مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

(2-22)

جوامع التوحید

حدیث نمبر 1

مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الله وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى جَمِيعاً رَفَعَاهُ إِلَى أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام أَنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام اسْتَنْهَضَ النَّاسَ فِي حَرْبِ مُعَاوِيَةَ فِي الْمَرَّةِ الثَّانِيَةِ فَلَمَّا حَشَدَ النَّاسُ قَامَ خَطِيباً فَقَالَ الْحَمْدُ لله الْوَاحِدِ الاحَدِ الصَّمَدِ الْمُتَفَرِّدِ الَّذِي لا مِنْ شَيْءٍ كَانَ وَلا مِنْ شَيْءٍ خَلَقَ مَا كَانَ قُدْرَةٌ بَانَ بِهَا مِنَ الاشْيَاءِ وَبَانَتِ الاشْيَاءُ مِنْهُ فَلَيْسَتْ لَهُ صِفَةٌ تُنَالُ وَلا حَدٌّ تُضْرَبُ لَهُ فِيهِ الامْثَالُ كَلَّ دُونَ صِفَاتِهِ تَحْبِيرُ اللُّغَاتِ وَضَلَّ هُنَاكَ تَصَارِيفُ الصِّفَاتِ وَحَارَ فِي مَلَكُوتِهِ عَمِيقَاتُ مَذَاهِبِ التَّفْكِيرِ وَانْقَطَعَ دُونَ الرُّسُوخِ فِي عِلْمِهِ جَوَامِعُ التَّفْسِيرِ وَحَالَ دُونَ غَيْبِهِ الْمَكْنُونِ حُجُبٌ مِنَ الْغُيُوبِ تَاهَتْ فِي أَدْنَى أَدَانِيهَا طَامِحَاتُ الْعُقُولِ فِي لَطِيفَاتِ الامُورِ فَتَبَارَكَ الله الَّذِي لا يَبْلُغُهُ بُعْدُ الْهِمَمِ وَلا يَنَالُهُ غَوْصُ الْفِطَنِ وَتَعَالَى الَّذِي لَيْسَ لَهُ وَقْتٌ مَعْدُودٌ وَلا أَجَلٌ مَمْدُودٌ وَلا نَعْتٌ مَحْدُودٌ سُبْحَانَ الَّذِي لَيْسَ لَهُ أَوَّلٌ مُبْتَدَأٌ وَلا غَايَةٌ مُنْتَهًى وَلا آخِرٌ يَفْنَى سُبْحَانَهُ هُوَ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ وَالْوَاصِفُونَ لا يَبْلُغُونَ نَعْتَهُ وَحَدَّ الاشْيَاءَ كُلَّهَا عِنْدَ خَلْقِهِ إِبَانَةً لَهَا مِنْ شِبْهِهِ وَإِبَانَةً لَهُ مِنْ شِبْهِهَا لَمْ يَحْلُلْ فِيهَا فَيُقَالَ هُوَ فِيهَا كَائِنٌ وَلَمْ يَنْأَ عَنْهَا فَيُقَالَ هُوَ مِنْهَا بَائِنٌ وَلَمْ يَخْلُ مِنْهَا فَيُقَالَ لَهُ أَيْنَ لَكِنَّهُ سُبْحَانَهُ أَحَاطَ بِهَا عِلْمُهُ وَأَتْقَنَهَا صُنْعُهُ وَأَحْصَاهَا حِفْظُهُ لَمْ يَعْزُبْ عَنْهُ خَفِيَّاتُ غُيُوبِ الْهَوَاءِ وَلا غَوَامِضُ مَكْنُونِ ظُلَمِ الدُّجَى وَلا مَا فِي السَّمَاوَاتِ الْعُلَى إِلَى الارَضِينَ السُّفْلَى لِكُلِّ شَيْءٍ مِنْهَا حَافِظٌ وَرَقِيبٌ وَكُلُّ شَيْءٍ مِنْهَا بِشَيْءٍ مُحِيطٌ وَالْمُحِيطُ بِمَا أَحَاطَ مِنْهَا الْوَاحِدُ الاحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لا يُغَيِّرُهُ صُرُوفُ الازْمَانِ وَلا يَتَكَأَّدُهُ صُنْعُ شَيْءٍ كَانَ إِنَّمَا قَالَ لِمَا شَاءَ كُنْ فَكَانَ ابْتَدَعَ مَا خَلَقَ بِلا مِثَالٍ سَبَقَ وَلا تَعَبٍ وَلا نَصَبٍ وَكُلُّ صَانِعِ شَيْءٍ فَمِنْ شَيْ ءٍ صَنَعَ وَالله لا مِنْ شَيْءٍ صَنَعَ مَا خَلَقَ وَكُلُّ عَالِمٍ فَمِنْ بَعْدِ جَهْلٍ تَعَلَّمَ وَالله لَمْ يَجْهَلْ وَلَمْ يَتَعَلَّمْ أَحَاطَ بِالاشْيَاءِ عِلْماً قَبْلَ كَوْنِهَا فَلَمْ يَزْدَدَ بِكَوْنِهَا عِلْماً عِلْمُهُ بِهَا قَبْلَ أَنْ يُكَوِّنَهَا كَعِلْمِهِ بَعْدَ تَكْوِينِهَا لَمْ يُكَوِّنْهَا لِتَشْدِيدِ سُلْطَانٍ وَلا خَوْفٍ مِنْ زَوَالٍ وَلا نُقْصَانٍ وَلا اسْتِعَانَةٍ عَلَى ضِدٍّ مُنَاوٍ وَلا نِدٍّ مُكَاثِرٍ وَلا شَرِيكٍ مُكَابِرٍ لَكِنْ خَلائِقُ مَرْبُوبُونَ وَعِبَادٌ دَاخِرُونَ فَسُبْحَانَ الَّذِي لا يَئُودُهُ خَلْقُ مَا ابْتَدَأَ وَلا تَدْبِيرُ مَا بَرَأَ وَلا مِنْ عَجْزٍ وَلا مِنْ فَتْرَةٍ بِمَا خَلَقَ اكْتَفَى عَلِمَ مَا خَلَقَ وَخَلَقَ مَا عَلِمَ لا بِالتَّفْكِيرِ فِي عِلْمٍ حَادِثٍ أَصَابَ مَا خَلَقَ وَلا شُبْهَةٍ دَخَلَتْ عَلَيْهِ فِيمَا لَمْ يَخْلُقْ لَكِنْ قَضَاءٌ مُبْرَمٌ وَعِلْمٌ مُحْكَمٌ وَأَمْرٌ مُتْقَنٌ تَوَحَّدَ بِالرُّبُوبِيَّةِ وَخَصَّ نَفْسَهُ بِالْوَحْدَانِيَّةِ وَاسْتَخْلَصَ بِالْمَجْدِ وَالثَّنَاءِ وَتَفَرَّدَ بِالتَّوْحِيدِ وَالْمَجْدِ وَالسَّنَاءِ وَتَوَحَّدَ بِالتَّحْمِيدِ وَتَمَجَّدَ بِالتَّمْجِيدِ وَعَلا عَنِ اتِّخَاذِ الابْنَاءِ وَتَطَهَّرَ وَتَقَدَّسَ عَنْ مُلامَسَةِ النِّسَاءِ وَعَزَّ وَجَلَّ عَنْ مُجَاوَرَةِ الشُّرَكَاءِ فَلَيْسَ لَهُ فِيمَا خَلَقَ ضِدٌّ وَلا لَهُ فِيمَا مَلَكَ نِدٌّ وَلَمْ يَشْرَكْهُ فِي مُلْكِهِ أَحَدٌ الْوَاحِدُ الاحَدُ الصَّمَدُ الْمُبِيدُ لِلابَدِ وَالْوَارِثُ لِلامَدِ الَّذِي لَمْ يَزَلْ وَلا يَزَالُ وَحْدَانِيّاً أَزَلِيّاً قَبْلَ بَدْءِ الدُّهُورِ وَبَعْدَ صُرُوفِ الامُورِ الَّذِي لا يَبِيدُ وَلا يَنْفَدُ بِذَلِكَ أَصِفُ رَبِّي فَلا إِلَهَ إِلا الله مِنْ عَظِيمٍ مَا أَعْظَمَهُ وَمِنْ جَلِيلٍ مَا أَجَلَّهُ وَمِنْ عَزِيزٍ مَا أَعَزَّهُ وَتَعَالَى عَمَّا يَقُولُ الظَّالِمُونَ عُلُوّاً كَبِيراً۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے دوسری بار (بعد جنگ صفین) لوگوں کو معاویہ سے لڑنے کے لیے ابھارنا چاہا تو لوگوں کو جمع کر کے فرمایا حمد ہے اس خدا کی جو واحد و یگانہ ہے اور بے نیاز و تنہا ہے وہ نہ کسی چیز سے بنا ہے اور نہ کسی مادہ سے خلق ہوا ہے وہ قدرتِ محض ہے وہ اشیاء سے الگ ذات ہے اور اشیاء اس سے الگ ہیں اس کی صفت کا ادراک نہیں ہوتا نہ کوئی ایسی تعریف ہے کہ اس کی مثال بیان کی جائے۔ تھک کر رہ گئی ہے اس کی صفات کے بیان میں اہلِ زبان کی طاقتِ لسانی اور گم ہو گئے اللہ کے بارے میں ان صفات خصوصیات و اقسام جو لوگوں کےاذہان میں ہے اور حیران ہو کر رہ گئیں اس کی قدرت کے بارے میں غور و فکر کی گہرائیاں اور اس کے علم کے بارے میں وہ تمام صفات عاجز و درماندہ ہو گئے جو بڑے وسیع المعنی تھے اور اس کے چھپے ہوئے اسرار تک غیب کے بہت سے پردے حائل ہیں یعنی اس کے رازہائے قدرت کو انسانی عقول پا نہیں سکتیں اور اس کے لطیف و نازک امور کے دریافت کرنے میں دوررس عقل حیران ہو کر رہ گئیں ہیں۔
پاک ہے وہ اللہ کہ ہمتوں کی دوریاں اس تک نہیں پہنچ سکتیں اور عقل و شعور کی گہرائیاں اس کو پا نہیں سکتیں۔ صاحب عظمت و بزرگی ہے وہ ذات جس کے لیے نہ شمار میں آنے والا وقت ہے اور نہ کوئی لمبی مدت، اس کی صفات بغیر انبیاء کے بتائے کوئی نہیں بتا سکتا۔ وہ ایسا اول ہے کہ اس سے پہلے کچھ نہیں اور ایسا آخر ہے کہ اس سے آخر کوئی نہیں وہ پاک ذات ویسی ہی ہے جیسی اس نے اپنے نفس کی تعریف خود کی ہے ورنہ تعریف کرنے والے اس کی تعریف کو پا نہیں سکتے۔ تمام اشیاء کی حد اس تک ختم ہو جاتی ہے وہ ان سب سے جدا ہے اور ان میں حلول کیے ہوئے نہیں کہ کہا جائے کہ وہ فلاں شے کے اندر ہے اور نہ دور ہے کہ کہا جائے کہ وہ ان سے جدا ہے کوئی جگہ اس سے خالی نہیں کہ کہا جائے کہ وہ وہاں ہے بلکہ اس پاک ذات کا علم ہر شے کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور اسکی صنعت کو مضبوط بنائے ہوئے ہے اس کا حفظ ان کا احصا کیے ہوئے ہے کرہ ہوا کی باریک سے باریک پوشیدگیاں اس پر پوشیدہ نہیں اور تاریک راتوں کی ہر شے اس پر ظاہر ہے۔ آسمانوں کی بلندیوں سے لے کر زمین کی نیچائی تک وہ ہر شے کا حافظ و نگہبان ہے اس کا علم ہر شے کا احاطہ کیے ہوئے ہے وہ واحد احد و صمد ہے۔ زمانوں کی گردشیں اس میں کوئی تغیر نہیں کرتیں اور نہ کسی شے کی صنعت اسے تھکاتی ہے وہ کسی شے کو خلق کرنا چاہتاہے تو کہتا ہے ہو جا پس وہ ہو جاتی ہے اور اس نے بغیر کسی سابق مثال کے ہر شے کو ایجاد کیا اور نہ اسے کوئی تھکان محسوس ہوئی اور نہ رنج پہنچا۔ اس کے سوا ہر صانع جو کچھ بناتا ہے وہ کسی صنعت کو پیش نظر رکھ کر بناتا ہے اور ہر عالم جہالت کے بعد عالم ہوتا ہے اور اللہ کبھی جاہل نہ تھا اور نہ کبھی حصولِ علم کا محتاج ہوا اس کا علم ہر شے کا احاطہ کیے ہوئے ہے اشیاء کے پیدا ہونے سے پہلے وہ ان کا عالم ہے ان کو پیدا ہونے سے اس کے علم میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ اس کا علم قبل تکوین بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ ان کی اشیاء کی تکوین کے بعد اس نے چیزوں کو پیدا نہیں کیا اپنی سلطنت کو مضبوط بنانے کے لیے نہ خوفِ زوال و نقصان سے اسے کسی حملہ آور دشمن کے مقابل مدد کی ضرورت نہیں اور نہ کسی ساتھی اور شریک کی۔ تمام مخلوق کا رب وہی ہے اور سب اس کے سامنے ذلیل و حقیر ہیں۔
پاک و منزہ ہے وہ ذات جسے نہیں تھکاتا ابتدا میں کسی چیز کا پیدا کرنا اور نہ تدبیر کرنا اس مخلوق کی جس کو پیدا کیا ہے اور جو کچھ اس نے خلق کیا نہ اس میں عجز کو دخل ہے نہ سستی کو جو اس نے پیدا کیا اس کا علم رکھتا ہے اور جو علم رکھتا ہے اس کو پیدا کیا علمِ حادث میں اسے فکر کی ضرورت نہیں۔ جو پیدا کیا اس میں غلطی کا امکان ہے نہ شبہ کی گنجائش جو کچھ اس کا حکم ہے امرِ لازم ہے علمِ محکم اور امر ہے وہ اکیلا رب ہے اس نے اپنے نفس کو وحدانیت سے خالص کیا ہے اور مجد و ثناء کو اپنے لیے رکھا ہے وہ یکتا و یگانہ ہے توحید و بزرگی و شان میں وہ واحد ہے حمد کرنے والے کے ساتھ بزرگ ہے اپنی عظمت کے ساتھ وہ بزرگ و برتر ہے کہ اس کے اولاد ہو اور پاک و پاکیزہ ہے اس سے کہ اس سے عورتوں کی مجامعت ہو یا شرکاء کی مصاحبت ہو۔ نہ کوئی اس کی ضد ہے نہ کوئی اس کی مثل ہے اس کے ملک میں کوئی اس کا ساجھی نہیں وہ واحد و یگانہ ہے بے نیاز ہے ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ یکتائی والا ہے ازلی ہے زمانوں کی ابتداء سے قبل ہے اورر امور دنیا کی گردش کے بعد ہے وہ نہ ہلاک ہونے والا ہے نہ ختم ہونے والا اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس کی شان سب سے عظیم ہے وہ بڑا جلیل الشان ہے اور سب سے زیادہ عزیز ہے ظالم لوگ جو کچھ اس کے متعلق کہتے ہیں وہ اس سے پاک و پاکیزہ ہے۔

حدیث نمبر 2

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي حَمَّادٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ يَزِيدَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ إِنَّ الله تَبَارَكَ اسْمُهُ وَتَعَالَى ذِكْرُهُ وَجَلَّ ثَنَاؤُهُ سُبْحَانَهُ وَتَقَدَّسَ وَتَفَرَّدَ وَتَوَحَّدَ وَلَمْ يَزَلْ وَلا يَزَالُ وَهُوَ الاوَّلُ وَالاخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ فَلا أَوَّلَ لاوَّلِيَّتِهِ رَفِيعاً فِي أَعْلَى عُلُوِّهِ شَامِخُ الارْكَانِ رَفِيعُ الْبُنْيَانِ عَظِيمُ السُّلْطَانِ مُنِيفُ الالاءِ سَنِيُّ الْعَلْيَاءِ الَّذِي عَجَزَ الْوَاصِفُونَ عَنْ كُنْهِ صِفَتِهِ وَلا يُطِيقُونَ حَمْلَ مَعْرِفَةِ إِلَهِيَّتِهِ وَلا يَحُدُّونَ حُدُودَهُ لانَّهُ بِالْكَيْفِيَّةِ لا يُتَنَاهَى إِلَيْهِ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا نام مبارک ہے اس کا ذکر بلند ہے اور اس کی ثناء بزرگ ہے وہ لائق تسبیح و تقدیس ہے واحد و یکتا ہے۔ ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا وہ اول ہے وہ آخر ہے وہ ظاہر ہے وہ باطن ہے۔ وہ اول ہے مگر اس کی اولیت کی ابتداء نہیں وہ اپنے مرتبہ میں سب سے بلند ہے بلند ارکان اور بلند بنیاد اور عظیم قوت والا، نعمتوں کا عام کرنے والا۔ تعریف کرنے والے اس کی صفت کی حقیقت بیان کرنے میں عاجز ہیں اور اس کی الہٰیت کی معرفت کو اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اس کے اختیار کو محدود نہیں کر سکتے کیونکہ کیفیت (تغیر و تبدل) کا اس سے تعلق نہیں۔

حدیث نمبر 3

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنِ الْمُخْتَارِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُخْتَارِ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ الْحَسَنِ الْعَلَوِيِّ جَمِيعاً عَنِ الْفَتْحِ بْنِ يَزِيدَ الْجُرْجَانِيِّ قَالَ ضَمَّنِي وَأَبَا الْحَسَنِ علیہ السلام الطَّرِيقُ فِي مُنْصَرَفِي مِنْ مَكَّةَ إِلَى خُرَاسَانَ وَهُوَ سَائِرٌ إِلَى الْعِرَاقِ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ مَنِ اتَّقَى الله يُتَّقَى وَمَنْ أَطَاعَ الله يُطَاعُ فَتَلَطَّفْتُ فِي الْوُصُولِ إِلَيْهِ فَوَصَلْتُ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ عَلَيَّ السَّلامَ ثُمَّ قَالَ يَا فَتْحُ مَنْ أَرْضَى الْخَالِقَ لَمْ يُبَالِ بِسَخَطِ الْمَخْلُوقِ وَمَنْ أَسْخَطَ الْخَالِقَ فَقَمَنٌ أَنْ يُسَلِّطَ الله عَلَيْهِ سَخَطَ الْمَخْلُوقِ وَإِنَّ الْخَالِقَ لا يُوصَفُ إِلا بِمَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ وَأَنَّى يُوصَفُ الَّذِي تَعْجِزُ الْحَوَاسُّ أَنْ تُدْرِكَهُ وَالاوْهَامُ أَنْ تَنَالَهُ وَالْخَطَرَاتُ أَنْ تَحُدَّهُ وَالابْصَارُ عَنِ الاحَاطَةِ بِهِ جَلَّ عَمَّا وَصَفَهُ الْوَاصِفُونَ وَتَعَالَى عَمَّا يَنْعَتُهُ النَّاعِتُونَ نَأَى فِي قُرْبِهِ وَقَرُبَ فِي نَأْيِهِ فَهُوَ فِي نَأْيِهِ قَرِيبٌ وَفِي قُرْبِهِ بَعِيدٌ كَيَّفَ الْكَيْفَ فَلا يُقَالُ كَيْفَ وَأَيَّنَ الايْنَ فَلا يُقَالُ أَيْنَ إِذْ هُوَ مُنْقَطِعُ الْكَيْفُوفِيَّةِ وَالايْنُونِيَّةِ۔

فتح بن یزید جرجانی سے منقول ہے کہ جب میں مکہ سے خراسان واپس ہو رہا تھا تو امام رضا علیہ السلام سے راہ میں ملاقات ہوئی۔ میں نے حضرت سے سنا جو اللہ سے ڈرتا ہے لوگ اس سے ڈرتے ہیں اور جو اللہ کی اطاعت کرتا ہے لوگ اس کی اطاعت کرتے ہیں۔ میں نے چونکہ پورا مطلب نہیں سمجھا تھا لہذا دوسرے وقت حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کیا۔ آپ نے جواب دے کر فرمایا اے فتح جو خدا کو راضی رکھتا ہے وہ مخلوق کی ناراضگی کی پرواہ نہیں کرتا اور جس نے خالق کو ناراض کیا تو خدا ناراض مخلوق کو اس پر مسلط کرتا ہے۔ خالق کی تعریف ویسی ہی کرنی چاہیے جیسے خود اس نے اپنی تعریف کی ہے کہاں تعریف ہو سکتی ہے اس ذات کی جس کے ادراک سے حواس عاجز ہیں اور اوہام اس کو پا نہیں سکتے۔ خطرات قلبی اس کی حد بندی کر نہیں سکتے بینائیاں اسکو دیکھنے سے قاصر ہیں تعریف کرنے والے جتنی اس کی تعریف کرتے ہیں اس کی شان اس سے کہیں بلند و برتر ہے وہ باوجود قریب ہونے کے دور ہے اور باوجود دور ہونے کے قریب ہے دوری میں قربت اور قربت میں دوری ہے وہ کیفیتوں کا پیدا کرنے والا ہے پس کسی کیفیت سے اس کا کیا تعلق۔ وہ جگہ کا پیدا کرنے والا ہے پس وہ کسی جگہ میں کیوں ہو اس کے لیے نہ کیفیت ہے نہ مکانیت۔

