مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

(2-17)

اسمائے اللہ اور اسمائے مخلوق کے معنی میں فرق

حدیث نمبر 1

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنِ الْمُخْتَارِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُخْتَارِ الْهَمْدَانِيِّ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ الْحَسَنِ الْعَلَوِيِّ جَمِيعاً عَنِ الْفَتْحِ بْنِ يَزِيدَ الْجُرْجَانِيِّ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ علیہ السلام قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ الْوَاحِدُ الاحَدُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُواً أَحَدٌ لَوْ كَانَ كَمَا يَقُولُ الْمُشَبِّهَةُ لَمْ يُعْرَفِ الْخَالِقُ مِنَ الْمَخْلُوقِ وَلا الْمُنْشِئُ مِنَ الْمُنْشَإِ لَكِنَّهُ الْمُنْشِئُ فَرْقٌ بَيْنَ مَنْ جَسَّمَهُ وَصَوَّرَهُ وَأَنْشَأَهُ إِذْ كَانَ لا يُشْبِهُهُ شَيْءٌ وَلا يُشْبِهُ هُوَ شَيْئاً قُلْتُ أَجَلْ جَعَلَنِيَ الله فِدَاكَ لَكِنَّكَ قُلْتَ الاحَدُ الصَّمَدُ وَقُلْتَ لا يُشْبِهُهُ شَيْءٌ وَالله وَاحِدٌ وَالانْسَانُ وَاحِدٌ أَ لَيْسَ قَدْ تَشَابَهَتِ الْوَحْدَانِيَّةُ قَالَ يَا فَتْحُ أَحَلْتَ ثَبَّتَكَ الله إِنَّمَا التَّشْبِيهُ فِي الْمَعَانِي فَأَمَّا فِي الاسْمَاءِ فَهِيَ وَاحِدَةٌ وَهِيَ دَالَّةٌ عَلَى الْمُسَمَّى وَذَلِكَ أَنَّ الانْسَانَ وَإِنْ قِيلَ وَاحِدٌ فَإِنَّهُ يُخْبَرُ أَنَّهُ جُثَّةٌ وَاحِدَةٌ وَلَيْسَ بِاثْنَيْنِ وَالانْسَانُ نَفْسُهُ لَيْسَ بِوَاحِدٍ لانَّ أَعْضَاءَهُ مُخْتَلِفَةٌ وَأَلْوَانَهُ مُخْتَلِفَةٌ وَمَنْ أَلْوَانُهُ مُخْتَلِفَةٌ غَيْرُ وَاحِدٍ وَهُوَ أَجْزَاءٌ مُجَزَّاةٌ لَيْسَتْ بِسَوَاءٍ دَمُهُ غَيْرُ لَحْمِهِ وَلَحْمُهُ غَيْرُ دَمِهِ وَعَصَبُهُ غَيْرُ عُرُوقِهِ وَشَعْرُهُ غَيْرُ بَشَرِهِ وَسَوَادُهُ غَيْرُ بَيَاضِهِ وَكَذَلِكَ سَائِرُ جَمِيعِ الْخَلْقِ فَالانْسَانُ وَاحِدٌ فِي الاسْمِ وَلا وَاحِدٌ فِي الْمَعْنَى وَالله جَلَّ جَلالُهُ هُوَ وَاحِدٌ لا وَاحِدَ غَيْرُهُ لا اخْتِلافَ فِيهِ وَلا تَفَاوُتَ وَلا زِيَادَةَ وَلا نُقْصَانَ فَأَمَّا الانْسَانُ الْمَخْلُوقُ الْمَصْنُوعُ الْمُؤَلَّفُ مِنْ أَجْزَاءٍ مُخْتَلِفَةٍ وَجَوَاهِرَ شَتَّى غَيْرَ أَنَّهُ بِالاجْتِمَاعِ شَيْءٌ وَاحِدٌ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ فَرَّجْتَ عَنِّي فَرَّجَ الله عَنْكَ فَقَوْلَكَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ فَسِّرْهُ لِي كَمَا فَسَّرْتَ الْوَاحِدَ فَإِنِّي أَعْلَمُ أَنَّ لُطْفَهُ عَلَى خِلافِ لُطْفِ خَلْقِهِ لِلْفَصْلِ غَيْرَ أَنِّي أُحِبُّ أَنْ تَشْرَحَ ذَلِكَ لِي فَقَالَ يَا فَتْحُ إِنَّمَا قُلْنَا اللَّطِيفُ لِلْخَلْقِ اللَّطِيفِ وَلِعِلْمِهِ بِالشَّيْءِ اللَّطِيفِ أَ وَلا تَرَى وَفَّقَكَ الله وَثَبَّتَكَ إِلَى أَثَرِ صُنْعِهِ فِي النَّبَاتِ اللَّطِيفِ وَغَيْرِ اللَّطِيفِ وَمِنَ الْخَلْقِ اللَّطِيفِ وَمِنَ الْحَيَوَانِ الصِّغَارِ وَمِنَ الْبَعُوضِ وَالْجِرْجِسِ وَمَا هُوَ أَصْغَرُ مِنْهَا مَا لا يَكَادُ تَسْتَبِينُهُ الْعُيُونُ بَلْ لا يَكَادُ يُسْتَبَانُ لِصِغَرِهِ الذَّكَرُ مِنَ الانْثَى وَالْحَدَثُ الْمَوْلُودُ مِنَ الْقَدِيمِ فَلَمَّا رَأَيْنَا صِغَرَ ذَلِكَ فِي لُطْفِهِ وَاهْتِدَاءَهُ لِلسَّفَادِ وَالْهَرَبَ مِنَ الْمَوْتِ وَالْجَمْعَ لِمَا يُصْلِحُهُ وَمَا فِي لُجَجِ الْبِحَارِ وَمَا فِي لِحَاءِ الاشْجَارِ وَالْمَفَاوِزِ وَالْقِفَارِ وَإِفْهَامَ بَعْضِهَا عَنْ بَعْضٍ مَنْطِقَهَا وَمَا يَفْهَمُ بِهِ أَوْلادُهَا عَنْهَا وَنَقْلَهَا الْغِذَاءَ إِلَيْهَا ثُمَّ تَأْلِيفَ أَلْوَانِهَا حُمْرَةٍ مَعَ صُفْرَةٍ وَبَيَاضٍ مَعَ حُمْرَةٍ وَأَنَّهُ مَا لا تَكَادُ عُيُونُنَا تَسْتَبِينُهُ لِدَمَامَةِ خَلْقِهَا لا تَرَاهُ عُيُونُنَا وَلا تَلْمِسُهُ أَيْدِينَا عَلِمْنَا أَنَّ خَالِقَ هَذَا الْخَلْقِ لَطِيفٌ لَطُفَ بِخَلْقِ مَا سَمَّيْنَاهُ بِلا عِلاجٍ وَلا أَدَاةٍ وَلا آلَةٍ وَأَنَّ كُلَّ صَانِعِ شَيْءٍ فَمِنْ شَيْءٍ صَنَعَ وَالله الْخَالِقُ اللَّطِيفُ الْجَلِيلُ خَلَقَ وَصَنَعَ لا مِنْ شَيْءٍ۔

راوی کہتا ہے میں نے امام رضا علیہ السلام کو یہ کہتے سنا وہ لطیف و خبیر ہے سمیع و بصیر ہے واحد و صمد ہے لم یلد و لم یولد ہے کوئی اس کا ہمسر نہیں اگر وہ ایسا ہوتا جیسا مشبہ فرقہ کہتا ہے تو انھوں نے خالق کو مخلوق سے الگ کر کے پہچانا ہی نہیں اور نہ پیدا کرنے والے کو پیدا ہونے والے سے جدا کیا ، پیدا ہونے والا الگ ہے اس سے جس نے جسم و صورت دی اور پیدا کیا ، نہ کوئی شے اس سے مشابہ ہے نہ وہ کسی شے سے۔ میں نے کہا آپ نے فرمایا وہ واحد و صمد ہے اور نہیں مشابہ اس سے کوئی شے، اللہ واحد ہے انسان واحد ہے کیا واحدانیت میں دونوں مشابہ نہیں۔ فرمایا اے فتح تو نے ایک محال بات بیان کی۔ خدا تجھے ثابت قدم رکھے۔ تشبیہہ کا لفظ بلحاظ معنی کے ہے ورنہ بلحاظ اسماء جو وحدت ہے وہ معرض بحث میں نہیں اور اسم دلیل مسمی ہے اوروہ انسان ہے اگر کہا جائے کہ وہ واحد ہے یعنی جثہ واحدہ ہے وہ نہیں لیکن نفس تو ایک نہیں کیونکہ اس کے مختلف اعضاء ہیں مختلف رنگ ہیں اور مختلف الالوان ہے وہ واحد نہیں ہو سکتا۔ درآنحالیکہ وہ بہت سے اجزاء سے مرکب ہے جو مساوی نہیں۔ اس کا خون اس کے گوشت سے الگ ایک چیز ہے اور پٹھے اس کی رگوں سے، ایک ایک چیز ہیں اس کے بال اور ہیں اس کی جلد اور اس کی سیاہی اور ہے اس کی سفیدی اور یہی حال تمام مخلوق کا ہے۔ پس انسان نام کے لحاظ سے واحد ہے نہ کہ معنی کے لحاظ سے اور خدائے بزرگ و برتر واحد ہے نہ کہ اس کا غیر، اس میں نہ کوئی اختلاف ہے نہ فرق، نہ زیادتی ہے نہ کمی، برخلاف اسکے انسان مخلوق و مصنوع اور اجزائے مختلفہ سے مرکب ہے اور مختلف جوہر اس کے اندر ہیں ان کا مجموعہ شے واحد نہیں کہا جا سکتا۔ میں نے کہا میں آپ پر فدا ہوں آپ نے میری مشکل آسان کی۔ اللہ آپ کی مشکل آسان کرے اب آپ لطیف و خبیر کی تفسیر بھی اسی طرح بیان کیجیے جس طرح لفظ واحد کی بیان کی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ خدا کا لطف خلاف لطف مخلوق ہے تاہم آپ سے تشریح چاہتا ہوں۔ فرمایا اے فتح ہم نے لطیف کہا ہے خلق لطیف کے لحاظ سے اور شے لطیف کا علم رکھنے کی بناء پر، کیا تم نہیں دیکھتے اس کی صنعت کے آثار کو، نازل نباتات میں اور چھوٹے چھوٹے حیوانوں میں جیسے مچھر اور پِسو جو ان سے ایسے چھوٹے چھوٹے حیوان ہیں جو آنکھوں سے نظر نہیں آتے اور یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ نر ہیں یا مادہ اور مولود و حادث قدیم سے الگ ہیں یہ چھوٹے چھوٹے کیڑے اس کے لطف کی دلیل ہیں پھر ان کیڑوں کا جفتی پر راغب ہونا اور موت سے بھاگنا اور اپنی ضروریات کو جمع کرنا دریاؤں کے کنڈلوں سے، درختوں کے کھوکھلوں سے، جنگلوں اور میدانوں سے اور پھر ایک کا دوسرے کی بولی سمجھنا اور ضروریات کا اپنی اولاد کو سمجھانا اور غذاؤں کا ان کی طرف پہنچانا پھر ان کے رنگوں کی ترکیب سرخی و زردی کے ساتھ اور سفیدی سرخی سے ملانااور ایسی چھوٹی مخلوق کا پیدا کرنا جن کو آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں اور نہ ہاتھ چھو سکتے ہیں تو ہم نے جانا کہ اس مخلوق کا خالق لطیف ہے اس نے اپنے لطف سے پیدا کیا بغیر اعضاء و آلات کے، ہر صانع کسی مادہ سے بنتا ہے خدا کو اس کی ضرورت نہیں (وہ کن کہہ کر پیدا کر دیتا ہے اور وہ اللہ خالق لطیف و جلیل ہے اس نے بغیر کسی کی مدد کے پیدا کیا ہے)۔

حدیث نمبر 2

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ مُرْسَلاً عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَاعلیہ السلام قَالَ قَالَ اعْلَمْ عَلَّمَكَ الله الْخَيْرَ أَنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَدِيمٌ وَالْقِدَمُ صِفَتُهُ الَّتِي دَلَّتِ الْعَاقِلَ عَلَى أَنَّهُ لا شَيْءَ قَبْلَهُ وَلا شَيْءَ مَعَهُ فِي دَيْمُومِيَّتِهِ فَقَدْ بَانَ لَنَا بِإِقْرَارِ الْعَامَّةِ مُعْجِزَةُ الصِّفَةِ أَنَّهُ لا شَيْءَ قَبْلَ الله وَلا شَيْءَ مَعَ الله فِي بَقَائِهِ وَبَطَلَ قَوْلُ مَنْ زَعَمَ أَنَّهُ كَانَ قَبْلَهُ أَوْ كَانَ مَعَهُ شَيْءٌ وَذَلِكَ أَنَّهُ لَوْ كَانَ مَعَهُ شَيْءٌ فِي بَقَائِهِ لَمْ يَجُزْ أَنْ يَكُونَ خَالِقاً لَهُ لانَّهُ لَمْ يَزَلْ مَعَهُ فَكَيْفَ يَكُونُ خَالِقاً لِمَنْ لَمْ يَزَلْ مَعَهُ وَلَوْ كَانَ قَبْلَهُ شَيْءٌ كَانَ الاوَّلَ ذَلِكَ الشَّيْءُ لا هَذَا وَكَانَ الاوَّلُ أَوْلَى بِأَنْ يَكُونَ خَالِقاً لِلاوَّلِ ثُمَّ وَصَفَ نَفْسَهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى بِأَسْمَاءٍ دَعَا الْخَلْقَ إِذْ خَلَقَهُمْ وَتَعَبَّدَهُمْ وَابْتَلاهُمْ إِلَى أَنْ يَدْعُوهُ بِهَا فَسَمَّى نَفْسَهُ سَمِيعاً بَصِيراً قَادِراً قَائِماً نَاطِقاً ظَاهِراً بَاطِناً لَطِيفاً خَبِيراً قَوِيّاً عَزِيزاً حَكِيماً عَلِيماً وَمَا أَشْبَهَ هَذِهِ الاسْمَاءَ فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ مِنْ أَسْمَائِهِ الْقَالُونَ الْمُكَذِّبُونَ وَقَدْ سَمِعُونَا نُحَدِّثُ عَنِ الله أَنَّهُ لا شَيْءَ مِثْلُهُ وَلا شَيْءَ مِنَ الْخَلْقِ فِي حَالِهِ قَالُوا أَخْبِرُونَا إِذَا زَعَمْتُمْ أَنَّهُ لا مِثْلَ لله وَلا شِبْهَ لَهُ كَيْفَ شَارَكْتُمُوهُ فِي أَسْمَائِهِ الْحُسْنَى فَتَسَمَّيْتُمْ بِجَمِيعِهَا فَإِنَّ فِي ذَلِكَ دَلِيلاً عَلَى أَنَّكُمْ مِثْلُهُ فِي حَالاتِهِ كُلِّهَا أَوْ فِي بَعْضِهَا دُونَ بَعْضٍ إِذْ جَمَعْتُمُ الاسْمَاءَ الطَّيِّبَةَ قِيلَ لَهُمْ إِنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَلْزَمَ الْعِبَادَ أَسْمَاءً مِنْ أَسْمَائِهِ عَلَى اخْتِلافِ الْمَعَانِي وَذَلِكَ كَمَا يَجْمَعُ الاسْمُ الْوَاحِدُ مَعْنَيَيْنِ مُخْتَلِفَيْنِ وَالدَّلِيلُ عَلَى ذَلِكَ قَوْلُ النَّاسِ الْجَائِزُ عِنْدَهُمُ الشَّائِعُ وَهُوَ الَّذِي خَاطَبَ الله بِهِ الْخَلْقَ فَكَلَّمَهُمْ بِمَا يَعْقِلُونَ لِيَكُونَ عَلَيْهِمْ حُجَّةً فِي تَضْيِيعِ مَا ضَيَّعُوا فَقَدْ يُقَالُ لِلرَّجُلِ كَلْبٌ وَحِمَارٌ وَثَوْرٌ وَسُكَّرَةٌ وَعَلْقَمَةٌ وَأَسَدٌ كُلُّ ذَلِكَ عَلَى خِلافِهِ وَحَالاتِهِ لَمْ تَقَعِ الاسَامِي عَلَى مَعَانِيهَا الَّتِي كَانَتْ بُنِيَتْ عَلَيْهِ لانَّ الانْسَانَ لَيْسَ بِأَسَدٍ وَلا كَلْبٍ فَافْهَمْ ذَلِكَ رَحِمَكَ الله وَإِنَّمَا سُمِّيَ الله تَعَالَى بِالْعِلْمِ بِغَيْرِ عِلْمٍ حَادِثٍ عَلِمَ بِهِ الاشْيَاءَ اسْتَعَانَ بِهِ عَلَى حِفْظِ مَا يُسْتَقْبَلُ مِنْ أَمْرِهِ وَالرَّوِيَّةِ فِيمَا يَخْلُقُ مِنْ خَلْقِهِ وَيُفْسِدُ مَا مَضَى مِمَّا أَفْنَى مِنْ خَلْقِهِ مِمَّا لَوْ لَمْ يَحْضُرْهُ ذَلِكَ الْعِلْمُ وَيَغِيبُهُ كَانَ جَاهِلاً ضَعِيفاً كَمَا أَنَّا لَوْ رَأَيْنَا عُلَمَاءَ الْخَلْقِ إِنَّمَا سُمُّوا بِالْعِلْمِ لِعِلْمٍ حَادِثٍ إِذْ كَانُوا فِيهِ جَهَلَةً وَرُبَّمَا فَارَقَهُمُ الْعِلْمُ بِالاشْيَاءِ فَعَادُوا إِلَى الْجَهْلِ وَإِنَّمَا سُمِّيَ الله عَالِماً لانَّهُ لا يَجْهَلُ شَيْئاً فَقَدْ جَمَعَ الْخَالِقَ وَالْمَخْلُوقَ اسْمُ الْعَالِمِ وَاخْتَلَفَ الْمَعْنَى عَلَى مَا رَأَيْتَ وَسُمِّيَ رَبُّنَا سَمِيعاً لا بِخَرْتٍ فِيهِ يَسْمَعُ بِهِ الصَّوْتَ وَلا يُبْصِرُ بِهِ كَمَا أَنَّ خَرْتَنَا الَّذِي بِهِ نَسْمَعُ لا نَقْوَى بِهِ عَلَى الْبَصَرِ وَلَكِنَّهُ أَخْبَرَ أَنَّهُ لا يَخْفَى عَلَيْهِ شَيْءٌ مِنَ الاصْوَاتِ لَيْسَ عَلَى حَدِّ مَا سُمِّينَا نَحْنُ فَقَدْ جَمَعْنَا الاسْمَ بِالسَّمْعِ وَاخْتَلَفَ الْمَعْنَى وَهَكَذَا الْبَصَرُ لا بِخَرْتٍ مِنْهُ أَبْصَرَ كَمَا أَنَّا نُبْصِرُ بِخَرْتٍ مِنَّا لا نَنْتَفِعُ بِهِ فِي غَيْرِهِ وَلَكِنَّ الله بَصِيرٌ لا يَحْتَمِلُ شَخْصاً مَنْظُوراً إِلَيْهِ فَقَدْ جَمَعْنَا الاسْمَ وَاخْتَلَفَ الْمَعْنَى وَهُوَ قَائِمٌ لَيْسَ عَلَى مَعْنَى انْتِصَابٍ وَقِيَامٍ عَلَى سَاقٍ فِي كَبَدٍ كَمَا قَامَتِ الاشْيَاءُ وَلَكِنْ قَائِمٌ يُخْبِرُ أَنَّهُ حَافِظٌ كَقَوْلِ الرَّجُلِ الْقَائِمُ بِأَمْرِنَا فُلانٌ وَالله هُوَ الْقَائِمُ عَلَى كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَالْقَائِمُ أَيْضاً فِي كَلامِ النَّاسِ الْبَاقِي وَالْقَائِمُ أَيْضاً يُخْبِرُ عَنِ الْكِفَايَةِ كَقَوْلِكَ لِلرَّجُلِ قُمْ بِأَمْرِ بَنِي فُلانٍ أَيِ اكْفِهِمْ وَالْقَائِمُ مِنَّا قَائِمٌ عَلَى سَاقٍ فَقَدْ جَمَعْنَا الاسْمَ وَلَمْ نَجْمَعِ الْمَعْنَى وَأَمَّا اللَّطِيفُ فَلَيْسَ عَلَى قِلَّةٍ وَقَضَافَةٍ وَصِغَرٍ وَلَكِنْ ذَلِكَ عَلَى النَّفَاذِ فِي الاشْيَاءِ وَالامْتِنَاعِ مِنْ أَنْ يُدْرَكَ كَقَوْلِكَ لِلرَّجُلِ لَطُفَ عَنِّي هَذَا الامْرُ وَلَطُفَ فُلانٌ فِي مَذْهَبِهِ وَقَوْلِهِ يُخْبِرُكَ أَنَّهُ غَمَضَ فِيهِ الْعَقْلُ وَفَاتَ الطَّلَبُ وَعَادَ مُتَعَمِّقاً مُتَلَطِّفاً لا يُدْرِكُهُ الْوَهْمُ فَكَذَلِكَ لَطُفَ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى عَنْ أَنْ يُدْرَكَ بِحَدٍّ أَوْ يُحَدَّ بِوَصْفٍ وَاللَّطَافَةُ مِنَّا الصِّغَرُ وَالْقِلَّةُ فَقَدْ جَمَعْنَا الاسْمَ وَاخْتَلَفَ الْمَعْنَى وَأَمَّا الْخَبِيرُ فَالَّذِي لا يَعْزُبُ عَنْهُ شَيْءٌ وَلا يَفُوتُهُ لَيْسَ لِلتَّجْرِبَةِ وَلا لِلاعْتِبَارِ بِالاشْيَاءِ فَعِنْدَ التَّجْرِبَةِ وَالاعْتِبَارِ عِلْمَانِ وَلَوْ لا هُمَا مَا عُلِمَ لانَّ مَنْ كَانَ كَذَلِكَ كَانَ جَاهِلاً وَالله لَمْ يَزَلْ خَبِيراً بِمَا يَخْلُقُ وَالْخَبِيرُ مِنَ النَّاسِ الْمُسْتَخْبِرُ عَنْ جَهْلٍ الْمُتَعَلِّمُ فَقَدْ جَمَعْنَا الاسْمَ وَاخْتَلَفَ الْمَعْنَى وَأَمَّا الظَّاهِرُ فَلَيْسَ مِنْ أَجْلِ أَنَّهُ عَلا الاشْيَاءَ بِرُكُوبٍ فَوْقَهَا وَقُعُودٍ عَلَيْهَا وَتَسَنُّمٍ لِذُرَاهَا وَلَكِنْ ذَلِكَ لِقَهْرِهِ وَلِغَلَبَتِهِ الاشْيَاءَ وَقُدْرَتِهِ عَلَيْهَا كَقَوْلِ الرَّجُلِ ظَهَرْتُ عَلَى أَعْدَائِي وَأَظْهَرَنِي الله عَلَى خَصْمِي يُخْبِرُ عَنِ الْفَلْجِ وَالْغَلَبَةِ فَهَكَذَا ظُهُورُ الله عَلَى الاشْيَاءِ وَوَجْهٌ آخَرُ أَنَّهُ الظَّاهِرُ لِمَنْ أَرَادَهُ وَلا يَخْفَى عَلَيْهِ شَيْءٌ وَأَنَّهُ مُدَبِّرٌ لِكُلِّ مَا بَرَأَ فَأَيُّ ظَاهِرٍ أَظْهَرُ وَأَوْضَحُ مِنَ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى لانَّكَ لا تَعْدَمُ صَنْعَتَهُ حَيْثُمَا تَوَجَّهَتْ وَفِيكَ مِنْ آثَارِهِ مَا يُغْنِيكَ وَالظَّاهِرُ مِنَّا الْبَارِزُ بِنَفْسِهِ وَالْمَعْلُومُ بِحَدِّهِ فَقَدْ جَمَعَنَا الاسْمُ وَلَمْ يَجْمَعْنَا الْمَعْنَى وَأَمَّا الْبَاطِنُ فَلَيْسَ عَلَى مَعْنَى الاسْتِبْطَانِ لِلاشْيَاءِ بِأَنْ يَغُورَ فِيهَا وَلَكِنْ ذَلِكَ مِنْهُ عَلَى اسْتِبْطَانِهِ لِلاشْيَاءِ عِلْماً وَحِفْظاً وَتَدْبِيراً كَقَوْلِ الْقَائِلِ أَبْطَنْتُهُ يَعْنِي خَبَّرْتُهُ وَعَلِمْتُ مَكْتُومَ سِرِّهِ وَالْبَاطِنُ مِنَّا الْغَائِبُ فِي الشَّيْءِ الْمُسْتَتِرُ وَقَدْ جَمَعْنَا الاسْمَ وَاخْتَلَفَ الْمَعْنَى وَأَمَّا الْقَاهِرُ فَلَيْسَ عَلَى مَعْنَى عِلاجٍ وَنَصَبٍ وَاحْتِيَالٍ وَمُدَارَاةٍ وَمَكْرٍ كَمَا يَقْهَرُ الْعِبَادُ بَعْضُهُمْ بَعْضاً وَالْمَقْهُورُ مِنْهُمْ يَعُودُ قَاهِراً وَالْقَاهِرُ يَعُودُ مَقْهُوراً وَلَكِنْ ذَلِكَ مِنَ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى عَلَى أَنَّ جَمِيعَ مَا خَلَقَ مُلَبَّسٌ بِهِ الذُّلُّ لِفَاعِلِهِ وَقِلَّةُ الامْتِنَاعِ لِمَا أَرَادَ بِهِ لَمْ يَخْرُجْ مِنْهُ طَرْفَةَ عَيْنٍ أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ وَالْقَاهِرُ مِنَّا عَلَى مَا ذَكَرْتُ وَوَصَفْتُ فَقَدْ جَمَعْنَا الاسْمَ وَاخْتَلَفَ الْمَعْنَى وَهَكَذَا جَمِيعُ الاسْمَاءِ وَإِنْ كُنَّا لَمْ نَسْتَجْمِعْهَا كُلَّهَا فَقَدْ يَكْتَفِي الاعْتِبَارُ بِمَا أَلْقَيْنَا إِلَيْكَ وَالله عَوْنُكَ وَعَوْنُنَا فِي إِرْشَادِنَا وَتَوْفِيقِنَا۔

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا (اے راوی) جان تو خدا تجھے نیکی کی تعلیم دے کہ خدا تبارک و تعالیٰ قدیم ہے اور قدیم ہی وہ صفت ہے جو ایک عقلمند کے لیے رہنمائی کرتی ہے اس کی بات کہ نہ تو قدامت میں کوئی شے اس سے پہلے ہو سکتی ہے اور نہ اس کے بعد، اور ہم پر ظاہر ہوا ان عام لوگوں کے اقرار سے جنھوں نے صفت قدامت کو وسیع معنوں میں استعمال کیا ہے کہ کوئی شے نہ اس کے قبل ہے نہ اس کے ساتھ اگر بقا میں کوئی شے اس کے ساتھ ہوتی تو پھر اس کے لیے خالق ہونا جائز نہ ہوتا۔ کیونکہ دوسری چیز ہمیشہ اس کے ساتھ ہے اس کا خالق ہونا کیا معنی اور اگر اس سے پہلے ہے تو اول کے لیے خالق ہونا اولیٰ ہو گا نہ کہ بعد والے کے لیے، خدا نے اپنے نفس کا وصف بیان فرمایا کچھ اسماء سے اور جب مخلوق کو پیدا کیا تو ان کو بلایا اور ان سے اپنی عبادت چاہی اور ان کو آزمائش میں ڈالا تاکہ وہ انھیں ان ناموں سے پکاریں پس اس لیے اپنی ذات کا نام رکھا سمیع و بصیر و قادر و قائم و ناطق،ظاہر و باطن، لطیف و خبیر و قوی و عزیز و حکیم و علیم یا جو ان ناموں سے مشابہ ہیں۔ پس جب ہمارے دشمنوں اور جھوٹوں نے یہ نام دیکھے اور ہم کو اس طرح بات کرتے سنا کہ کوئی شے اس کے مثل نہیں اور نہ مخلوق میں کوئی شے اس کی حالت سے مشابہ ہے تو وہ لوگ کہنے لگے ہمیں یہ بتائیے جب آپ لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ خدا کی مثل کوئی نہیں اور کسی کو اس سے مشابہت نہیں تو پھر اس کے اسمائے حسنیٰ میں دوسرے شریک کیوں ہیں۔ تم خدا کے سب ناموں پر اپنے نام رکھ لیے ہیں یہ دلیل ہے اس بات کی کہ تم تمام حالات میں یا بعض حالات میں خدا کی مثل ہو۔ ان سے کہا گیا کہ جو خدا کے نام بندوں پر بولے جاتے ہیں ان کے معنی مختلف ہیں ہر ایک نام کے دو معنی ہوتے ہیں (حقیقی اور مجازی) اور اس کی دلیل لوگوں کی وہ بات چیت ہے جو ان کے درمیان رائج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خطاب کیا اپنی مخلوق سے اس طرح کہ وہ اس کو سمجھیں تاکہ ان پر حجت ہو اس مفہوم کے متعلق جو انھوں نے اپنی غلط تاویل سے ضائع کیا۔ انسان کے لیے عام طور پر جاتا ہے شیر ہے کتا ہے گدھا ہے یہ بیل ہے یہ میٹھا پھل ہے وہ کڑا پھل ہے یہ سب لفظ انسان کے خلاف اور اس کے حالات کے غیر ہیں جن معانی کے لیے یہ الفاظ بنائے گئے ہیں بیان معانی میں استعمال نہیں ہوتے بلکہ اس کے مجازی معنی ہیں کیونکہ انسان نہ شیر ہے نہ کتا ہے خدا تم پر رحم کرے۔ اس بات کو سمجھو۔ خدا کا نام عالم لیکن اس کا علم حادث نہیں کہ پہلے نہ ہو اور بعد میں آیا ہو اور اس نے اشیاء کو جانا ہو اور اس علم حادث سے اس نے مدد چاہی ہو اپنے پیش آنے والے معاملات کی حفاظت میں اور غور کرنے میں مخلوق کے خلق کرنے یا جو بنا چکا ہے اس کے مٹانے میں اس علم حادث سے مدد چاہی۔ اگر علم باری تعالیٰ عین ذات نہ ہوتا تو وہ جاہل اور ضعیف قرار پاتا۔ جیسا کہ ہم دنیا کے علماء کو پاتے ہیں کہ وہ عالم کہلاتے ہیں ازروئے علم حادث کیوں کہ ان میں جہالت تھی پھر علم ان میں آیا اور بعض اوقات وہ علم ان سے زائل ہو جاتا ہے اور وہ جہل کی طرف لوٹ آتے ہیں اور خدا کے عالم ہونے کے معنی یہ ہیں کہ کسی وقت بھی جہل کا ا سے تعلق نہیں رہتا پس لفظِ عالم کا اطلاق اگرچہ خالق و مخلوق دونوں پر ہوتا ہے مگر ان کے درمیان بلحاظ معنی فرق ہے اسی طرح ہمارے رب کا نام سمیع ہے لیکن اس کے لیے سوراخ گوش نہیں جس سے آواز سنی جاتی ہے اور اس سے دیکھا نہیں جاتا جیسے کہ ہمارے کان کا سوراخ جس سے ہم سنتے تو ہیں مگر اس سے دیکھتے نہیں لیکن خدا کے لیے اصوات سے کوئی چیز مخفی نہیں اور جیسے ہمارے سننے کے لیے ایک حد ہے اس کے لیے نہیں۔ پس سامع کا لفظ اگرچہ خالق و مخلوق دونوں پر بولا جاتا ہے مگر معنی مختلف ہیں اسی طرح سے بصر ہے کہ اس کے لیے دیکھنے کو کوئی آنکھ کی پتلی نہیں جیسے کہ ہم آنکھ کی پتلی سے دیکھتے ہیں اور سوائے دیکھنے کے کسی حاسہ کا کام اس سے نہیں لے سکتے اور اللہ ایسا بصیر ہے کہ اسے اس کی ضرورت نہیں کہ دیکھنے کے لیے کسی کا وجود اس کے سامنے ہو پس بصر کی صفت تو دونوں جگہ ہے مگر معنی مختلف ہیں اور وہ قائیم ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ اپنی پنڈلی پر سختی کے ساتھ کھڑا ہے جیسے تمام چیزیں کھڑی ہوتی ہیں بلکہ قائم کے عمنی حافظ کے ہیں جیسے کوئی کہے کہ ہمارا حافظ ہمارے معاملے میں فلاں ہے اللہ کا ہر نفس اس کے کسب کا قائم اور قائم کے معنی محاورہ عرب میں باقی کے ہیں اور قائم کے معنی کفایت کرنے والے کے بھی ہیں جیسے تم کہو کہ کھڑے ہو فلاں شخص کے لیے یعنی اس کے کام کو پورا کرو جس کے معنی میں ہم قائم بولتے ہیں وہ ساق پر کھڑے ہونے والے ہیں پس لفظ مشترک ہے اور معنی مختلف ہیں۔
اور لطیف سے مراد یہ نہیں کہ وہ کم یا دبلا ہے یا چھوٹا ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ مشابہت نہیں ہے اس کو اشیاء سے اور اس کی ذات کا ادراک ممنوع ہے اسی معنی میں ایک شخص کسی سے کہتا ہے باریک ہوا یہ امر میرے لیے یعنی پنہاں ہو گئی اس کی حقیقت اور اس طرح بھی بولتا ہے کہ فلاں شخص اپنی راہ و روش میں باریک ہو گیا یعنی عقل اس میں ڈوب کر رہ گئی اور جستجو ختم ہو گئی اور بڑا گہرا اور باریک ہو گیا، عقل اس کا ادراک نہیں کر سکتی پس یہی معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے لطیف ہونے کے جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ کسی حد سے ادراک نہیں کیا جا سکتا اور نہ کسی وصف میں محدود ہے ہمارے لحاظ سے لطافت کے معنی چھوٹائی اور کمی کے ہیں خدا کے لیے یہ معنی نہیں پس اسم ایک ہے اور معنی مختلف ہیں۔
