مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

(3-90)

امام کب جانتا ہے کہ امامت اس کی طرف آئی

حدیث نمبر 1

أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى عَنْ أَبِي جَرِيرٍ الْقُمِّيِّ قَالَ قُلْتُ لابِي الْحَسَنِ علیہ السلام جُعِلْتُ فِدَاكَ قَدْ عَرَفْتَ انْقِطَاعِي إِلَى أَبِيكَ ثُمَّ إِلَيْكَ ثُمَّ حَلَفْتُ لَهُ وَحَقِّ رَسُولِ الله ﷺ وَحَقِّ فُلانٍ وَفُلانٍ حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَيْهِ بِأَنَّهُ لا يَخْرُجُ مِنِّي مَا تُخْبِرُنِي بِهِ إِلَى أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ وَسَأَلْتُهُ عَنْ أَبِيهِ أَ حَيٌّ هُوَ أَوْ مَيِّتٌ فَقَالَ قَدْ وَالله مَاتَ فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنَّ شِيعَتَكَ يَرْوُونَ أَنَّ فِيهِ سُنَّةَ أَرْبَعَةِ أَنْبِيَاءَ قَالَ قَدْ وَالله الَّذِي لا إِلَهَ إِلا هُوَ هَلَكَ قُلْتُ هَلاكَ غَيْبَةٍ أَوْ هَلاكَ مَوْتٍ قَالَ هَلاكَ مَوْتٍ فَقُلْتُ لَعَلَّكَ مِنِّي فِي تَقِيَّةٍ فَقَالَ سُبْحَانَ الله قُلْتُ فَأَوْصَى إِلَيْكَ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ فَأَشْرَكَ مَعَكَ فِيهَا أَحَداً قَالَ لا قُلْتُ فَعَلَيْكَ مِنْ إِخْوَتِكَ إِمَامٌ قَالَ لا قُلْتُ فَأَنْتَ الامَامُ قَالَ نَعَمْ۔

راوی کہتا ہے میں نے امام رضا علیہ السلام سے کہا میں آپ پر فدا ہوں جو خلوص مجھے آپ کے والد اور آپ سے ہے آپ اس سے واقف ہیں۔ میں قسم کھاتا ہوں حق رسول کی اور تمام آئمہ کے حق کی آپ جو راز آپ مجھ سے بیان کریں گے میں اس کو کسی سے نہ کہوں گا۔ میں آپ سے دریافت کرتا ہوں کہ آپ کے والد (امام موسیٰ کاظم) زندہ ہیں یا مر گئے۔ فرمایا واللہ ان کا انتقال ہو گیا۔ میں نے کہا آپ کے شیعہ (واقفیہ فرقہ والے) کہتے ہیں کہ ان میں چار نبیوں کی سنت ہے (یوسف، موسیٰ، خضر اور عیسیٰ) جو غائب ہیں یعنی ان کا عقیدہ ہے کہ امام موسیٰ کاظم مرے نہیں بلکہ زندہ ہیں اور غائب ہیں۔ قسم اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ مر گئے۔ میں نے کہا غائب ہو گئے ہیں یا مر گئے ۔ فرمایا مر گئے۔ میں نے کہا شاید ازروئے تقیہ کہہ رہے ہیں۔ فرمایا سبحان اللہ (یعنی ایسا نہیں)۔ میں نے کہا انھوں نے آپ کے لیے وصیت کی ہے فرمایا ہاں۔ میں نے کہا تو آپ امام ہیں۔ فرمایا ہاں۔

