مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي نَجْرَانَ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ علیہ السلام عَنِ التَّوْحِيدِ فَقُلْتُ أَتَوَهَّمُ شَيْئاً فَقَالَ نَعَمْ غَيْرَ مَعْقُولٍ وَلا مَحْدُودٍ فَمَا وَقَعَ وَهْمُكَ عَلَيْهِ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ خِلافُهُ لا يُشْبِهُهُ شَيْءٌ وَلا تُدْرِكُهُ الاوْهَامُ كَيْفَ تُدْرِكُهُ الاوْهَامُ وَهُوَ خِلافُ مَا يُعْقَلُ وَخِلافُ مَا يُتَصَوَّرُ فِي الاوْهَامِ إِنَّمَا يُتَوَهَّمُ شَيْءٌ غَيْرُ مَعْقُولٍ وَلا مَحْدُودٍ۔
عبدالرحمان بن ابی نجران نے کہا میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے توحید کے متعلق دریافت کیا میں کسی چیز کو اپنے وہم و خیال میں لوں، فرمایا وہ ذات عقل میں آنے والی اور حدود میں محدود ہونے والی نہیں، جو چیز تیرے وہم میں آئے وہ اس کے خلاف ہے نہ وہ کسی چیز سے مشابہ ہے نہ اس سے مشابہ کوئی شے، وہم اس کو پا نہیں سکتا اور وہم پائے گا کیسے وہ خلاف ہے اس چیز کے جو عقل میں آئے اور خلاف ہے اس شے کے جس کا تصور وہم میں ہو جو غیر معقول اور لامحدود ذات ہو وہ وہم میں نہیں آ سکتی۔
مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الله عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ بَكْرِ بْنِ صَالِحٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ قَالَ سُئِلَ أَبُو جَعْفَرٍ الثَّانِي علیہ السلام يَجُوزُ أَنْ يُقَالَ لله إِنَّهُ شَيْءٌ قَالَ نَعَمْ يُخْرِجُهُ مِنَ الْحَدَّيْنِ حَدِّ التَّعْطِيلِ وَحَدِّ التَّشْبِيهِ۔
امام محمد تقی علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ کیا یہ کہنا جائز ہے کہ خدا کوئی شے ہے، فرمایا ہاں دو باتوں سے الگ کر دیا جائے اول اس کے غیر یقینی یعنی اس کے بندوں سے جدا کیا جائے، دوسرے کسی چیز سے اسے تشبیہہ نہ دی جائے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ عَنْ أَبِي الْمَغْرَاءِ رَفَعَهُ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ قَالَ إِنَّ الله خِلْوٌ مِنْ خَلْقِهِ وَخَلْقَهُ خِلْوٌ مِنْهُ وَكُلُّ مَا وَقَعَ عَلَيْهِ اسْمُ شَيْءٍ فَهُوَ مَخْلُوقٌ مَا خَلا الله۔
فرمایا امام باقر علیہ السلام نے اللہ الگ ہے صفات مخلوق سے اور مخلوق جدا ہے اس کے صفات سے ہر وہ چیز جس پر اطلاق شے ہو وہ مخلوق ہے اللہ کی۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ الْبَرْقِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ يَحْيَى الْحَلَبِيِّ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَعْيَنَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام يَقُولُ إِنَّ الله خِلْوٌ مِنْ خَلْقِهِ وَخَلْقَهُ خِلْوٌ مِنْهُ وَكُلُّ مَا وَقَعَ عَلَيْهِ اسْمُ شَيْءٍ مَا خَلا الله فَهُوَ مَخْلُوقٌ وَالله خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ تَبَارَكَ الَّذِي لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ مخلوق سے الگ ہے (یعنی وہ وجود جس کے لیے نہ کوئی صورت ہے نہ جگہ) اور مخلوق سے الگ ہے جس پر لفظ شے بولا جائے وہ اللہ کے سوا ہے اور اس کی مخلوق ہے اور وہ ہر شے کا خالق ہے پاک ہے وہ اللہ جس کی مثل کوئی نہیں اور وہ بڑا سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَطِيَّةَ عَنْ خَيْثَمَةَ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ إِنَّ الله خِلْوٌ مِنْ خَلْقِهِ وَخَلْقَهُ خِلْوٌ مِنْهُ وَكُلُّ مَا وَقَعَ عَلَيْهِ اسْمُ شَيْءٍ مَا خَلا الله تَعَالَى فَهُوَ مَخْلُوقٌ وَالله خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا اللہ اپنی مخلوق سے الگ ہے اور مخلوق اس سے جدا ہے اور جس پر لفظ شے بولا جائے وہ اللہ کے سوا ہے اور اس کی مخلوق ہے وہ ہر شے کا خالق ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَمْرٍو الْفُقَيْمِيِّ عَنْ هِشَامِ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام أَنَّهُ قَالَ لِلزِّنْدِيقِ حِينَ سَأَلَهُ مَا هُوَ قَالَ هُوَ شَيْءٌ بِخِلافِ الاشْيَاءِ ارْجِعْ بِقَوْلِي إِلَى إِثْبَاتِ مَعْنًى وَأَنَّهُ شَيْءٌ بِحَقِيقَةِ الشَّيْئِيَّةِ غَيْرَ أَنَّهُ لا جِسْمٌ وَلا صُورَةٌ وَلا يُحَسُّ وَلا يُجَسُّ وَلا يُدْرَكُ بِالْحَوَاسِّ الْخَمْسِ لا تُدْرِكُهُ الاوْهَامُ وَلا تَنْقُصُهُ الدُّهُورُ وَلا تُغَيِّرُهُ الازْمَانُ فَقَالَ لَهُ السَّائِلُ فَتَقُولُ إِنَّهُ سَمِيعٌ بَصِيرٌ قَالَ هُوَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ سَمِيعٌ بِغَيْرِ جَارِحَةٍ وَبَصِيرٌ بِغَيْرِ آلَةٍ بَلْ يَسْمَعُ بِنَفْسِهِ وَيُبْصِرُ بِنَفْسِهِ لَيْسَ قَوْلِي إِنَّهُ سَمِيعٌ يَسْمَعُ بِنَفْسِهِ وَبَصِيرٌ يُبْصِرُ بِنَفْسِهِ أَنَّهُ شَيْءٌ وَالنَّفْسُ شَيْءٌ آخَرُ وَلَكِنْ أَرَدْتُ عِبَارَةً عَنْ نَفْسِي إِذْ كُنْتُ مَسْئُولاً وَإِفْهَاماً لَكَ إِذْ كُنْتَ سَائِلاً فَأَقُولُ إِنَّهُ سَمِيعٌ بِكُلِّهِ لا أَنَّ الْكُلَّ مِنْهُ لَهُ بَعْضٌ وَلَكِنِّي أَرَدْتُ إِفْهَامَكَ وَالتَّعْبِيرُ عَنْ نَفْسِي وَلَيْسَ مَرْجِعِي فِي ذَلِكَ إِلا إِلَى أَنَّهُ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ الْعَالِمُ الْخَبِيرُ بِلا اخْتِلافِ الذَّاتِ وَلا اخْتِلافِ الْمَعْنَى قَالَ لَهُ السَّائِلُ فَمَا هُوَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام هُوَ الرَّبُّ وَهُوَ الْمَعْبُودُ وَهُوَ الله وَلَيْسَ قَوْلِي الله إِثْبَاتَ هَذِهِ الْحُرُوفِ أَلِفٍ وَلامٍ وَهَاءٍ وَلا رَاءٍ وَلا بَاءٍ وَلَكِنِ ارْجِعْ إِلَى مَعْنًى وَشَيْءٍ خَالِقِ الاشْيَاءِ وَصَانِعِهَا وَنَعْتِ هَذِهِ الْحُرُوفِ وَهُوَ الْمَعْنَى سُمِّيَ بِهِ الله وَالرَّحْمَنُ وَالرَّحِيمُ وَالْعَزِيزُ وَأَشْبَاهُ ذَلِكَ مِنْ أَسْمَائِهِ وَهُوَ الْمَعْبُودُ جَلَّ وَعَزَّ قَالَ لَهُ السَّائِلُ فَإِنَّا لَمْ نَجِدْ مَوْهُوماً إِلا مَخْلُوقاً قَالَ أَبُو عَبْدِ الله لَوْ كَانَ ذَلِكَ كَمَا تَقُولُ لَكَانَ التَّوْحِيدُ عَنَّا مُرْتَفِعاً لانَّا لَمْ نُكَلَّفْ غَيْرَ مَوْهُومٍ وَلَكِنَّا نَقُولُ كُلُّ مَوْهُومٍ بِالْحَوَاسِّ مُدْرَكٍ بِهِ تَحُدُّهُ الْحَوَاسُّ وَتُمَثِّلُهُ فَهُوَ مَخْلُوقٌ إِذْ كَانَ النَّفْيُ هُوَ الابْطَالَ وَالْعَدَمَ وَالْجِهَةُ الثَّانِيَةُ التَّشْبِيهُ إِذْ كَانَ التَّشْبِيهُ هُوَ صِفَةَ الْمَخْلُوقِ الظَّاهِرِ التَّرْكِيبِ وَالتَّأْلِيفِ فَلَمْ يَكُنْ بُدٌّ مِنْ إِثْبَاتِ الصَّانِعِ لِوُجُودِ الْمَصْنُوعِينَ وَالاضْطِرَارِ إِلَيْهِمْ أَنَّهُمْ مَصْنُوعُونَ وَأَنَّ صَانِعَهُمْ غَيْرُهُمْ وَلَيْسَ مِثْلَهُمْ إِذْ كَانَ مِثْلُهُمْ شَبِيهاً بِهِمْ فِي ظَاهِرِ التَّرْكِيبِ وَالتَّأْلِيفِ وَفِيمَا يَجْرِي عَلَيْهِمْ مِنْ حُدُوثِهِمْ بَعْدَ إِذْ لَمْ يَكُونُوا وَتَنَقُّلِهِمْ مِنَ صِغَرٍ إِلَى كِبَرٍ وَسَوَادٍ إِلَى بَيَاضٍ وَقُوَّةٍ إِلَى ضَعْفٍ وَأَحْوَالٍ مَوْجُودَةٍ لا حَاجَةَ بِنَا إِلَى تَفْسِيرِهَا لِبَيَانِهَا وَوُجُودِهَا قَالَ لَهُ السَّائِلُ فَقَدْ حَدَدْتَهُ إِذْ أَثْبَتَّ وُجُودَهُ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام لَمْ أَحُدَّهُ وَلَكِنِّي أَثْبَتُّهُ إِذْ لَمْ يَكُنْ بَيْنَ النَّفْيِ وَالاثْبَاتِ مَنْزِلَةٌ قَالَ لَهُ السَّائِلُ فَلَهُ إِنِّيَّةٌ وَمَائِيَّةٌ قَالَ نَعَمْ لا يُثْبَتُ الشَّيْءُ إِلا بِإِنِّيَّةٍ وَمَائِيَّةٍ قَالَ لَهُ السَّائِلُ فَلَهُ كَيْفِيَّةٌ قَالَ لا لانَّ الْكَيْفِيَّةَ جِهَةُ الصِّفَةِ وَالاحَاطَةِ وَلَكِنْ لا بُدَّ مِنَ الْخُرُوجِ مِنْ جِهَةِ التَّعْطِيلِ وَالتَّشْبِيهِ لانَّ مَنْ نَفَاهُ فَقَدْ أَنْكَرَهُ وَدَفَعَ رُبُوبِيَّتَهُ وَأَبْطَلَهُ وَمَنْ شَبَّهَهُ بِغَيْرِهِ فَقَدْ أَثْبَتَهُ بِصِفَةِ الْمَخْلُوقِينَ الْمَصْنُوعِينَ الَّذِينَ لا يَسْتَحِقُّونَ الرُّبُوبِيَّةَ وَلَكِنْ لا بُدَّ مِنْ إِثْبَاتِ أَنَّ لَهُ كَيْفِيَّةً لا يَسْتَحِقُّهَا غَيْرُهُ وَلا يُشَارِكُ فِيهَا وَلا يُحَاطُ بِهَا وَلا يَعْلَمُهَا غَيْرُهُ قَالَ السَّائِلُ فَيُعَانِي الاشْيَاءَ بِنَفْسِهِ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام هُوَ أَجَلُّ مِنْ أَنْ يُعَانِيَ الاشْيَاءَ بِمُبَاشَرَةٍ وَمُعَالَجَةٍ لانَّ ذَلِكَ صِفَةُ الْمَخْلُوقِ الَّذِي لا تَجِيءُ الاشْيَاءُ لَهُ إِلا بِالْمُبَاشَرَةِ وَالْمُعَالَجَةِ وَهُوَ مُتَعَالٍ نَافِذُ الارَادَةِ وَالْمَشِيئَةِ فَعَّالٌ لِمَا يَشَاءُ۔
ہشام بن الحکم سے روایت ہے کہ فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ ایک زندیق نے سوال کیا کہ خدا کیا ہے، فرمایا وہ شے ہے مگر اشیاء کے خلاف، اس سے میری مراد یہ ہے کہ وہ شے ہے حقیقت الشیئہ کے ساتھ لیکن نہ اس کا جسم ہے نہ صورت نہ وہ محسوس ہوتا ہے نہ حواس خمسہ اس کا ادراک کرتے ہیں اور نہ اوہام اس کو پاتے ہیں نہ دہر کی گردش اس کو کم کرتی ہے اور نہ زمانے اس میں تغیر پیدا کرتے ہیں، سائل نے کہا آپ تو یہ کہتے ہیں کہ وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے، فرمایا بے شک وہ سمیع و بصیر ہے لیکن بغیر کسی عضو کے سنتا ہے اور بغیر کسی آلہ کے دیکھتا ہے، اپنے نفس سے دیکھتا ہے اپنے نفس سے میری مراد یہ نہیں کہ وہ اور شے ہے اور اس کا نفس اور شے ہے بلکہ ارادہ کیا ہے میں اظہار کا اس چیز کے جو میرے دل میں ہے جبکہ مجھ سے پوچھا گیا ہے تیرے سمجھانے کے لیے، جب تو سوال کر رہا ہے تو میں کہتا ہوں کہ وہ سننے والا کل کے ساتھ مگر اس سے مراد یہ نہیں کہ اس کل کا کوئی جز ہے میں تو صرف تیرے سمجھانے کے لیے تعبیر کی ہے، اس شے سے جو میرے دل میں ہے اور یہ کہ وہ سمیع و بصیر و عالم و خبیر ہے لیکن کوئی صفت اس کی ذات سے الگ نہیں اور نہ کوئی مفہوم اس سے جدا۔
ایک سائل نے یہ سوال کیا کہ خدا کیا ہے امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا وہ رب ہے وہ معبود ہے وہ اللہ ہے لیکن میری مراد اللہ سے ان حروف کو ثابت کرنا نہیں ا،ل،ہ اور نہ رب کا بلکہ میری مراد وہ ذات ہے جو خالق اشیاء اور ان کا صانع ہے اور ان حروف کا ذکر کرنے سے وہ معنی مراد ہیں جن پر لفظ اللہ، رحمٰن، رحیم اور عزیز وغیرہ اس کے اسماء کا اطلاق ہوتا ہے وہ معبود ہے جلال و عزت والا (سائل کا سوال یہ تھا کہ حقیقت ذات کا قائم مقام کون اسم ہے ) امام نے فرمایا اللہ ہے رب ہے لیکن ان الفاظ کے حروف اس حقیقت اور معنیِ ذات کو نہیں سمجھاتے وہ سب کا معبود ہے اس کی ذات کوئی نہیں پا سکتا۔
زندیق سائل نے کہا ہم نہیں پاتے موہوم شے کو مگر مخلوق(یعنی جب صانع عالم کا تصور اس کے ناموں سے کیا جا سکتا ہے جیسے مفہوم رب سے تو وہ مخلوق ہو گا ) حضرت نے فرمایا اگر تو ایسا کہتا ہے تو لوگوں کے لیے حقیقت توحید بیان کرنے کی تکلیف ہم سے ساقط ہو جائے گی کیونکہ غیر موہوم کی مخلوقیت اور اس کے متعلق کے توحید کے بیان کی ہمیں تکلیف ہی نہیں دی گئی یعنی ہمارا کام بیان توحید کے متعلق زیاہ آسان ہو جائے گا کیونکہ استدلال کے لیے ایک اچھا مقدمہ ہمیں مل جائے گا اور وہ حدوث عالم ہے اثبات محدث ہے جو بدیہی ہے کیونکہ عالم غیر موہوم نہیں ہے اس سے توحید ثابت ہو گئی جو موہوم بالحواس ہو اس کا ادراک حواس کے سامنے آئے تو ضرور مخلوق ہے ورنہ اس کے ابطال و عدم ماننا ہو گا دوسرے کسی سے مشابہت ہونا صفت مخلوق ہے اور اس کا مرکب ہونا ظاہر کرتا ہے۔
