مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحَجَّالِ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ثَعْلَبَةَ عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَعْيَنَ عَنْ أَحَدِهِمَا (عَلَيْهما السَّلام) قَالَ مَا عُبِدَ الله بِشَيْءٍ مِثْلِ الْبَدَاءِ. وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام مَا عُظِّمَ الله بِمِثْلِ الْبَدَاءِ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے خدا کی عبادت بداء کی برابر اور کسی چیز سے نہیں کی گئی اور بروایت ہشام بن سالم حضرت نے فرمایا بداء کی برابر عظمت الہٰی کا اظہار اور کسی چیز سے نہیں ہوا۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ وَحَفْصِ بْنِ الْبَخْتَرِيِّ وَغَيْرِهِمَا عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ فِي هَذِهِ الايَةِ يَمْحُوا الله ما يَشاءُ وَيُثْبِتُ قَالَ فَقَالَ وَهَلْ يُمْحَى إِلا مَا كَانَ ثَابِتاً وَهَلْ يُثْبَتُ إِلا مَا لَمْ يَكُنْ۔
راوی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کا مطلب پوچھا یمحو اللہ ما یشاء و یثبت، فرمایا محو ہو گی وہی چیز جو پہلے ثابت ہو اور نہیں ثابت مگر وہی چیز جو پہلے نہ ہو۔
عَلِيٌّ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ مَا بَعَثَ الله نَبِيّاً حَتَّى يَأْخُذَ عَلَيْهِ ثَلاثَ خِصَالٍ الاقْرَارَ لَهُ بِالْعُبُودِيَّةِ وَخَلْعَ الانْدَادِ وَأَنَّ الله يُقَدِّمُ مَا يَشَاءُ وَيُؤَخِّرُ مَا يَشَاءُ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے خدا نے کسی کو نبی نہیں بنایا جب تک تین باتوں کا عہد نہیں لے لیا۔ اول اس کا اقرار کہ وہ خدا کا بندہ ہے دوسرے خدا کا کوئی شریک نہیں، تیسرے خدا جس کو چاہتا ہے مقدم کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے موخر کرتا ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنِ ابْنِ بُكَيْرٍ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ حُمْرَانَ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ سَأَلْتُهُ عَنْ قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ قَضىأَجَلاً وَأَجَلٌ مُسَمًّى عِنْدَهُ قَالَ هُمَا أَجَلانِ أَجَلٌ مَحْتُومٌ وَأَجَلٌ مَوْقُوفٌ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے سورہ انعام کی اس آیت کے متعلق پوچھا و قضی اجلا و اجل مسمی، فرمایا موت دو قسم کی ہوتی ہے ایک اجل محتوم یعنی جس کا علم خدا کے بعض بندوں کو ہو جیسے انبیاء کو بعض لوگوں کی موت کا وقت بتا دیا جاتا ہے، دوم اجل موقوف جس کا علم خدا کے سوا دوسرے کو نہیں ہوتا۔
أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ عَنْ عَبْدِ الْعَظِيمِ بْنِ عَبْدِ الله الْحَسَنِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَسْبَاطٍ عَنْ خَلَفِ بْنِ حَمَّادٍ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ مَالِكٍ الْجُهَنِيِّ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام عَنْ قَوْلِ الله تَعَالَى أَ وَلَمْ يَرَ الانْسانُ أَنَّا خَلَقْناهُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَيْئاً قَالَ فَقَالَ لا مُقَدَّراً وَلا مُكَوَّناً قَالَ وَسَأَلْتُهُ عَنْ قَوْلِهِ هَلْ أَتى عَلَى الانْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً فَقَالَ كَانَ مُقَدَّراً غَيْرَ مَذْكُورٍ۔