حدیث نمبر 4

مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الله رَفَعَهُ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ بَيْنَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام يَخْطُبُ عَلَى مِنْبَرِ الْكُوفَةِ إِذْ قَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ ذِعْلِبٌ ذُو لِسَانٍ بَلِيغٍ فِي الْخُطَبِ شُجَاعُ الْقَلْبِ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ قَالَ وَيْلَكَ يَا ذِعْلِبُ مَا كُنْتُ أَعْبُدُ رَبّاً لَمْ أَرَهُ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ كَيْفَ رَأَيْتَهُ قَالَ وَيْلَكَ يَا ذِعْلِبُ لَمْ تَرَهُ الْعُيُونُ بِمُشَاهَدَةِ الابْصَارِ وَلَكِنْ رَأَتْهُ الْقُلُوبُ بِحَقَائِقِ الايمَانِ وَيْلَكَ يَا ذِعْلِبُ إِنَّ رَبِّي لَطِيفُ اللَّطَافَةِ لا يُوصَفُ بِاللُّطْفِ عَظِيمُ الْعَظَمَةِ لا يُوصَفُ بِالْعِظَمِ كَبِيرُ الْكِبْرِيَاءِ لا يُوصَفُ بِالْكِبَرِ جَلِيلُ الْجَلالَةِ لا يُوصَفُ بِالغِلَظِ قَبْلَ كُلِّ شَيْءٍ لا يُقَالُ شَيْءٌ قَبْلَهُ وَبَعْدَ كُلِّ شَيْءٍ لا يُقَالُ لَهُ بَعْدٌ شَاءَ الاشْيَاءَ لا بِهِمَّةٍ دَرَّاكٌ لا بِخَدِيعَةٍ فِي الاشْيَاءِ كُلِّهَا غَيْرُ مُتَمَازِجٍ بِهَا وَلا بَائِنٌ مِنْهَا ظَاهِرٌ لا بِتَأْوِيلِ الْمُبَاشَرَةِ مُتَجَلٍّ لا بِاسْتِهْلالِ رُؤْيَةٍ نَاءٍ لا بِمَسَافَةٍ قَرِيبٌ لا بِمُدَانَاةٍ لَطِيفٌ لا بِتَجَسُّمٍ مَوْجُودٌ لا بَعْدَ عَدَمٍ فَاعِلٌ لا بِاضْطِرَارٍ مُقَدِّرٌ لا بِحَرَكَةٍ مُرِيدٌ لا بِهَمَامَةٍ سَمِيعٌ لا بِآلَةٍ بَصِيرٌ لا بِأَدَاةٍ لا تَحْوِيهِ الامَاكِنُ وَلا تَضْمَنُهُ الاوْقَاتُ وَلا تَحُدُّهُ الصِّفَاتُ وَلا تَأْخُذُهُ السِّنَاتُ سَبَقَ الاوْقَاتَ كَوْنُهُ وَالْعَدَمَ وُجُودُهُ وَالابْتِدَاءَ أَزَلُهُ بِتَشْعِيرِهِ الْمَشَاعِرَ عُرِفَ أَنْ لا مَشْعَرَ لَهُ وَبِتَجْهِيرِهِ الْجَوَاهِرَ عُرِفَ أَنْ لا جَوْهَرَ لَهُ وَبِمُضَادَّتِهِ بَيْنَ الاشْيَاءِ عُرِفَ أَنْ لا ضِدَّ لَهُ وَبِمُقَارَنَتِهِ بَيْنَ الاشْيَاءِ عُرِفَ أَنْ لا قَرِينَ لَهُ ضَادَّ النُّورَ بِالظُّلْمَةِ وَالْيُبْسَ بِالْبَلَلِ وَالْخَشِنَ بِاللَّيِّنِ وَالصَّرْدَ بِالْحَرُورِ مُؤَلِّفٌ بَيْنَ مُتَعَادِيَاتِهَا وَمُفَرِّقٌ بَيْنَ مُتَدَانِيَاتِهَا دَالَّةً بِتَفْرِيقِهَا عَلَى مُفَرِّقِهَا وَبِتَأْلِيفِهَا عَلَى مُؤَلِّفِهَا وَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ فَفَرَّقَ بَيْنَ قَبْلٍ وَبَعْدٍ لِيُعْلَمَ أَنْ لا قَبْلَ لَهُ وَلا بَعْدَ لَهُ شَاهِدَةً بِغَرَائِزِهَا أَنْ لا غَرِيزَةَ لِمُغْرِزِهَا مُخْبِرَةً بِتَوْقِيتِهَا أَنْ لا وَقْتَ لِمُوَقِّتِهَا حَجَبَ بَعْضَهَا عَنْ بَعْضٍ لِيُعْلَمَ أَنْ لا حِجَابَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ خَلْقِهِ كَانَ رَبّاً إِذْ لا مَرْبُوبَ وَإِلَهاً إِذْ لا مَأْلُوهَ وَعَالِماً إِذْ لا مَعْلُومَ وَسَمِيعاً إِذْ لا مَسْمُوعَ۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک روز امیر المومنین علیہ السلام منبر کوفہ پر خطبہ بیان فرما رہے تھے کہ ذعلب نامے ایک مرد بلیغ اور دلیر تھا کھڑے ہو کر کہنے لگا اے امیر المومنین کیا آپؑ نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔ فرمایا وائے ہو تجھ پر میں بن دیکھے کی عبادت کیسے کرتا۔ اس نے پوچھا پھر آپؑ نے اس کو کیسا دیکھا۔ فرمایا اے ذعلب اس کو ان آنکھوں سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ اس کو قلب نے حقائقِ ایمان کے ساتھ دیکھا ہے وائے ہو تجھ پر اے ذعلب میرا رب بڑا لطیف ہے لیکن ایسی لطافت نہیں کہ بیان میں آ سکے اور بڑی عظمت والا ہے لیکن ایسی عظمت نہیں جس کا وصف بیان ہو سکے وہ صاحب کبر و کبریا ہے لیکن نہ ایسا کہ اس کا تکبر بیان میں آ سکے وہ ہر شے سے پہلے ہے اور ہر شے کے بعد لیکن یہ نہیں کہا جاتا کہ کوئی شے اس کے بعد ہے اس نے اشیاء کو خلق کیا لیکن پانے والی ہمت سے نہیں نہ مکر و فریب کو اس کی مشیت میں راہ ہے وہ ہر شے میں ہے لیکن کسی چیز سے ملا ہوا نہیں نہ وہ جدا ہے ظاہر ہے لیکن اس طرح نہیں جیسے اجسام ظاہر ہوتے ہیں وہ روشن ہے لیکن یہ روشنی اس طرح نہیں دیکھی جاتی جس طرح چاند کو ابرو پر ہاتھ رکھ کر دیکھتے ہیں وہ دور ہے مگر نہ بلحاظ مسافت قریب ہے لیکن نہ بلحاظ جگہ لطیف ہے نہ بلحاظ جسم موجود ہے لیکن عدم کے بعد نہیں فاعل ہے لیکن اضطراری صورت سے نہیں اور نہ ارادہ کی حرکت سے سننے والا ہے لیکن آلہ سے نہیں دیکھنے والا ہے لیکن کسی عضو سے نہیں، جگہیں اس کو گھیرتی نہیں، اوقات کے تعین کا اس سے تعلق نہیں، اس کی صفات کی حد نہیں، نیند اونگھ کا اس سے تعلق نہیں اس کا وجود اوقات سے قبل ہے اور عدم سے اس کے وجود کا تعلق نہیں، وہ ازلی ہے مشاعر یعنے حواس (چشم و گوش) اس کے خلق کرنے سے پہچانے گئے اور یہ جانا گیا کہ ان حواس کا اس سے تعلق نہیں اور جواہر اس کے پیدا کرنے سے ظاہر ہوئے وہ خود کوئی جوہر نہیں اور اشیاء کے درمیان تضاد نے بتایا کہ وہ کسی چیز کے قرین نہیں، جیسے نور کی ضد ظلمت، خشک کی تر اور سخت کی نرم سرد کی گرم۔ وہ ضد قوتوں کو ایک دوسرے سے ملانے والا ہے اور ملی ہوئی کو جدا کرنے والا ہے اور ان کا الگ ہونا اس کی دلیل ہے کہ کوئی ان کا جدا کرنے والا ہے اور ان کا ملانا اس کی دلیل ہے کہ کوئی انکا ملانے والا ہے۔ فرماتا ہے اور ہر شے سے ہم نے جوڑا پیدا کیا تاکہ تم یاد کرو اس سے قبل بعد میں تفریق کی تاکہ لوگ جان لیں کہ اس کے لیے قبل ہے نہ بعد اور متضاد چیزوں کو ملا کر ایک مزاج شخصی بنایا اس کی دلیل ہے کہ کوئی بنانے والا ہے اور اوقات معینہ کا ہونا دلیل ہے کہ اس کی کہ وقت اور زمانہ کا پیدا کرنے والا کوئی ہے اور بعض چیز کا حجاب بننا بعض کے لیے اس کی دلیل ہے کہ خدا اور مخلوق کے درمیان کوئی حجاب نہیں اور وہ رب تھا اس وقت بھی جب کوئی مربوب نہ تھا اور معبود تھا اس وقت بھی جب کوئی عبادت کرنے والا نہ تھا اور عالم تھا اس وقت بھی جب کوئی معلوم نہ تھا اور سننے والا تھا اس وقت بھی جبکہ کوئی مسموع نہ تھا۔

