مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

(1-20)

بدعت و رائے و قیاس

حدیث نمبر 1

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الاشْعَرِيُّ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْوَشَّاءِ وَعِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ جَمِيعاً عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ خَطَبَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام النَّاسَ فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا بَدْءُ وُقُوعِ الْفِتَنِ أَهْوَاءٌ تُتَّبَعُ وَأَحْكَامٌ تُبْتَدَعُ يُخَالَفُ فِيهَا كِتَابُ الله يَتَوَلَّى فِيهَا رِجَالٌ رِجَالاً فَلَوْ أَنَّ الْبَاطِلَ خَلَصَ لَمْ يَخْفَ عَلَى ذِي حِجًى وَلَوْ أَنَّ الْحَقَّ خَلَصَ لَمْ يَكُنِ اخْتِلافٌ وَلَكِنْ يُؤْخَذُ مِنْ هَذَا ضِغْثٌ وَمِنْ هَذَا ضِغْثٌ فَيُمْزَجَانِ فَيَجِيئَانِ مَعاً فَهُنَالِكَ اسْتَحْوَذَ الشَّيْطَانُ عَلَى أَوْلِيَائِهِ وَنَجَا الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَ الله الْحُسْنَى۔

امیر المومنین علیہ السلام نے ایک خطبہ میں فرمایا کہ لوگو فتنوں کی ابتداء خواہشات نفسانی کی پیروی اور اپنی طرف سے ان احکام کی ایجادات سے ہوتی ہے جو کتاب اللہ کے سراسر خلاف ہوتے ہیں اور لوگ لوگوں کو اس میں صاحبِ تصرف بنا لیتے ہیں پس اگر باطل کی صورت سے سامنے آتا ہے تو صاحبِ عقل سے پوشیدہ نہ رہتا اور حق خالص صورت میں ہوتا تو اختلاف پیدا ہی نہ ہوتا، لیکن ہوتا یہ ہے کہ کچھ باطل سے لیا جاتا ہے اور کچھ حق سے اور یہ دونوں خلط ملط ہو کر لوگوں کے سامنے آتے ہیں اس صورت میں شیطان اپنے اولیاء پر غالب آ جاتا ہے اور نجات پاتے ہیں باطل سے وہ لوگ جن کے لیے مشیتِ ایزدی میں بہترین منزلت ہے یعنی جنت۔

حدیث نمبر 2

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُمْهُورٍ الْعَمِّيِّ يَرْفَعُهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله ﷺ إِذَا ظَهَرَتِ الْبِدَعُ فِي أُمَّتِي فَلْيُظْهِرِ الْعَالِمُ عِلْمَهُ فَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ الله۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب بدعت میری امت میں ظاہر ہو تو عالم کو چاہیے کہ وہ اپنے علم کو ظاہر کرے اور جو ایسا نہیں کرے گا اس پر اللہ کی لعنت۔

حدیث نمبر 3

وَبِهَذَا الاسْنَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُمْهُورٍ رَفَعَهُ قَالَ مَنْ أَتَى ذَا بِدْعَةٍ فَعَظَّمَهُ فَإِنَّمَا يَسْعَى فِي هَدْمِ الاسْلامِ۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو کوئی صاحبِ بدعت کے پاس آیا اور اس کی بزرگی کا اقرار کیا تو اس نے اسلام کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔

حدیث نمبر 4

وَبِهَذَا الاسْنَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُمْهُورٍ رَفَعَهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله ﷺ أَبَى الله لِصَاحِبِ الْبِدْعَةِ بِالتَّوْبَةِ قِيلَ يَا رَسُولَ الله وَكَيْفَ ذَلِكَ قَالَ إِنَّهُ قَدْ أُشْرِبَ قَلْبُهُ حُبَّهَا۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خدا نے صاحبِ بدعت کی توبہ قبول کرنے سے انکار فرمایا ہے کسی نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ یہ کیوں، فرمایا اس لیے کہ اس کے دل میں بدعت کی محبت راسخ ہو گئی۔ خدا جانتا ہے کہ وہ ترکِ بدعت نہیں کرے گا۔

حدیث نمبر 5

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ وَهْبٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام يَقُولُ قَالَ رَسُولُ الله ﷺ إِنَّ عِنْدَ كُلِّ بِدْعَةٍ تَكُونُ مِنْ بَعْدِي يُكَادُ بِهَا الايمَانُ وَلِيّاً مِنْ أَهْلِ بَيْتِي مُوَكَّلاً بِهِ يَذُبُّ عَنْهُ يَنْطِقُ بِإِلْهَامٍ مِنَ الله وَيُعْلِنُ الْحَقَّ وَيُنَوِّرُهُ وَيَرُدُّ كَيْدَ الْكَائِدِينَ يُعَبِّرُ عَنِ الضُّعَفَاءِ فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الابْصَارِ وَتَوَكَّلُوا عَلَى الله۔

