عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْوَلِيدِ وَلَقَبُهُ شَبَابٌ الصَّيْرَفِيُّ عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْقَاسِمِ الْجَعْفَرِيِّ قَالَ قُلْتُ لابِي جَعْفَرٍ الثَّانِي علیہ السلام جُعِلْتُ فِدَاكَ مَا الصَّمَدُ قَالَ السَّيِّدُ الْمَصْمُودُ إِلَيْهِ فِي الْقَلِيلِ وَالْكَثِيرِ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام محمد تقی علیہ السلام سے پوچھا کہ میں آپؑ پر فدا ہوں صمد کے کیا معنی ہیں۔ فرمایا وہ ذات جس کی طرف کم و زیادہ میں لوگوں کی رجوع اور حاجت ہو۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الله عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ السَّرِيِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ يَزِيدَ الْجُعْفِيِّ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ علیہ السلام عَنْ شَيْءٍ مِنَ التَّوْحِيدِ فَقَالَ إِنَّ الله تَبَارَكَتْ أَسْمَاؤُهُ الَّتِي يُدْعَا بِهَا وَتَعَالَى فِي عُلُوِّ كُنْهِهِ وَاحِدٌ تَوَحَّدَ بِالتَّوْحِيدِ فِي تَوَحُّدِهِ ثُمَّ أَجْرَاهُ عَلَى خَلْقِهِ فَهُوَ وَاحِدٌ صَمَدٌ قُدُّوسٌ يَعْبُدُهُ كُلُّ شَيْءٍ وَيَصْمُدُ إِلَيْهِ كُلُّ شَيْءٍ وَوَسِعَ كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً. فَهَذَا هُوَ الْمَعْنَى الصَّحِيحُ فِي تَأْوِيلِ الصَّمَدِ لا مَا ذَهَبَ إِلَيْهِ الْمُشَبِّهَةُ أَنَّ تَأْوِيلَ الصَّمَدِ الْمُصْمَتُ الَّذِي لا جَوْفَ لَهُ لانَّ ذَلِكَ لا يَكُونُ إِلا مِنْ صِفَةِ الْجِسْمِ وَالله جَلَّ ذِكْرُهُ مُتَعَالٍ عَنْ ذَلِكَ هُوَ أَعْظَمُ وَأَجَلُّ مِنْ أَنْ تَقَعَ الاوْهَامُ عَلَى صِفَتِهِ أَوْ تُدْرِكَ كُنْهَ عَظَمَتِهِ وَلَوْ كَانَ تَأْوِيلُ الصَّمَدِ فِي صِفَةِ الله عَزَّ وَجَلَّ الْمُصْمَتَ لَكَانَ مُخَالِفاً لِقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ لانَّ ذَلِكَ مِنْ صِفَةِ الاجْسَامِ الْمُصْمَتَةِ الَّتِي لا أَجْوَافَ لَهَا مِثْلِ الْحَجَرِ وَالْحَدِيدِ وَسَائِرِ الاشْيَاءِ الْمُصْمَتَةِ الَّتِي لا أَجْوَافَ لَهَا تَعَالَى الله عَنْ ذَلِكَ عُلُوّاً كَبِيراً فَأَمَّا مَا جَاءَ فِي الاخْبَارِ مِنْ ذَلِكَ فَالْعَالِمُ علیہ السلام أَعْلَمُ بِمَا قَالَ وَهَذَا الَّذِي. قَالَ علیہ السلام إِنَّ الصَّمَدَ هُوَ السَّيِّدُ الْمَصْمُودُ إِلَيْهِ. هُوَ مَعْنًى صَحِيحٌ مُوَافِقٌ لِقَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَالْمَصْمُودُ إِلَيْهِ الْمَقْصُودُ فِي اللُّغَةِ قَالَ أَبُو طَالِبٍ فِي بَعْضِ مَا كَانَ يَمْدَحُ بِهِ النَّبِيَّ ﷺ مِنْ شِعْرِهِ. وَبِالْجَمْرَةِ الْقُصْوَى إِذَا صَمَدُوا لَهَا يَؤُمُّونَ قَذْفاً رَأْسَهَا بِالْجَنَادِلِ. يَعْنِي قَصَدُوا نَحْوَهَا يَرْمُونَهَا بِالْجَنَادِلِ يَعْنِي الْحَصَى الصِّغَارَ الَّتِي تُسَمَّى بِالْجِمَارِ وَقَالَ بَعْضُ شُعَرَاءِ الْجَاهِلِيَّةِ شِعْراً. مَا كُنْتُ أَحْسَبُ أَنَّ بَيْتاً ظَاهِراً لله فِي أَكْنَافِ مَكَّةَ يُصْمَدُ. يَعْنِي يُقْصَدُ وَقَالَ ابْنُ الزِّبْرِقَانِ. وَلا رَهِيبَةَ إِلا سَيِّدٌ صَمَدٌ. وَقَالَ شَدَّادُ بْنُ مُعَاوِيَةَ فِي حُذَيْفَةَ بْنِ بَدْرٍ. عَلَوْتُهُ بِحُسَامٍ ثُمَّ قُلْتُ لَهُ خُذْهَا حُذَيْفُ فَأَنْتَ السَّيِّدُ الصَّمَدُ. وَمِثْلُ هَذَا كَثِيرٌ وَالله عَزَّ وَجَلَّ هُوَ السَّيِّدُ الصَّمَدُ الَّذِي جَمِيعُ الْخَلْقِ مِنَ الْجِنِّ وَالانْسِ إِلَيْهِ يَصْمُدُونَ فِي الْحَوَائِجِ وَإِلَيْهِ يَلْجَئُونَ عِنْدَ الشَّدَائِدِ وَمِنْهُ يَرْجُونَ الرَّخَاءَ وَدَوَامَ النَّعْمَاءِ لِيَدْفَعَ عَنْهُمُ الشَّدَائِدَ۔
جابر جعفی نے امام محمد باقر علیہ السلام سے توحید کے متعلق سوال کیا۔ فرمایا اللہ کے تمام نام مبارک ہیں جن سے اسے پکارا جاتا ہے وہ اپنی کہنہ ذات میں بلند و برتر ہے وہ اکیلا ہے اور اپنی توحید میں بے مثل ہے پھر اس نے وحدت (مجازی) کو مخلوق کے لیے جاری کیا ۔پس وہ واحد ہے ہر ایک کی اس کی طرف حاجت ہے وہ پاک ذات ہے ہر چیز اس کی عبادت کرتی ہے اور اسی کی محتاج ہے اور اس کا علم ہر شے پر حاوی ہے۔
تاویل صمد کے صحیح معنی یہی ہیں نہ جو مشبہ فرقہ والے بیان کرتے ہیں کہ صمد کے معنی ایسے ٹھوس کے ہیں جو بیچ سے خالی نہ ہو اگر یہ معنی لیے جائیں تو یہ جسم کی صفت ہے اور اللہ اس سے بزرگ و برتر ہے اور اعظم و اجل ہے اس سے کہ عقل و اوہام اس کی صفات تک پہنچ سکیں اور اس کی عظمت کی حقیقت معلوم کر سکیں۔ اگر صفت باری میں صمد کی تاویل ایسی ٹھوس ہوتی جس میں جوف نہ ہو جیسے پتھر اور لوہا اور تمام ٹھوس چیزیں جن میں جوف نہیں ہوتا تو خدا کی ذات اس سے پاک ہے اور اس کی متعلق جو احادیث میں آیا ہے تو حقیقی عالم (امام) اس کا سب سے زیادہ جاننے والا ہے یہ ہے وہ جو امام علیہ السلام نے فرمایا اور لفظ صمد سے مراد ہے وہ سردار جس کی طرف رجوع ہو اور یہ موافق ہے خدا کے اس قول کے کہ اس کی مثل کوئی نہیں، مصور کے معنی لغت میں بھی اس ذات کے ہیں جس کی طرف قصد کیا جائے۔ ابو طالب نے اسی معنی میں ایک شعر کے اندر مدح رسولﷺ کی ہے۔
اور جمرہ کا جب لوگ قصد کرتے ہیں تو اس کے اوپر سنگریزے مارتے ہیں
یعنے اس کی طرف قصد کرتے ہیں اور اس کو مارتے ہیں جنادل یعنی چھوٹی کنکریوں سے جس کو جمار (جمرہ) کہتے ہیں۔
شعرائے جاہلیت سے ایک کا شعر ہے۔
میں نہیں گمان کرتا تھا کہ اللہ کا ظاہر گھر جو اطراف مکہ میں ہے اس کا قصد کیا جائے گا یعنی صمد والے معنی ہیں لوگ اس کی طرف قصد کریں گے۔
اور ابن الزبرقان نے کہا کہ وہ سردار جس کی طرف رجوع ہو اور شداد بن معاویہ نے حذیفہ بن بدر کے متعلق کہا ہے۔
میں نے تلوار کے زور سے اس کو بلند کر کے کہا لے اس کو اے حذیفہ تو بے نیاز سردار ہے۔
ایسی بہت سے مثالیں ہیں جو اس کی دلیل ہے کہ صمد کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کی ذات وہ ہے کہ جن اور انسان اپنی اپنی حاجتوں میں اس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور سختیوں میں اس سے پناہ مانگتے ہیں اس کی رحمت اور اس کی نعمتوں کی برقراری کے لیے دعا کرتے ہیں اور اس سے التجا کرتے ہیں کہ ان سے مصیبتوں کو دور رکھے۔