مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

(2-1)

کتاب التوحید۔ حدوثِ عالم و اثباتِ المحدث

حدیث نمبر 1

أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ قَالَ حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ يُونُسَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مَنْصُورٍ قَالَ قَالَ لِي هِشَامُ بْنُ الْحَكَمِ كَانَ بِمِصْرَ زِنْدِيقٌ تَبْلُغُهُ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام أَشْيَاءُ فَخَرَجَ إِلَى الْمَدِينَةِ لِيُنَاظِرَهُ فَلَمْ يُصَادِفْهُ بِهَا وَقِيلَ لَهُ إِنَّهُ خَارِجٌ بِمَكَّةَ فَخَرَجَ إِلَى مَكَّةَ وَنَحْنُ مَعَ أَبِي عَبْدِ الله فَصَادَفَنَا وَنَحْنُ مَعَ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فِي الطَّوَافِ وَكَانَ اسْمُهُ عَبْدَ الْمَلِكِ وَكُنْيَتُهُ أَبُو عَبْدِ الله فَضَرَبَ كَتِفَهُ كَتِفَ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فَقَالَ لَهُ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام مَا اسْمُكَ فَقَالَ اسْمِي عَبْدُ الْمَلِكِ قَالَ فَمَا كُنْيَتُكَ قَالَ كُنْيَتِي أَبُو عَبْدِ الله فَقَالَ لَهُ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام فَمَنْ هَذَا الْمَلِكُ الَّذِي أَنْتَ عَبْدُهُ أَ مِنْ مُلُوكِ الارْضِ أَمْ مِنْ مُلُوكِ السَّمَاءِ وَأَخْبِرْنِي عَنِ ابْنِكَ عَبْدُ إِلَهِ السَّمَاءِ أَمْ عَبْدُ إِلَهِ الارْضِ قُلْ مَا شِئْتَ تُخْصَمُ قَالَ هِشَامُ بْنُ الْحَكَمِ فَقُلْتُ لِلزِّنْدِيقِ أَ مَا تَرُدُّ عَلَيْهِ قَالَ فَقَبَّحَ قَوْلِي فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله إِذَا فَرَغْتُ مِنَ الطَّوَافِ فَأْتِنَا فَلَمَّا فَرَغَ أَبُو عَبْدِ الله أَتَاهُ الزِّنْدِيقُ فَقَعَدَ بَيْنَ يَدَيْ أَبِي عَبْدِ الله وَنَحْنُ مُجْتَمِعُونَ عِنْدَهُ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام لِلزِّنْدِيقِ أَ تَعْلَمُ أَنَّ لِلارْضِ تَحْتاً وَفَوْقاً قَالَ نَعَمْ قَالَ فَدَخَلْتَ تَحْتَهَا قَالَ لا قَالَ فَمَا يُدْرِيكَ مَا تَحْتَهَا قَالَ لا أَدْرِي إِلا أَنِّي أَظُنُّ أَنْ لَيْسَ تَحْتَهَا شَيْءٌ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام فَالظَّنُّ عَجْزٌ لِمَا لا تَسْتَيْقِنُ ثُمَّ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله أَ فَصَعِدْتَ السَّمَاءَ قَالَ لا قَالَ أَ فَتَدْرِي مَا فِيهَا قَالَ لا قَالَ عَجَباً لَكَ لَمْ تَبْلُغِ الْمَشْرِقَ وَلَمْ تَبْلُغِ الْمَغْرِبَ وَلَمْ تَنْزِلِ الارْضَ وَلَمْ تَصْعَدِ السَّمَاءَ وَلَمْ تَجُزْ هُنَاكَ فَتَعْرِفَ مَا خَلْفَهُنَّ وَأَنْتَ جَاحِدٌ بِمَا فِيهِنَّ وَهَلْ يَجْحَدُ الْعَاقِلُ مَا لا يَعْرِفُ قَالَ الزِّنْدِيقُ مَا كَلَّمَنِي بِهَذَا أَحَدٌ غَيْرُكَ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام فَأَنْتَ مِنْ ذَلِكَ فِي شَكٍّ فَلَعَلَّهُ هُوَ وَلَعَلَّهُ لَيْسَ هُوَ فَقَالَ الزِّنْدِيقُ وَلَعَلَّ ذَلِكَ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام أَيُّهَا الرَّجُلُ لَيْسَ لِمَنْ لا يَعْلَمُ حُجَّةٌ عَلَى مَنْ يَعْلَمُ وَلا حُجَّةَ لِلْجَاهِلِ يَا أَخَا أَهْلِ مِصْرَ تَفْهَمُ عَنِّي فَإِنَّا لا نَشُكُّ فِي الله أَبَداً أَ مَا تَرَى الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَاللَّيْلَ وَالنَّهَارَ يَلِجَانِ فَلا يَشْتَبِهَانِ وَيَرْجِعَانِ قَدِ اضْطُرَّا لَيْسَ لَهُمَا مَكَانٌ إِلا مَكَانُهُمَا فَإِنْ كَانَا يَقْدِرَانِ عَلَى أَنْ يَذْهَبَا فَلِمَ يَرْجِعَانِ وَإِنْ كَانَا غَيْرَ مُضْطَرَّيْنِ فَلِمَ لا يَصِيرُ اللَّيْلُ نَهَاراً وَالنَّهَارُ لَيْلاً اضْطُرَّا وَالله يَا أَخَا أَهْلِ مِصْرَ إِلَى دَوَامِهِمَا وَالَّذِي اضْطَرَّهُمَا أَحْكَمُ مِنْهُمَا وَأَكْبَرُ فَقَالَ الزِّنْدِيقُ صَدَقْتَ ثُمَّ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام يَا أَخَا أَهْلِ مِصْرَ إِنَّ الَّذِي تَذْهَبُونَ إِلَيْهِ وَتَظُنُّونَ أَنَّهُ الدَّهْرُ إِنْ كَانَ الدَّهْرُ يَذْهَبُ بِهِمْ لِمَ لا يَرُدُّهُمْ وَإِنْ كَانَ يَرُدُّهُمْ لِمَ لا يَذْهَبُ بِهِمُ الْقَوْمُ مُضْطَرُّونَ يَا أَخَا أَهْلِ مِصْرَ لِمَ السَّمَاءُ مَرْفُوعَةٌ وَالارْضُ مَوْضُوعَةٌ لِمَ لا يَسْقُطُ السَّمَاءُ عَلَى الارْضِ لِمَ لا تَنْحَدِرُ الارْضُ فَوْقَ طِبَاقِهَا وَلا يَتَمَاسَكَانِ وَلا يَتَمَاسَكُ مَنْ عَلَيْهَا قَالَ الزِّنْدِيقُ أَمْسَكَهُمَا الله رَبُّهُمَا وَسَيِّدُهُمَا قَالَ فَآمَنَ الزِّنْدِيقُ عَلَى يَدَيْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فَقَالَ لَهُ حُمْرَانُ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنْ آمَنَتِ الزَّنَادِقَةُ عَلَى يَدِكَ فَقَدْ آمَنَ الْكُفَّارُ عَلَى يَدَيْ أَبِيكَ فَقَالَ الْمُؤْمِنُ الَّذِي آمَنَ عَلَى يَدَيْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام اجْعَلْنِي مِنْ تَلامِذَتِكَ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله يَا هِشَامَ بْنَ الْحَكَمِ خُذْهُ إِلَيْكَ وَعَلِّمْهُ فَعَلَّمَهُ هِشَامٌ فَكَانَ مُعَلِّمَ أَهْلِ الشَّامِ وَأَهْلِ مِصْرَ الايمَانَ وَحَسُنَتْ طَهَارَتُهُ حَتَّى رَضِيَ بِهَا أَبُو عَبْدِ الله۔