فرمایا حضرت رسولِ خدا ﷺ نے ہر بدعت پر جو واقع ہو گی میرے بعد تو اس پر جنگ کی جائیگی خدا اور رسول کی طرف مائل کرنے کے لیے اور اس کے لیے ولی ہو گا۔ میرے اہلبیت سے ایک شخص جو نگہبان دین و مؤکل ہو گا دشمنوں کے حملوں کو احکام دین کے متعلق دفاع کریگا امر حق کا اعلان کرے گا اور بمطابق الہامِ الٰہی کلام کرے گا اور مکاروں کے مکر و فریب کو دفع کریگا ضعیفوں کی طرف سے گفتگو کرے گا، پس اے صاحبانِ عقل عبرت حاصل کرو اور اللہ پر توکل کرو۔

حدیث نمبر 6

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ وَعَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ هَارُونَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ مَسْعَدَةَ بْنِ صَدَقَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام وَعَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ رَفَعَهُ عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام أَنَّهُ قَالَ إِنَّ مِنْ أَبْغَضِ الْخَلْقِ إِلَى الله عَزَّ وَجَلَّ لَرَجُلَيْنِ رَجُلٌ وَكَلَهُ الله إِلَى نَفْسِهِ فَهُوَ جَائِرٌ عَنْ قَصْدِ السَّبِيلِ مَشْعُوفٌ بِكَلامِ بِدْعَةٍ قَدْ لَهِجَ بِالصَّوْمِ وَالصَّلاةِ فَهُوَ فِتْنَةٌ لِمَنِ افْتَتَنَ بِهِ ضَالٌّ عَنْ هَدْيِ مَنْ كَانَ قَبْلَهُ مُضِلٌّ لِمَنِ اقْتَدَى بِهِ فِي حَيَاتِهِ وَبَعْدَ مَوْتِهِ حَمَّالٌ خَطَايَا غَيْرِهِ رَهْنٌ بِخَطِيئَتِهِ وَرَجُلٌ قَمَشَ جَهْلاً فِي جُهَّالِ النَّاسِ عَانٍ بِأَغْبَاشِ الْفِتْنَةِ قَدْ سَمَّاهُ أَشْبَاهُ النَّاسِ عَالِماً وَلَمْ يَغْنَ فِيهِ يَوْماً سَالِماً بَكَّرَ فَاسْتَكْثَرَ مَا قَلَّ مِنْهُ خَيْرٌ مِمَّا كَثُرَ حَتَّى إِذَا ارْتَوَى مِنْ آجِنٍ وَاكْتَنَزَ مِنْ غَيْرِ طَائِلٍ جَلَسَ بَيْنَ النَّاسِ قَاضِياً ضَامِناً لِتَخْلِيصِ مَا الْتَبَسَ عَلَى غَيْرِهِ وَإِنْ خَالَفَ قَاضِياً سَبَقَهُ لَمْ يَأْمَنْ أَنْ يَنْقُضَ حُكْمَهُ مَنْ يَأْتِي بَعْدَهُ كَفِعْلِهِ بِمَنْ كَانَ قَبْلَهُ وَإِنْ نَزَلَتْ بِهِ إِحْدَى الْمُبْهَمَاتِ الْمُعْضِلاتِ هَيَّأَ لَهَا حَشْواً مِنْ رَأْيِهِ ثُمَّ قَطَعَ بِهِ فَهُوَ مِنْ لَبْسِ الشُّبُهَاتِ فِي مِثْلِ غَزْلِ الْعَنْكَبُوتِ لا يَدْرِي أَصَابَ أَمْ أَخْطَأَ لا يَحْسَبُ الْعِلْمَ فِي شَيْءٍ مِمَّا أَنْكَرَ وَلا يَرَى أَنَّ وَرَاءَ مَا بَلَغَ فِيهِ مَذْهَباً إِنْ قَاسَ شَيْئاً بِشَيْءٍ لَمْ يُكَذِّبْ نَظَرَهُ وَإِنْ أَظْلَمَ عَلَيْهِ أَمْرٌ اكْتَتَمَ بِهِ لِمَا يَعْلَمُ مِنْ جَهْلِ نَفْسِهِ لِكَيْلا يُقَالَ لَهُ لا يَعْلَمُ ثُمَّ جَسَرَ فَقَضَى فَهُوَ مِفْتَاحُ عَشَوَاتٍ رَكَّابُ شُبُهَاتٍ خَبَّاطُ جَهَالاتٍ لا يَعْتَذِرُ مِمَّا لا يَعْلَمُ فَيَسْلَمَ وَلا يَعَضُّ فِي الْعِلْمِ بِضِرْسٍ قَاطِعٍ فَيَغْنَمَ يَذْرِي الرِّوَايَاتِ ذَرْوَ الرِّيحِ الْهَشِيمَ تَبْكِي مِنْهُ الْمَوَارِيثُ وَتَصْرُخُ مِنْهُ الدِّمَاءُ يُسْتَحَلُّ بِقَضَائِهِ الْفَرْجُ الْحَرَامُ وَيُحَرَّمُ بِقَضَائِهِ الْفَرْجُ الْحَلالُ لا مَلِيءٌ بِإِصْدَارِ مَا عَلَيْهِ وَرَدَ وَلا هُوَ أَهْلٌ لِمَا مِنْهُ فَرَطَ مِنِ ادِّعَائِهِ عِلْمَ الْحَقِّ۔

