مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

(3-89)

وقت وفاتِ امام لوگوں پر کیا واجب ہے

حدیث نمبر 1

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ صَفْوَانَ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ شُعَيْبٍ قَالَ قُلْتُ لابِي عَبْدِ الله علیہ السلام إِذَا حَدَثَ عَلَى الامَامِ حَدَثٌ كَيْفَ يَصْنَعُ النَّاسُ قَالَ أَيْنَ قَوْلُ الله عَزَّ وَجَلَّ فَلَوْ لا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ قَالَ هُمْ فِي عُذْرٍ مَا دَامُوا فِي الطَّلَبِ وَهَؤُلاءِ الَّذِينَ يَنْتَظِرُونَهُمْ فِي عُذْرٍ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَيْهِمْ أَصْحَابُهُمْ۔

میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا جب امام کے مرنے کا وقت آئے تو لوگوں کو کیا کرنا چاہے۔ فرمایا خدا فرماتا ہے کیوں نہیں اہل ایمان میں سے کچھ لوگ نکلتے کہ وہ عقل و دانش (علم فقہ) حاصل کریں اور جب لوٹیں تو اپنی قوم کو ڈرائیں تاکہ وہ گناہوں سے بچیں۔ فرمایا امام نے کہ وہ لوگ معذور ہیں جب تک تلاش میں رہیں اور دوسرا معذور ہے جب تک پہلا گروہ حصول فقہ کے بعد اپنے اصحاب کی طرف نہ لوٹے (مطلب یہ ہے کہ تلاش امام میں بغرض حصول علم مومنوں میں سے کچھ لوگوں کو نکلنا چاہیے)۔

