مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

(1-17)

نوادر

حدیث نمبر 1

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ حَفْصِ بْنِ الْبَخْتَرِيِّ رَفَعَهُ قَالَ كَانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام يَقُولُ رَوِّحُوا أَنْفُسَكُمْ بِبَدِيعِ الْحِكْمَةِ فَإِنَّهَا تَكِلُّ كَمَا تَكِلُّ الابْدَانُ۔

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ اپنے نفوس کو حکمت و دانائی کی باتوں سے سکون پہنچاؤ کیونکہ نفوس کو (جہالت و نادانی) سے اس طرح ہلکا کر دیتی ہیں جس طرح اجسام (بوجھ سے ) ہلکے ہو جاتے ہیں۔

حدیث نمبر 2

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ نُوحِ بْنِ شُعَيْبٍ النَّيْسَابُورِيِّ عَنْ عُبَيْدِ الله بْنِ عَبْدِ الله الدِّهْقَانِ عَنْ دُرُسْتَ بْنِ أَبِي مَنْصُورٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ أَخِي شُعَيْبٍ الْعَقَرْقُوفِيِّ عَنْ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله يَقُولُ كَانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام يَقُولُ يَا طَالِبَ الْعِلْمِ إِنَّ الْعِلْمَ ذُو فَضَائِلَ كَثِيرَةٍ فَرَأْسُهُ التَّوَاضُعُ وَعَيْنُهُ الْبَرَاءَةُ مِنَ الْحَسَدِ وَأُذُنُهُ الْفَهْمُ وَلِسَانُهُ الصِّدْقُ وَحِفْظُهُ الْفَحْصُ وَقَلْبُهُ حُسْنُ النِّيَّةِ وَعَقْلُهُ مَعْرِفَةُ الاشْيَاءِ وَالامُورِ وَيَدُهُ الرَّحْمَةُ وَرِجْلُهُ زِيَارَةُ الْعُلَمَاءِ وَهِمَّتُهُ السَّلامَةُ وَحِكْمَتُهُ الْوَرَعُ وَمُسْتَقَرُّهُ النَّجَاةُ وَقَائِدُهُ الْعَافِيَةُ وَمَرْكَبُهُ الْوَفَاءُ وَسِلاحُهُ لِينُ الْكَلِمَةِ وَسَيْفُهُ الرِّضَا وَقَوْسُهُ الْمُدَارَاةُ وَجَيْشُهُ مُحَاوَرَةُ الْعُلَمَاءِ وَمَالُهُ الادَبُ وَذَخِيرَتُهُ اجْتِنَابُ الذُّنُوبِ وَزَادُهُ الْمَعْرُوفُ وَمَاؤُهُ الْمُوَادَعَةُ وَدَلِيلُهُ الْهُدَى وَرَفِيقُهُ مَحَبَّةُ الاخْيَارِ۔

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ طالب علم کے لیے کثیر فضیلتیں ہیں، اس کا سر تواضع ہے آنکھ حسد سے دور رہنا ہے اس کا کان مسائل دین کو سمجھنا ہے اس کی زبان سچ ہے، حفاظتِ علم تلاشِ حق ہے اس کا دل اچھی نیت ہے اس کی عقل اشیاء و امور کی معرفت ہے اس کا ہاتھ رحم ہے اس کا پاؤں زیارت علماء اس کی ہمت سلامتیِ نفس ہے اس کی حکمت پرہیزگاری ہے اس کی جائے قرار نجات ہے اس کا رہنما عافیت ہے اس کی سواری وفا ہے اس کا ہتھیار نرم گفتگو ہے اس کی تلوار رضائے خدا ہے اس کی کمان ہمدردی ہے اس کی مجلس صحبتِ علماء ہے اس کا مال ادب ہے اس کا ذخیرہ گناہوں سے اجتناب ہے اس کا زادِ راہ نیکی ہے اور اس کی آبرو جھگڑے کا ترک کرنا ہے اس کی راہبر ہدایت ہے اس کا رفیق نیکیوں کی طرف رغبت ہے۔

حدیث نمبر 3

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ قَالَ رَسُولُ الله ﷺ نِعْمَ وَزِيرُ الايمَانِ الْعِلْمُ وَنِعْمَ وَزِيرُ الْعِلْمِ الْحِلْمُ وَنِعْمَ وَزِيرُ الْحِلْمِ الرِّفْقُ وَنِعْمَ وَزِيرُ الرِّفْقِ الصَّبْرُ۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایمان کا اچھا وزیر علم ہے اور علم کا اچھا وزیر حلم ہے اور حلم کا اچھا وزیر لوگوں سے اچھا برتاؤ ہے اور رفق کا وزیر عبرت حاصل کرنا ہے۔

حدیث نمبر 4

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الاشْعَرِيِّ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ مَيْمُونٍ الْقَدَّاحِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام عَنْ آبَائِهِ (عَلَيْهم السَّلام) قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ الله ﷺ فَقَالَ يَا رَسُولَ الله مَا الْعِلْمُ قَالَ الانْصَاتُ قَالَ ثُمَّ مَهْ قَالَ الاسْتِمَاعُ قَالَ ثُمَّ مَهْ قَالَ الْحِفْظُ قَالَ ثُمَّ مَهْ قَالَ الْعَمَلُ بِهِ قَالَ ثُمَّ مَهْ يَا رَسُولَ الله قَالَ نَشْرُهُ۔

ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا علم کیا ہے فرمایا خاموش رہنا، پوچھا پھر کیا ہے فرمایا کان لگا کر احادیث و آیات کا سننا، پوچھا پھر کیا ہے فرمایا ان کو یاد کرنا اور ان پر عمل کرنا، پوچھا پھر کیا ہے فرمایا ان کا نشر کرنا ۔

حدیث نمبر 5

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ رَفَعَهُ إِلَى أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ طَلَبَةُ الْعِلْمِ ثَلاثَةٌ فَاعْرِفْهُمْ بِأَعْيَانِهِمْ وَصِفَاتِهِمْ صِنْفٌ يَطْلُبُهُ لِلْجَهْلِ وَالْمِرَاءِ وَصِنْفٌ يَطْلُبُهُ لِلاسْتِطَالَةِ وَالْخَتْلِ وَصِنْفٌ يَطْلُبُهُ لِلْفِقْهِ وَالْعَقْلِ فَصَاحِبُ الْجَهْلِ وَالْمِرَاءِ مُوذٍ مُمَارٍ مُتَعَرِّضٌ لِلْمَقَالِ فِي أَنْدِيَةِ الرِّجَالِ بِتَذَاكُرِ الْعِلْمِ وَصِفَةِ الْحِلْمِ قَدْ تَسَرْبَلَ بِالْخُشُوعِ وَتَخَلَّى مِنَ الْوَرَعِ فَدَقَّ الله مِنْ هَذَا خَيْشُومَهُ وَقَطَعَ مِنْهُ حَيْزُومَهُ وَصَاحِبُ الاسْتِطَالَةِ وَالْخَتْلِ ذُو خِبٍّ وَمَلَقٍ يَسْتَطِيلُ عَلَى مِثْلِهِ مِنْ أَشْبَاهِهِ وَيَتَوَاضَعُ لِلاغْنِيَاءِ مِنْ دُونِهِ فَهُوَ لِحَلْوَائِهِمْ هَاضِمٌ وَلِدِينِهِ حَاطِمٌ فَأَعْمَى الله عَلَى هَذَا خُبْرَهُ وَقَطَعَ مِنْ آثَارِ الْعُلَمَاءِ أَثَرَهُ وَصَاحِبُ الْفِقْهِ وَالْعَقْلِ ذُو كَآبَةٍ وَحَزَنٍ وَسَهَرٍ قَدْ تَحَنَّكَ فِي بُرْنُسِهِ وَقَامَ اللَّيْلَ فِي حِنْدِسِهِ يَعْمَلُ وَيَخْشَى وَجِلاً دَاعِياً مُشْفِقاً مُقْبِلاً عَلَى شَأْنِهِ عَارِفاً بِأَهْلِ زَمَانِهِ مُسْتَوْحِشاً مِنْ أَوْثَقِ إِخْوَانِهِ فَشَدَّ الله مِنْ هَذَا أَرْكَانَهُ وَأَعْطَاهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَمَانَهُ. وَحَدَّثَنِي بِهِ مُحَمَّدُ بْنُ مَحْمُودٍ أَبُو عَبْدِ الله الْقَزْوِينِيُّ عَنْ عِدَّةٍ مِنْ أَصْحَابِنَا مِنْهُمْ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّيْقَلِ بِقَزْوِينَ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عِيسَى الْعَلَوِيِّ عَنْ عَبَّادِ بْنِ صُهَيْبٍ الْبَصْرِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام۔

