مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

(1-22)

اختلافِ حدیث

حدیث نمبر 1

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُمَرَ الْيَمَانِيِّ عَنْ أَبَانِ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ عَنْ سُلَيْمِ بْنِ قَيْسٍ الْهِلالِيِّ قَالَ قُلْتُ لامِيرِ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام إِنِّي سَمِعْتُ مِنْ سَلْمَانَ وَالْمِقْدَادِ وَأَبِي ذَرٍّ شَيْئاً مِنْ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ وَأَحَادِيثَ عَنْ نَبِيِّ الله ﷺ غَيْرَ مَا فِي أَيْدِي النَّاسِ ثُمَّ سَمِعْتُ مِنْكَ تَصْدِيقَ مَا سَمِعْتُ مِنْهُمْ وَرَأَيْتُ فِي أَيْدِي النَّاسِ أَشْيَاءَ كَثِيرَةً مِنْ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ وَمِنَ الاحَادِيثِ عَنْ نَبِيِّ الله ﷺ أَنْتُمْ تُخَالِفُونَهُمْ فِيهَا وَتَزْعُمُونَ أَنَّ ذَلِكَ كُلَّهُ بَاطِلٌ أَفَتَرَى النَّاسَ يَكْذِبُونَ عَلَى رَسُولِ الله ﷺ مُتَعَمِّدِينَ وَيُفَسِّرُونَ الْقُرْآنَ بِآرَائِهِمْ قَالَ فَأَقْبَلَ عَلَيَّ فَقَالَ قَدْ سَأَلْتَ فَافْهَمِ الْجَوَابَ إِنَّ فِي أَيْدِي النَّاسِ حَقّاً وَبَاطِلاً وَصِدْقاً وَكَذِباً وَنَاسِخاً وَمَنْسُوخاً وَعَامّاً وَخَاصّاً وَمُحْكَماً وَمُتَشَابِهاً وَحِفْظاً وَوَهَماً وَقَدْ كُذِبَ عَلَى رَسُولِ الله ﷺ عَلَى عَهْدِهِ حَتَّى قَامَ خَطِيباً فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ كَثُرَتْ عَلَيَّ الْكَذَّابَةُ فَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّداً فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ثُمَّ كُذِبَ عَلَيْهِ مِنْ بَعْدِهِ وَإِنَّمَا أَتَاكُمُ الْحَدِيثُ مِنْ أَرْبَعَةٍ لَيْسَ لَهُمْ خَامِسٌ رَجُلٍ مُنَافِقٍ يُظْهِرُ الايمَانَ مُتَصَنِّعٍ بِالاسْلامِ لا يَتَأَثَّمُ وَلا يَتَحَرَّجُ أَنْ يَكْذِبَ عَلَى رَسُولِ الله ﷺ مُتَعَمِّداً فَلَوْ عَلِمَ النَّاسُ أَنَّهُ مُنَافِقٌ كَذَّابٌ لَمْ يَقْبَلُوا مِنْهُ وَلَمْ يُصَدِّقُوهُ وَلَكِنَّهُمْ قَالُوا هَذَا قَدْ صَحِبَ رَسُولَ الله ﷺ وَرَآهُ وَسَمِعَ مِنْهُ وَأَخَذُوا عَنْهُ وَهُمْ لا يَعْرِفُونَ حَالَهُ وَقَدْ أَخْبَرَهُ الله عَنِ الْمُنَافِقِينَ بِمَا أَخْبَرَهُ وَوَصَفَهُمْ بِمَا وَصَفَهُمْ فَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ وَإِذا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسامُهُمْ وَإِنْ يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ ثُمَّ بَقُوا بَعْدَهُ فَتَقَرَّبُوا إِلَى أَئِمَّةِ الضَّلالَةِ وَالدُّعَاةِ إِلَى النَّارِ بِالزُّورِ وَالْكَذِبِ وَالْبُهْتَانِ فَوَلَّوْهُمُ الاعْمَالَ وَحَمَلُوهُمْ عَلَى رِقَابِ النَّاسِ وَأَكَلُوا بِهِمُ الدُّنْيَا وَإِنَّمَا النَّاسُ مَعَ الْمُلُوكِ وَالدُّنْيَا إِلا مَنْ عَصَمَ الله فَهَذَا أَحَدُ الارْبَعَةِ وَرَجُلٍ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ الله شَيْئاً لَمْ يَحْمِلْهُ عَلَى وَجْهِهِ وَوَهِمَ فِيهِ وَلَمْ يَتَعَمَّدْ كَذِباً فَهُوَ فِي يَدِهِ يَقُولُ بِهِ وَيَعْمَلُ بِهِ وَيَرْوِيهِ فَيَقُولُ أَنَا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ الله ﷺ فَلَوْ عَلِمَ الْمُسْلِمُونَ أَنَّهُ وَهِمَ لَمْ يَقْبَلُوهُ وَلَوْ عَلِمَ هُوَ أَنَّهُ وَهِمَ لَرَفَضَهُ وَرَجُلٍ ثَالِثٍ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ الله ﷺ شَيْئاً أَمَرَ بِهِ ثُمَّ نَهَى عَنْهُ وَهُوَ لا يَعْلَمُ أَوْ سَمِعَهُ يَنْهَى عَنْ شَيْءٍ ثُمَّ أَمَرَ بِهِ وَهُوَ لا يَعْلَمُ فَحَفِظَ مَنْسُوخَهُ وَلَمْ يَحْفَظِ النَّاسِخَ وَلَوْ عَلِمَ أَنَّهُ مَنْسُوخٌ لَرَفَضَهُ وَلَوْ عَلِمَ الْمُسْلِمُونَ إِذْ سَمِعُوهُ مِنْهُ أَنَّهُ مَنْسُوخٌ لَرَفَضُوهُ وَآخَرَ رَابِعٍ لَمْ يَكْذِبْ عَلَى رَسُولِ الله ﷺ مُبْغِضٍ لِلْكَذِبِ خَوْفاً مِنَ الله وَتَعْظِيماً لِرَسُولِ الله ﷺ لَمْ يَنْسَهُ بَلْ حَفِظَ مَا سَمِعَ عَلَى وَجْهِهِ فَجَاءَ بِهِ كَمَا سَمِعَ لَمْ يَزِدْ فِيهِ وَلَمْ يَنْقُصْ مِنْهُ وَعَلِمَ النَّاسِخَ مِنَ الْمَنْسُوخِ فَعَمِلَ بِالنَّاسِخِ وَرَفَضَ الْمَنْسُوخَ فَإِنَّ أَمْرَ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلُ الْقُرْآنِ نَاسِخٌ وَمَنْسُوخٌ وَخَاصٌّ وَعَامٌّ وَمُحْكَمٌ وَمُتَشَابِهٌ قَدْ كَانَ يَكُونُ مِنْ رَسُولِ الله ﷺ الْكَلامُ لَهُ وَجْهَانِ كَلامٌ عَامٌّ وَكَلامٌ خَاصٌّ مِثْلُ الْقُرْآنِ وَقَالَ الله عَزَّ وَجَلَّ فِي كِتَابِهِ ما آتاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَما نَهاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا فَيَشْتَبِهُ عَلَى مَنْ لَمْ يَعْرِفْ وَلَمْ يَدْرِ مَا عَنَى الله بِهِ وَرَسُولُهُ ﷺ وَلَيْسَ كُلُّ أَصْحَابِ رَسُولِ الله ﷺ كَانَ يَسْأَلُهُ عَنِ الشَّيْءِ فَيَفْهَمُ وَكَانَ مِنْهُمْ مَنْ يَسْأَلُهُ وَلا يَسْتَفْهِمُهُ حَتَّى إِنْ كَانُوا لَيُحِبُّونَ أَنْ يَجِيءَ الاعْرَابِيُّ وَالطَّارِئُ فَيَسْأَلَ رَسُولَ الله ﷺ حَتَّى يَسْمَعُوا وَقَدْ كُنْتُ أَدْخُلُ عَلَى رَسُولِ الله ﷺ كُلَّ يَوْمٍ دَخْلَةً وَكُلَّ لَيْلَةٍ دَخْلَةً فَيُخَلِّينِي فِيهَا أَدُورُ مَعَهُ حَيْثُ دَارَ وَقَدْ عَلِمَ أَصْحَابُ رَسُولِ الله ﷺ أَنَّهُ لَمْ يَصْنَعْ ذَلِكَ بِأَحَدٍ مِنَ النَّاسِ غَيْرِي فَرُبَّمَا كَانَ فِي بَيْتِي يَأْتِينِي رَسُولُ الله ﷺ أَكْثَرُ ذَلِكَ فِي بَيْتِي وَكُنْتُ إِذَا دَخَلْتُ عَلَيْهِ بَعْضَ مَنَازِلِهِ أَخْلانِي وَأَقَامَ عَنِّي نِسَاءَهُ فَلا يَبْقَى عِنْدَهُ غَيْرِي وَإِذَا أَتَانِي لِلْخَلْوَةِ مَعِي فِي مَنْزِلِي لَمْ تَقُمْ عَنِّي فَاطِمَةُ وَلا أَحَدٌ مِنْ بَنِيَّ وَكُنْتُ إِذَا سَأَلْتُهُ أَجَابَنِي وَإِذَا سَكَتُّ عَنْهُ وَفَنِيَتْ مَسَائِلِي ابْتَدَأَنِي فَمَا نَزَلَتْ عَلَى رَسُولِ الله ﷺ آيَةٌ مِنَ الْقُرْآنِ إِلا أَقْرَأَنِيهَا وَأَمْلاهَا عَلَيَّ فَكَتَبْتُهَا بِخَطِّي وَعَلَّمَنِي تَأْوِيلَهَا وَتَفْسِيرَهَا وَنَاسِخَهَا وَمَنْسُوخَهَا وَمُحْكَمَهَا وَمُتَشَابِهَهَا وَخَاصَّهَا وَعَامَّهَا وَدَعَا الله أَنْ يُعْطِيَنِي فَهْمَهَا وَحِفْظَهَا فَمَا نَسِيتُ آيَةً مِنْ كِتَابِ الله وَلا عِلْماً أَمْلاهُ عَلَيَّ وَكَتَبْتُهُ مُنْذُ دَعَا الله لِي بِمَا دَعَا وَمَا تَرَكَ شَيْئاً عَلَّمَهُ الله مِنْ حَلالٍ وَلا حَرَامٍ وَلا أَمْرٍ وَلا نَهْيٍ كَانَ أَوْ يَكُونُ وَلا كِتَابٍ مُنْزَلٍ عَلَى أَحَدٍ قَبْلَهُ مِنْ طَاعَةٍ أَوْ مَعْصِيَةٍ إِلا عَلَّمَنِيهِ وَحَفِظْتُهُ فَلَمْ أَنْسَ حَرْفاً وَاحِداً ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ عَلَى صَدْرِي وَدَعَا الله لِي أَنْ يَمْلا قَلْبِي عِلْماً وَفَهْماً وَحُكْماً وَنُوراً فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ الله بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي مُنْذُ دَعَوْتَ الله لِي بِمَا دَعَوْتَ لَمْ أَنْسَ شَيْئاً وَلَمْ يَفُتْنِي شَيْءٌ لَمْ أَكْتُبْهُ أَ فَتَتَخَوَّفُ عَلَيَّ النِّسْيَانَ فِيمَا بَعْدُ فَقَالَ لا لَسْتُ أَتَخَوَّفُ عَلَيْكَ النِّسْيَانَ وَالْجَهْلَ۔

