مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

(2-16)

اسماء کے معانی اور ان کا اشتقاق

حدیث نمبر 1

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ يَحْيَى عَنْ جَدِّهِ الْحَسَنِ بْنِ رَاشِدٍ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ سِنَانٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام عَنْ تَفْسِيرِ بِسْمِ الله الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ قَالَ الْبَاءُ بَهَاءُ الله وَالسِّينُ سَنَاءُ الله وَالْمِيمُ مَجْدُ الله وَرَوَى بَعْضُهُمْ الْمِيمُ مُلْكُ الله وَالله إِلَهُ كُلِّ شَيْءٍ الرَّحْمَنُ بِجَمِيعِ خَلْقِهِ وَالرَّحِيمُ بِالْمُؤْمِنِينَ خَاصَّةً۔

عبداللہ بن سنان سے مروی ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کی تفسیر پوچھی۔ فرمایا ب سے بہا یعنی اس کا غالب ہونا مراد ہے اور س سے سنا یعنی اس کی رفعت و عظمت مراد ہے میم سے مجد اللہ یعنی بزرگی خدا اور بعض کے نزدیک بادشاہتِ خدا مراد ہے اور اللہ ہر شے کا کا معبود ہے۔ رحمٰن ہے اپنی مخلوق پر اور رحیم ہے خاص کر مومنین پر۔

حدیث نمبر 2

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ الْحَكَمِ أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام عَنْ أَسْمَاءِ الله وَاشْتِقَاقِهَا الله مِمَّا هُوَ مُشْتَقٌّ فَقَالَ يَا هِشَامُ الله مُشْتَقٌّ مِنْ إِلَهٍ وَإِلَهٌ يَقْتَضِي مَأْلُوهاً وَالاسْمُ غَيْرُ الْمُسَمَّى فَمَنْ عَبَدَ الاسْمَ دُونَ الْمَعْنَى فَقَدْ كَفَرَ وَلَمْ يَعْبُدْ شَيْئاً وَمَنْ عَبَدَ الاسْمَ وَالْمَعْنَى فَقَدْ أَشْرَكَ وَعَبَدَ اثْنَيْنِ وَمَنْ عَبَدَ الْمَعْنَى دُونَ الاسْمِ فَذَاكَ التَّوْحِيدُ أَ فَهِمْتَ يَا هِشَامُ قَالَ قُلْتُ زِدْنِي قَالَ لله تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ اسْماً فَلَوْ كَانَ الاسْمُ هُوَ الْمُسَمَّى لَكَانَ كُلُّ اسْمٍ مِنْهَا إِلَهاً وَلَكِنَّ الله مَعْنًى يُدَلُّ عَلَيْهِ بِهَذِهِ الاسْمَاءِ وَكُلُّهَا غَيْرُهُ يَا هِشَامُ الْخُبْزُ اسْمٌ لِلْمَأْكُولِ وَالْمَاءُ اسْمٌ لِلْمَشْرُوبِ وَالثَّوْبُ اسْمٌ لِلْمَلْبُوسِ وَالنَّارُ اسْمٌ لِلْمُحْرِقِ أَ فَهِمْتَ يَا هِشَامُ فَهْماً تَدْفَعُ بِهِ وَتُنَاضِلُ بِهِ أَعْدَاءَنَا الْمُتَّخِذِينَ مَعَ الله عَزَّ وَجَلَّ غَيْرَهُ قُلْتُ نَعَمْ فَقَالَ نَفَعَكَ الله بِهِ وَثَبَّتَكَ يَا هِشَامُ قَالَ فَوَ الله مَا قَهَرَنِي أَحَدٌ فِي التَّوْحِيدِ حَتَّى قُمْتُ مَقَامِي هَذَا۔

ہشام بن الحکم نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اسمائے الہٰیہ اور ان کے اشتقاق کے متعلق سوال کیا۔ حضرت نے فرمایا اے ہشام اللہ مشتق ہے الٰہ (معبود) سے اور الٰہ کے لیے ضروری ہے کہ عبادت کرنے والا بھی ہو اور اس مسمیٰ کے غیر ہوتا ہے۔ پس جس نے معنی کو چھوڑ کر نام کی عبادت کی اس نے کفر کیا اور کسی چیز کی بھی عبادت نہ کی اور جس نے نام اور معنی دونوں کی عبادت کی اس نے شرک کیا اور دو کی عبادت کی۔ اور جس نے صرف معنی کی عبادت کی تو یہ توحید ہے۔ اے ہشام تم سمجھ گئے ہو۔ میں نے کہا اور فرمائیے۔ فرمایا اللہ کے 99 نام ہیں اگر ہر نام ایک ذات ہوتا تو ہر نام ایک معبود بن جاتا لیکن اللہ کا ایک مفہوم ہے جو ان سب ناموں پر ایک دلالت کرتا ہے اور مفہوم ان تمام اسماء کا غیر ہے۔ اے ہشام سمجھو روٹی ایک ماکول چیز کا نام ہے (نام اور روٹی الگ الگ چیزیں ہیں) پانی ایک مشروب چیز کا نام ہے، لباس ایک ملبوس چیز کا نام ہے، آگ ایک جلانے والی چیز کا نام ہے۔ اے ہشام تم سمجھ گئے ہو اب اس دلیل سے ہمارے دشمنوں کو رد کرنا جو اللہ کے ساتھ اس کے غیر کو بھی معبود بنائے ہوئے ہیں میں نے کہا میں خوب سمجھ گیا۔ ہشام کہتے ہیں واللہ اس مسئلہ توحید میں کوئی مجھ پر غالب نہ آیا اور میں ہر جگہ اپنے مقام پر قائم رہا۔

حدیث نمبر 3

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْبَرْقِيِّ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ يَحْيَى عَنْ جَدِّهِ الْحَسَنِ بْنِ رَاشِدٍ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ (عَلَيْهما السَّلام) قَالَ سُئِلَ عَنْ مَعْنَى الله فَقَالَ اسْتَوْلَى عَلَى مَا دَقَّ وَجَلَّ۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے کسی نے اللہ کے معنی کے متعلق سوال کیا۔ فرمایا اللہ کے معنی یہ ہیں کہ وہ غالب ہے ہر دقیق و جلیل چیز پر۔

حدیث نمبر 4

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ يَزِيدَ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ هِلالٍ قَالَ سَأَلْتُ الرِّضَا علیہ السلام عَنْ قَوْلِ الله الله نُورُ السَّماواتِ وَالارْضِ فَقَالَ هَادٍ لاهْلِ السَّمَاءِ وَهَادٍ لاهْلِ الارْضِ وَفِي رِوَايَةِ الْبَرْقِيِّ هُدَى مَنْ فِي السَّمَاءِ وَهُدَى مَنْ فِي الارْضِ۔

عباس بن ہلال سے مروی ہے کہ میں نے امام رضا علیہ السلام سے یہ آیہ اللہ نور السمٰوات والارض کے متعلق سوا کیا۔ فرمایا اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ آسمان و زمین کا ہدایت کرنے والا ہے اور ایک روایت میں ہے وہ ہدایت ہے آسمانوں اور زمین کے لیے۔

