مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

(3-45)

ذکر الغیب

حدیث نمبر 1

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُعَمَّرِ بْنِ خَلادٍ قَالَ سَأَلَ أَبَا الْحَسَنِ علیہ السلام رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ فَارِسَ فَقَالَ لَهُ أَ تَعْلَمُونَ الْغَيْبَ فَقَالَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام يُبْسَطُ لَنَا الْعِلْمُ فَنَعْلَمُ وَيُقْبَضُ عَنَّا فَلا نَعْلَمُ وَقَالَ سِرُّ الله عَزَّ وَجَلَّ أَسَرَّهُ إِلَى جَبْرَئِيلَ علیہ السلام وَأَسَرَّهُ جَبْرَئِيلُ إِلَى مُحَمَّدٍ ﷺ وَأَسَرَّهُ مُحَمَّدٌ إِلَى مَنْ شَاءَ الله۔

امام رضا علیہ السلام سے ایک مرد فارسی نے پوچھا کیا آپؑ غیب جانتے ہیں۔ فرمایا کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ جب ہمارا علم کشادہ ہوتا ہے (الہام سے یا فرشتے کی خبر دینے سے) تو ہم جانتے ہیں اور جب ایسا نہیں ہوتا تو ہم نہیں جانتے۔ فرمایا اللہ نے اپنا بھید سونپا جبرئیل کو اور جبرئیل نے رسولِ خدا کو اور انھوں نے جس کو چاہا سپرد کیا۔

حدیث نمبر 2

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ عَبْدِ الله بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ رِئَابٍ عَنْ سَدِيرٍ الصَّيْرَفِيِّ قَالَ سَمِعْتُ حُمْرَانَ بْنَ أَعْيَنَ يَسْأَلُ أَبَا جَعْفَرٍ علیہ السلام عَنْ قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ بَدِيعُ السَّماواتِ وَالارْضِ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ ابْتَدَعَ الاشْيَاءَ كُلَّهَا بِعِلْمِهِ عَلَى غَيْرِ مِثَالٍ كَانَ قَبْلَهُ فَابْتَدَعَ السَّمَاوَاتِ وَالارَضِينَ وَلَمْ يَكُنْ قَبْلَهُنَّ سَمَاوَاتٌ وَلا أَرَضُونَ أَ مَا تَسْمَعُ لِقَوْلِهِ تَعَالَى وَكانَ عَرْشُهُ عَلَى الْماءِ فَقَالَ لَهُ حُمْرَانُ أَ رَأَيْتَ قَوْلَهُ جَلَّ ذِكْرُهُ عالِمُ الْغَيْبِ فَلا يُظْهِرُ عَلى‏ غَيْبِهِ أَحَداً فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام إِلا مَنِ ارْتَضى‏ مِنْ رَسُولٍ وَكَانَ وَالله مُحَمَّدٌ مِمَّنِ ارْتَضَاهُ وَأَمَّا قَوْلُهُ عالِمُ الْغَيْبِ فَإِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ عَالِمٌ بِمَا غَابَ عَنْ خَلْقِهِ فِيمَا يَقْدِرُ مِنْ شَيْ‏ءٍ وَيَقْضِيهِ فِي عِلْمِهِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَهُ وَقَبْلَ أَنْ يُفْضِيَهُ إِلَى الْمَلائِكَةِ فَذَلِكَ يَا حُمْرَانُ عِلْمٌ مَوْقُوفٌ عِنْدَهُ إِلَيْهِ فِيهِ الْمَشِيئَةُ فَيَقْضِيهِ إِذَا أَرَادَ وَيَبْدُو لَهُ فِيهِ فَلا يُمْضِيهِ فَأَمَّا الْعِلْمُ الَّذِي يُقَدِّرُهُ الله عَزَّ وَجَلَّ فَيَقْضِيهِ وَيُمْضِيهِ فَهُوَ الْعِلْمُ الَّذِي انْتَهَى إِلَى رَسُولِ الله ﷺ ثُمَّ إِلَيْنَا۔