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا کے نزدیک سب سے بدتر دشمن دو ہیں ایک وہ کہ خدا نے چھوڑا اس کے کام کو اس پر کہ سلب توفیق کی اس سے کہ وہ امامِ حق سے بے مکابرہ و اختلاف امرِ حق کو حاصل کرے پس وہ راہِ راست سے ہٹ گیا اور اپنے پُر از بدعت کلام کا عاشق بن گیا اور بجائے احکامِ قرآن اور صحیح دلائل کو لینے کے وہ روزہ ونماز پر فریفتہ ہو کر رہ گیا اور ایک فتنہ ہے اپنے مریدوں کے لیے اور راہِ حق سے ہٹانے والا ہے اپنی زندگی میں ان لوگوں کو جو اس کی بات قبول کریں اور اپنی موت کے بعد بھی اپنی پیروی کرنیوالوں کے لیے وہ دوسروں کے گناہوں کا اٹھانے والا ہے اور اپنے گناہوں میں گرفتار ہے، دوسرے وہ قاضی اور مفتی وغیرہ جو جہل مرکب کا شکار ہو کر دوسروں کو جہالت میں پھانستا ہے اور فتنوں کو پھیلانے میں مدد دیتا ہے اور عوام الناس نے جو جاہل ہیں اس کو عالم سمجھ رکھا ہے، حالانکہ اس کا ایک دن بھی احکامِ الٰہیہ کے متعلق شبہ سے خالی نہیں۔ اس کے جہل مرکب کا نشان یہ ہے کہ جلدی جلدی اس نے بہت کچھ حاصل کر لیا اس چیز کو جس کا بہتر کم ہے اس کے زیادہ سے ، یہاں تک کہ جب وہ آبِ گندہ سے سیراب ہو گیا اور لاطائل باتوں سے پر ہو گیا تو قاضی بن بیٹھا اور ضامن بن بیٹھا لوگوں کو شبہات سے نکالنے کا۔ اگر اس نے اپنے سے پہلے قاضی کے حکم کی مخالفت کی تو وہ بے خوف نہ ہوا اس سے کہ اس کے بعد آنے والا اس کے حکم کو اس طرح توڑ دے گا جس طرح اس نے اپنے سے پہلے کو توڑا ہے اور اگر کوئی سخت مسئلہ سامنے آ جاتا ہے تو اپنی رائے سے انٹ سنٹ بیان کرنے لگتا ہے پھر ان نامعقول باتوں پر معاملہ کو ختم کر دیتا ہے اور شبہات کی پردہ پوشی کے لیے حکم لگاتا ہے جس کی مثال مکڑی کے جالا تننے کی ہے نہ اسے یہ پتہ ہے کہ یہ رائے اس کی صحیح ہے یا غلط، اور اس کے گمان میں یہ بات نہیں کہ جس سے انکار کیا ہے علم اسی میں ہے اور نہیں سمجھتا کہ پیرویِ ظن اور قیاس آرائی میں پڑا ہوا ہے۔ مذہب اس سے بالکل الگ ہے اگر قیاس کرتا ہے ایک چیز کا دوسری چیز پر بہ سبب دونوں کے مشابہ ہونے کے تو اپنی فکر کو غلط نہیں سمجھتا۔ اگر کوئی امر مخفی اس پر تاریک ہو جاتا ہے یعنی اپنے قیاس کی راہ میں نہیں پاتا تو چھپاتا ہے اس کو اپنے جہالت آگیں علم سے تاکہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ وہ نہیں جانتا، پس جسارت کر کے حکم لگاتا ہے اور کنجی بنتا اندھا پن کی بسیار شبہات کی اور شکوک اوہام سے خبط الحواسی کرتا ہے جو نہیں جانتا اس کے متعلق عذر نہیں کرتا تاکہ گمراہی سے بچے، اور پوری قوت سے علم حاصل نہیں کرتا تاکہ غنیمت علم و دانش حاصل کرے اور احادیث اس طرح پراگندہ کرتا ہے جیسے تیز ہوا گھاس کو اس کے غلط حکم دینے سے میراث روتی ہے اور مظلوموں کے خون چیخیں مارتے ہیں اس نے اپنے فتوے سے حرام شرمگاہوں کو حلال کر دیا اور اپنے فیصلہ میں حلال شرمگاہوں کو حرام بنا دیا۔ جو احکام اس سے صادر ہوئے وہ ان کے لیے پر از علم نہیں اور علم حق کے متعلق جو کرتا ہے وہ اس کا اہل نہیں۔