علی بن ابراہیم نے روایت کی ہے کہ فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ طالبانِ حق تین قسم کے ہیں میں ان کے ایمان و صفات کو جانتا ہوں، ایک گروہ وہ ہے جو علم کو طلب کرتا ہے لوگوں سے جاہلانہ بحث کے لیے، دوسرا گروہ علم حاصل کرتا ہے تکبر و فریب کے لیے اور تیسرا گروہ اس کو حاصل کرتا ہے فقہ اور عقل کے لیے۔ پس جاہل اور جھگڑالو لوگوں کو ستانے والا اور ان سے لڑنے والا ہوتا ہے لوگوں کے جلسوں میں صاحبانِ علم وحلم کا وصف اس لیے بیان کرتا ہے کہ وہ اسکی لچر باٹوں پر اعتراض نہ کریں، وہ خشوع و خضوع کے لباس میں نطر آتا ہے درآنحالیکہ پرہیزگاری سے خالی ہوتا ہے۔ خدا اس کو ذلیل کرتا ہے اور زبان قطع کرتا ہے۔ صاحبانِ تکبر و فریب کی دو حالتیں ہیں یا وہ صاحبانِ علم کے سامنے ہرزہ سرائیاں کرتے ہیں اور پر شور و شر شیخیاں مارتے ہیں یا امراء کی چاپلوسی کر کے ان کے حلوے پراٹھے پر ہاتھ مارتے ہیں اور اپنے دین کو برباد کرتے ہیں۔ پس خدا نے ان کی باتوں پر پردہ ڈال دیا ہے اور اہل علم کے نزدیک ان کی باتوں کو بے اثر بنا دیا۔ جو صاحبانِ علمِ دین و عقل ہیں وہ بظاہر رنج و اندوہ میں ہیں، راتوں کو بیدار رہنے والے ہیں خوشنودیِ خدا کے لیے ٹاٹ کا لباس پہنتے ہیں اور تاریکیِ شب میں عبادت کرتے ہیں اور اس خیال سے کہ عبادت قبول نہ ہو خائف و ترساں رہتے ہیں اور ڈرتے ہوئے دعا کرتے ہیں کہ مبادا ان کی دعا قبول نہ ہو اور اپنے زمانہ کے اہل باطل کو پہچان کر ان سے الگ رہتے ہیں اور اپنے بھائیوں تک پر اعتماد نہیں کرتے ان کی بے وفائی دیکھ کر۔ پس خدا نے ان کی پرہیزگاری دیکھ کر ان کے اصولِ دین کو مستحکم بنا دیا اور روزِ قیامت ان کو امان دی۔

حدیث نمبر 6

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى عَنْ طَلْحَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام يَقُولُ إِنَّ رُوَاةَ الْكِتَابِ كَثِيرٌ وَإِنَّ رُعَاتَهُ قَلِيلٌ وَكَمْ مِنْ مُسْتَنْصِحٍ لِلْحَدِيثِ مُسْتَغِشٍّ لِلْكِتَابِ فَالْعُلَمَاءُ يَحْزُنُهُمْ تَرْكُ الرِّعَايَةِ وَالْجُهَّالُ يَحْزُنُهُمْ حِفْظُ الرِّوَايَةِ فَرَاعٍ يَرْعَى حَيَاتَهُ وَرَاعٍ يَرْعَى هَلَكَتَهُ فَعِنْدَ ذَلِكَ اخْتَلَفَ الرَّاعِيَانِ وَتَغَايَرَ الْفَرِيقَانِ۔

حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا کہ کتابِ خدا کے راوی تو بہت ہیں اور قرآن پر عمل کرنے والے کم ہیں۔ بہت سے خالص سمجھتے ہیں حدیث کو اور غیر خالص جانتے ہیں قرآن کو جب اس کو مخالف حدیث پاتے ہیں، پس علماء فکر کرتے ہیں رعایت قرآن میں اور مذمت کرتے ہیں اس کے مخالفوں کی اور جہاں فکر کرتے ہیں روایت کے متعلق پس تابعین دو قسم کے ہیں ایک جاودانی زندگی کا چاہنے والے اور دوسرے ہلاکت ابدی کے خواستگار اس لیے یہ دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے (ایک وہ جو قرآن پر عامل ہیں اور جو حدیث موافق قرآن نہ ہو اس کو ترک کر دیتے ہیں ، دوسرا گروہ حدیث کو مقدم جانتے ہیں چاہے مخالف قرآن ہو)۔

حدیث نمبر 7

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الاشْعَرِيُّ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُمْهُورٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي نَجْرَانَ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ مَنْ حَفِظَ مِنْ أَحَادِيثِنَا أَرْبَعِينَ حَدِيثاً بَعَثَهُ الله يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَالِماً فَقِيهاً۔