حمران بن اعین نے امام محمد باقر علیہ السلام سے آیت بدیع السمٰوٰات والارض کے متعلق سوال کیا۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے ایجاد کیا تمام اشیاء کو اپنے علم سے بغیر اس کے کہ کوئی مثال اس سے پہلے ہو اس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا۔ اس سے پہلے آسمان و زمین نہ تھے کیا تم نے خدا تعالیٰ کا یہ قول نہیں سنا کہ اس کا عرش پانی پر تھا۔ حمران نے کہا آپ نے اس آیت پر غور کیا وہ عالم الغیب ہے نہیں مطلع ہوتا اس کے غیب پر کوئی۔ حضرت نے فرمایا اس کے آگے یہ بھی تو ہے مگر اپنے رسولوں میں سے جس کو چن لیا اورواللہ محمد مصطفیٰ ان لوگوں میں سے ہیں جن کو اللہ نے منتخب کیا ہے۔ خداوند عالم علیم ہے ہر اس چیز پر جو غائب ہے اس کی مخلوق پر اس چیز کے متعلق جو وہ مقدور کرتا ہے اور اپنے علم سے طے کرتا ہے قبل اس کے پیدا کرنے کے اور قبل اس کے کہ ملائکہ کو اس کا علم ہو۔ اے حمران علم اسی کے پاس ہے جب اس کی مشیت ہوتی ہے تو اس کو جاری کرتا ہے یعنی ملائکہ کو بتاتا ہے پس یہ علم جس کو وہ مقدر کرتا ہے تو اسے حضرت رسولِ خدا اور ہم تک پہنچا دیتا ہے۔

حدیث نمبر 3

أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ عَبَّادِ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ سَدِيرٍ قَالَ كُنْتُ أَنَا وَأَبُو بَصِيرٍ وَيَحْيَى الْبَزَّازُ وَدَاوُدُ بْنُ كَثِيرٍ فِي مَجْلِسِ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام إِذْ خَرَجَ إِلَيْنَا وَهُوَ مُغْضَبٌ فَلَمَّا أَخَذَ مَجْلِسَهُ قَالَ يَا عَجَباً لاقْوَامٍ يَزْعُمُونَ أَنَّا نَعْلَمُ الْغَيْبَ مَا يَعْلَمُ الْغَيْبَ إِلا الله عَزَّ وَجَلَّ لَقَدْ هَمَمْتُ بِضَرْبِ جَارِيَتِي فُلانَةَ فَهَرَبَتْ مِنِّي فَمَا عَلِمْتُ فِي أَيِّ بُيُوتِ الدَّارِ هِيَ قَالَ سَدِيرٌ فَلَمَّا أَنْ قَامَ مِنْ مَجْلِسِهِ وَصَارَ فِي مَنْزِلِهِ دَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو بَصِيرٍ وَمُيَسِّرٌ وَقُلْنَا لَهُ جُعِلْنَا فِدَاكَ سَمِعْنَاكَ وَأَنْتَ تَقُولُ كَذَا وَكَذَا فِي أَمْرِ جَارِيَتِكَ وَنَحْنُ نَعْلَمُ أَنَّكَ تَعْلَمُ عِلْماً كَثِيراً وَلا نَنْسُبُكَ إِلَى عِلْمِ الْغَيْبِ قَالَ فَقَالَ يَا سَدِيرُ أَ لَمْ تَقْرَأِ الْقُرْآنَ قُلْتُ بَلَى قَالَ فَهَلْ وَجَدْتَ فِيمَا قَرَأْتَ مِنْ كِتَابِ الله عَزَّ وَجَلَّ قالَ الَّذِي عِنْدَهُ عِلْمٌ مِنَ الْكِتابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ قَالَ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ قَدْ قَرَأْتُهُ قَالَ فَهَلْ عَرَفْتَ الرَّجُلَ وَهَلْ عَلِمْتَ مَا كَانَ عِنْدَهُ مِنْ عِلْمِ الْكِتَابِ قَالَ قُلْتُ أَخْبِرْنِي بِهِ قَالَ قَدْرُ قَطْرَةٍ مِنَ الْمَاءِ فِي الْبَحْرِ الاخْضَرِ فَمَا يَكُونُ ذَلِكَ مِنْ عِلْمِ الْكِتَابِ قَالَ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ مَا أَقَلَّ هَذَا فَقَالَ يَا سَدِيرُ مَا أَكْثَرَ هَذَا أَنْ يَنْسِبَهُ الله عَزَّ وَجَلَّ إِلَى الْعِلْمِ الَّذِي أُخْبِرُكَ بِهِ يَا سَدِيرُ فَهَلْ وَجَدْتَ فِيمَا قَرَأْتَ مِنْ كِتَابِ الله عَزَّ وَجَلَّ أَيْضاً قُلْ كَفى‏ بِالله شَهِيداً بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتابِ قَالَ قُلْتُ قَدْ قَرَأْتُهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ قَالَ أَ فَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ كُلُّهُ أَفْهَمُ أَمْ مَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ بَعْضُهُ قُلْتُ لا بَلْ مَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ كُلُّهُ قَالَ فَأَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَى صَدْرِهِ وَقَالَ عِلْمُ الْكِتَابِ وَالله كُلُّهُ عِنْدَنَا عِلْمُ الْكِتَابِ وَالله كُلُّهُ عِنْدَنَا۔