حدیث نمبر 5

أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى عَنْ فُضَيْلِ بْنِ عُثْمَانَ عَنِ ابْنِ أَبِي يَعْفُورٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام عَنْ قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ هُوَ الاوَّلُ وَالاخِرُ وَقُلْتُ أَمَّا الاوَّلُ فَقَدْ عَرَفْنَاهُ وَأَمَّا الاخِرُ فَبَيِّنْ لَنَا تَفْسِيرَهُ فَقَالَ إِنَّهُ لَيْسَ شَيْءٌ إِلا يَبِيدُ أَوْ يَتَغَيَّرُ أَوْ يَدْخُلُهُ التَّغَيُّرُ وَالزَّوَالُ أَوْ يَنْتَقِلُ مِنْ لَوْنٍ إِلَى لَوْنٍ وَمِنْ هَيْئَةٍ إِلَى هَيْئَةٍ وَمِنْ صِفَةٍ إِلَى صِفَةٍ وَمِنْ زِيَادَةٍ إِلَى نُقْصَانٍ وَمِنْ نُقْصَانٍ إِلَى زِيَادَةٍ إِلا رَبَّ الْعَالَمِينَ فَإِنَّهُ لَمْ يَزَلْ وَلا يَزَالُ بِحَالَةٍ وَاحِدَةٍ هُوَ الاوَّلُ قَبْلَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الاخِرُ عَلَى مَا لَمْ يَزَلْ وَلا تَخْتَلِفُ عَلَيْهِ الصِّفَاتُ وَالاسْمَاءُ كَمَا تَخْتَلِفُ عَلَى غَيْرِهِ مِثْلُ الانْسَانِ الَّذِي يَكُونُ تُرَاباً مَرَّةً وَمَرَّةً لَحْماً وَدَماً وَمَرَّةً رُفَاتاً وَرَمِيماً وَكَالْبُسْرِ الَّذِي يَكُونُ مَرَّةً بَلَحاً وَمَرَّةً بُسْراً وَمَرَّةً رُطَباً وَمَرَّةً تَمْراً فَتَتَبَدَّلُ عَلَيْهِ الاسْمَاءُ وَالصِّفَاتُ وَالله جَلَّ وَعَزَّ بِخِلافِ ذَلِكَ۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا اس قول کے خدا کے معنی ہیں کہ "وہ اول ہے وہ آخر ہے" اول کو تو ہم نے سمجھ لیا لیکن آخر کے معنی بیان فرمائیے۔ حضرت نے فرمایا دنیا کی ہر شے ہلاک ہوتی اور متغیر ہوتی ہے ایک رنگ سے دوسرے رنگ کی طرف، ایک صورت سے دوسری صورت کی طرف، ایک صفت سے دوسری صفت کی طرف، زیادتی سے نقصان اور نقصان سے زیادتی کی طرف لے جاتی ہے اور رب العالمین کی ذات کو نہ زوال ہو گا اور نہ اس کی صفات و اسماء میں کوئی اختلاف ہے جیسے کہ اس کے غیر میں ہوتا ہے مثلِ انسان کے جو ایک بار مٹی ہوتا پھر گوشت اور پھر خون پھر بوسیدہ ہڈی یا جیسے خرما کو پہلے پھول ہوتا ہے پھر کچا خرمہ پھر رطب تمرا اس اختلاف کے ساتھ اس کے نام بدلتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے یہ نہیں۔

حدیث نمبر 6

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنِ ابْنِ أُذَيْنَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ مَيْمُونٍ الْبَانِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام وَقَدْ سُئِلَ عَنِ الاوَّلِ وَالاخِرِ فَقَالَ الاوَّلُ لا عَنْ أَوَّلٍ قَبْلَهُ وَلا عَنْ بَدْءٍ سَبَقَهُ وَالاخِرُ لا عَنْ نِهَايَةٍ كَمَا يُعْقَلُ مِنْ صِفَةِ الْمَخْلُوقِينَ وَلَكِنْ قَدِيمٌ أَوَّلٌ آخِرٌ لَمْ يَزَلْ وَلا يَزُولُ بِلا بَدْءٍ وَلا نِهَايَةٍ لا يَقَعُ عَلَيْهِ الْحُدُوثُ وَلا يَحُولُ مِنْ حَالٍ إِلَى حَالٍ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ۔

راوی کہتا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے اول و آخر کے متعلق سوا کیا گیا۔ آپ نے فرمایا اول ہے لیکن اس سے پہلے کوئی نہیں، کسی نے ابتداء میں اس پر سبقت نہیں کی۔ وہ آخر ہے مگر اس کی نہایت نہیں، یہ تو مخلوق کی صفت ہے جو ذاتِ قدیم اول و آخر ہے وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی نہ اس کی ابتداء نہ انتہا نہ اس کا تعلق حدوث سے ہے اور نہ ایک حال سے دوسرے حال کی طرف بدلتا ہے ۔ وہ ہر شے کا خالق ہے۔