جب اشیائے عالم کی ترکیب و تالیف ثابت ہو گئی تو ضرور اس مصنوع کا کوئی صانع بھی ہو۔ اجزائے عالم کا اضطرار اس کا ثبوت ہے کہ ان کا صانع ان کا غیر ہے اور وہ ان کی مثال نہیں کیونکہ جو مثل ہو گا وہ ان کا مشابہ ہو گا ظاہر ترکیب و تالیف میں اور ان چیزوں میں جن کا ان کے حدوث سے تعلق ہے جیسے نیست سے اس کا ہست ہونا اور صغر سے کبیر کی طرف اور سفیدی سے سیاہی اور ضعف سے قوت کی طرف جانا اور یہ حالات حدوث کے ایسے واضح ثبوت ہیں کہ ان کے متعلق کسی توضیح کی ضرورت نہیں۔
زندیق نے کہا جب آپ نے وجود خدا کو ثابت کیا تو آپ نے اسکو محدود کر دیا، حضرت نے فرمایا میں نے محدود نہیں کیا بلکہ اس کے وجود کو ثابت کیا ہے کیونکہ نفی و اثبات کے درمیان اور تو کوئی درجہ ہیں نہیں۔
سائل نے کہا جب وجود آپ کے نزدیک ہے تو اس کے لیے اس مشتق یا جامد بھی ہو گا، فرمایا ہر شے کے لیے اسم مشتق یا جامد ضروری ہے۔ سائل نے کہا اگر اس کا مشتق ہے تو لامحالہ اس کے لیے کیفیت ماننا پڑے گی، فرمایا ایسا نہیں کیونکہ کیفیت تو صفت کی ایک صورت ہے اور اس کے لیے احاطہ ضروری ہے اور خدا کے لیے لازم ہے کہ مخلوق سے اس کو جدا کیا جائےاور کسی سے اسے تشبیہہ نہ دی جائے کیونکہ ان دونوں صورتوں میں اس کا انکار لازم آئے گا اور اس کی ربوبیت سے الگ ہونا پڑے گا اور اس کی وجود کو باطل قرار دینا پڑے گا، جس نے خدا کو اس کے غیر سے تشبیہہ دی تو اس نے مشابہ بنایا ایسے لوگوں سے جو مستحق ربوبیت نہیں خدا کے لیے تو ایسی صفات ہیں جس کا مستحق اس کا غیر نہیں اور نہ اس میں شریک ہے اور ان کو اس کا غیر جانتا ہی نہیں۔
سائل نے کہا کہ جب خدا کی تدبیر اس کی مخلوق سے منقطع نہیں ہوتی تو لامحالہ اس کو تعب و تکان لاحق ہو گی، حضرت نے فرمایا وہ اجل و ارفع ہے اس سے کہ اشیاء میں تصرف کرنے سے اسے تکان ہو گی یہ تو مخلوق کی صفت ہے کہ ان کو کام کرنے اور ہاتھ پاؤں ہلانے میں تکان ہوتی ہے وہ اس سے برتر ہے اور اپنے ارادہ اور مشیت کو جاری کرنے والا ہے اور جو چاہتا ہے اس کا کرنے والا ہے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَمَّنْ ذَكَرَهُ قَالَ سُئِلَ أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام أَ يَجُوزُ أَنْ يُقَالَ إِنَّ الله شَيْءٌ قَالَ نَعَمْ يُخْرِجُهُ مِنَ الْحَدَّيْنِ حَدِّ التَّعْطِيلِ وَحَدِّ التَّشْبِيهِ۔
راوی کہتا ہے امام محمد باقر علیہ السلام نے پوچھا آیا خدا کے لیے یہ کہنا جائز ہے کہ وہ شے ہے، اس نے کہا ہاں، فرمایا اسے تعطیل و تشبیہہ کی حدود سے الگ کر۔