عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْبَرْقِيِّ رَفَعَهُ قَالَ سَأَلَ الْجَاثَلِيقُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام فَقَالَ أَخْبِرْنِي عَنِ الله عَزَّ وَجَلَّ يَحْمِلُ الْعَرْشَ أَمِ الْعَرْشُ يَحْمِلُهُ فَقَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام الله عَزَّ وَجَلَّ حَامِلُ الْعَرْشِ وَالسَّمَاوَاتِ وَالارْضِ وَمَا فِيهِمَا وَمَا بَيْنَهُمَا وَذَلِكَ قَوْلُ الله عَزَّ وَجَلَّ إِنَّ الله يُمْسِكُ السَّماواتِ وَالارْضَ أَنْ تَزُولا وَلَئِنْ زالَتا إِنْ أَمْسَكَهُما مِنْ أَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ إِنَّهُ كانَ حَلِيماً غَفُوراً قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنْ قَوْلِهِ وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمانِيَةٌ فَكَيْفَ قَالَ ذَلِكَ وَقُلْتَ إِنَّهُ يَحْمِلُ الْعَرْشَ وَالسَّمَاوَاتِ وَالارْضَ فَقَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّ الْعَرْشَ خَلَقَهُ الله تَعَالَى مِنْ أَنْوَارٍ أَرْبَعَةٍ نُورٍ أَحْمَرَ مِنْهُ احْمَرَّتِ الْحُمْرَةُ وَنُورٍ أَخْضَرَ مِنْهُ اخْضَرَّتِ الْخُضْرَةُ وَنُورٍ أَصْفَرَ مِنْهُ اصْفَرَّتِ الصُّفْرَةُ وَنُورٍ أَبْيَضَ مِنْهُ ابْيَضَّ الْبَيَاضُ وَهُوَ الْعِلْمُ الَّذِي حَمَّلَهُ الله الْحَمَلَةَ وَذَلِكَ نُورٌ مِنْ عَظَمَتِهِ فَبِعَظَمَتِهِ وَنُورِهِ أَبْصَرَ قُلُوبُ الْمُؤْمِنِينَ وَبِعَظَمَتِهِ وَنُورِهِ عَادَاهُ الْجَاهِلُونَ وَبِعَظَمَتِهِ وَنُورِهِ ابْتَغَى مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالارْضِ مِنْ جَمِيعِ خَلائِقِهِ إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ بِالاعْمَالِ الْمُخْتَلِفَةِ وَالادْيَانِ الْمُشْتَبِهَةِ فَكُلُّ مَحْمُولٍ يَحْمِلُهُ الله بِنُورِهِ وَعَظَمَتِهِ وَقُدْرَتِهِ لا يَسْتَطِيعُ لِنَفْسِهِ ضَرّاً وَلا نَفْعاً وَلا مَوْتاً وَلا حَيَاةً وَلا نُشُوراً فَكُلُّ شَيْءٍ مَحْمُولٌ وَالله تَبَارَكَ وَتَعَالَى الْمُمْسِكُ لَهُمَا أَنْ تَزُولا وَالْمُحِيطُ بِهِمَا مِنْ شَيْءٍ وَهُوَ حَيَاةُ كُلِّ شَيْءٍ وَنُورُ كُلِّ شَيْءٍ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوّاً كَبِيراً قَالَ لَهُ فَأَخْبِرْنِي عَنِ الله عَزَّ وَجَلَّ أَيْنَ هُوَ فَقَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ هُوَ هَاهُنَا وَهَاهُنَا وَفَوْقُ وَتَحْتُ وَمُحِيطٌ بِنَا وَمَعَنَا وَهُوَ قَوْلُهُ ما يَكُونُ مِنْ نَجْوىثَلاثَةٍ إِلا هُوَ رابِعُهُمْ وَلا خَمْسَةٍ إِلا هُوَ سادِسُهُمْ وَلا أَدْنىمِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ إِلا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ ما كانُوا فَالْكُرْسِيُّ مُحِيطٌ بِالسَّمَاوَاتِ وَالارْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرَى وَإِنْ تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى وَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّماواتِ وَالارْضَ وَلا يَؤُدُهُ حِفْظُهُما وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ فَالَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ هُمُ الْعُلَمَاءُ الَّذِينَ حَمَّلَهُمُ الله عِلْمَهُ وَلَيْسَ يَخْرُجُ عَنْ هَذِهِ الارْبَعَةِ شَيْءٌ خَلَقَ الله فِي مَلَكُوتِهِ الَّذِي أَرَاهُ الله أَصْفِيَاءَهُ وَأَرَاهُ خَلِيلَهُ فَقَالَ وَكَذلِكَ نُرِي إِبْراهِيمَ مَلَكُوتَ السَّماواتِ وَالارْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ وَكَيْفَ يَحْمِلُ حَمَلَةُ الْعَرْشِ الله وَبِحَيَاتِهِ حَيِيَتْ قُلُوبُهُمْ وَبِنُورِهِ اهْتَدَوْا إِلَى مَعْرِفَتِهِ۔
امیر المومنین علیہ السلام سے ایک یہودی عالم نے کہا مجھے یہ بتائیے کہ اللہ عرش کو اٹھائے ہوئے ہے یا عرش اللہ کو، آپؑ نے فرمایا خدا عزوجل آسمانوں، زمین جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ان سب کی روک تھام کرنےوالا ہے جیسا کہ فرماتا ہے اللہ آسمانوں اور زمین کو زائل ہونے سے روکنے والا ہے اگر اس کے علاوہ کوئی دوسرا روک تھام کرنے والا ہوتا تو یہ کارخانہ کب کا ملیامیٹ ہو چکا ہوتا۔ بے شک خدا حلیم و غفور ہے اس نے کہا مجھے خدا کے اس قول کا مطلب بتائیے تیرے رب کا عرش اس روز لوگوں کے اوپر آٹھ فرشتے اٹھائے ہوں گے۔ پس کیوں کر موافقت ہو گی آپؑ کے اس قول سے وہ اٹھاتا ہے عرش کو آسمانوں اور زمینوں کو۔ حضرت نے فرمایا عرش سے مراد مخلوق ہے جس کو خدا نے چار نوروں سے پیدا کیا ہے سرخ نور جس سے سرخی پیدا کی اور سبز نور جس سے سبزی پیدا کی اور زرد نور جس سے زردی پیدا ہوئی اور سفید نور جس سے سفیدی پیدا ہوئی یہ وہ علم ہے جس کو بار کیا گیا حاملان عرش پر یعنی تفصیل سے یہ علم ان کو دیا گیا کہ یہ نور اس کا نور عظمت ہے پس اس نے اپنی عظمت و نور سے قلوب مومنینِ خاص کو بینا کیا اور اسی عظمت و نور سے جاہلوں نے اس سے دشمنی کی (اپنی غلط فہمی کی بناء پر ) اور اسی کے عظمت و نور سے مخلوقات سماوی و ارضی نے اپنے مختلف اعمال سے اور مشتبہ ادیان سے اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈا۔ پس ہر اٹھایا ہوا جس کو اللہ نے اپنے نورِ عظمت سے اور اپنی قدرت سے اٹھایا ہے نہ اپنے نفس کے لیے نقصان کی طاقت رکھتا ہے نہ نفع کی نہ زندگی کی نہ حشر و نشر کی۔ پس ہر شے محمول ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے آسمان و زمین کو زائل ہونے سے روکے ہوئے ہے اور ان دونوں کا ایک شے سے احاطہ کیے ہوئے ہے اور وہ ہر شے کی زندگی ہے اور ہر شے کا نور ہے لوگ جو کچھ غلط بیان کرتے ہیں اس کے بارے میں وہ اس سے بہت بلند و بالا ہے۔