حدیث نمبر 7

مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الله رَفَعَهُ إِلَى أَبِي هَاشِمٍ الْجَعْفَرِيِّ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ أَبِي جَعْفَرٍ الثَّانِي علیہ السلام فَسَأَلَهُ رَجُلٌ فَقَالَ أَخْبِرْنِي عَنِ الرَّبِّ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَهُ أَسْمَاءٌ وَصِفَاتٌ فِي كِتَابِهِ وَأَسْمَاؤُهُ وَصِفَاتُهُ هِيَ هُوَ فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام إِنَّ لِهَذَا الْكَلامِ وَجْهَيْنِ إِنْ كُنْتَ تَقُولُ هِيَ هُوَ أَيْ إِنَّهُ ذُو عَدَدٍ وَكَثْرَةٍ فَتَعَالَى الله عَنْ ذَلِكَ وَإِنْ كُنْتَ تَقُولُ هَذِهِ الصِّفَاتُ وَالاسْمَاءُ لَمْ تَزَلْ فَإِنَّ لَمْ تَزَلْ مُحْتَمِلٌ مَعْنَيَيْنِ فَإِنْ قُلْتَ لَمْ تَزَلْ عِنْدَهُ فِي عِلْمِهِ وَهُوَ مُسْتَحِقُّهَا فَنَعَمْ وَإِنْ كُنْتَ تَقُولُ لَمْ يَزَلْ تَصْوِيرُهَا وَهِجَاؤُهَا وَتَقْطِيعُ حُرُوفِهَا فَمَعَاذَ الله أَنْ يَكُونَ مَعَهُ شَيْءٌ غَيْرُهُ بَلْ كَانَ الله وَلا خَلْقَ ثُمَّ خَلَقَهَا وَسِيلَةً بَيْنَهُ وَبَيْنَ خَلْقِهِ يَتَضَرَّعُونَ بِهَا إِلَيْهِ وَيَعْبُدُونَهُ وَهِيَ ذِكْرُهُ وَكَانَ الله وَلا ذِكْرَ وَالْمَذْكُورُ بِالذِّكْرِ هُوَ الله الْقَدِيمُ الَّذِي لَمْ يَزَلْ وَالاسْمَاءُ وَالصِّفَاتُ مَخْلُوقَاتٌ وَالْمَعَانِي وَالْمَعْنِيُّ بِهَا هُوَ الله الَّذِي لا يَلِيقُ بِهِ الاخْتِلافُ وَلا الائْتِلافُ وَإِنَّمَا يَخْتَلِفُ وَيَأْتَلِفُ الْمُتَجَزِّئُ فَلا يُقَالُ الله مُؤْتَلِفٌ وَلا الله قَلِيلٌ وَلا كَثِيرٌ وَلَكِنَّهُ الْقَدِيمُ فِي ذَاتِهِ لانَّ مَا سِوَى الْوَاحِدِ مُتَجَزِّئٌ وَالله وَاحِدٌ لا مُتَجَزِّئٌ وَلا مُتَوَهَّمٌ بِالْقِلَّةِ وَالْكَثْرَةِ وَكُلُّ مُتَجَزِّئٍ أَوْ مُتَوَهَّمٍ بِالْقِلَّةِ وَالْكَثْرَةِ فَهُوَ مَخْلُوقٌ دَالُّ عَلَى خَالِقٍ لَهُ فَقَوْلُكَ إِنَّ الله قَدِيرٌ خَبَّرْتَ أَنَّهُ لا يُعْجِزُهُ شَيْءٌ فَنَفَيْتَ بِالْكَلِمَةِ الْعَجْزَ وَجَعَلْتَ الْعَجْزَ سِوَاهُ وَكَذَلِكَ قَوْلُكَ عَالِمٌ إِنَّمَا نَفَيْتَ بِالْكَلِمَةِ الْجَهْلَ وَجَعَلْتَ الْجَهْلَ سِوَاهُ وَإِذَا أَفْنَى الله الاشْيَاءَ أَفْنَى الصُّورَةَ وَالْهِجَاءَ وَالتَّقْطِيعَ وَلا يَزَالُ مَنْ لَمْ يَزَلْ عَالِماً فَقَالَ الرَّجُلُ فَكَيْفَ سَمَّيْنَا رَبَّنَا سَمِيعاً فَقَالَ لانَّهُ لا يَخْفَى عَلَيْهِ مَا يُدْرَكُ بِالاسْمَاعِ وَلَمْ نَصِفْهُ بِالسَّمْعِ الْمَعْقُولِ فِي الرَّأْسِ وَكَذَلِكَ سَمَّيْنَاهُ بَصِيراً لانَّهُ لا يَخْفَى عَلَيْهِ مَا يُدْرَكُ بِالابْصَارِ مِنْ لَوْنٍ أَوْ شَخْصٍ أَوْ غَيْرِ ذَلِكَ وَلَمْ نَصِفْهُ بِبَصَرِ لَحْظَةِ الْعَيْنِ وَكَذَلِكَ سَمَّيْنَاهُ لَطِيفاً لِعِلْمِهِ بِالشَّيْءِ اللَّطِيفِ مِثْلِ الْبَعُوضَةِ وَأَخْفَى مِنْ ذَلِكَ وَمَوْضِعِ النُّشُوءِ مِنْهَا وَالْعَقْلِ وَالشَّهْوَةِ لِلسَّفَادِ وَالْحَدَبِ عَلَى نَسْلِهَا وَإِقَامِ بَعْضِهَا عَلَى بَعْضٍ وَنَقْلِهَا الطَّعَامَ وَالشَّرَابَ إِلَى أَوْلادِهَا فِي الْجِبَالِ وَالْمَفَاوِزِ وَالاوْدِيَةِ وَالْقِفَارِ فَعَلِمْنَا أَنَّ خَالِقَهَا لَطِيفٌ بِلا كَيْفٍ وَإِنَّمَا الْكَيْفِيَّةُ لِلْمَخْلُوقِ الْمُكَيَّفِ وَكَذَلِكَ سَمَّيْنَا رَبَّنَا قَوِيّاً لا بِقُوَّةِ الْبَطْشِ الْمَعْرُوفِ مِنَ الْمَخْلُوقِ وَلَوْ كَانَتْ قُوَّتُهُ قُوَّةَ الْبَطْشِ الْمَعْرُوفِ مِنَ الْمَخْلُوقِ لَوَقَعَ التَّشْبِيهُ وَلاحْتَمَلَ الزِّيَادَةَ وَمَا احْتَمَلَ الزِّيَادَةَ احْتَمَلَ النُّقْصَانَ وَمَا كَانَ نَاقِصاً كَانَ غَيْرَ قَدِيمٍ وَمَا كَانَ غَيْرَ قَدِيمٍ كَانَ عَاجِزاً فَرَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى لا شِبْهَ لَهُ وَلا ضِدَّ وَلا نِدَّ وَلا كَيْفَ وَلا نِهَايَةَ وَلا تَبْصَارَ بَصَرٍ وَمُحَرَّمٌ عَلَى الْقُلُوبِ أَنْ تُمَثِّلَهُ وَعَلَى الاوْهَامِ أَنْ تَحُدَّهُ وَعَلَى الضَّمَائِرِ أَنْ تُكَوِّنَهُ جَلَّ وَعَزَّ عَنْ أَدَاةِ خَلْقِهِ وَسِمَاتِ بَرِيَّتِهِ وَتَعَالَى عَنْ ذَلِكَ عُلُوّاً كَبِيراً۔

ابو ہاشم جعفری سے مروی ہے کہ ایک بار امام محمد تقی علیہ السلام سے ایک شخص نے سوال کیا، کیا کتابِ خدا میں اللہ کے اسماء و صفات ہیں اور آیا وہ اس کی ذات ہیں۔ فرمایا اس کے کلام کی دو صورتیں ہیں اگر تمہارا یہ مطلب ہے کہ اسماء و صفات کے ساتھ وہ صاحب عدد و کثرت ہے تو خدا اس سے بلند و برتر ہے اگر مراد یہ ہے کہ یہ اسماء و صفات ازلی نہیں تو اس کے دو معنی کا احتمال ہے اگر تیری مراد یہ ہے کہ اسماء و صفات اس کے علم سے تھے کہ احادث ہوں گے اور مخلوق ان کے ذریعہ سے خدا کو یاد کرے تو ٹھیک ہے اور اگر تیری مراد یہ ہے کہ اسماء کی تصویریں ان کے ہجے اور ان کے ٹکڑے بھی ہمیشہ سے اللہ کے ساتھ ہیں تو خدا کی پناہ کوئی چیز جو اس کا غیر ہے اس کے ساتھ نہیں ہو سکتی خدا تھا اور مخلوق نہ تھی۔اس نے اسماء کو پیدا کر دیا تاکہ وہ اس کے اور اسکے اسماء کے درمیان وسیلہ بن جائیں۔ لوگ اس کے ذریعہ سے خدا کے سامنے فریاد کریں اور اس کی عبادت کریں اور عبادت کیا اس کا ذکر، خدا تھا جب کہ اس کا ذکر نہ تھا اور نہ وہ اپنے ذکر سے ذکر کیا ہوا تھا کیونکہ وہ قدیم ہے اور ہمیشہ سے ہے اور اسماء و صفات اس کی مخلوق ہیں اور ان سے مراد ہے وہ اللہ جس کے لیے نہ مختلف ہونا لائق ہے نہ موتلف ہونا کیونکہ الگ ہونا یا ملنا اس چیز کے لیے ہوتا ہے جو صاحب تجزیہ ہو۔ پس یہ نہیں کہا جائے گا کہ خدا مرکب ہے اور نہ یہ کہا جائے گا کہ وہ قلیل یا کثیر ہے بلکہ وہ اپنی ذات میں قدیم ہے واحد کے سوا جو ہے وہ صاحب اجزاء ہے اور اللہ واحد ہے، صاحبِ اجزاء نہیں اور نہ قلت و کثرت کا اس سے تعلق ہے۔ وہ مخلوق ہے اور اس کی دلیل ہے کہ اس کا کوئی خالق ہے پس تمہارا یہ کہنا کہ خدا قدیر ہے یہ اس امر کی خبر دیتا ہے کہ اس کو کوئی شے عاجز نہیں بناتی، پس تم نے قدیر کہہ کر عاجزی کی، اس سے نفی کی اور عجز کو اس سے الگ قرار دیا۔ ایسے ہی جب تم نے عالم کہا تو اس سے جہل کی نفی کی یعنی جہل کو اس سے الگ قرار دیا۔ پس جب فنا کرے گا اشیاء کو تو فنا کریگا اپنے اسماء کی صورت، ہیجا و تقطیع کو بھی اور وہ ہمیشہ سے عالم ہے (مطلب یہ ہے کہ سوائے اس کی ذاتِ قدیم کے تمام چیزیں حادث و فانی ہیں خواہ اس کے اسماء ہوں یا ان کی صورتیں)۔
ایک شخص نے کہا ہم اپنے رب کا نام سننے والا کیسے رکھیں۔ فرمایا وہ ایسا سننے والا ہے کہ جو باتیں کانوں سے سنی جاتیں ہیں وہ اس پر مخفی نہیں لیکن ہم اس کے وصف ان کانوں سے نہیں کریں گے جو سر میں ہوتے ہیں ایسے ہی ہم اس کا نام بصیر رکھیں گے اس لیے جو بینائیاں جن چیزوں کا ادراک کرتی ہیں رنگ یا وجود وغیرہ اس کی ذات پر مخفی نہیں لیکن ہم اس کا وصف نہ بیان کریں گے ان آنکھوں کے ساتھ جو سر میں ہوتی ہیں ایسے ہی ہم اس کو لطیف کہتے ہیں کیونکہ وہ چھوٹی سے چھوٹی چیز کے متعلق علم رکھتا ہے جیسے مچھر یا اس سے بھی خفی تر کوئی چیز اور اس کی نشو و نما کو اور عقل کو اور اس کے جنتی کھانے کی خواہش کو اپنی نسل پر مہربان ہونے کو اور بعض کا بعض کے ساتھ رہنا سہنا اور کھانے پینے کی چیزوں کو لے جانا اپنی اولاد کے لیے پہاڑوں، جنگلوں، وادیوں اور چٹیل میدانوں میں۔ پس ہم نے جان لیا کہ ہمارا خالق لطیف ہے اس کے لیے کوئی کیفیت نہیں کیونکہ کیفیت تو مخلوق کے لیے ہوتی ہے پس اسی طرح ہم نے نام رکھا اپنے رب کا قوی لیکن نہ ایسا زور و قوت والا جیسا مخلوق میں مشہور ہے اگر اس کی قوت مخلوق کی سی قوت ہوتی تو مخلوق سے اس کی تشبیہہ ہو جاتی، زیادتی کے احتمال کی بناء پر اور جہاں زیادتی کا احتمال ہوتا ہے وہاں کمی کا بھی ہوتا ہے اور جو ناقص ہوتا وہ غیر قدیم ہوتا ہے اور غیر قدیم عاجز ہوتا ہے۔ ہمارا رب اس سے بلند و برتر ہے کوئی اس کا شبیہہ نہیں، اس کی ضد نہیں، اس کی نظیر نہیں نہ اس کے لیے کوئی کیفیت ہے اور نہ نہایت، نہ وہ آنکھ سے دیکھتا ہے۔ حرام ہے قلوب پر اس کی تمثیل بنانا، عقلوں پر اس کی حد قائم کرنا اور انسانی ضمیروں یا دلوں پر کہ اس کی صورت گری کریں۔ خدا کی ذات بزرگ و برتر ہے کہ اس میں مخلوق کے سے آلات و اسباب ہوں اور مخلوق کے سے آثار ہوں، خدا کی شان اس سے بہت ارفع و اعلیٰ ہے۔

حدیث نمبر 8

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ قَالَ رَجُلٌ عِنْدَهُ الله أَكْبَرُ فَقَالَ الله أَكْبَرُ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ فَقَالَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام حَدَّدْتَهُ فَقَالَ الرَّجُلُ كَيْفَ أَقُولُ قَالَ قُلْ الله أَكْبَرُ مِنْ أَنْ يُوصَفَ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ ایک شخص نے آپ کے سامنے کہا اللہ اکبر۔ فرمایا بتاؤ وہ کس سے بڑا ہے۔ اس نے کہا ہر شے سے ۔ فرمایا تو نے اس کے لیے حد قائم کر دی۔ اس نے کہا پھر کیسے کہوں۔ فرمایا یوں کہو کہ اللہ بزرگ ہے اس سے کہ اس کی تعریف کی جائے۔

حدیث نمبر 9

وَرَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مَرْوَكِ بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام أَيُّ شَيْءٍ الله أَكْبَرُ فَقُلْتُ الله أَكْبَرُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ فَقَالَ وَكَانَ ثَمَّ شَيْءٌ فَيَكُونُ أَكْبَرَ مِنْهُ فَقُلْتُ وَمَا هُوَ قَالَ الله أَكْبَرُ مِنْ أَنْ يُوصَفَ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا اللہ کس چیز سے بڑا ہے۔ میں نے کہا ہر شے سے، فرمایا جب اس سے پہلے کوئی چیز نہ تھی تو اس وقت ہر شے سے بڑا کیسے ہوا۔ میں نے کہا پھر وہ کیا ہے۔ فرمایا وہ بزرگ و برتر ہے اس سے کہ اس کا وصف بیان کیا جائے۔

حدیث نمبر 10

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ هِشَامِ بْنِ الْحَكَمِ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام عَنْ سُبْحَانَ الله فَقَالَ أَنَفَةٌ لله۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سبحان اللہ کے معنی پوچھے۔ فرمایا اس کو منزہ و مبرا جاننا ہے ہر شے سے جو اس کے لائق نہ ہو۔

حدیث نمبر 11

أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ عَنْ عَبْدِ الْعَظِيمِ بْنِ عَبْدِ الله الْحَسَنِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَسْبَاطٍ عَنْ سُلَيْمَانَ مَوْلَى طِرْبَالٍ عَنْ هِشَامٍ الْجَوَالِيقِيِّ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام عَنْ قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ سُبْحانَ الله مَا يُعْنَى بِهِ قَالَ تَنْزِيهُهُ۔

ہشام سے مروی ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سبحان اللہ کے معنی پوچھے۔ فرمایا اس کی ذات کو (صفاتِ مخلوق سے) منزہ جاننا۔

حدیث نمبر 12

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى جَمِيعاً عَنْ أَبِي هَاشِمٍ الْجَعْفَرِيِّ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ الثَّانِيَ علیہ السلام مَا مَعْنَى الْوَاحِدِ فَقَالَ إِجْمَاعُ الالْسُنِ عَلَيْهِ بِالْوَحْدَانِيَّةِ كَقَوْلِهِ تَعَالَى وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ الله۔

راوی کہتا ہے میں نے امام محمد تقی علیہ السلام سے پوچھا الواحد کے کیا معنی ہیں۔ فرمایا اس کی وحدانیت پر لوگوں کا اجماع ہے جیسا کہ فرماتا ہے اگر لوگوں سے تم پوچھو گے کہ انھیں کس نے پیدا کیا تو وہ کہیں گے اللہ نے۔