حدیث نمبر 7

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْوَشَّاءِ عَنْ أَبَانِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أَبِي شَيْبَةَ الْخُرَاسَانِيِّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام يَقُولُ إِنَّ أَصْحَابَ الْمَقَايِيسِ طَلَبُوا الْعِلْمَ بِالْمَقَايِيسِ فَلَمْ تَزِدْهُمُ الْمَقَايِيسُ مِنَ الْحَقِّ إِلا بُعْداً وَإِنَّ دِينَ الله لا يُصَابُ بِالْمَقَايِيسِ۔

میں نے حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام سے سنا کہ قیاس کرنے والے لوگ علم کو قیاس میں تلاش کرتے ہیں لیکن یہ قیاسات انھیں حق سے دور ہی ہٹاتے جاتے ہیں۔ دین قیاسات سے حاصل نہیں ہوتا۔

حدیث نمبر 8

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ رَفَعَهُ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ وَأَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالا كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ وَكُلُّ ضَلالَةٍ سَبِيلُهَا إِلَى النَّارِ۔

فرمایا امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہم السلام نے کہ ہر بدعت ضلالت ہے اور ہر ضلالت کا راستہ جہنم کی طرف ہے۔

حدیث نمبر 9

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَكِيمٍ قَالَ قُلْتُ لابِي الْحَسَنِ مُوسَى علیہ السلام جُعِلْتُ فِدَاكَ فُقِّهْنَا فِي الدِّينِ وَأَغْنَانَا الله بِكُمْ عَنِ النَّاسِ حَتَّى إِنَّ الْجَمَاعَةَ مِنَّا لَتَكُونُ فِي الْمَجْلِسِ مَا يَسْأَلُ رَجُلٌ صَاحِبَهُ تَحْضُرُهُ الْمَسْأَلَةُ وَيَحْضُرُهُ جَوَابُهَا فِيمَا مَنَّ الله عَلَيْنَا بِكُمْ فَرُبَّمَا وَرَدَ عَلَيْنَا الشَّيْءُ لَمْ يَأْتِنَا فِيهِ عَنْكَ وَلا عَنْ آبَائِكَ شَيْءٌ فَنَظَرْنَا إِلَى أَحْسَنِ مَا يَحْضُرُنَا وَأَوْفَقِ الاشْيَاءِ لِمَا جَاءَنَا عَنْكُمْ فَنَأْخُذُ بِهِ فَقَالَ هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ فِي ذَلِكَ وَالله هَلَكَ مَنْ هَلَكَ يَا ابْنَ حَكِيمٍ قَالَ ثُمَّ قَالَ لَعَنَ الله أَبَا حَنِيفَةَ كَانَ يَقُولُ قَالَ عَلِيٌّ وَقُلْتُ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ حَكِيمٍ لِهِشَامِ بْنِ الْحَكَمِ وَالله مَا أَرَدْتُ إِلا أَنْ يُرَخِّصَ لِي فِي الْقِيَاسِ۔

محمد ابن حکیم سے مروی ہے کہ میں نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے کہا میں آپ پر فدا ہوں ہم نے علمِ دین حاصل کیا اور آپ کی وجہ سے ہم دوسروں سے علم حاصل کرنے سے بے پروا ہو گئے یہاں تک کہ ہم میں سے کچھ لوگ جب جلسوں میں جاتے ہیں اور لوگ ہم سے سوال کرتے ہیں تو ہم ان کے جواب دے دیتے ہیں اس لیے کہ خدا نے ہم پر احسان کیا ہے آپ لوگوں کی وجہ سے لیکن بعض اوقات ایسے سوالات بھی سامنے آ جاتے ہیں کہ ہم نے ان کا جواب نہ آپ سے حاصل کیا نہ آپ کے آبائے طاہریں سے، پس ایسے موقع پر جو ہمیں آتا ہے اسکے ہر پہلو پر غور کر کے جواب دے دیتے ہیں ۔ اے ابن حکم افسوس افسوس کیا یہ صحیح ہے فرمایا اس میں ہلاکت ہے جس نے ایسا کیا وہ ہلاک ہوا۔ پھر فرمایا خدا لعنت کرے ابوحنیفہ پر کہ وہ کہتا ہے اس مسئلہ میں علی یہ کہتے ہیں اور میں یہ کہتا ہوں یعنی میرا قول ان کے قول سے بہتر ہے۔ محمد بن حکیم کہتے ہیں کہ میں نے ہشام بن عبدالحکم سے کہا واللہ میں چاہتا تھا کہ مجھے مسائلِ دین میں قیاس کرنے کی اجازت مل جاتی۔