راوی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سورہ مریم کی اس آیت کے متعلق ہم نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا پہلے درآنحالیکہ وہ کچھ نہ تھا۔ حضرت نے فرمایا نہ اس کی کوئی صورت تھی نہ رحم اور نہ استقرار۔ پھر میں نے سورہ دہر کی اس آیت کے متعلق پوچھا کیا انسان پر ایسا وقت نہیں آیا کہ وہ کوئی ذکر کی ہوئی چیز نہ تھا ۔ فرمایا علم الہٰی میں تھا خارج میں کوئی وجود نہ تھا۔
مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ عَبْدِ الله عَنِ الْفُضَيْلِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ علیہ السلام يَقُولُ الْعِلْمُ عِلْمَانِ فَعِلْمٌ عِنْدَ الله مَخْزُونٌ لَمْ يُطْلِعْ عَلَيْهِ أَحَداً مِنْ خَلْقِهِ وَعِلْمٌ عَلَّمَهُ مَلائِكَتَهُ وَرُسُلَهُ فَمَا عَلَّمَهُ مَلائِكَتَهُ وَرُسُلَهُ فَإِنَّهُ سَيَكُونُ لا يُكَذِّبُ نَفْسَهُ وَلا مَلائِكَتَهُ وَلا رُسُلَهُ وَعِلْمٌ عِنْدَهُ مَخْزُونٌ يُقَدِّمُ مِنْهُ مَا يَشَاءُ وَيُؤَخِّرُ مِنْهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ مَا يَشَاءُ۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا کہ علم کی دو قسمیں ہیں۔ ایک علم تو وہ ہے جو خدا کے پاس ہے اور کسی دوسرے کو اس پر اطلاع نہیں اور ایک علم وہ جو اس نے ملائکہ و مرسلین کو دیا ہے اور جو اس نے فرشتوں اور رسولوں کو علم دیا ہے تو اس میں نہ وہ اپنے نفس کی تکذیب کرتا ہے اور نہ اپنے ملائکہ اور مرسلین کی اور جو علم اس کے پاس محفوظ ہے اس میں وہ جس چیز کو چاہتا ہے مقدم کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے موخر کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ثابت کرتا ہے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ سَمَاعَةَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ وَوُهَيْبِ بْنِ حَفْصٍ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ إِنَّ لله عِلْمَيْنِ عِلْمٌ مَكْنُونٌ مَخْزُونٌ لا يَعْلَمُهُ إِلا هُوَ مِنْ ذَلِكَ يَكُونُ الْبَدَاءُ وَعِلْمٌ عَلَّمَهُ مَلائِكَتَهُ وَرُسُلَهُ وَأَنْبِيَاءَهُ فَنَحْنُ نَعْلَمُهُ۔
راوی کہتا ہے فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے اللہ کے علم کی دو قسمیں ہیں ایک علم مکنون و مخزون ہے خدا کے سوا اس کو کوئی نہیں جانتا اور اسی سے بداء کا تعلق ہے اور ایک وہ علم ہے جو اس نے اپنے ملائکہ اور مرسلین و انبیاء کو دیا ہے۔ ہمارے علم کا تعلق اسی سے ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ مَا بَدَا لله فِي شَيْءٍ إِلا كَانَ فِي عِلْمِهِ قَبْلَ أَنْ يَبْدُوَ لَهُ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ کسی چیز میں اللہ کے لیے بداء واقع نہیں ہوا مگر یہ کہ اس کے ظاہر ہونے سے پہلے وہ اس کے علم میں تھا۔
عَنْهُ عَنْ أَحْمَدَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ فَضَّالٍ عَنْ دَاوُدَ بْنِ فَرْقَدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ الْجُهَنِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ إِنَّ الله لَمْ يَبْدُ لَهُ مِنْ جَهْلٍ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ خدا کو جہالت سے کبھی بداء واقع نہیں ہوا۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ حَازِمٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام هَلْ يَكُونُ الْيَوْمَ شَيْءٌ لَمْ يَكُنْ فِي عِلْمِ الله بِالامْسِ قَالَ لا مَنْ قَالَ هَذَا فَأَخْزَاهُ الله قُلْتُ أَ رَأَيْتَ مَا كَانَ وَمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ أَ لَيْسَ فِي عِلْمِ الله قَالَ بَلَى قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ الْخَلْقَ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کیا کوئی امر آج ایسا ہے جس کا علم ایک دن پہلے خدا کو نہ ہو۔ فرمایا نہیں جو ایسا کہے خدا اس کو ذلیل کرے گا۔ میں نے کہا کیا جو کچھ ہو چکا ہے اور جو قیامت تک ہونے والا ہے وہ سب علمِ الہٰی میں ہے۔ فرمایا بے شک مخلوق کے پیدا کرنے سے پہلے ہر بات کا اس کو علم تھا۔
عَلِيٌّ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ مَالِكٍ الْجُهَنِيِّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام يَقُولُ لَوْ عَلِمَ النَّاسُ مَا فِي الْقَوْلِ بِالْبَدَاءِ مِنَ الاجْرِ مَا فَتَرُوا عَنِ الْكَلامِ فِيهِ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے اگر لوگ جانتے کہ اقرار بداء میں کتنا ثواب ہے تو وہ اس کے متعلق گفتگو کرنے سے روگردانی نہ کرتے (کیونکہ وہ ایمان بالغیب ہے)۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو الْكُوفِيِّ أَخِي يَحْيَى عَنْ مُرَازِمِ بْنِ حَكِيمٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام يَقُولُ مَا تَنَبَّأَ نَبِيٌّ قَطُّ حَتَّى يُقِرَّ لله بِخَمْسِ خِصَالٍ بِالْبَدَاءِ وَالْمَشِيئَةِ وَالسُّجُودِ وَالْعُبُودِيَّةِ وَالطَّاعَةِ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ کوئی نبی نبی نہیں بنایا گیا مگر پانچ چیزوں کا اقرار کرنے کے بعد بداء مشیت سجدہ بندگی اور اطاعت۔
وَبِهَذَا الاسْنَادِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ جَهْمِ بْنِ أَبِي جَهْمَةَ عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ أَخْبَرَ مُحَمَّداً ﷺ بِمَا كَانَ مُنْذُ كَانَتِ الدُّنْيَا وَبِمَا يَكُونُ إِلَى انْقِضَاءِ الدُّنْيَا وَأَخْبَرَهُ بِالْمَحْتُومِ مِنْ ذَلِكَ وَاسْتَثْنَى عَلَيْهِ فِيمَا سِوَاهُ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے خدا نے آگاہ کیا حضرت رسولِ خدا کو جب سے دنیا بنی اور جب تک ختم نہ ہو گی تمام باتوں سے اور خبر دی حضرت کو وقت معین پر ہونے والی چیزوں سے اور مستثنیٰ کیا ماسوا کو یعنی کچھ باتیں ایسی تھیں کہ ان کا علم حضرت کو نہ دیا گیا۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الرَّيَّانِ بْنِ الصَّلْتِ قَالَ سَمِعْتُ الرِّضَا علیہ السلام يَقُولُ مَا بَعَثَ الله نَبِيّاً قَطُّ إِلا بِتَحْرِيمِ الْخَمْرِ وَأَنْ يُقِرَّ لله بِالْبَدَاءِ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام رضا علیہ السلام کو فرماتے سنا خدا نے نہیں مبعوث کیا کسی نبی کو مگر یہ کہ اس پر شراب کو حرام کیا اور بداء کا اس سے اقرار لیا۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ سُئِلَ الْعَالِمُ علیہ السلام كَيْفَ عِلْمُ الله قَالَ عَلِمَ وَشَاءَ وَأَرَادَ وَقَدَّرَ وَقَضَى وَأَمْضَى فَأَمْضَى مَا قَضَى وَقَضَى مَا قَدَّرَ وَقَدَّرَ مَا أَرَادَ فَبِعِلْمِهِ كَانَتِ الْمَشِيئَةُ وَبِمَشِيئَتِهِ كَانَتِ الارَادَةُ وَبِإِرَادَتِهِ كَانَ التَّقْدِيرُ وَبِتَقْدِيرِهِ كَانَ الْقَضَاءُ وَبِقَضَائِهِ كَانَ الامْضَاءُ وَالْعِلْمُ مُتَقَدِّمٌ عَلَى الْمَشِيئَةِ وَالْمَشِيئَةُ ثَانِيَةٌ وَالارَادَةُ ثَالِثَةٌ وَالتَّقْدِيرُ وَاقِعٌ عَلَى الْقَضَاءِ بِالامْضَاءِ فَلله تَبَارَكَ وَتَعَالَى الْبَدَاءُ فِيمَا عَلِمَ مَتَى شَاءَ وَفِيمَا أَرَادَ لِتَقْدِيرِ الاشْيَاءِ فَإِذَا وَقَعَ الْقَضَاءُ بِالامْضَاءِ فَلا بَدَاءَ فَالْعِلْمُ فِي الْمَعْلُومِ قَبْلَ كَوْنِهِ وَالْمَشِيئَةُ فِي الْمُنْشَإِ قَبْلَ عَيْنِهِ وَالارَادَةُ فِي الْمُرَادِ قَبْلَ قِيَامِهِ وَالتَّقْدِيرُ لِهَذِهِ الْمَعْلُومَاتِ قَبْلَ تَفْصِيلِهَا وَتَوْصِيلِهَا عِيَاناً وَوَقْتاً وَالْقَضَاءُ بِالامْضَاءِ هُوَ الْمُبْرَمُ مِنَ الْمَفْعُولاتِ ذَوَاتِ الاجْسَامِ الْمُدْرَكَاتِ بِالْحَوَاسِّ مِنْ ذَوِي لَوْنٍ وَرِيحٍ وَوَزْنٍ وَكَيْلٍ وَمَا دَبَّ وَدَرَجَ مِنْ إِنْسٍ وَجِنٍّ وَطَيْرٍ وَسِبَاعٍ وَغَيْرِ ذَلِكَ مِمَّا يُدْرَكُ بِالْحَوَاسِّ فَلله تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِيهِ الْبَدَاءُ مِمَّا لا عَيْنَ لَهُ فَإِذَا وَقَعَ الْعَيْنُ الْمَفْهُومُ الْمُدْرَكُ فَلا بَدَاءَ وَالله يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ فَبِالْعِلْمِ عَلِمَ الاشْيَاءَ قَبْلَ كَوْنِهَا وَبِالْمَشِيئَةِ عَرَّفَ صِفَاتِهَا وَحُدُودَهَا وَأَنْشَأَهَا قَبْلَ إِظْهَارِهَا وَبِالارَادَةِ مَيَّزَ أَنْفُسَهَا فِي أَلْوَانِهَا وَصِفَاتِهَا وَبِالتَّقْدِيرِ قَدَّرَ أَقْوَاتَهَا وَعَرَّفَ أَوَّلَهَا وَآخِرَهَا وَبِالْقَضَاءِ أَبَانَ لِلنَّاسِ أَمَاكِنَهَا وَدَلَّهُمْ عَلَيْهَا وَبِالامْضَاءِ شَرَحَ عِللها وَأَبَانَ أَمْرَهَا وَذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ۔
راوی نے پوچھا کیونکر جانا اللہ نے نظام مخلوقات کو آیا ایجاد سے قبل علم تھا یا کہ بعد میں ہوا۔ فرمایا اس نے جانا، ارادہ کیا، اندازہ کیا، حکم دیا، اس کو جاری کیا۔ پس جاری کیا جس کا حکم دیا اور جو حکم دیا اس کا اندازہ کیا اور جو اندازہ کیا وہ اراہ کیا پس علم کے ساتھ اس کی مشیت ہے اور مشیت کے ساتھ ارادہ ہے اور ارادہ کے ساتھ اندازہ ہے اندازہ کے ساتھ حکم ہے اور حکم کے ساتھ اجراء ہے پس علم مقدم ہے مشیت پر، مشیت کا نمبر دوسرا ہے اور ارادہ کا تیسرا ہے اور تقدیر یعنی اندازہ واقع ہوتا ہے حکم بالاجرا پر پس خدا کے لیے بداء ہے۔ علم میں جبکہ اس کی مشیت ہو اور اس میں ارادہ کیا چیزوں کے انداز کے لحاظ سے۔ پس جب قضا بغیر امضا ہو تا اس میں بداء نہیں۔ پس معلوم کا علم اس کے ہونے سے پہلے ہے مشیت منشاء میں قبل اس کے وجود کے ہے۔ اور ارادہ مراد میں قبل اس کے قیام کے ہے اور تقدیر ان معلومات میں قبل تفصیل کے ہے اور قبل اجزاء کے ملنے کے ظاہراً اور بلحاظ وقت اور جو قضا امضا کے ساتھ ہو وہ مستحکم ہے ان کے دوسرے امور سے جو ان صاحبان جسم سے متعلق ہوں جو حواس سے محسوس ہوتے ہیں اور جو صاحب رنگ و وزن و ناپ ہیں اور ان میں داخلہ ہے انس و جن ، پرندوں اور درندوں وغیرہ کا جو حواس سے ان کا ادراک ہوتا ہے تو اللہ کے لیے ان میں بداء ہوتا ہے جن کا وجود نہیں اور جب غیر مفہوم مدرک بحواس ہو تو بداء نہیں۔ خدا جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے پس اپنے علم سے اس نے اشیاء کو جانا ان کے پیدا ہونے سے قبل اور مشیت سے ان کی صفات کو پہچانا اور ان کے حدود و انشاء کو قبل ان کے ظاہر کرنے کے اور ارادہ سے جدا کیا ان کے نفسوں کو ان کے ایوان سے اور صفات سے اور تقدیر سے اندازہ کیا ان کے روزیوں کا اور پہچانا گیا ان کا اول ان کے آخر سے اور قضا سے جدا کیا ان لوگوں کو ان کے اماکن سے اور ان کی طرف ہدایت کی اور امضا سے ان کے اسباب کی شرح کی اور ان کے امر کو ظاہر کیا یہ ہے عزیز و حکیم خدا کی تقدیر۔