حدیث نمبر 2

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَسْبَاطٍ قَالَ قُلْتُ لِلرِّضَا إِنَّ رَجُلاً عَنَى أَخَاكَ إِبْرَاهِيمَ فَذَكَرَ لَهُ أَنَّ أَبَاكَ فِي الْحَيَاةِ وَأَنَّكَ تَعْلَمُ مِنْ ذَلِكَ مَا يَعْلَمُ فَقَالَ سُبْحَانَ الله يَمُوتُ رَسُولُ الله ﷺ وَلا يَمُوتُ مُوسَى علیہ السلام قَدْ وَالله مَضَى كَمَا مَضَى رَسُولُ الله ﷺ وَلَكِنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَمْ يَزَلْ مُنْذُ قَبَضَ نَبِيَّهُ ﷺ هَلُمَّ جَرّاً يَمُنُّ بِهَذَا الدِّينِ عَلَى أَوْلادِ الاعَاجِمِ وَيَصْرِفُهُ عَنْ قَرَابَةِ نَبِيِّهِ ﷺ هَلُمَّ جَرّاً فَيُعْطِي هَؤُلاءِ وَيَمْنَعُ هَؤُلاءِ لَقَدْ قَضَيْتُ عَنْهُ فِي هِلالِ ذِي الْحِجَّةِ أَلْفَ دِينَارٍ بَعْدَ أَنْ أَشْفَى عَلَى طَلاقِ نِسَائِهِ وَعِتْقِ مَمَالِيكِهِ وَلَكِنْ قَدْ سَمِعْتُ مَا لَقِيَ يُوسُفُ مِنْ إِخْوَتِهِ۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے امام رضا علیہ السلام سے کہا کہ ایک شخص (عباس برادر امام رضا علیہ السلام) نے آپ کے بھائی ابراہیم سے کہا تمہارے باپ زندہ ہیں پس آپ جانتے ہیں کہ اس امر کو جسے وہ نہیں جانتا یعنی آپ کو اپنے باپ کی زندگی کا ان سے زیادہ علم ہے۔ فرمایا سبحان اللہ رسول اللہ مر جائیں اور موسیٰ نہ مریں واللہ رسول کی طرح وہ بھی مر گئے اور جب سے نبی کی روح قبض ہوئی یہ سلسلہ جاری رہا۔ خدا نے احسان کیا اس دین پر اولاد اعاجم سے (یعنی سلمان جو ایرانی تھے وہ تو پر خلوق ایمان لائے) اور روگردانی کی ان لوگوں نے جو قرابت داران رسول تھے (عباس وغیرہ) اور یہ سلسلہ چلتا ہی رہا۔ خدا نے ان کو ایمان عطا کیا اور ان کو باز رکھا۔ میں نے ماہ ذی الحجہ میں اس ابراہیم کا قرض ادا کیا (اور اس کو قرض خواہوں کی سختی سے نجات دی) ایسی حالت میں جبکہ وہ تیار ہو گیا تھا اپنی عورتوں کو طلاق دینے اور اپنے غلاموں کو فروخت کرنے پر۔ لیکن تم نے سنا ہے کی یوسف کے بھائیوں نے ان کے ساتھ کیا کیا۔

حدیث نمبر 3

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْوَشَّاءِ قَالَ قُلْتُ لابِي الْحَسَنِ إِنَّهُمْ رَوَوْا عَنْكَ فِي مَوْتِ أَبِي الْحَسَنِ علیہ السلام أَنَّ رَجُلاً قَالَ لَكَ عَلِمْتَ ذَلِكَ بِقَوْلِ سَعِيدٍ فَقَالَ جَاءَ سَعِيدٌ بَعْدَ مَا عَلِمْتُ بِهِ قَبْلَ مَجِيئِهِ قَالَ وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ طَلَّقْتُ أُمَّ فَرْوَةَ بِنْتَ إِسْحَاقَ فِي رَجَبٍ بَعْدَ مَوْتِ أَبِي الْحَسَنِ بِيَوْمٍ قُلْتُ طَلَّقْتَهَا وَقَدْ عَلِمْتَ بِمَوْتِ أَبِي الْحَسَنِ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ قَبْلَ أَنْ يَقْدَمَ عَلَيْكَ سَعِيدٌ قَالَ نَعَمْ۔

وشاء نے کہا میں نے امام رضا علیہ السلام سے کہا کہ لوگ آپ سے وفات امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی روایت کرتے ہیں ایک شخص نے بیان کیا کہ آپ کو وفات کا حال سعید سے جو بغداد سے آیا تھا معلوم ہوا۔ فرمایا میں تو سعید کے آنے سے پہلے خبر وفات سنا چکا تھا ۔ راوی کہتا ہے میں نے حضرت کو فرماتے سنا کہ میں نے ام فروہ بنتِ اسحاق کو ماہ رجب میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی وفات کے دن ہی خبر دے دی تھی۔ میں نے کہا آپ کو موت کا حال معلوم ہو گیا تھا۔ فرمایا ہاں۔ میں نے کہا سعید کے آنے سے پہلے۔ فرمایا ہاں۔

حدیث نمبر 4

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ صَفْوَانَ قَالَ قُلْتُ لِلرِّضَا علیہ السلام أَخْبِرْنِي عَنِ الامَامِ مَتَى يَعْلَمُ أَنَّهُ إِمَامٌ حِينَ يَبْلُغُهُ أَنَّ صَاحِبَهُ قَدْ مَضَى أَوْ حِينَ يَمْضِي مِثْلَ أَبِي الْحَسَنِ قُبِضَ بِبَغْدَادَ وَأَنْتَ هَاهُنَا قَالَ يَعْلَمُ ذَلِكَ حِينَ يَمْضِي صَاحِبُهُ قُلْتُ بِأَيِّ شَيْ‏ءٍ قَالَ يُلْهِمُهُ الله۔

