عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ الطَّيَالِسِيِّ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام يَقُولُ لَمْ يَزَلِ الله عَزَّ وَجَلَّ رَبَّنَا وَالْعِلْمُ ذَاتُهُ وَلا مَعْلُومَ وَالسَّمْعُ ذَاتُهُ وَلا مَسْمُوعَ وَالْبَصَرُ ذَاتُهُ وَلا مُبْصَرَ وَالْقُدْرَةُ ذَاتُهُ وَلا مَقْدُورَ فَلَمَّا أَحْدَثَ الاشْيَاءَ وَكَانَ الْمَعْلُومُ وَقَعَ الْعِلْمُ مِنْهُ عَلَى الْمَعْلُومِ وَالسَّمْعُ عَلَى الْمَسْمُوعِ وَالْبَصَرُ عَلَى الْمُبْصَرِ وَالْقُدْرَةُ عَلَى الْمَقْدُورِ قَالَ قُلْتُ فَلَمْ يَزَلِ الله مُتَحَرِّكاً قَالَ فَقَالَ تَعَالَى الله عَنْ ذَلِكَ إِنَّ الْحَرَكَةَ صِفَةٌ مُحْدَثَةٌ بِالْفِعْلِ قَالَ قُلْتُ فَلَمْ يَزَلِ الله مُتَكَلِّماً قَالَ فَقَالَ إِنَّ الْكَلامَ صِفَةٌ مُحْدَثَةٌ لَيْسَتْ بِأَزَلِيَّةٍ كَانَ الله عَزَّ وَجَلَّ وَلا مُتَكَلِّمَ۔
ابوبصیر سے مروی ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو کہتے سنا کہ خدائے عزوجل ہمارا رب ہمیشہ سے ہے علم اس کی ذات ہے وہ ہمارا جانا ہوا نہیں۔ سمع اس کی ذات ہے وہ سنا ہوا نہیں، بصر اس کی ذات ہے وہ دیکھا ہوا نہیں، قدرت اس کی ذات ہے وہ قدرت دیا ہوا نہیں (یعنی اس کی تمام صفات عین ذات ہیں حدوث کا ان سے تعلق نہیں۔ اس کی صفات ہماری سی نہیں کہ وہ ہماری ذات کو عارض ہوتی ہے) اس نے چیزوں کو پیدا کیا اور وہ معلوم نہیں ہے اور ہمارا علم واقع ہوا پیدا ہونے کے بعد۔ اسی طرح سمع سے مسموع پر اور بصر سے مبصر پر اور قدرت سے مقدور پر واقع العلم علی المعلوم سے مراد یہ ہے کہ وہ متعلق ہوا اس چیز سے جو اس کو معلوم تھی ازل میں اس کا علم اس پر منطبق ہوا۔ وقوع علم علی المعلوم سے مقصود یہ ہے کہ وہ چیز اس کے علم میں حاضر و موجود تھی اس کا علم متعلق تھا اس شے سے۔
علی وجہ الغیبت اس کا وجود بعد میں ہوا پس تغیر کا تعلق معلوم سے ہے نہ کی علم سے۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ ہمیشہ متحرک رہا بحرکتِ فکریہ ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا خدا بزرگ و برتر ہے اس سے۔ کیونکہ حرکت ایک صفتِ حادث ہے فعل کے ساتھ یعنی مخلوق ایک فعل ہے دوسرے فعل کی طرح۔ محتاج حرکت ہے نہ کہ خالق، ورنہ اس میں اور مخلوق میں فرق نہ رہے گا۔
راوی نے کہا تو کیا خدا ہمیشہ کلام کرنے والا رہا ہے۔ فرمایا کلام تو ایک صفت حادث ہے قدیم نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری طرح کلام کرنے والا نہیں.