علی بن منصور سے مروی ہے کہ ہشام بن الحکم نے بیان کیا کہ مصر میں ایک زندیق (دہریہ) تھا اس نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی کچھ احادیث سنیں، وہ حضرت سے مناظرہ کرنے مدینہ آیا لیکن ملاقات نہ ہوئی لوگوں نے کہا کہ حضرت مکہ تشریف لے گئے ہیں وہ مکہ آیا، ہم طواف میں حضرت کے ساتھ تھے اس زندیق کا نام عبدالملک تھا اور کنیت ابوعبداللہ اس نے حضرت کے شانہ سے شانہ رگڑا۔
امام علیہ السلام نے فرمایا تیرا نام کیا ہے اس نے کہا میرا نام عبدالملک ہے، فرمایا تیری کنیت کیا ہے، کہا ابو عبداللہ۔ حضرت نے فرمایا یہ کون ملک ہے جس کا تو بندہ ہے آیا یہ زمین کے بادشاہوں میں سے ہے یا آسمان کے اور مجھے اپنے بیٹے کے متعلق بتا یہ آسمان کے اللہ کا بندہ یا زمین کے اللہ کا، ان دونوں شقوں میں سے جو بھی تو بتائے گا ملزم قرار پائے گا، ہشام ابن الحکم نے اس دہریہ سے کہا تو حضرت کی بات کا جواب کیوں نہیں دیتا، اس کو میرا یہ کہنا برا معلوم ہوا، امام نے فرمایا جب میں طواف سے فارغ ہوں تو میرے پاس آنا، جب آپ فارغ ہوئے تو زندیق آیا اور آپ کے پاس بیٹھ گیا ہم سب بھی حضرت کے پاس جمع تھے آپ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ زمین کے لیے تحت و فوق ہے اس نے کہا ہاں، آپ نے کہا تم زمین کے نیچے گئے ہو، اس نے کہا ہاں، فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اس میں کیا اس نے کہا کہ مجھے علم نہیں، مگر گمان یہ ہے کہ اس کے نیچے کچھ نہیں۔ فرمایا تم آسمان پر چڑھے ہو، کہا نہیں، فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اس میں کیا ہے اس نے کہا نہیں، فرمایا کیسی عجیب بات ہے کہ تم نہ مشرق میں گئے نہ مغرب میں نہ زمین کے اندر گئے نہ آسمان کے اوپر اور جب تم وہاں نہیں گزرے اور تم کو پتہ نہیں کہ کیا کیا وہاں پیدا کیا گیا ہے تو اس صورت میں ان چیزوں سے تمہارا انکار کیسا، کیا عقلمند کے لیے جائز ہے کہ جس چیز کو نہیں جانتا اس سے انکار کر دے۔
زندیق نے کہا آپ کے سوا اور کسی نے ایسا کلام مجھ سے نہیں کیا، حضرت نے فرمایا کہ اس معاملہ میں تمہیں شک ہے کہ شاید آسمان و زمین میں کچھ ہو یا نہ ہو، زندیق نے کہا کہ ہاں ایسا ہی ہے حضرت نے فرمایا اے شخص جو کوئی نہیں جانتا وہ جاننے والے پر حجت تمام نہیں کرتا ، جاہل کے لیے تو حجت ہی نہیں۔
اے مصری بھائی مجھ سے سمجھ ہم کبھی اللہ کے بارے میں شک نہیں کرتے کیا تم سورج اور چاند اور رات اور دن کو نہیں دیکھتے وہ آتے جاتے ہیں ان کی مقرر حالت میں کوئی اشتباہ نہیں ہوتا، وہ جاتے ہیں اور پھر پلٹتے ہیں یہ ان کی اضطراری حالت ہے جو ان کی معین جگہ ہے اس سے ہٹ نہیں سکتے۔ انھیں اس پر قدرت نہیں کہ جا کر واپس نہ آئیں۔ اگر غیر مضطر ہوتے تو رات دن نہ بنتی اور دن رات نہ ہوتااے مصری بھائی یہ دونوں ہمیشہ سے مضطر ہیں پس جس نے انھیں مضطر بنایا ہے وہ ان سے زیادہ طاقتور اور بڑا ہے۔
زندیق نے کہا آپ نے سچ فرمایا ہے پھر ابوعبداللہ نے کہا اے مصری بھائی جو لوگ جس طرف جا رہے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ وہ دہر ہے اگر دہر ان کو لے جاتا ہے تو دہر ان کو لوٹاتا کیوں نہیں اگر لوٹاتا ہے تو پھر ان کو مارتا کیوں نہیں باقی کیوں نہیں رکھتا اے مصری بھائی لوگ مضطر ہیں کیوں آسمان کو بلند کیا کیوں زمین کو بچھایا۔
آسمان زمین پر کیوں نہیں گر پڑتا اور زمین اپنے طبقات کو لے کر کیوں دھنس نہیں جاتی اگر کوئی مدبر حکیم نہ ہوتا تو یہ زمین و آسمان قائم نہ رہتے اور زمین پر لوگ چل نہ سکتے۔
زندیق نے کہا اللہ دونوں کا رب ان کو روکے ہوئے ہے اور ان کو مضبوط بنایا ہے۔ پس زندیق حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے ہاتھ پر ایمان لے آیا۔ حمران نے کہا میں آپ پر فدا ہوں زنادقہ آپ کے ہاتھ پر ایمان لائے اور کفار آپ کے پدر بزرگوار کے ہاتھ پر۔
اس مومن نے جو حضرت کے ہاتھ پر ایمان لایا تھا حضرت سے کہا مجھے آپ اپنے شاگردوں میں بنا لیجیے۔ حضرت نے ہشام بن الحکم سے فرمایا ان کو اپنے ساتھ رکھو، پس ہشام نے تعلیم دی اور پھر اس نے اہل شام اور اہل مصر کو ایمان کی تعلیم دی اور اس کی پاکیزگیِ نفس سے حضرت خوش ہوئے۔