میں نے امام رضا علیہ السلام سے کہا مجھے بتائیے کہ امام کو کب پتہ چلتا ہے کہ وہ امام ہوا جبکہ اس کو یہ خبر معلوم ہوتی ہے کہ امام سابق مر گیا یا موت کے وقت ہی معلوم ہو جاتا ہے۔ فرمایا موت کے وقت ہی۔ میں نے کہا کیسے۔ فرمایا اللہ اس کو الہام کرتا ہے۔

حدیث نمبر 5

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ أَبِي الْفَضْلِ الشَّهْبَانِيِّ عَنْ هَارُونَ بْنِ الْفَضْلِ قَالَ رَأَيْتُ أَبَا الْحَسَنِ عَلِيَّ بْنَ مُحَمَّدٍ فِي الْيَوْمِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام فَقَالَ إِنَّا لله وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ مَضَى أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام فَقِيلَ لَهُ وَكَيْفَ عَرَفْتَ قَالَ لانَّهُ تُدَاخِلُنِي ذِلَّةٌ لله لَمْ أَكُنْ أَعْرِفُهَا۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے روز وفات امام محمد تقی علیہ السلام (جو بغداد میں فوت ہوئے) امام علی نقی علیہ السلام کو کہتے سنا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون امام محمد تقی کا انتقال ہو گیا۔ میں نے کہا آپ کی کیسے معلوم ہوا۔ فرمایا میرے دل میں ایسی رقت و رجوع الی اللہ پیدا ہوئی جس کی معرفت مجھے نہ تھی۔

حدیث نمبر 6

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُسَافِرٍ قَالَ أَمَرَ أَبُو إِبْرَاهِيمَ علیہ السلام حِينَ أُخْرِجَ بِهِ أَبَا الْحَسَنِ علیہ السلام أَنْ يَنَامَ عَلَى بَابِهِ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ أَبَداً مَا كَانَ حَيّاً إِلَى أَنْ يَأْتِيَهُ خَبَرُهُ قَالَ فَكُنَّا فِي كُلِّ لَيْلَةٍ نَفْرُشُ لابِي الْحَسَنِ فِي الدِّهْلِيزِ ثُمَّ يَأْتِي بَعْدَ الْعِشَاءِ فَيَنَامُ فَإِذَا أَصْبَحَ انْصَرَفَ إِلَى مَنْزِلِهِ قَالَ فَمَكَثَ عَلَى هَذِهِ الْحَالِ أَرْبَعَ سِنِينَ فَلَمَّا كَانَ لَيْلَةٌ مِنَ اللَّيَالِي أَبْطَأَ عَنَّا وَفُرِشَ لَهُ فَلَمْ يَأْتِ كَمَا كَانَ يَأْتِي فَاسْتَوْحَشَ الْعِيَالُ وَذُعِرُوا وَدَخَلَنَا أَمْرٌ عَظِيمٌ مِنْ إِبْطَائِهِ فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَى الدَّارَ وَدَخَلَ إِلَى الْعِيَالِ وَقَصَدَ إِلَى أُمِّ أَحْمَدَ فَقَالَ لَهَا هَاتِ الَّتِي أَوْدَعَكِ أَبِي فَصَرَخَتْ وَلَطَمَتْ وَجْهَهَا وَشَقَّتْ جَيْبَهَا وَقَالَتْ مَاتَ وَالله سَيِّدِي فَكَفَّهَا وَقَالَ لَهَا لا تَكَلَّمِي بِشَيْ‏ءٍ وَلا تُظْهِرِيهِ حَتَّى يَجِي‏ءَ الْخَبَرُ إِلَى الْوَالِي فَأَخْرَجَتْ إِلَيْهِ سَفَطاً وَأَلْفَيْ دِينَارٍ أَوْ أَرْبَعَةَ آلافِ دِينَارٍ فَدَفَعَتْ ذَلِكَ أَجْمَعَ إِلَيْهِ دُونَ غَيْرِهِ وَقَالَتْ إِنَّهُ قَالَ لِي فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَهُ وَكَانَتْ أَثِيرَةً عِنْدَهُ احْتَفِظِي بِهَذِهِ الْوَدِيعَةِ عِنْدَكِ لا تُطْلِعِي عَلَيْهَا أَحَداً حَتَّى أَمُوتَ فَإِذَا مَضَيْتُ فَمَنْ أَتَاكِ مِنْ وُلْدِي فَطَلَبَهَا مِنْكِ فَادْفَعِيهَا إِلَيْهِ وَاعْلَمِي أَنِّي قَدْ مِتُّ وَقَدْ جَاءَنِي وَالله عَلامَةُ سَيِّدِي فَقَبَضَ ذَلِكَ مِنْهَا وَأَمَرَهُمْ بِالامْسَاكِ جَمِيعاً إِلَى أَنْ وَرَدَ الْخَبَرُ وَانْصَرَفَ فَلَمْ يَعُدْ لِشَيْ‏ءٍ مِنَ الْمَبِيتِ كَمَا كَانَ يَفْعَلُ فَمَا لَبِثْنَا إِلا أَيَّاماً يَسِيرَةً حَتَّى جَاءَتِ الْخَرِيطَةُ بِنَعْيِهِ فَعَدَدْنَا الايَّامَ وَتَفَقَّدْنَا الْوَقْتَ فَإِذَا هُوَ قَدْ مَاتَ فِي الْوَقْتِ الَّذِي فَعَلَ أَبُو الْحَسَنِ علیہ السلام مَا فَعَلَ مِنْ تَخَلُّفِهِ عَنِ الْمَبِيتِ وَقَبْضِهِ لِمَا قَبَضَ۔