حدیث نمبر 2

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ عَبْدِ الاعْلَى قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام عَنْ قَوْلِ الْعَامَّةِ إِنَّ رَسُولَ الله ﷺ قَالَ مَنْ مَاتَ وَلَيْسَ لَهُ إِمَامٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً فَقَالَ الْحَقُّ وَالله قُلْتُ فَإِنَّ إِمَاماً هَلَكَ وَرَجُلٌ بِخُرَاسَانَ لا يَعْلَمُ مَنْ وَصِيُّهُ لَمْ يَسَعْهُ ذَلِكَ قَالَ لا يَسَعُهُ إِنَّ الامَامَ إِذَا هَلَكَ وَقَعَتْ حُجَّةُ وَصِيِّهِ عَلَى مَنْ هُوَ مَعَهُ فِي الْبَلَدِ وَحَقُّ النَّفْرِ عَلَى مَنْ لَيْسَ بِحَضْرَتِهِ إِذَا بَلَغَهُمْ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ فَلَوْ لا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ. قُلْتُ فَنَفَرَ قَوْمٌ فَهَلَكَ بَعْضُهُمْ قَبْلَ أَنْ يَصِلَ فَيَعْلَمَ قَالَ إِنَّ الله جَلَّ وَعَزَّ يَقُولُ وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى الله وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى الله قُلْتُ فَبَلَغَ الْبَلَدَ بَعْضُهُمْ فَوَجَدَكَ مُغْلَقاً عَلَيْكَ بَابُكَ وَمُرْخًى عَلَيْكَ سِتْرُكَ لا تَدْعُوهُمْ إِلَى نَفْسِكَ وَلا يَكُونُ مَنْ يَدُلُّهُمْ عَلَيْكَ فَبِمَا يَعْرِفُونَ ذَلِكَ. قَالَ‏ بِكِتَابِ الله الْمُنْزَلِ قُلْتُ فَيَقُولُ الله جَلَّ وَعَزَّ كَيْفَ قَالَ أَرَاكَ قَدْ تَكَلَّمْتَ فِي هَذَا قَبْلَ الْيَوْمِ قُلْتُ أَجَلْ قَالَ فَذَكِّرْ مَا أَنْزَلَ الله فِي علي علیہ السلام وَمَا قَالَ لَهُ رَسُولُ الله ﷺ فِي حَسَنٍ وَحُسَيْنٍ (عَلَيْهما السَّلام) وَمَا خَصَّ الله بِهِ عَلِيّاً علیہ السلام وَمَا قَالَ فِيهِ رَسُولُ الله ﷺ مِنْ وَصِيَّتِهِ إِلَيْهِ وَنَصْبِهِ إِيَّاهُ وَمَا يُصِيبُهُمْ وَإِقْرَارِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ بِذَلِكَ وَوَصِيَّتِهِ إِلَى الْحَسَنِ وَتَسْلِيمِ الْحُسَيْنِ لَهُ بِقَوْلِ الله النَّبِيُّ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ وَأُولُوا الارْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى‏ بِبَعْضٍ فِي كِتابِ الله قُلْتُ فَإِنَّ النَّاسَ تَكَلَّمُوا فِي ابي جعفر علیہ السلام وَيَقُولُونَ كَيْفَ تَخَطَّتْ مِنْ وُلْدِ أَبِيهِ مَنْ لَهُ مِثْلُ قَرَابَتِهِ وَمَنْ هُوَ أَسَنُّ مِنْهُ وَقَصُرَتْ عَمَّنْ هُوَ أَصْغَرُ مِنْهُ فَقَالَ يُعْرَفُ صَاحِبُ هَذَا الامْرِ بِثَلاثِ خِصَالٍ لا تَكُونُ فِي غَيْرِهِ هُوَ أَوْلَى النَّاسِ بِالَّذِي قَبْلَهُ وَهُوَ وَصِيُّهُ وَعِنْدَهُ سِلاحُ رَسُولِ الله ﷺ وَوَصِيَّتُهُ وَذَلِكَ عِنْدِي لا أُنَازَعُ فِيهِ قُلْتُ إِنَّ ذَلِكَ مَسْتُورٌ مَخَافَةَ السُّلْطَانِ قَالَ لا يَكُونَ فِي سِتْرٍ إِلا وَلَهُ حُجَّةٌ ظَاهِرَةٌ إِنَّ أَبِي اسْتَوْدَعَنِي مَا هُنَاكَ فَلَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ قَالَ ادْعُ لِي شُهُوداً فَدَعَوْتُ أَرْبَعَةً مِنْ قُرَيْشٍ فِيهِمْ نَافِعٌ مَوْلَى عَبْدِ الله بْنِ عُمَرَ قَالَ اكْتُبْ هَذَا مَا أَوْصَى بِهِ يَعْقُوبُ بَنِيهِ يا بَنِيَّ إِنَّ الله اصْطَفى‏ لَكُمُ الدِّينَ فَلا تَمُوتُنَّ إِلا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ وَأَوْصَى مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ إِلَى ابْنِهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَأَمَرَهُ أَنْ يُكَفِّنَهُ فِي بُرْدِهِ الَّذِي كَانَ يُصَلِّي فِيهِ الْجُمَعَ وَأَنْ يُعَمِّمَهُ بِعِمَامَتِهِ وَأَنْ يُرَبِّعَ قَبْرَهُ وَيَرْفَعَهُ أَرْبَعَ أَصَابِعَ ثُمَّ يُخَلِّيَ عَنْهُ فَقَالَ اطْوُوهُ ثُمَّ قَالَ لِلشُّهُودِ انْصَرِفُوا رَحِمَكُمُ الله فَقُلْتُ بَعْدَ مَا انْصَرَفُوا مَا كَانَ فِي هَذَا يَا أَبَتِ أَنْ تُشْهِدَ عَلَيْهِ فَقَالَ إِنِّي كَرِهْتُ أَنْ تُغْلَبَ وَأَنْ يُقَالَ إِنَّهُ لَمْ يُوصَ فَأَرَدْتُ أَنْ تَكُونَ لَكَ حُجَّةٌ فَهُوَ الَّذِي إِذَا قَدِمَ الرَّجُلُ الْبَلَدَ قَالَ مَنْ وَصِيُّ فُلانٍ قِيلَ فُلانٌ قُلْتُ فَإِنْ أَشْرَكَ فِي الْوَصِيَّةِ قَالَ تَسْأَلُونَهُ فَإِنَّهُ سَيُبَيِّنُ لَكُمْ۔