سلیم بن قیس ہلالی سے مروی ہے کہ میں نے امیر المومنین علیہ السلام سے کہا کہ میں نے سلمان و مقداد و ابوذر سے تفسیرِ قرآن اور حدیث نبوی کے متعلق ایسی چیزیں سنی ہیں جو بالکل الگ ہیں ان چیزوں سے جو تفسیرِ قرآن کے متعلق عام لوگ بیان کرتے ہیں، آپ حضرات کا گمان یہ ہے کہ وہ سب باطل ہیں تو کیا یہ سب لوگ رسول اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں عمداً اور قرآن مجید کی تفسیر اپنی رائے سے کرتے ہی۔
امیر المومنین علیہ السلام نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا، تم نے جو سوال کیا اس کا جواب سنو، لوگوں کے ہاتھوں میں حق و باطل ہے اور صدق و کذب ہے اور ناسخ و منسوخ اور عام و خاص، محکم و متشابہ ہے اور حفظ و وہم اور لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ان پر جھوٹ بولا، آپ نے خطبہ میں فرمایا لوگو میرے اوپر بہت جھوٹ بولا جا رہا ہے پس جس نے مجھ پر عمداً جھوٹ بولا اس کی جگہ جہنم ہے اور حضرت کے بعد بھی آپ پر جھوٹ بولا گیا۔ تمہارے پاس حدیث چار طریقہ سے پہنچی ہیں ان کے علاوہ پانچواں طریقہ نہیں، اول مردِ منافق سے جو ایمان کو ظاہر کرتا ہے اور تصنع سے اسلام قبول کیے ہوئے ہے اور رسول پر عمداً جھوٹ بولنے کو نہ گناہ سمجھتا ہے نہ اس میں کوئی خرابی سمجھتا ہے اگر لوگ یہ جانتے کہ یہ بڑا منافق اور جھوٹا ہے تو اس کی بات قبول نہ کرتے اور اس کی تصدیق نہ کرتے۔ لیکن انھوں نے تو یہ کہا یہ رسول اللہ کا صحابی ہے اس نے حضرت کو دیکھا ہے اور ان سے احادیث کو سنا ہے لہذا انھوں نے احادیث کو اس سے لے لیا اور وہ اس کے حال سے واقف نہ تھے اور منافقوں کے بارے میں اللہ نے جو خبر دی ہے وہ دی ہے اور جو اوصاف ان کے بیان کیے ہیں وہ کیے ہیں، فرماتا ہے جب اے رسول تم ان کو دیکھتے ہو تو ان کے بھاری بھر کم ڈیل تم کو تعجب میں ڈال دیتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ تم ان کی باتیں سنو یہ کہ وہ آنحضرت کے بعد بھی باقی رہا اب انھوں نے آئمہ ضلالت سے تقرب حاصل کیا اور جہنم کی طرف مکر و فریب سے بلانیوالوں سے جا ملے اور حکومت ان کے سپرد کر دی اور لوگوں کی گردنوں پر انھیں سوار کر دیا اور ان سے مل کر خوب خوب مزے اڑائے لوگ تو بادشاہان دنیا کے ساتھ ہو ہی جایا کرتے ہیں مگر وہ جسے خدا بچائے پس یہ چار میں کا ایک گروہ ہے۔
اور دوسرا وہ ہے جس نے رسول اللہ سے کسی بات کو سنا لیکن اس کو پوری طرح یاد نہ رکھ سکا اور وہم کو اس میں دخل دیا اور عمداً جھوٹ نہ بولا، پس یہ حدیث اس کے پاس ہے اور وہ اس پر عمل بھی کرتا ہے اور دوسروں سے اس کی روایت بھی کرتا ہے اور کہتا ہے میں نے حضرت رسولِ خدا سے ایسا سنا، پس اگر مسلمانوں کو معلوم ہوتا کہ وہ ازروئے وہم و گمان ایسا کہہ رہا ہے اسے صحیح حدیث یاد نہیں تو وہ اس کی بات کو نہ مانتے اور اگر وہ خود جانتا کہ غلط بیانی کر رہا ہے اور مبتلائے وہم ہے تو اس کو خود ہی نہ بیان کرتا۔
اور تیسرا وہ ہے کہ جس نے رسول سے ایک ایسی حدیث کو سنا جس میں حضرت نے کسی چیز کا حکم دیا تھا اس کے بعد اس کی نہی بھی فرما دی تھی لیکن اسکو اس نہی کا علم نہ ہوا یا نہی سن لی اور امر کا علم نہ ہوا۔ پس اس نے حکم منسوخ کو تو یاد کر لیا اور ناسخ کو یاد نہ رکھا۔ اگر اس کو علم ہوتا کہ یہ حکم منسوخ شدہ ہے تو وہ اس کا بیان ترک کر دیتا اور اگر مسلمان یہ جان لیتے کہ یہ منسوخ الحکم حدیث بیان کر رہا ہے تو وہ اس پر عمل ترک کر دیتے۔
چوتھا وہ ہے جس نے رسول اللہ پر جھوٹ نہیں بولا، اسے جھوٹ سے عداوت ہے وہ اللہ سے خوف بھی کرتا ہے اور رسول کی عظمت ان کے دل میں ہے اور وہ نہیں بھولا اس کو جو رسول سے سنا اور اچھی طرح سے اسے یاد بھی ہے پس جیسا رسول سے سنا ہے ویسا ہی بیان کرتا ہے نہ اس میں کچھ زیادہ کرتا ہے نہ کم، وہ ناسسخ و منسوخ کا علم رکھتا ہے پس ناسخ پر عمل کرتا ہے اور منسوخ کو ترک کرتا ہے۔
حضرت رسولِ خدا کے احکام بھی قرآن کی طرح ہیں جو ناسخ بھی ہیں اور منسوخ بھی، خاص بھی ہیں اور عام بھی، محکم بھی ہیں اور متشابہ بھی، کبھی رسول کے کلام کی دو صورتیں ہوتی ہیں کلام عام اور کلام خاص قرآن کی طرح اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے رسول جو تم کو دیں اسے لے لو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ یہ امر ان لوگوں پر مشتبہ ہو گیا جنھوں نے نہ جانا اور نہ سمجھا کہ اللہ اور اس کے رسول کا مقصد اس سےکیا ہے۔
اور آنحضرت کے تمام اصحاب ایسے نہ تھے کہ جو سوال کرتے ہوں اس کے جواب کو سمجھ بھی لیتے ہوں بعض ایسے بھی تھے سوال تو کرتے تھے مگر سمجھنا نہیں چاہتے تھے یہاں تک کہ وہ چاہتے تھے کہ کوئی بدو عرب یا اجنبی مسافر آ جائے اور وہ رسول سے سوال کرے تو حضرت کے جواب کو ہم سنیں (کیونکہ خود بار بار سوال نہیں کر سکتے تھے) اور میرا یہ حال تھا کہ میں دن اور رات میں جب چاہتا حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتا حضرت مجھ سے تخلیہ فرماتے اور جو حضرت بیان فرماتے میں اس کو اپنے دل میں جگہ دیتا جاتا۔
اصحاب اس بات کو جانتے تھے کہ آنحضرت میرے سوا کسی اور کے ساتھ ایسا نہیں کرتے تھے بسا اوقات یہ عمل میرے گھر میں ہوتا تھا جب حضرت میرے گھر میں تشریف لاتے تو زیادہ وقت خلوت میں گزارتے اور ازواج ہمارے پاس سے ہٹ جاتیں۔ میرے سوا کوئی حضرت کے پاس نہ رہتا اور جب میرے گھر میں خلوت ہوتی تو نہ فاطمہ الگ ہوتیں اور نہ میرا کوئی لڑکا، جب میں حضرت سے سوال کرتا تو مجھے جواب دیتے اور جب میں چپ ہو جاتا اور سوالات ختم ہو جات تو حضرت ابتدا کرتے۔ قرآن کی کوئی آیت رسول اللہ ﷺ پر ایسی نازل نہیں ہوئی کہ حضرت نے مجھے پڑھ کر نہ سنائی ہو اور اسے لکھوایا نہ ہو میں نے اپنے ہاتھ سے اسے لکھا ہے۔
اور مجھے تعلیم کی ہر آیت کی تاویل اور تفسیر اور اس کا ناسخ اور منسوخ اور محکم و متشابہ اور خاص و عام اور حضرت نے دعا کی کہ وہ مجھے اس کے سمجھنے اور حفظ کرنے کی صلاحیت عطا فرمائے، پس کتاب خدا کی کوئی آیت میں نہیں بھولا اور نہ اس چیز کو جو رسول اللہ نے لکھوائی اور میں نے لکھی اور دعا کی آنحضرت نے میرے لیے جو دعا کی، آنحضرت کو علم خدا سے جو ملا اس میں سےکوئی چیز میرے لیے بغیر بتائے نہ چھوڑی، حلال سے ہو یا حرام سے امر سے ہو یا نہی ہے طاعت سے ہو یا معصیت سے میں نے اسے سیکھا ہے اور حفط کیا ہےاور ایک حرف تک اس کا نہیں بھولا۔
پھر اپنا ہاتھ میرے سینے پر رکھا اور اللہ سے میرے لیے دعا کی کہ وہ میرے قلب کو علم و فہم و حکمت و نور سے پر کر دے۔ میں نے کہا یا نبی اللہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں جب سے آپ نے دعا کی ہے میں کوئی بات نہیں بھولا، اور جس چیز کو میں نے نہیں لکھا اسے فراموش نہیں کیا۔ کیا آپ کو یہ خوف ہے کہ بعد میں بھول جاؤں گا، فرمایا نہیں مجھے تمہارے متعلق نسیان و جہل کا خوف ہی نہیں ہوتا۔

حدیث نمبر 2

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِيسَى عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْخَزَّازِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ قُلْتُ لَهُ مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَرْوُونَ عَنْ فُلانٍ وَفُلانٍ عَنْ رَسُولِ الله ﷺ لا يُتَّهَمُونَ بِالْكَذِبِ فَيَجِيءُ مِنْكُمْ خِلافُهُ قَالَ إِنَّ الْحَدِيثَ يُنْسَخُ كَمَا يُنْسَخُ الْقُرْآنُ۔

راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا کہ کچھ لوگ روایت کرتے ہیں اصحاب کے ایک سلسلہ کے ساتھ رسول اللہ سے چونکہ وہ حدیث متواتر ہوتی ہے لہذا ہم ان راویوں کو دروغ گو نہیں کہہ سکتے لیکن آپ سے سنتے ہیں تو وہ ان کی بیان کردہ حدیث کے خلاف ثابت ہوتی ہے، فرمایا آیات قرآنی کی طرح احادیث بھی منسوخ الحکم ہوتی ہیں۔

حدیث نمبر 3

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي نَجْرَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ حَازِمٍ قَالَ قُلْتُ لابِي عَبْدِ الله علیہ السلام مَا بَالِي أَسْأَلُكَ عَنِ الْمَسْأَلَةِ فَتُجِيبُنِي فِيهَا بِالْجَوَابِ ثُمَّ يَجِيئُكَ غَيْرِي فَتُجِيبُهُ فِيهَا بِجَوَابٍ آخَرَ فَقَالَ إِنَّا نُجِيبُ النَّاسَ عَلَى الزِّيَادَةِ وَالنُّقْصَانِ قَالَ قُلْتُ فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَصْحَابِ رَسُولِ الله ﷺ صَدَقُوا عَلَى مُحَمَّدٍ ﷺ أَمْ كَذَبُوا قَالَ بَلْ صَدَقُوا قَالَ قُلْتُ فَمَا بَالُهُمُ اخْتَلَفُوا فَقَالَ أَ مَا تَعْلَمُ أَنَّ الرَّجُلَ كَانَ يَأْتِي رَسُولَ الله ﷺ فَيَسْأَلُهُ عَنِ الْمَسْأَلَةِ فَيُجِيبُهُ فِيهَا بِالْجَوَابِ ثُمَّ يُجِيبُهُ بَعْدَ ذَلِكَ مَا يَنْسَخُ ذَلِكَ الْجَوَابَ فَنَسَخَتِ الاحَادِيثُ بَعْضُهَا بَعْضاً۔

راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے کہ ایک مسئلہ میں آپؑ سے پوچھتا ہوں تو آپ مجھے اس کا جواب دیتے ہیں پھر میرا غیر جب آپ سے یہی مسئلہ پوچھتا ہے تو آپ اس کو دوسرا جواب دیتے ہیں، فرمایا ہم جواب دیتے ہیں لوگوں کو کبھی زیادتی کے ساتھ اور کبھی کمی کے ساتھ، میں نے کہا اس بنا پر آنحضرت نے کم و پیش بیان نہیں کیا اور اصحاب نے ایسا کیا تو انھوں نے رسول کے متعلق سچ کہا یا جھوٹ ، فرمایا سچ کہا، میں نے کہا جب ان کے بیان میں اختلاف ہے ایک کہتا ہے رسول نے یہ بیان فرمایا ہے دوسرا کہتا ہے یہ تو پھر کیا صورت ہو گی، فرمایا تم نہیں جانتے کہ ایک شخص رسول کے پاس آتا ہے اور ایک مسئلہ دریافت کرتا ہے آپ اس کا جواب دیتے ہیں اس کے بعد وحی الٰہی اس حکم کو منسوخ کر دیتی ہے اس کے بعد ایک دوسرا شخص آتا ہے اور وہی بات پوچھتا ہے آپ اس کو ناسخ حکم بتاتے ہیں چونکہ ایک حدیث دوسری حدیث کی ناسخ ہو جاتی ہے لہذا اصحاب کے بیان میں اختلاف ہو جاتا ہے۔

حدیث نمبر 4

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ رِئَابٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ ابي جعفر قَالَ قَالَ لِي يَا زِيَادُ مَا تَقُولُ لَوْ أَفْتَيْنَا رَجُلاً مِمَّنْ يَتَوَلانَا بِشَيْءٍ مِنَ التَّقِيَّةِ قَالَ قُلْتُ لَهُ أَنْتَ أَعْلَمُ جُعِلْتُ فِدَاكَ قَالَ إِنْ أَخَذَ بِهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ وَأَعْظَمُ أَجْراً وَفِي رِوَايَةٍ أُخْرَى إِنْ أَخَذَ بِهِ أُوجِرَ وَإِنْ تَرَكَهُ وَالله أَثِمَ۔

ابو عبیدہ سے مروی ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے مجھ سے کہا اے زیاد (نام ابوعبیدہ) تم کیا کہتے ہو اس معاملے میں کہ ہم فتویٰ دیں اپنے دوستوں میں سے کسی ایک کو ایسے امر کا جس میں تقیہ ہو، میں نے کہا فرزند رسول آپ بہتر جانتے ہیں، فرمایا اگر وہ اس پر عمل کرے گا تو اس کے لیے بہتر ہو گا اور باعث اجرِعظیم اور ایک روایت میں ہے کہ اگر اس پر عمل کرے گا تو اجر پائے گا اور اگر ترک کرے گا تو وہ گنہ گار ہو گا۔

حدیث نمبر 5

أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَعْيَنَ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ سَأَلْتُهُ عَنْ مَسْأَلَةٍ فَأَجَابَنِي ثُمَّ جَاءَهُ رَجُلٌ فَسَأَلَهُ عَنْهَا فَأَجَابَهُ بِخِلافِ مَا أَجَابَنِي ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ آخَرُ فَأَجَابَهُ بِخِلافِ مَا أَجَابَنِي وَأَجَابَ صَاحِبِي فَلَمَّا خَرَجَ الرَّجُلانِ قُلْتُ يَا ابْنَ رَسُولِ الله رَجُلانِ مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ مِنْ شِيعَتِكُمْ قَدِمَا يَسْأَلانِ فَأَجَبْتَ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِغَيْرِ مَا أَجَبْتَ بِهِ صَاحِبَهُ فَقَالَ يَا زُرَارَةُ إِنَّ هَذَا خَيْرٌ لَنَا وَأَبْقَى لَنَا وَلَكُمْ وَلَوِ اجْتَمَعْتُمْ عَلَى أَمْرٍ وَاحِدٍ لَصَدَّقَكُمُ النَّاسُ عَلَيْنَا وَلَكَانَ أَقَلَّ لِبَقَائِنَا وَبَقَائِكُمْ قَالَ ثُمَّ قُلْتُ لابِي عَبْدِ الله علیہ السلام شِيعَتُكُمْ لَوْ حَمَلْتُمُوهُمْ عَلَى الاسِنَّةِ أَوْ عَلَى النَّارِ لَمَضَوْا وَهُمْ يَخْرُجُونَ مِنْ عِنْدِكُمْ مُخْتَلِفِينَ قَالَ فَأَجَابَنِي بِمِثْلِ جَوَابِ أَبِيهِ۔