حدیث نمبر 5

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ شَبَابٍ الصَّيْرَفِيِّ وَاسْمُهُ مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ سَيْفِ بْنِ عَمِيرَةَ قَالَ حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ قُتَيْبَةَ قَالَ دَخَلْتُ أَنَا وَعِيسَى شَلَقَانُ عَلَى أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فَابْتَدَأَنَا فَقَالَ عَجَباً لاقْوَامٍ يَدَّعُونَ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام مَا لَمْ يَتَكَلَّمْ بِهِ قَطُّ خَطَبَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام النَّاسَ بِالْكُوفَةِ فَقَالَ الْحَمْدُ لله الْمُلْهِمِ عِبَادَهُ حَمْدَهُ وَفَاطِرِهِمْ عَلَى مَعْرِفَةِ رُبُوبِيَّتِهِ الدَّالِّ عَلَى وُجُودِهِ بِخَلْقِهِ وَبِحُدُوثِ خَلْقِهِ عَلَى أَزَلِهِ وَبِاشْتِبَاهِهِمْ عَلَى أَنْ لا شِبْهَ لَهُ الْمُسْتَشْهِدِ بِآيَاتِهِ عَلَى قُدْرَتِهِ الْمُمْتَنِعَةِ مِنَ الصِّفَاتِ ذَاتُهُ وَمِنَ الابْصَارِ رُؤْيَتُهُ وَمِنَ الاوْهَامِ الاحَاطَةُ بِهِ لا أَمَدَ لِكَوْنِهِ وَلا غَايَةَ لِبَقَائِهِ لا تَشْمُلُهُ الْمَشَاعِرُ وَلا تَحْجُبُهُ الْحُجُبُ وَالْحِجَابُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ خَلْقِهِ خَلْقُهُ إِيَّاهُمْ لامْتِنَاعِهِ مِمَّا يُمْكِنُ فِي ذَوَاتِهِمْ وَلامْكَانٍ مِمَّا يَمْتَنِعُ مِنْهُ وَلافْتِرَاقِ الصَّانِعِ مِنَ الْمَصْنُوعِ وَالْحَادِّ مِنَ الْمَحْدُودِ وَالرَّبِّ مِنَ الْمَرْبُوبِ الْوَاحِدُ بِلا تَأْوِيلِ عَدَدٍ وَالْخَالِقُ لا بِمَعْنَى حَرَكَةٍ وَالْبَصِيرُ لا بِأَدَاةٍ وَالسَّمِيعُ لا بِتَفْرِيقِ آلَةٍ وَالشَّاهِدُ لا بِمُمَاسَّةٍ وَالْبَاطِنُ لا بِاجْتِنَانٍ وَالظَّاهِرُ الْبَائِنُ لا بِتَرَاخِي مَسَافَةٍ أَزَلُهُ نُهْيَةٌ لِمَجَاوِلِ الافْكَارِ وَدَوَامُهُ رَدْعٌ لِطَامِحَاتِ الْعُقُولِ قَدْ حَسَرَ كُنْهُهُ نَوَافِذَ الابْصَارِ وَقَمَعَ وُجُودُهُ جَوَائِلَ الاوْهَامِ فَمَنْ وَصَفَ الله فَقَدْ حَدَّهُ وَمَنْ حَدَّهُ فَقَدْ عَدَّهُ وَمَنْ عَدَّهُ فَقَدْ أَبْطَلَ أَزَلَهُ وَمَنْ قَالَ أَيْنَ فَقَدْ غَيَّاهُ وَمَنْ قَالَ عَلامَ فَقَدْ أَخْلَى مِنْهُ وَمَنْ قَالَ فِيمَ فَقَدْ ضَمَّنَهُ۔

اسماعیل بن قتیبہ سے مروی ہے کہ میں اور عیسیٰ بن شلقان حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے کلام کی ابتداء یوں فرمائی کہ تعجب ہے ان لوگوں پر جو امیرالمومنین علیہ السلام کے متعلق ایسے کلام منسوب کرتے ہیں جو حضرت نے کبھی بیان ہی نہیں فرمائے۔ آپؑ نے کوفہ میں لوگوں کے سامنے بیان فرمایا کہ حمد ہے اس خدا کے لیے جس نے اپنے بندوں کے دلوں میں اپنی حمد کا الہام کیا اور اپنی ربوبیت کی معرفت پر ان کو پیدا کیا۔ اس کی مخلوق اس کے وجود کی دلیل ہے اور اس کی مخلوق کا حادث ہونا اس کے ازلی ہونے کا ثبوت ہے اور مخلوق کا باہم مشبہ ہونا اس کی دلیل ہے کہ اس کی ذات کے لیے مشابہت نہیں۔ اس کی آیات اس کی قدرت کی گواہ ہیں۔ صفات سے اس کی ذات کا پتہ چلانا ممنوع ہے آنکھوں سے اس کی رویت ممکن نہیں اور اوہام اس کا حاطہ نہیں کر سکتے۔ اس کے ہونے کی مدت نہیں اس کی بقاء کی کوئی حد نہیں ، حواس اس کو پا نہیں سکتے، حجاب اس کو روک نہیں سکتے اور حجاب اس کے اور اس کی مخلوق کے درمیان مخلوق کا حادث ہونا بتاتے ہیں کیونکہ جن چیزوں کا امکان مخلوق میں ہے خالق کی طرف ان کی نسبت منع ہے اور صانع و مصنوع اور محدود کرنے والے اور رب اور مربوب میں فرق ہے وہ واحد ہے لیکن عدد جیسا واحد نہیں، وہ خالق ہے لیکن کسی حرکت کے ساتھ نہیں، وہ دیکھنے والا ہے لیکن کسی آلہ و عضو سے نہیں وہ سننے والا ہے مگر کسی آلہ کے ذریعہ سے نہیں وہ حاضر ہے لیکن چیز سے مس ہونے والا نہیں۔
وہ باطن ہے لیکن کسی چیز کے اندر چھپا نہیں الظاہر کے معنی یہ ہیں کہ وہ جدا ہے لیکن بلحاظ مسافت نہیں اس کا ازلی ہونا افکار کی جولانگاہ سے دور ہے اور اس کا دوام عقول انسانی کی دسترس سے باہر ہے دوررس بینائیاں اس کی کہنہ ذات تک پہنچنے سے عاجز ہیں اور تیز پرواز اوہام کو اس کے وجود نے بیکار بنا دیا ہے پس جس نے اوصاف مخلوق سے خالق کو موصوف کیا اس نے خدا کے لیے حد مقرر کر دی (کیونکہ مخلوق خدا کی ہر صفت کے لیے ایک حد ہے) اور جس نے اس کے لیے حد بندی کی اس نے اسے شمار میں لے لیا اور جس نے اسے شمار کیا اس کی اولیت کو باطل قرار دیا، جس نے کہا کہ وہ کہاں ہے تو اس نے گمراہی اختیار کی اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی زحمت کو اس سے متعلق کیا اور جس نے کہا کہ کسی طرح پر ہے اس نے ایک جگہ کو اس سے خالی اور جس نے کہا کس چیز میں ہے اس نے اس کو کسی چیز کے بیچ میں لے لیا۔