راوی کہتا ہے میں نے حضرت ابو عبداللہ سے پوچھا اس عام روایت کے متعلق کہ جو اس حالت میں مر گیا کہ اس نے اپنے زمانہ کے امام کو نہ پہچانا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ میں نے کہا کیا یہ حق ہے۔ فرمایا بے شک۔ میں نے کہا اگر امام مر جائے اور ایک شخص خراسان میں ہو وہ اس کے وصی کا علم نہیں رکھتا اور نہ اس تک پہنچ سکتا ہے تو وہ کیا کرے۔ فرمایا اگر نہیں پہنچ سکتا تو امام کی وفات کے بعد ان کا وصی حجت ہو گا ان لوگوں پر جو اس کے شہر میں موجود ہوں اور جو موجود نہیں ان کو چاہیے جس وقت خبر ملے خدمت امام میں حاضر ہوں جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ کیوں نہیں اہل ایمان میں سے کچھ لوگ نکلتے کہ وہ علم فقہ حاصل کریں اور جب لوٹیں تو اپنی قوم کو ڈرائیں تا کہ وہ گناہوں سے بچیں۔
میں نے کہا کچھ فرض کیجیے چلے بھی اور وہ امام تک پہنچنے اور علم حاصل ہونے سے پہلے ہلاک ہو گئے تو۔ فرمایا خدا فرماتا ہے جو اپنے گھر سے خدا اور رسول کی طرف ہجرت کرنے کو نکلے اور ان کو راہ میں موت آ گئی تو ان کا اجر اللہ پر ہے میں نے کہا فرض کیجیے وہ شہر میں پہنچ بھی گیا لیکن یا تو آپ کا دروازہ بند پایا در پر پردہ پڑا ہوا پایا اور کوئی آپ تک پہنچانے والا بھی نہیں پھر کیا ہو گا، کیسے پہچانیں گے۔ فرمایا اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب سے میں نے کہا خدا نے کیا فرمایا ہے۔ فرمایا یہ سوال تم نے پہلے بھی کیا تھا۔ میں نے کہا ہاں۔ اس کے بعد وہ آیات بیان کیں جو علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئیں اور حسن و حسین کے بارے میں جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور ان چیزوں کا ذکر جو علی سے مخصوص تھیں اور جو وصیت رسول اللہ ﷺ نے ان کے متعلق فرمائی اور ان کو اپنا جانشین مقرر کیا اور جو مصائب ان پر نازل ہونے والے تھے اور حضرت علی کا امام حسن کے متعلق وصیت کرنا اور امام حسین کا اس کو اس آیت کے تحت قبول کرنا بعض رشتہ دار بعض سے بہتر ہیں خدا کی کتاب میں۔ میں نے کہا لوگ کلام کرتے ہیں امامتِ امام محمد باقر علیہ السلام میں اور کہتے ہیں کہ امامت کیونکر تجاوز کر گئی اس شخص سے جو امام محمد باقر علیہ السلام کے باپ کی اولاد میں سے بڑا تھا اور کیوں پہنچی اس کی طرف جو سن میں چھوٹے تھے۔ حضرت نے فرمایا امام کی شناخت تین چیزوں سے ہوتی ہے جو اس کے غیر میں نہیں ہوتیں۔ اول یہ کہ وہ اپنے قبل امام کی طرح اپنے زمانہ کے تمام لوگوں سے افضل و اولیٰ ہوتا ہے دوسرے سابق امام کی وصیت ہوتی ہے، تیسرے اس کے پاس رسول اللہ کے ہتھیار ہوتے ہیں اور اس کے متعلق وصیت ہوتی ہے یہ سب میرے لیے ہے اس میں میرا کچھ جھگڑا نہیں۔
میں نے کہا یہ چیزیں تو خوف سلطان سے ڈھکی چھپی ہیں۔ فرمایا یہ چیزیں چھپنے والی نہیں کیونکہ اس کے حجت ظٓاہر ہونے کا پتہ اور باتوں سے چل جاتا ہے۔ میرے پدر بزرگوار نے یہ چیزیں میرے سپرد کر دی ہیں جب ان کی موت کا وقت آیا تو مجھ سے فرمایا میرے لیے گواہوں کو بلاؤ۔ میں نے قریش کے چار گواہ بلائے۔ جن میں عبداللہ بن عمر کا غلام نافع بھی تھا۔ حضرت نے ان سے فرمایا لکھو کہ وصیت میں کہا تھا اس کے متعلق یعقوب نے اپنے بیٹوں کو کہ اے میرے فرزند اللہ نے تمہارے لیے دین کو انتخاب کر لیا ہے پس تم مسلمان ہو کر ہی مرنا محمد بن علی نے وصیت کی اپنے بیٹے جعفر بن محمد کو اور انھیں حکم دیا ہے کہ اس چادر کا کفن دیں جس میں میں جمعہ کی نماز پڑھا کرتا تھا اور میرا ہی عمامہ باندھیں اور مربع قبر بنائیں اور چار انگشت اونچا کریں۔ پھر فرمایا اس وصیت نامہ کو لپیٹ دو اور گواہوں سے کہا اب تم چلے جاؤ۔ اللہ تم پر رحم کرے۔ میں نے کہا جب وہ لوگ چلے گئے اے با با جان ایسا آپ نے کیوں کیا اور اس وصیت پر گواہی کیوں لی۔ فرمایا میں نے اسے برا سمجھا کی میرے بعد لوگ تم پر غلبہ کریں اور کہیں کہ ان کے لیے کوئی وصیت نہیں کی۔ بس میں نے چاہا کہ یہ تمہارے لیے حجت ہو جائے۔ پس جو کوئی شہر (مدینہ) میں وارد ہوا اسے دریافت کرنا چاہیے کہ فلاں نے اپنا وصی کس کو بنایا۔ میں نے کہا اگر وصیت میں چند آدمیوں کو شریک کر لیا ہو تو کیا ہو۔ فرمایا ان سے آیاتِ محکمات کے متعلق سوالات کیے جائیں امر حق واضح ہو جائے گا۔

