مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْعَطَّارُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى الاشْعَرِيِّ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ الاهْوَازِيِّ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ قُلْتُ لَمْ يَزَلِ الله مُرِيداً قَالَ إِنَّ الْمُرِيدَ لا يَكُونُ إِلا لِمُرَادٍ مَعَهُ لَمْ يَزَلِ الله عَالِماً قَادِراً ثُمَّ أَرَادَ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سےراوی نے پوچھا کہ اللہ ہمیشہ سے صاحب ارادہ ہے۔ فرمایا مرید کے لیے دیکھنا ہو گا مصداق کیا ہے۔ اللہ ہمیشہ سے عالم و قادر ہے پھر اس نے ارادہ کیا یعنی علم و قدرت بلحاظ مفہوم و مصداق ارادہ سے الگ ہے کیونکہ مصداق علم و قدرت ایک چیز ہے یعنی ذاتِ باری تعالیٰ۔ پس علم و قدرت صفات ذات ہیں اور ارادہ صفاتِ فعل لہذا وہ صفت ذات نہیں۔
مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الله عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ بَكْرِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَسْبَاطٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْجَهْمِ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ أَعْيَنَ قَالَ قُلْتُ لابِي عَبْدِ الله علیہ السلام عِلْمُ الله وَمَشِيئَتُهُ هُمَا مُخْتَلِفَانِ أَوْ مُتَّفِقَانِ فَقَالَ الْعِلْمُ لَيْسَ هُوَ الْمَشِيئَةَ أَ لا تَرَى أَنَّكَ تَقُولُ سَأَفْعَلُ كَذَا إِنْ شَاءَ الله وَلا تَقُولُ سَأَفْعَلُ كَذَا إِنْ عَلِمَ الله فَقَوْلُكَ إِنْ شَاءَ الله دَلِيلٌ عَلَى أَنَّهُ لَمْ يَشَأْ فَإِذَا شَاءَ كَانَ الَّذِي شَاءَ كَمَا شَاءَ وَعِلْمُ الله السَّابِقُ لِلْمَشِيئَةِ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ علم و مشیئت الہٰی الگ الگ یا متفق ہیں۔ فرمایا علم مشیت نہیں ہے کیا تم نے غور نہیں کیا کہ تم کہتے ہو میں یہ کام انشاء اللہ کروں گا اور یوں نہیں کہتے کہ اگر اللہ نے چاہا تو کروں گا اور یوں نہیں کہتے کہ اگر اللہ نے جانا تو کرونگا۔ یہ دلیل ہے کہ اللہ نہیں چاہتا، جب چاہے گا تو وہی ہو گا جو اس نے چاہا ہے خدا سابق ہے مشیت پر۔
أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى قَالَ قُلْتُ لابِي الْحَسَنِ علیہ السلام أَخْبِرْنِي عَنِ الارَادَةِ مِنَ الله وَمِنَ الْخَلْقِ قَالَ فَقَالَ الارَادَةُ مِنَ الْخَلْقِ الضَّمِيرُ وَمَا يَبْدُو لَهُمْ بَعْدَ ذَلِكَ مِنَ الْفِعْلِ وَأَمَّا مِنَ الله تَعَالَى فَإِرَادَتُهُ إِحْدَاثُهُ لا غَيْرُ ذَلِكَ لانَّهُ لا يُرَوِّي وَلا يَهُمُّ وَلا يَتَفَكَّرُ وَهَذِهِ الصِّفَاتُ مَنْفِيَّةٌ عَنْهُ وَهِيَ صِفَاتُ الْخَلْقِ فَإِرَادَةُ الله الْفِعْلُ لا غَيْرُ ذَلِكَ يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ بِلا لَفْظٍ وَلا نُطْقٍ بِلِسَانٍ وَلا هِمَّةٍ وَلا تَفَكُّرٍ وَلا كَيْفَ لِذَلِكَ كَمَا أَنَّهُ لا كَيْفَ لَهُ۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے امام رضا علیہ السلام سے کہا کہ ارادہ خدا اور ارادہ خلق سے مطلق فرمائیے۔ فرمایا ارادہِ خلق ضمیر کی آواز ہے جس کے بعد ان سے کوئی فعل ظاہر ہوتا ہے لیکن ارادہ باری احداث یعنی خلق کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے کیوں کہ اس کا تعلق فکر و رویت سے نہیں بلکہ نہ غور و تامل سے، یہ صفات اس سے دور ہیں یہ تو مخلوق کی صفات ہیں۔ اللہ کا ارادہ اس کا فعل ہے وہ کسی چیز سے کہتا ہے کن (ہو جا) پس وہ ہو جاتی ہے۔ یہ کن کہنا نہ لفظ سے تعلق رکھتا ہے نہ زبان کی گویائی سے، نہ ہمت و تفکر سے اور نہ کسی کیفیت سے کیونکہ کیفیت اس کے لیے ہے ہی نہیں۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ أُذَيْنَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ خَلَقَ الله الْمَشِيئَةَ بِنَفْسِهَا ثُمَّ خَلَقَ الاشْيَاءَ بِالْمَشِيئَةِ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے خدا نے پہلے نفس مشیئت کو پیدا کیا پھر مشیئت سے اشیاء کو پیدا کیا۔
