عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ الْحَجَّالِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عُمَرَ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فَقُلْتُ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنِّي أَسْأَلُكَ عَنْ مَسْأَلَةٍ هَاهُنَا أَحَدٌ يَسْمَعُ كَلامِي قَالَ فَرَفَعَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام سِتْراً بَيْنَهُ وَبَيْنَ بَيْتٍ آخَرَ فَاطَّلَعَ فِيهِ ثُمَّ قَالَ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ سَلْ عَمَّا بَدَا لَكَ قَالَ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنَّ شِيعَتَكَ يَتَحَدَّثُونَ أَنَّ رَسُولَ الله ﷺ عَلَّمَ عَلِيّاً علیہ السلام بَاباً يُفْتَحُ لَهُ مِنْهُ أَلْفُ بَابٍ قَالَ فَقَالَ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ عَلَّمَ رَسُولُ الله ﷺ عَلِيّاً علیہ السلام أَلْفَ بَابٍ يُفْتَحُ مِنْ كُلِّ بَابٍ أَلْفُ بَابٍ قَالَ قُلْتُ هَذَا وَالله الْعِلْمُ قَالَ فَنَكَتَ سَاعَةً فِي الارْضِ ثُمَّ قَالَ إِنَّهُ لَعِلْمٌ وَمَا هُوَ بِذَاكَ قَالَ ثُمَّ قَالَ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ وَإِنَّ عِنْدَنَا الْجَامِعَةَ وَمَا يُدْرِيهِمْ مَا الْجَامِعَةُ قَالَ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ وَمَا الْجَامِعَةُ قَالَ صَحِيفَةٌ طُولُهَا سَبْعُونَ ذِرَاعاً بِذِرَاعِ رَسُولِ الله ﷺ وَإِمْلائِهِ مِنْ فَلْقِ فِيهِ وَخَطِّ عَلِيٍّ بِيَمِينِهِ فِيهَا كُلُّ حَلالٍ وَحَرَامٍ وَكُلُّ شَيْءٍ يَحْتَاجُ النَّاسُ إِلَيْهِ حَتَّى الارْشُ فِي الْخَدْشِ وَضَرَبَ بِيَدِهِ إِلَيَّ فَقَالَ تَأْذَنُ لِي يَا أَبَا مُحَمَّدٍ قَالَ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنَّمَا أَنَا لَكَ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ قَالَ فَغَمَزَنِي بِيَدِهِ وَقَالَ حَتَّى أَرْشُ هَذَا كَأَنَّهُ مُغْضَبٌ قَالَ قُلْتُ هَذَا وَالله الْعِلْمُ قَالَ إِنَّهُ لَعِلْمٌ وَلَيْسَ بِذَاكَ ثُمَّ سَكَتَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ وَإِنَّ عِنْدَنَا الْجَفْرَ وَمَا يُدْرِيهِمْ مَا الْجَفْرُ قَالَ قُلْتُ وَمَا الْجَفْرُ قَالَ وِعَاءٌ مِنْ أَدَمٍ فِيهِ عِلْمُ النَّبِيِّينَ وَالْوَصِيِّينَ وَعِلْمُ الْعُلَمَاءِ الَّذِينَ مَضَوْا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ قُلْتُ إِنَّ هَذَا هُوَ الْعِلْمُ قَالَ إِنَّهُ لَعِلْمٌ وَلَيْسَ بِذَاكَ ثُمَّ سَكَتَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ وَإِنَّ عِنْدَنَا لَمُصْحَفَ فَاطِمَةَ (عليها السلام) وَمَا يُدْرِيهِمْ مَا مُصْحَفُ فَاطِمَةَ (عليها السلام) قَالَ قُلْتُ وَمَا مُصْحَفُ فَاطِمَةَ (عليها السلام) قَالَ مُصْحَفٌ فِيهِ مِثْلُ قُرْآنِكُمْ هَذَا ثَلاثَ مَرَّاتٍ وَالله مَا فِيهِ مِنْ قُرْآنِكُمْ حَرْفٌ وَاحِدٌ قَالَ قُلْتُ هَذَا وَالله الْعِلْمُ قَالَ إِنَّهُ لَعِلْمٌ وَمَا هُوَ بِذَاكَ ثُمَّ سَكَتَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ إِنَّ عِنْدَنَا عِلْمَ مَا كَانَ وَعِلْمَ مَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ قَالَ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ هَذَا وَالله هُوَ الْعِلْمُ قَالَ إِنَّهُ لَعِلْمٌ وَلَيْسَ بِذَاكَ قَالَ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ فَأَيُّ شَيْءٍ الْعِلْمُ قَالَ مَا يَحْدُثُ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ الامْرُ مِنْ بَعْدِ الامْرِ وَالشَّيْءُ بَعْدَ الشَّيْءِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ۔
ابو بصیر سے مروی ہے کہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی میں آپ پر فدا ہوں آپ سے ایک مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں۔ یہاں میرا کلام کوئی سن تو نہیں رہا ہے۔ حضرت نے وہ پردہ اٹھایا جو اس مکان اور دوسرے کمرے کے درمیان تھا۔ میں نے جھانک کر دیکھا۔ حضرت نے فرمایا اب جو تمہارا دل چاہے پوچھو۔ میں نے کہا میں آپ پر فدا ہوں آپ کے شیعہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے علی کو ایک باب علم کا تعلیم کیا جس سے ہزار باب علم کے آپؑ پر اور منکشف ہو گئے۔ حضرت نے فرمایا اے ابو محمد (کنیت ابوبصیر) رسول اللہ ﷺ نے علیؑ کو ہزار باب علم کے تعلیم کیے اورر ان پر ہر باب سے ہزار باب اور ظاہر ہوئے۔ میں نے کہا واللہ علم اس کا نام ہے پس حضرت کچھ دیر خاموش رہے پھر فرمایا اے ابومحمد ہمارے پاس جامعہ ہے لوگ کیا جانیں جامعہ کیا ہے۔ میں نے کہا حضور بتائیں جامعہ کیا ہے۔ فرمایا وہ ایک صحیفہ ہے ستر ہاتھ لمبا رسول اللہ کے ہاتھ سے اور رسول اللہ نے اس کو اپنے دہن مبارک سے بیان فرمایا اور حضرت علی نے اپنے ہاتھ سے اس کو لکھا۔ اس میں تمام حلال و حرام کا ذکر ہے اور ہر شے کا جس کی احتیاج لوگوں کو ہوتی ہے یہاں تک کہ ہلکے سے خراش کی ودیعت کا بھی ذکر ہے۔ پھر آپ نے اپنا دستِ مبارک میرے اوپر رکھا اور فرمایا اے ابو محمد مجھے اجازت ہے میں نے کہا میں آپ پر فدا ہوں میں آپ کا ہوں جو چاہے کیجیے۔ حضرت نے فرمایا صرف اتنا ہی نہیں پھر تھوڑی دیر خاموش رہ کر فرمایا ہمارے پاس جفر بھی ہے لوگ کیا جانیں جفر کیا ہے۔ میں نے پوچھا حضور جفر کیا ہے۔ فرمایا وہ ایک ظرف ہے آدم کے وقت سے اس میں اوصیاء اور انبیاء کے علم کا ذکر اور ان تمام علما کے علم جو بنی اسرائیل میں ہو چکے ہیں۔ میں نے کہا پس علم تو یہی ہے۔ فرمایا صرف یہی نہیں ہے پھر تھوڑی دیر خاموش رہ کر فرمایا ہمارے پاس مصحفِ فاطمہ بھی ہے۔ لوگ کیا جانیں وہ کیا ہے۔ میں نے فرمایا کہ وہ کیا ہے۔ فرمایا تمہارے اس قرآن سے (بلحاظ تفصیل و توضیح احکام) وہ مصحف تین گنا زیادہ ہے۔ تمہارے قرآن میں ایک حرف ہے یعنی اجمال ہے میں نے کہا واللہ علم یہ ہے۔ فرمایا صرف یہی نہیں۔ پھر خاموش رہ کر فرمایا ہمارے پاس علم ما کان و ما یکون ہے قیامت تک کے واقعات کا ۔ میں نے کہا واللہ اس کو علم کہتے ہیں۔ فرمایا ہاں اسکے علاوہ بھی ہے۔ میں نے پوچھا وہ کیا ہے۔ فرمایا جو حادثے رات اور دن میں ہوتے ہیں اور جو ایک امر دوسرے کے بعد اور ایک شے دوسری شے کے بعد دنیا میں ہوتی ہے اور قیامت تک ہو گی ہمیں اس کا بھی علم ہے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عُثْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام يَقُولُ تَظْهَرُ الزَّنَادِقَةُ فِي سَنَةِ ثَمَانٍ وَعِشْرِينَ وَمِائَةٍ وَذَلِكَ أَنِّي نَظَرْتُ فِي مُصْحَفِ فَاطِمَةَ (عليها السلام) قَالَ قُلْتُ وَمَا مُصْحَفُ فَاطِمَةَ قَالَ إِنَّ الله تَعَالَى لَمَّا قَبَضَ نَبِيَّهُ ﷺ دَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ (عليها السلام) مِنْ وَفَاتِهِ مِنَ الْحُزْنِ مَا لا يَعْلَمُهُ إِلا الله عَزَّ وَجَلَّ فَأَرْسَلَ الله إِلَيْهَا مَلَكاً يُسَلِّي غَمَّهَا وَيُحَدِّثُهَا فَشَكَتْ ذَلِكَ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام فَقَالَ إِذَا أَحْسَسْتِ بِذَلِكِ وَسَمِعْتِ الصَّوْتَ قُولِي لِي فَأَعْلَمَتْهُ بِذَلِكَ فَجَعَلَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام يَكْتُبُ كُلَّ مَا سَمِعَ حَتَّى أَثْبَتَ مِنْ ذَلِكَ مُصْحَفاً قَالَ ثُمَّ قَالَ أَمَا إِنَّهُ لَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ مِنَ الْحَلالَ وَالْحَرَامِ وَلَكِنْ فِيهِ عِلْمُ مَا يَكُونُ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو فرماتے سنا کہ 128ھ میں فلاسفہ (بعہد بنی عباس) ظاہر ہوں گے جو منکر اسلام و توحید ہوں گے۔ یہ میں نے مصحف فاطمہ میں دیکھا ہے۔ میں نے پوچھا مصحف فاطمہ کیا ہے۔ فرمایا جب رسول اللہ ﷺ کا انتقال ہو گیا تو جناب فاطمہ پر ہجوم غم و اندوہ ہوا ایسا کہ جس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ خدا نے ان کے پاس اس غم میں تسلی دینے کے لیے ایک فرشتہ بھیجا جس نے ان سے کلام کیا۔ حضرت فاطمہؑ نے یہ واقعہ امیر المومنین علیہ السلام سے بیان کیا۔ حضرت نے فرمایا اب جب یہ فرشتہ آئے اور تم اس کی آواز سنو تو مجھے بتانا۔ چنانچہ جب پھر فرشتہ آیا تو حضرت فاطمہ نے آگاہ کیا۔ امیر المومنین علیہ السلام اسکی تمام باتوں کو لکھتے جاتے تھے یہاں تک کہ وہ باتیں اس مصحف میں لکھی گئیں۔ پھر فرمایا اس میں حلال و حرام کا ذکر نہیں بلکہ آئندہ ہونے والے واقعات کا ذکر ہے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ أَبِي الْعَلاءِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام يَقُولُ إِنَّ عِنْدِي الْجَفْرَ الابْيَضَ قَالَ قُلْتُ فَأَيُّ شَيْءٍ فِيهِ قَالَ زَبُورُ دَاوُدَ وَتَوْرَاةُ مُوسَى وَإِنْجِيلُ عِيسَى وَصُحُفُ إِبْرَاهِيمَ علیہ السلام وَالْحَلالُ وَالْحَرَامُ وَمُصْحَفُ فَاطِمَةَ مَا أَزْعُمُ أَنَّ فِيهِ قُرْآناً وَفِيهِ مَا يَحْتَاجُ النَّاسُ إِلَيْنَا وَلا نَحْتَاجُ إِلَى أَحَدٍ حَتَّى فِيهِ الْجَلْدَةُ وَنِصْفُ الْجَلْدَةِ وَرُبُعُ الْجَلْدَةِ وَأَرْشُ الْخَدْشِ وَعِنْدِي الْجَفْرَ الاحْمَرَ قَالَ قُلْتُ وَأَيُّ شَيْءٍ فِي الْجَفْرِ الاحْمَرِ قَالَ السِّلاحُ وَذَلِكَ إِنَّمَا يُفْتَحُ لِلدَّمِ يَفْتَحُهُ صَاحِبُ السَّيْفِ لِلْقَتْلِ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الله بْنُ أَبِي يَعْفُورٍ أَصْلَحَكَ الله أَ يَعْرِفُ هَذَا بَنُو الْحَسَنِ فَقَالَ إِي وَالله كَمَا يَعْرِفُونَ اللَّيْلَ أَنَّهُ لَيْلٌ وَالنَّهَارَ أَنَّهُ نَهَارٌ وَلَكِنَّهُمْ يَحْمِلُهُمُ الْحَسَدُ وَطَلَبُ الدُّنْيَا عَلَى الْجُحُودِ وَالانْكَارِ وَلَوْ طَلَبُوا الْحَقَّ بِالْحَقِّ لَكَانَ خَيْراً لَهُمْ۔
راوی کہتا ہے امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے پاس صندوق سفید ہے۔ میں نے پوچھا اس میں کیا ہے۔ فرمایا زبور داؤد، توریت موسیٰ، انجیل عیسیٰ، صحف ابراہیم، حلال و حرام اور مصحف فاطمہ ہے۔ نہیں گمان کرتا میں کہ اس میں قرآن ہے۔ اس میں ہر وہ چیز ہے کہ جس سے لوگ ہماری طرف محتاج ہوں ہم کسی کی طرف محتاج نہیں۔ اس میں (سزا کے لیے) ایک کوڑے، نصف کوڑے اور ربع کوڑے تک کا ذکر ہے اور خراش کی دیت کا بھی اور میرے پاس صندوق سرخ بھی ہے۔ میں نے کہا وہ کیا شے ہے۔ فرمایا اس میں ہتھیار ہیں وہ خونریزی کیلیے کھولا جائیگا۔ کھولے گا اس کو صاحب ذوالفقار (مراد قائم آل محمد)۔ عبداللہ ابی یعفور نے کہا اللہ آپ کی نگرانی کرے اولاد حسن اس کو جانتی ہے۔ فرمایا اسی طرح جیسے رات کو جانتے ہیں کہ وہ رات ہے اور دن کو جانتے ہیں کہ وہ دن ہےلیکن حسد ان پر سوار ہے اور طلب دنیا نے ان کو انکار پر آمادہ کر دیا ہے اگر حق کو سچائی کے ساتھ طلب کرتے تو یہ ان کے لیے بہتر ہوتا۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ خَالِدٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام إِنَّ فِي الْجَفْرِ الَّذِي يَذْكُرُونَهُ لَمَا يَسُوؤُهُمْ لانَّهُمْ لا يَقُولُونَ الْحَقَّ وَالْحَقُّ فِيهِ فَلْيُخْرِجُوا قَضَايَا عَلِيٍّ وَفَرَائِضَهُ إِنْ كَانُوا صَادِقِينَ وَسَلُوهُمْ عَنِ الْخَالاتِ وَالْعَمَّاتِ وَلْيُخْرِجُوا مُصْحَفَ فَاطِمَةَ (عليها السلام) فَإِنَّ فِيهِ وَصِيَّةَ فَاطِمَةَ (عليها السلام) وَمَعَهُ سِلاحُ رَسُولِ الله ﷺ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ فَأْتُوا بِكِتابٍ مِنْ قَبْلِ هذا أَوْ أَثارَةٍ مِنْ عِلْمٍ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے جس جفر کا وہ ذکر کرتے ہیں کہ ان کے پاس ہے وہ چیز جو انھیں آزردہ کرتی ہے وہ حق بات نہیں کہتے۔ حالانکہ اس میں حق ہے ان سے کہو اگر تم سچے ہو تو علی علیہ السلام کے قضا کو نکالو، ان کے میراث کے متعلق مسائل نکالو اور تم ان سے خالاؤں اور پھوپھیوں کی میراث کے متعلق سوال کرو اور ان سے کہو وہ مصحف فاطمہ نکال لائیں اس میں فاطمہ کی وصیت ہے اور اس مصحف کے ساتھ تبرکات رسول ہیں ۔ خدا نے فرمایا ہے اگر تم سچے ہو تو پہلی کتاب لاؤ اور علمی آثار لاؤ۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنِ ابْنِ رِئَابٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ قَالَ سَأَلَ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام بَعْضُ أَصْحَابِنَا عَنِ الْجَفْرِ فَقَالَ هُوَ جِلْدُ ثَوْرٍ مَمْلُوءٌ عِلْماً قَالَ لَهُ فَالْجَامِعَةُ قَالَ تِلْكَ صَحِيفَةٌ طُولُهَا سَبْعُونَ ذِرَاعاً فِي عَرْضِ الادِيمِ مِثْلُ فَخِذِ الْفَالِجِ فِيهَا كُلُّ مَا يَحْتَاجُ النَّاسُ إِلَيْهِ وَلَيْسَ مِنْ قَضِيَّةٍ إِلا وَهِيَ فِيهَا حَتَّى أَرْشُ الْخَدْشِ قَالَ فَمُصْحَفُ فَاطِمَةَ (عليها السلام) قَالَ فَسَكَتَ طَوِيلاً ثُمَّ قَالَ إِنَّكُمْ لَتَبْحَثُونَ عَمَّا تُرِيدُونَ وَعَمَّا لا تُرِيدُونَ إِنَّ فَاطِمَةَ مَكَثَتْ بَعْدَ رَسُولِ الله ﷺ خَمْسَةً وَسَبْعِينَ يَوْماً وَكَانَ دَخَلَهَا حُزْنٌ شَدِيدٌ عَلَى أَبِيهَا وَكَانَ جَبْرَئِيلُ علیہ السلام يَأْتِيهَا فَيُحْسِنُ عَزَاءَهَا عَلَى أَبِيهَا وَيُطَيِّبُ نَفْسَهَا وَيُخْبِرُهَا عَنْ أَبِيهَا وَمَكَانِهِ وَيُخْبِرُهَا بِمَا يَكُونُ بَعْدَهَا فِي ذُرِّيَّتِهَا وَكَانَ علي علیہ السلام يَكْتُبُ ذَلِكَ فَهَذَا مُصْحَفُ فَاطِمَةَ (عليها السلام )۔
بعض اصحاب نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ جفر کیا چیز ہے۔ فرمایا وہ بیل کی کھال ہے جو مسائل علمیہ سے بھری ہوئی ہے۔ پوچھا جامعہ کیا ہے۔ فرمایا وہ ایک صحیفہ ہے جس کا طول ستر ہاتھ ہے اور جو لپٹے جانے کے بعد اونٹ کی ران کے برابر ہو جاتا ہے۔ اس میں وہ تمام باتیں ہیں جن کی لوگوں کو احتجاج ہوتی ہے کوئی فیصلہ ایسا نہیں جو اس میں نہ وہ یہاں تک کہ ہلکے سے زخم کی دیت کا بھی ذکر ہے پھر پوچھا مصحف فاطمہ کیا ہے۔ حضرت کچھ دیر خاموش رہے پھر فرمایا اس میں ہر وہ چیز ہے جس کو تم تلاش کرتے ہو کرنے کے لیے یا نہ کرنے کے لیے۔ حضرت فاطمہؑ بعد وفات رسول 75 دن زندہ رہیں اور ان پر باپ کا شدید غم طاری تھا۔ جبرئیل ان کے پاس آتے تھے اور تعزیت کرتے تھے اور ان کا دل بہلاتے تھے اور ان کے پدر بزرگوار کا حال سناتے تھے اور ان کی جگہ بتاتے اور وہ تمام واقعات سناتے تھے جو ان کو پیش آنے والے ہیں حضرت علی ان واقعات کو لکھتے جاتے تھے یہ ہے مصحف فاطمہ۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي بِشْرٍ عَنْ بَكْرِ بْنِ كَرِبٍ الصَّيْرَفِيِّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام يَقُولُ إِنَّ عِنْدَنَا مَا لا نَحْتَاجُ مَعَهُ إِلَى النَّاسِ وَإِنَّ النَّاسَ لَيَحْتَاجُونَ إِلَيْنَا وَإِنَّ عِنْدَنَا كِتَاباً إِمْلاءُ رَسُولِ الله ﷺ وَخَطُّ علي علیہ السلام صَحِيفَةً فِيهَا كُلُّ حَلالٍ وَحَرَامٍ وَإِنَّكُمْ لَتَأْتُونَّا بِالامْرِ فَنَعْرِفُ إِذَا أَخَذْتُمْ بِهِ وَنَعْرِفُ إِذَا تَرَكْتُمُوهُ۔
راوی کہتا ہے میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمارے پاس وہ چیز ہے کہ ہم اس کی وجہ سے لوگوں کے محتاج نہیں بلکہ لوگ ہمارے محتاج ہیں۔ ہمارے پاس ایک کتاب ہے جس کو رسول اللہ نے لکھوایا حضرت نے لکھا اس میں حلال و حرام کا ذکر ہے۔ ہم جانتے ہیں اس امر کو جسے تم شروع کرتے ہو اور جانتے ہیں جب تم ختم کرتےہو۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ أُذَيْنَةَ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ يَسَارٍ وَبُرَيْدِ بْنِ مُعَاوِيَةَ وَزُرَارَةَ أَنَّ عَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ أَعْيَنَ قَالَ لابِي عَبْدِ الله علیہ السلام إِنَّ الزَّيْدِيَّةَ وَالْمُعْتَزِلَةَ قَدْ أَطَافُوا بِمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله فَهَلْ لَهُ سُلْطَانٌ فَقَالَ وَالله إِنَّ عِنْدِي لَكِتَابَيْنِ فِيهِمَا تَسْمِيَةُ كُلِّ نَبِيٍّ وَكُلِّ مَلِكٍ يَمْلِكُ الارْضَ لا وَالله مَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الله فِي وَاحِدٍ مِنْهُمَا۔
راوی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا کہ زیدیہ اور معتزلہ (فرقے) محمد بن عبداللہ کے گر جمع ہو گئے۔ پس کیا ان کے پاس امامت کی کوئی دلیل ہے۔ فرمایا واللہ ہمارے پاس دو کتابیں ہیں جن میں ہر نبی کا نام لکھا ہے اور ہر بادشاہ کا جو روئے زمین پر کسی علاقے کا حکمران ہو، محمد بن عبداللہ ان دونوں گروہوں میں سے ایک بھی نہیں۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ سُكَّرَةَ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فَقَالَ يَا فُضَيْلُ أَ تَدْرِي فِي أَيِّ شَيْءٍ كُنْتُ أَنْظُرُ قُبَيْلُ قَالَ قُلْتُ لا قَالَ كُنْتُ أَنْظُرُ فِي كِتَابِ فَاطِمَةَ (عليها السلام) لَيْسَ مِنْ مَلِكٍ يَمْلِكُ الارْضَ إِلا وَهُوَ مَكْتُوبٌ فِيهِ بِاسْمِهِ وَاسْمِ أَبِيهِ وَمَا وَجَدْتُ لِوُلْدِ الْحَسَنِ فِيهِ شَيْئاً۔
فضیل سے مروی ہے کہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں آیا تو آپ نے فرمایا تم جانتے ہو کہ میں تمہارے آنے سے پہلے کیا دیکھ رہا تھا۔ میں نے کہا نہیں۔ فرمایا میں مصحف فاطمہ دیکھ رہا تھا اسمیں تمام بادشاہوں کے نام مع ان کے باپ کے ناموں کے لکھے ہیں ان میں اولاد امام حسن کا کوئی نام نہ دیکھا۔