ابو عبداللہ علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا جس نے ہماری چالیس حدیثیں حفظ کر لیں تو اللہ اس کو روزِ قیامت عالم اور فقیہہ اٹھائے گا۔

حدیث نمبر 8

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِيهِ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ زَيْدٍ الشَّحَّامِ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ فَلْيَنْظُرِ الانْسانُ إِلىطَعامِهِ قَالَ قُلْتُ مَا طَعَامُهُ قَالَ عِلْمُهُ الَّذِي يَأْخُذُهُ عَمَّنْ يَأْخُذُهُ۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے آیت "انسان کو اپنے طعام کی طرف نظر کرنی چاہیے"کے متعلق فرمایا جب راوی نے پوچھا طعام سے کیا مراد ہے، فرمایا اس کا علم جس سے بھی حاصل کرے۔

حدیث نمبر 9

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ النُّعْمَانِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ مُسْكَانَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ فَرْقَدٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الزُّهْرِيِّ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ الْوُقُوفُ عِنْدَ الشُّبْهَةِ خَيْرٌ مِنَ الاقْتِحَامِ فِي الْهَلَكَةِ وَتَرْكُكَ حَدِيثاً لَمْ تُرْوَهُ خَيْرٌ مِنْ رِوَايَتِكَ حَدِيثاً لَمْ تُحْصِهِ۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ شبہ کے موقع پر کردار و گفتار سے باز رہنا اس سے بہتر ہے کہ اپنے آپ کو خطرہ میں ڈالا جائے اور نقل نہ کرنا ایسی حدیث کا تیرے لیے بہتر ہے اس صورت میں روایت کرنے سے کہ اس کے تمام اجزاء تیرے دماغ میں محفوظ نہ ہوں۔

حدیث نمبر 10

مُحَمَّدٌ عَنْ أَحْمَدَ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنِ ابْنِ بُكَيْرٍ عَنْ حَمْزَةَ بْنِ الطَّيَّارِ أَنَّهُ عَرَضَ عَلَى أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام بَعْضَ خُطَبِ أَبِيهِ حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَوْضِعاً مِنْهَا قَالَ لَهُ كُفَّ وَاسْكُتْ ثُمَّ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله لا يَسَعُكُمْ فِيمَا يَنْزِلُ بِكُمْ مِمَّا لا تَعْلَمُونَ إِلا الْكَفُّ عَنْهُ وَالتَّثَبُّتُ وَالرَّدُّ إِلَى أَئِمَّةِ الْهُدَى حَتَّى يَحْمِلُوكُمْ فِيهِ عَلَى الْقَصْدِ وَيَجْلُوا عَنْكُمْ فِيهِ الْعَمَى وَيُعَرِّفُوكُمْ فِيهِ الْحَقَّ قَالَ الله تَعَالَى فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ۔

فرمایا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ تمہارے لیے سزاوار نہیں کچھ کہنا یا کرنا اس امر کے متعلق جس کا تم کو علم نہیں، بہتر ہے کہ اس سے رک جاؤ اور رجوع کرو اس امر کے بارے میں آئمہ ہدیٰ کی طرف کہ وہ تم کو اس میں صحیح راستہ بتائیں گے اور نادانی کو تم پر واضح کر دیں گے اور امرِ حق کی معرفت کرائیں گے، خدا فرماتا ہے کہ اگر تم نہیں جانتے تو اہلِ ذکر سے پوچھو۔

حدیث نمبر 11

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْمِنْقَرِيِّ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام يَقُولُ وَجَدْتُ عِلْمَ النَّاسِ كُلَّهُ فِي أَرْبَعٍ أَوَّلُهَا أَنْ تَعْرِفَ رَبَّكَ وَالثَّانِي أَنْ تَعْرِفَ مَا صَنَعَ بِكَ وَالثَّالِثُ أَنْ تَعْرِفَ مَا أَرَادَ مِنْكَ وَالرَّابِعُ أَنْ تَعْرِفَ مَا يُخْرِجُكَ مِنْ دِينِكَ۔

میں نے حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام کو فرماتے سنا کہ میں نے تمام آدمیوں کے علم کو چار صورتوں میں پایا، اول یہ کہ تو اپنے رب کی معرفت حاصل کرے دوسرے یہ کہ پہچانے کہ خدا نے تیرے اوپر کیا احسان کیے ہیں تیسرے یہ جانے کہ خدا تجھ سے کیا چاہتا ہے چوتھے یہ جانے کہ کیا باتیں تجھے دین سے خارج کر دیں گی۔

