مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى وَعَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ جَمِيعاً عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ عُمَرَ بْنِ أُذَيْنَةَ عَنْ أَبَانِ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ عَنْ سُلَيْمِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ سَمِعْتُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام يَقُولُ قَالَ رَسُولُ الله ﷺ مَنْهُومَانِ لا يَشْبَعَانِ طَالِبُ دُنْيَا وَطَالِبُ عِلْمٍ فَمَنِ اقْتَصَرَ مِنَ الدُّنْيَا عَلَى مَا أَحَلَّ الله لَهُ سَلِمَ وَمَنْ تَنَاوَلَهَا مِنْ غَيْرِ حِلِّهَا هَلَكَ إِلا أَنْ يَتُوبَ أَوْ يُرَاجِعَ وَمَنْ أَخَذَ الْعِلْمَ مِنْ أَهْلِهِ وَعَمِلَ بِعِلْمِهِ نَجَا وَمَنْ أَرَادَ بِهِ الدُّنْيَا فَهِيَ حَظُّهُ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو حریص سیر نہیں ہوتے، طالبِ دنیا اور طالبِ علم۔ جس نے مالِ دنیا سے حلال روزی پر قناعت کی اس نے نجات پائی اور جس نے مالِ حرام کھایا وہ ہلاک ہوا، لیکن ایسی صورت میں کہ توبہ کرے یا جن کا مال لیا ہے انھیں لوٹا دے امید نجات ہو سکتی ہے، جس نے علم کو اس کے اہل سے لیا اور عمل بھی کیا اس نے نجات پائی اور جس نے دنیا پانے کا ارادہ کیا اسے وہی ملی۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْوَشَّاءِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عَائِذٍ عَنْ أَبِي خَدِيجَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ مَنْ أَرَادَ الْحَدِيثَ لِمَنْفَعَةِ الدُّنْيَا لَمْ يَكُنْ لَهُ فِي الاخِرَةِ نَصِيبٌ وَمَنْ أَرَادَ بِهِ خَيْرَ الاخِرَةِ أَعْطَاهُ الله خَيْرَ الدُّنْيَا وَالاخِرَةِ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا جس نے علم حدیث حاصل کر کے نفعِ دنیا کا ارادہ کیا آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں اور جس نے آخرت کی بہتری چاہی خدا نے اس کو دنیا اور آخرت میں بہتری عطا کی۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ الاصْبَهَانِيِّ عَنِ الْمِنْقَرِيِّ عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ مَنْ أَرَادَ الْحَدِيثَ لِمَنْفَعَةِ الدُّنْيَا لَمْ يَكُنْ لَهُ فِي الاخِرَةِ نَصِيبٌ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا جس نے علمِ حدیث حاصل کر کے نفع چاہا تو آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الْقَاسِمِ عَنِ الْمِنْقَرِيِّ عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ إِذَا رَأَيْتُمُ الْعَالِمَ مُحِبّاً لِدُنْيَاهُ فَاتَّهِمُوهُ عَلَى دِينِكُمْ فَإِنَّ كُلَّ مُحِبٍّ لِشَيْءٍ يَحُوطُ مَا أَحَبَّ وَقَالَ ﷺ أَوْحَى الله إِلَى دَاوُدَ لا تَجْعَلْ بَيْنِي وَبَيْنَكَ عَالِماً مَفْتُوناً بِالدُّنْيَا فَيَصُدَّكَ عَنْ طَرِيقِ مَحَبَّتِي فَإِنَّ أُولَئِكَ قُطَّاعُ طَرِيقِ عِبَادِيَ الْمُرِيدِينَ إِنَّ أَدْنَى مَا أَنَا صَانِعٌ بِهِمْ أَنْ أَنْزِعَ حَلاوَةَ مُنَاجَاتِي عَنْ قُلُوبِهِمْ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ جب تم کسی عالم کو امورِ دنیا میں منہمک پاؤ تو امورِ دین میں اس پر اعتماد نہ کرو۔ ہر محب کو وہی ملتا ہے جسے وہ دوست رکھتا ہے۔ حضرت امام علیہ السلام نے فرمایا خدا نے وحی کی داؤد علیہ السلام کی طرف کہ میرے اور اپنے درمیان ایسے عالم کو قرار نہ دو جو دنیا کا عاشق ہو کیونکہ وہ تمہیں میری محبت کے راستہ سے روک دے گا۔ یہ لوگ میرے خاص بندوں کے لیے رہزن ہیں۔ کم سے کم جو میں ان کے ساتھ کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں اپنی مناجات کی حلاوت کو ان کے دل سے نکال لیتا ہوں۔
عَلِيٌّ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّوْفَلِيِّ عَنِ السَّكُونِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله علیہ السلام قَالَ قَالَ رَسُولُ الله ﷺ الْفُقَهَاءُ أُمَنَاءُ الرُّسُلِ مَا لَمْ يَدْخُلُوا فِي الدُّنْيَا قِيلَ يَا رَسُولَ الله وَمَا دُخُولُهُمْ فِي الدُّنْيَا قَالَ اتِّبَاعُ السُّلْطَانِ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ فَاحْذَرُوهُمْ عَلَى دِينِكُمْ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا فقہاء رسولوں کے امین ہیں جب تک کہ وہ دنیا میں داخل نہ ہوں۔ پوچھا دنیا میں ان کے داخلے کی صورت کیا ہے، فرمایا سلطانِ جابر کی پیروی، جب وہ ایسا کریں تو تم اپنے دین کو ان سے بچاؤ۔
مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ عَبْدِ الله عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنْ ابي جعفر علیہ السلام قَالَ مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِيُبَاهِيَ بِهِ الْعُلَمَاءَ أَوْ يُمَارِيَ بِهِ السُّفَهَاءَ أَوْ يَصْرِفَ بِهِ وُجُوهَ النَّاسِ إِلَيْهِ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ إِنَّ الرِّئَاسَةَ لا تَصْلُحُ إِلا لاهْلِهَا۔
حضرت امام باقر علیہ السلام نے فرمایا جس نے علم کو اس لیے حاصل کیا کہ وہ علماء کی مجلس میں فخر کرے یا جاہلوں کی مجلس میں بحث کرے یا اس غرض سے کہ لوگ اس کی طرف توجہ کریں تو ایسے شخص کا ٹھکانہ جہنم میں ہے۔ ریاست کا سزاوار نہیں مگر علم والا۔