حدیث نمبر 2

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي هَاشِمٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَسِّنٍ الْمِيثَمِيِّ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ أَبِي مَنْصُورٍ الْمُتَطَبِّبِ فَقَالَ أَخْبَرَنِي رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِي قَالَ كُنْتُ أَنَا وَابْنُ أَبِي الْعَوْجَاءِ وَعَبْدُ الله بْنُ الْمُقَفَّعِ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَقَالَ ابْنُ الْمُقَفَّعِ تَرَوْنَ هَذَا الْخَلْقَ وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَى مَوْضِعِ الطَّوَافِ مَا مِنْهُمْ أَحَدٌ أُوجِبُ لَهُ اسْمَ الانْسَانِيَّةِ إِلا ذَلِكَ الشَّيْخُ الْجَالِسُ يَعْنِي أَبَا عَبْدِ الله جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ (عَلَيْهما السَّلام) فَأَمَّا الْبَاقُونَ فَرَعَاعٌ وَبَهَائِمُ فَقَالَ لَهُ ابْنُ أَبِي الْعَوْجَاءِ وَكَيْفَ أَوْجَبْتَ هَذَا الاسْمَ لِهَذَا الشَّيْخِ دُونَ هَؤُلاءِ قَالَ لانِّي رَأَيْتُ عِنْدَهُ مَا لَمْ أَرَهُ عِنْدَهُمْ فَقَالَ لَهُ ابْنُ أَبِي الْعَوْجَاءِ لا بُدَّ مِنِ اخْتِبَارِ مَا قُلْتَ فِيهِ مِنْهُ قَالَ فَقَالَ لَهُ ابْنُ الْمُقَفَّعِ لا تَفْعَلْ فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يُفْسِدَ عَلَيْكَ مَا فِي يَدِكَ فَقَالَ لَيْسَ ذَا رَأْيَكَ وَلَكِنْ تَخَافُ أَنْ يَضْعُفَ رَأْيُكَ عِنْدِي فِي إِحْلالِكَ إِيَّاهُ الْمَحَلَّ الَّذِي وَصَفْتَ فَقَالَ ابْنُ الْمُقَفَّعِ أَمَّا إِذَا تَوَهَّمْتَ عَلَيَّ هَذَا فَقُمْ إِلَيْهِ وَتَحَفَّظْ مَا اسْتَطَعْتَ مِنَ الزَّلَلِ وَلا تَثْنِي عِنَانَكَ إِلَى اسْتِرْسَالٍ فَيُسَلِّمَكَ إِلَى عِقَالٍ وَسِمْهُ مَا لَكَ أَوْ عَلَيْكَ قَالَ فَقَامَ ابْنُ أَبِي الْعَوْجَاءِ وَبَقِيتُ أَنَا وَابْنُ الْمُقَفَّعِ جَالِسَيْنِ فَلَمَّا رَجَعَ إِلَيْنَا ابْنُ أَبِي الْعَوْجَاءِ قَالَ وَيْلَكَ يَا ابْنَ الْمُقَفَّعِ مَا هَذَا بِبَشَرٍ وَإِنْ كَانَ فِي الدُّنْيَا رُوحَانِيٌّ يَتَجَسَّدُ إِذَا شَاءَ ظَاهِراً وَيَتَرَوَّحُ إِذَا شَاءَ بَاطِناً فَهُوَ هَذَا فَقَالَ لَهُ وَكَيْفَ ذَلِكَ قَالَ جَلَسْتُ إِلَيْهِ فَلَمَّا لَمْ يَبْقَ عِنْدَهُ غَيْرِي ابْتَدَأَنِي فَقَالَ إِنْ يَكُنِ الامْرُ عَلَى مَا يَقُولُ هَؤُلاءِ وَهُوَ عَلَى مَا يَقُولُونَ يَعْنِي أَهْلَ الطَّوَافِ فَقَدْ سَلِمُوا وَعَطِبْتُمْ وَإِنْ يَكُنِ الامْرُ عَلَى مَا تَقُولُونَ وَلَيْسَ كَمَا تَقُولُونَ فَقَدِ اسْتَوَيْتُمْ وَهُمْ فَقُلْتُ لَهُ يَرْحَمُكَ الله وَأَيَّ شَيْءٍ نَقُولُ وَأَيَّ شَيْءٍ يَقُولُونَ مَا قَوْلِي وَقَوْلُهُمْ إِلا وَاحِدٌ فَقَالَ وَكَيْفَ يَكُونُ قَوْلُكَ وَقَوْلُهُمْ وَاحِداً وَهُمْ يَقُولُونَ إِنَّ لَهُمْ مَعَاداً وَثَوَاباً وَعِقَاباً وَيَدِينُونَ بِأَنَّ فِي السَّمَاءِ إِلَهاً وَأَنَّهَا عُمْرَانٌ وَأَنْتُمْ تَزْعُمُونَ أَنَّ السَّمَاءَ خَرَابٌ لَيْسَ فِيهَا أَحَدٌ قَالَ فَاغْتَنَمْتُهَا مِنْهُ فَقُلْتُ لَهُ مَا مَنَعَهُ إِنْ كَانَ الامْرُ كَمَا يَقُولُونَ أَنْ يَظْهَرَ لِخَلْقِهِ وَيَدْعُوَهُمْ إِلَى عِبَادَتِهِ حَتَّى لا يَخْتَلِفَ مِنْهُمُ اثْنَانِ وَلِمَ احْتَجَبَ عَنْهُمْ وَأَرْسَلَ إِلَيْهِمُ الرُّسُلَ وَلَوْ بَاشَرَهُمْ بِنَفْسِهِ كَانَ أَقْرَبَ إِلَى الايمَانِ بِهِ فَقَالَ لِي وَيْلَكَ وَكَيْفَ احْتَجَبَ عَنْكَ مَنْ أَرَاكَ قُدْرَتَهُ فِي نَفْسِكَ نُشُوءَكَ وَلَمْ تَكُنْ وَكِبَرَكَ بَعْدَ صِغَرِكَ وَقُوَّتَكَ بَعْدَ ضَعْفِكَ وَضَعْفَكَ بَعْدَ قُوَّتِكَ وَسُقْمَكَ بَعْدَ صِحَّتِكَ وَصِحَّتَكَ بَعْدَ سُقْمِكَ وَرِضَاكَ بَعْدَ غَضَبِكَ وَغَضَبَكَ بَعْدَ رِضَاكَ وَحُزْنَكَ بَعْدَ فَرَحِكَ وَفَرَحَكَ بَعْدَ حُزْنِكَ وَحُبَّكَ بَعْدَ بُغْضِكَ وَبُغْضَكَ بَعْدَ حُبِّكَ وَعَزْمَكَ بَعْدَ أَنَاتِكَ وَأَنَاتَكَ بَعْدَ عَزْمِكَ وَشَهْوَتَكَ بَعْدَ كَرَاهَتِكَ وَكَرَاهَتَكَ بَعْدَ شَهْوَتِكَ وَرَغْبَتَكَ بَعْدَ رَهْبَتِكَ وَرَهْبَتَكَ بَعْدَ رَغْبَتِكَ وَرَجَاءَكَ بَعْدَ يَأْسِكَ وَيَأْسَكَ بَعْدَ رَجَائِكَ وَخَاطِرَكَ بِمَا لَمْ يَكُنْ فِي وَهْمِكَ وَعُزُوبَ مَا أَنْتَ مُعْتَقِدُهُ عَنْ ذِهْنِكَ وَمَا زَالَ يُعَدِّدُ عَلَيَّ قُدْرَتَهُ الَّتِي هِيَ فِي نَفْسِي الَّتِي لا أَدْفَعُهَا حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيَظْهَرُ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَهُ عَنْهُ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا رَفَعَهُ وَزَادَ فِي حَدِيثِ ابْنِ أَبِي الْعَوْجَاءِ حِينَ سَأَلَهُ أَبُو عَبْدِ الله قَالَ عَادَ ابْنُ أَبِي الْعَوْجَاءِ فِي الْيَوْمِ الثَّانِي إِلَى مَجْلِسِ أَبِي عَبْدِ الله فَجَلَسَ وَهُوَ سَاكِتٌ لا يَنْطِقُ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله كَأَنَّكَ جِئْتَ تُعِيدُ بَعْضَ مَا كُنَّا فِيهِ فَقَالَ أَرَدْتُ ذَلِكَ يَا ابْنَ رَسُولِ الله فَقَالَ لَهُ أَبُو عَبْدِ الله مَا أَعْجَبَ هَذَا تُنْكِرُ الله وَتَشْهَدُ أَنِّي ابْنُ رَسُولِ الله فَقَالَ الْعَادَةُ تَحْمِلُنِي عَلَى ذَلِكَ فَقَالَ لَهُ الْعَالِمُ فَمَا يَمْنَعُكَ مِنَ الْكَلامِ قَالَ إِجْلالاً لَكَ وَمَهَابَةً مَا يَنْطَلِقُ لِسَانِي بَيْنَ يَدَيْكَ فَإِنِّي شَاهَدْتُ الْعُلَمَاءَ وَنَاظَرْتُ الْمُتَكَلِّمِينَ فَمَا تَدَاخَلَنِي هَيْبَةٌ قَطُّ مِثْلُ مَا تَدَاخَلَنِي مِنْ هَيْبَتِكَ قَالَ يَكُونُ ذَلِكَ وَلَكِنْ أَفْتَحُ عَلَيْكَ بِسُؤَالٍ وَأَقْبَلَ عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُ أَ مَصْنُوعٌ أَنْتَ أَوْ غَيْرُ مَصْنُوعٍ فَقَالَ عَبْدُ الْكَرِيمِ بْنُ أَبِي الْعَوْجَاءِ بَلْ أَنَا غَيْرُ مَصْنُوعٍ فَقَالَ لَهُ الْعَالِمُ فَصِفْ لِي لَوْ كُنْتَ مَصْنُوعاً كَيْفَ كُنْتَ تَكُونُ فَبَقِيَ عَبْدُ الْكَرِيمِ مَلِيّاً لا يُحِيرُ جَوَاباً وَوَلَعَ بِخَشَبَةٍ كَانَتْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُوَ يَقُولُ طَوِيلٌ عَرِيضٌ عَمِيقٌ قَصِيرٌ مُتَحَرِّكٌ سَاكِنٌ كُلُّ ذَلِكَ صِفَةُ خَلْقِهِ فَقَالَ لَهُ الْعَالِمُ فَإِنْ كُنْتَ لَمْ تَعْلَمْ صِفَةَ الصَّنْعَةِ غَيْرَهَا فَاجْعَلْ نَفْسَكَ مَصْنُوعاً لِمَا تَجِدُ فِي نَفْسِكَ مِمَّا يَحْدُثُ مِنْ هَذِهِ الامُورِ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الْكَرِيمِ سَأَلْتَنِي عَنْ مَسْأَلَةٍ لَمْ يَسْأَلْنِي عَنْهَا أَحَدٌ قَبْلَكَ وَلا يَسْأَلُنِي أَحَدٌ بَعْدَكَ عَنْ مِثْلِهَا فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله هَبْكَ عَلِمْتَ أَنَّكَ لَمْ تُسْأَلْ فِيمَا مَضَى فَمَا عَلَّمَكَ أَنَّكَ لا تُسْأَلُ فِيمَا بَعْدُ عَلَى أَنَّكَ يَا عَبْدَ الْكَرِيمِ نَقَضْتَ قَوْلَكَ لانَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ الاشْيَاءَ مِنَ الاوَّلِ سَوَاءٌ فَكَيْفَ قَدَّمْتَ وَأَخَّرْتَ ثُمَّ قَالَ يَا عَبْدَ الْكَرِيمِ أَزِيدُكَ وُضُوحاً أَ رَأَيْتَ لَوْ كَانَ مَعَكَ كِيسٌ فِيهِ جَوَاهِرُ فَقَالَ لَكَ قَائِلٌ هَلْ فِي الْكِيسِ دِينَارٌ فَنَفَيْتَ كَوْنَ الدِّينَارِ فِي الْكِيسِ فَقَالَ لَكَ صِفْ لِيَ الدِّينَارَ وَكُنْتَ غَيْرَ عَالِمٍ بِصِفَتِهِ هَلْ كَانَ لَكَ أَنْ تَنْفِيَ كَوْنَ الدِّينَارِ عَنِ الْكِيسِ وَأَنْتَ لا تَعْلَمُ قَالَ لا فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله فَالْعَالَمُ أَكْبَرُ وَأَطْوَلُ وَأَعْرَضُ مِنَ الْكِيسِ فَلَعَلَّ فِي الْعَالَمِ صَنْعَةً مِنْ حَيْثُ لا تَعْلَمُ صِفَةَ الصَّنْعَةِ مِنْ غَيْرِ الصَّنْعَةِ فَانْقَطَعَ عَبْدُ الْكَرِيمِ وَأَجَابَ إِلَى الاسْلامِ بَعْضُ أَصْحَابِهِ وَبَقِيَ مَعَهُ بَعْضٌ فَعَادَ فِي الْيَوْمِ الثَّالِثِ فَقَالَ أَقْلِبُ السُّؤَالَ فَقَالَ لَهُ أَبُو عَبْدِ الله سَلْ عَمَّا شِئْتَ فَقَالَ مَا الدَّلِيلُ عَلَى حَدَثِ الاجْسَامِ فَقَالَ إِنِّي مَا وَجَدْتُ شَيْئاً صَغِيراً وَلا كَبِيراً إِلا وَإِذَا ضُمَّ إِلَيْهِ مِثْلُهُ صَارَ أَكْبَرَ وَفِي ذَلِكَ زَوَالٌ وَانْتِقَالٌ عَنِ الْحَالَةِ الاولَى وَلَوْ كَانَ قَدِيماً مَا زَالَ وَلا حَالَ لانَّ الَّذِي يَزُولُ وَيَحُولُ يَجُوزُ أَنْ يُوجَدَ وَيُبْطَلَ فَيَكُونُ بِوُجُودِهِ بَعْدَ عَدَمِهِ دُخُولٌ فِي الْحَدَثِ وَفِي كَوْنِهِ فِي الازَلِ دُخُولُهُ فِي الْعَدَمِ وَلَنْ تَجْتَمِعَ صِفَةُ الازَلِ وَالْعَدَمِ وَالْحُدُوثِ وَالْقِدَمِ فِي شَيْءٍ وَاحِدٍ فَقَالَ عَبْدُ الْكَرِيمِ هَبْكَ عَلِمْتَ فِي جَرْيِ الْحَالَتَيْنِ وَالزَّمَانَيْنِ عَلَى مَا ذَكَرْتَ وَاسْتَدْلَلْتَ بِذَلِكَ عَلَى حُدُوثِهِا فَلَوْ بَقِيَتِ الاشْيَاءُ عَلَى صِغَرِهَا مِنْ أَيْنَ كَانَ لَكَ أَنْ تَسْتَدِلَّ عَلَى حُدُوثِهِنَّ فَقَالَ الْعَالِمُ إِنَّمَا نَتَكَلَّمُ عَلَى هَذَا الْعَالَمِ الْمَوْضُوعِ فَلَوْ رَفَعْنَاهُ وَوَضَعْنَا عَالَماً آخَرَ كَانَ لا شَيْءَ أَدَلَّ عَلَى الْحَدَثِ مِنْ رَفْعِنَا إِيَّاهُ وَوَضْعِنَا غَيْرَهُ وَلَكِنْ أُجِيبُكَ مِنْ حَيْثُ قَدَّرْتَ أَنْ تُلْزِمَنَا فَنَقُولُ إِنَّ الاشْيَاءَ لَوْ دَامَتْ عَلَى صِغَرِهَا لَكَانَ فِي الْوَهْمِ أَنَّهُ مَتَى ضُمَّ شَيْءٌ إِلَى مِثْلِهِ كَانَ أَكْبَرَ وَفِي جَوَازِ التَّغْيِيرِ عَلَيْهِ خُرُوجُهُ مِنَ الْقِدَمِ كَمَا أَنَّ فِي تَغْيِيرِهِ دُخُولَهُ فِي الْحَدَثِ لَيْسَ لَكَ وَرَاءَهُ شَيْءٌ يَا عَبْدَ الْكَرِيمِ فَانْقَطَعَ وَخُزِيَ فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْعَامِ الْقَابِلِ الْتَقَى مَعَهُ فِي الْحَرَمِ فَقَالَ لَهُ بَعْضُ شِيعَتِهِ إِنَّ ابْنَ أَبِي الْعَوْجَاءِ قَدْ أَسْلَمَ فَقَالَ الْعَالِمُ هُوَ أَعْمَى مِنْ ذَلِكَ لا يُسْلِمُ فَلَمَّا بَصُرَ بِالْعَالِمِ قَالَ سَيِّدِي وَمَوْلايَ فَقَالَ لَهُ الْعَالِمُ مَا جَاءَ بِكَ إِلَى هَذَا الْمَوْضِعِ فَقَالَ عَادَةُ الْجَسَدِ وَسُنَّةُ الْبَلَدِ وَلِنَنْظُرَ مَا النَّاسُ فِيهِ مِنَ الْجُنُونِ وَالْحَلْقِ وَرَمْيِ الْحِجَارَةِ فَقَالَ لَهُ الْعَالِمُ أَنْتَ بَعْدُ عَلَى عُتُوِّكَ وَضَلالِكَ يَا عَبْدَ الْكَرِيمِ فَذَهَبَ يَتَكَلَّمُ فَقَالَ لَهُ لا جِدَالَ فِي الْحَجِّ وَنَفَضَ رِدَاءَهُ مِنْ يَدِهِ وَقَالَ إِنْ يَكُنِ الامْرُ كَمَا تَقُولُ وَلَيْسَ كَمَا تَقُولُ نَجَوْنَا وَنَجَوْتَ وَإِنْ يَكُنِ الامْرُ كَمَا نَقُولُ وَهُوَ كَمَا نَقُولُ نَجَوْنَا وَهَلَكْتَ فَأَقْبَلَ عَبْدُ الْكَرِيمِ عَلَى مَنْ مَعَهُ فَقَالَ وَجَدْتُ فِي قَلْبِي حَزَازَةً فَرُدُّونِي فَرَدُّوهُ فَمَاتَ لا رَحِمَهُ الله۔