حدیث نمبر 12

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ قَالَ قُلْتُ لابِي عَبْدِ الله علیہ السلام مَا حَقُّ الله عَلَى خَلْقِهِ فَقَالَ أَنْ يَقُولُوا مَا يَعْلَمُونَ وَيَكُفُّوا عَمَّا لا يَعْلَمُونَ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ فَقَدْ أَدَّوْا إِلَى الله حَقَّهُ۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے ابو عبداللہ علیہ السلام سے پوچھا اللہ کا کیا حق ہے اپنی مخلوق پر، فرمایا وہ کہیں جو جانتے ہیں اور باز رہیں اس سے جو نہیں جانتے، ایسی صورت میں وہ اللہ کا حق ادا کریں گے۔

حدیث نمبر 13

مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنِ ابْنِ سِنَانٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَرْوَانَ الْعِجْلِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حَنْظَلَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله علیہ السلام يَقُولُ اعْرِفُوا مَنَازِلَ النَّاسِ عَلَى قَدْرِ رِوَايَتِهِمْ عَنَّا۔

فرمایا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اللہ کے نزدیک لوگوں کے مراتب کا حال معلوم کرنے لیے یہ دیکھو کہ وہ ہم سب میں روایت کرنے میں کیسے ہیں (اپنی طرف سے اس کے معنی تو بیان نہیں کرتے)۔

حدیث نمبر 14

الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَكَرِيَّا الْغَلابِيِّ عَنِ ابْنِ عَائِشَةَ الْبَصْرِيِّ رَفَعَهُ أَنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام قَالَ فِي بَعْضِ خُطَبِهِ أَيُّهَا النَّاسُ اعْلَمُوا أَنَّهُ لَيْسَ بِعَاقِلٍ مَنِ انْزَعَجَ مِنْ قَوْلِ الزُّورِ فِيهِ وَلا بِحَكِيمٍ مَنْ رَضِيَ بِثَنَاءِ الْجَاهِلِ عَلَيْهِ النَّاسُ أَبْنَاءُ مَا يُحْسِنُونَ وَقَدْرُ كُلِّ امْرِئٍ مَا يُحْسِنُ فَتَكَلَّمُوا فِي الْعِلْمِ تَبَيَّنْ أَقْدَارُكُمْ۔

امیر المومنین علیہ السلام نےایک خطبہ میں فرمایا کہ لوگو جان لو کہ وہ شخص عقلمند نہیں جو اپنے متعلق کسی جھوٹی بات کہنے پر خوشی سے اچھل پڑا اور کہنے والے کو سرزنش نہ کرے، اور عقلمند و حکیم نہیں وہ شخص جو جاہل کی تعریف پر راضی ہو۔

حدیث نمبر 15

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْوَشَّاءِ عَنْ أَبَانِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ سُلَيْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ علیہ السلام يَقُولُ وَعِنْدَهُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ يُقَالُ لَهُ عُثْمَانُ الاعْمَى وَهُوَ يَقُولُ إِنَّ الْحَسَنَ الْبَصْرِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ الْعِلْمَ يُؤْذِي رِيحُ بُطُونِهِمْ أَهْلَ النَّارِ فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ علیہ السلام فَهَلَكَ إِذَنْ مُؤْمِنُ آلِ فِرْعَوْنَ مَا زَالَ الْعِلْمُ مَكْتُوماً مُنْذُ بَعَثَ الله نُوحاً علیہ السلام فَلْيَذْهَبِ الْحَسَنُ يَمِيناً وَشِمَالاً فَوَ الله مَا يُوجَدُ الْعِلْمُ إِلا هَاهُنَا۔

حضرت امام باقر علیہ السلام نے فرمایا جب آپ کے پاس بصرہ کا ایک شخص عثمان نابینا بیٹھا ہوا تھا اور اس نے کہا کہ حسن بصری کا گمان یہ ہے کہ جو لوگ علم کو چھپاتے ہیں ان کے بدن کی بدبو دوزخیوں کو تکلیف پہنچائے گی، حضرت نے فرمایا تو اس صورت میں مومنِ آلِ فرعون جہنمی قرار پایا کیونکہ وہ علم و ایمان کو چھپاتا تھا۔ جب خدا نے نوح علیہ السلام کو مبعوث کیا تو علم (ان کے اوصیاء میں) چھپا ہی رہا۔ حسن بصری کے دائیں بائیں جا کر یہ سنا دو کہ یہاں کے سوا (یعنی آئمہ معصومین کے سوا) علم اور کہیں پایا ہی نہیں جاتا۔