مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ سَمَاعَةَ وَعَبْدِ الله بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ الْقَاسِمِ الْبَطَلِ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام أَيُّ إِمَامٍ لا يَعْلَمُ مَا يُصِيبُهُ وَإِلَى مَا يَصِيرُ فَلَيْسَ ذَلِكَ بِحُجَّةٍ لله عَلَى خَلْقِهِ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے جو امام یہ نہیں جانتا کہ اسے کیا مصیبت پہنچے گی اور اس کا انجام کار کیا ہو گا تو مخلوق خدا کی رہنمائی نہیں کر سکتا اور خدا کی حجت نہیں ہو سکتا۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنِي شَيْخٌ مِنْ أَهْلِ قَطِيعَةِ الرَّبِيعِ مِنَ الْعَامَّةِ بِبَغْدَادَ مِمَّنْ كَانَ يُنْقَلُ عَنْهُ قَالَ قَالَ لِي قَدْ رَأَيْتُ بَعْضَ مَنْ يَقُولُونَ بِفَضْلِهِ مِنْ أَهْلِ هَذَا الْبَيْتِ فَمَا رَأَيْتُ مِثْلَهُ قَطُّ فِي فَضْلِهِ وَنُسُكِهِ فَقُلْتُ لَهُ مَنْ وَكَيْفَ رَأَيْتَهُ قَالَ جُمِعْنَا أَيَّامَ السِّنْدِيِّ بْنِ شَاهَكَ ثَمَانِينَ رَجُلاً مِنَ الْوُجُوهِ الْمَنْسُوبِينَ إِلَى الْخَيْرِ فَأُدْخِلْنَا عَلَى مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ (عَلَيْهما السَّلام) فَقَالَ لَنَا السِّنْدِيُّ يَا هَؤُلاءِ انْظُرُوا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ هَلْ حَدَثَ بِهِ حَدَثٌ فَإِنَّ النَّاسَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُ قَدْ فُعِلَ بِهِ وَيُكْثِرُونَ فِي ذَلِكَ وَهَذَا مَنْزِلُهُ وَفِرَاشُهُ مُوَسَّعٌ عَلَيْهِ غَيْرُ مُضَيَّقٍ وَلَمْ يُرِدْ بِهِ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ سُوءاً وَإِنَّمَا يَنْتَظِرُ بِهِ أَنْ يَقْدَمَ فَيُنَاظِرَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَهَذَا هُوَ صَحِيحٌ مُوَسَّعٌ عَلَيْهِ فِي جَمِيعِ أُمُورِهِ فَسَلُوهُ قَالَ وَنَحْنُ لَيْسَ لَنَا هَمٌّ إِلا النَّظَرُ إِلَى الرَّجُلِ وَإِلَى فَضْلِهِ وَسَمْتِهِ فَقَالَ مُوسَى بْنُ جَعْفَرٍ علیہ السلام أَمَّا مَا ذَكَرَ مِنَ التَّوْسِعَةِ وَمَا أَشْبَهَهَا فَهُوَ عَلَى مَا ذَكَرَ غَيْرَ أَنِّي أُخْبِرُكُمْ أَيُّهَا النَّفَرُ أَنِّي قَدْ سُقِيتُ السَّمَّ فِي سَبْعِ تَمَرَاتٍ وَأَنَا غَداً أَخْضَرُّ وَبَعْدَ غَدٍ أَمُوتُ قَالَ فَنَظَرْتُ إِلَى السِّنْدِيِّ بْنِ شَاهَكَ يَضْطَرِبُ وَيَرْتَعِدُ مِثْلَ السَّعَفَةِ۔
حسن بن محمد بشار نے کہا کہ بیان کیا مجھ سے ایک بوڑھے نے جو اہل قطیہ الربیع سے تھا بغداد میں روایت کی ان لوگوں سے کہ جن کی زبانوں سے حدیث نقل کی جاتی ہے۔ حسن کہتے ہیں اس پیر مرد نے کہا میں نے خانوادہِ رسالت سے ایک شخص کو دیکھا جن کی فضیلت لوگ بیان کرتے تھے اور میں نے اس سے بہتر کسی کو فضیلت و عبادت میں نہ پایا۔ میں نے کہا کہ وہ کون تھے اور تم نے ان کو کیسا پایا۔ اس نے کہا سندی ابن شاہک کے زمانے میں 80 آدمی ایسے جمع کیے گئے جو خیر کی طرف منسوب تھے۔ ہم کو حضرت موسیٰ بن جعفر کے پاس بھیجا گیا اور ہم سے سندی نے کہا تم سب اس شخص (امام موسیٰ کاظمؑ) کو دیکھو کیا کوئی نئی بات پاتے ہو۔ لوگ گمان کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے اور بہت سی باتیں ان کی قید کے متعلق بیان کرتے ہیں۔ دیکھ لو کیسا کشادہ گھر ہے اور کیسا اچھا فرش ہے کوئی تنگی نہیں نہ امیر المومنین (ہارون) کا ارادہ ان کو تکلیف پہنچانے کا ہے یہ امیر المومنین سے مناظرہ کے منتظر ہیں۔ دیکھو یہ بالکل صحیح و سالم ہیں اور آرام کے تمام سامان مہیا ہیں اب تم ان سے پوچھو۔ راوی کہتا ہے ہمیں کسی طرف توجہ نہ تھی سوائے حضرت کی طرف دیکھنے اور ان کی فضیلت اور شان عظمت پر نظر کرنے کے۔ امام علیہ السلام نے خود ہی فرمایا جو کچھ اس نے سامان راحت وغیرہ کے متعلق کہا وہ ظاہر ہے لیکن تم کو آگاہ کرتا ہوں کہ مجھے سات پھلوں میں پیوست کر کے زہر دیا گیا ہے۔ میرا رنگ کل کو ہرا ہو جائے گا اور کل ہی مر جاؤں گا۔ میں نے سندی شاہک کی طرف دیکھا وہ پریشان تھا اور بطخ کی طرح کانپ رہا تھا۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنْ أَبِي جَمِيلَةَ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَخِي عَنْ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ أَتَى عَلِيَّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) لَيْلَةً قُبِضَ فِيهَا بِشَرَابٍ فَقَالَ يَا أَبَتِ اشْرَبْ هَذَا فَقَالَ يَا بُنَيَّ إِنَّ هَذِهِ اللَّيْلَةُ الَّتِي أُقْبَضُ فِيهَا وَهِيَ اللَّيْلَةُ الَّتِي قُبِضَ فِيهَا رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه)۔
جس رات کو حضرت علی بن الحسین علیہ السلام کا انتقال ہوا امام محمد باقر علیہ السلام پینے کے لیے پانی لائے اور کہنے لگے بابا جان یہ پانی پی لیجیے۔ فرمایا بیٹا اسی رات میں میری روح قبض ہو گی۔ یہ وہی رات ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے انتقال فرمایا تھا۔
عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْجَهْمِ قَالَ قُلْتُ لِلرِّضَا علیہ السلام إِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام قَدْ عَرَفَ قَاتِلَهُ وَاللَّيْلَةَ الَّتِي يُقْتَلُ فِيهَا وَالْمَوْضِعَ الَّذِي يُقْتَلُ فِيهِ وَقَوْلُهُ لَمَّا سَمِعَ صِيَاحَ الاوَزِّ فِي الدَّارِ صَوَائِحُ تَتْبَعُهَا نَوَائِحُ وَقَوْلُ أُمِّ كُلْثُومٍ لَوْ صَلَّيْتَ اللَّيْلَةَ دَاخِلَ الدَّارِ وَأَمَرْتَ غَيْرَكَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فَأَبَى عَلَيْهَا وَكَثُرَ دُخُولُهُ وَخُرُوجُهُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ بِلا سِلاحٍ وَقَدْ عَرَفَ علیہ السلام أَنَّ ابْنَ مُلْجَمٍ لَعَنَهُ الله قَاتِلُهُ بِالسَّيْفِ كَانَ هَذَا مِمَّا لَمْ يَجُزْ تَعَرُّضُهُ فَقَالَ ذَلِكَ كَانَ وَلَكِنَّهُ خُيِّرَ فِي تِلْكَ اللَّيْلَةِ لِتَمْضِيَ مَقَادِيرُ الله عَزَّ وَجَلَّ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام رضا علیہ السلام سے کہا کہ امیر المومنین علیہ السلام اپنے قاتل کو پہچانتے تھے اور اس رات کو بھی جانتے تھے جس میں قتل کیے گئے اور اس جگہ کو بھی جہاں مقتول ہوئے اور گھر میں جو قازیں تھیں ان کی چیخ و پکار بھی سنی جن کی فریاد کے بعد نوحہ خوانی ہوئی اور ام کلثوم کا یہ قول بھی سنا کہ آج کی رات آپ گھر پر ہی نماز پڑھ لیتے کسی کو حکم دیجیے کہ وہ آپ کی جگہ نماز پڑھا دے۔ مگر حضرت نے انکار کیا اور آپ ادائے نوافل کے لیے بغیر ہتھیار بار بار آتے جاتے بھی رہے آپ اپنے قاتل کو پہچانتے بھی تھے تلوار سے قتل ہونے کو بھی جانتے تھے پھر آپ نے اپنے آپ کو کیوں نہ بچایا۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا یہ ٹھیک ہے لیکن حکم قضا و قدر جو کچھ تھا اس کو بجا لانا ہی بہتر تھا۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَنْ أَبِي الْحَسَنِ مُوسَى علیہ السلام قَالَ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ غَضِبَ عَلَى الشِّيعَةِ فَخَيَّرَنِي نَفْسِي أَوْ هُمْ فَوَقَيْتُهُمْ وَالله بِنَفْسِي۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا اللہ تعالیٰ غضبناک ہوا ہمارے شیعوں پر (بہ سبب ترک تقیہ) پس اختیار دیا مجھے اپنے اور ان کے قتل ہونے کے درمیان، پس میں نے اپنی جان دے کر ان کو بچا لیا۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْوَشَّاءِ عَنْ مُسَافِرٍ أَنَّ أَبَا الْحَسَنِ الرِّضَا علیہ السلام قَالَ لَهُ يَا مُسَافِرُ هَذَا الْقَنَاةُ فِيهَا حِيتَانٌ قَالَ نَعَمْ جُعِلْتُ فِدَاكَ فَقَالَ إِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ الله ﷺ الْبَارِحَةَ وَهُوَ يَقُولُ يَا عَلِيُّ مَا عِنْدَنَا خَيْرٌ لَكَ۔
فرمایا امام رضا علیہ السلام نے اپنے خادم مسافر سے اے مسافر اس کاریز میں مچھلیاں ہیں۔ میں نے کہا ہاں آپؑ پر فدا ہوں۔ فرمایا میں نے گزشتہ شب رسول اللہ ﷺ کو خواب میں یہ کہتے سنا، اے علیؑ جو ہمارے پاس ہے (بہشت) وہ تیرے لیے بہتر ہے۔ یہ اشارہ تھا اس طرف کہ جب حضرت کی قبر کھودی گئی تو اس میں پانی نکلا جس میں مچھلیاں تھیں۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْوَشَّاءِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عَائِذٍ عَنْ أَبِي خَدِيجَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ كُنْتُ عِنْدَ أَبِي فِي الْيَوْمِ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ فَأَوْصَانِي بِأَشْيَاءَ فِي غُسْلِهِ وَفِي كَفْنِهِ وَفِي دُخُولِهِ قَبْرَهُ فَقُلْتُ يَا أَبَاهْ وَالله مَا رَأَيْتُكَ مُنْذُ اشْتَكَيْتَ أَحْسَنَ مِنْكَ الْيَوْمَ مَا رَأَيْتُ عَلَيْكَ أَثَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ يَا بُنَيَّ أَ مَا سَمِعْتَ عَلِيَّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) يُنَادِي مِنْ وَرَاءِ الْجِدَارِ يَا مُحَمَّدُ تَعَالَ عَجِّلْ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ جس روز میرے پدر بزرگوار کا انتقال ہوا میں ان کی خدمت میں تھا۔ انھوں نے اپنے غسل و کفن اور قبر میں اتارنے کے متعلق وصیت فرمائی۔ میں نے کہا ابا جان واللہ جب سے آپ بیمار ہوئے ہیں آج آپ کی حالت ہر روز سے بہتر ہے۔ میں تو آثار موت آپ میں نہیں پاتا۔ فرمایا بیٹا کیا تم نے نہیں سنا کہ علی بن الحسین علیہ السلام پسِ دیوار سے فرما رہے ہیں اے محمد آنے میں جلدی کرو۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ سَيْفِ بْنِ عَمِيرَةَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَعْيَنَ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ أَنْزَلَ الله تَعَالَى النَّصْرَ عَلَى الْحُسَيْنِ علیہ السلام حَتَّى كَانَ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالارْضِ ثُمَّ خُيِّرَ النَّصْرَ أَوْ لِقَاءَ الله فَاخْتَارَ لِقَاءَ الله تَعَالَى۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا خدا نے امام حسین علیہ السلام پر اپنی نصرف نازل کی یہاں تک کہ فرشتے مابین آسمان زمین آ گئے پھر اختیار دیا۔ نصرت قبول کرنے اور خدا سے ملاقات کرنے کے درمیان حضرت نے ملاقات الہٰی کو اختیار کیا۔