منصور المتطبب سے مروی ہے کہ خبر دی میری ایک صحابی نے کہ میں اور ابن العوجا اور عبداللہ بن ابی المقفع مسجد الحرام میں تھے ابن المقفع نے کہا کہ تم اس مخلوق کو دیکھتے ہو اور اشارہ کیا جائے طواف کا اور کہا ان میں کوئی سزوار لفظ انسانیت نہیں مگر یہ بزرگ جو بیٹھے ہوئے ہیں یعنی امام جعفر صادق علیہ السلام اور باقی تو ناک کا پانی ہیں اور بہائم صف ابن عوجا نے کہا تم نے سب کو چھوڑ کر انہی بزرگ کے لیے ایسا کیوں کہا اس نے کہا جو بات میں ان میں پاتا ہوں دوسروں میں نہیں پاتا، ابن ابی العوجا نے کہا جو تم نے کہا اس کی آزمائش ضروری ہے ابن المقفع نے کہا ایسا نہ کر مجھے ڈر ہے کہ تیرا عقیدہ فاسد ہو جائے اس نے کہا کہ تیرا عقیدہ نہیں ہے بلکہ تو اس بات سے ڈرتا ہے کہ تیری رائے میرے نزدیک کمزور ثابت ہو ان کی ان کی اس صفت کے بارے میں جو تو نے بیان کی ہے ابن مقفع نے کہا کہ اگر تیرا گمان ہے تو اٹھ اور ان کے پاس چل اور غلطی سے حتی المقدور اپنے آپ کو بچا۔
اور امید ہے کہ تو اپنی باگ کو ان کی مجلس میں راہ ہوار سے نہ پھیرے گا اور وہ سونپیں گے تجھ کو دو چیزیں اول وہ بندش جو حرکت با سے مانع ہو دوسرے وہ علامت جس سے تو جانے کہ کیا بات تیرے فائدے کی ہے اور کیا نقصان کی۔
ابن ابی العوجا اٹھا کر چلا گیا اور میں اور المقفع بیٹھے رہے جب لوٹا تو اس نے کہا وائے ہو تجھ پر یہ شخص بشر نہیں فرشتہ ہے جب چاہتا ہے بجسد اس دنیا میں ظاہر ہوتا ہے اور جب چاہتا ہے فرشتوں کی طرح پنہاں ہو جاتا ہے۔
اس نے کہا یہ کیسے ابن ابی العوجا نے کہا میں حضرت کے پاس گیا جب میرے سوا کوئی اور نہ رہا تو حضرت نے خود ہی فرمایا اگر وہ امر جس کو زندیق لوگ کہتے ہیں خلاف اس کے ہے جو اہل طواف کہتے ہیں پس اگر ہماری بات صحیح ہو اور خدا کا وجود ہو تو مساین نجات پائیں گے اور تم ہلاک ہو گے۔
اور اگر جیسا تم کہتے ہو وہ صحیح ہوا یعنی خدا نہیں ہے اور کسی طرح کی باز پرس نہ ہو گی اور اہل طواف یعنی مسلمانوں کا عقیدہ غلط ہوا تو وہ اور تم برابر خدا پرستی نے انہیں کوئی ضرر نہ پہنچایا۔
میں نے کہا اللہ آپ پر رحم کرے کونسی چیز ہے جو ہم کہتے ہیں اور کونسی چیز ہے جو وہ کہتے ہیں میرا قول اور ان کا قول ایک ہی ہے۔ حضرت نے فرمایا تمہارا اور ان کا قول ایک کیسے ہو جائے گا، وہ کہتے ہیں کہ ان کے لیے معاد ہے ثواب ہے عذاب ہے اور ان کا عقیدہ ہے کہ آسمان میں بھی معبود ہے اور آسمان فرشتوں سے آباد ہے تم کہتے ہو کہ وہ ویران اور اجاڑ ہے اس میں کوئی بھی نہیں۔
ابن ابی العوجا نے کہا میں نے حضرت کا یہ کہنا غنیمت سمجھا، میں نے ان سے کہا اگر ایسا ہی ہے جیسا لوگ کہتے ہیں یعنی خدا کا وجود ہے تو وہ اپنی مخلوق کے سامنے کیوں نہیں آتا اور سامنے آ کر اپنی عبادت کی دعوت کیوں نہیں دیتا اس صورت میں دو آدمیوں کے دوران بھی اختلاف نہ ہوتا اور وہ ان سے کیوں چھپا اور اپنے رسولوں کو ان ی طرف بھیجا اگر خود ہی یہ کام کرتا تو لوگ اس پر زیادہ ایمان لاتے۔
حضرت نے مجھ سے کہا وائے ہو تیرے اوپر کہاں پوشیدہ ہے تجھ سے وہ ذات جس کی قدرت کو تو اپنے نفس میں دیکھتا ہے تو نہیں تھا اس نے تجھے پیدا کیا اور بچپن سے تجھ کو بڑا کیا اور ضعف کے بعد تجھے قوت دی اور قوت کے ساتھ ضعیف بنایا اور صحت کے ساتھ بیماری دی اور بیماری کے بعد صحت دی اور رضا کے بعد غضب اور غضب کے بعد رضا دی اور خوشی کے بعد غم دیا اور غم کے بعد خوشی اور محبت کے بعد دشمنی، ارادہ کے بعد سستی اور سستی کے بعد ارادہ دیا، اور خواہش کے بعد کراہت اور کراہت کے بعد خواہش اور رغبت کے بعد خوف اور خوف کے بعد رغبت اور امید کے بعد مایوسی اور مایوسی کے بعد امید کو دیا اور دل میں ڈالا اس چیز کو جو تیرے وہم میں نہ تھی اور غائب کر دیا تیرے ذہن سے جس کو تو ذہن میں لیے ہوئے تھا اور ہمیشہ شمار کرتا ہےمجھ پر اپنی قدرت سے وہ چیزیں جو میرے نفس میں اس طرح ہیں کہ میں ان کو ہٹا نہیں سکتا یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ وہ ظاہر کرے گا اس چیز کو جو میرے اور اس کے درمیان ہے۔
حضرت نے فرمایا تو کسی کا بنایا ہے یا بنایا ہوا نہیں اس نے کہا میں بنایا ہوا نہیں ہوں حضرت نے فرمایا اگر تو مصنوع ہوتا تو کیسے ہوتا یہ سن کر وہ مبہوت ہو کر رہ گیا اور کوئی جواب نہ بن پڑا۔ اس نے ایک لکڑی اٹھائی اور کہنے لگا اس کا طول ہے گہرائی ہے کوتاہی ہے یہ متحرک ہے یہ سوال ہے اس میں یہ سب باتیں اس کی خلقت ہے۔
حضرت نے فرمایا اگر تو نے نہیں جانا ان صفتوں کے غیر کو تو اپنے نفس کو مصنوع قرار دے کیونکہ تو نے اپنے نفس میں نہ پایا اس چیز کو جو ان امور سے پیدا ہوتی ہے عبدالکریم نے کہا اس مسئلہ میں ایسا سوال مجھ سے نہ آپ سے پہلے کسی نے کیا ہے اور نہ آپ کے بعد کرے گا۔
حضرت نے فرمایا اے عبدالکریم فرض کر لے کہ تو نے یہ جان لیا کہ جو کچھ گزر گیا اس کے متعلق تجھ سے کسی نے سوال نہیں کیا پس تو نے یہ کیسے معلوم کر لیا کہ بعد میں بھی نہ کرے گا۔ اے عبدالحکیم تیرا قول ٹوٹ گیا کیونکہ تیرا گمان تو یہ تھا کہ وجود اشیاء اول سے برابر ہے پھر تقدم و تاخر کیسا پھر فرمایا اے عبدالکریم میں اس کی وضاحت کرتا ہوں۔
غور کر اگر تیرے پاس تھیلی میں جواہرات ہوں اور ایک کہنے والا کہے اس میں دینار ہیں تو کہے دینار نہیں ہیں وہ کہے دینا کی تعریف تو بتا درآنحالیکہ تو اس کی صفت سے واقف نہیں تو کیا تو یہ کہدے گا کہ تھیلی میں دینار نہیں اس نے کہا میں یہ نہیں کہہ سکتا ، حضرت نے فرمایا پس یہ دنیا جو بہت بڑی اور زیادہ لمبی چوڑی ہے تھیلی سے اور اس میں بہت سی صنعتیں ایسی ہیں جو تیری نہ جانی ہوئی ہیں تو تو بغیر علم ان سے کیسے انکار کر رہا ہے اس سے جواب نہ بن پڑا اس کے بعض ساتھی تو مسلمان ہو گئے اور بعض اس کے ساتھ رہے۔
تیسرے روز وہ پھر آیا اور کہنے لگا اب میں سوال بدلتا ہوں، حضرت نے فرمایا جو چاہے پوچھ، کیا دلیل ہے اجسام کے حادث ہونے پر، فرمایا میں ہر چھوٹی بڑی چیز کو اس حالت میں پاتا ہوں کہ جب اس سے اسی جیسی چیز اور مل جاتی ہے تو وہ پہلے سے بڑی ہو جاتی ہے اس پہلی صورت کے زائل ہونے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف بدلنے سے پتہ چلا کہ وہ حادث ہے اگر قدیم ہوتی تو نہ پہلی صورت زائل ہوتی اور نہ اس کی حالت میں تبدیلی واقع ہوتی جو چیز زوال اور تبدیلی رکھتی ہے تو جائز ہے کہ اس کے لیے وہ پائی جائے اور نہ پائی جائے پس جس کا وجود بعد عدم ہوا۔
وہ حادث جو ازل میں پیدا ہوا اس کا داخلہ عدم میں لازم، ازل اور عدم حدوث و قدم دونوں ضدیں ایک چیز میں جمع نہیں ہو سکتیں عبدالکریم نے کہا فرض کیجہے کہ دونوں حالتوں اور دونوں زمانوں کا جو آپ نے ذکر کیا اور ان کے حدوث پر آپ دلیل لائے میں نے اس کو مان لیا لیکن یہ تو بتائیے کہ اگر اشیاء اپنی چھوٹی حالت پر باقی رہیں تو پھر آپ ان کے حدوث پر کیا دلیل لائیں گے۔ حضرت نے فرمایا اے عبدالکریم ہم گفتگو کر رہے ہیں اس عالم موضوع پر اگر ہم اس کو ہٹا کر دوسرا عالم اس جگہ رکھ دیں تو یہ دلیل حدوث ہو گی لیکن اب میں ایک ایسا جواب دیتا ہوں کہ تمہیں ماننا پڑے گا یہ تمام اشیاء اگر چھوٹائی کی حالت ہی میں ہمیشہ رہیں تو ہمارے وہم و خیال میں یہ بات ضرور رہے گی کہ جب انہی جیسی کوئی چیز ان سے ملے گی تو یہ پہلے ہی بڑی ہو جائیں گی پس ان پر تغیر کا جواز ان کے قدم سے خارج کر دی گی کیونکہ تغیر ثابت ہو جانا حادث ہونے کی دلیل ہے اس کے بعد اب کوئی حجت تیرے لیے باقی نہیں رہی پس اس نے بحث کو قطع کیا اور ذلیل ہوا۔
سال آئندہ وہ حرم میں پھر ملا ایک شیعہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا ابن ابی العوجا مسلمان ہو گیا۔ حضرت نے فرمایا وہ اس طرف سے اندھا ہے اسلام نہیں لائے گا جب وہ حضرت کے سامنے آیا تو کہنے لگا اے میرے سردار اے میرے مولانا حضرت نے پوچھا تم یہاں کیسے آئے اس نے کہا جسمانی عادت لائی ہے تاکہ موسم حج میں اس شہر کے طریقے دیکھوں لوگوں کی مجنونانہ حرکات ان کا سر منڈوانا، کنکریاں پھینکنا دیکھوں۔ حضرت نے فرمایا اے عبدالکریم تو اپنی اسی سرکشی اور ضلالت پر باقی ہے پس اس نے کلام شروع کیا، حضرت نے فرمایا اس وقت بحث مسائل حج سے نہیں بلکہ وجود باری ہے پس جیسا تو کہتا (نہ خدا ہے نہ ثواب نہ عتاب) تو ایسا نہیں ہے ہم کہتے ہیں تو نہ ہمیں کھٹکا اور نہ تجھے ہم ہماری بھی نجات اور تیری بھی اگر ایسا ہوا جیسا ہم کہتے ہیں اور ایسا ہی ہے تو ہم نجات پائیں گے اور تو ہلاک ہو گا یہ سن کر وہ اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا میں اپنے دل میں درد پاتا ہوں بس مجھے یہاں سے لے چلو، لوگ لے گئے اور وہ مر گیا اللہ کا رحم اس کے لیے نہیں۔