حدیث نمبر 6

وَرَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ عَنْ صَالِحِ بْنِ حَمْزَةَ عَنْ فَتْحِ بْنِ عَبْدِ الله مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ قَالَ كَتَبْتُ إِلَى أَبِي إِبْرَاهِيمَ علیہ السلام أَسْأَلُهُ عَنْ شَيْءٍ مِنَ التَّوْحِيدِ فَكَتَبَ إِلَيَّ بِخَطِّهِ الْحَمْدُ لله الْمُلْهِمِ عِبَادَهُ حَمْدَهُ. وَذَكَرَ مِثْلَ مَا رَوَاهُ سَهْلُ بْنُ زِيَادٍ إِلَى قَوْلِهِ وَقَمَعَ وُجُودُهُ جَوَائِلَ الاوْهَامِ ثُمَّ زَادَ فِيهِ أَوَّلُ الدِّيَانَةِ بِهِ مَعْرِفَتُهُ وَكَمَالُ مَعْرِفَتِهِ تَوْحِيدُهُ وَكَمَالُ تَوْحِيدِهِ نَفْيُ الصِّفَاتِ عَنْهُ بِشَهَادَةِ كُلِّ صِفَةٍ أَنَّهَا غَيْرُ الْمَوْصُوفِ وَشَهَادَةِ الْمَوْصُوفِ أَنَّهُ غَيْرُ الصِّفَةِ وَشَهَادَتِهِمَا جَمِيعاً بِالتَّثْنِيَةِ الْمُمْتَنِعِ مِنْهُ الازَلُ فَمَنْ وَصَفَ الله فَقَدْ حَدَّهُ وَمَنْ حَدَّهُ فَقَدْ عَدَّهُ وَمَنْ عَدَّهُ فَقَدْ أَبْطَلَ أَزَلَهُ وَمَنْ قَالَ كَيْفَ فَقَدِ اسْتَوْصَفَهُ وَمَنْ قَالَ فِيمَ فَقَدْ ضَمَّنَهُ وَمَنْ قَالَ عَلامَ فَقَدْ جَهِلَهُ وَمَنْ قَالَ أَيْنَ فَقَدْ أَخْلَى مِنْهُ وَمَنْ قَالَ مَا هُوَ فَقَدْ نَعَتَهُ وَمَنْ قَالَ إِلامَ فَقَدْ غَايَاهُ عَالِمٌ إِذْ لا مَعْلُومَ وَخَالِقٌ إِذْ لا مَخْلُوقَ وَرَبٌّ إِذْ لا مَرْبُوبَ وَكَذَلِكَ يُوصَفُ رَبُّنَا وَفَوْقَ مَا يَصِفُهُ الْوَاصِفُونَ۔

راوی کہتا ہے میں نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے توحید کے بارے میں سوال کیا۔ حضرت نے اپنے قلم سے جواب لکھا سزاوار حمد ہے وہ ذات جس نے اپنے بندوں کو اپنی حمد کا الہام فرمایا۔ پھر فرمایا اس کے وجود نے عقول اور اوہام کی جولانیوں کو بیکار بنا دیا ہے۔ پھر فرمایا دین میں سب سے پہلی چیز خدا کی معرفت ہے اور اس کی معرفت کا کمال اس کی توحید ہے اور کمال توحید صفات مخلوق کی اس سے نفی ہے ہر صفت اس پر گواہ ہے کہ وہ موصوف سے علیحدہ ہے اور یہ دونوں اس پر گواہ ہیں کہ ازلی نہیں۔ جس نے کیفیات سے خدا کی تعریف کی اس نے خدا کے لیے حد بندی کر دی اور جس نے اسے محدود کیا اس نے گویا اسے گن لیا اور جس نے شمار کیا اس نے ازلی ہونے کو باطل قرار دے دیا۔ جس نے اس کے متعلق کیونکر ہے سے سوال کیا اس نے مخلوق کے اوصاف سے موصوف کیا جس نے کہا کسی چیز میں ہے اس نے اس کو بیچ میں لے لیا اور جس نے کہا کسی چیز پر ہے وہ اس سے جاہل رہا اور جس نے کہا وہ کہاں ہے اس نے ایک جگہ کو اس سے خالی قرار دیا جس نے کہا وہ کیا ہے اس نے اس کی تعریف کرنی چاہی اور جس نے کہا کہاں تک ہے اس نے حد قائم کی وہ عالم تھا جبکہ کوئی معلوم نہ تھا وہ خالق تھا جبکہ کوئی مخلوق نہ تھی اور وہ اس وقت بھی رب تھا جب کوئی مربوب نہ تھا اس طرح ہمارے رب کا وصف بیان ہوتا ہے اس کی ذات وصف بیان کرنیوالوں کے وصف سے بالاتر ہے۔