حدیث نمبر 3

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ يَحْيَى الْحَلَبِيِّ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ مُعَاوِيَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ قُلْتُ لابِي عَبْدِ الله علیہ السلام أَصْلَحَكَ الله بَلَغَنَا شَكْوَاكَ وَأَشْفَقْنَا فَلَوْ أَعْلَمْتَنَا أَوْ عَلَّمْتَنَا مَنْ قَالَ إِنَّ عَلِيّاً علیہ السلام كَانَ عَالِماً وَالْعِلْمُ يُتَوَارَثُ فَلا يَهْلِكُ عَالِمٌ إِلا بَقِيَ مِنْ بَعْدِهِ مَنْ يَعْلَمُ مِثْلَ عِلْمِهِ أَوْ مَا شَاءَ الله قُلْتُ أَ فَيَسَعُ النَّاسَ إِذَا مَاتَ الْعَالِمُ أَلا يَعْرِفُوا الَّذِي بَعْدَهُ فَقَالَ أَمَّا أَهْلُ هَذِهِ الْبَلْدَةِ فَلا يَعْنِي الْمَدِينَةَ وَأَمَّا غَيْرُهَا مِنَ الْبُلْدَانِ فَبِقَدْرِ مَسِيرِهِمْ إِنَّ الله يَقُولُ وَما كانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْ لا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ قَالَ قُلْتُ أَ رَأَيْتَ مَنْ مَاتَ فِي ذَلِكَ فَقَالَ هُوَ بِمَنْزِلَةِ مَنْ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ مُهَاجِراً إِلَى الله وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكُهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى الله قَالَ قُلْتُ فَإِذَا قَدِمُوا بِأَيِّ شَيْ‏ءٍ يَعْرِفُونَ صَاحِبَهُمْ قَالَ يُعْطَى السَّكِينَةَ وَالْوَقَارَ وَالْهَيْبَةَ۔

راوی نے کہا امام جعفر صادق علیہ السلام سے اللہ آپ کی حفاظت کرے ہمیں آپ کی علالت کی خبر ملی ہے اور ہم آپ کی موت سے ڈرے ہوئے ہیں لہذا آگاہ کیجیے یا تعلیم دیجیے کہ آپ کے بعد امام کون ہو گا۔ فرمایا علی علیہ السلام آیاتِ قرآنی کے عالم تھے اور علم میراث میں چلتا ہے اگر کوئی عالم مرتا ہے تو اس کی جگہ اسی جیسا علم رکھنے والا دوسرا آ جاتا ہے یا جیسا اللہ چاہتا ہے میں نے کہا کیا یہ ہو سکتا ہے کہ جب عالم مر جائے تو لوگ اس کے بعد والے کو نہ پہچانیں۔ فرمایا اس شہر (مدینہ) والوں کے لیے معرفت امام اسی وقت ضروری ہے لیکن دور کے شہر والوں کے لیے وقت ہو گا بقدر ان کی مسافت کے۔ خدا فرماتا ہے مومنوں کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں بلکہ ان کی ایک جماعت علم دین حاصل کرنے کے لیے کیوں نہیں نکلتی تاکہ وہ تحصیل علم کے بعد لوگوں کو ڈرائیں جب ان کے پاس لوٹ کر آئیں تاکہ وہ گناہ سے بچیں۔ میں نے کہا اگر اس کوشش کے درمیان مر جائے ۔ فرمایا وہ اس شخص کی طرح ہو گا جو ہجرت کر کے اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف نکلے اور راہ میں اسے موت آ جائے تو اس کا اجر اللہ پر ہے۔ میں نے کہا جو لوگ امام کے شہرمیں پہنچ جائیں تو وہ کس طرح پہچانیں۔ فرمایا امام کے سکینہ و وقار اور اس کی ہیبت سے۔