اس نے کہا مجھے بتائیے اللہ کہاں ہے۔ حضرت نے فرمایا وہ یہاں بھی ہے اور وہاں بھی، اوپر بھی نیچے بھی، ہمارا احاطہ (علم و قدرت) کیے ہوئے ہے اور ہر جگہ ہمارے ساتھ ہے۔ جیسا فرماتا ہے جہاں تین کی سرگوشی ہے وہ چوتھا ہے، جہاں پانچ ہے وہ چھٹا ہے اس سے کم ہوں یا زیادہ ہر جگہ ان کے ساتھ ہے۔ اور کرسی (مراد علمِ باری تعالیٰ) احاطہ کیے ہوئے ہے آسمانوں اور زمینوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اور جو زمین کے نیچے ہے اور زیادہ واضح ہو تو وہ ہر ایک چھپے ہوئے بھید کو جانتا ہے اور یہی مراد ہے خدا کے اس قول سے گھیر لیا ہے اس کی کرسی (علم) نے آسمانوں اور زمین کو اور ان دونوں کی حفاظت اسے تھکاتی نہیں۔ وہ بلند مرتبہ اور بزرگی والا ہے۔ حاملانِ عرش سے مراد وہ علمائے دین ہیں جو علومِ الہٰیہ کے اٹھائے ہوئے ہیں (انبیاء اور آئمہ) اور کوئی شے جو ملکوت خدا میں خلق ہوئی ہے چار مذکورہ بالا نوروں سے خالی نہیں (نورِ احمر، نور اضفر، نور اخضر اور نور ابیض) یہی ملکوت ہیں جنھیں خدا نے اپنے اصفیا کو دکھایا ہے یہی اپنے خلیل کو دکھائیے تھے۔ جیسا کہ فرماتا ہے کہ ہم نے ابراہیمؑ کو آسمانوں اور زمین کے ملکوت دکھائے تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے بنے رہیں اور کیونکر حاملانِ عرش عرش کو اٹھا سکتے ہیں درآنحالیکہ اس کی حیات سے ان کے قلوب میں زندگی آئی اور اسی کے نور سے اس کی معرفت کی طرف ہدایت ہوئی ہے (خلاصہ کلام یہ ہے کہ کرسی سے مراد وہ کرسی نہیں جو ہمارے ذہن میں ہے بلکہ وہ تمام علوم مراد ہیں جس کا تعلق آسمانوں اور زمین کے تمام نظاموں سے ہے بلکہ سوائے انبیاء و اصفیاء دوسرا کوئی ان کا حامل ہو ہی نہیں سکتا۔ اب رہے حاملانِ عرش کرسی، وہ حاملان علومِ عرش قرار نہیں پا سکتے کیونکہ یہ علوم مختص بذات باری تعالیٰ ہیں۔ بات یہ ہے کہ مصطلاحات مخصوصہ ہیں جن کا مفہوم انبیاء و اولیاء و آئمہ کے سوا دوسرے کے ذہن میں نہیں آ سکتا۔ شہر علم اور بابِ علم بھی اسی قسم کی اصطلاحیں ہیں)۔
أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى قَالَ سَأَلَنِي أَبُو قُرَّةَ الْمُحَدِّثُ أَنْ أُدْخِلَهُ عَلَى أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا علیہ السلام فَاسْتَأْذَنْتُهُ فَأَذِنَ لِي فَدَخَلَ فَسَأَلَهُ عَنِ الْحَلالِ وَالْحَرَامِ ثُمَّ قَالَ لَهُ أَ فَتُقِرُّ أَنَّ الله مَحْمُولٌ فَقَالَ أَبُو الْحَسَنِ علیہ السلام كُلُّ مَحْمُولٍ مَفْعُولٌ بِهِ مُضَافٌ إِلَى غَيْرِهِ مُحْتَاجٌ وَالْمَحْمُولُ اسْمُ نَقْصٍ فِي اللَّفْظِ وَالْحَامِلُ فَاعِلٌ وَهُوَ فِي اللَّفْظِ مِدْحَةٌ وَكَذَلِكَ قَوْلُ الْقَائِلِ فَوْقَ وَتَحْتَ وَأَعْلَى وَأَسْفَلَ وَقَدْ قَالَ الله وَلله الاسْماءُ الْحُسْنىفَادْعُوهُ بِها وَلَمْ يَقُلْ فِي كُتُبِهِ إِنَّهُ الْمَحْمُولُ بَلْ قَالَ إِنَّهُ الْحَامِلُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَالْمُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالارْضَ أَنْ تَزُولا وَالْمَحْمُولُ مَا سِوَى الله وَلَمْ يُسْمَعْ أَحَدٌ آمَنَ بِالله وَعَظَمَتِهِ قَطُّ قَالَ فِي دُعَائِهِ يَا مَحْمُولُ قَالَ أَبُو قُرَّةَ فَإِنَّهُ قَالَ وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمانِيَةٌ وَقَالَ الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ فَقَالَ أَبُو الْحَسَنِ علیہ السلام الْعَرْشُ لَيْسَ هُوَ الله