مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الله عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ الْبَرْمَكِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبَّاسٍ الْخَرَاذِينِيِّ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ رَاشِدٍ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ جَعْفَرٍ الْجَعْفَرِيِّ عَنْ أَبِي إِبْرَاهِيمَ علیہ السلام قَالَ ذُكِرَ عِنْدَهُ قَوْمٌ يَزْعُمُونَ أَنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَنْزِلُ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَقَالَ إِنَّ الله لا يَنْزِلُ وَلا يَحْتَاجُ إِلَى أَنْ يَنْزِلَ إِنَّمَا مَنْظَرُهُ فِي الْقُرْبِ وَالْبُعْدِ سَوَاءٌ لَمْ يَبْعُدْ مِنْهُ قَرِيبٌ وَلَمْ يَقْرُبْ مِنْهُ بَعِيدٌ وَلَمْ يَحْتَجْ إِلَى شَيْءٍ بَلْ يُحْتَاجُ إِلَيْهِ وَهُوَ ذُو الطَّوْلِ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ أَمَّا قَوْلُ الْوَاصِفِينَ إِنَّهُ يَنْزِلُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَإِنَّمَا يَقُولُ ذَلِكَ مَنْ يَنْسُبُهُ إِلَى نَقْصٍ أَوْ زِيَادَةٍ وَكُلُّ مُتَحَرِّكٍ مُحْتَاجٌ إِلَى مَنْ يُحَرِّكُهُ أَوْ يَتَحَرَّكُ بِهِ فَمَنْ ظَنَّ بِالله الظُّنُونَ هَلَكَ فَاحْذَرُوا فِي صِفَاتِهِ مِنْ أَنْ تَقِفُوا لَهُ عَلَى حَدٍّ تَحُدُّونَهُ بِنَقْصٍ أَوْ زِيَادَةٍ أَوْ تَحْرِيكٍ أَوْ تَحَرُّكٍ أَوْ زَوَالٍ أَوِ اسْتِنْزَالٍ أَوْ نُهُوضٍ أَوْ قُعُودٍ فَإِنَّ الله جَلَّ وَعَزَّ عَنْ صِفَةِ الْوَاصِفِينَ وَنَعْتِ النَّاعِتِينَ وَتَوَهُّمِ الْمُتَوَهِّمِينَ وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ الَّذِي يَرَاكَ حِينَ تَقُومُ وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ۔
راوی کہتا ہے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے سامنے ان لوگوں کا ذکر آیا جو کہتے ہیں کہ خدا آسمانِ دنیا کی طرف اترتا ہے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نہ اترتا ہے اور نہ اسے اترنے کی ضرورت ہے بلحاظ منظر اس کے لیے نزدیک و دور برابر ہے نہ قریب اس سے دور ہے اور نہ بعید اس سے قریب ہے۔ وہ کسی کا محتاج نہیں بلکہ ہر شے اس کی محتاج ہے وہ صاحبِ قوت ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ عزیز و حکیم ہے جن لوگوں نے کہا ہے کہ وہ اترتا ہے انھوں نے نسبت دی ہے خدا کو کمی اور زیادتی کی طرف۔ ہر متحرک حرکت دینے والے کا محتاج ہے اور جس کے ساتھ اس کی حرکت ہو جس نے ایسے برے گمان خدا کے متعلق کیے وہ ہلاک ہوا۔ پس خدائی صفات کے بارے میں توقف سے کام لو اس کو محدود نہ کرو کمی اور زیادتی ہلنے یا ہلانے زوال اور اترنے اٹھنے اور بیٹھنے کی اس سے نسبت نہ دو۔ اللہ تعالیٰ تعریف کرنے والے کی تعریف سے بلند و برتر ہے، تم خدائے عزیز و رحیم پر بھروسہ کرو وہ وہ ہے اے رسول جس نے تم کو کھڑے دیکھا اور تم کو سجدہ کرنے والوں کی پشتوں میں گردش دی۔