حدیث نمبر 10

مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الله رَفَعَهُ عَنْ يُونُسَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ قُلْتُ لابِي الْحَسَنِ الاوَّلِ علیہ السلام بِمَا أُوَحِّدُ الله فَقَالَ يَا يُونُسُ لا تَكُونَنَّ مُبْتَدِعاً مَنْ نَظَرَ بِرَأْيِهِ هَلَكَ وَمَنْ تَرَكَ أَهْلَ بَيْتِ نَبِيِّهِ ﷺ ضَلَّ وَمَنْ تَرَكَ كِتَابَ الله وَقَوْلَ نَبِيِّهِ كَفَرَ۔

یونس بن عبدالرحمٰن سے مروی ہے کہ میں نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے پوچھا کیا امر ہے جس سے واحدانیت باری تعالیٰ کی شناخت کسی میں پائی جائے۔ فرمایا اے یونس بدعت پسند نہ بن، جس نے احکامِ دین میں اپنی رائے سے عمل کیا وہ ہلاک ہوا اور جس نے اپنے نبی کے اہلبیت کو چھوڑا ہلاک ہوا اور جس نے کتابِ خدا اور قولِ نبی کو ترک کیا وہ کافر ہوا۔

حدیث نمبر 11

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْوَشَّاءِ عَنْ مُثَنًّى الْحَنَّاطِ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ قُلْتُ لابِي عَبْدِ الله علیہ السلام تَرِدُ عَلَيْنَا أَشْيَاءُ لَيْسَ نَعْرِفُهَا فِي كِتَابِ الله وَلا سُنَّةٍ فَنَنْظُرُ فِيهَا فَقَالَ لا أَمَا إِنَّكَ إِنْ أَصَبْتَ لَمْ تُؤْجَرْ وَإِنْ أَخْطَأْتَ كَذَبْتَ عَلَى الله عَزَّ وَجَلَّ۔

راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا کہ ہم پر کبھی ایسے مسائل پیش کیے جاتے ہیں جن کا جواب ہم کو نہ قرآن میں ملتا ہے نہ حدیث میں، پس ہم خود ہی غور کر کے جواب دے دیتے ہیں۔ فرمایا خبردار ایسا نہ کرنا اگر تمہارا قیاس ٹھیک ہوا تو اس کا اجر ملے گا اور اگر تم نے غلطی کی تو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولا۔

حدیث نمبر 12

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبَانٍ الْكَلْبِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحِيمِ الْقَصِيرِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ قَالَ رَسُولُ الله ﷺ كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ وَكُلُّ ضَلالَةٍ فِي النَّارِ۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر بدعت ضلالت ہے اور ہر ضلالت کا نتیجہ جہنم ہے۔

