عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي حَمَّادٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ يَزِيدَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله قَالَ إِنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى خَلَقَ اسْماً بِالْحُرُوفِ غَيْرَ مُتَصَوَّتٍ وَبِاللَّفْظِ غَيْرَ مُنْطَقٍ وَبِالشَّخْصِ غَيْرَ مُجَسَّدٍ وَبِالتَّشْبِيهِ غَيْرَ مَوْصُوفٍ وَبِاللَّوْنِ غَيْرَ مَصْبُوغٍ مَنْفِيٌّ عَنْهُ الاقْطَارُ مُبَعَّدٌ عَنْهُ الْحُدُودُ مَحْجُوبٌ عَنْهُ حِسُّ كُلِّ مُتَوَهِّمٍ مُسْتَتِرٌ غَيْرُ مَسْتُورٍ فَجَعَلَهُ كَلِمَةً تَامَّةً عَلَى أَرْبَعَةِ أَجْزَاءٍ مَعاً لَيْسَ مِنْهَا وَاحِدٌ قَبْلَ الاخَرِ فَأَظْهَرَ مِنْهَا ثَلاثَةَ أَسْمَاءٍ لِفَاقَةِ الْخَلْقِ إِلَيْهَا وَحَجَبَ مِنْهَا وَاحِداً وَهُوَ الاسْمُ الْمَكْنُونُ الْمَخْزُونُ فَهَذِهِ الاسْمَاءُ الَّتِي ظَهَرَتْ فَالظَّاهِرُ هُوَ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَسَخَّرَ سُبْحَانَهُ لِكُلِّ اسْمٍ مِنْ هَذِهِ الاسْمَاءِ أَرْبَعَةَ أَرْكَانٍ فَذَلِكَ اثْنَا عَشَرَ رُكْناً ثُمَّ خَلَقَ لِكُلِّ رُكْنٍ مِنْهَا ثَلاثِينَ اسْماً فِعْلاً مَنْسُوباً إِلَيْهَا فَهُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ الْحَكِيمُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ الْمُقْتَدِرُ الْقَادِرُ السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْبَارِئُ الْمُنْشِئُ الْبَدِيعُ الرَّفِيعُ الْجَلِيلُ الْكَرِيمُ الرَّازِقُ الْمُحْيِي الْمُمِيتُ الْبَاعِثُ الْوَارِثُ فَهَذِهِ الاسْمَاءُ وَمَا كَانَ مِنَ الاسْمَاءِ الْحُسْنَى حَتَّى تَتِمَّ ثَلاثَ مِائَةٍ وَسِتِّينَ اسْماً فَهِيَ نِسْبَةٌ لِهَذِهِ الاسْمَاءِ الثَّلاثَةِ وَهَذِهِ الاسْمَاءُ الثَّلاثَةُ أَرْكَانٌ وَحَجَبَ الاسْمَ الْوَاحِدَ الْمَكْنُونَ الْمَخْزُونَ بِهَذِهِ الاسْمَاءِ الثَّلاثَةِ وَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى قُلِ ادْعُوا الله أَوِ ادْعُوا الرَّحْمنَ أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الاسْماءُ الْحُسْنى۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ خداوند عالم نے ایک اسم کو حروف سے پیدا کیا لیکن حروف کی آواز نہ تھی اور لفظ بولا نہ جاتا تھا اور وجود بغیر جسم تھا اور کسی تسبیح کے موصوف نہ تھا نہ کسی رنگ میں رنگا ہوا۔ اطراف کی اس سے نفی تھی حدود اس سے دور تھے ہر شے سے پوشیدہ تھا۔ اللہ نے اس کو کلمہ تامہ قرار دیا۔ مطلب یہ ہے کہ مذکورہ بالا چیزیں اس اسم سے چونکہ بعد میں پیدا ہوئیں لہذا اس کا تعلق ان چیزوں سے نہ تھا۔ اس کلمہ تامہ کے اس نے ایک ساتھ چار جز قرار دیے۔ اللہ تعالیٰ ان چیزوں میں تقدم و تاخر نہیں اس سے تین نام ظاہر کیے کیونکہ خلق کو ان کی طرف احتیاج تھی اور ایک کو پوشیدہ رکھا۔ پس یہ اسماء جو ظاہر ہوئے وہ لفظ اللہ سے ظاہر ہوئے اور ان تینوں ناموں کے تابع بنایا چار ارکان کو، پس یہ بارہ رکن ہو گئے۔ پھرہر رکن سے تیس اسم فعلی پیدا کیے جو منسوب ہیں اسماء کی طرف اور وہ رحمٰن و رحیم و ملک و قدوس و خالق و مصور حی و قیوم نہ اس کو اونگھ ہے نہ نیند و علیم و خبیر، سمیع و بصیر، حکیم و عزیز و جبار و متکبر، علی و عظیم و مقتدر و قادر و سلام و مومن و مہیمن، ہادی و بدیع و رفیع ، جلیل و کریم و رزاق و محی و ممیت و باعث و وارث ہیں۔ یہ تمام اسماء حسنیٰ مل کر تین سو ساٹھ ہوئے ہیں جو تین ناموں سے منسوب ہیں اور یہ تین ارکان و حجب ہیں اسم واحد کےجو پوشیدہ ہے۔ ان تین اسماء میں مراد ہے قول باری سے قل ادعو الخ ہے حقیقت یہ ہے کہ حدوثِ اسماء کے متعلق جو اوپر بیان ہوا وہ اسرار الہٰیہ سے ہے جن کو نبی و امام کے سوا دوسرا کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ ہم اس کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ اسم ذات ہے اس کی حقیقت کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ کیونکہ اس کی حقیقت عقل و وہم و حواس ہر شے سے مستور ہے اس کے علاوہ جو اور اس کے اسماء حسنیٰ ہیں ہم اس کی معرفت ان کے ذریعہ سے حاصل کرتے ہیں۔
أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله وَمُوسَى بْنِ عُمَرَ وَالْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عُثْمَانَ عَنِ ابْنِ سِنَانٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا الْحَسَنِ الرِّضَا علیہ السلام هَلْ كَانَ الله عَزَل وَجَلَّ عَارِفاً بِنَفْسِهِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ الْخَلْقَ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ يَرَاهَا وَيَسْمَعُهَا قَالَ مَا كَانَ مُحْتَاجاً إِلَى ذَلِكَ لانَّهُ لَمْ يَكُنْ يَسْأَلُهَا وَلا يَطْلُبُ مِنْهَا هُوَ نَفْسُهُ وَنَفْسُهُ هُوَ قُدْرَتُهُ نَافِذَةٌ فَلَيْسَ يَحْتَاجُ أَنْ يُسَمِّيَ نَفْسَهُ وَلَكِنَّهُ اخْتَارَ لِنَفْسِهِ أَسْمَاءً لِغَيْرِهِ يَدْعُوهُ بِهَا لانَّهُ إِذَا لَمْ يُدْعَ بِاسْمِهِ لَمْ يُعْرَفْ فَأَوَّلُ مَا اخْتَارَ لِنَفْسِهِ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ لانَّهُ أَعْلَى الاشْيَاءِ كُلِّهَا فَمَعْنَاهُ الله وَاسْمُهُ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ هُوَ أَوَّلُ أَسْمَائِهِ عَلا عَلَى كُلِّ شَيْءٍ۔
سنان سے مروی ہے کہ میں نے امام رضا علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا مخلوق کو خلق کرنے سے پہلے خدا اپنے نفس کا عالم تھا۔ فرمایا ہاں۔ میں نے کہا وہ اس کو دیکھتا اور سنتا تھا۔ فرمایا وہ اس کا محتاج نہ تھا کہ وہ اپنا نام لے۔ کیوں کہ وہ کسی مشکل میں سوال کرنے والا اور کسی کا طلب گار نہیں۔ اس کا نفس اس کی ذات ہے اور اس کی ذات اس کا نفس ہے اسکی قدرت جاری ہونے والی ہے وہ اس کا محتاج نہیں کہ اس کی ذات کا نام رکھا جائے۔ لیکن اس نے کچھ نام اپنے لیے منتخب کیے ہیں جو اس کی ذات کے غیر ہیں اور انہی ناموں سے پکارا جاتا ہے کیونکہ اگر کسی نام سے پکارا نہ جاتا تو اس کی معرفت نہ ہوتی۔ پس سب سے پہلے اس نے اپنا نام علی العظیم رکھا کیونکہ وہ تمام چیزوں سے اعلیٰ ہے اس کی ذات اللہ ہے علی عظیم اس کا نام ہے وہ اس کا سب سے پہلے نام ہے وہ ہر شے سے بلند تر ہے۔
وَبِهَذَا الاسْنَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ قَالَ سَأَلْتُهُ عَنِ الاسْمَ مَا هُوَ قَالَ صِفَةٌ لِمَوْصُوفٍ۔