وَعَنْهُ رَفَعَهُ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ رَاشِدٍ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِي إِبْرَاهِيمَ أَنَّهُ قَالَ لا أَقُولُ إِنَّهُ قَائِمٌ فَأُزِيلُهُ عَنْ مَكَانِهِ وَلا أَحُدُّهُ بِمَكَانٍ يَكُونُ فِيهِ وَلا أَحُدُّهُ أَنْ يَتَحَرَّكَ فِي شَيْءٍ مِنَ الارْكَانِ وَالْجَوَارِحِ وَلا أَحُدُّهُ بِلَفْظِ شَقِّ فَمٍ وَلَكِنْ كَمَا قَالَ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُنْ فَيَكُونُ بِمَشِيئَتِهِ مِنْ غَيْرِ تَرَدُّدٍ فِي نَفْسٍ صَمَداً فَرْداً لَمْ يَحْتَجْ إِلَى شَرِيكٍ يَذْكُرُ لَهُ مُلْكَهُ وَلا يَفْتَحُ لَهُ أَبْوَابَ عِلْمِهِ۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا میں یہ نہیں کہتا کہ وہ قائم ہے اس حیثیت سے کہ میں ہٹاؤں اس کو اس کی جگہ سے اور نہ میں اس کو محدود کرتا ہوں کسی جگہ میں اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ وہ حرکت کرتا ہے اپنے اعضاء و جوارح سے یا بولتا ہے منہ سے جب وہ کسی شے کے لیے کہتا ہے ہو جا پس وہ ہو جاتی ہے اس کے ارادے سے بغیر کسی تردد کے اور صمد و فرد ہے کوئی اس کا شریک اس کے ملک میں نہیں اور نہ ابوابِ علم اس پر کھولے جاتے ہیں۔
وَعَنْهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عَبْدِ الله عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ عَمْرِو بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عِيسَى بْنِ يُونُسَ قَالَ قَالَ ابْنُ أَبِي الْعَوْجَاءِ لابِي عَبْدِ الله علیہ السلام فِي بَعْضِ مَا كَانَ يُحَاوِرُهُ ذَكَرْتَ الله فَأَحَلْتَ عَلَى غَائِبٍ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله وَيْلَكَ كَيْفَ يَكُونُ غَائِباً مَنْ هُوَ مَعَ خَلْقِهِ شَاهِدٌ وَإِلَيْهِمْ أَقْرَبُ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ يَسْمَعُ كَلامَهُمْ وَيَرَى أَشْخَاصَهُمْ وَيَعْلَمُ أَسْرَارَهُمْ فَقَالَ ابْنُ أَبِي الْعَوْجَاءِ أَ هُوَ فِي كُلِّ مَكَانٍ أَلَيْسَ إِذَا كَانَ فِي السَّمَاءِ كَيْفَ يَكُونُ فِي الارْضِ وَإِذَا كَانَ فِي الارْضِ كَيْفَ يَكُونُ فِي السَّمَاءِ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام إِنَّمَا وَصَفْتَ الْمَخْلُوقَ الَّذِي إِذَا انْتَقَلَ عَنْ مَكَانٍ اشْتَغَلَ بِهِ مَكَانٌ وَخَلا مِنْهُ مَكَانٌ فَلا يَدْرِي فِي الْمَكَانِ الَّذِي صَارَ إِلَيْهِ مَا يَحْدُثُ فِي الْمَكَانِ الَّذِي كَانَ فِيهِ فَأَمَّا الله الْعَظِيمُ الشَّأْنِ الْمَلِكُ الدَّيَّانُ فَلا يَخْلُو مِنْهُ مَكَانٌ وَلا يَشْتَغِلُ بِهِ مَكَانٌ وَلا يَكُونُ إِلَى مَكَانٍ أَقْرَبَ مِنْهُ إِلَى مَكَانٍ۔
ابن ابی العوجاء نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا آپ خدا کو غائب کہتے ہیں۔ فرمایا وائے ہو تجھ پر کیونکر غائب کہا جائے گا وہ جو اپنی مخلوق کے ساتھ موجود ہے اور رگِ گردن سے زیادہ قریب ہے ان کا کلام سنتا ہے اور ان کے وجود کو دیکھتا ہے اور ان کے بھیدوں کو جانتا ہے۔ ابو العوجاء نے کہا کہ ایسا ہے کہ وہ ہر جگہ ہے پس اگر آسمان میں ہے تو زمین میں کیسے ہو گا اور اگر زمین میں ہے تو آسمان میں کیسے ہو گا۔ حضرت نے فرمایا یہ تو مخلوق کی صفت ہے کہ جب وہ ایک مکان سے منتقل ہو تو دوسرے میں جا رہے اور پہلا مکان اس سے خالی ہو جائے اور اسے یہ خبر نہ رہے کہ پہلے مکان کا کیا حال ہے۔ اور اس میں کیا ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہیں اس سے کوئی جگہ خالی نہیں اور نہ کسی مکان میں وہ سمایا ہوا ہے اور نہ کوئی جگہ بہ نسبت دوسری جگہ اس سے زیادہ قریب ہے۔
عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى قَالَ كَتَبْتُ إِلَى أَبِي الْحَسَنِ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ (عَلَيْهما السَّلام) جَعَلَنِيَ الله فِدَاكَ يَا سَيِّدِي قَدْ رُوِيَ لَنَا أَنَّ الله فِي مَوْضِعٍ دُونَ مَوْضِعٍ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى وَأَنَّهُ يَنْزِلُ كُلَّ لَيْلَةٍ فِي النِّصْفِ الاخِيرِ مِنَ اللَّيْلِ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا وَرُوِيَ أَنَّهُ يَنْزِلُ عَشِيَّةَ عَرَفَةَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى مَوْضِعِهِ فَقَالَ بَعْضُ مَوَالِيكَ فِي ذَلِكَ إِذَا كَانَ فِي مَوْضِعٍ دُونَ مَوْضِعٍ فَقَدْ يُلاقِيهِ الْهَوَاءُ وَيَتَكَنَّفُ عَلَيْهِ وَالْهَوَاءُ جِسْمٌ رَقِيقٌ يَتَكَنَّفُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ بِقَدْرِهِ فَكَيْفَ يَتَكَنَّفُ عَلَيْهِ جَلَّ ثَنَاؤُهُ عَلَى هَذَا الْمِثَالِ فَوَقَّعَ علیہ السلام عِلْمُ ذَلِكَ عِنْدَهُ وَهُوَ الْمُقَدِّرُ لَهُ بِمَا هُوَ أَحْسَنُ تَقْدِيراً وَاعْلَمْ أَنَّهُ إِذَا كَانَ فِي السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَهُوَ كَمَا هُوَ عَلَى الْعَرْشِ وَالاشْيَاءُ كُلُّهَا لَهُ سَوَاءٌ عِلْماً وَقُدْرَةً وَمُلْكاً وَإِحَاطَةً. وَعَنْهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ الْكُوفِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى مِثْلَهُ. فِي قَوْلِهِ تَعَالَى ما يَكُونُ مِنْ نَجْوىثَلاثَةٍ إِلا هُوَ رابِعُهُمْ۔
محمد بن عیسیٰ سے مروی ہے کہ میں نے امام علی نقی علیہ السلام کو لکھا اے میرے سید و سردار میں آپ پر فدا ہوں مجھ سے کہا گیا ہے کہ خدا ایک جگہ ہے دوسری جگہ نہیں وہ عرش پر بیٹھا ہے اور ہر رات آخرِ شب میں آسمان دنیا پر اترتا ہے اور یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ وہ آخر روزِ عرفہ اترتا ہے اور اپنی جگہ چلا جاتا ہے اس صورت میں ہوا اس سے ضرور ملے گی اور اس کی چار طرف ہو جائے گی کیونکہ ہوا ایک جسم لطیف ہے وہ ہر شے کے گرد ہے پس خدا کے گرد کیسے ہو گی۔ آپ نے جواب میں لکھا ہر شے کا علم اس کے پاس ہے اور اسے ہر شے کا بہترین اندازہ ہے (اسے کسی جگہ جانے کی کیا ضرورت) جب وہ سماء دنیا میں ہو تو ایسا ہی ہے جیسے عرش پر کیونکہ اسکے لیے سب چیزیں برابر ہیں بلحاظ علم و قدرت و ملک و احاطہ۔
اور ایسی ہی روایت محمد بن جعفر کوفی نے محمد بن عیسیٰ سے بیان کی ہے۔
عَنْهُ عَنْ عِدَّةٍ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ يَزِيدَ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنِ ابْنِ أُذَيْنَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فِي قَوْلِهِ تَعَالَى ما يَكُونُ مِنْ نَجْوىثَلاثَةٍ إِلا هُوَ رابِعُهُمْ وَلا خَمْسَةٍ إِلا هُوَ سادِسُهُمْ فَقَالَ هُوَ وَاحِدٌ وَاحِدِيُّ الذَّاتِ بَائِنٌ مِنْ خَلْقِهِ وَبِذَاكَ وَصَفَ نَفْسَهُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ بِالاشْرَافِ وَالاحَاطَةِ وَالْقُدْرَةِ لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ فِي السَّماواتِ وَلا فِي الارْضِ وَلا أَصْغَرُ مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْبَرُ بِالاحَاطَةِ وَالْعِلْمِ لا بِالذَّاتِ لانَّ الامَاكِنَ مَحْدُودَةٌ تَحْوِيهَا حُدُودٌ أَرْبَعَةٌ فَإِذَا كَانَ بِالذَّاتِ لَزِمَهَا الْحَوَايَةُ. فِي قَوْلِهِ الرَّحْمنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوى۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جو آیت ہے کہ جہاں تین سرگوشی کرتے ہیں وہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور جہاں پانچ ہوتے ہیں وہ اس کا چھٹا ہوتا ہے تو وہ واحد ہے اور یگانہ بالذات ہے اور اپنی مخلوق سے الگ ہے اسی لیے اس نے اپنا وصف یہ بیان کیا۔ وہ ہر شے پر محیط ہے ازروئے علم و احاطہ و قدرت کوئی ذرہ آسمان میں ہو یا زمین میں اس سے پوشیدہ نہیں چاہے اس سے بھی چھوٹا ہو یا بڑا۔ وہ اپنے ذاتی علم سے احاطہ کیے ہوئے ہے۔ تمام مقامات محدود ہیں حدود اربعہ میں اگر خدا بھی اپنی ذات سے احاطہ کرنے والا ہوتا تو وہ بھی حدود اربعہ میں محدود ہو جاتا۔
عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُوسَى الْخَشَّابِ عَنْ بَعْضِ رِجَالِهِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ الرَّحْمنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى فَقَالَ اسْتَوَى عَلَى كُلِّ شَيْءٍ فَلَيْسَ شَيْءٌ أَقْرَبَ إِلَيْهِ مِنْ شَيْءٍ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ کیا معنی ہیں الرحمٰن علی العرش الستوی، فرمایا وہ ہر شے پر غالب ہے کوئی شے بہ نسبت دوسری شے کے اس سے زیادہ قریب نہیں۔
وَبِهَذَا الاسْنَادِ عَنْ سَهْلٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَارِدٍ أَنَّ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام سُئِلَ عَنْ قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ الرَّحْمنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى فَقَالَ اسْتَوَى مِنْ كُلِّ شَيْءٍ فَلَيْسَ شَيْءٌ أَقْرَبَ إِلَيْهِ مِنْ شَيْءٍ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیہ رحمٰن علی العرش استویٰ کے متعلق پوچھا۔ فرمایا وہ ہر شے پر غالب ہے کوئی بہ نسبت کسی شے کے اس سے زیادہ قریب ہے نہ دور اور وہ سب سے زیادہ قریب ہے ہر شے کے۔
وَعَنْهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَجَّاجِ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام عَنْ قَوْلِ الله تَعَالَى الرَّحْمنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوىفَقَالَ اسْتَوَى فِي كُلِّ شَيْءٍ فَلَيْسَ شَيْءٌ أَقْرَبَ إِلَيْهِ مِنْ شَيْءٍ لَمْ يَبْعُدْ مِنْهُ بَعِيدٌ وَلَمْ يَقْرُبْ مِنْهُ قَرِيبٌ اسْتَوَى فِي كُلِّ شَيْءٍ۔
ابن حجاج نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیت الرحمٰن علی العرش استوی کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا کہ استوی ہر شے میں کے معنی یہ ہیں کہ کوئی چیز اس سے قریب تر نہ ہو اور نہ اس سے دور ہو ایسی دوری کہ اس سے قریب تر نہ ہو۔ مزید یہ کہ نہ اس سے زیادہ دوری ممکن ہو نہ اس سے زیادہ قربت (یہ ہیں استوی العرش کے معنی)