حدیث نمبر 7

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ النَّضْرِ وَغَيْرِهِ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ عَمْرِو بْنِ ثَابِتٍ عَنْ رَجُلٍ سَمَّاهُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ السَّبِيعِيِّ عَنِ الْحَارِثِ الاعْوَرِ قَالَ خَطَبَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام خُطْبَةً بَعْدَ الْعَصْرِ فَعَجِبَ النَّاسُ مِنْ حُسْنِ صِفَتِهِ وَمَا ذَكَرَهُ مِنْ تَعْظِيمِ الله جَلَّ جَلالُهُ قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ فَقُلْتُ لِلْحَارِثِ أَ وَمَا حَفِظْتَهَا قَالَ قَدْ كَتَبْتُهَا فَأَمْلاهَا عَلَيْنَا مِنْ كِتَابِهِ الْحَمْدُ لله الَّذِي لا يَمُوتُ وَلا تَنْقَضِي عَجَائِبُهُ لانَّهُ كُلَّ يَوْمٍ فِي شَأْنٍ مِنْ إِحْدَاثِ بَدِيعٍ لَمْ يَكُنِ الَّذِي لَمْ يَلِدْ فَيَكُونَ فِي الْعِزِّ مُشَارَكاً وَلَمْ يُولَدْ فَيَكُونَ مَوْرُوثاً هَالِكاً وَلَمْ تَقَعْ عَلَيْهِ الاوْهَامُ فَتُقَدِّرَهُ شَبَحاً مَاثِلاً وَلَمْ تُدْرِكْهُ الابْصَارُ فَيَكُونَ بَعْدَ انْتِقَالِهَا حَائِلاً الَّذِي لَيْسَتْ فِي أَوَّلِيَّتِهِ نِهَايَةٌ وَلا؛!!ّّ لآِخِرِيَّتِهِ حَدٌّ وَلا غَايَةٌ الَّذِي لَمْ يَسْبِقْهُ وَقْتٌ وَلَمْ يَتَقَدَّمْهُ زَمَانٌ وَلا يَتَعَاوَرُهُ زِيَادَةٌ وَلا نُقْصَانٌ وَلا يُوصَفُ بِأَيْنٍ وَلا بِمَ وَلا مَكَانٍ الَّذِي بَطَنَ مِنْ خَفِيَّاتِ الامُورِ وَظَهَرَ فِي الْعُقُولِ بِمَا يُرَى فِي خَلْقِهِ مِنْ عَلامَاتِ التَّدْبِيرِ الَّذِي سُئِلَتِ الانْبِيَاءُ عَنْهُ فَلَمْ تَصِفْهُ بِحَدٍّ وَلا بِبَعْضٍ بَلْ وَصَفَتْهُ بِفِعَالِهِ وَدَلَّتْ عَلَيْهِ بِآيَاتِهِ لا تَسْتَطِيعُ عُقُولُ الْمُتَفَكِّرِينَ جَحْدَهُ لانَّ مَنْ كَانَتِ السَّمَاوَاتُ وَالارْضُ فِطْرَتَهُ وَمَا فِيهِنَّ وَمَا بَيْنَهُنَّ وَهُوَ الصَّانِعُ لَهُنَّ فَلا مَدْفَعَ لِقُدْرَتِهِ الَّذِي نَأَى مِنَ الْخَلْقِ فَلا شَيْءَ كَمِثْلِهِ الَّذِي خَلَقَ خَلْقَهُ لِعِبَادَتِهِ وَأَقْدَرَهُمْ عَلَى طَاعَتِهِ بِمَا جَعَلَ فِيهِمْ وَقَطَعَ عُذْرَهُمْ بِالْحُجَجِ فَعَنْ بَيِّنَةٍ هَلَكَ مَنْ هَلَكَ وَبِمَنِّهِ نَجَا مَنْ نَجَا وَلله الْفَضْلُ مُبْدِئاً وَمُعِيداً ثُمَّ إِنَّ الله وَلَهُ الْحَمْدُ افْتَتَحَ الْحَمْدَ لِنَفْسِهِ وَخَتَمَ أَمْرَ الدُّنْيَا وَمَحَلَّ الاخِرَةِ بِالْحَمْدِ لِنَفْسِهِ فَقَالَ وَقَضَى بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَقِيلَ الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِينَ الْحَمْدُ لله اللابِسِ الْكِبْرِيَاءِ بِلا تَجْسِيدٍ وَالْمُرْتَدِي بِالْجَلالِ بِلا تَمْثِيلٍ وَالْمُسْتَوِي عَلَى الْعَرْشِ بِغَيْرِ زَوَالٍ وَالْمُتَعَالِي عَلَى الْخَلْقِ بِلا تَبَاعُدٍ مِنْهُمْ وَلا مُلامَسَةٍ مِنْهُ لَهُمْ لَيْسَ لَهُ حَدٌّ يُنْتَهَى إِلَى حَدِّهِ وَلا لَهُ مِثْلٌ فَيُعْرَفَ بِمِثْلِهِ ذَلَّ مَنْ تَجَبَّرَ غَيْرَهُ وَصَغُرَ مَنْ تَكَبَّرَ دُونَهُ وَتَوَاضَعَتِ الاشْيَاءُ لِعَظَمَتِهِ وَانْقَادَتْ لِسُلْطَانِهِ وَعِزَّتِهِ وَكَلَّتْ عَنْ إِدْرَاكِهِ طُرُوفُ الْعُيُونِ وَقَصُرَتْ دُونَ بُلُوغِ صِفَتِهِ أَوْهَامُ الْخَلائِقِ الاوَّلِ قَبْلَ كُلِّ شَيْءٍ وَلا قَبْلَ لَهُ وَالاخِرِ بَعْدَ كُلِّ شَيْءٍ وَلا بَعْدَ لَهُ الظَّاهِرِ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ بِالْقَهْرِ لَهُ وَالْمُشَاهِدِ لِجَمِيعِ الامَاكِنِ بِلا انْتِقَالٍ إِلَيْهَا لا تَلْمِسُهُ لامِسَةٌ وَلا تَحُسُّهُ حَاسَّةٌ هُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ إِلَهٌ وَفِي الارْضِ إِلَهٌ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْعَلِيمُ أَتْقَنَ مَا أَرَادَ مِنْ خَلْقِهِ مِنَ الاشْبَاحِ كُلِّهَا لا بِمِثَالٍ سَبَقَ إِلَيْهِ وَلا لُغُوبٍ دَخَلَ عَلَيْهِ فِي خَلْقِ مَا خَلَقَ لَدَيْهِ ابْتَدَأَ مَا أَرَادَ ابْتِدَاءَهُ وَأَنْشَأَ مَا أَرَادَ إِنْشَاءَهُ عَلَى مَا أَرَادَ مِنَ الثَّقَلَيْنِ الْجِنِّ وَالانْسِ لِيَعْرِفُوا بِذَلِكَ رُبُوبِيَّتَهُ وَتَمَكَّنَ فِيهِمْ طَاعَتُهُ نَحْمَدُهُ بِجَمِيعِ مَحَامِدِهِ كُلِّهَا عَلَى جَمِيعِ نَعْمَائِهِ كُلِّهَا وَنَسْتَهْدِيهِ لِمَرَاشِدِ أُمُورِنَا وَنَعُوذُ بِهِ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا وَنَسْتَغْفِرُهُ لِلذُّنُوبِ الَّتِي سَبَقَتْ مِنَّا وَنَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا الله وَأَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ بَعَثَهُ بِالْحَقِّ نَبِيّاً دَالاً عَلَيْهِ وَهَادِياً إِلَيْهِ فَهَدَى بِهِ مِنَ الضَّلالَةِ وَاسْتَنْقَذَنَا بِهِ مِنَ الْجَهَالَةِ مَنْ يُطِعِ الله وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزاً عَظِيماً وَنَالَ ثَوَاباً جَزِيلاً وَمَنْ يَعْصِ الله وَرَسُولَهُ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَاناً مُبِيناً وَاسْتَحَقَّ عَذَاباً أَلِيماً فَأَنْجِعُوا بِمَا يَحِقُّ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِخْلاصِ النَّصِيحَةِ وَحُسْنِ الْمُؤَازَرَةِ وَأَعِينُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ بِلُزُومِ الطَّرِيقَةِ الْمُسْتَقِيمَةِ وَهَجْرِ الامُورِ الْمَكْرُوهَةِ وَتَعَاطَوُا الْحَقَّ بَيْنَكُمْ وَتَعَاوَنُوا بِهِ دُونِي وَخُذُوا عَلَى يَدِ الظَّالِمِ السَّفِيهِ وَمُرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَاعْرِفُوا لِذَوِي الْفَضْلِ فَضْلَهُمْ عَصَمَنَا الله وَإِيَّاكُمْ بِالْهُدَى وَثَبَّتَنَا وَإِيَّاكُمْ عَلَى التَّقْوَى وَأَسْتَغْفِرُ الله لِي وَلَكُمْ۔