سدیر سے مروی ہے کہ میں اور ابو بصیر وغیرہ مجلس ابو عبداللہ علیہ السلام میں تھے۔ حضرت غضبناک حالت میں گھر میں سے برآمد ہوئے اور آپ نے بھری مجلس میں فرمایا مجھے تعجب ہے ان لوگوں پر جو یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم غیب جانتے ہیں۔ غیب کا حال تو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ میں نے ایک بار ایک کنیز کو مارنا چاہا وہ بھاگی۔ مجھے علم نہ ہوا کہ وہ کس گھر میں چھپی ہے۔ سدیر کہتے ہیں کہ جب حضرت مجلس سے اٹھ کر جانے لگے تو میں نے اور ابوبصیر نے کہا ہم آپ پر فدا ہوں ہم نے آپ کو ایسا ایسا کہتے سنا۔ کنیز کے متعلق حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ آپ علم کثیر رکھتے ہیں اور ہم آپ کو علم غیب کی طرف نسبت دیتے ہیں۔ فرمایا اے سدیر کیا تو نے قرآن پڑھا ہے۔ فرمایا یہ آیت بھی پڑھی ہے کہ جس کے کتاب خدا کا تھوڑا سا علم تھا (آصف وزیر سلیمانؑ) اس نے کہا میں تختِ بلقیس کو پلک جھپکنے سے پہلے لے آؤں گا۔ میں نے کہا پڑھا ہے۔ حضرت نے کہا تمہیں معلوم ہے کہ اس شخص کے پاس کتاب خدا کا کتنا علم تھا۔ میں نے کہا آپ ہی فرمائیں۔ فرمایا صرف اتنا جیسے بحر ذخار سے ایک قطرہ۔ میں نے کہا کس قدر کم تھا۔ فرمایا نہیں یہ کہو کس قدر زیادہ تھا کیونکہ اس کی نسبت علم الہٰی سے ہے یعنی بلحاظ علم الہٰی تو وہ کچھ نہ تھا لیکن بندوں کے علم کے مقابل توبہت زیادہ تھا۔ پھر فرمایا کتاب خدا میں یہ آیت بھی پڑھی ہے فرمایا جس کے پاس پوری کتاب کا علم ہے وہ افضل ہے یا وہ جس کے پاس جزئی کتاب کا علم ہے۔ پھر اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا واللہ کل کتاب کا علم ہمارے پاس ہے کل کتاب کا علم ہمارے پاس ہے۔
توضیح: مذکورہ بالا حدیث میں جو امام علیہ السلام نے غیب دانی کی اپنی طرف سے نفی فرمائی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ علی الطلاق علم الغیب خدا کے سوا کسی کو نہیں ہے۔ انبیاء اور مرسلین اور آئمہ علیہم السلام تو ان کی غیب دانی بالذات نہیں بلکہ خدا کی مرضی پر موقوف ہے جو آئندہ یا ماضی کے متعلق جس چیز کا چاہتا ہے علم عطا کر دیتا ہے۔

حدیث نمبر 4

أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُصَدِّقِ بْنِ صَدَقَةَ عَنْ عَمَّارٍ السَّابَاطِيِّ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام عَنِ الامَامِ يَعْلَمُ الْغَيْبَ فَقَالَ لا وَلَكِنْ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَعْلَمَ الشَّيْ‏ءَ أَعْلَمَهُ الله ذَلِكَ۔

سائل نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا، کیا امام غیب جانتا ہے؟ فرمایا نہیں لیکن جب وہ کسی چیز کے بتانے کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے آگاہ کر دیا جاتا ہے۔