توضیح: دوری اور نزدیکی اللہ کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی جس طرح ہم کسی دور مقام پر رہنے والے کو آواز نہیں دے سکتے یہ خدا کے لیے نہیں ہے۔
وَعَنْهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ مَنْ زَعَمَ أَنَّ الله مِنْ شَيْءٍ أَوْ فِي شَيْءٍ أَوْ عَلَى شَيْءٍ فَقَدْ كَفَرَ قُلْتُ فَسِّرْ لِي قَالَ أَعْنِي بِالْحَوَايَةِ مِنَ الشَّيْءِ لَهُ أَوْ بِإِمْسَاكٍ لَهُ أَوْ مِنْ شَيْءٍ سَبَقَهُ وَفِي رِوَايَةٍ أُخْرَى مَنْ زَعَمَ أَنَّ الله مِنْ شَيْءٍ فَقَدْ جَعَلَهُ مُحْدَثاً وَمَنْ زَعَمَ أَنَّهُ فِي شَيْءٍ فَقَدْ جَعَلَهُ مَحْصُوراً وَمَنْ زَعَمَ أَنَّهُ عَلَى شَيْءٍ فَقَدْ جَعَلَهُ مَحْمُولاً. فِي قَوْلِهِ تَعَالَى وَهُوَ الَّذِي فِي السَّماءِ إِلهٌ وَفِي الارْضِ إِلهٌ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا جس نے یہ گمان کیا کہ اللہ کسی چیز سے ہے یا کسی چیز میں ہے یا کسی چیز پر ہے تو اس نے کفر کیا۔ راوی نے کہا ذرا اور وضاحت کیجیے۔ فرمایا میرا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی چیز سے گھرا ہوا ہے نہ رکا ہوا ہے اور نہ کسی چیز نے اس پر سبقت کی ہے اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ جس نے گمان کیا کہ خدا کسی شے سے ہے اس نے خدا کو حادث سمجھا اور جس نے کہا کسی شے میں ہے تو اس نے محدود بنا دیا اور جس نے کہا کہ کسی شے پر ہے تو اس نے ایسی چیز بنا دیا جو اٹھائی جائے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ الْحَكَمِ قَالَ قَالَ أَبُو شَاكِرٍ الدَّيَصَانِيُّ إِنَّ فِي الْقُرْآنِ آيَةً هِيَ قَوْلُنَا قُلْتُ مَا هِيَ فَقَالَ وَهُوَ الَّذِي فِي السَّماءِ إِلهٌ وَفِي الارْضِ إِلهٌ فَلَمْ أَدْرِ بِمَا أُجِيبُهُ فَحَجَجْتُ فَخَبَّرْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام فَقَالَ هَذَا كَلامُ زِنْدِيقٍ خَبِيثٍ إِذَا رَجَعْتَ إِلَيْهِ فَقُلْ لَهُ مَا اسْمُكَ بِالْكُوفَةِ فَإِنَّهُ يَقُولُ فُلانٌ فَقُلْ لَهُ مَا اسْمُكَ بِالْبَصْرَةِ فَإِنَّهُ يَقُولُ فُلانٌ فَقُلْ كَذَلِكَ الله رَبُّنَا فِي السَّمَاءِ إِلَهٌ وَفِي الارْضِ إِلَهٌ وَفِي الْبِحَارِ إِلَهٌ وَفِي الْقِفَارِ إِلَهٌ وَفِي كُلِّ مَكَانٍ إِلَهٌ قَالَ فَقَدِمْتُ فَأَتَيْتُ أَبَا شَاكِرٍ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ هَذِهِ نُقِلَتْ مِنَ الْحِجَازِ۔
ہشام بن الحکم سے مروی ہے کہ ابو شاکر الدیصانی نے کہا قرآن میں ایک آیت ہمارے عقیدہ کے موافق ہے۔ میں نے کہا وہ کیا۔ اس نے کہا آسمان میں بھی خدا ہے اور زمین میں بھی خدا ہے (یعنی کئی خدا ہیں) مجھے اس کا جواب نہ بن آیا۔ میں نے اس کا ذکر امام جعفر صادق علیہ السلام سے کیا۔ فرمایا یہ کلام کسی زندیق خبیث کا ہے جب تم اس کے پاس جاؤ تو کہنا کہ تیرا نام کوفہ میں کیا ہے وہ کہے گا فلاں پس اس سے پوچھنا بصرہ میں تیرا نام کیا وہ کہے گا فلاں۔ پس اس سے کہنا ایسا ہی ہمارا رب ہے وہ آسمان میں بھی الٰہ ہے اور زمین میں بھی، دریاؤں میں بھی اور جنگلوں میں بھی اسی طرح ہر جگہ پس میں اس کے پاس پہنچا اور یہ جواب بیان کیا۔ اس نے کہا یہ حجاز سے نقل ہو کر آیا ہے۔