشَاءَ وَلَمْ يَأْمُرْ أَمَرَ إِبْلِيسَ أَنْ يَسْجُدَ لآِدَمَ وَشَاءَ أَنْ لا يَسْجُدَ وَلَوْ شَاءَ لَسَجَدَ وَنَهَى آدَمَ عَنْ أَكْلِ الشَّجَرَةِ وَشَاءَ أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا وَلَوْ لَمْ يَشَأْ لَمْ يَأْكُلْ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا اللہ نے حکم دیا مگر چاہا نہیں اور کہیں چاہا ہے اور حکم نہیں دیا جیسے ابلیس کو سجدہ آدم کا حکم تو دیا اور چاہا یہ کہ وہ سجدہ نہ کرے۔ اگر وہ چاہتا کہ سجدے کرے تو ضرور کرتا اور آدم کو درخت ممنوعہ کھانے سے منع کیا اور چاہا کہ یہ آدم کھا لیں اگر نہ چاہتا تو آدم ہر گز نہ کھاتے۔
توضیح: مشیت کا تعلق ہر اس چیز سے ہے جو واقع ہو اور امر کا تعلق طاقت سے خواہ واقع ہو یا نہ ہو۔ بالفاظ دیگر خدا نے ابلیس کو سجدہ کا حکم دیا وہ بجا نہ لایا اور گنہگار رہا لیکن مشیت ایزدی میں گزر چکا تھا کہ وہ سجدہ نہ کرے گا لیکن اگر وہ چاہتا کہ ابلیس سجدہ ضرور کرے تو ابلیس کی کیا طاقت تھی کہ وہ سجدہ نہ کرتا۔ اسی طرح آدم کو منع کیا ثمر درخت نہ کھانے سے بے شمار مصالح کی بنا پر چاہا کہ کھا لیں چنانچہ کھا لیا اور اگر وہ چاہتا کہ نہ کھائیں تو آدم کھا نہ سکتے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنِ الْمُخْتَارِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْهَمْدَانِيِّ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ الْحَسَنِ الْعَلَوِيِّ جَمِيعاً عَنِ الْفَتْحِ بْنِ يَزِيدَ الْجُرْجَانِيِّ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ علیہ السلام قَالَ إِنَّ لله إِرَادَتَيْنِ وَمَشِيئَتَيْنِ إِرَادَةَ حَتْمٍ وَإِرَادَةَ عَزْمٍ يَنْهَى وَهُوَ يَشَاءُ وَيَأْمُرُ وَهُوَ لا يَشَاءُ أَ وَمَا رَأَيْتَ أَنَّهُ نَهَى آدَمَ وَزَوْجَتَهُ أَنْ يَأْكُلا مِنَ الشَّجَرَةِ وَشَاءَ ذَلِكَ وَلَوْ لَمْ يَشَأْ أَنْ يَأْكُلا لَمَا غَلَبَتْ مَشِيئَتُهُمَا مَشِيئَةَ الله تَعَالَى وَأَمَرَ إِبْرَاهِيمَ أَنْ يَذْبَحَ إِسْحَاقَ وَلَمْ يَشَأْ أَنْ يَذْبَحَهُ وَلَوْ شَاءَ لَمَا غَلَبَتْ مَشِيئَةُ إِبْرَاهِيمَ مَشِيئَةَ الله تَعَالَى۔
روایت ہے کہ امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا کے دو ارادے اور دو مشیتیں ہیں ارادہ حتم اور ارادہ عزم کسی امر کو منع کرتا ہے درآنحالیکہ اس کی مشیت ہوتی ہے اور وہ حکم دیتا ہے درآنحالیکہ مشیت نہیں ہوتی۔ کیا تم نے غور نہیں کیا کہ اس نے آدم و حوا کو درخت کا ثمر کھانے سے منع کیا درآنحالیکہ اس کی مشیت تھی۔ اگر نہ ہوتی تو وہ نہ کھاتے کیونکہ ان کی مشیت، مشیئت خدا پر غالب نہ آ سکتی تھی اسی طرح ابراہیم کو ذبح اسحاق کا حکم دیا گیا لیکن ان کے ذبح کرنے میں مشیت نہ تھی اگر مشیت ہوتی تو مشیت ابراہیم مشیت خدا پر غالب نہ آ سکتی تھی۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مَعْبَدٍ عَنْ دُرُسْتَ بْنِ أَبِي مَنْصُورٍ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام يَقُولُ شَاءَ وَأَرَادَ وَلَمْ يُحِبَّ وَلَمْ يَرْضَ شَاءَ أَنْ لا يَكُونَ شَيْءٌ إِلا بِعِلْمِهِ وَأَرَادَ مِثْلَ ذَلِكَ وَلَمْ يُحِبَّ أَنْ يُقَالَ ثَالِثُ ثَلاثَةٍ وَلَمْ يَرْضَ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا خدا نے چاہا اور ارادہ کیا ہر چیز کے وقوع کا لیکن بعض کو دوست نہ رکھا اور بعض سے راضی نہ ہوا۔ شاء کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شے نہیں ہوتی مگر اس کے علم و ارادہ سے اور وہ دوست نہیں رکھتا اس بات کو کہ کہا جائے کہ وہ تین میں تیسرا ہے جیسا کہ نصاریٰ کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے بندوں کے کفر پر راضی نہیں۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ قَالَ قَالَ أَبُو الْحَسَنِ الرِّضَا علیہ السلام قَالَ الله يَا ابْنَ آدَمَ بِمَشِيئَتِي كُنْتَ أَنْتَ الَّذِي تَشَاءُ لِنَفْسِكَ مَا تَشَاءُ وَبِقُوَّتِي أَدَّيْتَ فَرَائِضِي وَبِنِعْمَتِي قَوِيتَ عَلَى مَعْصِيَتِي جَعَلْتُكَ سَمِيعاً بَصِيراً قَوِيّاً مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ الله وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ وَذَاكَ أَنِّي أَوْلَى بِحَسَنَاتِكَ مِنْكَ وَأَنْتَ أَوْلَى بِسَيِّئَاتِكَ مِنِّي وَذَاكَ أَنَّنِي لا أُسْأَلُ عَمَّا أَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ۔
امام رضا علیہ السلام نے فرمایا کہ خداوند عالم نے حدیث قدسی میں کہا، اے ابن آدم میری مشیت سے تو اس قابل بنا کہ اپنے نفس کے لیے جو چاہتا ہے کر لیتا ہے۔ میرے قوت دینے سے تو نے اپنے فرائض کو انجام دیا اور میری نعمتوں کی وجہ سے تو میری نافرمانی پر قوی دل بنا۔ میں نے تجھے سننے والا اور دیکھنے والا اور قوت والا بنایا۔ جو اچھائیاں تجھ کو حاصل ہوئیں وہ اللہ کی طرف سے جان اور جو برائیاں تجھ سے متعلق ہوئیں ان کو اپنے نفس کی طرف سے سمجھ، تیری نیکیوں کا میں تجھ سے زیادہ حقدار ہوں تو اپنے گناہوں کا مجھ سے زیادہ حقدار ہے۔ میں جو کچھ کرتا ہوں مجھ سے پوچھ گچھ نہیں ہو سکتی البتہ بندوں سے سوال ہو گا۔