اور خبیر وہ ہے کہ کوئی شے اس سے پوشیدہ نہ ہو نہ اس کے قبضہ سے جائے اس کا تعلق نہ تجربہ سے ہے اور نہ مخلوق کی حالت کے اعتبار سے، تجربہ اور اعتبار دو قسم کے علم ہیں اگر وہ نہ ہوں تو علم ندارد، کیونکہ بے تجربہ اور اعتبار والا جاہل ہو گا اللہ ایسا نہیں وہ ہمیشہ سے خبیر ہے یعنی علم رکھنے والا ہر اس چیز کا جو اس نے پیدا کی ہے اور آدمی کو جو خبیر کہا جاتا ہے وہ اس معنی میں کہ خبر حاصل کرتا ہے دوسروں سے، پس لفظ ایک اور معنی مختلف۔ اور خدا ظاہر ہے نہ بایں معنی کے اشیاء عالم پر بلند ہوا سوار ہو کر ان کے اوپر حصہ پر اور چڑھ کر ان کی چوٹیوں پر بلکہ وہ تمام اشیاء پر اپنی قدرت سے غالب آیا ہے محاورہ میں یہ کہا جاتا ہے میں اپنے دشمنوں پر غالب آیا یا خدا نے میرے دشمنوں پر مجھے غالب کیا۔ پس اس معنی میں ہے ظاہر یعنی غالب ہونا اللہ کا مخلوق پر ایک وجہ اور بھی ہے کہ وہ غالب ہے ہر اس چیز پر جس کا وہ ارادہ کرے۔ اس پر کوئی شے مخفی نہیں وہ مدبر ہے ہر اس شے کا جس کو اس نے پیدا کیا پس کون غالب و اغلب و واضح ہے۔ اللہ تعالیٰ سے کیونکہ تم اس کی صنعت کو پاؤ گے جہاں کہیں بھی تم ہو اور تمہارے اندر اس کی قدرت کے بے شمار نشان ہیں جن سے تم بے پرواہ نہیں ہو اور ظاہر کا لفظ ہمارے لیے جس معنیٰ میں بولا جاتا ہے اپنے نفس سے ظاہر ہونا اور ایک حد تک جانا ہوا ہوتا ہے پس لفظ تو ایک ہے مگر معنی مختلف۔
اور خدا کی صفت باطن ہے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ کسی چیز کے اندر ڈھکا ہو یا چھپا ہوا ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اشیاء کے اندروںی حالات کو اپنے علم و حفظ و تدبیر سے جانتا ہے محاورہ میں کہا جاتا ہے یعنی میں اس کے پوشیدہ بھید سے واقف ہو گیا اور ہمارے لحاظ سے باطن کا لفظ کسی شے میں غائب و مستر چیز کے لیے بولا جاتا ہے پس لفظ ایک ہے اور معنی مختلف۔
اور خدا کا قاہر ہونا تو اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ اعضاء سے کام لیتا ہے یا اسے تکان محسوس ہوتی ہے یا وہ حیلہ اور مکر سے کام لیتا ہے بندوں میں مقہور قاہر بن جاتے ہیں اور قاہر مقہور بن جاتے ہیں۔ خدا کے لیے ایسا نہیں اس کی تمام مخلوق اپنے خالق کے سامنےذلیل و مغلوب ہے کسی کی طاقت نہیں کہ اس کے ارادہ کو روک دے اور ایک آن واحد کے لیے اس کی حکومت سے بہر ہو جائے جب وہ کہتا ہے ہو جا پس وہ چیز ہو جاتی ہے اور ہم میں جو قاہر کہلاتے ہیں یہ اوصاف ہم میں نہیں، پس لفظ ایک ہے اور معنی مختلف ہیں، یہی صورت تمام اسمائے الہٰیہ کے لیے ہے ہم سب کا ذکر نہیں کرتے صرف چند ناموں کے متعلق تم کو بتا دیا ہے خدا اپنی ہدایت و توفیق میں تمہاری اور ہماری مدد کرے۔