اور اسی سند کے ساتھ محمد بن سنان سے مروی ہے کہ میں نے سوال کیا کہ اسم کیا ہے۔ فرمایا موصوف کی صفت۔
مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الله عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنْ بَكْرِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ صَالِحٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَبْدِ الاعْلَى عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ اسْمُ الله غَيْرُهُ وَكُلُّ شَيْءٍ وَقَعَ عَلَيْهِ اسْمُ شَيْءٍ فَهُوَ مَخْلُوقٌ مَا خَلا الله فَأَمَّا مَا عَبَّرَتْهُ الالْسُنُ أَوْ عَمِلَتِ الايْدِي فَهُوَ مَخْلُوقٌ وَالله غَايَةٌ مِنْ غَايَاتِهِ وَالْمُغَيَّا غَيْرُ الْغَايَةِ وَالْغَايَةُ مَوْصُوفَةٌ وَكُلُّ مَوْصُوفٍ مَصْنُوعٌ وَصَانِعُ الاشْيَاءِ غَيْرُ مَوْصُوفٍ بِحَدٍّ مُسَمًّى لَمْ يَتَكَوَّنْ فَيُعْرَفَ كَيْنُونِيَّتُهُ بِصُنْعِ غَيْرِهِ وَلَمْ يَتَنَاهَ إِلَى غَايَةٍ إِلا كَانَتْ غَيْرَهُ لا يَزِلُّ مَنْ فَهِمَ هَذَا الْحُكْمَ أَبَداً وَهُوَ التَّوْحِيدُ الْخَالِصُ فَارْعَوْهُ وَصَدِّقُوهُ وَتَفَهَّمُوهُ بِإِذْنِ الله مَنْ زَعَمَ أَنَّهُ يَعْرِفُ الله بِحِجَابٍ أَوْ بِصُورَةٍ أَوْ بِمِثَالٍ فَهُوَ مُشْرِكٌ لانَّ حِجَابَهُ وَمِثَالَهُ وَصُورَتَهُ غَيْرُهُ وَإِنَّمَا هُوَ وَاحِدٌ مُتَوَحِّدٌ فَكَيْفَ يُوَحِّدُهُ مَنْ زَعَمَ أَنَّهُ عَرَفَهُ بِغَيْرِهِ وَإِنَّمَا عَرَفَ الله مَنْ عَرَفَهُ بِالله فَمَنْ لَمْ يَعْرِفْهُ بِهِ فَلَيْسَ يَعْرِفُهُ إِنَّمَا يَعْرِفُ غَيْرَهُ لَيْسَ بَيْنَ الْخَالِقِ وَالْمَخْلُوقِ شَيْءٌ وَالله خَالِقُ الاشْيَاءِ لا مِنْ شَيْءٍ كَانَ وَالله يُسَمَّى بِأَسْمَائِهِ وَهُوَ غَيْرُ أَسْمَائِهِ وَالاسْمَاءُ غَيْرُهُ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ اسم اللہ کا غیر ہے ہر وہ شے جس کے لیے کوئی نام ہو مخلوق ہے سوائے اللہ کے جس کو زبانیں تعبیر کرتی ہیں اور ہاتھ اس میں کام کرتے ہیں وہ مخلوق ہے اس خالق بر حق کا نام اس کے نشانات میں سے ایک نشان ہے اور جس کا نشان ہو وہ نشان سے علیحدہ ذات ہوتی ہے اور غایت یا نشان موصوف ہوتا ہے اور جو موصوف ہوتا ہے وہ مصنوع ہے اور خالق اشیاء غیر موصوف ہیں مسمی کی حد میں وہ پیدا نہیں ہوا کہ اس کے ہونے کو غیر کی صفت سے پہچانا جائے اور اس کے لیے حد و انتہا بھی نہیں کوئی نشان بھی نہیں اور جو ہے وہ اس کا غیر ہے۔ کبھی لغزش نہیں کھائے گا وہ جس نے اس بات کو سمجھ لیا اور یہی توحید ہے خالص توحید اس کی رعایت کرو، اس کی تصدیق کرو اور باذنِ خدا اسے سمجھو۔ جس نے گمان کیا کہ اس نے اللہ کو حجاب یا صورت یا مثال سے پہچانا وہ مشرک ہے کیونکہ حجاب اور صورت اور مثال اس کے غیر ہیں وہ ذات وحدہُ لاشریک ہے جس نے اللہ کو اس طرح سے پہچانا اس نے خدا کی معرفت حاصل کی۔ اور جس نے اس طرح نہ پہچانا اس نے خدا کو نہ پہچانا اور اس کے غیر کو پہچانا۔ خالق و مخلوق کے درمیان کوئی شے مشترک نہیں۔ خدا خالق اشیاء ہے وہ کسی چیز سے خود نہیں پیدا ہوا اس کے ناموں سے اسے موسوم کیا جاتا ہے لیکن اس کی ذات ناموں سے الگ ہے اور وہ ناموں سے الگ ہے۔