زرارہ بن اعین سے مروی ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام سے میں نے ایک مسئلہ پوچھا، حضرت نے اس کا جواب دیا پھر ایک اور شخص آیا اور یہی مسئلہ پوچھا آپ نے میرے جواب کے علاوہ جواب دیا، پھر ایک اور شخص آیا اس کو میرے جواب سے علیحدہ جواب دیا اور دوسرے کے جواب سے بھی الگ، جب وہ دونوں آدمی چلے گئے تو میں نے کہا یابن رسول اللہ یہ دونوں عراقی آپ کے پرانے شیعوں میں سے ہیں ان سوالوں کے جواب آپ نے الگ الگ کیوں دیے، فرمایا اے زرارہ یہی بہتر ہے ہمارے اور تمہارے لیے اگر تم ایک ہی امر پر جمع ہو جاؤ تو مخالف تم کو مجلس سے نکال دیں گے اور پھر تم ہمارے پاس کہتے آؤ گے کہ خروج کیجیے اس طرح ہمارا اور تمہارا دنیا میں رہنا کم ہو جائے گا۔ اس کے بعد میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا کہ آپ کے شیعہ ایسے پکے ہیں کہ اگر آپ حکم دیں کہ جنگ میں نیزوں پر سینے تان دیں یا آگ میں کود پڑیں تو وہ آپ کے حکم سے منہ نہ پھیریں گے پھر کیا وجہ ہے کہ آپ سے مختلف جواب سنیں، پس حضرت نے وہی جواب دیا جو ان کے والد ماجد نے دیا تھا۔

حدیث نمبر 6

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ نَصْرٍ الْخَثْعَمِيِّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام يَقُولُ مَنْ عَرَفَ أَنَّا لا نَقُولُ إِلا حَقّاً فَلْيَكْتَفِ بِمَا يَعْلَمُ مِنَّا فَإِنْ سَمِعَ مِنَّا خِلافَ مَا يَعْلَمُ فَلْيَعْلَمْ أَنَّ ذَلِكَ دِفَاعٌ مِنَّا عَنْهُ۔

میں نے ابو عبداللہ علیہ السلام کو فرماتے سنا جو شخص یہ جانتا ہے کہ ہم نہیں کہتے مگر حق تو اس کو چاہیے کہ اکتفا کرے اس پر جو ہم سے جانا ہے اور اگر ہم سے کوئی بات ایسی سنی ہے جو حکم خدا کے خلاف ہو تو سمجھ لے کہ ہم نے تم سے دشمنوں کے ضرر کا دفع چاہا ہے یعنی بصورت تقیہ اس کو بیان کیا ہے۔

حدیث نمبر 7

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِيسَى وَالْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ جَمِيعاً عَنْ سَمَاعَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ سَأَلْتُهُ عَنْ رَجُلٍ اخْتَلَفَ عَلَيْهِ رَجُلانِ مِنْ أَهْلِ دِينِهِ فِي أَمْرٍ كِلاهُمَا يَرْوِيهِ أَحَدُهُمَا يَأْمُرُ بِأَخْذِهِ وَالاخَرُ يَنْهَاهُ عَنْهُ كَيْفَ يَصْنَعُ فَقَالَ يُرْجِئُهُ حَتَّى يَلْقَى مَنْ يُخْبِرُهُ فَهُوَ فِي سَعَةٍ حَتَّى يَلْقَاهُ وَفِي رِوَايَةٍ أُخْرَى بِأَيِّهِمَا أَخَذْتَ مِنْ بَابِ التَّسْلِيمِ وَسِعَكَ۔

روایت ہے امام جعفر صادق علیہ السلام سے راوی کہتا ہے کہ میں نے امام علیہ السلام سے پوچھا اس شخص کے متعلق جس کے دو دینی بھائیوں نے ایک امر کے متعلق دو مختلف حدیثیں بیان کیں ایک سےکرنے کا حکم ثابت ہوتا ہے دوسرے سے نہی، ایسی صورت میں وہ کیا کرے۔ فرمایا اس کو چاہیے کہ عمل میں تاخیر کر لے یہاں تک کہ ایسے شخص سے ملے جو امر واقع سے آگاہ کر دے۔ اس کے ملنے تک تاخیر عمل جائز ہو گی۔

حدیث نمبر 8

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ الْمُخْتَارِ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ أَ رَأَيْتَكَ لَوْ حَدَّثْتُكَ بِحَدِيثٍ الْعَامَ ثُمَّ جِئْتَنِي مِنْ قَابِلٍ فَحَدَّثْتُكَ بِخِلافِهِ بِأَيِّهِمَا كُنْتَ تَأْخُذُ قَالَ قُلْتُ كُنْتُ آخُذُ بِالاخِيرِ فَقَالَ لِي رَحِمَكَ الله۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایک شیعہ سے فرمایا کہ اگر میں تم سے اس سال ایک حدیث بیان کروں اور دوسرے سال جب آؤ تو اس کے خلاف بیان کروں تو تم کس پر عمل کرو گے، میں نے کہا آخر والی پر، امام نے فرمایا اللہ تم پر رحم کرے گا۔

حدیث نمبر 9

وَعَنْهُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مَرَّارٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ فَرْقَدٍ عَنِ الْمُعَلَّى بْنِ خُنَيْسٍ قَالَ قُلْتُ لابِي عَبْدِ الله علیہ السلام إِذَا جَاءَ حَدِيثٌ عَنْ أَوَّلِكُمْ وَحَدِيثٌ عَنْ آخِرِكُمْ بِأَيِّهِمَا نَأْخُذُ فَقَالَ خُذُوا بِهِ حَتَّى يَبْلُغَكُمْ عَنِ الْحَيِّ فَإِنْ بَلَغَكُمْ عَنِ الْحَيِّ فَخُذُوا بِقَوْلِهِ قَالَ ثُمَّ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام إِنَّا وَالله لا نُدْخِلُكُمْ إِلا فِيمَا يَسَعُكُمْ وَفِي حَدِيثٍ آخَرَ خُذُوا بِالاحْدَثِ۔

راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا کہ اگر کوئی حدیث ہم سے پہلے اماموں سے پہنچے، مثلاً امام زین العابدین سے اور دوسری ان کے بعد والے (امام محمد باقر سے) تو ہم کس پر عمل کریں، فرمایا عمل کرو بعد والی پر جب تک کہ زندہ امام سے دوسری حدیث تم تک پہنچے، جب یہ زندہ امام سے ملے تو اس پر عمل کرو۔ پھر امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہم نے بعد والے امام اور زندہ امام کے قول پر عمل کرنے کو اس لیے کہا کہ ہم ہر ضرر کو تم سے دور رکھنا چاہتے ہیں اور اگر احتمالِ ضرر نہ ہو تو جس پر چاہو عمل کرو اور ایک روایت میں ہے کہ جو تازہ تر حدیث ہو اس پر عمل کرو۔

حدیث نمبر 10

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ عَنْ عُمَرَ بْنِ حَنْظَلَةَ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام عَنْ رَجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِنَا بَيْنَهُمَا مُنَازَعَةٌ فِي دَيْنٍ أَوْ مِيرَاثٍ فَتَحَاكَمَا إِلَى السُّلْطَانِ وَإِلَى الْقُضَاةِ أَ يَحِلُّ ذَلِكَ قَالَ مَنْ تَحَاكَمَ إِلَيْهِمْ فِي حَقٍّ أَوْ بَاطِلٍ فَإِنَّمَا تَحَاكَمَ إِلَى الطَّاغُوتِ وَمَا يَحْكُمُ لَهُ فَإِنَّمَا يَأْخُذُ سُحْتاً وَإِنْ كَانَ حَقّاً ثَابِتاً لانَّهُ أَخَذَهُ بِحُكْمِ الطَّاغُوتِ وَقَدْ أَمَرَ الله أَنْ يُكْفَرَ بِهِ قَالَ الله تَعَالَى يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ قُلْتُ فَكَيْفَ يَصْنَعَانِ قَالَ يَنْظُرَانِ إِلَى مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مِمَّنْ قَدْ رَوَى حَدِيثَنَا وَنَظَرَ فِي حَلالِنَا وَحَرَامِنَا وَعَرَفَ أَحْكَامَنَا فَلْيَرْضَوْا بِهِ حَكَماً فَإِنِّي قَدْ جَعَلْتُهُ عَلَيْكُمْ حَاكِماً فَإِذَا حَكَمَ بِحُكْمِنَا فَلَمْ يَقْبَلْهُ مِنْهُ فَإِنَّمَا اسْتَخَفَّ بِحُكْمِ الله وَعَلَيْنَا رَدَّ وَالرَّادُّ عَلَيْنَا الرَّادُّ عَلَى الله وَهُوَ عَلَى حَدِّ الشِّرْكِ بِالله قُلْتُ فَإِنْ كَانَ كُلُّ رَجُلٍ اخْتَارَ رَجُلاً مِنْ أَصْحَابِنَا فَرَضِيَا أَنْ يَكُونَا النَّاظِرَيْنِ فِي حَقِّهِمَا وَاخْتَلَفَا فِيمَا حَكَمَا وَكِلاهُمَا اخْتَلَفَا فِي حَدِيثِكُمْ قَالَ الْحُكْمُ مَا حَكَمَ بِهِ أَعْدَلُهُمَا وَأَفْقَهُهُمَا وَأَصْدَقُهُمَا فِي الْحَدِيثِ وَأَوْرَعُهُمَا وَلا يَلْتَفِتْ إِلَى مَا يَحْكُمُ بِهِ الاخَرُ قَالَ قُلْتُ فَإِنَّهُمَا عَدْلانِ مَرْضِيَّانِ عِنْدَ أَصْحَابِنَا لا يُفَضَّلُ وَاحِدٌ مِنْهُمَا عَلَى الاخَرِ قَالَ فَقَالَ يُنْظَرُ إِلَى مَا كَانَ مِنْ رِوَايَتِهِمْ عَنَّا فِي ذَلِكَ الَّذِي حَكَمَا بِهِ الْمُجْمَعُ عَلَيْهِ مِنْ أَصْحَابِكَ فَيُؤْخَذُ بِهِ مِنْ حُكْمِنَا وَيُتْرَكُ الشَّاذُّ الَّذِي لَيْسَ بِمَشْهُورٍ عِنْدَ أَصْحَابِكَ فَإِنَّ الْمُجْمَعَ عَلَيْهِ لا رَيْبَ فِيهِ وَإِنَّمَا الامُورُ ثَلاثَةٌ أَمْرٌ بَيِّنٌ رُشْدُهُ فَيُتَّبَعُ وَأَمْرٌ بَيِّنٌ غَيُّهُ فَيُجْتَنَبُ وَأَمْرٌ مُشْكِلٌ يُرَدُّ عِلْمُهُ إِلَى الله وَإِلَى رَسُولِهِ قَالَ رَسُولُ الله ﷺ حَلالٌ بَيِّنٌ وَحَرَامٌ بَيِّنٌ وَشُبُهَاتٌ بَيْنَ ذَلِكَ فَمَنْ تَرَكَ الشُّبُهَاتِ نَجَا مِنَ الْمُحَرَّمَاتِ وَمَنْ أَخَذَ بِالشُّبُهَاتِ ارْتَكَبَ الْمُحَرَّمَاتِ وَهَلَكَ مِنْ حَيْثُ لا يَعْلَمُ قُلْتُ فَإِنْ كَانَ الْخَبَرَانِ عَنْكُمَا مَشْهُورَيْنِ قَدْ رَوَاهُمَا الثِّقَاتُ عَنْكُمْ قَالَ يُنْظَرُ فَمَا وَافَقَ حُكْمُهُ حُكْمَ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَخَالَفَ الْعَامَّةَ فَيُؤْخَذُ بِهِ وَيُتْرَكُ مَا خَالَفَ حُكْمُهُ حُكْمَ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَوَافَقَ الْعَامَّةَ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ أَ رَأَيْتَ إِنْ كَانَ الْفَقِيهَانِ عَرَفَا حُكْمَهُ مِنَ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَوَجَدْنَا أَحَدَ الْخَبَرَيْنِ مُوَافِقاً لِلْعَامَّةِ وَالاخَرَ مُخَالِفاً لَهُمْ بِأَيِّ الْخَبَرَيْنِ يُؤْخَذُ قَالَ مَا خَالَفَ الْعَامَّةَ فَفِيهِ الرَّشَادُ فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ فَإِنْ وَافَقَهُمَا الْخَبَرَانِ جَمِيعاً قَالَ يُنْظَرُ إِلَى مَا هُمْ إِلَيْهِ أَمْيَلُ حُكَّامُهُمْ وَقُضَاتُهُمْ فَيُتْرَكُ وَيُؤْخَذُ بِالاخَرِ قُلْتُ فَإِنْ وَافَقَ حُكَّامُهُمُ الْخَبَرَيْنِ جَمِيعاً قَالَ إِذَا كَانَ ذَلِكَ فَأَرْجِهْ حَتَّى تَلْقَى إِمَامَكَ فَإِنَّ الْوُقُوفَ عِنْدَ الشُّبُهَاتِ خَيْرٌ مِنَ الاقْتِحَامِ فِي الْهَلَكَاتِ۔

میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اپنے اصحاب میں سے ایسے دو شخصوں کے بارے میں پوچھا جو آپس میں جھگڑا کرنے والے تھے قرض میں یا میراث میں وہ اپنا مقدمہ لے گئے شیطان صفت بادشاہ یا غیر عادل قاضی کے پاس آیا یہ جائز ہے ان کے لیے، فرمایا جو حَکم بنائے گا ان کو حق یا باطل میں وہ مقدمہ لے جائے گا ایک شیطان صفت کے پاس اور جو وہ حکم دے گا وہ رشوت کے تحت ہو گا اگرچہ مدعی کے لیے حق ثابت ہو کیونکہ وہ فیصلہ شیطان سے لیا گیا ہے حالانکہ اس سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ خدا فرماتا ہے وہ چاہتے ہیں کہ اپنا محاکمہ شیطان کی طرف لے جائیں حالانکہ خدا نے ان کو حکم دیا ہے کہ وہ شیطان کے فریب میں نہ آئیں۔
فرمایا ان دونوں نزاع کرنیوالے شیعوں کو چاہیے کہ وہ اپنا معاملہ لے جائیں تم میں سے اس شخص کی طرف جو ہماری حدیث روایت کرتا ہے اور ہمارے حلال و حرام کو جانتا ہے اور ہمارے احکام کو پہچانتا ہے ان کو چاہیے کہ ان کے فیصلہ پر راضی ہو جائیں اور اگر اس کو قبول نہ کیا تو توہین کی حکم خدا کی اور ہماری تردید کی اور جس نے ہماری تردید کی اس نے اللہ کی تردید کی وہ اللہ کے ساتھ شرک ہے۔
میں نے کہا اگر دونوں میں سے ہر ایک ایک آدمی حَکم انتخاب کرے ہمارے اصحاب میں سے اور وہ دونوں اس بات پر راضی ہو جائیں کہ ان دونوں کے حق کے بارے میں غور کریں گے پھر مختلف ہو ان کا حکم اور آپ حضرت کے بارے میں بھی مختلف ہوں تو کیا کیا جائے، فرمایا ان میں سے اس کے حَکم کو مانا جائے جو دونوں میں زیادہ عادل ہو اور زیادہ توفیق دیا ہوا ہو اور بیانِ حدیث میں زیادہ صادق ہو اور زیادہ متقی و پرہیزگار ہو اور دوسرے کے حَکم کی طرف توجہ نہ کی جائے۔
میں نے کہا اگر وہ دونوں یکساں عادل ہوں اور ہمارے اصحاب ان دونوں کو پسند کرتے ہوں اور ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت نہ دی جاتی ہو تو کیا ہو، فرمایا یہ ہمارے شیعوں سے معلوم کیا جائے کہ کون سی حدیث ہماری ان میں زیادہ مانی جاتی ہے اسی پر عمل کیا جائے اور جو شاذ ہے اور تمہارے اصحاب میں زیادہ مشہور نہیں اسے چھوڑ دیا جائے کیونکہ جس پر لوگوں کا اتفاق ہو اس میں شک نہ ہو گا اور امور شریعت تین قسم کے ہیں اول وہ کہ جن کی رشد و راستی صراحتہً قرآن و حدیث میں بیان کر دی گئی ہے ان پر عمل کیا جائے دوسرے وہ امور جن کی گمراہی بیان کر دی گئی ہے ان سے اجتناب کیا جائے، تیسرے جو مشکل ہیں ان کی صراحت نہیں ان میں اللہ اور رسول کی طرف رجوع کی جائے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حلال بیان کر دیے گئے وہ واضح ہیں، حرام بیان کر دیے وہ واضح ہیں، رہے ان کی درمیان شبہات پس جس نے ان کو ترک کیا نجات پائی محرمات سے اور جس نے ان پر عمل کیا وہ مرتکب محرمات ہوا اور نادانی کی صورت میں وہ ہلاک ہوا۔
راوی نے کہا اگر آپ دونوں (امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام) سے دو حدیثیں مشہور ہوں اور ثقہ حضرت نے ان دونوں کی روایت بھی کی ہو تو کیا کیا جائے، فرمایا دیکھا جائے گا کہ کونسی حدیث قرآن و سنت کے مطابق اور رائے عامہ کے خلاف ہے جو موافق کتاب و سنت ہو گی اس پر عمل کیا جائے، اس حدیث کو جو کتاب و سنت کے خلاف ہو گی اور رائے عامہ کے موافق۔