توضیح: مشیئت کے معنی ہیں اللہ کی خواہش اول جس کا تعلق وجود نظام عالم سے ہے مشیئت سے مراد یہاں مصداق مشیئت ہے کہ جس کے بغیر مشیئت کا تحقق نہیں ہوتا اور وہ پانی ہے جو مادہ میں سب سے پہلی مخلوق ہے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْبَرْقِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْمَشْرِقِيِّ حَمْزَةَ بْنِ الْمُرْتَفِعِ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا قَالَ كُنْتُ فِي مَجْلِسِ ابي جعفر علیہ السلام إِذْ دَخَلَ عَلَيْهِ عَمْرُو بْنُ عُبَيْدٍ فَقَالَ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ قَوْلُ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي فَقَدْ هَوىمَا ذَلِكَ الْغَضَبُ فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام هُوَ الْعِقَابُ يَا عَمْرُو إِنَّهُ مَنْ زَعَمَ أَنَّ الله قَدْ زَالَ مِنْ شَيْءٍ إِلَى شَيْءٍ فَقَدْ وَصَفَهُ صِفَةَ مَخْلُوقٍ وَإِنَّ الله تَعَالَى لا يَسْتَفِزُّهُ شَيْءٌ فَيُغَيِّرَهُ۔
راوی کہتا ہے میں امام محمد باقر علیہ السلام کی مجلس میں حاضر تھا کہ عمر بن عبید (معتزل) آیا اور کہنے لگا آیہ "اور جس پر میرا غضب نازل ہوا بتحقیق وہ ہلاک ہوا" میں غضب سے کیا مراد ہے۔ حضرت نے فرمایا اس سے مراد عذاب ہے۔ اے عمر جس نے یہ گمان کیا کہ خدا ایک حال سے دوسرے حال کی طرف بدلتا ہے اس نے مخلوق کی صفت سے خدا کو متصف کیا۔ خداوند عالم کو کوئی شے برانگیختہ نہیں کرتی کہ اس کی حالت میں تغیر ہو۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ هِشَامِ بْنِ الْحَكَمِ فِي حَدِيثِ الزِّنْدِيقِ الَّذِي سَأَلَ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام فَكَانَ مِنْ سُؤَالِهِ أَنْ قَالَ لَهُ فَلَهُ رِضًا وَسَخَطٌ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام نَعَمْ وَلَكِنْ لَيْسَ ذَلِكَ عَلَى مَا يُوجَدُ مِنَ الْمَخْلُوقِينَ وَذَلِكَ أَنَّ الرِّضَا حَالٌ تَدْخُلُ عَلَيْهِ فَتَنْقُلُهُ مِنْ حَالٍ إِلَى حَالٍ لانَّ الْمَخْلُوقَ أَجْوَفُ مُعْتَمِلٌ مُرَكَّبٌ لِلاشْيَاءِ فِيهِ مَدْخَلٌ وَخَالِقُنَا لا مَدْخَلَ لِلاشْيَاءِ فِيهِ لانَّهُ وَاحِدٌ وَاحِدِيُّ الذَّاتِ وَاحِدِيُّ الْمَعْنَى فَرِضَاهُ ثَوَابُهُ وَسَخَطُهُ عِقَابُهُ مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ يَتَدَاخَلُهُ فَيُهَيِّجُهُ وَيَنْقُلُهُ مِنْ حَالٍ إِلَى حَالٍ لانَّ ذَلِكَ مِنْ صِفَةِ الْمَخْلُوقِينَ الْعَاجِزِينَ الْمُحْتَاجِينَ۔
ہشام بن الحکم سے مروی ہے کہ ایک زندیق نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا خدا کے لیے خوشنودی ہے اور غصہ ہے۔ حضرت نے فرمایا ہاں ہے لیکن اس کے مثال یہ نہیں جو مخلوق میں ہے۔ رضا یا خوشی ایک حالت ہے جو کسی شخص پر طاری ہوتی ہے اور ایک حال سے دوسرے حال کی طرف بدل دیتی ہے۔ مخلوق کی شان یہ ہے کہ وہ چیزوں کا اثر قبول کرتی ہے اور ان کے عمل کو اپنے اوپر لیتی ہے اور اجزاء سے مرکب ہے اشیاء اس میں داخل ہوتی ہیں اور ہمارا خالق وہ ہے جس میں کوئی چیز داخل نہیں ہوتی کیونکہ وہ واحد ہے اور ذات کے لحاظ سے یکتا ہے اور معنی کے لحاظ سے یگانہ ہے۔ پس اس کی خوشنودی کا اثر ثواب عطا کرنا اور غصہ کا عذاب نازل کرنا ہے بغیر اس کے کہ کوئی شے اس میں داخل ہو کر اسے ہیجان میں لائے اور ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل کرے کیونکہ یہ تو مخلوق اور عاجزوں اور محتاجوں کی صفت ہے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنِ ابْنِ أُذَيْنَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ الْمَشِيئَةُ مُحْدَثَةٌ
راوی کہتا ہے کہ فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے مشیئت باری تعالیٰ یعنی مصداق مشیئت عالم حادث اور مخلوق ہونا ہے۔