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ كَانَ الله عَزَّ وَجَلَّ وَلا شَيْءَ غَيْرُهُ وَلَمْ يَزَلْ عَالِماً بِمَا يَكُونُ فَعِلْمُهُ بِهِ قَبْلَ كَوْنِهِ كَعِلْمِهِ بِهِ بَعْدَ كَوْنِهِ۔
فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے کہ خدائے عزوجل ہے اور اس کے سوا کوئی شے نہیں وہ ہمیشہ سے عالم ہے پس خلق عالم سے پہلے بھی اس کا علم اسی طرح تھا جیسا کہ اس کے بعد۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى عَنِ الْكَاهِلِيِّ قَالَ كَتَبْتُ إِلَى أَبِي الْحَسَنِ علیہ السلام فِي دُعَاءٍ الْحَمْدُ لله مُنْتَهَى عِلْمِهِ فَكَتَبَ إِلَيَّ لا تَقُولَنَّ مُنْتَهَى عِلْمِهِ فَلَيْسَ لِعِلْمِهِ مُنْتَهًى وَلَكِنْ قُلْ مُنْتَهَى رِضَاهُ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام رضا علیہ السلام کو لکھا، اس طرح دعا کرنے کے متعلق کہ حمد ہے اس خدا کی جس کا علم انتہا درجہ کا ہے۔ حضرت نے لکھا ایسا نہ کہو، اس کے علم کے لیے انتہا کا لفظ کہنا درست نہیں، بلکہ یوں کہو حمد ہے اس خدا کی جس کی رضا انتہا درجہ کی ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ أَيُّوبَ بْنِ نُوحٍ أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى أَبِي الْحَسَنِ علیہ السلام يَسْأَلُهُ عَنِ الله عَزَّ وَجَلَّ أَكَانَ يَعْلَمُ الاشْيَاءَ قَبْلَ أَنْ خَلَقَ الاشْيَاءَ وَكَوَّنَهَا أَوْ لَمْ يَعْلَمْ ذَلِكَ حَتَّى خَلَقَهَا وَأَرَادَ خَلْقَهَا وَتَكْوِينَهَا فَعَلِمَ مَا خَلَقَ عِنْدَ مَا خَلَقَ وَمَا كَوَّنَ عِنْدَ مَا كَوَّنَ فَوَقَّعَ بِخَطِّهِ لَمْ يَزَلِ الله عَالِماً بِالاشْيَاءِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ الاشْيَاءَ كَعِلْمِهِ بِالاشْيَاءِ بَعْدَ مَا خَلَقَ الاشْيَاءَ۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے امام رضا علیہ السلام کو لکھا اور خدائے عزوجل کے متعلق یہ سوال کیا، کیا وہ خلق و تکوین اشیاء سے پہلے ان چیزوں کو جانتا تھا یا نہیں جانتا تھا اور جب جانا تو ارادہ ان کی خلق و تکوین کا کیا یا اس وقت علم ہوا جب ان کو پیدا کیا۔ حضرت نے اپنے قلم سے یہ جواب لکھا، وہ اشیاء کے متعلق ہمیشہ سے علم رکھنے والا ہے ان کی خلقت سے پہلے بھی اس کا علم اشیاء کے متعلق ویسا ہی تھا جیسا ان کی خلقت کے بعد۔
عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَمْزَةَ قَالَ كَتَبْتُ إِلَى الرَّجُلِ علیہ السلام أَسْأَلُهُ أَنَّ مَوَالِيَكَ اخْتَلَفُوا فِي الْعِلْمِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لَمْ يَزَلِ الله عَالِماً قَبْلَ فِعْلِ الاشْيَاءِ وَقَالَ بَعْضُهُمْ لا نَقُولُ لَمْ يَزَلِ الله عَالِماً لانَّ مَعْنَى يَعْلَمُ يَفْعَلُ فَإِنْ أَثْبَتْنَا الْعِلْمَ فَقَدْ أَثْبَتْنَا فِي الازَلِ مَعَهُ شَيْئاً فَإِنْ رَأَيْتَ جَعَلَنِيَ الله فِدَاكَ أَنْ تُعَلِّمَنِي مِنْ ذَلِكَ مَا أَقِفُ عَلَيْهِ وَلا أَجُوزُهُ فَكَتَبَ علیہ السلام بِخَطِّهِ لَمْ يَزَلِ الله عَالِماً تَبَارَكَ وَتَعَالَى ذِكْرُهُ. (قال العلامة المجلسي: فأجاب عليهالسلام بأنه لم يزل عالما ولم يلتفت إلى بيان فساد متمسك نافيه ، لأنه أظهر من أن يحتاج إلى البيان)۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے امام علی نقی علیہ السلام کو لکھا کہ آپ کے دوستوں نے اختلاف کیا ہے علم باری تعالٰی کے متعلق۔ بعض کہتے ہیں وہ ہمیشہ سے عالم قبل فعل اشیاء، بعض کہتے ہیں کہ یہ نہ کہو کہ خدا ہمیشہ سے عالم ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کے معنی ہیں وہ کرتا ہے۔ پس اگر ہم علم کا ازلی ہونا بھی ثابت کر دیں گے تو اس کے ساتھ کوئی چیز ثابت کرنا ہو گی جس کا اسے علم ہو۔ میں آپ پر فدا ہوں اس کے بارے میں مجھے بتائیے تاکہ میں اس پر قائم رہوں اور تجاوز نہ کروں۔ حضرت نے اپنے قلم سے تحریر فرمایا کہ خدائے تبارک و تعالیٰ ہمیشہ سے عالم ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ سُكَّرَةَ قَالَ قُلْتُ لابي جعفر علیہ السلام جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنْ رَأَيْتَ أَنْ تُعَلِّمَنِي هَلْ كَانَ الله جَلَّ وَجْهُهُ يَعْلَمُ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ الْخَلْقَ أَنَّهُ وَحْدَهُ فَقَدِ اخْتَلَفَ مَوَالِيكَ فَقَالَ بَعْضُهُمْ قَدْ كَانَ يَعْلَمُ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ شَيْئاً مِنْ خَلْقِهِ وَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّمَا مَعْنَى يَعْلَمُ يَفْعَلُ فَهُوَ الْيَوْمَ يَعْلَمُ أَنَّهُ لا غَيْرُهُ قَبْلَ فِعْلِ الاشْيَاءِ فَقَالُوا إِنْ أَثْبَتْنَا أَنَّهُ لَمْ يَزَلْ عَالِماً بِأَنَّهُ لا غَيْرُهُ فَقَدْ أَثْبَتْنَا مَعَهُ غَيْرَهُ فِي أَزَلِيَّتِهِ فَإِنْ رَأَيْتَ يَا سَيِّدِي أَنْ تُعَلِّمَنِي مَا لا أَعْدُوهُ إِلَى غَيْرِهِ فَكَتَبَ علیہ السلام مَا زَالَ الله عَالِماً تَبَارَكَ وَتَعَالَى ذِكْرُهُ۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے کہا آپ مجھے یہ بتائیں کہ آیا خدا مخلوق کو پیدا کرنےپہلے اس کا علم رکھتا تھا۔ آپ کے شیعہ اس امر میں مختلف عقیدے رکھتے ہیں کہ وہ مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے اس کا علم رکھتا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ یعلم (جانتا ہے ) کے معنی یفعل (کرتا ہے) ہیں پس وہ آج (بوقتِ خلقت جانتا ہے) کہ قبل خلق اشیاء اس کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ پس وہ یہ دلیل لائے ہیں کہ اگر ہم یہ ثابت کریں کہ وہ ہمیشہ سے عالم تھا اس بات کا کہ اس کا غیر نہیں تو پھر ہم نے یہ ثابت کیا کہ اس کا غیر ہمیشہ سے اس کے ساتھ ہے۔ پس اے میرے سردار مجھے تعلیم دیں تاکہ میں اس کے سوا دوسرا عقیدہ نہ رکھوں۔ حضرت نے جواب میں لکھا کہ خداوند عالم ہمیشہ سے عالم ہے۔