حدیث نمبر 3

الْحَسَنِ علیہ السلام وَعِنْدَهُ جَمَاعَةٌ فَقَالَ أَبُو الْحَسَنِ علیہ السلام أَيُّهَا الرَّجُلُ أَ رَأَيْتَ إِنْ كَانَ الْقَوْلُ قَوْلَكُمْ وَلَيْسَ هُوَ كَمَا تَقُولُونَ أَ لَسْنَا وَإِيَّاكُمْ شَرَعاً سَوَاءً لا يَضُرُّنَا مَا صَلَّيْنَا وَصُمْنَا وَزَكَّيْنَا وَأَقْرَرْنَا فَسَكَتَ الرَّجُلُ ثُمَّ قَالَ أَبُو الْحَسَنِ علیہ السلام وَإِنْ كَانَ الْقَوْلُ قَوْلَنَا وَهُوَ قَوْلُنَا أَ لَسْتُمْ قَدْ هَلَكْتُمْ وَنَجَوْنَا فَقَالَ رَحِمَكَ الله أَوْجِدْنِي كَيْفَ هُوَ وَأَيْنَ هُوَ فَقَالَ وَيْلَكَ إِنَّ الَّذِي ذَهَبْتَ إِلَيْهِ غَلَطٌ هُوَ أَيَّنَ الايْنَ بِلا أَيْنٍ وَكَيَّفَ الْكَيْفَ بِلا كَيْفٍ فَلا يُعْرَفُ بِالْكَيْفُوفِيَّةِ وَلا بِأَيْنُونِيَّةٍ وَلا يُدْرَكُ بِحَاسَّةٍ وَلا يُقَاسُ بِشَيْءٍ فَقَالَ الرَّجُلُ فَإِذاً إِنَّهُ لا شَيْءَ إِذَا لَمْ يُدْرَكْ بِحَاسَّةٍ مِنَ الْحَوَاسِّ فَقَالَ أَبُو الْحَسَنِ علیہ السلام وَيْلَكَ لَمَّا عَجَزَتْ حَوَاسُّكَ عَنْ إِدْرَاكِهِ أَنْكَرْتَ رُبُوبِيَّتَهُ وَنَحْنُ إِذَا عَجَزَتْ حَوَاسُّنَا عَنْ إِدْرَاكِهِ أَيْقَنَّا أَنَّهُ رَبُّنَا بِخِلافِ شَيْءٍ مِنَ الاشْيَاءِ قَالَ الرَّجُلُ فَأَخْبِرْنِي مَتَى كَانَ قَالَ أَبُو الْحَسَنِ علیہ السلام أَخْبِرْنِي مَتَى لَمْ يَكُنْ فَأُخْبِرَكَ مَتَى كَانَ قَالَ الرَّجُلُ فَمَا الدَّلِيلُ عَلَيْهِ فَقَالَ أَبُو الْحَسَنِ علیہ السلام إِنِّي لَمَّا نَظَرْتُ إِلَى جَسَدِي وَلَمْ يُمْكِنِّي فِيهِ زِيَادَةٌ وَلا نُقْصَانٌ فِي الْعَرْضِ وَالطُّولِ وَدَفْعِ الْمَكَارِهِ عَنْهُ وَجَرِّ الْمَنْفَعَةِ إِلَيْهِ عَلِمْتُ أَنَّ لِهَذَا الْبُنْيَانِ بَانِياً فَأَقْرَرْتُ بِهِ مَعَ مَا أَرَى مِنْ دَوَرَانِ الْفَلَكِ بِقُدْرَتِهِ وَإِنْشَاءِ السَّحَابِ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحَ وَمَجْرَى الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ وَالنُّجُومِ وَغَيْرِ ذَلِكَ مِنَ الايَاتِ الْعَجِيبَاتِ الْمُبَيِّنَاتِ عَلِمْتُ أَنَّ لِهَذَا مُقَدِّراً وَمُنْشِئاً۔

ایک دہریہ امام رضا علیہ السلام کے پاس آیا۔ حضرت کے پاس بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا اے شخص غور کر اگر تیرا قول سچا ہے (خدا نہیں) حالانکہ جو تم کہتے ہو ایسا نہیں تو تم اور ہم برابر ہیں ہمارے لیے کوئی نقصان نہ ہو گا۔ نمازیں پڑھنے، روزرکھنے اور زکوٰۃ دینے سے اور خدا کا اقرار کرنے سے، یہ سن کر وہ چُپ ہو گیا، پھر حضرت نے فرمایا اگر ہمارا کہنا سچا ہوا اور وہ سچ ہی ہے تو کیا تم ہلاک نہ ہو گے اور ہم نجات نہ پائیں گے۔
اس نے حسب عادت کہا اللہ آپ پر رحم کرے اب مجھے بتائیے وہ کیونکہ ہے اور کہاں ہے، فرمایا وائے ہو تیرے اوپر جو خیال تو نے کیا ہے وہ غلط ہے وہ تو ہر جگہ کا پیدا کرنے والا ہے جو کسی جگہ نہیں، کیفیتوں کا پیدا کرنے والا ہے خود کسی کیفیت میں نہیں وہ کیفیت اور مقام سے نہیں پہچانا جاتا ہم نے جب عاجز پایا اپنے حواس سے اس کے ادراک کو یقین کر لیا کہ وہ ہمارا رب ہر شے سے علیحدہ ہے۔
اس نے کہا جب وہ حواس اور ادراک سے نہیں پہچانا جا سکتا تو وہ لا شے ہے، حضرت نے فرمایا وائے ہو تجھ پر جب تیرے حواس ادراک سے قاصر ہوئے تو تو نے اس کی ربوبیت سے انکار کر دیا۔