حدیث نمبر 13

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ يُونُسَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ سَمَاعَةَ بْنِ مِهْرَانَ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ مُوسَى علیہ السلام قَالَ قُلْتُ أَصْلَحَكَ الله إِنَّا نَجْتَمِعُ فَنَتَذَاكَرُ مَا عِنْدَنَا فَلا يَرِدُ عَلَيْنَا شَيْءٌ إِلا وَعِنْدَنَا فِيهِ شَيْءٌ مُسَطَّرٌ وَذَلِكَ مِمَّا أَنْعَمَ الله بِهِ عَلَيْنَا بِكُمْ ثُمَّ يَرِدُ عَلَيْنَا الشَّيْءُ الصَّغِيرُ لَيْسَ عِنْدَنَا فِيهِ شَيْءٌ فَيَنْظُرُ بَعْضُنَا إِلَى بَعْضٍ وَعِنْدَنَا مَا يُشْبِهُهُ فَنَقِيسُ عَلَى أَحْسَنِهِ فَقَالَ وَمَا لَكُمْ وَلِلْقِيَاسِ إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ هَلَكَ مِنْ قَبْلِكُمْ بِالْقِيَاسِ ثُمَّ قَالَ إِذَا جَاءَكُمْ مَا تَعْلَمُونَ فَقُولُوا بِهِ وَإِنْ جَاءَكُمْ مَا لا تَعْلَمُونَ فَهَا وَأَهْوَى بِيَدِهِ إِلَى فِيهِ ثُمَّ قَالَ لَعَنَ الله أَبَا حَنِيفَةَ كَانَ يَقُولُ قَالَ عَلِيٌّ وَقُلْتُ أَنَا وَقَالَتِ الصَّحَابَةُ وَقُلْتُ ثُمَّ قَالَ أَ كُنْتَ تَجْلِسُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ لا وَلَكِنْ هَذَا كَلامُهُ فَقُلْتُ أَصْلَحَكَ الله أَتَى رَسُولُ الله ﷺ النَّاسَ بِمَا يَكْتَفُونَ بِهِ فِي عَهْدِهِ قَالَ نَعَمْ وَمَا يَحْتَاجُونَ إِلَيْهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ فَقُلْتُ فَضَاعَ مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ فَقَالَ لا هُوَ عِنْدَ أَهْلِهِ۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر بدعت ضلالت ہے سماعہ بن مہران نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے کہا اللہ آپ کی حفاظت کرے ہم جب ایک جگہ جمع ہوتے ہیں تو آپ کی احادیث کو یاد کرتے ہیں جو سوال ہم سے کیا جاتا ہے اس کا جواب ان احادیث میں پا لیتے ہیں جو ہمارے پاس لکھی ہوئی ہیں اور یہ وہ نعمت ہے جو اللہ نے آپ کی بدولت ہم کو دی ہے لیکن بعض اوقات کوئی ہلکا سا مسئلہ ایسا بھی ہم سے پوچھا جاتا ہے جس کا جواب ان احادیث میں ہم کو نہیں ملتا اور ہم ایک دوسرے کو تکنے لگتے ہیں اور دلوں میں شبہات پیدا ہوتے ہیں ہم اس وقت کسی اچھے قیاس سے کام لیتے ہیں۔ فرمایا قیاس سے تمہارا کیا تعلق، اسی قیاس کی بنا پر تم سے پہلے بہت سے لوگ ہلاک ہو گئے۔ پھر فرمایا جب تم سے ایسا سوال کیا جائے جس کا جواب تم کو معلوم ہے تو اسے بیان کرو اور اگر معلوم نہ ہو تو حضرت نے اپنے دہن مبارک کی طرف اشارہ کیا کہ ہم سے پوچھا کرو۔ پھر فرمایا اللہ لعنت کرے ابوحنیفہ پر کہ وہ کہا کرتا ہے علی نے یہ کہا اور میں یہ کہتا ہوں یعنے میرا قول علی سے بہتر ہے اور صحابہ نے یہ کہا ہے اور میں یہ کہتا ہوں میرا قول ان سے بہتر ہے۔ پھر فرمایا کیا تم اس کے پاس بیٹھا کرتے ہو، میں نے کہا نہیں لیکن یہ جانتا ہوں کہ وہ ایسی باتیں کرتا ہے۔ میں نے کہا خدا آپ کا نگہبان ہو کیا رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو اتنا بتا دیا تھا جو حضرت کے زمانہ میں ان کے لیے کافی ہوتا۔ فرمایا بے شک اتنا بتا دیا تھا جس کی ضرورت ان کو قیامت تک ہو گی۔ میں نے کہا کیا اس سے کچھ ضائع ہو گیا، فرمایا نہیں وہ علم اس کے اہل یعنی ہمارے پاس ہے۔

حدیث نمبر 14

عَنْهُ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ أَبَانٍ عَنْ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام يَقُولُ ضَلَّ عِلْمُ ابْنِ شُبْرُمَةَ عِنْدَ الْجَامِعَةِ إِمْلاءِ رَسُولِ الله ﷺ وَخَطِّ علي علیہ السلام بِيَدِهِ إِنَّ الْجَامِعَةَ لَمْ تَدَعْ لاحَدٍ كَلاماً فِيهَا عِلْمُ الْحَلالِ وَالْحَرَامِ إِنَّ أَصْحَابَ الْقِيَاسِ طَلَبُوا الْعِلْمَ بِالْقِيَاسِ فَلَمْ يَزْدَادُوا مِنَ الْحَقِّ إِلا بُعْداً إِنَّ دِينَ الله لا يُصَابُ بِالْقِيَاسِ۔

راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا، فرمایا کہ ابن شبرمتہ کا علم (عہد عباسیہ کا قاضی) ضائع ہو گیا جامعہ سے (مصحف فاطمہ) جس کو لکھوایا رسول اللہ نے اور اپنے ہاتھ سے لکھا علی علیہ السلام نے۔ اس میں کوئی ایسی بات نہیں چھوڑی گئی جس میں کسی کو کلام کی گنجائش ہو۔ اس میں علم حلال و حرام ہے قیاس کرنے والوں نے علم کو قیاس میں کیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ امر حق سے دور ہوتے چلے گئے، خدا کے دین میں قیاس کا دخل نہیں۔

حدیث نمبر 15

مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَجَّاجِ عَنْ أَبَانِ بْنِ تَغْلِبَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ إِنَّ السُّنَّةَ لا تُقَاسُ أَ لا تَرَى أَنَّ امْرَأَةً تَقْضِي صَوْمَهَا وَلا تَقْضِي صَلاتَهَا يَا أَبَانُ إِنَّ السُّنَّةَ إِذَا قِيسَتْ مُحِقَ الدِّينُ۔

ابان بن تغلب سے مروی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ شریعت میں قیاس کو دخل نہیں۔ کیا تو نہیں دیکھتا کہ عورت زمانہ حیض کے روزے ادا کرتی ہے مگر نمازیں نہیں حالانکہ نماز روزہ سے افضل ہے، جب شریعت میں قیاس کو دخل ہو گا تو دین برباد ہو جائے گا۔

حدیث نمبر 16

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِيسَى قَالَ سَأَلْتُ أَبَا الْحَسَنِ مُوسَى علیہ السلام عَنِ الْقِيَاسِ فَقَالَ مَا لَكُمْ وَالْقِيَاسَ إِنَّ الله لا يُسْأَلُ كَيْفَ أَحَلَّ وَكَيْفَ حَرَّمَ۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے میں نے پوچھا قیاس کے متعلق ، فرمایا قیاس سے تمہارا کیا تعلق، خدا سے یہ سوال نہیں ہو گا کہ کسی چیز کو حلال کیوں کیا اور حرام کیوں کیا (سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا کہ حلال و حرام کرنے کی وجہ کیا ہے )۔

حدیث نمبر 17

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ هَارُونَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ مَسْعَدَةَ بْنِ صَدَقَةَ قَالَ حَدَّثَنِي جَعْفَرٌ عَنْ أَبِيهِ علیہ السلام أَنَّ عَلِيّاً ﷺ قَالَ مَنْ نَصَبَ نَفْسَهُ لِلْقِيَاسِ لَمْ يَزَلْ دَهْرَهُ فِي الْتِبَاسٍ وَمَنْ دَانَ الله بِالرَّأْيِ لَمْ يَزَلْ دَهْرَهُ فِي ارْتِمَاسٍ قَالَ وَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام مَنْ أَفْتَى النَّاسَ بِرَأْيِهِ فَقَدْ دَانَ الله بِمَا لا يَعْلَمُ وَمَنْ دَانَ الله بِمَا لا يَعْلَمُ فَقَدْ ضَادَّ الله حَيْثُ أَحَلَّ وَحَرَّمَ فِيمَا لا يَعْلَمُ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے والد ماجد سے روایت کی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا جس نے احکام الٰہیہ میں قیاس کو راہ دی وہ ہمیشہ شبہات میں مبتلا رہا اور جس نے عملِ آخرت اپنی رائے اور پیرویِ ظن سے کیا وہ ہمیشہ شبہات میں ڈوبا رہا، فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو لوگوں کو فتوے دیتا ہے وہ اپنی رائے سے عملِ آخرت کرتا ہے اس چیز سے جس کو وہ نہیں جانتا اور جو باوجود جاننے کے ایسا کرتا ہے وہ خدا کا مقابلہ کرتا ہے حرام و حلال قرار دینے میں ان چیزوں کے جن کا اس کو علم نہیں۔

حدیث نمبر 18

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ يَقْطِينٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ مَيَّاحٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ إِنَّ إِبْلِيسَ قَاسَ نَفْسَهُ بِآدَمَ فَقَالَ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ وَلَوْ قَاسَ الْجَوْهَرَ الَّذِي خَلَقَ الله مِنْهُ آدَمَ بِالنَّارِ كَانَ ذَلِكَ أَكْثَرَ نُوراً وَضِيَاءً مِنَ النَّارِ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ شیطان نے قیاس کیا اپنے نفس کا نفسِ آدمؑ پر اور کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے، اس نے قیاس کیا آگ کا مٹی پر۔ اگر وہ قیاس کرتا اس جوہر کا جس سے خدا نے آدمؑ کو پیدا کیا تو وہ پاتا اس کو نور اور ضیاء میں نار سے بہتر۔