مسافر کہتا ہے کہ جب امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو بجبر بغداد لے جا رہے تھے تو انھوں نے امام رضا علیہ السلام کو حکم دیا کہ ہر رات جب تک میرے مرنے کی خبر نہ آئے میرے گھر کے دروازے پر سویا کریں۔ مسافر کہتا ہے ہم ہر روز رات کو دیلیز میں ان کے لیے فرش بچھا دیتے تھے وہ عشا کے بعد آتے اور سو رہتے اور اپنے گھر چلے جاتے۔ یہ صورت چار سال تک رہی۔ ایک رات آنے میں تاخیر ہوئی۔ ہم نے فرش بچھا دیا۔ لیکن حسب معمول نہ آئے سب گھر والے مضطرب و پریشان تھے اور اس کو ایک عظیم مصیبت سمجھا کہ یہ تاخیر ہوئی کیوں۔ جب دوسرا دن ہوا تو آئے اور گھر کے اندر داخل ہوئے اور ام احمد سے کہا جو چیز میرے باپ نے تمہارے پاس امانت رکھی ہے وہ مجھے دے دو۔
یہ سن کر وہ رونے لگیں منہ پر طمانچے مارے اور گریبان پھاڑ دیا۔ اور کہنے لگیں واللہ میرا آقا مر گیا۔ حضرت نے فرمایا زبان سے کچھ نہ کہو اور کچھ ظاہر نہ کرو، جب تک حاکم مدینہ کے پاس سرکاری طور پر اطلاع نہ آ جائے۔ پس ام احمد نے دو ہزار یا چار ہزار دینار سے بھری تھیلی نکالی اور حضرت کو دی اور حضرت کے سوا کسی اور کو نہ دی اور کہا امام موسیٰ کاظم نے کہا تھا کہ میرے اور ان کے درمیان ایک راز ہے اور ام احمد امام موسیٰ کاظم کے نزدیک عزیز و گرامی تھیں۔ حضرت نے ان سے کہا اس امانت کی حفاظت کرو۔ اپنے پاس رکھو اور میرے مرنے تک کسی کو اس پر مطلع نہ کرنا۔ جب میں مر جاؤں تو میری اولاد میں سے جو کوئی تمہارے پاس آئے اور تم سے مانگے تو اسے دے دینا اور سمجھ لینا کہ میں مر گیا ۔ پس میرے پاس میرے آقا کے مرنے کی علامت آ گئی۔ پس حضرت نے وہ امامت لے لی اور گھر والوں سےکہا اسے اپنے پاس محفوظ رکھیں یہاں تک کہ حضرت کے مرنے کی باقاعدہ خبر آ جائے اور یہ کہہ کر حضرت چلے گئے۔ پس میت کے متعلق کوئی خبر ہمیں صبح تک معلوم نہ ہوئی۔ چند ہی روز گزرے تھے کہ سرکاری ڈاک میں مرنے کی خبر آئی ہم نے حساب لگایا اور وقت کی جانچ کی تو وہی وقت تھا جو امام رضا علیہ السلام کے رات کو سونے کے لیے نہ آنے کا تھا اور ام احمد سے امانت لینے کا ۔