وَالْعَرْشُ اسْمُ عِلْمٍ وَقُدْرَةٍ وَعَرْشٍ فِيهِ كُلُّ شَيْءٍ ثُمَّ أَضَافَ الْحَمْلَ إِلَى غَيْرِهِ خَلْقٍ مِنْ خَلْقِهِ لانَّهُ اسْتَعْبَدَ خَلْقَهُ بِحَمْلِ عَرْشِهِ وَهُمْ حَمَلَةُ عِلْمِهِ وَخَلْقاً يُسَبِّحُونَ حَوْلَ عَرْشِهِ وَهُمْ يَعْمَلُونَ بِعِلْمِهِ وَمَلائِكَةً يَكْتُبُونَ أَعْمَالَ عِبَادِهِ وَاسْتَعْبَدَ أَهْلَ الارْضِ بِالطَّوَافِ حَوْلَ بَيْتِهِ وَالله عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى كَمَا قَالَ وَالْعَرْشُ وَمَنْ يَحْمِلُهُ وَمَنْ حَوْلَ الْعَرْشِ وَالله الْحَامِلُ لَهُمُ الْحَافِظُ لَهُمُ الْمُمْسِكُ الْقَائِمُ عَلَى كُلِّ نَفْسٍ وَفَوْقَ كُلِّ شَيْءٍ وَعَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَلا يُقَالُ مَحْمُولٌ وَلا أَسْفَلُ قَوْلاً مُفْرَداً لا يُوصَلُ بِشَيْءٍ فَيَفْسُدُ اللَّفْظُ وَالْمَعْنَى قَالَ أَبُو قُرَّةَ فَتُكَذِّبُ بِالرِّوَايَةِ الَّتِي جَاءَتْ أَنَّ الله إِذَا غَضِبَ إِنَّمَا يُعْرَفُ غَضَبُهُ أَنَّ الْمَلائِكَةَ الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ يَجِدُونَ ثِقْلَهُ عَلَى كَوَاهِلِهِمْ فَيَخِرُّونَ سُجَّداً فَإِذَا ذَهَبَ الْغَضَبُ خَفَّ وَرَجَعُوا إِلَى مَوَاقِفِهِمْ فَقَالَ أَبُو الْحَسَنِ علیہ السلام أَخْبِرْنِي عَنِ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى مُنْذُ لَعَنَ إِبْلِيسَ إِلَى يَوْمِكَ هَذَا هُوَ غَضْبَانُ عَلَيْهِ فَمَتَى رَضِيَ وَهُوَ فِي صِفَتِكَ لَمْ يَزَلْ غَضْبَانَ عَلَيْهِ وَعَلَى أَوْلِيَائِهِ وَعَلَى أَتْبَاعِهِ كَيْفَ تَجْتَرِئُ أَنْ تَصِفَ رَبَّكَ بِالتَّغْيِيرِ مِنْ حَالٍ إِلَى حَالٍ وَأَنَّهُ يَجْرِي عَلَيْهِ مَا يَجْرِي عَلَى الْمَخْلُوقِينَ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى لَمْ يَزُلْ مَعَ الزَّائِلِينَ وَلَمْ يَتَغَيَّرْ مَعَ الْمُتَغَيِّرِينَ وَلَمْ يَتَبَدَّلْ مَعَ الْمُتَبَدِّلِينَ وَمَنْ دُونَهُ فِي يَدِهِ وَتَدْبِيرِهِ وَكُلُّهُمْ إِلَيْهِ مُحْتَاجٌ وَهُوَ غَنِيٌّ عَمَّنْ سِوَاهُ۔
صفوان بن یحیٰ سے مروی ہے کہ ابوقرہ محدث نے مجھ سے درخواست کی کہ میں اس کے لیے امام رضا علیہ السلام سے حاضر ہونے کی اجازت لوں۔ چنانچہ اس نے حاضر ہو کر حلال و حرام کےبارے میں پوچھا پھر اس نے کہا کہ کیا آپ اس کا اقرار کرتے ہیں کہ اللہ نے اٹھایا ہوا ہے یعنی آپ کا اللہ عرش پر ہے اور عرش کو ملائکہ اٹھائے ہوئے ہیں تو اللہ محمول ہوا۔ حضرت نے فرمایا ہر محمول وہ ہے جس پر فعل کا اثر واقع ہو اور وہ اپنے غیر کی طرف منعطف ہو وہ محتاج ہوا اور محمول ہونا بلحاظ لفظ باعث نقص ہے اور حامل فاعل ہوتا ہے اور بلحاظ لفظ وہ باعث مدح ہوتا ہے جیسے کہ لفظ فوق و تحت و اعلیٰ و اسفل سے نقصان و مدح ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا کے لیے اسمائے حسنیٰ ہیں تم انہیں سے اسے پکارو اپنی کتابوں میں اس نے یہ نہیں کہا کہ وہ محمول ہے بلکہ یہ کہا ہے کہ وہ حامل ہے خشکی و تری میں اور آسمانوں اور زمین کو گرنے سے روکنے والا ہے محمول تو ماسوائے اللہ کو کہا جاتا ہے کسی ایسے شخص کو جو اللہ پر اور اس کی عظمت پر ایمان رکھنے والا ہے۔ کبھی یہ کہتے سنا گیا کہ اس نے اپنی دعا میں اللہ کو محمول کہہ کر پکارا ہو۔ ابوقرہ نے کہا کہ خدا کہتا ہے تیرے رب کے عرش کو اس دن ان کے اوپر آٹھ اٹھانے والے اٹھائے ہوں گے۔ حضرت نے فرمایا عرش اللہ نہیں عرش نام ہے علم و قدرت الٰہیہ کا جس کے اندر ہر شے ہے خدا نے حمل کی نسبت دی ہے اپنے غیر کی طرف اور وہ اللہ کی مخلوق میں سے ایک مخلوق ہے کیونکہ حاملِ عرش کے ساتھ خدا اپنی ایک مخلوق سے عبادت چاہی اور اپنی ایک مخلوق کو تسبیح سے مخصوص کیا جو اس کے عرش کے گرد تسبیح کرتے ہیں اور کچھ ملائکہ اعمال عباد کو لکھتے ہیں اور اہل ارض سے عبادت چاہی اپنے گھر کے گرد طواف کرنے کی آیت واللہ علی العرش استوا ایسا ہی ہے جیسے دوسرے مقامات پر فرمایا والعرش و من بحولہ و من حول العرش اللہ جو ان کا حامل ہے وہی ان کا روکنے والا اور ہر نفس کا قائم کرنے والا، ہر شے سے مافوق، ہر شے سے بالاتر ہے اسے بجائے حامل کے محمول کیسے کہا جا سکتا ہے نہ اسفل سے اسے نسبت دی جا سکتی ہے ورنہ لفظ اور معنی دونوں فاسد ہو جائیں گے۔ ابوقرہ نے کہا کہ یہ تو اس روایت کی سراسر تکذیب ہے جب خدا کو غصہ آتا ہے تو اس کا وزن حاملانِ عرش کے کندھوں کو محسوس ہونے لگتا ہے اور وہ سجدے میں گر جاتے ہیں جب غصہ ختم ہو جاتا ہے تو عرش کا وزن ہلکا پڑ جاتا ہے اور وہ اپنے موقف کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا مجھے بتاؤ اللہ تعالیٰ نے جب سے ابلیس پر لعنت کی اس وقت ے اب تک وہ اس سے کب راضی ہوا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس وقت سے لیکر اب تک غصہ ہی میں ہے ابلیس پر بھی اور اس کے اولیاء و اتباع پر بھی اور ملائکہ اس کا وزن محسوس کر کے سجدہ ہی میں پڑے ہوئے ہیں اے ابوقراء تو نے یہ کیسے جرات کی کہ اپنے رب کو موصوف کیا تغیر کے ساتھ بایں طور کہ وہ ایک حال سے دوسرے کی طرف بدلتا ہے اور مخلوق کی سی باتیں اس میں پائی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ بلند و برتر ہے ان تمام باتوں سے وہ بدلنے والوں کے ساتھ بدلتا نہیں۔ ہرشے اس کی ید قدرت و تدبیر کے اندر ہے اور سب اس کے محتاج ہیں اور وہ اپنے ماسوا سے بے پروا ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ عَبْدِ الله عَنِ الْفُضَيْلِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام عَنْ قَوْلِ الله جَلَّ وَعَزَّ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّماواتِ وَالارْضَ فَقَالَ يَا فُضَيْلُ كُلُّ شَيْءٍ فِي الْكُرْسِيِّ السَّمَاوَاتُ وَالارْضُ وَكُلُّ شَيْءٍ فِي الْكُرْسِيِّ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیت وسع کرسیہ السمٰوات والارض کے متعلق پوچھا۔ فرمایا اے فضیل کرسی میں ہر شے ہے آسمان و زمین ہر شے کرسی میں ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحَجَّالِ عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَعْيَنَ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام عَنْ قَوْلِ الله جَلَّ وَعَزَّ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّماواتِ وَالارْضَ السَّمَاوَاتُ وَالارْضُ وَسِعْنَ الْكُرْسِيَّ أَمِ الْكُرْسِيُّ وَسِعَ السَّمَاوَاتِ وَالارْضَ فَقَالَ بَلِ الْكُرْسِيُّ وَسِعَ السَّمَاوَاتِ وَالارْضَ وَالْعَرْشَ وَكُلُّ شَيْءٍ وَسِعَ الْكُرْسِيُّ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا وسع کرسیہ الخ کے متعلق کیا آسمانوں اور زمین میں کرسی کی گنجائش ہے یا کرسی میں آسمان و زمین کے سمانے کی۔ فرمایا کرسی میں گنجائش ہے آسمان و زمین و عرش کے سمانے کی اس میں گنجائش ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ فَضَالَةَ بْنِ أَيُّوبَ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ بُكَيْرٍ عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَعْيَنَ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام عَنْ قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّماواتِ وَالارْضَ السَّمَاوَاتُ وَالارْضُ وَسِعْنَ الْكُرْسِيَّ أَوِ الْكُرْسِيُّ وَسِعَ السَّمَاوَاتِ وَالارْضَ فَقَالَ إِنَّ كُلَّ شَيْءٍ فِي الْكُرْسِيِّ۔
زرارہ بن اعین نے ابو عبداللہ علیہ السلام سے آیت وسع کرسیہ السمٰوات کے بارے میں معلوم کیا کہ کیا زمین و آسمان میں کرسی سما سکتی ہے یا کرسی میں زمین و آسمان سما سکتے ہیں۔ آپ نے فرمایا بلکہ کرسی میں سماوات و زمین اور عرش اور ہر شے سما سکتی ہے۔ کرسی میں ہر شے کے سمانے کی گنجائش ہے (اس سے مراد قدرت خدا ہے)۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْفُضَيْلِ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ حَمَلَةُ الْعَرْشِ وَالْعَرْشُ الْعِلْمُ ثَمَانِيَةٌ أَرْبَعَةٌ مِنَّا وَأَرْبَعَةٌ مِمَّنْ شَاءَ الله۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ حاملانِ عرش (عرش سے مراد علم ہے) آٹھ ہیں چار ہم میں سے ہیں اور چار وہ جن کو اللہ نے چاہا۔ (تفسیر قمی میں ہے کہ پہلے چار سے مراد محمد علی حسن و حسین ہیں اور آخر چار سے مراد نوح و ابراہیم، موسیٰ و عیسی ہیں یعنی روزِ قیامت علم الٰہی کے حامل آٹھ شخص ہوں گے انہی کے علم کے مطابق لوگوں کے اعمال کی جانچ پڑتال ہو گی۔
مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَثِيرٍ عَنْ دَاوُدَ الرَّقِّيِّ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام عَنْ قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَكانَ عَرْشُهُ عَلَى الْماءِ فَقَالَ مَا يَقُولُونَ قُلْتُ يَقُولُونَ إِنَّ الْعَرْشَ كَانَ عَلَى الْمَاءِ وَالرَّبُّ فَوْقَهُ فَقَالَ كَذَبُوا مَنْ زَعَمَ هَذَا فَقَدْ صَيَّرَ الله مَحْمُولاً وَوَصَفَهُ بِصِفَةِ الْمَخْلُوقِ وَلَزِمَهُ أَنَّ الشَّيْءَ الَّذِي يَحْمِلُهُ أَقْوَى مِنْهُ قُلْتُ بَيِّنْ لِي جُعِلْتُ فِدَاكَ فَقَالَ إِنَّ الله حَمَّلَ دِينَهُ وَعِلْمَهُ الْمَاءَ قَبْلَ أَنْ يَكُونَ أَرْضٌ أَوْ سَمَاءٌ أَوْ جِنٌّ أَوْ إِنْسٌ أَوْ شَمْسٌ أَوْ قَمَرٌ فَلَمَّا أَرَادَ الله أَنْ يَخْلُقَ الْخَلْقَ نَثَرَهُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ فَقَالَ لَهُمْ مَنْ رَبُّكُمْ فَأَوَّلُ مَنْ نَطَقَ رَسُولُ الله ﷺ وَأَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام وَالائِمَّةُ صَلَوَاتُ الله عَلَيْهِمْ فَقَالُوا أَنْتَ رَبُّنَا فَحَمَّلَهُمُ الْعِلْمَ وَالدِّينَ ثُمَّ قَالَ لِلْمَلائِكَةِ هَؤُلاءِ حَمَلَةُ دِينِي وَعِلْمِي وَأُمَنَائِي فِي خَلْقِي وَهُمُ الْمَسْئُولُونَ ثُمَّ قَالَ لِبَنِي آدَمَ أَقِرُّوا لله بِالرُّبُوبِيَّةِ وَلِهَؤُلاءِ النَّفَرِ بِالْوَلايَةِ وَالطَّاعَةِ فَقَالُوا نَعَمْ رَبَّنَا أَقْرَرْنَا فَقَالَ الله لِلْمَلائِكَةِ اشْهَدُوا فَقَالَتِ الْمَلائِكَةُ شَهِدْنَا عَلَى أَنْ لا يَقُولُوا غَداً إِنَّا كُنَّا عَنْ هذا غافِلِينَ. أَوْ تَقُولُوا إِنَّما أَشْرَكَ آباؤُنا مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِنْ بَعْدِهِمْ أَ فَتُهْلِكُنا بِما فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ يَا دَاوُدُ وَلايَتُنَا مُؤَكَّدَةٌ عَلَيْهِمْ فِي الْمِيثَاقِ۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا اس آیت کا مطلب کیا ہے کان عرشہ علی الماء۔ فرمایا لوگ کیا کہتے ہیں۔ میں نے کہا ان کا کہنا یہ ہے کہ عرش خدا پانی پر تھا اور خدا اس پر بٹھتا تھا۔ فرمایا جھوٹے ہیں جس نے ایسا گمان کیا اس نے خدا کو محمول (اٹھایا ہوا) قرار دیا اور مخلوق کی صفت سے خدا کو موصوف کیا اور یہ لازم قرار دیا کہ جوچیز اٹھائی جاتی ہے اٹھانے والا اس سے قوی ہوتا ہے۔ میں نے کہا پھر اس کا مطلب آپ بیان فرمائیں۔ فرمایا خدا نے اپنے دین اور علم کو پانی پر بار کیا (اس سے معلوم ہوتا ہے مادیت میں اول مخلوق پانی ہے سب سے پہلے علم اور قدرت الہٰی کا اسی سے تعلق ہوا ) قبل اس کے کہ زمین و آسمان یا جن و انس یا چاند سورج کو پیدا کرے۔ پس جب خدا نے اپنی مخلوق کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو ان کو اپنے سامنے حاضر کر ے پوچھا کہ بتاؤ تمہارا رب کون ہے۔ پس سب سے پہلے رسول اللہ گویا ہوئے پھر امیر المومنین اور دیگر آئمہ علیہم السلام نے کہا تو ہمارا رب ہے۔ خدانے ان کو حامل قرار دیا اپنے علم و دین کا پھر ملائکہ سے فرمایا یہ لوگ میرے علم اور میرے دین کے حامل ہیں اور میری مخلوق ہیں۔ میری طرف سے امین ہیں اور ان سے سوال کیا جائے گا۔ پھر بنی آدم سے فرمایا اللہ کی ربوبیت کا اقرار کرو اور ان لوگوں کی ولایت و اطاعت کا انھوں نے کہا ٹھیک ہے اے ہمارے رب ہم نے اقرار کیا۔ خدا نے ملائکہ سے فرمایا تم ان پر گواہ رہو۔ ملائکہ نے کہا ہم گواہ ہیں تاکہ یہ لوگ کل کو یہ نہ کہیں کہ ہم ان سے غافل تھے یا یہ کہہ دیں کہ اس سے پہلے ہمارے آباء و اجداد نے شرک کیا تھا اور ان کے بعد ہم ان کی اولاد قرار پائے تو کیا باطل پرستوں کے جرم میں تو ہم کو ہلاک کریگا۔ اے داؤود (راوی) ہماری ولایت بہت زیادہ تاکید کے ساتھ تھی۔