حدیث نمبر 5

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبَّاسِ بْنِ عَمْرٍو الْفُقَيْمِيِّ عَنْ هِشَامِ بْنِ الْحَكَمِ فِي حَدِيثِ الزِّنْدِيقِ الَّذِي أَتَى أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام وَكَانَ مِنْ قَوْلِ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام لا يَخْلُو قَوْلُكَ إِنَّهُمَا اثْنَانِ مِنْ أَنْ يَكُونَا قَدِيمَيْنِ قَوِيَّيْنِ أَوْ يَكُونَا ضَعِيفَيْنِ أَوْ يَكُونَ أَحَدُهُمَا قَوِيّاً وَالاخَرُ ضَعِيفاً فَإِنْ كَانَا قَوِيَّيْنِ فَلِمَ لا يَدْفَعُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ وَيَتَفَرَّدُ بِالتَّدْبِيرِ وَإِنْ زَعَمْتَ أَنَّ أَحَدَهُمَا قَوِيٌّ وَالاخَرَ ضَعِيفٌ ثَبَتَ أَنَّهُ وَاحِدٌ كَمَا نَقُولُ لِلْعَجْزِ الظَّاهِرِ فِي الثَّانِي فَإِنْ قُلْتَ إِنَّهُمَا اثْنَانِ لَمْ يَخْلُ مِنْ أَنْ يَكُونَا مُتَّفِقَيْنِ مِنْ كُلِّ جِهَةٍ أَوْ مُفْتَرِقَيْنِ مِنْ كُلِّ جِهَةٍ فَلَمَّا رَأَيْنَا الْخَلْقَ مُنْتَظِماً وَالْفَلَكَ جَارِياً وَالتَّدْبِيرَ وَاحِداً وَاللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَلَّ صِحَّةُ الامْرِ وَالتَّدْبِيرِ وَائْتِلافُ الامْرِ عَلَى أَنَّ الْمُدَبِّرَ وَاحِدٌ ثُمَّ يَلْزَمُكَ إِنِ ادَّعَيْتَ اثْنَيْنِ فُرْجَةٌ مَا بَيْنَهُمَا حَتَّى يَكُونَا اثْنَيْنِ فَصَارَتِ الْفُرْجَةُ ثَالِثاً بَيْنَهُمَا قَدِيماً مَعَهُمَا فَيَلْزَمُكَ ثَلاثَةٌ فَإِنِ ادَّعَيْتَ ثَلاثَةً لَزِمَكَ مَا قُلْتَ فِي الاثْنَيْنِ حَتَّى تَكُونَ بَيْنَهُمْ فُرْجَةٌ فَيَكُونُوا خَمْسَةً ثُمَّ يَتَنَاهَى فِي الْعَدَدِ إِلَى مَا لا نِهَايَةَ لَهُ فِي الْكَثْرَةِ قَالَ هِشَامٌ فَكَانَ مِنْ سُؤَالِ الزِّنْدِيقِ أَنْ قَالَ فَمَا الدَّلِيلُ عَلَيْهِ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیہ السلام وُجُودُ الافَاعِيلِ دَلَّتْ عَلَى أَنَّ صَانِعاً صَنَعَهَا أَ لا تَرَى أَنَّكَ إِذَا نَظَرْتَ إِلَى بِنَاءٍ مُشَيَّدٍ مَبْنِيٍّ عَلِمْتَ أَنَّ لَهُ بَانِياً وَإِنْ كُنْتَ لَمْ تَرَ الْبَانِيَ وَلَمْ تُشَاهِدْهُ قَالَ فَمَا هُوَ قَالَ شَيْءٌ بِخِلافِ الاشْيَاءِ ارْجِعْ بِقَوْلِي إِلَى إِثْبَاتِ مَعْنًى وَأَنَّهُ شَيْءٌ بِحَقِيقَةِ الشَّيْئِيَّةِ غَيْرَ أَنَّهُ لا جِسْمٌ وَلا صُورَةٌ وَلا يُحَسُّ وَلا يُجَسُّ وَلا يُدْرَكُ بِالْحَوَاسِّ الْخَمْسِ لا تُدْرِكُهُ الاوْهَامُ وَلا تَنْقُصُهُ الدُّهُورُ وَلا تُغَيِّرُهُ الازْمَانُ۔

ہشام بن الحکم سے حدیث زندیق میں مروی ہے کہ وہ آیا ابو عبداللہ (امام جعفر صادق) علیہ السلام کے پاس، آپ نے اس سے فرمایا تیرا قول تین حال سے خالی نہیں یا تو وہ دونوں قدیم اور قوی ہیں یا دونوں ضعیف ہیں یا ایک قوی ہے اور دوسرا ضعیف، پس اگر دونوں قوی ہیں تو کیوں نہیں دفع کرتا ہر ایک ان میں سے دوسرے کو اور خود صاحب تدبیر نہیں بنتا، اور اگر تیرا خیال یہ ہے کہ ایک قوی ہے اور دوسرا ضعیف تو ثابت ہوا کہ ایک ہے جیسا کہ دوسرے کا عجز ظاہر کرتا ہے۔
اگر تو کہے کہ دو ہی ہیں تو دو حال سے خالی نہیں یا تو وہ متفق ہیں ہر کام میں یا متفرق ہیں ہر کام میں لیکن جب ہم مخلوق کو ایک نظام کے تحت پاتے ہیں اور آسمان کو گردش میں دیکھتے ہیں اور رات دن اور چاند سورج کو صحیح طریقہ پر اور ایک تدبیر کے تحت کام کرتا دیکھتے ہیں اور ان کے کاموں میں موافقت پاتے ہیں تو ہمیں یقین ہوتا ہے کہ مدبر ایک ہے۔
اگر تو نے دو خدا ہونے کا دعویٰ کیا تو لازم آئے گا کہ جہان کو ایک جدا کرنے والا ہو تاکہ دو کہلائیں، اس صورت میں جدا کرنے والا ان کے درمیان تیسرا قدیم ہو جائے گا، پس اگر تین کا تو نے دعویٰ کیا تو پھر وہی صورت پیش آئے گی جو میں نے دو کے درمیان کہی، پس ان تین کو جدا کرنے والے دو اور ہو جائیں گے اور اس صورت میں پانچ قدیم ہو جائیں گے۔ ہشام نے کہا زندیق کا سوال یہ تھا کہ وجود خدا پر دلیل کیا ہے، امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا دنیا کی عجیب و غریب چیزوں کا وجود اس کی دلیل ہے کہ ان کا کوئی صانع ہے جس نے ان کو بنایا ہے کیا تم کسی مضبوط عمارت کو دیکھتے ہو تو یہ نہیں سمجھتے کہ ضرور اس کا کوئی بانی ہے اگرچہ تم نے اس کو دیکھا نہ مشاہدہ کیا، اس نے پھر کہا وہ ہے کہا، فرمایا وہ ایک ذات ہے بخلاف تمام اشیاء عالم کے، میں رجوع کرتا ہوں اپنے قول کی طرف اس مفہوم کو ثابت کرنے کے لیے کہ وہ ایک شے ہے حقیقت الشیئہ کے ساتھ نہ اس کے جسم ہے نہ صورت، وہ محسوس ہوتا ہے نہ حواس خمسہ سے اس کا ادراک ہوتا ہے نہ اوہام اس کو پاتے ہیں نہ گردش دہر اس کو ناقص بناتی ہے نہ زمانے اس میں تغیر پیدا کرتے ہیں۔

حدیث نمبر 6

مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ قَالَ حَدَّثَنِي عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْبَرْقِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ النُّعْمَانِ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ فَرْقَدٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الزُّهْرِيِّ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ كَفَى لاولِي الالْبَابِ بِخَلْقِ الرَّبِّ الْمُسَخِّرِ وَمُلْكِ الرَّبِّ الْقَاهِرِ وَجَلالِ الرَّبِّ الظَّاهِرِ وَنُورِ الرَّبِّ الْبَاهِرِ وَبُرْهَانِ الرَّبِّ الصَّادِقِ وَمَا أَنْطَقَ بِهِ أَلْسُنَ الْعِبَادِ وَمَا أَرْسَلَ بِهِ الرُّسُلَ وَمَا أَنْزَلَ عَلَى الْعِبَادِ دَلِيلاً عَلَى الرَّبِّ۔

فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے کہ عقلمندوں کے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ دنیا کی ہر شے اس کی تسخیر میں ہے اور وہ رب قاہر ہے صاحب عظمت و جلال ہے اور اس کی قدرت ظاہر ہے اس کا نور باہر ہے اس کی قدرت کی دلیلیں روشن ہیں اور وہ صادق ہے اس کی قدرت کی دلیلیں اس کے بندوں کی زبانیں ہیں اور رسولوں کا بھیجنا ہے اور جو بندوں پر نازل کیا ہے۔