حارث اعور سے مروی ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے بعد عصر خطبہ پڑھا لوگوں نے اس کی حسن صفت پر تعجب کیا اور خداوند عالم کی عظمت و جبروت کے متعلق جو بیان فرمایا لوگ اس سے حیرت میں آ گئے۔ ابو اسحاق کہتے ہیں میں نے حارث سے کہا کیا تم نے حضرت کے خطبہ کو یاد کر لیا ہے۔ اس نے کہا میں نے لکھ لیا ہے پس اس نے ہمیں بھی لکھوا دیا۔ وہ خطبہ یہ ہے۔ حمد ہے اس خدا کے لیے جس کے لیے موت نہیں اور جس کی قدرت کے عجائبات ختم ہونے والے نہیں۔ اس لیے کہ ہر روز وہ ایک نئی ایجاد کرتا ہے وہ کسی کو پیدا کرنے والا نہیں یعنی اس کا کوئی بیٹا نہیں کہ عزت میں اس کا شریک ہو نہ اس کا کوئی باپ ہے کہ اس کی میراث کا مالک ہو اوہام اس کی ساخت جلال تک ذکر ہی نہیں کہ اس کے متعلق کوئی ہلکا سا اندازہ بھی ہو سکے نہ اس کی اولیت کی کوئی حد ہے اور نہ اس کی آخرت کی، وقت نے اس پر سبقت نہیں کی اور نہ زمانہ اس سے مقدم ہوا اور زیادتی اور نقصان کا اس سے تعلق نہیں اس کا وصف نہیں کیا جاتا کہ وہ کہاں ہے اور کیسے ہے اور اس کی کہنہ ذات باریک ہے باریک چیز سے زیادہ مخفی ہے اور اس کی تدبیر کی علامتیں جو مخلوق میں ہیں عقول انسانی انہی کی معرفت حاصل کرتی ہیں یہی اس کی قدرت کے اسرار ہیں جن کے متعلق انبیاء سے بھی سوال کیا جائے گا۔ پس اس کی تعریف نہ حد کے ساتھ ہوتی ہے نہ بعضیت کے ساتھ بلکہ اس کے فعل کی تعریف کی جاتی ہے اور اس کی آیات اس کے کمال قدرت کی دلیل ہیں جن کا انکار کرنے والوں کی عقلیں انکار نہیں کر سکتیں کیونکہ آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان یا ان کے اوپر ہے سب اسی کی صنعت ہے کس کی طاقت ہے کہ اس کی قدرت کے عمل کو دفع کر سکے۔ خدا اپنی مخلوق سے الگ ہے کوئی شے اس کی مثل نہیں۔ اس نے اپنی مخلوق کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور اپنی اطاعت پر ان کو قدرت دی ہے اور اپنے انبیاء و مرسلین کو بھیج کر اپنی حجت بندوں پر تمام کر دی۔ پس جس کو ہلاک ہونا تھا وہ نافرمانی کر ک ہلاک ہوا اور خدا کے احسان کے ساتھ جس کو نجات پانی تھی نجات پا گیا خدا کے لیے فضل و بزرگی ہے اول میں اور آخر میں، بے شک اللہ وہ ہے جس نے اپنے نفس کے لیے حمد کی ابتداء کی اور اپنی حمد پر دنیا کا خاتمہ کیا اور حق کے ساتھ لوگوں کا فیصلہ کیا اور حمد ہے رب العالمین کے لیے۔
اور حمد ہے اس اللہ کے لیے جس نے کبر کا لباس بے جسم کے پہنا، جس نے جلال کی ردا بغیر کسی پیکر کے اوڑھی جو عرش پر غالب آیا بغیر کسی تغیر اور کسی زوال کے وہ اپنی مخلوق سے بلند و برتر ہے بغیر ان سے دوری کے اور اس کا مخلوق سے کوئی اتصال نہیں، اس کے لیے کوئی حد نہیں جو کسی جا پہنچ کر ختم ہو نہ اس کی مثل و مانند کوئی ہے کہ وہ اس کے ذریعہ سے پہچانا جائے۔ ذلیل ہوا جس نے اس کے غیر کی قوت کو تسلیم کیا اور حقیر ہوا جس نے اس کے غیر کو بڑا جانا اس کی عظمت کے سامنے ہر شے کا سر جھکا ہوا ہے اور اس کی عزت اور قوت کے سامنے ہر شے نے اپنی اطاعت کا اظہار کیا ہے۔ آنکھیں اس کے ادراک سے تھک گئی ہیں اور خلائق کی عقول اس کی صفت کی انتہا تک پہنچنے سے قاصر ہیں وہ اول ہے یعنی شے سے پہلے کوئی اس سے پہلے نہیں ہر شے سے بعد ہے کوئی اس کے بعد نہیں۔ وہ اپنی قوت سے ہر شے پر ظاہر ہے تمام مقامات پر موجود ہے بغیر اس کے کہ کسی جگہ کی طرف منتقل ہو چھونے والی کوئی چیز اسے چھو نہیں سکتی اور کوئی حاسہ اس کا ادراک نہیں کر سکتا وہ آسمان میں بھی موجود ہے اور زمین میں بھی۔ وہ بڑی حکمت والا ہے اور بڑا جاننے والا ہے اس نے جس چیز کو بنانے کا ارادہ کیا تو اسے بنا دیا بغیر کسی نمونہ کو سامنے رکھے اور کسی قسم کی تھکاوٹ کا تعلق اس سے نہیں ہوتا اس نے جس چیز کی ابتداء کا ارادہ کیا تو کر دکھایا اور جن و انس میں سے جس چیز کا ایجاد کرنا چاہے اسے بے روک ٹوک پیدا کر دیا تاکہ لوگ اس کی ربوبیت کو پہچانیں اور اس کی اطاعت پر قدرت رکھیں۔
اور ہم خدا کی حمد کرتے ہیں اس کے تمام محامد کے ساتھ اور اس کی تمام نعمتوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور نیک امور میں اس سے ہدایت چاہتے ہیں اور بد اعمالیوں سے اس کی پناہ چاہتے ہیں اور جو گناہ ہم سے پہلے ہو چکے ہیں ان کی معافی چاہتے ہیں اور اس کی گواہی دیتے ہیں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اس کے عبد اس کے رسول ہیں اس نے ان کو حق کے ساتھ رسول بنا کر بھیجا جو حق کی طرف دلالت کرتا ہے اور حق کی طرف ہدایت کرنے والا ہے۔ پس آنحضرت کی وجہ سے ضلالت سے بچے اور جہالت سے محفوظ رہے جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی اس نے پوری کامیابی حاصل کی اور بڑا ثواب حاصل کیا اور جس نے خدا اور رسول کی نافرمانی کی وہ کھلے خسارے میں مبتلا ہوا اور دردناک عذاب کا مستحق ہوا۔ پس فلاح حاصل کرو اس طرح کہ جو حق تم پر قائم کیا گیا ہے اسے خوشی سے قبول کرو اور سچے دل سے نصیحت کو مانو اور ایک دوسرے کی اچھی طرح مدد کرو اور صراط مستقیم پر قائم رہ کر اپنے نفسوں کی مدد کرو اور امور مکروہ کو چھوڑو اور اپنے درمیان حق کا لحاظ رکھو اور ایک دوسرے کی مدد کرو اور جاہل ظالم کے ہاتھوں سے بچاؤ اور نیک باتوں کا حکم دو اور بری باتوں سے روکو اور صاحبان فضیلت کو پہچانو، خدا ہم اور تم کو ہدایت کی پناہ میں رکھے اور تقویٰ پر ہم کو اور تم کو ثابت قدم رکھے اور میں خدا سے استغفار کرتا ہوں تمہارے اور اپنے لیے۔