حدیث نمبر 19

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَةَ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام عَنِ الْحَلالِ وَالْحَرَامِ فَقَالَ حَلالُ مُحَمَّدٍ حَلالٌ أَبَداً إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَحَرَامُهُ حَرَامٌ أَبَداً إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لا يَكُونُ غَيْرُهُ وَلا يَجِيءُ غَيْرُهُ وَقَالَ قَالَ علي علیہ السلام مَا أَحَدٌ ابْتَدَعَ بِدْعَةً إِلا تَرَكَ بِهَا سُنَّةً۔

میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے حلال و حرام کے متعلق پوچھا، فرمایا جس کو آنحضرت ﷺ نے حلال بتایا ہے وہ قیامت تک حلال ہے اور جسے حرام قرار دیا ہے وہ قیامت تک حرام ہے اس کے سوا اب کوئی شریعت نہ ہو گی اور حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا جس نے شریعت میں کوئی نئی چیز ایجاد کی اس نے رسولِ خدا کے طریقہ کو چھوڑ دیا۔

حدیث نمبر 20

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ الله الْعَقِيلِيِّ عَنْ عِيسَى بْنِ عَبْدِ الله الْقُرَشِيِّ قَالَ دَخَلَ أَبُو حَنِيفَةَ عَلَى أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام فَقَالَ لَهُ يَا أَبَا حَنِيفَةَ بَلَغَنِي أَنَّكَ تَقِيسُ قَالَ نَعَمْ قَالَ لا تَقِسْ فَإِنَّ أَوَّلَ مَنْ قَاسَ إِبْلِيسُ حِينَ قَالَ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ فَقَاسَ مَا بَيْنَ النَّارِ وَالطِّينِ وَلَوْ قَاسَ نُورِيَّةَ آدَمَ بِنُورِيَّةِ النَّارِ عَرَفَ فَضْلَ مَا بَيْنَ النُّورَيْنِ وَصَفَاءَ أَحَدِهِمَا عَلَى الاخَرِ۔

ابوحنیفہ ایک روز امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس آئے، حضرت نے فرمایا میں نے سنا ہے کہ تم شرع میں قیاس کرتے ہو۔ انھوں نے کہا کہ ہاں، فرمایا قیاس نہ کیا کرو، سب سے پہلے قیاس کرنے والا ابلیس ہے اس نے کہا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور آدم کو مٹی سے۔ اس نے آگ اور مٹی کے درمیان قیاس کیا۔ اگر قیاس کرتا نورانیت آدم کا آگ پر تو دونوں کی نورانیت ظاہر ہو جاتی اورنور کو جو فضیلت نار پر ہے وہ اس سے پوشیدہ نہ رہتی۔

حدیث نمبر 21

عَلِيٌّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ عَنْ قُتَيْبَةَ قَالَ سَأَلَ رَجُلٌ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام عَنْ مَسْأَلَةٍ فَأَجَابَهُ فِيهَا فَقَالَ الرَّجُلُ أَ رَأَيْتَ إِنْ كَانَ كَذَا وَكَذَا مَا يَكُونُ الْقَوْلُ فِيهَا فَقَالَ لَهُ مَهْ مَا أَجَبْتُكَ فِيهِ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ عَنْ رَسُولِ الله ﷺ لَسْنَا مِنْ أَ رَأَيْتَ فِي شَيْءٍ۔

ایک شخص امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس آیا اور ایک مسئلہ پوچھا، آپ نے اس کا جواب دیدیا۔ اس نے کہا کہ اگر یہ مسئلہ اس طرح ہوتا تو آپ کا جواب کیا ہوتا، فرمایا خاموش میں نے جو جواب دیا وہ وہی ہے جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے نقل کیا ہے، ہم خود اپنی طرف سے نہیں کہتے۔

حدیث نمبر 22

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِيهِ مُرْسَلاً قَالَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام لا تَتَّخِذُوا مِنْ دُونِ الله وَلِيجَةً فَلا تَكُونُوا مُؤْمِنِينَ فَإِنَّ كُلَّ سَبَبٍ وَنَسَبٍ وَقَرَابَةٍ وَوَلِيجَةٍ وَبِدْعَةٍ وَشُبْهَةٍ مُنْقَطِعٌ إِلا مَا أَثْبَتَهُ الْقُرْآنُ۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا اخذ احکام شریعت میں خدا کا شریک کسی کو نہ بناؤ ورنہ مومن نہ رہو گے۔ ہر سبب و نسب و قرابت شرک و بدعت و شبہ ہے، روز قیامت کام نہ دے گی مگر وہی چیز جو قرآن سے ثابت ہے۔