اصولِ کافی

مؤلف محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مولانا سید ظفر حسن نقوی

(3)

وہ نہیں پہچانا گیا مگر اپنی ذات سے

حدیث نمبر 1

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حُمْرَانَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ السَّكَنِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام اعْرِفُوا الله بِالله وَالرَّسُولَ بِالرِّسَالَةِ وَأُولِي الامْرِ بِالامْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالْعَدْلِ وَالاحْسَانِ. وَمَعْنَى قَوْلِهِ اعْرِفُوا الله بِالله يَعْنِي أَنَّ الله خَلَقَ الاشْخَاصَ وَالانْوَارَ وَالْجَوَاهِرَ وَالاعْيَانَ فَالاعْيَانُ الابْدَانُ وَالْجَوَاهِرُ الارْوَاحُ وَهُوَ جَلَّ وَعَزَّ لا يُشْبِهُ جِسْماً وَلا رُوحاً وَلَيْسَ لاحَدٍ فِي خَلْقِ الرُّوحِ الْحَسَّاسِ الدَّرَّاكِ أَمْرٌ وَلا سَبَبٌ هُوَ الْمُتَفَرِّدُ بِخَلْقِ الارْوَاحِ وَالاجْسَامِ فَإِذَا نَفَى عَنْهُ الشَّبَهَيْنِ شَبَهَ الابْدَانِ وَشَبَهَ الارْوَاحِ فَقَدْ عَرَفَ الله بِالله وَإِذَا شَبَّهَهُ بِالرُّوحِ أَوِ الْبَدَنِ أَوِ النُّورِ فَلَمْ يَعْرِفِ الله بِالله۔

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا اللہ کوپہچانو انہی اسماء صفات سے جو اس نے خود بیان کیا ہے اور رسول کو پہچانو اس کے معجزات سے اور اولی الامر کو امر بالمعروف اور عدل و احسان سے۔
خدا نے پیدا کیا ہے اشخاص و انوار و جواہر و اعیان کو اور اعیان سے مراد ہیں ابدان و جواہر و ارواح اور صاحب عزو جلال ذات نہ جسم سے مشابہ ہے نہ روح سے اور نہ حساس و دراک، روحوں کے پیدا کرنے میں کسی کو دخل اور نہ طاقت وہ خلق اجسام و ارواح میں اکیلا ہی خالق ہے پس جب اس سے اجسام و ارواح کی مشابہت کو دور کر دیا جائے تو یہ اللہ کی معرفت ہے اور جب اس کو روح بدن و نور سے مشابہ کر دیا جائے تو پھر اللہ سے معرفت نہ ہوئی۔

حدیث نمبر 2

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَنْ عَلِيِّ بْنِ عُقْبَةَ بْنِ قَيْسِ بْنِ سِمْعَانَ بْنِ أَبِي رُبَيْحَةَ مَوْلَى رَسُولِ الله ﷺ قَالَ سُئِلَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام بِمَ عَرَفْتَ رَبَّكَ قَالَ بِمَا عَرَّفَنِي نَفْسَهُ قِيلَ وَكَيْفَ عَرَّفَكَ نَفْسَهُ قَالَ لا يُشْبِهُهُ صُورَةٌ وَلا يُحَسُّ بِالْحَوَاسِّ وَلا يُقَاسُ بِالنَّاسِ قَرِيبٌ فِي بُعْدِهِ بَعِيدٌ فِي قُرْبِهِ فَوْقَ كُلِّ شَيْءٍ وَلا يُقَالُ شَيْءٌ فَوْقَهُ أَمَامَ كُلِّ شَيْءٍ وَلا يُقَالُ لَهُ أَمَامٌ دَاخِلٌ فِي الاشْيَاءِ لا كَشَيْءٍ دَاخِلٍ فِي شَيْءٍ وَخَارِجٌ مِنَ الاشْيَاءِ لا كَشَيْءٍ خَارِجٍ مِنْ شَيْءٍ سُبْحَانَ مَنْ هُوَ هَكَذَا وَلا هَكَذَا غَيْرُهُ وَلِكُلِّ شَيْءٍ مُبْتَدَأٌ۔

امیر المومنین علیہ السلام سے کسی نے پوچھا آپ نے اپنے رب کو کیسے پہچانا، فرمایا اس چیز سے جس سے اس نے اپنی ذات کا تعارف کرایا، اس نے پوچھا کیسے کرایا، فرمایا وہ کسی صورت سے مشابہ نہیں اور نہ حواس سے محسوس ہوتا ہے نہ کسی شے پر اس کا قیاس کیا جاتا ہے وہ باوجود بعد کے قریب ہے اور باوجود قریب کے دور ہے ہر شے سے فوق ہے اس سے مافوق کوئی شے نہیں، ہر شے سے الگ ہے اس سے آگے کوئی شے نہیں، وہ اپنی قدرت سے اشیاء میں داخل ہے لیکن اس چیز کی مانند نہیں جو کسی شے میں داخل ہو وہ اشیاء سے خارج ہے لیکن اس طرح نہیں جیسے کوئی شے کسی چیز سے نکلتی ہے پاک ہے وہ ذات جو ایسی ہے اور غیر اس کا ایسا نہیں ہر شے کی ابتداء ہے۔

حدیث نمبر 3

مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى عَنْ مَنْصُورِ بْنِ حَازِمٍ قَالَ قُلْتُ لابِي عَبْدِ الله علیہ السلام إِنِّي نَاظَرْتُ قَوْماً فَقُلْتُ لَهُمْ إِنَّ الله جَلَّ جَلالُهُ أَجَلُّ وَأَعَزُّ وَأَكْرَمُ مِنْ أَنْ يُعْرَفَ بِخَلْقِهِ بَلِ الْعِبَادُ يُعْرَفُونَ بِالله فَقَالَ رَحِمَكَ الله۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے ابو عبداللہ علیہ السلام سے کہا کہ میں نے ایک قوم سے مناظرہ کیا اور کہا کہ اللہ بزرگ تر ہے اس سے کہ اس کے اسماء صفات کو پہچانا جائے، مخلوق کے قیاس پر بلکہ اس کے مخصوص بندے اس کی معرفت رکھتے ہیں، فرمایا تم پر رحمتِ خدا ہو۔